مقبولِ عام شعرا اور اچھی شاعری

سیما علی

لائبریرین
اب شاعری نے آپ کو کیا کہا ۔۔۔۔تھوڑا سا رنگ ہی اُڑا وہ تو اُڑنا ہی تھا ۔۔۔۔۔:glasses-cool::glasses-cool:
سید عمران
آپکی جدت پسندی کی نذر؀:cowboy1::cowboy1:
میں آپ اپنا اوتار ہوں، میں آپ اپنی پہچان
میں دین دھرم سے ماورا، میں ہوں حضرت انسان

(علی زریون)

اب اداسی کا تصور بدل چلا ہے۔ شعرا کے نزدیک اداسی اس حسینہ کی کیفیت ہے جس نے دل پر پتھر رکھا، پھر منہ پر میک اپ کیا اور ناچ ناچ کے سب کو بتایا کہ میرے سیّاں جی سے آج میرا بریک اپ ہو گیا! اصل شعرا کے نزدیک ترکِ تعلق کی اداسی یہ ہے، یہ درد محسن نقوی نے یوں بیان کیا ہے:
وہ شخص شہر کے لوگوں میں ڈھلتا جاتا ہے
کہ اس کی بات کا لہجہ بدلتا جاتا ہے
اسے بھی دکھ ہے تعلق کے ٹوٹ جانے کا
وہ جا رہا ہے مگر ہاتھ ملتا جاتا ہے

ہاتھ ملنے اور منہ پر میک اپ ملنے کا یہ جو فرق ہے، بس یہی ہمارے اور آج کے درمیان کا فرق ہے۔ ہم کو اگر میر، غالب یا جون کی اداسی مائل کرتی ہے تو ان کو یہ قلق رہتا ہے کہ:
تیرے ہوتے ہوئے موم بتی بجھائی کسی اور نے
کیا خوشی رہ گئی تھی جنم دن کی میں کیک کیا کاٹتا
اب اگر لوگ اس کیفیت پر جھوم رہے ہیں تو جون نے بلاوجہ ہی اتنی محنت کی اور یہ شاہکار تخلیق کیا:
اے وصل کچھ یہاں نہ ہوا، کچھ نہیں ہوا
اس جسم کی میں جاں نہ ہوا، کچھ نہیں ہوا


منقول
سب سے زیادہ ہنسی بات پہ آتی ہے جب چاہنے والے جون اور محسن نقوی سے ملاتے اور محسن نقوی کی شاعری سے ہمیں عشق۔اسقدر دل دکھتا ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:
کس نے جینز کری ممنوع
پہنو اچھی لگتی ہو
(نقل بمطابق اصل)
"قبلہ مفتی" علی زریون صاحب مدظلہ
قبلہ موصوف کے بارے میں اس خاکسار کو ’’تقریباً‘‘ یقینِ کامل ہے کہ یہ سرقۂ شناخت کے مرتکب ہیں۔ حضرت جونؔ بھائی کے بیٹے کا نام بھی علی زریون ہے، جبکہ ان صاحب کا اصل نام کچھ اور ہے، انہوں نے عمداً جونؔ کا سا حلیہ بنا کر اپنا ’’تخلص‘‘ علی زریون رکھ لیا ہے۔ ایسا مجھے ایک صاحب نے بتایا جو شوبزنس سے بطور آرگنائزر منسلک ہیں۔
میرے خیال میں یہاں موصوف نے ’’کری‘‘ عمداً استعمال کیا ہے، تاکہ قارئین و سامعین ان کو ’’کراچی والا‘‘ ہی سمجھیں :)
 
سوچتا ہوں اتنا بوڑھا تو ابھی تک میں بھی نہیں ہوا کہ سر میں ایک بال بھی سفید نہیں پھر بھی پتا نہیں شاید آج کل لوگوں کا مزاج کچھ اور ہو گیا یا ہمارے جیسے لوگ ابھی تک ماضی کو پکڑے بیٹھے ہیں۔ پتا نہیں ہم غلط ہیں صحیح۔
ہمارے سر اور داڑھی کے بالوں میں تو کافی عرصہ ہوا، چاندی اترنا شروع ہو چکی تھی، مگر خود کو بوڑھا ہرگز تسلیم نہیں کیا تھا ۔۔۔ اب لگتا ہے کہ حقیقت تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے :)
 
ا
ان کا اپنے بارے میں بہت سادہ سا نقطہ نظر ہے کہ وہ "عوامی شاعری " کرتے ہیں جو انھوں نے مجبوراً اختیار کی ۔ ۔
ایک زمانہ تھا کہ ’’عوامی شاعری‘‘ کا استعارہ حضرتِ نظیرؔ اکبر آبادی ہوا کرتے تھے ۔۔۔ خیر، وقت وقت کی بات ہے۔ اس جدید شاعری کا شفیق الرحمان نے خوب تعاقب کیا ہے۔ اپنے نثر پارے ’’ریویو‘‘ میں لکھتے ہیں

’’اسی سلسلے میں ہم ایک اور شاعری کی غزل پیش کرتے ہیں (یہ ہم اپنی طرف سے کر رہے ہیں)۔ پرانی شاعری میں بندشیں بہت تھیں اور ہم جذبات کا اظہار کرتے وقت گھُٹ کر رہ جاتے تھے لیکن جدید شاعری میں بڑی وسعت ہے۔ یہاں تک کہ جو کچھ ہم بولتے ہیں، اسے براہِ راست شعروں میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’اماں ٹہرو بھی سہی‘ یا ’ارے ارے‘ اور ’اوں ہوں‘ کو بھی قافیہ (یا ردیف) رکھ سکتے ہیں۔
اب ہم اپنے دوست ازہرؔ صاحب کی ایک غزل پیش کرتے ہیں۔ ہم نے جہاں ’چ چ‘ لکھا ہے، اسے آپ ’چچ چچ‘‘ پڑھیے گا جو اظہارِ افسوس کے وقت منہ سے نکل جاتا ہے۔

قصۂ قلبِ ناتواں چ چ ۔۔۔۔ دکھ بھری ہے یہ داستاں چ چ
ہر حسیں شکل پر خود آجانا ۔۔۔۔ خود ہی پھر نالہ و فغاں چ چ
تیر کھا کر ہر اک کی نظروں کے ۔۔۔ اور دینا دہائیں چ چ
فصلِ گل میں غم آشیانے کا ۔۔۔ گلۂ آمدِ خزاں چ چ
درِ جاناں پہ خود ہی جا جا کے ۔۔۔ کھانا درباں کی گالیاں چ چ
اک تو یہ دل کی بےتکی باتیں ۔۔۔ اس پہ تخیل شاعراں چ چ
الغرض شیخ جی، محبت کی ۔۔۔ ہے کچھ ایسی ہی داستاں چ چ

کیا کوئی ایسی غزل آج سے پچاس سال پہلے کہ سکتا تھا؟ ہرگز نہیں! یہاں ہمیں دو شعر اور یاد آگئے

جگر کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے
جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے

لفظ نہیں نے شعرکو چار چاند لگا دیے، کیا معصومیت پیدا ہوگئی، سبحان اللہ! دوسرا شعر ہے

کہیں کرتا ہے کوئی یوں جفائیں نازنیں ہو کر
نہیں کرتا ہے کوئی یوں جفائیں نازنیں ہو کر
وغیرہ وغیرہ!‘‘
 

سید عاطف علی

لائبریرین
قصۂ قلبِ ناتواں چ چ ۔۔۔۔ دکھ بھری ہے یہ داستاں چ چ
ہر حسیں شکل پر خود آجانا ۔۔۔۔ خود ہی پھر نالہ و فغاں چ چ
الغرض شیخ جی، محبت کی ۔۔۔ ہے کچھ ایسی ہی داستاں چ چ
انگشت بدنداں ہیں کہ اس غزل پر واہ واہ کیا جائے یا پھر چ چ چ ۔ :)
 

سید عمران

محفلین
جگر کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے
جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے


کہیں کرتا ہے کوئی یوں جفائیں نازنیں ہو کر
نہیں کرتا ہے کوئی یوں جفائیں نازنیں ہو کر
وغیرہ وغیرہ!‘‘
آہ مر گئے میر و غالب نہ جانے کیا کہتے کہتے۔۔۔
ارے کہنا تھا تو یہ کہتے اتنا سادہ سلیس مضمون۔۔۔
واہ واہ شاعر نے ایک ہی شعر کے ایک مصرع میں کائنات کا لاینحل مسئلہ پوچھا۔۔۔
اور ترنت اگلے مصرع میں ایسا عمدہ جواب دیا کہ بڑے بڑے فلاسفر انگشت بدنداں حیراں و پریشاں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔۔۔
واہ واہ بھئی کیا خوب کہا جس نے بھی کہا!!!
پیٹ بھر اتنے سارے جھوٹ بولنے پر اب سبحان اللہ کی جگہ معاذ اللہ کہنا تو بنتا ہے نا!!!
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین

صابرہ امین

لائبریرین
ا

ایک زمانہ تھا کہ ’’عوامی شاعری‘‘ کا استعارہ حضرتِ نظیرؔ اکبر آبادی ہوا کرتے تھے ۔۔۔ خیر، وقت وقت کی بات ہے۔ اس جدید شاعری کا شفیق الرحمان نے خوب تعاقب کیا ہے۔ اپنے نثر پارے ’’ریویو‘‘ میں لکھتے ہیں

’’اسی سلسلے میں ہم ایک اور شاعری کی غزل پیش کرتے ہیں (یہ ہم اپنی طرف سے کر رہے ہیں)۔ پرانی شاعری میں بندشیں بہت تھیں اور ہم جذبات کا اظہار کرتے وقت گھُٹ کر رہ جاتے تھے لیکن جدید شاعری میں بڑی وسعت ہے۔ یہاں تک کہ جو کچھ ہم بولتے ہیں، اسے براہِ راست شعروں میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’اماں ٹہرو بھی سہی‘ یا ’ارے ارے‘ اور ’اوں ہوں‘ کو بھی قافیہ (یا ردیف) رکھ سکتے ہیں۔
اب ہم اپنے دوست ازہرؔ صاحب کی ایک غزل پیش کرتے ہیں۔ ہم نے جہاں ’چ چ‘ لکھا ہے، اسے آپ ’چچ چچ‘‘ پڑھیے گا جو اظہارِ افسوس کے وقت منہ سے نکل جاتا ہے۔

قصۂ قلبِ ناتواں چ چ ۔۔۔۔ دکھ بھری ہے یہ داستاں چ چ
ہر حسیں شکل پر خود آجانا ۔۔۔۔ خود ہی پھر نالہ و فغاں چ چ
تیر کھا کر ہر اک کی نظروں کے ۔۔۔ اور دینا دہائیں چ چ
فصلِ گل میں غم آشیانے کا ۔۔۔ گلۂ آمدِ خزاں چ چ
درِ جاناں پہ خود ہی جا جا کے ۔۔۔ کھانا درباں کی گالیاں چ چ
اک تو یہ دل کی بےتکی باتیں ۔۔۔ اس پہ تخیل شاعراں چ چ
الغرض شیخ جی، محبت کی ۔۔۔ ہے کچھ ایسی ہی داستاں چ چ

کیا کوئی ایسی غزل آج سے پچاس سال پہلے کہ سکتا تھا؟ ہرگز نہیں! یہاں ہمیں دو شعر اور یاد آگئے

جگر کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے
جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے

لفظ نہیں نے شعرکو چار چاند لگا دیے، کیا معصومیت پیدا ہوگئی، سبحان اللہ! دوسرا شعر ہے

کہیں کرتا ہے کوئی یوں جفائیں نازنیں ہو کر
نہیں کرتا ہے کوئی یوں جفائیں نازنیں ہو کر
وغیرہ وغیرہ!‘‘
واہ واہ ۔۔ ۔ ڈھیروں چ ۔ ۔ :p:LOL:
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جب Brain drain ہو جائے ۔ ۔ لوگ جگہ خالی کر دیں تو ایسے ہی حادثات و سانحات ہوتے ہیں ۔ ۔ :D
ویسے طلبا کو دیکھیے ۔ ۔ کتنا " عمدہ ذوق " رکھتے ہیں ۔ ۔ :LOL:
میں نے ایک ویڈیو دیکھی ایک مشاعرے میں حافی حسبِ معمول "بے شمار لعنتیں" فرما رہے تھے۔شومئی قسمت سے انور مسعود صاحب بھی موجود تھے پھر جب تک حافی پڑھتا رہا انور مسعود صاحب کی بیچارگی دیدنی تھی
 

صابرہ امین

لائبریرین
قبلہ موصوف کے بارے میں اس خاکسار کو ’’تقریباً‘‘ یقینِ کامل ہے کہ یہ سرقۂ شناخت کے مرتکب ہیں۔ حضرت جونؔ بھائی کے بیٹے کا نام بھی علی زریون ہے، جبکہ ان صاحب کا اصل نام کچھ اور ہے، انہوں نے عمداً جونؔ کا سا حلیہ بنا کر اپنا ’’تخلص‘‘ علی زریون رکھ لیا ہے۔ ایسا مجھے ایک صاحب نے بتایا جو شوبزنس سے بطور آرگنائزر منسلک ہیں۔
میرے خیال میں یہاں موصوف نے ’’کری‘‘ عمداً استعمال کیا ہے، تاکہ قارئین و سامعین ان کو ’’کراچی والا‘‘ ہی سمجھیں :)
بھئی عوامی انداز اور عوامی پذیرائی کے لیے پاتال کی گہرائی میں بھی اتر سکتے ہیں ۔ ۔ سب گول مال ہے ۔ ۔ اور آپ لوگ ہیں کہ اصلاح سخن میں ہمیں ایک ایک لفظ کو ناپ تول کر استعمال کرواتے ہیں ۔ ۔ لگتا ہے ہم نے تو کبھی مشہور نہیں ہونا اسطرح ۔ ۔ تو آپ سب بھی اصلاح کو "عوامی ٹچ" دیجیے ۔ ۔ :D:ROFLMAO:
 

صابرہ امین

لائبریرین
میں نے ایک ویڈیو دیکھی ایک مشاعرے میں حافی حسبِ معمول "بے شمار لعنتیں" فرما رہے تھے۔شومئی قسمت سے انور مسعود صاحب بھی موجود تھے پھر جب تک حافی پڑھتا رہا انور مسعود صاحب کی بیچارگی دیدنی تھی
انور مسعود کے صاحبزادے کو سیاسی ٹاک شوز میں سنیے ۔ ۔ وہ حافی سے بھی بڑی چیز ہیں ۔ ۔ :ROFLMAO:
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
تازہ حادثہ شاعری کا ، اور ہر کوئی واہ واہ لکھے جا رہا تھا اففف۔۔۔
سنو !
زخموں بھری تھیلی نکالی ہے !
پٹخ دی ہے ہتھیلی پر !
اسے راوی کو لے جاؤ وہاں جا کر بہا دینا !
بہانا گر نہ ہو پائے تو پھر اس کو جلا دینا !
اسی کو دل بتاتے ہو ؟
بہا ڈالو، جلا ڈالو !
 

صابرہ امین

لائبریرین
تازہ حادثہ شاعری کا ، اور ہر کوئی واہ واہ لکھے جا رہا تھا اففف۔۔۔
سنو !
زخموں بھری تھیلی نکالی ہے !
پٹخ دی ہے ہتھیلی پر !
اسے راوی کو لے جاؤ وہاں جا کر بہا دینا !
بہانا گر نہ ہو پائے تو پھر اس کو جلا دینا !
اسی کو دل بتاتے ہو ؟
بہا ڈالو، جلا ڈالو !
سارے غم ہتھیلی پر سما گئے ۔ ۔ بہت نکلے مرے "غم" لیکن پھر بھی کم نکلے ۔ ۔ ہر کوئی واہ واہ ۔ ۔ یقیناً فیس بک کی بات ہے ۔ ۔ :ROFLMAO:
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہاں مگر کبھی ان کے صاحبزادے کو بھی سنیے ۔ ۔ لگتا ہی نہیں کبھی کہ اپنےابا جان کا کوئی اثر ہے ۔ ۔ ویسے صابر شاکر "بگ نو نو " ۔ ۔ :LOL::p
آپ کہہ رہی ہیں تو ان صاحب کو بھی سننا (جھیلنا) پڑے گا :)
ویسے میں نے شبلی فراز کو بھی دیکھا ہے خواہ مخواہ اپنی پارٹی کا دفاع کرتے (قسم سے تکلیف ہوتی ہے) :cry:
 
Top