اسلام اور جمہوریت

فرخ منظور

لائبریرین
شاخوں کی آبیاری اور جڑوں کے کھوکھلے پن سے لاپرواہی ۔ طلائی لفظوں سے لکھا جانے کے قابل ہے سخنور کا یہ جملہ۔

چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں
ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

سخنور - بہت شکریہ ان اشعار کو شئیر کرنے کا۔ شاعری ایک طرف۔ کتاب اللہ کے فراہم کردہ اس آئین اور ان اصولوں کی بابت سوال کرتے ہیں جو شیطان مسلمان کی آنکھ سے اوجھل رکھنا چاہتا ہے۔ کیا اس آئین کی کوئی زندہ اور عملی مثال ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ قادر مطلق کا مجوزہ آئین ہو اس دنیا میں کہیں بھی جاری و ساری نہ ہو؟

بہت شکریہ سرور صاحب میں اتنی تعریف کا متحمل نہیں ہو سکتا - لیکن یہ شاعری نہیں
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ مئے خانہ
(اقبال)
دوسرا آپ کا سوال مجھ پر واضح نہیں ہو سکا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں - کیا آپ اس کی مزید وضاحت فرما سکتے ہیں‌؟
 
معافی چاہتا ہوں۔ سوال آپ سے نہیں تھا۔ لیکن مناسب نہ لکھنے کے باعث ایسا بن گیا۔ عمومی سوال تھا کہ جس آئین کا تذکرہ ان اشعار میں علامہ اقبال نے کیا ہے وہ آئین خداوندی صرف کتاب تک محدود ہے یا کہیں کسی شکل میں چل رہا ہے؟
 
شکریہ محب!
بہت خوبصورتی سے پہلو بچایا اور عمر میرزا نے بھی آپ کی بات کو غنیمت جانتے ہوئے فوراً اس پر صاد فرمایا:)
ورنہ اس چنگل سے سب لوگوں کو اپنی جان چھڑانا مشکل ہو رہی تھی

میرا خیال ہے کہ اس بحث کو اس بات کے ساتھ ختم کر دینا ہی بہتر ہو گا کہ


چاھے خلیفہ کا چنائو
اس امر پہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیات طیبہ کے آخری دنوں میں جس کو نماز کے مصلی پر کھڑا کیا تھا وہی ان کا جانشین ہوگا﴾
یا پھر اس کے برعکس ثقیفہ بنی ساعدہ میں ہنگامی حالات کے اندر انصار و مہاجرین کی بحث و جدال سے ہو
﴿یہ الگ بات کہ اگر انصار مہاجرین کی تقاریر کو ملاحظہ فرمایا جائے تو ان سے ہی معلوم ہو جائے گا کہ خلیفہ کے انتخاب اور اہلیت کے لیے کیا کیا دلائل پیش کیے گئے﴾

یا پھرخلیفہ کا انتخاب کسی کی جانب سے نامزدگی پر ہو

یا شش افرادی مجلس شوریٰ کے تحت عمل میں لایا جائے
﴿یہ الگ بات کہ شورائی نظام کے تحت بھی ایک شخص کو مستحق اول جان کر جب اس کی جانب دستِ بیعت بڑھایا جائے تو اس پر پھر شرط عائد کر دی جائے کہ وہ قرآن و سنت کے علاوہ اپنے سے پہلے دو خلیفوں کی سنت کونظام خلافت کا لازمہ بنائے گا اور جب اس شخص کی جانب سے سابقہ دو خلفاء کی سنت کو معیار بنانے سے انکا سامنے آئے تو دستِ بیعت کو واپس کھینچ لیا جائے﴾ ﴿ اس سے بھی مزے کی بات یہ کہ دوسرے مستحق پر بھی یہی شرط پیش کی جائیں اور اس کے قبول کر لینے پر اس کی بیعت کر لی جائے چاہے وہ خلافت کے انعقاد کے بعد ان پر کبھی بھی عمل نہ کرےاور عملاً اپنی پوری زندگی میں سابقہ دو خلفاء کی سنت کو نافذ نہ کر سکے﴾

یا پھرایک خلیفہ کی شہادت کے بعد ہجوم عام میں کسی پر خلافت کا بوجھ لاد دیے جانے سے خلافت منقد ہو جائے﴿یہ الگ بات کہ خلافت راشدہ کے انعقاد کے بعد پھر اس کے خلاف بغاوت کر تے ہوئے عملا خلافت پر قبضہ کر کے خود امیر المومین کا لقب اختیار کر لیا جائے﴾

یا۔۔۔۔۔۔ خلیفہ بننے کے بعد اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کے حق میں بالجبر بیعت حاصل کر کے خلافت اس کی طرف منتقل کر دی جائے

یا دور جدید میں ملک کے سربراہ کا چنائو الیکشن کے ذریعہ سے ہو

ان تمام صورتوں میں منتخب ہونے والی خلافت اس وقت تک اسلامی نہیں کہلا سکتی جب تک وہ خلافت
حقوق العب۔۔۔۔۔۔۔اد کی فراہمی کا مکمل بندوبست نہ کر دے
خلافت اگر ایسا نہیں کر پاتی تو وہ کسی بھی طور اسلامی کہلانے کی مستحق نہیں چاہے اس کا انتخاب کسی بھی ذریعہ سے کیا گیا ہو
میرا خیال ہے اس سے تو سبھی کو اتفاق ہو گا۔؟؟

شاکر صاحب میں نے پہلو نہیں بچایا ہے کیونکہ یہ میرے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک ہے انشاءللہ اس پر طویل گفتگو ہوگی میں نے صرف یہ عرض کیا ہے کہ کچھ دیر کے لیے گفتگو کو موخر کر دیا جائے تاکہ میں کچھ مواد اور تیاری کے ساتھ اس بحث کو آگے بڑھا سکوں نہ کہ صرف کلام اور گفتار کے زور پر :)

اگر مقصد گفتار کے غازی ہی بننا ہے تو اس کے لیے تو میں پہلے ہی ایوارڈ یافتہ ہوں بحث کس لیے کروں ;)
 
اسلام و جمہوریت:
سوال تو بہت سے ہیں لیکن سب ایک ساتھ نہیں۔ (اخٹصار کے لیے لکھا ہے - قرآن کہتا ہے - ‌ مقصد یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہیں)

بحیثیت مسلمان، ہم قرآن کو اللہ کا فرمان مانتے ہیں، لیکن مزے کی بات یہ ہے اس کی عبادات کے علاوہ کسی بھی فرمان کو ماننے کے لئے قطعاَ تیار نہیں۔

1۔ من حیث القوم کام کرنے کے تصور کی کمی
قرآن کہتا ہے کہ یہ فرمان بنی نوع انسان کے لئے 'من حیث القوم' ہے - ہم کہتے ہیں - جی نہیں ، یہ صرف 'فرد واحد' کے لئے ہے، 'فرد واحد' عبادات کرے، 'فرد واحد' خلیفہ ہو، 'فرد واحد' ہیرو ہو، 'فرد واحد' بادشاہ ہو، ملک ہو، خادم الحرمین الشریفین ہو، یہاں تک کے 'فرد واحد' اگر خدا بھی ہو تو کیا مضائقہ ہے۔ ہم بار بار دہرائے جانے والے قرآن کے اندازِ تخاطب پر غور ہی نہیں کرتے -
" [ARABIC]يَا أَيُّهَا النَّاسُ[/ARABIC]" ہو یا،
[ARABIC]هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّ۔لَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ [/ARABIC] اس میں 'فرد واحد' اور 'من حیث القوم ' کی تمیز نہیں‌کرتے۔
[ARABIC] وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ وَارْكَعُواْ مَعَ الرَّاكِعِينَ [/ARABIC]میں جھکنے والوں کے ساتھ جھکنے کا سبق سیکھنے کے بجائے ، اپنا اپنا کا سبق پڑھاتے ہیں۔ کبھی ہم یہ نہیں کہتے کہ سب مل کر جھکنے والوں کی صف میں شامل ہوجائیں
اور[ARABIC] " إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ [/ARABIC]" یعنی "یقیناَ‌ًَ وہ سب جو اللہ کے اس پیغام کو قبول کرتے ہیں" کی مثال بن جائیں۔ سخنور نے کیا خوب کہا کہ ہماری توجہ جڑوں کے کھوکھلے پن پر نہیں ، صرف شاخوں پر ہے۔ ہم یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ جہاں قرآن ہم کو سنہری اصول اور سنت ہم کو ان اصولوں کی جزئیات سکھاتی ہے، وہاں‌ان دونوں میں سے کوئی بھی ہم سے "من حیث القوم " اجتماعی فیصلے کرنے کا حق نہیں چھینتے۔ یہ اور بات ہے ہم ان اصولوں کو مانتے ہی نہیں۔ اور ایک قوم بننے کے لئے تیار ہی نہیں۔ مل کر کوئی قانون بنانے کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں۔ کیا اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامنے والا فرمان ؟ "من حیث القوم " کا داعی نہیں؟ لیکن مکمل اتحاد کی تلقین پر ہر عمل کو ہم اسلام کے خلاف تصور کرتے ہیں ۔ اور تو اور اگر ہم مل کر قانون بنائیں یا آئین لکھیں تو اس کو بھی غیر اسلامی تصور کرتے ہیں۔ ایسا کیوں؟ کیا باہمی اتحاد صرف حج و نماز یا صرف عبادات تک محدود ہے؟ کیا حقوق العباد کا پورا کرنا عبادات نہیں؟

باقی بعد میں :)

والسلام،
 
اسلام اور جمہوریت

2۔ عدل و انصاف کی کمی
درج ذیل اقتباس دیکھئے، یہ محب علوی نے جنگ کی ایک خبر سے لیا ہے۔ شکریہ محب۔
محب علوی نے کہا:
اسلام آباد ( نمائندہ جنگ) معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ صدر پرویز مشرف کے تمام اقدامات غیر آئینی ہیں،۔۔۔۔۔ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرف سے امریکی وزیر خارجہ، برطانوی وزیر اعظم، فرانسیسی صدر ، یورپی حکام اور ڈیووس اکنامک فورم کے چےئرمین کے نام لکھے گئے کھلے خط میں کہا گیا ہے کہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے 60 ججوں کو برطرف کر دیا گیا ہو، انہیں گرفتار اور نظر بند کر دیا گیا ہو، تاریخ میں کسی بادشاہت کے دور میں بھی ایسی مثال نہیں ملتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید دیکھئے۔۔۔۔
جنگ اخبار 01 فروری
عدل اور انصاف، کم ازکم آج کل ایک کھیل تماشے سے زیادہ نہیں۔ یہ صرف مشرف کے لئے درست نہیں، اس سے پچھلے تمام سربراہان کے لئے درست ہے۔ عدل کو موڑ لینا، رشوت دے دینا، قوانیں تبدیل کردینا، حتی کے آئین تبدیل کردینا، ایک کھیل رہا ہے، قصوروار کون؟ مشرف؟ نواز شریف، بے نظیر، ضیاء ، بھٹو، ٰیحیی ، ایوب، سکندر مرزا، ملک غلام محمد ، خواجہ نطام الدین ؟ یہ تو کل دس ہوئے؟ یعنی 16 کروڑ میں صرف دس افراد عدل و انصاف سے عاری تھے یا ہیں؟ کیا کہا؟ لیاقت علی خان اور قائداعظم کو میں بھول گیا؟ صاحب ان دونوں کو سب ہی عدل و انصاف پسندوں میں گنتے ہیں۔ لہذا یہ اس گنتی میں نہیں۔
آپ اگر ایسا سمجھتے ہیں کہ آج 16 کروڑ میں صرف دس افراد عدل و انصاف سے عاری تھے یا ہیں؟ تو سمجھئے آپ حد درجہ معصوم ہیں۔ یہ آپ ہیں جو کہ قرآن کو ماننے سے صاف انکار کردیتے ہیں۔ اگر آج 16 کروڑ افراد عدل و انصاف پر یقین رکھتے اور عدل و انصاف کی حفاظت کا ذمہ اٹھائے ہوتے تو کسی مائی کے لال کی مجال نہیں تھی کی 60 ججوں کو برطرف کردیتا۔ یہ 10 افراد جانتے تھے کہ یہ قوم عدل و انصاف کو کسی طور اللہ کا فرمان نہیں گردانتی۔ یہ تو بس اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں اپنی ذاتی نماز کے "ثواب" کا "سونا روپا" ڈالنے کی فکر میں ہے۔ جو چاہے کرو کچھ ہونا نہیں ہے۔یہ وہ مسلمان ہیں جو قرآن کے فراہم کردہ اصولوں پر یقین ہی نہیں رکھتے، دل پر ہاتھ رکھئے اور ایمان سے کہئے کہ درج ذیل کو آپ نے آج تک کیا اہمیت دی ہے؟

[AYAH]7:181[/AYAH] اور جنہیں ہم نے پیدا فرمایا ہے ان میں سے ایک جماعت (ایسے لوگوں کی بھی) ہے جو حق بات کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل پر مبنی فیصلے کرتے ہیں

آج انہی عدل و انصاف کرنے والوں کی جماعت اجتماعی طور پر گھر پر نظر بند ہے اور وہی قوم جس نے مت۔ف۔ق۔ہ طور پر ان 60 ججوں کو عدل و انصاف کا نمائندہ قرار دیا تھا، خاموش ہے؟، کیا ہم اللہ کے فرمان کو ماننے سے انکار کررہے ہیں ؟ ۔۔۔۔ نہیں صاحب ہمارا ایمان تو مظبوط ہے۔۔۔۔ میری نماز، میری عبادت میری ذاتی کاوش میری ذات کے لئے مجھ کو کافی ہے۔۔۔۔

[AYAH]4:58[/AYAH] بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے

[AYAH]5:8[/AYAH] اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے
کیسی پرہیز گاری صاحب؟ ہماری پرہیز گاری تو صرف عبادات تک محدود ہے ؟ یہ کس عدل و انصاف کی بات کررہے ہیں؟ عدل کا ساتھ دینا تو ہمارے ایمان کا حصہ نہیں ۔ اور صاحب ہم نے تو آج تک نہیں سنا کہ دین اسلام کے پانچ ارکان میں عدل و انصاف بھی کسی چڑیا کا نام ہے؟ یہ نہ اسلام ہے اور نہ ہی جمہوریت !

تمام رسول جس بنیادی مقصد کے لئے آئے اس پر ہم غور کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔
[AYAH]57:25[/AYAH] بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں، اور ہم نے (معدنیات میں سے) لوہا مہیّا کیا اس میں (آلاتِ حرب و دفاع کے لئے) سخت قوّت اور لوگوں کے لئے (صنعت سازی کے کئی دیگر) فوائد ہیں اور (یہ اس لئے کیا) تاکہ اللہ ظاہر کر دے کہ کون اُس کی اور اُس کے رسولوں کی (یعنی دینِ اسلام کی) بِن دیکھے مدد کرتا ہے، بیشک اللہ (خود ہی) بڑی قوت والا بڑے غلبہ والا ہے

یہ ہوئے دو نکات، کہ کچھ مسلمان قرآن کو نہیں مانتے یعنی اس پر ایمان نہیں لاتے، ورنہ جس طرح پانچ مرتبہ نماز پڑھنے جاتے ہیں، کم از کم ایک مرتبہ عدل و انصاف کا خون ہونے پر شور تو مچاتے ۔۔۔۔
ہم سنتے ہیں، کہ جمہوریت، اسلام ایک دوسرے کے مخالف ہیں، اب تک تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ قرآن اور جمہوریت دونوں درج ذیل کے داعی ہیں :
1۔ من حیث القوم اتحاد اور فیصلہ کی قوت - We the People اور
سب کے لئے آزادی اور عدل و انصاف Liberty and Justice for all

باقی آئیندہ ۔۔۔
 

عمر میرزا

محفلین
اسلام جمہوریت کو کن بنیادوں پر مسترد کرتا ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔

1۔ اکثریت کی حکمرانی۔

2۔ گروہ بندی اور پارٹی بازی۔

3۔ باہمی رقابت( اخوت اسلامی کا پار ہ پارہ ہونا)۔

4۔ عالم اور جاہل کی یکسانیت۔

5۔ رائے دہندگی میں نیک اور بد کی تمیز اور فاسقوں فاجروں کا اقتدارتک پہنچنا آسان ہونا۔

6۔ مر د اور عورت کا یکسا ں حق رائے دہندگی و حق حکمرانی۔

7۔ دولت اور سیاہ دھن کے غلط استعمال کا بار بار امکان( یورپی ملک تک اس سے محفوظ نہیں)۔

8۔ جہالت زدہ اور پسماندہ طبقوں کااستحصال۔

9۔ میڈ یا جیسی اندھی قوت کاشیطانی استعمال (یعنی عوام الناس کو بے وقوف بنانے کے فن کا استعمال)۔

10۔ برادری اور طبقاتی تعصب کو ہو ا دی جانا۔

11۔ انسانوں کو قانون سازی کا حق ہونا۔

12۔ دین اور دنیا کی تقسیم(سیکولرازم جس کے بغیر جمہوریت آج تک کہیں چل ہی نہیں سکی)۔

13۔ مغربی قوموں کی مشابہت اور ان کی پیروی کے کلچر کو فروغ۔

14۔ اسلامی شعائر(مانند شوری و بیعت) کا مسخ کیا جانا۔

15۔ عقیدہ قومیت پر ایمان لازم آنا( جمہوری عقیدے کا ایک بنیادی عنصر ’زمین‘ ہے جو کہ ’دارالاسلام ‘ کے تصور سے براہ راست متصادم ہے ۔ جمہوریت کا ’نظریہ زمین‘ دھرتی کو قیامت تک کےلئے قوموں میں بانٹ کر فارغ ہوجاتا ہے۔ انسانوں کو قوموں میں تقسیم کرتا ہے۔ جمہوریت کی رو سے کسی خاص قوم کا کسی خاص خطہ زمین پر ہمیشہ ہمیشہ کےلئے حکمران رہنے کا حق آپ اصولاً ماننے پر مجبور ہوتے ہیں اور ہر قسم کی بیروی اثر اندازی کو اس کے داخلی امور میں مداخلت تسلیم کرنے پر اصولاً پابند ہوجاتے ہیں)۔

16۔عقیدہ قومیت کو قبول کرلینے سے عقیدہ جہاد کا واضح طور پر انکار اور تعطل لازم آنا۔

17۔ مسلم اور غیر مسلم دونوں کو ایک قوم، ایک وحدت اور ایک برادری ماننا اور ان میں اتحاد ، یکجہتی اور یگانگت کی ضرورت کو تسلیم کرنا جس سے عقیدہ ولا و براء[یعنی کفار سے براءت و بیزاری اور صرف اہل ایمان سے وابستگی کو فرض جاننے کاعقیدہ۔] کا انکا ر لازم آتا ہے۔

18۔ وطنیت (وطن سے وفاداری اور وطن پر جان دینے کا عقیدہ)۔

19۔ سرحدو ں پر ایمان۔

20۔ عالمی برادری اور ملت اقوام کا حصہ ہونے کا تصور۔

اب آپ اگر جمہوریت کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے چلے ہیں تو ذرا اس فہرست پر نگا ہ ڈال لیجئے۔ جمہوریت کے ان بنیادی اجزاءکو ایک نظر دیکھئے اور پھر کہئے کہ اسلام میں داخل کرنے کےلئے آپ جمہوریت کاآخر کیا کیا نکالیں گے؟

کہیں ایسا تو نہیں ہمارے مسلم معاشروں میں جمہوریت کو اسلام سےہم آہنگ کرتے کرتے اسلام کو ہی جمہوریت سے ہم آہنگ کرد یا گیا ہو؟ایسا تو نہیں کہ ہمیں کفار سے کچھ لیتے لیتے الٹا بہت کچھ دینا پڑ گیا ہو؟
 
میں عمر کا جتنا شکر گزار ہوں کم ہے۔ کہ اگر میں لکھتا تو یہ ایک طرفہ معاملہ ہوتا۔ درج ذیل خود ساختہ نظام جس کو عام طور پر "اسلامی نظام"‌ کہہ مسلمانوں پر نافذ کیا جاتا ہے اس کا دور دور تک اسلام سے واسطہ نہیں۔ ہم اس کو "باطل اور کافرانہ نظام "‌کہیں گے، اقتباسات میں جمہوریت کی خصوصیات لکھی ہیں اور اس کے مقابلہ میں "باطل اور کافرانہ نظام " کی خصوصیات

اسلام جمہوریت کو کن بنیادوں پر مسترد کرتا ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔
1۔ اکثریت کی حکمرانی۔
جہاں جمہوریت اکثریت کی نمائیندہ ہے وہاں یہ "کافرانہ نظام" کیا ہے؟ قرآن سے بہت دور ایک نظام۔ مخصوس مدرسے سے نکلے ہوئے "استادوں" کی حکمرانی، جس کو تبدیل نہیں‌کیا جاسکتا، جس کے خیالات میں تبدیلی نہیں آتی۔ کافرانہ نظام میں آپ "پارلیمینٹ میں گریجویٹ ہو کر جاتے ہیں منتخب ہو کر نہیں" یہ نمائیندے عوام نہیں چنتے، بلکہ مدرسے کے استاد آپس میں ایک دوسرے کی سفارش کرکے بناتے ہیں۔ اس میں ڈائریکٹ یعنی منتخب ہوکر کوئی نمائندہ داخل نہیں ہوسکتا، اور کسی نمائندے کو ہٹایا نہیں جاسکتا۔ اس طرح حکومت ایک گروہ کہ ملکیت ہوتی ہے۔ یہ خود ساختہ علماء کا ٹولہ اپنی ڈگریاں‌دیتا ہے اور کسی بھی درسگاہ کی ڈگری تسلیم نہیں کرتا۔ اس سے ملتا جلتا نظام قدیم ایران میں ہزار ہا سال تک چلتا رہا۔ جہاں آپس کے چناؤ ‌سے، عوام کے چناؤ‌سے نہیں، نمائندے علماء کی شکل میں مقننہ، عدلیہ ، اور انتظامیہ کا گھلا ملا نظام قائم کرتے ہیں۔ عموماَ اس کے لکھے ہوئے آئین نہیں ہوتے بلکہ وقت ضرورت "فتووں " سے کام چلایا جاتا ہے۔

اس کے برعکس، جمہوریت، قرآن کے اصولون کے تحت، اکثریتی، منتخب شدہ نمائندوں پر مشتمل عدلیہ، مققنہ اور انتظامیہ ترتیب دینے کا نام ہے۔ اس کے لئے میرے دستخط میں دئے گئے لنک میں مزید تفاصیل دی گئی ہیں۔

2۔ گروہ بندی اور پارٹی بازی۔
جمہوری نظام، آپس میں صحت مند مقابلہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جس میں لوگ اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرکے سامنے آتے ہیں۔ جبکہ "کافرانہ نظام " میں صرف "دقیانوسی خیالات پر مبنی علماء کی ایک جماعت" ہوتی ہے جو ہر شخص کی قسمت کا فیصلہ "جرم ہونے کے بعد قانون بنا کر کرتی ہے" جس کو فتوی کا نام دیا جاتا ہے، جس کے خلاف آواز نہیں اتھائی جاسکتی، عموماً نظریات سے اختلاف کی سزا گردن زدنئ ہوتی ہے۔ ۔ اس کے برعکس "اسلامی جمہوریت " میں لوگوں‌کو موقع ملتا ہے کہ اپنی جماعت بنا کر مقابلہ کرسکیں اور مخالف خیالات "قرانی اصولوں "‌کے تحت اپنا کر اپنے لئے بہترین راہ کا انتخاب کرسکیں۔
3۔ باہمی رقابت( اخوت اسلامی کا پار ہ پارہ ہونا)۔
جماعت سازی کو "کافرانہ نظام " مکروہ قرار دیتا ہے۔ پر امن طور پر اکٹھا ہونا خلاف قانون ہوتا ہے۔ احتجاج جنگ اور غداری کے مترادف ہے۔ اس "کافرانہ نظام" میں "‌ملا" "خلیفے " کی اور خلیفہ"‌" "ملے " ‌کی حفاظت کرتا ہے۔ "کافرانہ نظام" کا بنیادی مقصد گروہ بندی کرکے عوام کی دولت پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔ اس نظام میں "خلیفے" اور "ملے"‌ کی کبھی کوئی معیاد نہیں ہوتی۔ "ملا" اور "خلیفے"‌ دونوں تاحیات مراتب ہیں ، ایک دوسرے کی حفاظت ان کے ذمہ ہوتی ہے اور کسی بھی قسم کی گروہ سازی، جماعت سازی ، تنظیم سازی اس کے آئین کے خلاف ہے۔
4۔ عالم اور جاہل کی یکسانیت۔
آہ ۔۔ یہ سب سے بڑا مرتبہ ہے۔ ہر وہ شخص جو " ملا "‌ کی مدرسی سے گریجویٹ ہوا ہو ، وہی عالم ہو سکتا ہے۔ باقی کسی بھی درسگاہ کی تعلیم نہ گوارہ ہے اور نہ ہی قابل قبول، - اس طرح عالم اور جاہل کی تمیز کی جاتی ہے۔ جاہل ووٹ‌نہیں دے سکتا، آواز نہیں اتھا سکتا۔ " عالم " کسی قسم کی جہالت کرتا ہو "فتوی" قرار پاتا ہے۔ اس فتوی کے خلاف کوئی دعوی نہں کیا جاسکتا۔ اس کو عموما " شریعت کا نام دیا جاتا ہے۔ ذہن میں رکھئے کہ کوئی فتوی، پاکستان کی کسی بھی عدالت میں قابل قبول نہیں ہے۔ اس طرح "جاہلوں " کو مدرسی سے دور رکھا جاتا ہے اور صرف اچھی ذات کے سلسلہ جیسے نقشبندیہ، قادریہ، ہی صرف اس ان مدرسیوں میں داکل کئے جاسکتے ہیں۔ جاہلوں کو مدرسیوں کے دروازے پر ہی فلٹر کردیا جاتا ہے۔ اس طرح‌جاہل کبھی گریجویٹ نہیں ہوتا، کبھی جج یا قاضی نہیں بنتا، وکالت کا تصور اس نظام مین بہت ہلکا ہے۔ سرسری سماعت کے بعد فوری "انصاف" سخت سزائیں‌ دے کر کیا جاتا ہے۔ تاکہ معاشرے میں سخت خوف کا عالم رہے۔ اس طرح‌جاہلوں یعنی عوام کو قابو میں رکھا جاتا ہے۔
5۔ رائے دہندگی میں نیک اور بد کی تمیز اور فاسقوں فاجروں کا اقتدارتک پہنچنا آسان ہونا۔
جمہوریت، ایک نمائندے کو عوام کی عدالت میں کھڑا کر دیتی ہے۔ "کافرانہ نطام" میں صرف مدرسیوں کے باشندے ہی اپس میں ایک دوسرے کو چنتے ہیں۔ عوام یعنی "جاہلوں" کو کوئی موقع نہیں دیا جاتا۔
6۔ مر د اور عورت کا یکسا ں حق رائے دہندگی و حق حکمرانی۔
قرآن ہر معاملے میں خواتین و حضرات کو مساوی سماجی درجہ دیتا ہے۔ اور اپنی رائے کے اظہار کا حق دیتا ہے۔ "کافرانہ نظام "‌ مٰن عورتوں سے یہ حق چھین لیا جاتا ہے۔ وہ کسی معاملے میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کرسکتی ہیں۔
7۔ دولت اور سیاہ دھن کے غلط استعمال کا بار بار امکان( یورپی ملک تک اس سے محفوظ نہیں)۔
عوام کی دولت پر قبضے کی سیاہ ترین مثال یہ ہے کہ ضکومت کو ملکیت سمجھا جائے۔ جمہوریت میں ایک شخص اپنی مدت پوری کرکے اگے بڑھ جاتا ہے۔ لیکن "کافرانہ نظام "‌ میں‌ وہ تا حیات اس مرتبہ پر رہتا ہے۔ اس طرح ، حکومت ملکیت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس خلیفے کی موت کے بعد دوسرے خلیفے، بہانہ بہانہ سے اپنی اولادوں یا پنے پسندیدہ افراد کو ہی حکومت سونپتے ہیں۔ "ملا"‌ہر طور اس خیال کے "شرعی جواز "‌ نکالتا رہتا ہے۔ " ایسے خلیفے "‌ کو خلافئے رشدین سے ملانا ایک ظلم ہے۔ کیا رسول اکرم نے وصیت میں کسی کو خلیفہ بنایا تھا؟
8۔ جہالت زدہ اور پسماندہ طبقوں کااستحصال۔
جمہوریت ، پاکستان میں 60 سال پہلے آئی، تعلیم میں جس قدر اضافہ ہو، وہ "کافرانہ نظام "‌میں 600 سال میں نہیں ہوا۔ جتنی یونیورسٹیاں 60 سال میں قائم ہوئی۔ اس کا مقابل 600 سالوں میں قائم ہونے والی صٍفر جی صفر یونیورسٹی سے کیجئے۔ "ملا"‌ کبھی تعلیم ھاصل کرنے نہیں دیتا۔ مبلغ 400 ملاؤں نے سرسید احمد خان کو کافر قرار دیا کہ انہوں‌نے دیوبند اور بریلی کے مقابل ایک جدید تعلیم کے لئے یونیورسٹی قائم کی ۔ جس کے فارغ التحصیل "علماء"‌نے پاکستان کی بنیاد رکھی۔ لیکن "ملا" اپنی نشاۃ ‌ثانیہ کے خوب دیکھتا رہتا ہے اور اپنے "جاہلانہ نظام "‌کو
اسلامی نظام بنا کر آج بھی دھوکہ کی روش سے نہیں ہٹا ہے۔ "عالم و فاضل استاد صرف اس وقت قابل عزت ہے جب تک و ایمان سے پڑھاتا رہے، جونہی وہ مکاری کی راہ اپنا کر "مکارانہ سیاست پر مبنی جاہلانہ نظام پیش کرتا ہے" ۔ علامہ اقبال جیسے عظیم انسان سے "ملا "‌ کے لقب سے نوازی جاتا ہے۔

9۔ میڈ یا جیسی اندھی قوت کاشیطانی استعمال (یعنی عوام الناس کو بے وقوف بنانے کے فن کا استعمال)۔
حقیقت کو سامنے لانے سے "ملا" ہمیشہ خوفزدہ رہے ہیں۔ اور سیاسی بہکاوے دینے میں میں بہت آگے ہیں۔ بم باندھ کر معصوم لوگوں کے قاتلوں کو مجاہدین قرار دیتے ہیں

10۔ برادری اور طبقاتی تعصب کو ہو ا دی جانا۔
جی ۔ جاہلوں اور عالوں کی برادری، ایک قوم ، ایک فالحی مملکت ، جمہوریت کی بنیاد ہیں۔
11۔ انسانوں کو قانون سازی کا حق ہونا۔
قرآن صرف ضوری اصول فراہم کرتا ہے۔ بطور ایک آئین، اور انسانوں کو ان اصولوں کے تحت قوانین بنانے کا حق دیتا ہے۔ ایک فلاحی مملکت اور اسکے دفاع کو اہم قرار دیتا ہے میرے دستخط میں دیے گئے لنک کو آپ بہ آسانی پڑھ سکتے ہیں۔
12۔ دین اور دنیا کی تقسیم(سیکولرازم جس کے بغیر جمہوریت آج تک کہیں چل ہی نہیں سکی)۔
قرآن ، اسلامی فلاحی مملکت میں غیر مسلموں کو امن کی ضمانت دیتا ہے جو امن کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
13۔ مغربی قوموں کی مشابہت اور ان کی پیروی کے کلچر کو فروغ۔
اللہ کے نزدیک بنی نوع انسان ایک قوم ہیں ۔ "ملا" اپنے کافرانہ نطام کی حفاظت کے لئے انسانوں میں فرق پیدا کرتے ہیں۔
14۔ اسلامی شعائر(مانند شوری و بیعت) کا مسخ کیا جانا۔
شوری یعنی پارلیمنٹ، بیعت یعنی ووٹنگ یا رائے دہی، اسلامی نظریات ہیں۔ قرآن کی آیات بارہا پیش کرچکا ہوں۔ کہ شوری عوم کی رائے سے منتخب نمائندوں سے ہوگی۔
15۔ عقیدہ قومیت پر ایمان لازم آنا( جمہوری عقیدے کا ایک بنیادی عنصر ’زمین‘ ہے جو کہ ’دارالاسلام ‘ کے تصور سے براہ راست متصادم ہے ۔ جمہوریت کا ’نظریہ زمین‘ دھرتی کو قیامت تک کےلئے قوموں میں بانٹ کر فارغ ہوجاتا ہے۔ انسانوں کو قوموں میں تقسیم کرتا ہے۔ جمہوریت کی رو سے کسی خاص قوم کا کسی خاص خطہ زمین پر ہمیشہ ہمیشہ کےلئے حکمران رہنے کا حق آپ اصولاً ماننے پر مجبور ہوتے ہیں اور ہر قسم کی بیروی اثر اندازی کو اس کے داخلی امور میں مداخلت تسلیم کرنے پر اصولاً پابند ہوجاتے ہیں)۔
اسلامی فالحی مملکت کا نظریہ ، اس کا دفاع، سرحدوں کی حفاظت، خالص‌اسلامی اور قرآنی نظریات ہیں۔
16۔عقیدہ قومیت کو قبول کرلینے سے عقیدہ جہاد کا واضح طور پر انکار اور تعطل لازم آنا۔
جہاد و کوشش کے معنی بھی "ملا " کو نہیں معلوم۔ وہ صرف "فساد فی فی الارض اللہ و فساد فی سبیل اللہ " کی اعلی ترین مثال ہے۔
17۔ مسلم اور غیر مسلم دونوں کو ایک قوم، ایک وحدت اور ایک برادری ماننا اور ان میں اتحاد ، یکجہتی اور یگانگت کی ضرورت کو تسلیم کرنا جس سے عقیدہ ولا و براء[یعنی کفار سے براءت و بیزاری اور صرف اہل ایمان سے وابستگی کو فرض جاننے کاعقیدہ۔] کا انکا ر لازم آتا ہے۔
قرآن اسلامی فلاھی مملکت میں غیر مسلموں کو مکمل حقوق فراہم کرتا ہے۔
18۔ وطنیت (وطن سے وفاداری اور وطن پر جان دینے کا عقیدہ)۔
قرآن فلاحی مملکت کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کے ذمہ لگاتا ہے۔
19۔ سرحدو ں پر ایمان۔
فلاحی مملکت کا دفاع سے ناقافیت، "کافرانہ نظام "‌کی قراں سے دوری کا واضح ثبوت ہے۔
20۔ عالمی برادری اور ملت اقوام کا حصہ ہونے کا تصور۔
قرآن کا نظام عالمی برادری کے لئے ہے۔ انسانوں کو پر امن رہنے کے طریقہ سکھاتا ہے۔
اب آپ اگر جمہوریت کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے چلے ہیں تو ذرا اس فہرست پر نگا ہ ڈال لیجئے۔ جمہوریت کے ان بنیادی اجزاءکو ایک نظر دیکھئے اور پھر کہئے کہ اسلام میں داخل کرنے کےلئے آپ جمہوریت کاآخر کیا کیا نکالیں گے؟
کہیں ایسا تو نہیں ہمارے مسلم معاشروں میں جمہوریت کو اسلام سےہم آہنگ کرتے کرتے اسلام کو ہی جمہوریت سے ہم آہنگ کرد یا گیا ہو؟ایسا تو نہیں کہ ہمیں کفار سے کچھ لیتے لیتے الٹا بہت کچھ دینا پڑ گیا ہو؟
["کافرانہ نظام "‌پاکستان کے تمام جج مسترد کرچکے ہیں، تمام تعلیم یافتہ لوگ مسترد کرتے ہیں۔ قرآن سے ہدایت ھاصل کیجئے۔ "جو کافرانہ نظام "‌ کافروں نے 2500 ق م میں ترتیب دیا ، اس کو اسلامی نظام کی چھاپ لگا کر معصوموں کو دھوکہ دینے کی روش ترک کیجئے۔ قرآن بنیادی اصول فراہم کرتا ہے، اور سنت جزئیات و تفصیلات۔ جو کچھ "ملا "‌ نے اپنی مرضی سے ٹھونسا ہے اس کو کبھی قرآن یا سنت نہیں‌کہتا۔
یہ بحث پاکستان بننے سے پہلے سے چلی آرہی ہے۔ مشیت ایزدی نے اس "کافرانہ نظام "‌کا خاتمہ کیا اور مسلمانوں کو موقع دیا کہ وہ قرآن کے مطابق "اسلامی نطام " اپنائیں۔ اس 'اسلامی نظام " قوانین لکھنے والے انتہائی قابل لوگ جیسے مفتی جسٹس تقی عثمانی ہیں۔ آپ "اپنا کافرانہ نظام " جس کو آپ اسلامی نظام قرار دیتے ہیں سرحد پار ہندوستان میں کیوں نہیں قائم کرتے، ان کو اس نظام کی زیادہ ضرورت ہے۔ کیوں اپنے ساتھیوں کو ایک "ثواب " سے محروم کرتے ہیں؟
 

ظفری

لائبریرین
عمر میرزا ! ۔۔۔۔ آپ دیکھئے کہ فاروق سرور صاحب نے آپ کے ہر نکتہ کو کوٹ کرکے اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ۔ یعنی اپنا استدال اور اعتراض پیش کیا ہے ۔ کیا بہتر نہیں‌ ہوگا کہ آپ پھر سے کوئی نیا مضمون پوسٹ کرنے کے بجائے بحث کو اسی مخصوص پیرائے میں رہنے دیں اور اسی طرح ان کے اعتراضات کو کوٹ کرکے اپنا جواب مرحمت فرمائیں ۔ اس طرح گفتگو پوائنٹ ٹو دی پوائنٹ رہے گی ۔ اور ہم کو ایک دوسرے کا موقف سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ کیا خیال ہے آپ کا اس بارے میں ۔ ؟
 
ہمارے دینی ٹیچرز اسلامی نطام کے نام پر ایک "طلسماتی نظام " کے بارے میں کچھ اس طرح بات کرے رہے ہیں کہ جب یہ "طلسماتی نظام" آجائے گا تو سب کچھ حل ہوجائے گا۔ اور یہ" طلسماتی نطام" ہی "اسلامی نظام" ہوگا۔ اس قسم کے وعدوں پر یقین آنا ہمارے حالت میں کچھ مشکل ‌نظر آتا ہے لہذا میں نے درج ذیل ٹیبل ترتیب دیا ہے۔ مقصد ساری بات کو سمجھنا ہے ، اپنے آپ کو دھوکہ نہیں دینا ہے۔ لہذا آپ اس پر کڑی تنقید کیجئے اور جو بھی تبدیلی آپ تجویز کریں گے ہم یہاں‌کرتے رہیں گے ۔ آپ کی تجویز کی منطقی وجہ ہو اور قرآن سے قریبی یا دوری حوالہ ضروری ہے تاکہ اس کا اسلامی رنگ دیکھا جاسکے۔ ہمارا مقصد "جمہوری نظام" کو "اسلامی نظام "‌ثابت کرنا نہیں ہے یا "طلسماتی نظام " کو "شیطانی نظام " ثابت کرنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ دیکھنا مققصود ہے کہ جمہوری نظام اور طلسماتی نظام میں سے کس پر رنگ وعکس قرآن کے اصولوں سے قریب تر ہے۔ یہ ٹیبل حتمی نہیں ہے، اس میں آپ کی تجاویز سے تبدیلی آتی رہے گی۔

اس ٹیبل میں عمر میرزا کے نکات سے مدد لی گئی ہے
[[table="head; ] جمہوری نظام | قرانی اصول | طلسماتی نظام
جمہوری نظام | قرانی اصول | طلسماتی نظام
اکثریت کی رائے دہی سے نمائندوں کا انتخاب |[AYAH]4:58[/AYAH] بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں (الامانات Your trust) انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان (امانات) کے اہل ہیں، اور جب تم ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے | صرف دینی ٹیچرز کا مل کر آپس میں طے کرلینا کہ ان میں کون سا دینی ٹیچر سپریم کونسل میں شامل ہوگا۔ کوئی بھی دوسری رائے قابل احترام نہیں

صحت مندانہ تنظیم سازی اور درجہ بندی تاکہ صحت مندانہ مقابلہ ہو اور بہتر لوگ سامنے آئیں | [AYAH]49:13[/AYAH] اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے | گروہ بندی اور پارٹی بازی پر مکمل پابندی، دینی ٹیچرز کے گروہ کے علاوہ تمام تنظیمیں غیر قانونی

نظریاتی اختلاف، باہمی تنقید اور آپسی مشورہ کی آزادی | [AYAH] 3:159[/AYAH] (اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لئے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بیشک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے | دینی ٹیچرز کی واحد سپریم کونسل ،کسی بھی دوسری تنظیم سے مشورے کی مکمل ممانعت
معاشرہ میں ہر شخص کا مساوی کردار و مقام، مساوی رائے دہی، اختلاف کی آزادی |[AYAH]17:70[/AYAH] اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا | دینی ٹیچر کا عام افراد کی نسبت اعلی مقام، عام آدمی کی حق رائے دہی سے محرومی، عام آدمی کا انکار کرنے پر قتل

ہر شخص، جس نے جرم نہ کیا ہو، مساوی حق رائے دہی رکھتا ہے |[AYAH]5:8[/AYAH] اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے | رائے دہندگی کا حق صرف " نیک" دینی ٹیچرز کو حاصل اور "بد" یعنی عوام الناس کو فاسق و فاجر قرار دے کر حق رائے دہی سے محرومی۔

مر د اور عورت کا یکسا ں حق رائے دہندگی و حق حکمرانی |[ayah]33:35[/ayah] بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے |دینی ٹیچرز کی اپنی ریسرچ کے مطابق عورت کی حق رائے دہی اور حق حکمرانی سے محرومی

مال و دولت کا مناسب حصول، دولت کی مناسب تقسیم و روانی | [AYAH]9:60[/AYAH] بیشک صدقات (زکوٰۃ) یعنی ٹیکسز غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے | دولت پر دینی ٹیچرز کی حکمران سپریم کونسل کا قبضہ ، دولتمند کی دولت کو کال دھن قرار دے کر ہتھیانا، کسی بھی قسم کی تقسیم پر ذاتی اختیارات ، حکومت کو تا حیات ملکیت سمجھنا

تعلیم کا عام بھیلاؤ اور خواتین کے حصول تعلیم کی حوصلہ افزائی |[AYAH]96:5[/AYAH] سکھایا انسان کو وہ علم جو نہیں جا نتا تھا وہ۔ | جہالت زدہ اور پسماندہ طبقوں کادین کے نام پر استحصال، تعلیم کے حصول پر عمومی پابندی، خواتین کے تعلیم کے حصول پر مکمل پابندی
ایک | دو | تین


[/table]
جاری ہے۔۔۔
 

زرقا مفتی

محفلین
میں اسلامی سیاسی نظام کا ایک خاکہ پیش کر رہی ہوں جو جماعتِ اسلامی کی سائٹ سے لیا گیا ہے۔ آپ لوگوں کے مطالعہ کے لئے ۔۔۔۔
اسلام کا سیاسی نظام

اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد تین اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ توحید، رسالت اور خلافت۔ ان اصولوں کو اچھی طرح سمجھے بغیر اسلامی سیاست کے تفصیلی نظام کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے سب سے پہلے میں انھی کی مختصر تشریح کروں گا۔
توحید کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس دنیا اور اس کے سب رہنے والوں کا خالق، پروردگار اور مالک ہے۔ حکومت و فرماں روائی اسی کی ہے، وہی حکم دینے اور منع کرنے کا حق رکھتا ہے اور بندگی و طاعت بلاشرکت غیرے اسی کے لیے ہے۔ ہماری یہ ہستی جس کی بدولت ہم موجود ہیں، ہمارے یہ جسمانی آلات اور طاقتیں جن سے ہم کام لیتے ہیں اور ہمارے وہ اختیارات جو ہمیں دنیا کی موجودات پر حاصل ہیں اور خود یہ موجودات جن ہم اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں، ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہماری پیدا کردہ یا حاصل کردہ ہے اور نہ اس کی بخشش میں خدا کے ساتھ کوئی شریک ہے، اس لیے اپنی ہستی کا مقصد اور اپنی قوتوں کا مصرف اور اپنے اختیارات کی حدود متعین کرنا نہ تو ہمارا اپنا کام ہے نہ کسی دوسرے کو اس معاملہ میں دخل دینے کا حق ہے۔ یہ صرف اس خدا کا کام ہے جس نے ہم کو ان قوتوں اور اختیارات کے ساتھ پیدا کیا ہے اور دنیا کی یہ بہت سی چیزیں ہمارے تصرف میں دی ہیں۔ توحید کا یہ اصولِ انسانی حاکمیت کی سرے سے نفی کردیتا ہے۔ ایک انسان ہو یا ایک خاندان، یا ایک طبقہ یا ایک گروہ یا ایک پوری قوم ، یا مجموعی طور پر تمام دنیا کے انسان، حاکمیت کاحق بہرحال کسی کو بھی نہیں پہنچتا۔ حاکم صرف خدا ہے اور اسی کا حکم "قانون" ہے۔
خدا کا قانون جس ذریعے سے بندوں تک پہنچتا ہے اس کانام"رسالت"ہے۔ اس ذریعے سے ہمیں دو چیزیں ملتی ہیں۔ ایک "کتاب"جس میں خود خدا نے اپنا قانون بیان کیا ہے۔ دوسری کتاب کی مستند تشریح جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اپنے قول وعمل میں پیش کی ہے۔
خدا کی کتاب میں وہ تمام اصول بیان کردیے گئے ہیں جن پر انسانی زندگی کا نظام قائم ہونا چاہیے۔ اور رسول نے کتاب کے اس منشا کے مطابق عملاً ایک نظامِ زندگی بنا کر، چلا کر، اور اس کی ضروری تفصیلات بتا کر ہمارے لیے ایک نمونہ قائم کردیا ہے۔ انھی دو چیزوں کے مجموعے کانام اسلامی اصطلاح میں شریعت ہے اور یہی وہ اساسی دستور ہے جس پر اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے۔
اب خلافت کو لیجیے۔ یہ لفظ عربی زبان میں نیابت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے دنیا میں انسان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ زمین پر خدا کا نائب ہے یعنی اس کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات استعمال کرتا ہے۔ آپ جب کسی شخص کو اپنی جائیداد کا انتظام سپرد کرتے ہیں تو لازماً آپ کے پیش نظر چار باتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جائیداد کے اصل مالک آپ خود ہیں نہ کہ وہ شخص۔ دوسرے یہ کہ آپ کی جائیداد میں اس شخص کو آپ کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ تیسرے یہ کہ اسے اپنے اختیارات کو ان حدود کے اندر استعمال کرنا چاہیے جو آپ نے اس کے لیے مقرر کردی ہیں۔ چوتھے یہ کہ آپ کی جائیداد میں اسے آپ کا منشا پورا کرنا ہوگا نہ کہ اپنا۔ یہ چار شرطیں نیابت کے تصور میں اس طرح شامل ہیں کہ نائب کا لفظ بولتے ہی خود بخود انسان کے ذہن میں آجاتی ہیں۔ اگر کوئی نائب ان چاروں شرطوں کو پورا نہ کرے تو آپ کہیں گے کہ وہ نیابت کے حدود سے تجاوز کرگیا اور اس نے وہ معاہدہ توڑ دیا جو نیابت کے عین مفہوم میں شامل تھا۔ ٹھیک یہی معنی ہیں جن میں اسلام انسان کو خدا کا خلیفہ قرار دیتا ہے اور اس خلافت کے تصور میں یہی چاروں شرطیں شامل ہیں۔ اسلامی نظریہ سیاسی کی رو سے جو ریاست قائم ہوگی وہ دراصل خدا کی حاکمیت کے تحت انسانی خلافت ہوگی، جسے خدا کے ملک میں اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کی ہوئی حدود کے اندر کام کرکے اس کا منشا پورا کرنا ہوگا۔
خلافت کی اس تشریح کے سلسلے میں اتنی بات اورسمجھ لیجیے کہ اس معنی میں اسلامی نظریہ سیاسی کسی ایک شخص یا خاندان کو خلیفہ قرار نہیں دیتا بلکہ اس پوری سوسائٹی کو خلافت کا منصب سونپتا ہے جو توحید اور رسالت کے بنیادی اصولوں کو تسلیم کرکے نیابت کی شرطیں پوری کرنے پر آمادہ ہو۔ ایسی سوسائٹی بحیثیت مجموعی خلافت کی مثال ہے اور یہ خلافت اس کے ہر فرد کو پہنچتی ہے۔ یہ وہ نقطہ ہے جہاں اسلام میں"جمہوریت " کی ابتدا ہوتی ہے۔اسلامی معاشرے کا ہرفرد خلافت کے حقوق اور اختیارات رکھتا ہے۔ ان حقوق و اختیارات میں تمام افراد بالکل برابر کے حصے دار ہیں۔ کسی کو کسی پر نہ ترجیح حاصل ہے اور نہ یہ حق پہنچتا ہے کہ اسے ان حقوق واختیارات سے محروم کرسکے۔ ریاست کا نظم ونسق چلانے کے لیے جو حکومت بنائی جائے گی وہ انھی افراد کی مرضی سے بنے گی۔ یہی لوگ اپنے اختیاراتِ خلافت کا ایک حصہ اسے سونپیں گے۔ اس کے بننے میں ان کی رائے شامل ہوگی اور ان کے مشورے ہی سے وہ چلے گی۔ جو ان کا اعتماد حاصل کرے گا وہ ان کی طرف سے خلافت کے فرائض انجام دے گا اور جو ان کا اعتماد کھو دے گا اسے حکومت کے منصب سے ہٹنا پڑے گا۔ اس لحاظ سے اسلامی جمہوریت ایک مکمل جمہوریت ہے،اتنی مکمل جتنی کوئی جمہوریت مکمل ہوسکتی ہے البتہ جو چیز اسلامی جمہوریت کو مغربی جمہوریت سے الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کا نظریہ سیاسی "جمہوری حاکمیت" کا قائل ہے اور اسلام" جمہوری خلافت"کا ۔ وہاں اپنی شریعت جمہور آپ بناتے ہیں، یہاں ان کو اس شریعت کی پابندی کرنی ہوتی ہے جو خدا نے اپنے رسول کے ذریعہ سے دی ہے۔ وہاں حکومت کا کام جمہور کا منشا پورا کرنا ہوتا ہے۔ یہاں حکومت اور اس کے بنانے والے جمہور سب کا کام خدا کا منشا پورا کرنا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ مغربی جمہوریت ایک مطلق العنان خدائی ہے جو اپنے اختیارات کو آزادانہ استعمال کرتی ہے۔ اس کے برعکس اسلامی جمہوریت ایک پابندِآئین بندگی ہے جو اپنے اختیارات کو خدا کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرتی ہے۔
اب میں آپ کے سامنے اس ریاست کا ایک مختصر مگر واضح نقشہ پیش کروں گا جو توحید، رسالت اور خلافت کی ان بنیادوں پر بنتی ہے۔
اس ریاست کا مقصد قرآن میں صاف طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ان بھلائیوں کو قائم کرے، فروغ دےاور پروان چڑھائے جن سے خداوندِعالم انسانی زندگی کوآراستہ دیکھنا چاہتا ہے اور ان برائیوں کو روکے، دبائے اور مٹائے جن کا وجود انسانی زندگی میں خداوندِعالم کو پسند نہیں ہے۔اسلام میں ریاست کا مقصد محض انتظام ملکی ہے اور نہ یہ کہ وہ کسی خاص قوم کی اجتماعی خواہشات کو پورا کرے۔ اس کے بجائے اسلام اس کے سامنے ایک بلند نصب العین رکھ دیتا ہے جس کے حصول میں اس کو اپنےتمام وسائل و ذرائع اوراپنی تمام طاقتیں صرف کرنی چاہییں، اور وہ یہ ہے کہ خدا اپنی زمین میں اور اپنے بندوں کی زندگی میں جو پاکیزگی، جو حسن،جو خیر و صلاح،جو ترقی و فلاح دیکھنا چاہتا ہے وہ رونما ہو، اور بگاڑ کی ان تمام صورتوں کاسد باب ہو جو خدا کے نزدیک اس کی زمین کو اجاڑنے والی اور اس کے بندوں کی زندگی کو خراب کرنےو الی ہیں۔ اس نصب العین کو پیش کرنے کے ساتھ اسلام ہمارے سامنے خیروشر دونوں کی ایک واضح تصویر رکھتا ہے جس میں مطلوبہ بھلائیوں اور ناپسندیدہ برائیوں کو صاف صاف نمایاں کردیا گیا ہے۔اس تصویر کو نگاہ میں رکھ کر ہر زمانے اور ہر ماحول میں اسلامی ریاست اپنا اصلاحی پروگرام بناسکتی ہے۔
اسلام کا مستقل تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی اصولوں کی پابندی کی جائے۔ اس لیے وہ اپنی ریاست کے لیے بھی یہ قطعی پالیسی متعین کردیتا ہے کہ اس کی سیاست بے لاگ انصاف، بے لوث سچائی اور کھری ایمان داری پر قائم ہو، وہ ملک یا انتظامی یا قومی مصلحتوں کی خاطر جھوٹ، فریب اور بے انصافی کو کسی حال میں گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ملک کے اندر راعی اور رعیت کے باہمی تعلقات ہوں یا ملک کے باہر دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات، دونوں میں وہ صداقت، دیانت اور انصاف کو اغراض و مصالح پر مقدم رکھنا چاہتا ہے۔ مسلمان افراد کی طرح مسلم ریاست پر بھی وہ یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ عہد کرو تو اسے وفا کرو، لینے اور دینے کے پیمانے یکساں رکھو، جو کچھ کہتے ہو وہی کرو اور جو کچھ کرتے ہو وہی کہو، اپنے حق کے ساتھ اپنے فرض کو بھی یاد رکھو، اور دوسرے کے فرض کے ساتھ اس کے حق کو بھی نہ بھولو، طاقت کو ظلم کے بجائے انصاف کے قیام کا ذریعہ بناؤ۔ حق کو بہرحال حق سمجھو اور اسے ادا کرو، اقتدار کو خدا کی امانت سمجھواوراس یقین کے ساتھ اسے استعمال کرو کہ اس امانت کا پورا حساب تمھیں اپنے خدا کو دینا ہے۔
اسلامی ریاست اگرچہ زمین کے کسی خاص خطے ہی میں قائم ہوتی ہے مگر وہ نہ انسانی حقوق کو ایک جغرافی حد میں محدود رکھتی ہے اور نہ شہریت کے حقوق کو۔ جہاں تک انسانیت کا تعلق ہے اسلام ہر انسان کے لیے چند بنیادی حقوق مقرر کرتا ہے، اور ہر حال میں ان کے احترام کا حکم دیتا ہے، خواہ وہ انسان اسلامی ریاست کے حدود میں رہتا ہو یا اس سے باہر، خواہ دوست ہو یا دشمن، خواہ صلح رکھتا ہو یا برسر جنگ ہو۔ انسانی خون ہر حالت میں محترم ہے اور حق کے بغیر اسے نہیں بہایا جاسکتا۔ عورت، بچے بوڑھے، بیمار اور زخمی پر دست درازی کرنا کسی حال میں جائز نہیں۔ عورت کی عصمت بہرحال احترام کی مستحق ہے، اور اسے بےآبرو نہیں کیا جاسکتا۔ بھوکا آدمی روٹی کا، ننگا آدمی کپڑے کا، زخمی یا بیمار آدمی علاج اور تیمارداری کا بہرحال مستحق ہے خواہ دشمن قوم ہی سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ اور ایسے ہی چند دوسرے حقوق اسلام نے انسان کو بحیثیت انسان ہونے کے عطا کیے ہیں اور اسلامی ریاست کے دستور میں ان کو بنیادی حقوق کی جگہ حاصل ہے۔ رہے شہریت کے حقوق تو وہ بھی اسلام صرف انھی لوگوں کو نہیں دیتا جو اس کی ریاست کی حدود میں پیدا ہوئے ہوں بلکہ ہر مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے میں پیدا ہوا ہو، اسلامی ریاست کے حدود میں داخل ہوتے ہی آپ سے آپ اس کا شہری بن جاتا ہے(یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ مسلمان کسی اسلامی ریاست کا شہری ہو۔ اگر وہ کسی غیر اسلامی حکومت کی رعایا ہو تو وہ صرف اس صورت میں اسلامی ریاست کا شہری بن سکتا ہے جبکہ وہ ہجرت کر کے آئے۔)اور پیدائشی شہریوں کے برابر حقوق کا مستحق قرار پاتا ہے۔ دنیا میں جتنی اسلامی ریاستیں بھی ہوں گی ان سب کے درمیان شہریت مشترک ہوگی۔ مسلمان کو کسی اسلامی ریاست کے حدود میں داخل ہونے کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت نہ ہوگی۔ مسلمان کسی نسلی، قومی یا طبقاتی امتیاز کے بغیر ہر اسلامی ریاست میں کسی بڑے سے بڑے ذمہ داری کے منصب کا اہل ہو سکتا ہے۔
غیر مسلمانوں کے لیے، جوکسی اسلامی ریاست کے حدود میں رہتے ہوں، اسلام نے چند حقوق معین کردیے ہیں اور وہ لازماً دستور اسلامی کا جزو ہوں گے۔ اسلامی اصطلاح میں ایسے غیر مسلم کو "ذمی" کہاجاتا ہے، یعنی جس کی حفاظت کا اسلامی ریاست نے ذمہ لے لیا ہے۔ ذمی کی جان و مال اور آبرو محترم ہے۔ فوج داری اور دیوانی قوانین میں مسلم اور ذمی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ ذمیوں کے پرسنل لاء میں اسلامی ریاست کوئی مداخلت نہ کرے گے۔ ذمیوں کو ضمیرواعتقاد اور مذہبی رسوم وعبادات میں پوری آزادی حاصل ہوگی۔ یہ اور ایسے ہی بہت سے حقوق اسلامی دستور میں غیر مسلم رعایا کو دیے گئے ہیں اور یہ مستقل حقوق ہیں جنھیں اس وقت تک سلب نہیں کیاجاسکتا، جب تک وہ ہمارے ذمے سے خارج نہ ہوجائیں۔ کوئی غیر مسلم حکومت اپنی مسلم رعایا پر چاہے کتنے ہی ظلم ڈھائے، ایک اسلامی ریاست کے لیے اس کے جواب میں اپنی غیر مسلم رعایا پر شریعت کے خلاف ذرا سی دست درازی کرنا بھی جائز نہیں۔ حتی کہ ہماری سرحد کے باہر اگر سارے مسلمان قتل کردیے جائیں تب بھی ہم اپنی حد کے اندر ایک ذمی کا خون بھی حق کے بغیر نہیں بہا سکتے۔ اسلامی ریاست کے انتظام کی ذمہ داری ایک امیر کے سپرد کی جائے گی جسے صدر جمہوریہ کے مماثل سمجھنا چاہیے۔ امیر کے انتخاب میں ان تمام بالغ مردوں اور عورتوں کو رائے دینے کاحق ہوگا جو دستور کے اصولوں کو تسلیم کرتے ہوں۔ انتخاب کی بنیاد یہ ہوگی کہ روح اسلام کی واقفیت، اسلامی سیرت، خداترسی اور تدبر کے اعتبار سے کون شخص سوسائٹی کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کااعتماد رکھتا ہے۔ ایسے شخص کو امارت کے لیے منتخب کیاجائے گا۔ پھر اس کی مدد کے لیے ایک مجلس شوریٰ بنائی جائے گی اور وہ بھی لوگوں کو منتخب کردہ ہوگی۔ امیر کے لیے لازم ہوگا کہ ملک کا انتظام اہل شوریٰ کے مشورے سے کرے۔ ایک امیر اسی وقت تک حکمران رہ سکتا ہے جب تک اسے لوگوں کا اعتماد حاصل رہے۔ عدم اعتماد کی صورت میں اسے جگہ خالی کرنی ہوگی مگر جب تک وہ لوگوں کا اعتماد رکھتا ہے اسے حکومت کے پورے اختیارات حاصل رہیں گے۔
امیر اور اس کی حکومت پر عام شہریوں کو نکتہ چینی کا پورا حق حاصل ہوگا۔ اسلامی ریاست میں قانون سازی ان حدود کے اندر ہوگی جو شریعت میں مقرر کی گئی ہیں۔ خدا اور رسول کے واضح احکام صرف اطاعت کے لیے ہیں۔ کوئی مجلس قانون ساز ان میں ردوبدل نہیں کر سکتی۔ رہے وہ احکام جن میں دو یا زیادہ تعبیریں ممکن ہیں تو ان میں شریعت کا منشا معلوم کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو شریعت کا علم رکھتے ہیں۔ اس لیے ایسے معاملات مجلس شوریٰ کی اس سب کمیٹی کے سپرد کیے جائیں گے جو علما پر مشتمل ہوگی۔ اس کے بعد ایک وسیع میدان ان معاملات کا ہے جن میں شریعت نے کوئی حکم نہیں دیا ہے۔ ایسے تمام معاملات میں مجلس شوریٰ قوانین بنانے کے لیے آزاد ہے۔
اسلام میں عدالت انتظامی حکومت کے ماتحت نہیں ہےبلکہ براہ راست خدا کی نمائندہ اوراس کو جوابدہ ہے۔ حاکمانِ عدالت کو مقرر تو انتظامی حکومت ہی کرے گی، مگر جب ایک شخص عدالت کی کرسی پر بیٹھ جائے گا تو خدا کے قانون کے مطابق لوگوں کے درمیان بے لاگ انصاف کرے گا اور اس کے انصاف کی زد سے خود حکومت بھی نہ بچ سکے گی، حتی کہ خود حکومت کے رئیسِ اعلی کو بھی مدعی یا مدعا علیہ کی حیثیت سے اس کے سامنے اسی طرح حاضرہونا پڑے گا جیسے ایک عام شہری حاضر ہوتا ہے۔

حاشیہ: اس اقتباس کو ارسال کرنے پر میری سیاسی وابستگی جماعتِ اسلامی کے ساتھ نہ سمجھی جائے۔
 

x boy

محفلین
قائد اعظم محمد علی جناح کے مطابق ہمیں کسی مغربی ’’ism‘‘ کی ضرورت نہیں، بہترین حکومتی نظام وہ ہے جو حضرت عمر فاروق اور حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ کے زمانے میں رائج تھا، اسی کو آجکل کے حالات کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے نہ کہ کوئی مغربی نظام۔
متفق
 
Top