دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

شمشاد

لائبریرین
تو دریا ہے تو ہوگا ہاں مگر اتنا سمجھ لینا
ترے جیسے کئی دریا مری آنکھوں میں رہتے ہیں
نفس انبالوی

آنکھ
 

شمشاد

لائبریرین
راہ کے طالب ہیں پر بے راہ پڑتے ہیں قدم
دیکھیے کیا ڈھونڈھتے ہیں اور کیا پاتے ہیں ہم

الطاف حسین حالی

قدم
 

شمشاد

لائبریرین
یہ جو دیوار پہ کچھ نقش ہیں دھندلے دھندلے
اس نے لکھ لکھ کے میرا نام مٹایا ہوگا

ساغرؔ اعظمی

دیوار
 

شمشاد

لائبریرین
ہر طرف تھی خاموشی اور ایسی خاموشی
رات اپنے سائے سے ہم بھی ڈر کے روئے تھے

بھارت بھوشن پنت

سایہ
 
آپ کے دیئے گئے شعر کا دوسرا مصرعہ کچھ گڑبڑ لگ رہا ہے۔

اے میرے غمخوارو کوئی بات کرو
یوں نہ ہمت ہارو کوئی بات کرو

اس گھر میں تو صدیوں سے خاموشی ہے
تم ہی اب دیواروں کوئی بات کرو

بس اک چاند کے کھو جانے پر کیوں چپ ہو
آخر شب کے تاروں کوئی بات کرو

عشق اگر الزام تو الزام سہی
پتھر تو نہ مارو کوئی بات کرو

مجھ کو میری کم گوئی نے مارا ہے
تم کیوں چپ ہو یارو کوئی بات کرو

کس کس کے کچے گھر کو مسمار کیا
محلوں کے معماروں کوئی بات کرو

کشفی گھر کیوں سونا لگتا ہے
گھر کے پہریدارو کوئی بات کرو
 

شمشاد

لائبریرین
اے میرے غمخوارو کوئی بات کرو
یوں نہ ہمت ہارو کوئی بات کرو

اس گھر میں تو صدیوں سے خاموشی ہے
تم ہی اب دیواروں کوئی بات کرو

بس اک چاند کے کھو جانے پر کیوں چپ ہو
آخر شب کے تاروں کوئی بات کرو

عشق اگر الزام تو الزام سہی
پتھر تو نہ مارو کوئی بات کرو

مجھ کو میری کم گوئی نے مارا ہے
تم کیوں چپ ہو یارو کوئی بات کرو

کس کس کے کچے گھر کو مسمار کیا
محلوں کے معماروں کوئی بات کرو

کشفی گھر کیوں سونا لگتا ہے
گھر کے پہریدارو کوئی بات کرو
اس غزل میں شعر نمبر ایک میں "ہارو" ہے، چوتھے میں "مارو"، بانچویں میں "یارو" اور ساتویں میں "پہریدارو" ہے۔
جبکہ دوسرے شعر میں "دیواروں"، تیسرے میں "تاروں" اور چٹھے شعر میں "معماروں" ہے۔

یہ دیوارو، تارو اور معمارو ہونا چاہیے۔
 

سیما علی

لائبریرین
میں اپنے سائے میں بیٹھا تھا کتنی صدیوں سے
تمہاری دھوپ نے دیوار توڑ دی میری

نعمان شوق

صدی
صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں

امجد اسلام امجد

خواب
 
Top