پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، حکومت نے کئی اہم قوانین منظور کر لئے

آورکزئی

محفلین
EiLhYEMXkAAJN2p
 

ظفری

لائبریرین
ہر دور ِ اقتدار میں یہ بات مسلسل تکرار کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ " یہ ہماری تاریخ کا بدترین دور ہے " اگر اس تکرار کا مشاہدہ کیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ بھٹو کے دور کو اسلام اور قومی سلامتی کے لیئے بدترین دور قرار دیا گیا ۔ وہ رخصت ہوئے تو گلی کوچوں میں مٹھائیاں بانٹیں گئیں ۔ ابھی اسی مستی میں تھے تو معلوم ہوا کہ ملک مارشل لاء کی زد میں ہے ۔ اور پھر اسی طرح گیارہ برس گذر گئے ۔ پھر اسی دوران قوم کو یہ احساس ہوا کہ ضیاء کے دور سے " بدترین دور " پاکستان کی تاریخ میں نہیں آیا ۔ ایک حادثے کے بعد وہ گئے تو بینظیر آگئیں ۔ پھر ان کو دور کو بھی بدترین دور قرار دیا گیا اور پھر اسی طرح نواز شریف کے دور کو بھی " بدترین دور " کہا گیا ۔ پھر یہ تبدیلی کی خواہش مشرف کی حکومت کے ساتھ ہوئی ۔ پھر زرداری عہد بھی بدترین دور کہلایا اور پھرنواز شریف کا دور اور اب اس حکمران جماعت سے بھی یہی توقعات وابستہ ہیں ۔
تاریخ کے تسلسل میں دیکھئے تو آج تبدیلی کی یہ خواہش کونسا دور لیکر آئے گی تو کوئی بعید نہیں کہ آنے والا دور بھی پچھلے ادوار کی طرح " بدترین دور " ہوگا ۔ کم از کم اقتدار سے محروم لوگوں کی تو یہی رائے ہوگی ۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کونسا سا حکمران تاریخ کا بدترین حکمران تھا ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہی بدترین کا حصول دراصل وہ تبدیلی کی خواہش ہے ۔ جو عوام چاہتی ہے ۔ ؟ ہم جو تبدیلی چاہتے ہیں وہ خیر کے راستے پر کیوں نہیں جاتی ۔ ؟ اس کو وجود پذیر نہ ہونے کے عوامل کونسے ہیں ؟ میرا تاثر یہ ہے کہ محض تبدیلی کسی خیر کا باعث نہیں بن سکتی ۔ اس کے لیئے ایک ایسے اصلاحی عمل کا ناگزیر ہونا ضروری ہے ۔ جس سے اخلاقی ، سیاسی ، معاشرتی رواداری کا پہلو لوگوں میں اجاگر ہو اور یہ پہلو قومی وحدت پر آکر منتج ہو ۔ جب تک " لے کے رہیں گے پاکستان " والی اجتماعی سوچ نہیں پیدا ہوگی تب تک ایک ایسی تبدیلی کا وقوع پذیر ہونا ناممکن ہے جو معاشرے میں کسی جوہری تبدیلی کا باعث بن سکے ۔ لہذا پہلے قوم اپنی ذہنی ، اخلاقی پستی سے باہر نکلے تو شاید کوئی اُمید کی کرن پیدا ہو کہ بدترین دور کی تکرار ختم ہو ۔ بصورتِ دیگر یہ لوگ آسمان سے نہیں اُترے بلکہ انہی لوگوں کے مرہونِ منت ہیں جو آج پھر بدترین دور کا راگ الاپ رہے ہیں ۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہم جو تبدیلی چاہتے ہیں وہ خیر کے راستے پر کیوں نہیں جاتی ۔ ؟
کیونکہ ہم میں برداشت کا مادہ بالکل بھی نہیں ہے۔ جو حکمران ہم میں موجود ہوتا ہے اس سے ہم دل و جان سے نفرت کرتے ہیں۔ اور جو حکمران بننے کا خواب دیکھ رہا ہوتا ہے اسے ہم مسیحا بنا کر سر پر بٹھا دیتے ہیں۔
بینظیر آئی تو نواز شریف اچھا لگنے لگا۔ نواز شریف آیا تو بینظیر کی واپسی کی یاد ستانے لگے۔پورے 90 کی دہائی یہی کچھ ہوتا رہااور 2008 کے بعد یہ سلسلہ دوبارہ چل پڑا تھا کہ عمران خان نے آکر اس کو بریک لگا دی۔ اب ایک طرف بار بار باریاں لینے والی متحدہ اپوزیشن ہے تو دوسری طرف اکیلا عمران خان۔ جس کے ساتھ عوام ہے نہ میڈیا نہ سرکاری خزانہ۔ صرف فوج ، ایجنسیاں اور سوشل میڈیا کے ٹرولز ڈٹ کر اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ وگرنہ کب کا مسلسل اکتائے ہوئے عوامی مزاج کے تحت گھر بھیج دیا گیا ہوتا۔
 
آخری تدوین:
تو دوسری طرف اکیلا عمران خان۔ جس کے ساتھ عوام ہے نہ میڈیا نہ سرکاری خزانہ۔ صرف فوج اور ایجنسیاں اس کی حفاظت کر رہی ہیں
جی ہاں! یہ وہ سیلیکٹڈ ہے جسے عوام اقتدار میں نہیں لائے، وہی فوج اور ایجنسیاں جو اسے سیلیکٹ کرکے لائے ہیں انہوں نے ہی اس کے گرد لوٹوں کی بہار لگائی ہے۔

عرصہ دوسال گزرنے کے باوجود سیلیکٹڈ کی کارگزاری صفر!
 

جاسم محمد

محفلین
جی ہاں! یہ وہ سیلیکٹڈ ہے جسے عوام اقتدار میں نہیں لائے، وہی فوج اور ایجنسیاں جو اسے سیلیکٹ کرکے لائے ہیں انہوں نے ہی اس کے گرد لوٹوں کی بہار لگائی ہے۔
بالکل درست فرمایا۔ عوام نے ووٹ صرف اپوزیشن جماعتوں کو ڈالے تھے۔ عمران خان کو ووٹ فوج اور ایجنسیاں ڈال گئی ہیں۔
image.png
 
لکل درست فرمایا۔ عوام نے ووٹ صرف اپوزیشن جماعتوں کو ڈالے تھے۔ عمران خان کو ووٹ فوج اور ایجنسیاں ڈال گئی ہیں۔
جس طرح پچھلے الیکشن کے نتائج کو پامال کیا گیا وہ ایک کھلا راز ہے۔ پہلے فارم 45 کافراڈ پھر کمپیوٹر کا فارغ ہونا ابھی لوگ بھولے نہیں۔
 
کاش عین جمہوری پی پی اور ن لیگ کے عرصہ دہائیاں گزرنے کی کار گزاری پر بھی اسی طرح سے تشویش ہوتی تو آج پاکستان ایشین ٹائیگر ہوتا
اگر پی پی اور نون کی طرح کا سیلیکٹ کرلیا تب تبدیلی جس کے آپ گرویدہ ہیں کہاں گئی؟
 

جاسم محمد

محفلین
جس طرح پچھلے الیکشن کے نتائج کو پامال کیا گیا وہ ایک کھلا راز ہے۔ پہلے فارم 45 کافراڈ پھر کمپیوٹر کا فارغ ہونا ابھی لوگ بھولے نہیں۔
2013 کے الیکشن کوریٹرننگ آفیسرز کا الیکشن کہا گیا۔
2008 کا الیکشن ڈکٹیٹر کی ریاستی مشینری کے نیچے منعقد ہوئے۔
2002 کا الیکشن ڈکٹیٹر کا الیکشن تھا۔
اور یوں چل سو چل جو الیکشن اٹھائیں گے کہیں نہ کہیں آپ کو اعتراض کا موقع مل جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
آخری تدوین:
Top