اپنے شوہرکو دوسری شادی سے روکنے والی بہنوں کے نام

سید عمران

محفلین
صرف آیک عدد آیت فراہم کی ہے۔ مجھے آزاد یعنی غیر یتیم عورتوں سے ایک سے زائید شادی کی کوئی آیت نہیں ملتی۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ معاشرے میں غریب ، یتیم عورتوں کو سہارا دینے کے لئے یہ جازت دی گئی ہے نہ کہ شہوت رانی کے لئے۔ ؟
آپ نے جواب نہیں دیا کہ لاکھوں صحابہ کا عمل اس بارے میں کیا تھا؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
کیا آئی کیو لیول ہے محترم فاروق صاحب

میرا مراسلہ بار بار پڑھیئے گا۔
ذاتیات سے نکل کر ، اصل نکتے کی طرف آئیے۔ یہاں اللہ تعالی صاف صاف فرمارہے ہیں کہ معاشرے میں یتیم عورتوں کا تحفظ ، ایک سے زائید شادی کرکے کیا جاسکتا ہے۔ مقصد ہے ان خواتین کا تحفظ نا کہ شہوت رانی۔

رہ گئی آئی کیو کی بات تو ، بھائی میرا آئی کیو ، میری عمر سے بھی کم ہے۔ :)
لیکن روایات کسی بھی حساب کتاب میں قرآن کے مقابلے میں اس لئے کمزور پڑ جاتی ہیں کہ زیادہ تر من گھڑت ہیں اور اسلام مخالف حکمرانوں کی خوشیوں کے لئے لکھی گئی تھیں۔ جہاں یہ درست ہے کہ قرآن اور سنت ، وہٰں یہ بھی درست ہے کہ قرآن یا روایات۔ آپ اس کی مثال میرے ایک دوسرے دھاگے میں دیکھئے جو میں ابھی زکواۃ کی مد میں لکھنے جارہا ہوں ، انشاء اللہ تعالی، مدیران کی نظر عنایت کے بعد آپ کو بھی دیکھنے کو ملے گا۔ آپ کو بھی دعوت ہے کہ وہاں کرم فرمائی کیجئے
 

dxbgraphics

محفلین
اسی لیے کنٹرول میں رکھنا چاہیے اسٹارٹ سے ہی۔۔۔۔ مردوں کو ساری سنتیں اور فرضوں میں بس یہی یاد رہتا اکثر

بہن کمبخت کنٹرول ہی آڑے آیا ہوا ہے وگرنہ تمام فرائض و سنت کے بعد یہ سنت باقی ہے جسے ہمیں ادا کرنے سے روکا جا رہا ہے
 

dxbgraphics

محفلین
ذاتیات سے نکل کر ، اصل نکتے کی طرف آئیے۔ یہاں اللہ تعالی صاف صاف فرمارہے ہیں کہ معاشرے میں یتیم عورتوں کا تحفظ ، ایک سے زائید شادی کرکے کیا جاسکتا ہے۔ مقصد ہے ان خواتین کا تحفظ نا کہ شہوت رانی۔

رہ گئی آئی کیو کی بات تو ، بھائی میرا آئی کیو ، میری عمر سے بھی کم ہے۔ :)
لیکن روایات کسی بھی حساب کتاب میں قرآن کے مقابلے میں اس لئے کمزور پڑ جاتی ہیں کہ زیادہ تر من گھڑت ہیں اور اسلام مخالف حکمرانوں کی خوشیوں کے لئے لکھی گئی تھیں۔ جہاں یہ درست ہے کہ قرآن اور سنت ، وہٰں یہ بھی درست ہے کہ قرآن یا روایات۔ آپ اس کی مثال میرے ایک دوسرے دھاگے میں دیکھئے جو میں ابھی زکواۃ کی مد میں لکھنے جارہا ہوں ، انشاء اللہ تعالی، مدیران کی نظر عنایت کے بعد آپ کو بھی دیکھنے کو ملے گا۔ آپ کو بھی دعوت ہے کہ وہاں کرم فرمائی کیجئے
جناب ذاتیات کی بات کہاں سے آگئی۔ میری پوسٹ پر آپ کا جواب دیکھیں۔
پھر میری پوسٹ کو دوبارہ کئی بار پڑھیں راکٹ سائنس والی اردو نہیں بلکہ سادی سی اردو میں لکھا ہے۔
ہماری مجال کبھی بھی ذاتیات والی نہیں ہوسکتی۔
 
یتیم خواتین کی سرپرستی اور ان عورتوں یعنی ان عورتوں کے بچوں کے ساتھ عدل و انصاف بنیادی مقاصد ہیں۔ بھائی لوگوں نے اس کو سنت کے نام پر شہوت رانی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ جب کہ یہ پبلک ویلفئر کے نظام کا ایک حصہ ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
جی ہاں، سب خیالی باتیں ہیں۔۔۔
یار لوگ ایسے ہی خوش ہوتے ہیں تو ہونے دیں۔۔۔
ہوائی قلعہ اور خیالی پلاؤ، نہ خرچہ نہ پانی!!!
جی بلکل صحیح فرمایا آپ نے سوچنے پر بلکہ بولنے پر بھی خرچہ نہیں آتا۔
کبھی کبھار گھر میں ایسے مطالبات کرتے رہتے ہیں۔ رد عمل کافی سخت رہتا ہے
ایک دفعہ تو بیگم اور بھابی اکٹھی ایک محاذ پر میرے خلاف کھڑی ہوگئیں اور کہا کہ انصاف کہاں سے کرو گے۔ الگ گھر کہاں سے بندوبست کروگے۔ مزاح کے موڈ میں تھے کہا کہ انصاف ایسے ہوگا کہ کمرہ بڑا ہے اس میں پارٹیشن کرلیں گے اور جتنا سامان بیگم کا ہے وہ آدھا دوسری کو دے دونگا
آج تک کسی نے انصاف کی یاددہانی نہیں کرائی۔ الٹا بیگم نے کہا کہ میں سوتن اپنے گھر میں برداشت نہیں کرسکتی۔ اسے گھر سے باہر ہی رکھنا۔ ہمیں یہ انصاف منظور نہیں۔
 
جناب ذاتیات کی بات کہاں سے آگئی۔ میری پوسٹ پر آپ کا جواب دیکھیں۔
پھر میری پوسٹ کو دوبارہ کئی بار پڑھیں راکٹ سائنس والی اردو نہیں بلکہ سادی سی اردو میں لکھا ہے۔
ہماری مجال کبھی بھی ذاتیات والی نہیں ہوسکتی۔

آپ اس دھاگے میں ملاحظہ فرمائیے کہ موجودہ کتب روایات نامکمل ہیں
فتح الباری صحیح البخاری کے دیباچے میں یہ درج ہے کہ ایک تو روایات مرتب کرنے والے خود مانتے ہیں کہ ، ان لوگوں نے اٹھانوے اعشاریہ پانچ فی صد ، روایات رد کردیں۔ جی ؟ اور دوسرے یہ روایات ، کسی بھی حساب کتاب کے معاملے میں بہت جلد فیل ہوجاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اقوال و افعال رسول اکرم سے انکار بلکہ اس بات کا اعتراف کہ ان روایات کا اصل حجم موجود نہیں
 

ظفری

لائبریرین
ذاتیات سے نکل کر ، اصل نکتے کی طرف آئیے۔ یہاں اللہ تعالی صاف صاف فرمارہے ہیں کہ معاشرے میں یتیم عورتوں کا تحفظ ، ایک سے زائید شادی کرکے کیا جاسکتا ہے۔ مقصد ہے ان خواتین کا تحفظ نا کہ شہوت رانی۔
میری تو آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام نے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی ہے ۔ اس سے تو یہ تاثر ابھرتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اس سے پہلے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت نہیں تھی ۔ یعنی پیغمبر کی بعثت سے پہلے لوگ ایک ہی شادی کرتے تھے مگر پیغمبر کی بعثت کے بعد لوگوں کو یہ اجازت ہوئی کہ ایک سے زیادہ شادی کرسکتے ہیں ۔ یہ بلکل حقائق کے برعکس ہے ۔ جب سے یہ دنیا وجود پذیر ہوئی ۔ مختلف قبائل اور معاشرے میں لوگوں نے اپنے تمدنی ،قبائلی اور سماجی لحاظ سے ایک سے زیادہ شادی کرتے رہے ہیں ۔ عرب قبائلی معاشرے میں بھی اسی طرح ایک سے زیادہ شادیوں کا رواج تھا اور اکثر وہ ایک غیرمحدود تعداد تک بھی پہنچ جاتی تھی ۔ اگر بائیبل کا بھی مطالعہ کیا جائے تو وہاں سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل کے اپنے قومی مزاج میں بھی یہ سوچ شامل رہی ہے ۔ اسی طرح اگر دوسری قوموں اور تہذیبیوں کا بھی مطالعہ کریں تو وہاں بھی یہی رواج ملے گا ۔ میرا خیال ہے کہ صورتحال کو اس طرح پیش نہیں کرنا چاہیئے کہ اسلام آیا اور اس نے آکر پھر ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی۔
اگر بات کو صحیح طور پر بیان کرنا ہے تو اس کو اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اسلام سے پہلے ایک سے زیادہ شادیوں کا جو رواج تھا ۔ اسلام نے اس پر پابندی نہیں لگائی۔ یعنی اگر کوئی پابندی لگائی بھی تو اصلاح کے طور پر لگائی مگر اس کو اس طور پر ممنوع نہیں کیا کہ ایک سے زائد شادی نہیں کرسکتے ۔ مگر جہاں تک اسلام کے مزاج کا تعلق ہے تو وہ قصہِ آدم اور حوا سے معلوم ہوجاتا ہے ۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضع کردی ہے کہ فطری طور پر مرد کو ایک ہی بیوی سے معاملات کرنا چائیں ۔ اسی سے ایک آئیڈل خاندان وجود میں آتا ہے ۔ اسی سے تعللقات کی ایک صحیح نہہج قائم ہوتی ہے ۔ اصل میں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت یہی ہے ۔
اب دوسری بات یہ ہے انسان کی مختلف ادوار میں تہذیب و تمدن اور سماجی رسم و رواج تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو ہمارے برصغیر میں ایک مختلف تمدن و تہذیب ہے ۔ عربوں کے ہاں مختلف ہے ۔اسی طرح یہ فرق دوسری مسلم قوموں میں بھی واضع نظر آجائے گا ۔ اصل میں قرآن میں یہ اجازت دینے کے محل میں مذکور ہی نہیں ہے ۔ وہاں اصل بات یہ ہے کہ کچھ یتیموں کی سرپرستی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ۔ غزوات ہوئے ہیں ۔ وہاں عورتیں بیوہ ہوئیں ہیں ۔ ان کے بچے یتیم ہیں ۔ جس طرح ذلزلہ اور دیگر آفات میں اپیلیں کی جاتیں ہیں ۔ بلکل اسی طرح قرآن نے بھی وہاں لوگوں سے اپیل کی ہے اور اس سے زیادہ کوئی اور بہتر صورت نہیں ہوسکتی تھی کہ لوگ ایک سے زائد شادیاں تو کرتے ہی تھے تو ان کو اس طرف راغب کیا کہ نیکی کے اس کام کے لیئے یتیم بچوں کے ماوں سے ایک ایک ، دو دو ، تین تین یا چار چار شادیاں کرلو۔ یہ ہے چار شادیوں کی حقیقت ۔ اگر اس پر تفصیلی بحث مطلوب ہے تو میں تیار ہوں ۔ مگر اپنے دلائل اور استدال ضرور دیں کہ اس کے بغیر میں نہیں سمجھتا کہ کوئی علمی بحث ہوسکتی ہے ۔
 

لاریب مرزا

محفلین
پاکستان میں ایسے مرد حضرات بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جن کی ابھی پہلی شادی بھی نہیں ہوئی. لہٰذا پہلے ان کو موقع ملنا چاہیے. اس لیے شادی شدگان زیادہ جوش میں نہ آئیں اور ذرا آرام سے بیٹھیں. :p

دوسری بات، ہمارے معاشرے میں سب سے بڑی لعنت جہیز اور شادی کے اخراجات ہیں. اگر "سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" پر عمل کر کے شادی کی جائے تو نہ صرف امیر کے لیے بلکہ غریب کے لیے بھی معاشرے میں شادی ایک آسان عمل ہو. نمائش اور دکھاوے نے سب سے زیادہ ہمارے معاشرے کو زنا کی پستی میں دھکیلا ہے. یعنی کچھ سنتیں تو ہم یاد رکھتے ہیں اور کچھ بھول جاتے ہیں.

یہاں ہم ایک اور بات کا ذکر کرنا چاہیں گے. شادی شدگان دوسری شادی کے لیے یہ عذر بھی دیتے ہیں کہ چلو کسی غریب کا بھلا ہو جائے گا. چونکہ وہ ایک دفعہ کُھل کر خرچ (یعنی دھوم دھڑکے سے پہلی شادی) کر چکے ہوتے ہیں تو دوسری کی دفعہ وہ کہتے ہیں کہ "ارمان" پورے نہ بھی ہوں تو خیر ہے. بھئی دوسری شادی کیوں دھوم دھڑکے سے نہیں کرتے؟ بلکہ چھپ چھپا کے، چند لوگ بلا کے کسی گناہ کی طرح کیوں یہ عمل کیا جاتا ہے؟؟ اور کسی غریب کا بھلا کرنا ہی ہے تو اسے جہیز کی رقم دے کر بھلا کیوں نہیں کیا جاتا؟
 
Top