اپنے شوہرکو دوسری شادی سے روکنے والی بہنوں کے نام

dxbgraphics

محفلین
بھائی آئی ہوپ آپ کی مام اور بچے جیت جائیں :ڈی

کئی بار جیت چکی ہیں۔
پہلی بار میری دبئی کی کولیگ جو نارتھ کیرولینا سے تھیں دوسری بننے پر راضی تھیں کہ ہماری زوجہ کو رشتہ داروں کی محبت لاحق ہوگئیں اور پاکستان واپسی کا تقاضا کرنے لگیں اس کیبعد ہم نے اپنی نہ ہونے والی دوسری زوجہ سے مطالبہ کیا کہ میرے ساتھ دو سال بعد مکمل پاکستان جانا ہوگا۔ جس پر انہوں نے پاکستان جانے سے انکار کر لیا۔ حال ہی میں ایک جاننے والی جو عرب رومینین ہیں پاکستان آنے پر راضی ہوئیں لیکن اس بار کرونا نے یہ شادی نہ کرونا میں تبدیل کردی۔

ہم بھی ہمت ہارنے والوں میں نہیں۔ کوشش جاری ہے۔
 

زونی

محفلین
اپنے شوہرکو دوسری شادی سے روکنے والی بہنوں کے نام

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ- طائف

جب کوئی عورت یہ سنتی ہے کہ اس کا شوہر دوسری شادی کرنے والا ہے اس وقت سے اس عورت کی زندگی میں زلزلہ سا برپاہوجاتا ہے پھر دونوں میاں بیوی میں جھگڑے لڑائی، مارپیٹ ، گالی گلوج حتی کہ دوخاندانوں میں تنازع کھڑا ہوجاتا ہے۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوسری شادی گناہ ہے ،پہلی بیوی پر ظلم ہے یا ایک کے ساتھ عدل اور دوسرے کے ساتھ نا انصافی ہے ؟ ان سوالوں کو شریعت کی میزان پر تولتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دوسری شادی یا بیک وقت ایک سے زائد شادی مردوں کے حق میں مباح میں ہے ، یہ کوئی نہ گناہ ہے ، نہ کسی پر ظلم ہےاور نہ ہی کسی کے ساتھ ناانصافی ہے ۔
اللہ تعالی اگر مردوں کو ایک سے زائد شادی کی اجازت نہیں دیتا تو کوئی مرد دوسری شادی نہیں کرتا ، دوسری شادی پر عمل دراصل اسلامی حکم کی وجہ سے ہے ایسے میں کسی مسلم خاتون کا اپنے شوہر کو دوسری شادی سے روکنا شرعا غلط ہے۔ عہد صحابہ میں ایسی کوئی خاتون نہیں ملتی جس نے اپنے شوہر کو دوسری شادی سے منع کیا ہو یا دوسری شادی کے نام پر ہنگامہ کھڑا کیا ہو،حقیقت میں دوسری شادی پہ موجودہ دورکا ہنگامہ ہندوانہ سماجی اثرکانتیجہ ہے جہان ہندو میریج ایکٹ کے تحت انہیں ایک ہی شادی کی اجازت ہےورنہ اسلامی ممالک میں آج کےپرفتن دور میں بھی ایسا ہنگامہ دیکھنے کو نہیں ملتا جو برصغیر میں پایاجاتا ہے ۔
ہرمرد متعددشادی کا متحمل نہیں ہوسکتا تاہم بہت سارے تعدد ازدواج کی صلاحیت رکھتے ہیں ،میں سمجھتاہوں ان تمام باصلاحیت مردوں کو اپنی صلاحیت بروئے کار لانی چاہئے ۔اس سے ایک دو نہیں سیکڑوں مثبت اثرات فردومعاشرہ پر مرتب ہوں گے ۔ آپ ذرا تعدد ازدواج کی دنیا میں داخل ہوکر سوچیں کیا پھر کوئی نکاح مہنگا ہوگا؟ کوئی باپ بیٹیوں کی شادی کے بوجھ تلے دبا ہوگا؟کسی غریب کی کوئی بیٹی گھر میں بیٹھی ہوگی یا شادی کے لئے دم توڑے گی؟ سماج کی معذور و بدصورت لڑکی شادی کے لئے ترسے گی ؟ ایک سے زیادہ خواہش والا مرد خواہش کی چکی میں پستا رہے گا ؟ کیا زنا کے بڑھتے واقعات کم نہیں ہوں گے ؟
آج کے ماحول میں شادی اس قدر دشوار اور خرچیلی ہے کہ ایک باپ بیٹی کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کی شادی کے لئے پائی پائی جمع کرنے لگ جاتا ہے خصوصا غریب باپ ۔میرا ماننا ہے کہ مسلمان شادی اسلام کے مطابق کرلے اور مالدار طبقہ امانتداری سے زکوۃ نکالاکرے تو پھر مسلم سماج میں نہ غریبی ہوگی اورنہ بدامنی ۔ایسا سماج اس قدر ترقی یافتہ ہوگاکہ اس کا ہرفرد پرامن زندگی گزاررہا ہوگا۔
اتنی لمبی تمہید ان بہنوں کو سمجھانے کی لئے باندھی ہے جو دوسری شادی کو اپنے حق میں عذاب سے بدتر سمجھتی ہے ۔دراصل یہ اسلامی بہنوں کی غلط فہمی ہے جوبرے سماج کے کا نتیجہ ہے ۔ ہم نے اسلامی سماج بنایا ہی کب ؟ جہاں اسلامی پردہ ہو، اسلامی اخوت ہو، اسلامی طورپر تجارت ومعاملات ہوں، نیکی کی دعوت اور برائی پر نکیر ہو۔ جب سماج میں برائی ہوگی تو اس کے برے اثرات زندگی کے تمام مراحل پر پڑیں گے ۔ آپ سوچتی ہیں کہ دوسری شادی سے ہمارا حق ماراجائے گا ،ہمارے بچوں کی حق تلفی ہوگی ، ہم سے شوہر کی محبت کم ہوجائے گی ، ہماری آزادی چھن جائے گی ، ہماری ضرورتیں اور شوق پورے نہیں ہوں گے وغیرہ ۔
پہلے تو آپ یہ ذہن بنائیں کہ دوسری شادی آپ کے اوپر کوئی ظلم یا آپ کے حق میں کوئی عذاب نہیں ہے ، اگر ایسا ہوتا توپھر اکیلی بیوی ہمیشہ نعمت میں رہتی ، اسے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی، کبھی اس کو طلاق نہیں ہوتی اور اپنے شوہر کے ساتھ کبھی جھگڑا نہیں ہوتاجبکہ سماجی حالات اس کے برعکس ہیں ۔ عموما اپنے سماج میں ایک ہی شادی ہوتی ہے مگر میاں بیوی کےدرمیان بہت تنازعات دیکھنےکو ملتے ہیں جن کے باعث اکثر رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ اس لئے آپ یہ نہ سوچیں کہ اکیلی ہونے سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ؟ پھر اپنے شوہر کی دوسری شادی پہ آپ کا کیا رویہ ہونا چاہئے؟
اس تناظر میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ کو اسلام کی بنیادی معلومات ہونی چاہئے تاکہ آپ اسلام کے سائے میں زندگی گزارسکیں،آپ کے شب وروز عبادت اور فرائض کی ادائیگی میں گزریں ۔
زندگی کا دوسرا نام پریشانی ہے ، اس لئے اسے جھیلنے کا ہنرسیکھیں ، ذرا غور کریں کہ پہلے والدین کے یہاں تھیں تو کتنا خوش تھیں ، شادی کےبعد کس قدر مسائل آگئے ، اگر کچھ مسائل شوہر کی دوسری شادی سے پیدا ہوتے ہیں تو آپ کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ اپنے حقوق اور فرائض کو پہچانیں اور انہیں بخوبی انجام دیتے رہیں کبھی آپ غمگیں نہیں ہوں گے بھلے مسائل میں گھرے رہیں ۔
شوہر میں دوسری شادی کا خیال پائیں تو دیکھیں کہ کیا وہ دوبیویوں میں انصاف کرسکیں گےاور ان کی رہائش واخراجات برداشت کرسکیں گے ؟ اگر ہاں تو انہیں خوشی خوشی شادی کرنے کہیں پھر آپ کو کس بات کا دکھ ہے ؟
ایک بات اوپر یہ معلوم ہوہی گئی کہ مردوں کو ایک سے زائد شادی کرنا جائز ہے اس لئے آپ کا دوسری شادی سے روکنا یا طلاق کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے ، ایک مزید بات توکل وعقیدہ سے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ دوسری شادی پہ پہلی بیوی سوچتی ہے کہ ہمارے حصے کی روزی دوسری عورت اور اس کی اولادچھینے گی جبکہ اللہ نے ماں کے پیٹ میں سب کا نصیب اوررزق لکھ دیا ہے ، کوئی کسی دوسرے کا نصیب اور رزق نہیں چھین سکتا ۔
آپ اس پہلو سے بھی غور کرکے دیکھیں کہ شوہر کی ذات پر آپ کا کتنا اختیار ہے ،کیا وہ آپ کی ایسی ملکیت ہے جس پر کسی دوسرے کا ادنی سا بھی حق نہیں ہے ؟ نہیں ایسی بات نہیں ہے ،شوہر کی ساری جائیداد بھی بیوی کی نہیں ہے،اس کا چوتھائی یا آٹھواں حصہ ہے۔ شوہر کے ایک لفظ طلاق سے آپ کا سارا رشتہ ختم ہوجاتا ہے اب وہ مرد کسی سے شادی کرے آپ اس سے بے پرواہ ہیں ۔پھر دوسری شادی سے روکنا کیسا ہے سوچ کر دیکھیں۔
بسااوقات مجبوری میں عورت خود ہی اپنے شوہر کو دوسری شادی کرنے کا حکم دیتی ہے مثلا بچہ نہ ہوتا ہو یا جنسی طورپرشوہرکو خوش نہ کرسکتی ہو یا ہمیشہ بیمار رہتی ہو ،یہ اچھی بات ہے۔ اسی طرح اسلامی بہنوں کو ان عورتوں کا درد بھی محسوس کرنا چاہئے جکی شادی نہیں ہوپارہی ہیں اور وہ لاکھوں میں ہیں ۔
صحیح بخاری میں ہے کہ قرب قیامت میں عورتوں کی کثرت ہوگی اور آج ہم دنیا میں عورتوں کی کثرت دیکھتے ہیں باوجودیکہ لڑکیوں کا اسقاط ہورہا ہے ۔ایسے میں تمام عورتوں کے ساتھ انصاف اسی وقت ممکن ہے جب مرد حضرات ایک سے زائد شادی کریں ۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا کہ میرے بعد کوئی اسے نہیں بیان کرے گا ۔ میں نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا:
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ وإمَّا قالَ: مِن أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، أَنْ يُرْفَعَ العِلْمُ، وَيَظْهَرَ الجَهْلُ، وَيُشْرَبَ الخَمْرُ، وَيَظْهَرَ الزِّنَا، وَيَقِلَّ الرِّجَالُ، وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ حتَّى يَكونَ لِلْخَمْسِينَ امْرَأَةً القَيِّمُ الوَاحِدُ(صحيح البخاري:6808)
ترجمہ: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یا یوں فرمایا کہ قیامت کی نشانیوںمیں سے یہ ہے کہ علم دین دنیا سے اٹھ جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی ، شراب بکثرت پی جانے لگے گی اور زنا پھیل جائے گا ۔ مرد کم ہو جائیں گے اور عورتوں کی کثرت ہو گی ۔ حالت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ پچاس عورتوں پر ایک ہی خبر لینے والا مرد رہ جائے گا ۔
جب کوئی عورت اس نیت سے اپنے شوہر کو دوسری شادی کرنے کا حکم دیتی ہے کہ کسی مجبور ولاچار عورت کا بھلا ہوجائے تو اس پر اللہ کی طرف سے اجر کا مستحق ہوگی ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ایک شخص کی زندگی میں ایک سے زیادہ بیوی ہو تو اس کے یہاں زیادہ مسائل ہوں گے مگر بیویوں کو ان سارے مسائل سے کیا واسطہ ؟ انہیں بغیرخرچ کے محض امور خانہ داری انجام دیناہے جبکہ کفالت سے لیکر تمام عائلی مسائل کا ذمہ دار مرد ہوتاہے مثلا بیوی بچوں کا خرچ، رہائش، تعلیم وتربیت اور علاج ومعالجہ وغیرہ۔
دوسری شادی کے بعد پریشانی اس بات سے بڑھتی ہے کہ پہلی بیوی اپنی سوکن کو اپنا دشمن سمجھ لیتی ہے ۔سوکن آپ کی دشمن نہیں ہے ، اسے اپنی بہن سمجھیں اور جس طرح شوہر سے پیار کرتی ہیں اپنی اس بہن سے پیار کریں اس طرح دونوں کی زندگی ہنسی خوشی گزرے گی بلکہ دونوں بہنیں گھریلو کام میں ایک دوسرے کو دوست سمجھ لیں تو وہ گھر سنور جائے گی اور دونوں علاحدہ علاحدہ رہتے ہوں تب زیادہ مسائل نہیں ہوتے۔
اس جگہ آپ کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں اس کو حفظ کرلیں اوراس کی روشنی میں زندگی گزاریں ان شاء اللہ جس حال میں رہیں گی خوش رہیں گی ۔
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ‏ارشاد فرمایا :
إِذَا ‏صَلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا، وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا، قِيلَ لَهَا: ادْخُلِي الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ ‏شِئْتِ{مسند احمد،الطبرانی الأوسط}‏
ترجمہ :جب عورت اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے ، اپنے ماہ {رمضان } کا روزہ رکھ لے ، اپنی شرمگاہ کی ‏حفاظت کرلے ، اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں اسکے جس دروازے سے داخل ‏ہونا چاہے داخل ہوجا ۔
ایک آخری بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ یہ جان لیں شوہر کے دل میں دوسری شادی کا خیال پیدا ہوجانے سے یہ خیال اور بھی پختہ ہوتا جائے گا جب جب آپ منع کریں گی اور جھگڑا لڑائی کریں گی ۔ دوسری شادی سے روکنے کا آپ کو اسلام نے اختیار نہیں دیا جبکہ مرد کو کرنے کا اختیار ہے پھر آپ غور کریں کہ دوسری شادی کے معاملے میں کس کا رویہ اسلام کے مطابق ہے ؟ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ آپ شوہر کو اس وقت دوسری شادی سے رکنے کا مشورہ دے سکتی ہیں جب اس میں دوسری شادی کی شرطیں نہ پاتی ہوں ۔ دوسری شادی کے لئے دو بیویوں کے درمیان عدل، دونوں کی معاشی کفالت اور دونوں کی جنسی خواہش پورا کرنے کی طاقت ہونا شرط ہے۔
اپنے شوہرکو دوسری شادی سے روکنے والی بہنوں کے نام

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ- طائف

جب کوئی عورت یہ سنتی ہے کہ اس کا شوہر دوسری شادی کرنے والا ہے اس وقت سے اس عورت کی زندگی میں زلزلہ سا برپاہوجاتا ہے پھر دونوں میاں بیوی میں جھگڑے لڑائی، مارپیٹ ، گالی گلوج حتی کہ دوخاندانوں میں تنازع کھڑا ہوجاتا ہے۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوسری شادی گناہ ہے ،پہلی بیوی پر ظلم ہے یا ایک کے ساتھ عدل اور دوسرے کے ساتھ نا انصافی ہے ؟ ان سوالوں کو شریعت کی میزان پر تولتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دوسری شادی یا بیک وقت ایک سے زائد شادی مردوں کے حق میں مباح میں ہے ، یہ کوئی نہ گناہ ہے ، نہ کسی پر ظلم ہےاور نہ ہی کسی کے ساتھ ناانصافی ہے ۔
اللہ تعالی اگر مردوں کو ایک سے زائد شادی کی اجازت نہیں دیتا تو کوئی مرد دوسری شادی نہیں کرتا ، دوسری شادی پر عمل دراصل اسلامی حکم کی وجہ سے ہے ایسے میں کسی مسلم خاتون کا اپنے شوہر کو دوسری شادی سے روکنا شرعا غلط ہے۔ عہد صحابہ میں ایسی کوئی خاتون نہیں ملتی جس نے اپنے شوہر کو دوسری شادی سے منع کیا ہو یا دوسری شادی کے نام پر ہنگامہ کھڑا کیا ہو،حقیقت میں دوسری شادی پہ موجودہ دورکا ہنگامہ ہندوانہ سماجی اثرکانتیجہ ہے جہان ہندو میریج ایکٹ کے تحت انہیں ایک ہی شادی کی اجازت ہےورنہ اسلامی ممالک میں آج کےپرفتن دور میں بھی ایسا ہنگامہ دیکھنے کو نہیں ملتا جو برصغیر میں پایاجاتا ہے ۔
ہرمرد متعددشادی کا متحمل نہیں ہوسکتا تاہم بہت سارے تعدد ازدواج کی صلاحیت رکھتے ہیں ،میں سمجھتاہوں ان تمام باصلاحیت مردوں کو اپنی صلاحیت بروئے کار لانی چاہئے ۔اس سے ایک دو نہیں سیکڑوں مثبت اثرات فردومعاشرہ پر مرتب ہوں گے ۔ آپ ذرا تعدد ازدواج کی دنیا میں داخل ہوکر سوچیں کیا پھر کوئی نکاح مہنگا ہوگا؟ کوئی باپ بیٹیوں کی شادی کے بوجھ تلے دبا ہوگا؟کسی غریب کی کوئی بیٹی گھر میں بیٹھی ہوگی یا شادی کے لئے دم توڑے گی؟ سماج کی معذور و بدصورت لڑکی شادی کے لئے ترسے گی ؟ ایک سے زیادہ خواہش والا مرد خواہش کی چکی میں پستا رہے گا ؟ کیا زنا کے بڑھتے واقعات کم نہیں ہوں گے ؟
آج کے ماحول میں شادی اس قدر دشوار اور خرچیلی ہے کہ ایک باپ بیٹی کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کی شادی کے لئے پائی پائی جمع کرنے لگ جاتا ہے خصوصا غریب باپ ۔میرا ماننا ہے کہ مسلمان شادی اسلام کے مطابق کرلے اور مالدار طبقہ امانتداری سے زکوۃ نکالاکرے تو پھر مسلم سماج میں نہ غریبی ہوگی اورنہ بدامنی ۔ایسا سماج اس قدر ترقی یافتہ ہوگاکہ اس کا ہرفرد پرامن زندگی گزاررہا ہوگا۔
اتنی لمبی تمہید ان بہنوں کو سمجھانے کی لئے باندھی ہے جو دوسری شادی کو اپنے حق میں عذاب سے بدتر سمجھتی ہے ۔دراصل یہ اسلامی بہنوں کی غلط فہمی ہے جوبرے سماج کے کا نتیجہ ہے ۔ ہم نے اسلامی سماج بنایا ہی کب ؟ جہاں اسلامی پردہ ہو، اسلامی اخوت ہو، اسلامی طورپر تجارت ومعاملات ہوں، نیکی کی دعوت اور برائی پر نکیر ہو۔ جب سماج میں برائی ہوگی تو اس کے برے اثرات زندگی کے تمام مراحل پر پڑیں گے ۔ آپ سوچتی ہیں کہ دوسری شادی سے ہمارا حق ماراجائے گا ،ہمارے بچوں کی حق تلفی ہوگی ، ہم سے شوہر کی محبت کم ہوجائے گی ، ہماری آزادی چھن جائے گی ، ہماری ضرورتیں اور شوق پورے نہیں ہوں گے وغیرہ ۔
پہلے تو آپ یہ ذہن بنائیں کہ دوسری شادی آپ کے اوپر کوئی ظلم یا آپ کے حق میں کوئی عذاب نہیں ہے ، اگر ایسا ہوتا توپھر اکیلی بیوی ہمیشہ نعمت میں رہتی ، اسے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی، کبھی اس کو طلاق نہیں ہوتی اور اپنے شوہر کے ساتھ کبھی جھگڑا نہیں ہوتاجبکہ سماجی حالات اس کے برعکس ہیں ۔ عموما اپنے سماج میں ایک ہی شادی ہوتی ہے مگر میاں بیوی کےدرمیان بہت تنازعات دیکھنےکو ملتے ہیں جن کے باعث اکثر رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ اس لئے آپ یہ نہ سوچیں کہ اکیلی ہونے سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ؟ پھر اپنے شوہر کی دوسری شادی پہ آپ کا کیا رویہ ہونا چاہئے؟
اس تناظر میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ کو اسلام کی بنیادی معلومات ہونی چاہئے تاکہ آپ اسلام کے سائے میں زندگی گزارسکیں،آپ کے شب وروز عبادت اور فرائض کی ادائیگی میں گزریں ۔
زندگی کا دوسرا نام پریشانی ہے ، اس لئے اسے جھیلنے کا ہنرسیکھیں ، ذرا غور کریں کہ پہلے والدین کے یہاں تھیں تو کتنا خوش تھیں ، شادی کےبعد کس قدر مسائل آگئے ، اگر کچھ مسائل شوہر کی دوسری شادی سے پیدا ہوتے ہیں تو آپ کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ اپنے حقوق اور فرائض کو پہچانیں اور انہیں بخوبی انجام دیتے رہیں کبھی آپ غمگیں نہیں ہوں گے بھلے مسائل میں گھرے رہیں ۔
شوہر میں دوسری شادی کا خیال پائیں تو دیکھیں کہ کیا وہ دوبیویوں میں انصاف کرسکیں گےاور ان کی رہائش واخراجات برداشت کرسکیں گے ؟ اگر ہاں تو انہیں خوشی خوشی شادی کرنے کہیں پھر آپ کو کس بات کا دکھ ہے ؟
ایک بات اوپر یہ معلوم ہوہی گئی کہ مردوں کو ایک سے زائد شادی کرنا جائز ہے اس لئے آپ کا دوسری شادی سے روکنا یا طلاق کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے ، ایک مزید بات توکل وعقیدہ سے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ دوسری شادی پہ پہلی بیوی سوچتی ہے کہ ہمارے حصے کی روزی دوسری عورت اور اس کی اولادچھینے گی جبکہ اللہ نے ماں کے پیٹ میں سب کا نصیب اوررزق لکھ دیا ہے ، کوئی کسی دوسرے کا نصیب اور رزق نہیں چھین سکتا ۔
آپ اس پہلو سے بھی غور کرکے دیکھیں کہ شوہر کی ذات پر آپ کا کتنا اختیار ہے ،کیا وہ آپ کی ایسی ملکیت ہے جس پر کسی دوسرے کا ادنی سا بھی حق نہیں ہے ؟ نہیں ایسی بات نہیں ہے ،شوہر کی ساری جائیداد بھی بیوی کی نہیں ہے،اس کا چوتھائی یا آٹھواں حصہ ہے۔ شوہر کے ایک لفظ طلاق سے آپ کا سارا رشتہ ختم ہوجاتا ہے اب وہ مرد کسی سے شادی کرے آپ اس سے بے پرواہ ہیں ۔پھر دوسری شادی سے روکنا کیسا ہے سوچ کر دیکھیں۔
بسااوقات مجبوری میں عورت خود ہی اپنے شوہر کو دوسری شادی کرنے کا حکم دیتی ہے مثلا بچہ نہ ہوتا ہو یا جنسی طورپرشوہرکو خوش نہ کرسکتی ہو یا ہمیشہ بیمار رہتی ہو ،یہ اچھی بات ہے۔ اسی طرح اسلامی بہنوں کو ان عورتوں کا درد بھی محسوس کرنا چاہئے جکی شادی نہیں ہوپارہی ہیں اور وہ لاکھوں میں ہیں ۔
صحیح بخاری میں ہے کہ قرب قیامت میں عورتوں کی کثرت ہوگی اور آج ہم دنیا میں عورتوں کی کثرت دیکھتے ہیں باوجودیکہ لڑکیوں کا اسقاط ہورہا ہے ۔ایسے میں تمام عورتوں کے ساتھ انصاف اسی وقت ممکن ہے جب مرد حضرات ایک سے زائد شادی کریں ۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا کہ میرے بعد کوئی اسے نہیں بیان کرے گا ۔ میں نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا:
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ وإمَّا قالَ: مِن أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، أَنْ يُرْفَعَ العِلْمُ، وَيَظْهَرَ الجَهْلُ، وَيُشْرَبَ الخَمْرُ، وَيَظْهَرَ الزِّنَا، وَيَقِلَّ الرِّجَالُ، وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ حتَّى يَكونَ لِلْخَمْسِينَ امْرَأَةً القَيِّمُ الوَاحِدُ(صحيح البخاري:6808)
ترجمہ: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یا یوں فرمایا کہ قیامت کی نشانیوںمیں سے یہ ہے کہ علم دین دنیا سے اٹھ جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی ، شراب بکثرت پی جانے لگے گی اور زنا پھیل جائے گا ۔ مرد کم ہو جائیں گے اور عورتوں کی کثرت ہو گی ۔ حالت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ پچاس عورتوں پر ایک ہی خبر لینے والا مرد رہ جائے گا ۔
جب کوئی عورت اس نیت سے اپنے شوہر کو دوسری شادی کرنے کا حکم دیتی ہے کہ کسی مجبور ولاچار عورت کا بھلا ہوجائے تو اس پر اللہ کی طرف سے اجر کا مستحق ہوگی ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ایک شخص کی زندگی میں ایک سے زیادہ بیوی ہو تو اس کے یہاں زیادہ مسائل ہوں گے مگر بیویوں کو ان سارے مسائل سے کیا واسطہ ؟ انہیں بغیرخرچ کے محض امور خانہ داری انجام دیناہے جبکہ کفالت سے لیکر تمام عائلی مسائل کا ذمہ دار مرد ہوتاہے مثلا بیوی بچوں کا خرچ، رہائش، تعلیم وتربیت اور علاج ومعالجہ وغیرہ۔
دوسری شادی کے بعد پریشانی اس بات سے بڑھتی ہے کہ پہلی بیوی اپنی سوکن کو اپنا دشمن سمجھ لیتی ہے ۔سوکن آپ کی دشمن نہیں ہے ، اسے اپنی بہن سمجھیں اور جس طرح شوہر سے پیار کرتی ہیں اپنی اس بہن سے پیار کریں اس طرح دونوں کی زندگی ہنسی خوشی گزرے گی بلکہ دونوں بہنیں گھریلو کام میں ایک دوسرے کو دوست سمجھ لیں تو وہ گھر سنور جائے گی اور دونوں علاحدہ علاحدہ رہتے ہوں تب زیادہ مسائل نہیں ہوتے۔
اس جگہ آپ کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں اس کو حفظ کرلیں اوراس کی روشنی میں زندگی گزاریں ان شاء اللہ جس حال میں رہیں گی خوش رہیں گی ۔
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ‏ارشاد فرمایا :
إِذَا ‏صَلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا، وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا، قِيلَ لَهَا: ادْخُلِي الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ ‏شِئْتِ{مسند احمد،الطبرانی الأوسط}‏
ترجمہ :جب عورت اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے ، اپنے ماہ {رمضان } کا روزہ رکھ لے ، اپنی شرمگاہ کی ‏حفاظت کرلے ، اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں اسکے جس دروازے سے داخل ‏ہونا چاہے داخل ہوجا ۔
ایک آخری بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ یہ جان لیں شوہر کے دل میں دوسری شادی کا خیال پیدا ہوجانے سے یہ خیال اور بھی پختہ ہوتا جائے گا جب جب آپ منع کریں گی اور جھگڑا لڑائی کریں گی ۔ دوسری شادی سے روکنے کا آپ کو اسلام نے اختیار نہیں دیا جبکہ مرد کو کرنے کا اختیار ہے پھر آپ غور کریں کہ دوسری شادی کے معاملے میں کس کا رویہ اسلام کے مطابق ہے ؟ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ آپ شوہر کو اس وقت دوسری شادی سے رکنے کا مشورہ دے سکتی ہیں جب اس میں دوسری شادی کی شرطیں نہ پاتی ہوں ۔ دوسری شادی کے لئے دو بیویوں کے درمیان عدل، دونوں کی معاشی کفالت اور دونوں کی جنسی خواہش پورا کرنے کی طاقت ہونا شرط ہے۔
ایک عورت ہونے کے ناطے مرد پہ تنقید کا کوی موقع ملے تو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے یہ سوچ کے میں اس تھریڈ پہ آ گیء ہوں سب سے پہلے تو اس قدر طویل مراسلہ کے بعد ایسا لگ رہا ھے کہ اگر دنیا کے سارے مسلمان مردوں کی دو دو تین تین شادیاں کروا دی جاتی ہیں تو کورونا سمیت دنیا کے سب مسائل حل ہو جائیں گے میرا سوال یہ ھے کہ کیا مرد کی فطرت شادی تک ہی محدود ھے اگر ایسا ھے وہ ایک نارمل مرد نہیں ھے دوسرا یہ کہ اسلام نے اس وقت چار شادیوں کی اجازت دی تھی جب زمانہ جاہلیت میں ان گنت عورتوں کا استجسال ہو رہا تھا اسوقت شادی کا ادارہ وجود پزیر ہوا تاکہ عورت کو معاشرتی سکیورٹی مل سکے خاندان کا ادارہ بن سکے بچوں کے معاملات کو نبھایا جا سکے مقصد معاشرتی انتشار کو پھیلنے سے روکا جا سکے فی زمانہ پاکستان کو اگر دیکھا جائے تو علاقائی اعتبار سے یہاں کے لوگو ن کی سائیکی ان کلچر بلکل الگ ھے کیا آج کا مرد دو تین بیویوں اور ان کی اولادوں کے حقوق (معاشی و اخلاقی) میں برابری کر سکتا ھے میرا خیال ہے ایسا بہت مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ھے کیونکہ اسطرح خاندان کا ادارہ متاثر ہوتا ھے انکے نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں غرض یہ کہ یہ ایک آئڈیل سچویشن نہیں ھے لیکن مذہب نے اس کو منع نہیں کیا کیونکہ بہت سی سچویشنز میں اسکی ضرورت بھی پڑتی ھے اس تفصیل میں ابھی نہیں جاؤں گی. اس سب کے بعد مجھےایسا بھی لگتا ھے کہ ہمارے مذہبی ادارے اپنا کام ٹھیک طور نبھا نہیں پا رہے اور معاشرتی نشوونما کا کام چھوڑ کر وہ عورت اور مرد کی بحث کو مزید الجھانے کا کام کر رہے ہیں غرض یہ کہ ان کا نکتہ فکر عورت سے شروع ہو کے عورت پہ ہی ختم ہو جاتا ھے اس سے آگے کچھ نہیں.
 

ظفری

لائبریرین
ایک عورت ہونے کے ناطے مرد پہ تنقید کا کوی موقع ملے تو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے یہ سوچ کے میں اس تھریڈ پہ آ گیء ہوں سب سے پہلے تو اس قدر طویل مراسلہ کے بعد ایسا لگ رہا ھے کہ اگر دنیا کے سارے مسلمان مردوں کی دو دو تین تین شادیاں کروا دی جاتی ہیں تو کورونا سمیت دنیا کے سب مسائل حل ہو جائیں گے میرا سوال یہ ھے کہ کیا مرد کی فطرت شادی تک ہی محدود ھے اگر ایسا ھے وہ ایک نارمل مرد نہیں ھے دوسرا یہ کہ اسلام نے اس وقت چار شادیوں کی اجازت دی تھی جب زمانہ جاہلیت میں ان گنت عورتوں کا استجسال ہو رہا تھا اسوقت شادی کا ادارہ وجود پزیر ہوا تاکہ عورت کو معاشرتی سکیورٹی مل سکے خاندان کا ادارہ بن سکے بچوں کے معاملات کو نبھایا جا سکے مقصد معاشرتی انتشار کو پھیلنے سے روکا جا سکے فی زمانہ پاکستان کو اگر دیکھا جائے تو علاقائی اعتبار سے یہاں کے لوگو ن کی سائیکی ان کلچر بلکل الگ ھے کیا آج کا مرد دو تین بیویوں اور ان کی اولادوں کے حقوق (معاشی و اخلاقی) میں برابری کر سکتا ھے میرا خیال ہے ایسا بہت مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ھے کیونکہ اسطرح خاندان کا ادارہ متاثر ہوتا ھے انکے نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں غرض یہ کہ یہ ایک آئڈیل سچویشن نہیں ھے لیکن مذہب نے اس کو منع نہیں کیا کیونکہ بہت سی سچویشنز میں اسکی ضرورت بھی پڑتی ھے اس تفصیل میں ابھی نہیں جاؤں گی. اس سب کے بعد مجھےایسا بھی لگتا ھے کہ ہمارے مذہبی ادارے اپنا کام ٹھیک طور نبھا نہیں پا رہے اور معاشرتی نشوونما کا کام چھوڑ کر وہ عورت اور مرد کی بحث کو مزید الجھانے کا کام کر رہے ہیں غرض یہ کہ ان کا نکتہ فکر عورت سے شروع ہو کے عورت پہ ہی ختم ہو جاتا ھے اس سے آگے کچھ نہیں.
بجا فرمایا آپ نے ۔۔۔۔ مگر مجال ہے کہ کسی نے میری آخری پوسٹ کا جواب دیا ہو ۔ کیونکہ وہاں راگ الاپنا مشکل ہے ۔ اور آفرین ہے سب پر کہ اس پوسٹ سے بچ بچ کر نکل رہے ہیں کیونکہ پھر چار چارشادیوں کیا افادیت خطرے میں پڑ جائے گی ۔ :D
 

ظفری

لائبریرین
کئی بار جیت چکی ہیں۔
پہلی بار میری دبئی کی کولیگ جو نارتھ کیرولینا سے تھیں دوسری بننے پر راضی تھیں کہ ہماری زوجہ کو رشتہ داروں کی محبت لاحق ہوگئیں اور پاکستان واپسی کا تقاضا کرنے لگیں اس کیبعد ہم نے اپنی نہ ہونے والی دوسری زوجہ سے مطالبہ کیا کہ میرے ساتھ دو سال بعد مکمل پاکستان جانا ہوگا۔ جس پر انہوں نے پاکستان جانے سے انکار کر لیا۔ حال ہی میں ایک جاننے والی جو عرب رومینین ہیں پاکستان آنے پر راضی ہوئیں لیکن اس بار کرونا نے یہ شادی نہ کرونا میں تبدیل کردی۔

ہم بھی ہمت ہارنے والوں میں نہیں۔ کوشش جاری ہے۔
آپ کی ہمت کو داد ہے بھئی ۔۔۔۔۔ :thinking:
 

سید عمران

محفلین
غرض یہ کہ ان کا نکتہ فکر عورت سے شروع ہو کے عورت پہ ہی ختم ہو جاتا ھے اس سے آگے کچھ نہیں.
وہ اس لیے کہ کسی کے پاس کرنے کو کچھ نہیں۔۔۔
نہ منصوبے، نہ وژن، نہ کوئی ایسا بڑا جو انہیں کسی مفید دھندے سے لگائے۔۔۔
نتیجۃً کاہلی یا غیر مفید سرگرمیوں میں وقت گنواتے ہیں یا بری صحبتوں میں پڑ کر مجرم بن جاتے ہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
بجا فرمایا آپ نے ۔۔۔۔ مگر مجال ہے کہ کسی نے میری آخری پوسٹ کا جواب دیا ہو ۔ کیونکہ وہاں راگ الاپنا مشکل ہے ۔ اور آفرین ہے سب پر کہ اس پوسٹ سے بچ بچ کر نکل رہے ہیں کیونکہ پھر چار چارشادیوں کیا افادیت خطرے میں پڑ جائے گی ۔ :D
۱)وہاں اصل بات یہ ہے کہ کچھ یتیموں کی سرپرستی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ۔
۲) غزوات ہوئے ہیں ۔
۳)وہاں عورتیں بیوہ ہوئیں ہیں۔
۴) ان کے بچے یتیم ہیں۔
۵) جس طرح ذلزلہ اور دیگر آفات میں اپیلیں کی جاتیں ہیں ۔ بلکل اسی طرح قرآن نے بھی وہاں لوگوں سے اپیل کی ہے۔
۶) اور اس سے زیادہ کوئی اور بہتر صورت نہیں ہوسکتی تھی کہ لوگ ایک سے زائد شادیاں تو کرتے ہی تھے تو ان کو اس طرف راغب کیا کہ نیکی کے اس کام کے لیئے یتیم بچوں کے ماوں سے ایک ایک ، دو دو ، تین تین یا چار چار شادیاں کرلو۔
یہ ہے چار شادیوں کی حقیقت ۔ اگر اس پر تفصیلی بحث مطلوب ہے تو میں تیار ہوں ۔ مگر اپنے دلائل اور استدال ضرور دیں کہ اس کے بغیر میں نہیں سمجھتا کہ کوئی علمی بحث ہوسکتی ہے ۔
۱ تا ۴ تک کے حالات کیا صرف صحابہ کی زندگی تک محدود تھے؟؟؟

۵) اللہ اور مخلوق سے اپیل کریں، چہ معنی دارد؟؟؟
وہاں یا تو حکم دیا جاتا ہے یا ترغیب!!!

۶) صحابہ کا اس عمل پر کتنا تعامل تھا کہ انہوں نے یتیم بچوں کی ماؤں کے سوا کسی اور سے نکاح نہیں کیے؟؟؟
 

ظفری

لائبریرین
۱ تا ۴ تک کے حالات کیا صرف صحابہ کی زندگی تک محدود تھے؟؟؟

۵) اللہ اور مخلوق سے اپیل کریں، چہ معنی دارد؟؟؟
وہاں یا تو حکم دیا جاتا ہے یا ترغیب!!!

۶) صحابہ کا اس عمل پر کتنا تعامل تھا کہ انہوں نے یتیم بچوں کی ماؤں کے سوا کسی اور سے نکاح نہیں کیے؟؟؟
میری پوسٹ سے آپ نے یہ چھ تنقیدی نکات اٹھائے ہیں تو میں صرف یہ کہوں گا کہ آپ نے میری پوسٹ کو صحیح طور پر پڑھا ہی نہیں ۔بلکہ سمجھا ہی نہیں ۔:thinking:
 

لاریب مرزا

محفلین
سوال نمبر دو قابل جواب ہے۔
اگر آپ نے نہیں سنا کہ کسی نے بیوہ یا مطلقہ کا بھلا کیا ہو تو یقین مانیئے اس میں صاحب مضمون یا حمایتی کچھ نہیں کر سکتے۔ اور نہ ہی ان کا قصور ہے۔

باقی سوالات قابل غور یا جواب نہیں ہیں بلکہ سپام ہیں۔
جی بالکل اچھی طرح سمجھ گئے. :) شکریہ
 

سید عمران

محفلین
میری پوسٹ سے آپ نے یہ چھ تنقیدی نکات اٹھائے ہیں تو میں صرف یہ کہوں گا کہ آپ نے میری پوسٹ کو صحیح طور پر پڑھا ہی نہیں ۔بلکہ سمجھا ہی نہیں ۔:thinking:
اگر زحمت نہ ہو تو مختصرا تحریر کردیں یا کوئی سابقہ حوالہ دے دیں!!!
 
مدیر کی آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
مندرجہ بالا کلپ سننے کے ساتھ ہی مزید ایسے کئی کلپ نظر آئیں گے جو کہ 4 سے 6 منٹ کے ہیں۔

امید ہے آپ سب کی تسلی ہو جائے گی۔
 

dxbgraphics

محفلین
ایک عورت ہونے کے ناطے مرد پہ تنقید کا کوی موقع ملے تو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے یہ سوچ کے میں اس تھریڈ پہ آ گیء ہوں سب سے پہلے تو اس قدر طویل مراسلہ کے بعد ایسا لگ رہا ھے کہ اگر دنیا کے سارے مسلمان مردوں کی دو دو تین تین شادیاں کروا دی جاتی ہیں تو کورونا سمیت دنیا کے سب مسائل حل ہو جائیں گے میرا سوال یہ ھے کہ کیا مرد کی فطرت شادی تک ہی محدود ھے اگر ایسا ھے وہ ایک نارمل مرد نہیں ھے دوسرا یہ کہ اسلام نے اس وقت چار شادیوں کی اجازت دی تھی جب زمانہ جاہلیت میں ان گنت عورتوں کا استجسال ہو رہا تھا اسوقت شادی کا ادارہ وجود پزیر ہوا تاکہ عورت کو معاشرتی سکیورٹی مل سکے خاندان کا ادارہ بن سکے بچوں کے معاملات کو نبھایا جا سکے مقصد معاشرتی انتشار کو پھیلنے سے روکا جا سکے فی زمانہ پاکستان کو اگر دیکھا جائے تو علاقائی اعتبار سے یہاں کے لوگو ن کی سائیکی ان کلچر بلکل الگ ھے کیا آج کا مرد دو تین بیویوں اور ان کی اولادوں کے حقوق (معاشی و اخلاقی) میں برابری کر سکتا ھے میرا خیال ہے ایسا بہت مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ھے کیونکہ اسطرح خاندان کا ادارہ متاثر ہوتا ھے انکے نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں غرض یہ کہ یہ ایک آئڈیل سچویشن نہیں ھے لیکن مذہب نے اس کو منع نہیں کیا کیونکہ بہت سی سچویشنز میں اسکی ضرورت بھی پڑتی ھے اس تفصیل میں ابھی نہیں جاؤں گی. اس سب کے بعد مجھےایسا بھی لگتا ھے کہ ہمارے مذہبی ادارے اپنا کام ٹھیک طور نبھا نہیں پا رہے اور معاشرتی نشوونما کا کام چھوڑ کر وہ عورت اور مرد کی بحث کو مزید الجھانے کا کام کر رہے ہیں غرض یہ کہ ان کا نکتہ فکر عورت سے شروع ہو کے عورت پہ ہی ختم ہو جاتا ھے اس سے آگے کچھ نہیں.

ماشاء اللہ محترم خود ہی سوال کرتے ہیں اور شادیوں کی اجازت کی نفی کرتے ہیں اور پھر دوبارہ اسی کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ منع نہیں کیا۔
کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

زونی

محفلین
ماشاء اللہ محترم خود ہی سوال کرتے ہیں اور شادیوں کی اجازت کی نفی کرتے ہیں اور پھر دوبارہ اسی کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ منع نہیں کیا۔
کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔

بار بار پڑھیں گے تو امید ھے کہ سمجھ میں آ ہی جائے گا میں نے نفی تو کہیں نہیں کی لگتا ھے ساری باتیں آپکے اوپر سے گزر گئ ہیں اور صرف اجازت والا پورشن ہی سمجھنا چاہ رہے ہیں آپ.
 

زونی

محفلین
کئی بار جیت چکی ہیں۔
پہلی بار میری دبئی کی کولیگ جو نارتھ کیرولینا سے تھیں دوسری بننے پر راضی تھیں کہ ہماری زوجہ کو رشتہ داروں کی محبت لاحق ہوگئیں اور پاکستان واپسی کا تقاضا کرنے لگیں اس کیبعد ہم نے اپنی نہ ہونے والی دوسری زوجہ سے مطالبہ کیا کہ میرے ساتھ دو سال بعد مکمل پاکستان جانا ہوگا۔ جس پر انہوں نے پاکستان جانے سے انکار کر لیا۔ حال ہی میں ایک جاننے والی جو عرب رومینین ہیں پاکستان آنے پر راضی ہوئیں لیکن اس بار کرونا نے یہ شادی نہ کرونا میں تبدیل کردی۔

ہم بھی ہمت ہارنے والوں میں نہیں۔ کوشش جاری ہے۔
اچھا مشغلہ ھے میرے خیال سے آپ نے شادی کو ابھی کھیل تماشہ ہی سمجھ رکھا ھے.
 

زیک

مسافر
کئی بار جیت چکی ہیں۔
پہلی بار میری دبئی کی کولیگ جو نارتھ کیرولینا سے تھیں دوسری بننے پر راضی تھیں کہ ہماری زوجہ کو رشتہ داروں کی محبت لاحق ہوگئیں اور پاکستان واپسی کا تقاضا کرنے لگیں اس کیبعد ہم نے اپنی نہ ہونے والی دوسری زوجہ سے مطالبہ کیا کہ میرے ساتھ دو سال بعد مکمل پاکستان جانا ہوگا۔ جس پر انہوں نے پاکستان جانے سے انکار کر لیا۔ حال ہی میں ایک جاننے والی جو عرب رومینین ہیں پاکستان آنے پر راضی ہوئیں لیکن اس بار کرونا نے یہ شادی نہ کرونا میں تبدیل کردی۔

ہم بھی ہمت ہارنے والوں میں نہیں۔ کوشش جاری ہے۔
یعنی ہمہ وقت فلرٹ کرنا آپ کا فرض منصبی ہے
 

زیک

مسافر
آپ پاکستان کے اس اعداد و شمار پر یقین رکھتے ہیں؟ میں تو کم از کم نہیں رکھتا۔

غیر شادی شدہ کا تناسب ہر دوسرے تیسرے گھر میں چار خواتین شادی نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں بیٹھی ہیں۔۔
اگر پاکستانی مردم شماری کہ خواتین کی تعداد مردوں سے کم ہے کو غلط بھی مان لیا جائے تو بھی مردوں اور عورتوں کی تعداد تقریباً برابر ہی ہے۔ ایسی صورت میں اگر ایک مرد دو شادیاں کرے گا تو ایک اور مرد کنوارہ رہ جائے گا۔

اگر آپ پرانے وقتوں کے مسلمانوں کی بات کریں تو وہ جنگ اور قتل و غارت میں مصروف رہتے تھے جس میں کافی مرد مارے جاتے تھے اور خواتین کی تعداد ان سے زیادہ ہو جاتی تھی
 
آخری تدوین:

dxbgraphics

محفلین
اگر پاکستانی مردم شماری کہ خواتین کی تعداد مردوں سے کم ہے کو غلط بھی مان لیا جائے تو بھی مردوں اور عورتوں کی تعداد تقریباً برابر ہی ہے۔ ایسی صورت میں اگر ایک مرد دو شادیاں کرے گا تو ایک اور مرد کنوارہ رہ جائے گا۔

اگر آپ پرانے وقتوں کے مسلمانوں کی بات کریں تو وہ جنگ اور قتل و غارت میں مصروف رہتے تھے جس میں کافی مرد مارے جاتے تھے اور خواتین کی تعداد ان سے زیادہ ہو جاتی تھی

صحیح فرمایا آپ نے جو شادی کی استطاعت نہیں رکھتا اس کے لئے غیر شادی شدہ ، بیوہ یا مطلقہ کو گھروں میں تو نہیں بٹھایا جاسکتا تو جو حیثیت رکھتا ہے وہ کسی غیر شادی شدہ، بیوہ یا مطلقہ کا گھر بساکر اس کو بھی ازدواجی زندگی جینے کا حق ہی فراہم کرتا ہے ۔

ویسے کمال کرتے ہیں ہمیں اشاروں اشاروں میں جواب بھی عنایت کردیتے ہیں زیک بھائی۔
 
Top