زکواۃ کا نصاب، ڈھائی فی صد کی کیا دلیل ہے؟

ہم آگے بڑھنے سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ اللہ تعالی کے حق سے کیا مراد ہے؟
ہم کو (سورۃ توبہ ،آیت 60) ، اور سورۃ البقرۃ ، آیت 177 اور سورۃ انفال آیت 41 سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے حق کے طور پر جمع ہونے والا مال الناس، آٹھ بڑی کیٹیگریوں میں خرچ ہوگا، تو جو لوگ ان کیٹیگریوں کا انتظام سنبھال رہے ہیں ، یہ جمع ہونے والا مال الناس یعنی پبلک ویلتھ ، اس انتظامیہ کو ادا کی جائے گی۔

شیعہ کتب کا نکتہ نظر: Khums - Wikipedia
Shia jurisprudence (Ja'fari)
Khums, in the Ja'fari Shia tradition, is applied to the business profit, or surplus, of a business income.

(سورۃ انفال ، آیت 41)
سنی نکتہ نظر کے برعکس، شیعہ مکتبہ فکر کسی بھی اضافہ ، بڑھوتری یا فائیدے کا پانچواں حصہ، اللہ تعالی کا حق ہے۔ (سورۃ انفال ، آیت 41)
اس آیت کا ترجمہ سنی مکتبہ فکر یہ کرتا ہے کہ یہ صرف جنگ میں ہاتھ آئے مال غنیمت کا پانچواں حصہ ہے
جبکہ اسی آیت کا ترجمہ شیعہ مکتبہ فکر یہ کرتا ہے کہ کسی بی اضافہ یا بڑھوتری کا پانچواں حصہ اللہ تعالی کا حق ہے۔

باقی تمام نکات پر شیعہ اور سنی مکتبہ فکر کا تقریباً اتفاق ہے۔
کہ ، اللہ کا حق ، اس وقت ادا کرنا ہوگا ، جب فصل کٹی ، یعنی جب ٹرانسیکشن ہوئی، (سورۃ الانعام، آیت 141)
اور یہ ان لوگوں کو ادا کرنا ہوگا جو ان آٹھ کیٹیگریز میں خرچ کریں گے جن کا تذکرہ (سورۃ توبہ ،آیت 60) ، اور سورۃ البقرۃ ، آیت 177 اور سورۃ انفال آیت 41 میں فراہم کیا گیا ہے۔

سنی مکتبہ فکر اور شیعہ مکتبہ فکر کا ایک بڑا فرق یہ ہے کہ
سنی مکتبہ فکر نصاب سے زائید پر ڈھائی فی صد ٹیکس سالانہ لگاتا ہے اور اس کے علاوہ ریاست کی کوئی آمدنی نہیں ہے
جبکہ شیعہ مکتبہ فکر 20 فی صد ٹیکس ، کسی بھی فائیدے پر، فائیدے کے عین وقت پر لگاتا ہے جو کہ ریاست کو واجب الادا ہے۔

گو کہ سورۃ انفال کی آیت نمبر ایک ، مال غنیمت کو 100 فی صد اللہ تعالی کا حق قرار دیتی ہے۔
آئیے حساب کتاب کی مدد سے دیکھتے دو انتہائی مثالوں کی مدد سے دیکھتے ہیں کہ کونسا مکتبہء فکر درست ہے۔

1۔ ایسی آبادی ، جو صفر ٹیکس ادا کرتی ہو۔ ہم انفرادی صورت حال نہیں دیکھیں گے بلکہ اجتماعی صورت حال پر غور کریں گے۔
ایسی آبادی کا تصور کیجئے جو صفر ٹٰکس ادا کرتی ہو، اور دیکھئے کہ آیا کہ ان کے پاس درض ذیل شعبوں میں کوئی ترقی ہوگی؟
1۔ کیا کوئی نہریں یا سڑکیں صفر ٹیکس سے تعمیر ہوسکیں گی؟ نہیں - یعنی سفر کا انفرا سٹرکچر صفر
2۔ کیا غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کا کوئی نظام ہوگا؟ نہیں ۔ تو ، پبلک ویلفئر کا نظام بن ہی نہٰں سکتا
3۔ کیا بیواؤں اور یتیموں کےفلاح و بہبود کا کوئی نظام ہوگا ؟ نہیں
4۔ کیا کوئی بنکاری نظام ہوگا؟ نہیں ، کیوں کہ یہ معاشرہ کوئی ٹیکس نہیں دیتا ، لہذا، اموال الناس یعنی پبلک ویلتھ ہوگی ہی نہیں ، لہذا آپ بک جا کر کاروبار کرنے کے لئے لون نہیں لے سکیں گے
5۔ کیا وہ لوگ جن کے کاروبار ، قرض کی وجہ سے تباہ ہوجائیں ، ان کی نجات کا کوئی نظام ہوگا؟ نہیں ۔ گویا پبلک ڈیبٹ ریلیف ہو ہی نہیں سکتی
6۔ کیا ان کے پاس عوامی تعلیمی ادارے بن سکیں گے؟ نہیں ، اس لئے کہ پبلک ویلتھ تو ہے ی نہیں
7۔ کیا ان کے پاس دفاع کا کوئی نظام ہوگا؟ نہیں ، کیوں کہ وہ پبلک ویلتھ ہے ہی نہیں کہ یہ دفاع کے لئے ملٹری کے خرچ اٹھا سکیں۔
8۔ کیا ان کے پاس ، ٹیکس جمع کرنے والے ادارے اور اس کے کارکن ہوں گے؟ نہیں ، کیوں کہ کوئی ٹیکس دیتا ہی نہیں

یہ وہ آٹھ کیٹگریز ہیں جو ہم کو (سورۃ توبہ ،آیت 60) ، اور سورۃ البقرۃ ، آیت 177 اور سورۃ انفال آیت 41

جاری ہے۔
 
آخری تدوین:
اب ہم ایک ایسے معاشرے کو دیکھتے ہیں جس میں 100 فی صد ٹیکس ہو۔ یعنی، ہر آدمی اپنے کھانے پینے کے بعد ، کپڑے اور سر چھپانے کے بعد ، نصاب کے اوپر 100 فی صد ٹیکس ادا کرتا ہو۔
اس معاشرے میں جو لوگ ٹیکس جمع کرتے ہیں وہ تو بہت امیر ہوں گے اور جو ادا کرتے ہیں ان کے پاس کچھ بھی نیہں ہوگا۔ اب یہ 100 فی صد ٹیکس، ایک دن میں جمع کیا جائے، ایک مہینے میں جمع کیا جائے یا ایک سال میں ، یا 40 سال میں جمع کیا جائے، نتیجہ ہر صورت میں ایک ہی نکلے گا کہ یہ ادا کرنے والے ، جمع کرنے والوں کے غلام ہوں گے۔ اور جمع کرنے والے ظلم و ستم کے طرح طرح کے حیلے بہانے بنائیں گے کہ کس طرح یہ 100 فی صد پر قابض رہیں۔ اور ادا کرنے والے ہمیسہ اس غلامی کا شکار رہیں۔

امریکہ میں یوروپین ، افریقیوں کی محنت سے صرف ان سے ، ان کی ساری محنت وصول لیتے تھے ، یہ سراسر غلامی تھی اور دوسروں کی دولت ہڑپ کرنے کی کاروائی۔

لہذا غلام قوم نے کبھی بھی ان آٹھ کیٹٰگریز میں ترقی نہیں کی۔

اس 100 فی صد ٹیکس کے نتائج یہ تھے:
1۔ غلامی کا فروغ
2۔ دوسروں کا مال ہڑپ کر جانا
3۔ ان آٹح کیٹیگریز میں کوئی ترقی نا ہونا، جو کسی بھی معیشیت کی ترقی کے لئے ضروری ہیں

اس طرح اگر ایک شخص نے ایک سال میں نصاب سے اوپر 11 گنا کمایا لیکن باقی 40 سالوں میں وہ صرف اتنا کماتا رہا جو اس اپنے کھانے پینے ، کپڑے اور سر چھپانے کے لئے کافی تھا تو
ہم دیکھتے ہیں کہ ڈھائی فیصد کے حساب سے لگ بھگ 40 سال یا اس سے کچھ زیادہ میں ، یہ شخص صرف اور صرف نصاب کی معمولی رقم کا مالک ہوگا۔ یعنی وہ بتریج غریب ہوتا چلا جائے گا، اور یہ غلام ہی رہے گا۔ لہذا یہ سامنے کی بات ہے کہ اثاثوں کا ڈھائی فیصد ، بطور ٹیکس ، کسی بھی ریاست کو معاشی تباہی ، غربت، اور کسی بھی ترقی سے محروم کردینے والا ٹیکس کا نظام ہے جو انسانوں کو غریب کرتا ہے، اپنے مال سے محروم کرتا ہے اور کچھ لوگوں کو امیر تر کرتا ہے، ترقی کو ناپید کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم کو قرآن حکیم میں سالانہ ، نصاب سے اوپر اثاثوں پر ڈھائی فی صد ادا کرنے کا حکم نہیں ملتا ، کیوں کہ یہ ، غلامی ہے، دوسروں کا مال ہڑپ کرجانا ہے، اور ترقی کے دروازے بند کردینے کے مترادف ہے۔


تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے فی صد ٹیکس ایک قوم کو ادا کرنا چاہئے، تو ہم اس کے لئے امریکہ کی مثال لیتے ہیں کہ ایک تو ان کا سب حساب کتاب ہمارے سامنے ہے، انکا تعلیمی نظام ، معاشی نظام ۔ پبلک قرخ کی ادائیگی، پبلک قرض کی فراہمی، دفاعی نظام اور انفرا سٹرکچر، ترقی کی ایک اعلی مثال ہے ، تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ قوم اپنے جی ڈی پی کا 20 فی صد سے زائید۔ بطور ٹیکس ادا کرتی ہے۔ یہ آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
In 2018, taxes at all levels of US government represented 24 percent of gross domestic product (GDP), ۔

امریکہ کے ٹیکس کے نظام سے امریکہ کی ترقی اور مسلمان ممالک کے ٹیکس کے نظام سے ان کی ترقی ہم سب کے سامنے ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کا ٹیکس کے نظام کے بنیادی اصول یہ ہیں۔
20 فی صد کسی بھی فائیدے یا اضافے کا اللہ کا حق ہے۔ (سورۃ انفال ، آیت 41)
اللہ کا یہ حق 8 کیٹٰگریز میں خرچ ہوگا ((سورۃ توبہ ،آیت 60) ، اور سورۃ البقرۃ ، آیت 177 اور سورۃ انفال آیت 41)
جنگ میں ہاتھ آیا ہوا مال غنیمت 100 فی صد اللہ کا حق ہے (سورۃ انفال ، آیت 1)
اللہ کا حق ، اسی وقت واجب الادا ہے جب کما لیا، فصل کاٹی ، منافع کمایا وغیرہ (سورۃ الانعام آیت 141)
اس کے بعد ٹیکس کو گھٹانے بڑھانے کی کوئی اصول سازی باہمی مشورے سے کی جاسکتی ہے۔ (سور شوری، آیت 38)


ٹیکس یا زکواۃ ادا اور جمع کرنے کا یہ وہ نظام ہے جو امریکہ میں رایج ہے اور اسلامی ممالک میں ایران میں رائج ہے۔ باقی اسلامی ممالک میں ریاست کی واحد آمدن ، جنگ سے ہاتھ آیا ہوا مال غنیمت ہے۔

ہمیں فتح الباری صحیح البخاری کے دیباچے میں ملتا ہے کہ حدیث جمع کرنے والوں نے 98 اعشاریہ 5 فی صد روایات ، تلف کردیں کہ ان کا خیال تھا جو وہ بچا کر لکھ رہے ہیں، رسول اکرم نے ایسا ہی کہا ہوگا۔ لہذا اس سے ہم کو اندازاہ ہوتا ہے، روایات کا بیشتر حصہ ضائع ہوگیا اور اس کے بعد جو کچھ بچا کچھا آج ہم تک پہنچا وہ ایک تو مکمل نہیں ہے اور دوسرے وہ بہت ہی بنیادی دنیاوی یا قرآنی معیار پر پورا نہیں اترتا۔

اللہ بہتر جاننے والا ہے۔

والسلام
 

dxbgraphics

محفلین
میرا سوال بغور پڑھئے۔ اور پھر جواب عطا فرمائیے۔

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ڈھائی فی صد زکواۃ کے نصاب کی کیا دلیل ہےِ؟ پلیز اس کا ریفرنس، قرآن یا حدیث سے فراہم کیجئے یا پھر بعد کے علماء سے کہ ڈھائی فیصد کے نصاب کی سورس ، بنیاد کیا ہے؟
قرآن کی آیت یا
کوئی روایت یا
بعد کے علماء کا کوئی فیصلہ

مجھے ریفرنس درکار ہے کہ ڈھائی فی صد کا نصاب کہاں سے آیا ہے؟ مہربانی سے عطا فرمائیے

مدیران سے درخواست:
پلیز وہ جوابات حذف کردیجئے جن میں کوئی ریفرنس نا ہو۔ مجھے صرف ریفرنس درکار ہے کہ نصاب کی بنیاد کیا ہے؟ اور اس کا ریفرنس کیا ہے؟

والسلام
معذرت کیساتھ۔ ہمارے ایک دوست نے ایک دن کہا کہ قرآن میں گائے کی قربانی کا ذکر ہے بھینس کا نہیں۔ اب بھینس کی قربانی کیوں کی جاتی ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ قرآن میں سور کا ذکر ہے کہ حرام ہے۔ کتے کا ذکر نہیں تو آپ کتا کیوں نہیں کھاتے۔

ہمارے یہ دوست پی ٹی وی پر ففٹی ففٹی ڈرامہ کے مشہور کردار بھی رہ چکے ہیں اور دبئی میں 8 سال ان کیساتھ محافل میں کافی اچھا وقت گزرا۔
 

dxbgraphics

محفلین
یہ دبئی میں بھی ڈرامے کرتے تھے یا کچھ اور؟؟؟
دبئی میں یوزڈ کمپیوٹر پارٹس کا کام کرتے تھے۔ اور کمپیوٹر سٹریٹ میں میرے چھوٹے بھائی کی لیپ ٹاپ ریپیئرنگ لیب تھی۔ وہاں پر گھنٹوں گھنٹوں گپ شپ والا پاکستانی ماحول بن جاتا تھا۔
 
موضوع پر رہئے، برادران و خواہران۔
معمولی حساب سے یہ واضح ہے کہ کس مکتبہ فکر کا نکتہ نظر قرآن کے مطابق ہے۔ اور وہ نظام جو قرآن کے مطابق ہیں ، پھل پھول رہے ہیں
 
آخری تدوین:
معذرت کیساتھ۔ ہمارے ایک دوست نے ایک دن کہا کہ قرآن میں گائے کی قربانی کا ذکر ہے بھینس کا نہیں۔ اب بھینس کی قربانی کیوں کی جاتی ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ قرآن میں سور کا ذکر ہے کہ حرام ہے۔ کتے کا ذکر نہیں تو آپ کتا کیوں نہیں کھاتے۔

ہمارے یہ دوست پی ٹی وی پر ففٹی ففٹی ڈرامہ کے مشہور کردار بھی رہ چکے ہیں اور دبئی میں 8 سال ان کیساتھ محافل میں کافی اچھا وقت گزرا۔
آپ احادیث کو مانتے نہیں ہیں اس لئے ایسی بات کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے مسلمان ہیں جو شیعہ مکتبہ فکر کی سنبھال کر رکھی ہوئی احادیث رسول کو صاف صاف ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔
 

dxbgraphics

محفلین
آپ احادیث کو مانتے نہیں ہیں اس لئے ایسی بات کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے مسلمان ہیں جو شیعہ مکتبہ فکر کی سنبھال کر رکھی ہوئی احادیث رسول کو صاف صاف ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔
کئی سالوں پہلے آپ سے سوال کیا تھا کہ نماز کا طریقہ قرآن سے بتا دیجئے گا۔ لیکن اب تک کوئی ریفرنس نہیں دیا۔
چونکہ آپ قرآن فہمی آڑ لیکر صحیح حدیث میں بھی شکوک شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی لئے آپ سے قرآن ہی میں ریفرینس مانگ رہا ہوں۔
 
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔
کئی سالوں پہلے آپ سے سوال کیا تھا کہ نماز کا طریقہ قرآن سے بتا دیجئے گا۔ لیکن اب تک کوئی ریفرنس نہیں دیا۔
چونکہ آپ قرآن فہمی آڑ لیکر صحیح حدیث میں بھی شکوک شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی لئے آپ سے قرآن ہی میں ریفرینس مانگ رہا ہوں۔

پہلے آپ کے سوال کا جواب:
  1. سورہ بقرہ آیت نمبر 125: وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاہیمَ مُصَلًّی(ترجمہ: اور حکم دے دیا کہ مقام ابراہیم کو مصّلی بناؤ)۔
اللہ تعالی نے فرمایا کہ نماز یعنی صلاۃ مقام ابراہیم سے لے لو۔ اب آپ کا کیا سوال ہے قرآن کریم میں بتائی گئی اس سنت جاریہ کے جان جانے کے بعد؟

آپ سے مؤدبانہ اور مخلصانہ استدعا ہے کہ آپ عمرہ کرنے جائیے ، اور سعی کے دوران ، اس بات پر نظر رکھئے کہ صفا اور مروہ کے درمیان ایک راستہ ہے ، جس سے امام مکہ گذر کر مقام ابراہیم کی طرف جاتا ہے ۔ جہاں سے وہ اس نماز کی امامت کرتا ہے جو، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے چلی آرہی ہے۔ ثبوت:

2:125 وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو

22:26 وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے بیت اﷲ (یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر) کی جگہ کا تعین کر دیا (اور انہیں حکم فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا اور میرے گھر کو (تعمیر کرنے کے بعد) طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کر نے والوں اور سجود کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھنا


آپ کو ابراہیم علیہ السلام کے مصلی سے نماز کا طریقہ، نماز کے اوقات اور نماز کے بارے میں ہر قسم کی معلومات مل جائے گی۔ اس سے ہم کو یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نماز ، خود رسول اکرم صلعم کو حضرت ابراہیم کی سنت سے ملی اور اب آپ سے دوسرا سوال، آپ وہ روایت یعنی حدیث رسول اکرم پیش کردیجئے جس میں نماز کا پورا طریقہ اور اوقات درج ہوں تاکہ میں ان لوگوں تک آپ کی فراہم کردہ روایت پہنچا دوں جو طرح طرح کے طریقوں سے نماز پڑھتے ہیں۔

اور سب سے آخر میں آپ سے بہت ہی برادرانہ التماس کہ اللہ تعالی ، خالق کائنات کو چیلنج کرنا چھوڑ دیجئے ۔ اور مان لیجئے کہ احادیث کی صورت میں 6 لاکھ روایات میں سے مصنفین نے صرف 6 ہزار روایات کو قبول کیا اور باقی روایت کو رد کردیا ، لہذا یہ معلومات مکمل نہیں ہیں۔ یہ ان کا اپنا اعتراف ہے۔

والسلام
 
مدیر کی آخری تدوین:

dxbgraphics

محفلین
پہلے آپ کے سوال کا جواب:
  1. سورہ بقرہ آیت نمبر 125: وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاہیمَ مُصَلًّی(ترجمہ: اور حکم دے دیا کہ مقام ابراہیم کو مصّلی بناؤ)۔
اللہ تعالی نے فرمایا کہ نماز یعنی صلاۃ مقام ابراہیم سے لے لو۔ اب آپ کا کیا سوال ہے قرآن کریم میں بتائی گئی اس سنت جاریہ کے جان جانے کے بعد؟

آپ سے مؤدبانہ اور مخلصانہ استدعا ہے کہ آپ عمرہ کرنے جائیے ، اور سعی کے دوران ، اس بات پر نظر رکھئے کہ صفا اور مروہ کے درمیان ایک راستہ ہے ، جس سے امام مکہ گذر کر مقام ابراہیم کی طرف جاتا ہے ۔ جہاں سے وہ اس نماز کی امامت کرتا ہے جو، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے چلی آرہی ہے۔ ثبوت:

2:125 وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو

22:26 وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے بیت اﷲ (یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر) کی جگہ کا تعین کر دیا (اور انہیں حکم فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا اور میرے گھر کو (تعمیر کرنے کے بعد) طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کر نے والوں اور سجود کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھنا


آپ کو ابراہیم علیہ السلام کے مصلی سے نماز کا طریقہ، نماز کے اوقات اور نماز کے بارے میں ہر قسم کی معلومات مل جائے گی۔ اس سے ہم کو یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نماز ، خود رسول اکرم صلعم کو حضرت ابراہیم کی سنت سے ملی اور اب آپ سے دوسرا سوال، آپ وہ روایت یعنی حدیث رسول اکرم پیش کردیجئے جس میں نماز کا پورا طریقہ اور اوقات درج ہوں تاکہ میں ان لوگوں تک آپ کی فراہم کردہ روایت پہنچا دوں جو طرح طرح کے طریقوں سے نماز پڑھتے ہیں۔

اور سب سے آخر میں آپ سے بہت ہی برادرانہ التماس کہ اللہ تعالی ، خالق کائنات کو چیلنج کرنا چھوڑ دیجئے ۔ اور مان لیجئے کہ احادیث کی صورت میں 6 لاکھ روایات میں سے مصنفین نے صرف 6 ہزار روایات کو قبول کیا اور باقی روایت کو رد کردیا ، لہذا یہ معلومات مکمل نہیں ہیں۔ یہ ان کا اپنا اعتراف ہے۔

والسلام
مصلے میں طریقے کہاں سے ڈھونڈوں۔
آپ طریقہ نماز قرآن سے بتا دیجئے۔
 

سید عمران

محفلین
  1. وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاہیمَ مُصَلًّی(ترجمہ: اور حکم دے دیا کہ مقام ابراہیم کو مصّلی بناؤ)۔
اللہ تعالی نے فرمایا کہ نماز یعنی صلاۃ مقام ابراہیم سے لے لو۔
اتنا غلط ترجمہ تو عربی کی پہلی کلاس کا طالب علم بھی نہیں کرسکتا!!!
 
مصلے میں طریقے کہاں سے ڈھونڈوں۔
آپ طریقہ نماز قرآن سے بتا دیجئے۔
عمرہ کرنے جائیے، اور مقام ابراہیم پر کھڑے ہوکر نماز پڑھانے والے امام سے پوچھئے کہ قرآن کا بتایا ہوا طریقہ نماز کیا ہے۔ قرآں نے آپ کو ہدایت دے دی اب ، آپ کا کام ہے اس راہ پر چلنا۔
یہ بچکانہ حرکتیں ختم کردیجئے تو بہتر ہوگا آپ کے لئے برادر محترم،

اگر آپ کتب روایات سے ایک بھی روایت نماز کے مکمل طریقہ کی پیش کرسکیں تو عنایت ہوگی۔

صاحب آپ حدیثوں کو نہیں مانتے تو اب کیا آپ سے بات کی جائے ؟
 

dxbgraphics

محفلین
عمرہ کرنے جائیے، اور مقام ابراہیم پر کھڑے ہوکر نماز پڑھانے والے امام سے پوچھئے کہ قرآن کا بتایا ہوا طریقہ نماز کیا ہے۔ قرآں نے آپ کو ہدایت دے دی اب ، آپ کا کام ہے اس راہ پر چلنا۔
یہ بچکانہ حرکتیں ختم کردیجئے تو بہتر ہوگا آپ کے لئے برادر محترم،

اگر آپ کتب روایات سے ایک بھی روایت نماز کے مکمل طریقہ کی پیش کرسکیں تو عنایت ہوگی۔

صاحب آپ حدیثوں کو نہیں مانتے تو اب کیا آپ سے بات کی جائے ؟

فاروق سرور خان صاحب آپ سے پھر گذارش ہے چونکہ آپ قرآن فہم ہیں اور آپ جیسا اچھا قرآن فہم ہی قرآن سے ریفرینس دے سکتا ہے لہذا چھوٹا سمجھ کر میرے لئے نماز کا طریقہ قرآن کریم سے بتلا دیجئے کہ میری استطاعت نہیں اس وقت کہ میں عمرے یا حج کے لئے جاکر وہاں مقام ابراہیم پر کھڑے ہوکر پوچھوں کہ نماز کا طریقہ کیا ہے۔ اور میرے جیسے لاکھوں کروڑوں مسلمان ہیں جو عمرہ و حج کی استطاعت نہیں رکھتے لہذا آپ سے پرزور گذارش ہے کہ قرآن سے ہمیں طریقہ نماز کا ریفرنس دے دیں۔

اہم بات کہ کسی امام سے کیوں پوچھا جائے وہ بھی تو آج کے زمانے کے لوگ ہیں جب آپ کے نزدیک کتب روایات صحیح نہیں تو آج کل کا امام کیسے حجت بن گیا۔ جب آپ کی مرضی ہو تو کتب روایات صحیح نہیں اور جب پھنس جائیں تو مقام ابراہیم کے نزدیک کھڑا امام بھی حجت بن جاتا ہے جس سے نماز کے بارے میں پوچھا جائے؟ کیا کمال کی شخصیت ہیں آپ
 
آخری تدوین:
فاروق سرور خان صاحب آپ سے پھر گذارش ہے چونکہ آپ قرآن فہم ہیں اور آپ جیسا اچھا قرآن فہم ہی قرآن سے ریفرینس دے سکتا ہے لہذا چھوٹا سمجھ کر میرے لئے نماز کا طریقہ قرآن کریم سے بتلا دیجئے کہ میری استطاعت نہیں اس وقت کہ میں عمرے یا حج کے لئے جاکر وہاں مقام ابراہیم پر کھڑے ہوکر پوچھوں کہ نماز کا طریقہ کیا ہے۔ اور میرے جیسے لاکھوں کروڑوں مسلمان ہیں جو عمرہ و حج کی استطاعت نہیں رکھتے لہذا آپ سے پرزور گذارش ہے کہ قرآن سے ہمیں طریقہ نماز کا ریفرنس دے دیں۔

اہم بات کہ کسی امام سے کیوں پوچھا جائے وہ بھی تو آج کے زمانے کے لوگ ہیں جب آپ کے نزدیک کتب روایات صحیح نہیں تو آج کل کا امام کیسے حجت بن گیا۔ جب آپ کی مرضی ہو تو کتب روایات صحیح نہیں اور جب پھنس جائیں تو مقام ابراہیم کے نزدیک کھڑا امام بھی حجت بن جاتا ہے جس سے نماز کے بارے میں پوچھا جائے؟ کیا کمال کی شخصیت ہیں آپ

اس لئے کہ آپ کی کتب روایات ، جن کو آپ مانتے ہیں ، ان کے مطابق، نماز اس مقام پر ، حضرت ابراہیم کے زمانے سے ادا کی جارہی ہے۔

آپ خود نہیں جانتے کہ ، جب آپ کو قرآن حکیم سے ریفرنس فراہم کیا جاتا ہے تو آپ کیوں اس طرح کا شیطانی کام کرتے ہیں؟
اس کی وجہ ہے۔ اور وہ وجہ اسی دھاگے میں ہے ۔ کہ جب دشمنان اسلام کو قرآن حکیم پیش کیا جاتا ہے تو وہ رسول اکرم کا مضحکہ اڑانے کے لئے انہی (صلعم) کے اقوال کو استعمال کرتے ہیں ۔ وہ اس لئے کہ اموی خلفاء ، ریاست مدینہ کو ٹٰکس (زکواۃ) ادا کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ جس کے لئے آپ نے طرح طرح کی روایات گھڑی۔ نماز کا مکمل طریقہ قرآن میں صرف ایک آیت سے آپ کو مل جاتا ہے ، جس پر آپ کو اپنی "قابلیت" پر ہنسی آتی ہے کہ ایک یہی تو تھا آپ کے پاس ، وہ بھی کند نکلا :)

اگر آپ کے پاس اس دھاگہ کہ موضوع میں اضافہ کرنے کے لئے کچھ نہیں تو بہتر ہے خاموش رہیے۔

مدیران گرامی،
چونکہ یہ ایک موڈیریٹڈ دھاگہ ہے۔ اس لئے، کسی بد مزگی سے بچنے کے لئے، آپ سے التماس ہے کہ موضوع (زکواۃ ڈھائی فیصد کی بنیاد کیا) سے ہٹ کر مراسلے (مجھ سمیت) ، اس سے حذف فرما دیجئے ، اور ان قابل دوست کو ہدایت کیجئے کہ نماز کا طریقہ ، اس دھاگے میں بحث کریں جہاں الگ سے اس کا جواب دیا جا چکا ہے۔

بہت ہی شکریہ۔
 
آخری تدوین:
اگر کوئی عمرہ پر نہ جاسکے تو نماز کا طریقہ کہاں سے سیکھے؟؟؟

کعبہ آج لائیو ہے ۔۔۔ آپ کی اپنی کتب روایات کے مطابق، مقام ابراہیم پر نماز ، ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے ادا کی جارہی ہے ، اسی طرح جس طرح ابراہیم علیہ السلام سے رسول اکرم تک پہنچی۔ حتی کہ امام کعبہ آج بھی اسی راستے پر چل کر آتا ہے ، جس پر ابراہیم علیہ السلام چل کر آتے تھے، اس رکوع السجود کے لئے۔ اس سنت جاریہ کا مشاہدہ، لاکھوں کروڑوں لوگ کرتے ہیں۔ ایسے میں اس قسم کے سوالات بے معانی ہیں۔


اس دھاگے میں زکواۃ کے موضوع پر ہی رہئے۔ نماز کے طریقے پر الگ دھاگہ ہے، آپ وہاں یہ سوالات پوچھ سکتے ہیں۔

مدیران گرامی،
چونکہ یہ ایک موڈیریٹڈ دھاگہ ہے۔ اس لئے، کسی بد مزگی سے بچنے کے لئے، آپ سے التماس ہے کہ موضوع (زکواۃ ڈھائی فیصد کی بنیاد کیا) سے ہٹ کر مراسلے (مجھ سمیت) ، اس سے حذف فرما دیجئے ، اور ان قابل دوست کو ہدایت کیجئے کہ نماز کا طریقہ ، اس دھاگے میں بحث کریں جہاں الگ سے اس کا جواب دیا جا چکا ہے۔
 
اس لنک میں یہ ترجمہ کہاں ہے؟؟؟

"
قرآن مقام ابراہیم کا تذکرہ
قرآن کریم کی دو آیتوں میں مقام ابراہیم کی طرف اشارہ ہوا ہے اور اسے روی زمین پر خدا کی واضح نشانیوں میں سے قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو اس مقام پر نماز پڑھنے کی سفارش کی گئی ہے:

  1. سورہ بقرہ آیت نمبر 125: وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاہیمَ مُصَلًّی(ترجمہ: اور حکم دے دیا کہ مقام ابراہیم کو مصّلی بناؤ)۔
  2. سورہ آل عمران آیت نمبر97: فِیہ آیاتٌ بَینَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہیمَ وَ مَنْ دَخَلَہ کانَ آمِناً(ترجمہ: اس میں کھلی ہوئی نشانیاں مقام ابراہیم علیھ السّلام ہے اور جو اس میں داخل ہوجائے گا وہ محفوظ ہوجائے گا)


    کیاسمجھ میں آتا ہے اس سے؟
 
Top