پشتو اشعار مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
«خوشحال خان خټک» کی ایک حمدیہ غزل سے ایک بَیت:

هر وېښته چه په صورت باندې لیده شي
که پرې ځیر شې د شناخت ور به درته واز کا
(خوشحال خان خټک)


تن پر جو بھی بال دِکھائی دیتا ہے، اگر تم اُس پر تعَمُّق و توَجُّہ کے ساتھ نِگاہ کرو اور اُس کے بارے میں تدَبُّر کرو تو وہ [ایک بال بھی] تمہاری جانِب معرِفت کا در کھولے گا۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«خوشحال خان خټک» کے پِسَر «عبدالقادر خان خټک» نے فارسی ادبیات کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب «گُلستانِ سعدی» کا «گُلدسته» کے نام سے فارسی سے پشتو میں ترجمہ کیا تھا۔ «سعدی شیرازی» کے لیے «عبدالقادر خان خټک» کے دل میں جو اِحتِرام تھا وہ اِس چیز سے دیکھا سکتا ہے کہ اُنہوں نے کئی حِکایات کے ترجمے کا آغاز "شیخ وایي قَدَّسَ اللهُ سِرَّهُ" (شَیخ قَدَّسَ اللهُ سِرَّهُ کہتے ہیں) سے کِیا ہے۔ آئیے دیکھیے کہ اُنہوں نے اُس کِتاب میں «سعدی شیرازی» کے ایک مشہورترین قِطعۂ شعری کا منظوم پشتو ترجمہ کِس طرح کِیا ہے:

په معنیٰ کې آدم زاد واحد صورت دی
پلار یې یو اصل یې یو یو یې فطرت دی
چې په درد شي یو اندام د آدم زاد
بل اندام کله له غمه وي آزاد
که پیدا د پښې په نوک باندې الم شي
هم له سترګو نه خوب لاړ په هغه دم شي
ته له غمه چې د بل آدم بېغم یې
نه پوهېږم چې حیوان یې که آدم یې
(عبدالقادر خان خټک)


بنی آدم معنائاً ایک ہی صورت و پَیکر ہیں۔۔۔ اُن کا پدر ایک، اُن کی اصل ایک، اور اُن کی فِطرت ایک ہی ہے۔۔۔ جب بنی آدم کا کوئی ایک عُضو درد میں مُبتَلا ہوتا ہے تو دیگر اعضاء کب غم سے آزاد رہتے ہیں؟۔۔۔ اگر پاؤں کے ناخُن پر درد پَیدا ہو تو اُسی لمحہ اِنسان کی چشموں سے بھی نیند چلی جاتی ہے۔۔۔ اگر تم دیگر اِنسانوں کے غم سے بےغم ہو، تو مَیں نہیں جانتا کہ تم حَیوان ہو یا اِنسان ہو!۔۔۔

================

«شَیخ سعدی شیرازی» اور «عبدالقادر خان خټک» پر سلام ہو!۔۔۔ اور ہر اُس شخص پر لعنت ہو جو ہم سے ہمارے «شَیخِ اجَلّ» کو چِھیننے اور دُور کرنے کی کوشش کرے! (اجَلّ = جلیل‌تر، بُزُرگوارتر)
 

حسان خان

لائبریرین
«پشتونِستان» کے ایک کلاسیکی پشتو شاعر، اور «خوشحال خان خټک» کے پِسَر «عبدالقادِر خان خټک» کی ایک نصیحت‌آمیز بَیت میں «شاه‌نامهٔ فِردوسی» کے تین پادشاہان «پرویز»، «دارا» وَ «منوچِهر» کا ذکر آیا ہے، جو میری نظر میں اِس چیز کی ایک دلیل ہے کہ ہمارے دیگر جُملہ اسلاف و اکابرینِ شعر و ادبیات کی مانند وہ بھی «شاه‌نامهٔ فِردوسی» کی اساطیری داستانوں سے آگاہی رکھتے تھے، اور اُن سے اپنی شاعری کے لیے اِلہام لیتے تھے:

په ارمان په حسرت لاړل له جهانه
که پرویز وو که دارا که منوچهر
(عبدالقادِر خان خټک)


[ذرا نِگاہِ عِبرت ڈالو کہ] خواہ «پرویز» تھا، خواہ «دارا» یا خواہ «منوچِہر»... وہ سب جہان سے [جاتے وقت] حسرت و ارمان [و حِرمان] کے ساتھ گئے ہیں...
 

حسان خان

لائبریرین
چې په ما باندې تېرېږي ستا په عشق کښې
خدای دې هسې حال پېښ نه کا مسلمان ته
(خوشحال خان خټک)


[اے یار!] جو کچھ تمہارے عِشق میں مجھ پر گُذرتا ہے، خُدا [کِسی بھی] مُسَلمان پر ویسا حال واقِع مت کرے!۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
ستا په زلفو کښې مې زړه هر ګور پريشان شو
مسلمان دې نه کا خدای په هندوبار ګډ
(عبدالقادر خان خټک)


اے معشوق! تمہاری زُلفوں میں میرا دِل نِہایت پریشان ہو گیا۔۔۔ خُدا کِسی مُسَلمان کو ہِندوستان اور ہِندوؤں کے ساتھ مُختَلِط مت کرے!۔۔۔ (کلاسیکی فارسی شعری روایت میں ہِندوؤں اور اُن کے وطن «ہِندوستان» کو سِیاہ رنگ کے ساتھ نِسبت دی جاتی رہی ہے، اِسی لیے دِیارِ «پختونخوا» کے شاعر نے اپنے معشوق کی سِیاہ زُلفوں کو «هِندوبار» کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو پشتونوں کی زبان پشتو میں 'ہِندوؤں کے بود و باش و سُکونت کی جگہ' یا 'ہِندوستان' کو کہتے تھے، اور شاید ہنوز کہتے ہوں۔)

«عبدالقادر خان خټک» بابائے ادبیاتِ پشتو «خوشحال خان خټک» کے پِسَر تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حیران یم نه پوهېږم چې زه څه یم څه به شم
له کومه یم راغلی بیا به کوم لوري ته ځم
(خوشحال خان خټک)


مَیں حَیران ہوں، مَیں نہیں جانتا کہ مَیں کیا ہوں، اور کیا ہو جاؤں گا۔۔۔ [اور میں نہیں جانتا کہ] مَیں کہاں سے آیا ہوں، اور دوبارہ کِس جانب کو جاؤں گا۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
زبانِ پشتو میں مَوسِمِ «بہار» کو «پسرلی» (psarláy) کہتے ہیں، اور یہ وہ مَوسِم ہے جِس سے ہِجریِ شمسی تقویم میں سالِ نَو کا آغاز ہوتا ہے، اور جس کی آمد و شُروع کی شادمانی میں ہمارے اور ہمارے اطراف کے کئی خِطّوں میں ہر سال «نَوروز» کا جشنِ بہاراں منایا جاتا ہے، اور ہماری شعری روایت میں یہ مَوسِم شادمانی و طرَب و نِشاط اور ارضی زیبائی کا زمانہ سمجھا جاتا ہے۔۔۔ «عبدالقادر خان خټک» کی ایک بَیت دیکھیے جِس میں اُنہوں نے خود کے یار کی سِتائش کرتے ہوئے اُس لفظ کو اِستِعمال کیا ہے:

ښایسته لکه گلونه د پسرلي دی
پرې همېش لکه بلبل چیغار ځما دی
(عبدالقادر خان خټک)


وہ بہار کے گُلوں کی مانند زیبا و جمیل ہے، [اور اِسی لیے] مَیں ہمیشہ اُس کے لیے بُلبُل کی مانند نالہ و بانگ کرتا رہتا ہوں۔۔۔

================

شاعرِ مذکور کی ایک دیگر بَیت دیکھیے جِس میں وہ «پختونخوا» میں واقع اپنے قصبے «سرائے اکوڑہ» کی سِتائش کر رہے ہیں اور جِس میں اُنہوں نے «کشمیریوں/کاشُروں» کے وطن «کشمیر» کا بھی نام لِیا ہے:

چې د سرای په مځکه وا د پسرلي ګل شي
شرمنده کا د کشمیر د بل دیار ګل
(عبدالقادر خان خټک)


جب «سرائے» کی زمین پر بہار کے گُل کِھل جاتے ہیں تو وہ «کشمیر» کے اور دیگر دِیاروں کے گُلوں کو شرمندہ کر دیتے ہیں۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
مست د دنیا کله بې اجله هوښیارېږي
مستي د دنیا بده ده تر بنګ و تر شرابه
(عبدالقادر خان خټک)


جو شخص مستِ دُنیا ہو وہ کب مرے بغیر ہوشیار ہوتا ہے؟۔۔۔ مستیِ دُنیا بھنگ و شراب کی مستی سے بدتر ہے۔۔۔ (یعنی مستیِ دُنیا ایسی مستی ہے کہ فقط اجل و مرگ ہی آ کر اُس کو ختم کر کے شخص کو ہوشیار کرتی ہے، لہٰذا وہ مستیِ بنگ و شراب سے بدتر ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
«سعدی شیرازی» کی ایک ضربُ‌المَثَل فارسی بَیت کا منظوم پشتو ترجمہ:

عاقبت به د لېوه بچړی لېوه شي
که هر څو یې پرورش له سړي وشي
(عبدالقادر خان خټک)


گُرگ کا بچّہ بِالآخِر گُرگ ہی بنے گا۔۔۔ خواہ جِس قدر بھی اُس کی پروَرِش اِنسان کے بدست ہوتی ہو۔۔۔ (گُرگ = بھیڑیا)
(یعنی اِنسان کے بدست اور اِنسانوں کے درمیان طویل مُدّت تک پروَرِش پانے کے بعد بھی گُرگ کا بچّہ آخرِ کار گُرگ ہی بنتا ہے۔)

===========

«سعدی شیرازی» کی بَیت یہ ہے:

عاقِبت گُرگ‌زاده گُرگ شَوَد
گرچه با آدَمی بُزُرگ شَوَد
 

حسان خان

لائبریرین
[زبانِ پشتو کا لفظ «اودس»]

میں نے کئی ماہ قبل ایک مُراسلے میں بتایا تھا کہ ہماری زبانِ فارسی میں اِبتِدائی قُرون میں «وُضو» کے لیے «آب‌دست» لفظ رائج تھا، جو اُس زمانوں کی نظم و نثر میں استعمال ہوا بھی نظر آیا ہے۔ بعد میں وہ لفظ متروک ہو گیا تھا، اور اُس کے بعد سے فارسی‌گو خِطّوں و اقوام میں «وُضو» رائج ہے۔ لیکن دل‌چسپ چیز یہ ہے کہ اگرچہ یہ لفظ اصلی زبان میں تو اِصطِلاحی معنی میں متروک ہو چکا ہے، لیکن تُرکی زبان میں جا کر رائج ہونے کے بعد سے ہنوز رواج میں ہے، اور شاید گُذشتہ نو دس صدیوں سے مُستَعمَل ہے۔ علاوہ بریں، حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ پشتو میں بھی وہ فارسی‌الاصل لفظ ذرا تلفُّظی تغیُّر کے ساتھ اِسلامی دَور کی شُروع سے «آودس/اودس» (âvdás/avdás) کی شکل میں رائج ہے۔ تُرکی اور پشتو میں اِس لفظ کے وُرود و شُیوع کا بُنیادی سبب یہ ہے کہ گیارہ صدیوں قبل بہ راہِ راست خُراسانی و ماوراءالنّہری فارسی‌گویوں (اُن پر اور اُن کی باعظَمت زبانِ فارسی پر سلام ہو!) کے توسُّط ہی سے دینِ اِسلام ہم‌سایہ وسطی ایشیائی تُرکوں اور پشتونستانی پشتونوں میں پُہنچا اور پھیلا تھا، اور یہی باعث تھا کہ تُرکوی اقوام اور پشتونوں میں دینِ اِسلام کی بیش‌تر روزمرّہ اِصطِلاحیں اُس وقت کی فارسی سے مأخوذ ہوئی اور رائج ہوئی تھیں۔ حتّیٰ کہ ویسی کئی فارسی‌الاصل دینی اِصطِلاحیں جو اِس وقت خود فارسی میں بھی رائج نہیں ہیں، تُرکوی زبانوں اور پشتو میں نظر آ جاتی ہیں۔ مثلاً نمازِ پنجگانہ کے فارسی نام‌ہا، اور آب‌دست وغیرہ۔۔۔

=========

اِمروز ایک پشتو بَیت نظر آئی ہے جِس میں شاعر نے لفظِ «اودس» استعمال کیا ہے، اور یہی بَیت اِس مُراسلے کا مُحَرِّک بنی ہے:

مینه کې چې وکړي څوک اودس پخپلو اوښکو
لمونځ یې ادا کيږي په ولاړه لکه شمه
(اُستاد صدّیق پسرلی)


محبّت میں جو شخص اپنے اشکوں سے وُضو کرے، اُس کی نماز شمع کی مانند کھڑے کھڑے ادا ہوتی ہے۔۔۔ (مومِ شمع کے پِگَھل کر قطرہ قطرہ ہو کر بہنے کو شمع کا گِریہ تصوُّر کیا جاتا ہے، اور شمع بھی ہر وقت راست کھڑی رہتی اور اشک بہاتی رہتی ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے جو شخص کِسی معشوق کے عِشق میں شمع کی مانند روتے ہوئے اپنے اشکوں سے وُضو کرتا ہے، وہ شمع کی طرح مُسَلسَل حالتِ قیام ہی میں نماز کرتا ہے، اور اُس مُحِب و عاشِق کی نماز میں بھی شمع کی نماز کے بہ مِثل رُکوع و قُعود و سُجود کے مراحِل نہیں ہوتے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
چې طغیان وکړ دریاب زما د اوښو
سفینه زما د زړه شوه پکښې ډوبه
(کاظم خان شَیدا)


جب میرے اشکوں کے بحر نے طُغیانی کِی تو میرے دِل کا سفینہ اُس کے اندر غرق ہو گیا۔۔۔
 
‏هغه خاوره مې دارو ده که چا راوړه
په کوم ځای باندې چې يار اېښی قدم دي


ترجمہ : اگر کوئی میرے لئے وہ مٹی لائے! جس مٹی پر میرے یار نے قدم رکھے ہیں تو وہ مٹی میرے لئے بمثلِ دوا ہے
 

حسان خان

لائبریرین
بېلتانه یې پېښور راته تنور کړو
له خیبره تر اټکه الغیاث
(عبدالرّحمان بابا)


اُس یار کے فِراق نے «خَیبَر» سے لے کر «اٹک» تک دِیارِ «پِشاور» کو میرے لیے تندُور کر دِیا۔۔۔ فریاد!۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
د وصال شپه مې بدله په بېلتون شوه الغیاث
د قیامت خواري راپېښه په ژوندون شوه الغیاث
(عبدالرّحمان بابا)


میری شبِ وِصال فِراق میں تبدیل ہو گئی۔۔۔ فریاد!۔۔۔ روزِ قِیامت کی زبُوں‌حالی زِندگی ہی میں میرے درپیش آ گئی۔۔۔ فریاد!۔۔۔
 

Anees jan

محفلین
شیخه ته د جنتي يه زه د سل ځل دوزخی يم
جوابده ده ښکلي خدايي يم خپلي مخي ته مه پريګده
 

حسان خان

لائبریرین
اوس عطا د آدمیت راباندې وشوه
چې رحمان د هغه یار د کوڅې سپی شوم
(عبدالرّحمان بابا)


جب مَیں «رحمان» اُس معشوق کے کُوچے کا سگ بنا تو مجھ کو آدَمِیَّت و اِنسانِیَّت کا شرَف عطا ہو گیا!۔۔۔۔ (یعنی قبلاً میں اِنسانِیَّت کے شرَف سے محروم تھا اور اشرَف‌المخلوقات اِنسانوں کے زُمرے میں میرا شُمار نہ ہوتا تھا، لیکن اب مجھ کو اِنسانِیَّت کی خِلعتِ فاخِر عطا ہو گئی ہے اور اُس کا سبب یہ ہے کہ مَیں اپنے یار کے کُوچے کا ایک حقیر سگ بن گیا ہوں۔)
 

حسان خان

لائبریرین
حال ہی میں مَیں نے پشتو زبان و ادبیات سے مُتَعَلِّق دو چیزیں جانی اور سیکھی ہیں، جو میں اپنے دوستوں کے ساتھ بھی شریک کرنا چاہتا ہوں۔ ۱) «خوشحال خان خټک» رحمۃ اللہ علیہ کو پشتو ادبیات میں «خانِ عِلِّیِّین‌مکان» کے لقب کے ساتھ یاد کیا جاتا رہا ہے، اور اِس دُعا‌گُونہ فارسی لقب کا معنی یہ ہے کہ وفات کے بعد سے «خوشحال خان» کا مَسکَن بِہِشتِ برین ہے۔ ۲) زبانِ پشتو میں 'دُشنام/گالی' اور 'دُشنام دینا' کو 'کنځل/ښکنځل' کہتے ہیں، اور یہ پشتو لفظ میں نے «خوشحال خان خټک» کی اِس بَیت کے توَسُّط سے جانا اور سیکھا ہے:

د سرو شونډو په شرابو چې بېخود شم
له مستیه رقیبانو ته کنځل کړم
(خوشحال خان خټک)


جب مَیں یار کے سُرخ لبوں کی شراب سے مست و بےخود ہو جاؤں تو مَیں اُس بےخودی میں مستی کے باعث رقیبوں کو گالیاں دیتا ہوں۔۔۔

=========

× 'کنځل/ښکنځل' کا پختونخوائی تلفُّظ 'kanzə́l/ḳhkanzə́l' ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرّحمان بابا» کی لِکھی مشہور پشتو نعت کا مقطع:

زه رحمان د محمد د در خاکروب یم
که مې نه کا خدای له دې دره جدا
(عبدالرّحمان بابا)


مَیں «رحمان» حضرتِ مُحَمّد (ص) کے در کا خاکروب ہوں۔۔۔ کاش کہ خُدا مجھ کو اِس در سے جُدا نہ کرے!۔۔۔ (خاک‌روب = خاک جھاڑ کر کِسی جگہ کو صاف کرنے والا)
 
Top