ردرپریاگ کا آدم خور تیندوہ

ردرپریاگ کا آدم خور تیندوہ
جم کاربٹ
مترجم: جاوید شاہین

فہرست
یاترا سڑک
آدم خور
دہشت
آمد
تحقیق
پہلا انسانی شکار
تیندوے کی تلاش
دوسرا انسانی شکار
تیاریاں
جادو
بال بال بچاؤ
لوہے کا پھندہ
شکاریوں کا تعاقب
واپسی
مچھلی کا شکار
بکرے کی موت
لاش میں زہر
تیندوے کی خوش قسمتی
احتیاط کی ضرورت
ایک جنگلی سؤر کا تعاقب
صنوبر کے درخت پر شب بیداری
دہشت کی رات
تیندوے تیندوے کا مقابلہ
اندھیرے میں ایک فائر
حرفِ آخر​

یاترا سڑک
اگر آپ ہندوستان کے تپتے ہوئے میدانوں کے رہنے والے ایک ہندو باسی ہیں اور تمام اچھے ہندوؤں کی طرح کیدار ناتھ اور بدری ناتھ کی قدیم یاتراؤں کی یاترا پر جانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی اس یاترا کا آغاز ہردوار سے کرنا ہو گا۔ اور اگر آپ اس یاترا کا پورا پورا ثواب کمانا چاہتے ہیں تو ہردوار سے کیدار ناتھ اور وہاں سے بدری ناتھ تک سارا سفر ننگے پاؤں طے کریں۔
ہرکی پیاری کے پاک تالاب میں غسل کر کے خود کو پاک کرنے اور ہردوار کے بہت سے مندروں اور مقدس جگہوں کے درشن کرنے اور وہاں تھوڑا بہت نذرانہ دینے کے بعد آپ ان اپاہجوں اور کوڑھیوں کو دان دینا نہ بھولیں جو مقدس تالاب کے قریب سڑک کے کنارے ہاتھ پھیلائے بیٹھے رہتے ہیں۔ اگر آپ اس غلطی کے مرتکب ہو گئے تو وہ آپ کو شراپ دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان اپاہجوں اور کوڑھیوں کے گندے چیتھڑوں یا ان کے خستہ حال جھونپڑوں میں اتنی دولت ہوتی ہے کہ آپ تصّور بھی نہیں کر سکتے۔ ان کی بددعاؤں سے بچنا ہی بہتر ہے اور پھر آپ کو فقط چند سکّے خرچ کرنے پڑیں گے۔
اب آپ ایک اچھے ہندو کی طرح مذہب کی تمام رسموں سے عہدہ برآں ہو چکے ہیں اور اپنی طویل اور مشکل یاترا کا آغاز کرنے کے لیے آزاد ہیں۔
ہردوار سے چلنے کے بعد آپ کی دلچسپی کی پہلی جگہ رکی کیش آئے گی۔ یہاں آپ سب سے پہلے کالی کملی والوں سے ملیں گے۔ کالی کملی والوں کے بزرگ اپنے بدن کے گرد فقط ایک کالا کمبل اوڑھتے تھے۔ ان کے اکثر چیلے آج بھی ان کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ کمبل انہوں نے کمر میں بکری کے بالوں سے باندھ رکھا ہوتا ہے۔ یہ لوگ سارے ہندوستان میں اچھے کارناموں کے سبب مشہور ہیں۔ میرے خیال میں آپ کے سفر کے دوران میں کوئی دوسرا ایسا مذہبی فرقہ نہ ملے گا جو اپنی شہرت کا دعویدار ہو مگر کالی کملی والے یہ دعوی بڑے فخر سے کرتے ہیں اور حقیقت میں اس کا جواز بھی ہے کیونکہ بہت سے مندروں اور مقدس جگہوں سے انہیں جو نذرانہ وغیرہ ملتا ہے اس سے انہوں نے کئی ہسپتال کھول رکھے ہیں۔ یاتریوں کے لیے ٹھہرنے کی جگیں بنا رکھی ہیں اور وہ ضرورت مندوں، معمر اور غریب لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔
رکی کیش سے چلنے کے بعد آپ لچھمن جھولا پہنچیں گے جہاں سے یاترا سڑک ایک جھولا نما پل کے ذریعے دریائے گنگا کے دائیں کنارے سے بائیں جانب ہو جاتی ہے۔ یہاں سرخ بندروں سے باخبر رہیں جو پل پر ڈیرہ جمائے رکھتے ہیں۔ یہ بندر ہردوار کے اپاہجوں سے زیادہ تنک مزاج اور لالچی ہیں۔ اگر آپ ان کے لیے مٹھائی یا بھنے ہوئے چنے لانا بھول گئے ہیں تو یہ آپ کا پل پر سے گزرنا دو بھر کر دیں گے۔
دریائے گنگا کے بائیں کنارے پر تین دن کے سفر کے بعد آپ گھڑوال کے قدیم دارالحکومت شری نگر پہنچ جائیں گے۔ یہ شہر مذہبی اور تاریخی اہمیت کے علاوه کاروباری نقطہ نظر سے بھی بڑا اہم ہے۔ یہ پہاڑوں کے درمیان گھری ہوئی ایک کشادہ اور وسیع وادی میں واقع ہے اور خوبصورتی کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ اسی وادی میں 1805 میں گھڑوالیوں کے آباؤاجداد نے گورکھا حملہ آوروں کی یلغار کو روکنے کی آخری ناکام کوشش کی تھی۔ اس کے علاوہ گھڑوال کے باشندوں کو اس بات کا بھی ہے حد افسوس ہے کہ 1805 میں گوہنالیک ڈیم کے اچانک ٹوٹ جانے سے ان کا قدیم شہر شری نگر اور وہاں مہا راجاؤں کے عظیم الشان محل تیز پانی کی یورش کی تاب نہ لا کر بہ گئے تھے۔ اس ڈیم کو بڑی گنگا کی وادی نے جنم دیا ہے۔ بڑی گنگا بذات خود دریائے گنگا کی ایک شاخ ہے۔ جو شروع میں گیارہ ہزار فٹ چوڑی اور آگے چل کر نو سو فٹ کی بلندی پر دو ہزار فٹ چوڑی رہ جاتی ہے۔ جب اس وادی کے منہ پر بنا ہوا ڈیم پتھروں کے سینے کو چیر کر ایک دم پھوٹ پڑا تو فقط چھ گھنٹوں کے اندر اس نے دس کھرب کیوبک فٹ پانی بہا دیا۔ اس سیلاب سے گنگا سے ہردوار تک تباہی مچادی اور راستے کا ہر پل توڑ دیا۔ مگر اس سیلاب میں فقط ایک کنبے کا جانی نقصان ہوا اور وہ بھی اس کنبے کے افراد کی اپنی غلطی تھی۔ جب انہیں زبردستی خطرے والی جگہ سے لایا گیا تو وہ پھر وہاں پہنچ گئے۔
شری نگر سے چٹخال تک آپ کو مشکل چڑھائی کا سامنا کرنا پڑے گا مگر وادئ گنگا کے دلکش نظارے اور بدری ناتھ کی ابدی برف آپ کو یہ دشوار چڑھائی محسوس نہ ہونے دے گی۔
چٹخال سے ایک دن کا سفر آپ کو گلاب رائے پہنچا دے گا۔ یہاں آپ کو گھاس پھونس سے بنے ہوئے ایسے سائبان اور کمرے دکھائی دیں گے جہاں یاتری قیام کرتے ہیں۔ یہاں پینے کا پانی جمع کرنے کا ایک بہت بڑا تالاب بھی ہے۔ اس بڑے تالاب کو ایک ایسی شفاف ندی بھرتی ہے۔ جس کا پانی گرمیوں میں پہاڑوں کے نیچے بھری ہوئی نالیوں اور پائپوں کے ذریعے لے جایا جاتا ہے۔ لیکن سال کے دوسرے موسموں میں اس ندی کا پانی پھول دار تختوں، ہری بھری گھاس اور چھوٹے چھوٹے جنگلی پودوں اور جھاڑیوں کے درمیان اٹکھیلیاں کرتا رہتا ہے۔
اس سائبان اور کمروں سے ایک سو گز دور سڑک کی دائیں طرف آم کا ایک درخت ہے۔ یہ درخت اور اس کے اوپر گلاب رائے کے سائبانوں اور کمروں کے مالک پنڈت کا دو منزلہ مکان ہے۔ یہ درخت اور یہ دو منزلہ مکان قابلِ توجہ ہیں۔ کیونکہ آئندہ بیان ہونے والی داستان میں یہ بڑا اہم کردار انجام دیتے ہیں۔
یہاں سے مزید دو میل کا سفر طے کرنے پر آپ "ردرپریاگ" پہنچ جائیں گے۔ یہاں سے میرا اور آپ کا راستہ جدا ہو جاتا ہے۔ آپ کا راستہ الک نندہ سے اور منڈانی کے بائیں کنارے سے کیدار ناتھ کی سمت جاتا ہے اور میرا راستہ یہاں سے پہاڑیوں کے اوپر اوپر نینی تال میں میرے گھر کی سمت مڑتا ہے۔
آپ کے سامنے پھیلی ہوئی سڑک جس پر لاکھوں یاتری چل چکے ہیں، بڑی ڈھلوان اور ناقابلِ اعتبار حد تک سخت اور پتھریلی ہے۔ آپ کے پھیپھڑے جنہوں نے سطح سمندر سے اوپر کبھی کام نہیں کیا اور جو اپنے گھر کی چھت سے بھی اوپر نہیں چڑھے اور آپ کے پاؤں جو نرم زمین پر چلنے کے عادی ہیں، انہیں بڑی تکلیف اٹھانی ہو گی۔ بارہ ایسے مقام آئیں گے جب آپ پھولے ہوئے سانس اور زخمی پاؤں سے چڑھائی چڑھنے میں مصروف ہوں گے اور آپ کے ذہن میں کئی بار یہ سوال سر اٹھائے گا کہ کیا یاترا کا ثواب اس تکلیف کی تلافی کر سکے گا۔ مگر ایک اچھے ہندو کی طرح آپ اپنا سفر جاری رکھیں اور اس خیال سے خود کو تسلی دیں کہ تکلیف کے بغیر راحت حاصل نہیں ہوتی اور اس دنیا میں جس قدر کوئی دکھ اٹھائے گا اگلی دنیا میں اتنی ہی اس کو جزا ملے گی۔

آدم خور
پریاگ ہندی میں سنگم کو کہتے ہیں۔ ردرپریاگ کے مقام پر دو دریا۔ یعنی منڈاکنی جو کیدار ناتھ کی سمت سے آتا ہے اور دوسرا الک نندہ جو بدری ناتھ سے اس سمت بہتا ہے۔ دونوں مل جاتے ہیں اور یہاں سے آگے ان دریاؤں کا ملا جلا پانی ہندوؤں کے لیے گنگا مائی اور باقی دنیا کے لیے فقط گنگا بن جاتا ہے۔
جب کوئی جانور خواہ وہ تیندوہ ہو یا شیر، آدم خور بن جاتا ہے تو شناخت کی خاطر اسے کسی جگہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس طرح کسی آدم خور کو جو نام دیا جاتا ہے اس کا یہ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس جانور نے آدم خوری کا آغاز اس جگہ سے کیا تھا یا اس نے اپنے تمام انسانی شکار اسی جگہ پر ہلاک کیے تھے۔ یہ بڑی فطری بات ہے کہ وہ تیندوہ جس نے ردرپریاگ سے بارہ میل دور کیدار ناتھ کی یاترا سڑک پر آدم خوری کا آغاز کیا تھا، بعد میں ردرپریاگ کے آدم خور تیندوے کے نام سے پکارا جائے۔
جن وجوہ کی بنا پر شیر آدم خور بن جاتے ہیں، ان وجوہ کے سبب تیندوے آدم خور نہیں بنتے۔ ہندوستانی جنگلات کے تیندوے جو نہایت خوبصورت ہوتے ہیں اور جب زخمی ہو جائیں یا انہیں گھیر لیا جائے تو شیر جیسی جرات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کے متعلق بھی یہ بات تسلیم کرنے میں عار محسوس ہوتی ہے کہ بعض اوقات بھوک سے تنگ آکر وہ اس قدر گھٹیا ہو جاتے ہیں کہ مردار بھی کھالیتے ہیں، بالکل افریقہ کے شیروں کی طرح۔
گھڑوال کے باشندے ہندو ہیں اور وہ اپنے مردوں کو جلاتے ہیں۔ مردوں کو جلانے کی رسم کسی ندی یا دریا کے کنارے ادا کی جاتی ہے تاکہ ان کی راکھ گنگا مائی میں بہہ جائے۔ چونکہ اس علاقے کے بہت سے دیہات پہاڑیوں پر واقع ہیں اور کوئی ندی یا دریا ان سے کئی میل دور وادی میں ہوتا ہے۔ لہذا آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ ایسے دیہات کے لوگوں کو مردوں کو اٹھانے کے علاوہ اسے جلانے کی خاطر لکڑی وغیرہ ندی یا دریا کے کنارے لے جانے میں کس قدر دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ عام حالات میں وہ لوگ یہ رسمیں بڑے خلوص سے ادا کرتے ہیں۔ لیکن جب پہاڑیوں میں کوئی متعدی وباء پھیل جاتی ہے اور لوگ زیادہ تعداد میں مرنے لگے ہیں تو اس صورت میں ایک بڑی سادہ سی رسم ادا کی جاتی ہے۔ لوگ مردے کے منہ میں ایک جلتا ہوا کوئلہ رکھ کر ضروری رسم ادا کرتے ہیں اور پھر اسے اٹھا کر کسی بلند پہاڑی پر سے نیچے وادی میں پھینک دیتے ہیں۔ ایک تیندوے کے لیے جس علاقے میں فطری غذا کی کمی ہو وہ ایسی لاشوں کو کھا کر بڑی جلدی انسانی گوشت کا دلدارہ بن جاتا ہے اور جب متعدی وبا ختم ہو جاتی ہے اور حالات کا دھارا عام رفتار سے بہنے لگتا ہے تو ایسا تیندوہ اپنی غذا کے پیش نظر انسانوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیتا ہے۔1918 میں ہندوستان کے اندر انفلوئنزا کی جو وباء پھیلی تھی اس میں تقریباً دس لاکھ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ گھڑوال میں بھی بےحد جانی نقصان ہوا۔ اس وباء کے اختتام پر گھڑوال کے آدم خور نے اپنی تباہ کاری شروع کی تھی۔
ردرپریاگ کے آدم خور تیندوے نے اپنا پہلا انسانی شکار موضع بینجی میں9 جون 1918 کو اور اس نے اپنا آخری انسانی شکار موضع بھینسوارہ میں 14 اپریل1926 کو کیا۔ ان دو تاریخوں کے درمیانی عرصے میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس آدم خور تیندوے نے 125 انسانوں کو ہلاک کیا تھا۔ میرے خیال میں یہ اعداد و شمار جو گڑوال میں مقیم سرکاری افسروں نے حکومت کی ہدایت کے تحت ریکارڈ کیے تھے‘ بڑی حد تک درست نہیں۔ میں اپنے اس دعوے کے جواز میں یہ بیان دیتا ہوں کہ جن دنوں میں اس علاقے میں تھا اس زمانے میں بھی آدم خور نے کئی انسانوں کو ہلاک کیا مگر ان میں سے بیشتر اموات سرکاری ریکارڈ میں درج نہیں تھیں۔
میری یہ ہرگز خواہش نہیں کہ آدم خور کی حقیقی انسانی ہلاکتوں کو کم بیان کر کے گھڑوال کے باشندوں کی اس تکلیف کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کروں جس میں وہ آٹھ برس تک مبتلا رہے تھے۔ گر میری یہ منشا بھی نہیں کہ اس آدم خور کی سچائیوں پر حاشیہ آرائی کر کے یہ ثابت کروں کہ ردرپریاگ کا آدم خور تیندوہ سب سے زیادہ خوفناک آرم خور تھا۔ جیسا کہ گڑوال کے لوگوں کا دعویٰ تھا۔
اس اخبارى شہرت کے علاوه كيدار ناتھ اور بدری ناتھ کی یاتروؤں پر ہندوستان کے ہر علاقے سے ہر سال جو ساٹھ ہزار کے قریب یاتری آتے تھے وہ واپسی پر اس تیندوے کی کہانیاں اپنے علاقوں میں بیان کیا کرتے تھے۔
جب کوئی آدم خور جانور کسی انسان کو ہلاک کر دیتا ہے تو حکومت کا یہ طریقہ کار ہے کہ اس شخص کے لواحقین اس موت کی رپورٹ گاؤں کے پٹواری کے پاس درج کرائیں۔ ایسی رپورٹ ملنے پر پٹواری جائے حادثہ پر جاتا ہے اور اگر اس کے پہنچنے سے پہلے متوفی کی نعش نہ ملے تو ایک تلاشی پارٹی منظم کر کے نعش کو برآمد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر اس کے پہنچنے سے پہلے لاش مل جائے یا تلاشی پارٹی اسے ڈھونڈ لے تو پٹواری جائے حادثہ پر تحقیق کرتا ہے اور جب اسے یقین ہو جائے کہ وہ کوئی قتل کا کیس نہیں بلکہ آدم خور ہی نے اسے ہلاک کیا ہے تو وہ لاش کے لواحقین کو اسے اٹھانے اور جلانے یا دفن کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ پھر وہ اپنے رجسٹر میں اس ہلاکت کو درج کرتا ہے اور اس کی ایک مفصل رپورٹ اپنے ضلع کے حاکم اعلیٰ کو روانہ کر دیتا ہے۔ ضلع کے حاکم اعلیٰ یعنی ڈپٹی کمشنر کے پاس بھی ایک رجسٹر ہوتا ہے۔ جس میں آدم خور کی تمام انسانی ہلاکتیں درج کی جاتی ہیں لیکن اگر لاش کا کوئی حصہ غائب ہو جیسے کہ بعض اوقات ہو جاتا ہے کیونکہ آرم خور کو اپنا شکار دور تک لے جانے کی عادت ہوتی ہے، تو اسی صورت میں مزید تحقیق کے لیے کیس کو روک لیا جاتا ہے اور اس بلاکت کا ذمہ دار آدم خور کو نہیں ٹھہرایا جاتا۔ علاوہ بریں جب کوئی شخص آدم خور کے ہاتھوں زخمی ہو جائے اور وہ ان زخموں کی تاب نہ لا کر مرجائے تو اس کی موت کا ذمہ دار بھی آدم خور کو نہیں ٹھہرایا جاتا۔
حکومت نے آدم خور کی انسانی ہلاکتوں کو ریکارڈ کرنے کا جو طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے اگرچہ وہ خاصا اچھا ہے لیکن ایسا آدم خور حکومت کے ریکارڈ میں درج انسانی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ انسانوں کی موت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ خصوصاً جب وہ ایک وسیع رقبے میں سرگرم عمل ہو۔

دہشت
روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات کے سلسلے میں لفظ "دہشت" اس کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ جب بھی اس کا صحیح مطلب سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ لفظ اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔ لہذا میں آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ گھڑوال کے پانچ سو مربع میل کے رقبے میں آباد پچاس ہزار باشندوں اور ان ساٹھ ہزار یاتریوں کے نزدیک سچ مچ کی دہشت کا کیا مطلب تھا۔ یہ یاتری 1918 سے 1926 تک ہر سال یاترا کی غرض سے گھڑوال سے گزرا کرتے تھے۔ چند مثالوں سے میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ گھڑوال کے باسی اور یاتری آخر کیوں آدم خور سے اس قدر دہشت زدہ تھے۔
ردرپریاگ کے آدم خور تیندوے نے جو کرفیو آرڈر نافذ کر رکھا تھا میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی دوسرے کرفیو آرڈر کی لوگوں نے اتنی سختی سے پابندی نہ کی ہوگی۔ دن کی روشنی میں اس علاقے میں زندگی کی گہماگہمی حسبِ معمول رہتی تھی۔ لوگ دور دراز کے بازاروں میں کاروبار کے سلسلے میں جاتے، گردونواح کے دیہات میں اپنے عزیزوں اور احباب سے ملتے‘ عورتیں پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر سائبان وغیرہ بنانے یا مویشیوں کے لیے چارے کی خاطر گھاس کاٹنے جاتیں، لڑکے اسکول یا جنگل میں مویشی چراتے یا ایندھن کے لیے لکڑیاں کاٹنے جاتے۔ اگر موسمِ گرما ہوتا تو یاتریوں کی ٹولیاں بھجن گانے میں مصروف بدری ناتھ اور کیدار ناتھ کی یاتراؤں کی طرف آتی جاتی دکھائی دیتیں۔
لیکن جونہی سورج مغربی افق کے قریب پہنچ جاتا اور سائے لمبے ہونے لگتے، اس علاقے کے تمام باسیوں کے طرزِ سلوک میں ایک دم نمایاں تبدیلی آجاتی۔ بازار یا گردونواح کے دیہات میں گئے ہوئے لوگ تیز تیز قدموں میں گھر کی سمت بھاگنے لگتے، عورتیں گھاس کے بڑے بڑے گٹھے اٹھائے پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر سے لڑھکنے لگتیں۔ لڑکے جو اسکول سے واپسی پر راستے میں کھیلنے لگ جاتے یا جو جنگل میں بھیڑیں وغیرہ چرانے یا ایندھن وغیرہ لیے گئے ہوتے، ان کی متفکر مائیں انہیں آوازیں دینے لگتیں۔ اور تھکے ماندے یاتریوں کو مقامی باشندے کوئی پناہ تلاش کرنے کی تلقین کرتے۔
رات تیندوے کے ساتھ ہی سارے علاقے پر ایک پرخوف اور منحوس خاموشی مسلط ہو جاتی۔ نہ کہیں کوئی جنبش، نہ کہیں کوئی آواز، ساری آبادی بند دروازوں کے عقب میں مقید ہو جاتی۔ بعض لوگوں نے اپنے گھروں کے دوہرے دروازے بنا رکھے تھے۔ جو یا تری کسی گھر میں پناہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے انہیں مندروں سے ملحق کمروں میں بند کر دیا جاتا۔ پھر ایسے کمرے ہوں یا مکان، ہر جگہ بھرپور خاموشی مسلط ہو جاتی اور اس ڈر سے کوئی آواز نہ نکالی جاتی کہ کہیں ظالم آدم خور آواز سن کر ادھر نہ آ جائے۔
گھڑوال کے باسیوں اور یاتریوں کے نزدیک آٹھ برس تک دہشت کا یہ مطلب تھا۔
اب میں چند مثالوں سے واضح کرتا ہوں کہ اس قسم کی دہشت کی آخر کیا وجہ تھی۔
ایک شخص نے ایک چودہ سالہ یتیم لڑکا اپنی بکریوں کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھا ہوا تھا۔ وہ لڑکا اچھوت تھا۔ ہر شام جب وہ بکریاں چرا کر واپس آتا تو اس کا مالک اسے کھانا کھلانے کے بعد بکریوں کے ساتھ ہی ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کردیتا۔وہ کمرہ مکان کی نچلی منزل پر تھا اور اس سے اوپر والے کمرے میں اس کا مالک رہتا تھا۔ لڑکے نے رات کو سونے کے لیے کمرے کی ایک نکڑ میں تھوڑی سی جگہ بنا رکھی تھی اور آگے باڑھ سی باندھ لی تھی تاکہ رات کو بکریاں اس پر چڑھ نہ جائیں۔
اس کمرے میں کوئی کھڑکی نہ تھی۔ فقط ایک دروازہ تھا۔ جب لڑکا اور بکریاں کمرے میں داخل ہو جاتیں تو مالک باہر سے دروازے کی زنجیر چڑھا کر مزید حفاظت کے لیے زنجیر میں لکڑی کا کوئی کڑا پھنسا دیتا تاکہ وہ کھل نہ سکے۔ دوسری طرف کمرے کے اندر لڑکا دوہری حفاظت کے پیش نظر دروازے کے آگے ایک بڑا سا پتھر جما دیتا۔
جس رات یہ حاوثہ پیش آیا لڑکے کے مالک نے حسبِ دستور لڑکے اور بکریوں کو کمرے میں بند کر کے باہر سے زنجیر چڑھا دی۔ اس شخص کی بات پر شک کرنے کی مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آئی۔ بعد میں معائنہ کیا گیا تو دروازے پر تیندوے کے پنجوں کی خراشیں موجود تھیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ دروازہ کھولنے کی کوشش میں تیندوے نے زنجیر میں سے لکڑی کا کڑا نکال دیا ہو یا وہ تیندوے کی اس جدوجہد میں خود ہی گرپڑا ہو۔ جس کے بعد اس کے لیے زنجیر گرانا، دروازہ کھولنا اور دروازے کو دھکیل کر اندر داخل ہونا مشکل نہ تها۔
ایک چھوٹے سے کمرے میں چالیس بکریوں کا ہجوم تیندوے کے لیے اس قدر جگہ مہیا نہ کر سکتا تھا کہ وہ اِدھر اُدھر گھوم سکے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ تیندوے نے دروازے سے لڑکے تک کا فاصلہ بکریوں کے اوپر سے یا ان کی ٹانگوں کے نیچے سے پیٹ کے بل رینگ کر طے کیا تھا۔ ظاہر ہے تیندوے کو دیکھ کر تمام بکریاں چوکنی ہو گئی ہوں گی۔
یہ تصور کر لینا بہتر ہوگا کہ دروازہ کھولنے کی جدوجہد کے دوران لڑکا بدستور نیند میں مگن رہا۔ جب دروازہ کھلا تو بکریاں باہر بھاگ گئیں۔ ان کی بھگدڑ بھی لڑکے کو بیدار نہ کر سکی، نہ ہی اس نے مدد کے لیے کسی کو آواز دی۔ بعد میں اس کے مالک نے بتایا کہ اسے ایک ہلکی سی چیخ سنائی دی تھی۔ غالباً یہ چیخ لڑکے نے اس وقت ماری ہوگی جب تیندوے نے اسے دبوچ لیا ہوگا۔
کونے میں باڑھ کے اندر سوئے ہوئے لڑکے کو ہلاک کرنے کے بعد تیندوہ اسے اٹھا کر خالی کمرے سے باہر نکل گیا۔ اسے اٹھا کر وہ ایک پہاڑی کی ڈھلوان پر سے ہوتا ہوا چند کھیتوں میں سے گزر کر ایک ندی کے کنارے جا پہنچا۔ سورج نکلنے کے چند گھنٹوں بعد لڑکے کے مالک کو وہاں اس کے جسم کے بچے کھچے حصے دکھائی دیے۔
اگرچہ یہ بات ناقابلِ یقین ہے مگر چالیس بکریوں میں سے ایک کو بھی تیندوے کے پنجوں کی تراش تک نہ آئی تھی۔
ایک ہمسایہ اپنے ساتھ والے گھر میں حقہ نوشی کی خاطر آیا۔ جس کمرے میں وہ اور اس کا دوست بیٹھے تھے اس کی شکل انگریزی کے حرف"ایل" جیسی تھی۔ جس جگہ وہ دیوار سے ٹیک لگائے حقہ گڑگڑانے میں مشغول تھے۔ وہاں سے دروازہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ دروازہ بند تو تھا مگر انہوں نے زنجیر نہ چڑھا رکھی تھی۔ کیونکہ اس وقت تک تیندوے نے اس گاؤں میں کوئی انسانی شکار نہ کیا تھا۔
کمرے میں اندھیرا تھا۔ ایک دفعہ جونہی گھر کے مالک نے حقہ اپنے دوست کی طرف بڑھایا تو وہ زمین پر گرپڑا اور چلم میں سے انگارے فرش پر بکھر گئے۔ اپنے دوست کو محتاط رہنے اور جس کمبل پر وہ بیٹھے تھے اسے بچانے کی تلقین کر کے گھر کا مالک فرش پر سے کوئلے اٹھانے لگا۔ جونہی وہ آگے جھکا اسے دروازہ نظر آنے لگا۔ دروازے میں سے ابتدائی راتوں کا چاند دکھائی دے رہا تھا اور اس کی روشنی میں اس نے دیکھا کہ ایک تیندوہ اس کے دوست کو اٹھائے کمرے سے باہر جارہا تھا۔
چند روز بعد مجھے یہ واقعہ سناتے ہوئے اس شخص نے کہا، "صاحب! میں آپ سے بالکل حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ مجھے تیندوے کے اندر آنے کی بالکل آواز سنائی نہ دی۔ میرا دوست مجھ سے فقط ایک گز کے فاصلے پر بیٹا تھا۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ تیندوے نے اسے میری موجودگی میں ہلاک کیا اور پھر اسے اٹھا کر چلتا بنا اور مجھے یہ ساری کارروائی محسوس تک نہ ہو سکی۔ اس وقت میں اپنے دوست کے لیے کچھ نہ کر سکا تھا لیکن جونہی تیندوہ تھوڑی دور چلا گیا۔ میں رینگتا ہوا دروازے تک گیا اور اندر سے زنجیر چڑھادی۔"
ایک گاؤں کے نمبردار کی بیوی بیمار تھی اور دو عورتیں اس کی دیکھ بھال کے لیے اس کے گھر آئی ہوئی تھیں۔
مکان میں دو کمرے تھے۔ باہر والے کمرے میں دو دروازے تھے۔ ایک دروازہ صحن میں کھلتا تھا اور دوسرا دروازہ دونوں کمروں کو آپس میں ملاتا تھا۔ بیرونی کمرے میں ایک دریچہ بھی تھا جو زمین سے تقریباً چار فٹ اونچا تھا۔ اس دریچے میں پانی سے بھری ہوئی پیتل کی ایک گاگر دھری رہتی تھی۔
اندرونی کمرے میں دروازے کے سوا کوئی دریچہ نہ تھا۔
صحن میں کھلنے والا دروازہ نہایت احتیاط سے بند تھا مگر دونوں کمروں کے درمیان والا دروازه چوپٹ کھلا تھا۔
تینوں عورتیں اندرونی کمرے میں فرش پر لیٹی تھیں۔ بیمار عورت درمیان میں تھی۔ اس کا شوہر بیرونی کمرے میں کھڑکی کے قریب بستر پر لیٹا تھا۔ اس کے قریب فرش پر لالٹین جل رہی تھی جس کی ہلکی روشنی دروازے کے راستے اندرونی کمرے میں بھی جارہی تھی۔
نصف شب کے قریب جب گھر کے باسی سوئے ہوئے تھے تو تیندوہ کھڑکی کے راستے پانی سے بھری ہوئی گاگر سے معجزانہ انداز میں پہلو بچا کر کمرے میں داخل ہوا اور آدمی کے بستر کے اوپر سے چکر لگا کر دوسرے کمرے میں گیا اور اس نے بیمار عورت کو ہلاک کر دیا جب وہ اپنے شکار کو اٹھا کر دوبارہ کھڑکی کے ریستے باہر پھلانگنے لگا تو پانی سے لبریز گاگر گر پڑی جس سے دوسرے لوگ جاگ پڑے۔
جب لالٹین کی لو بلند کی گئی تو کھڑکی کے نیچے بیمار عورت پڑی دکھائی دی۔ اس کی گردن پر بڑے بڑے دانتوں کے چار زخم تھے۔
باقی دو عورتوں میں سے ایک نے بعد میں مجھے یہ واقعہ بتاتے ہوئے کہا، "وہ عورت بڑی بیمار تھی اور اس سے مر ہی جانا تھا۔ بھگوان کا شکر ہے کہ تیندوے سے اس کو چنا تھا۔"
دو گوجر بھائی اپنی تین بھینسوں کا ریوڑ ایک چراگاہ سے دوسری چراگاہ لے جارہے تھے۔ ان کے ہمراہ ایک بارہ سالہ لڑکی بھی تھی۔ جو بڑے بھائی کی بیٹی تھی۔
وہ اس علاقے میں اجنبی تھے اور آدم خور کے متعلق کچھ نہ جانتے تھے یا پھر ممکن ہے انہوں نے یہ سوچا ہو کہ ان کی بھینسیں انہیں آدم خور سے محفوظ کرلیں گی۔
سڑک کے قریب آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر تھوڑی سی ہموار زمین تھی جس کے نیچے ایک چھوٹا سا کھیت تھا۔ اس کھیت میں ایک مدت سے کاشت نہ کی گئی تھی۔ دونوں بھائیوں نے رات اس کھیت میں بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کھیت کے درمیان اپنے مویشی ایک قطار کی شکل میں باندھ دیے۔
شام کے کھانے سے فارغ ہو کر ان تینوں نے زمین پر اپنے کمبل بچھائے اور سو گئے۔
وه اندھیری رات تھی۔ رات کے پچھلے پہر بھینسوں کی گھنٹیوں اور زمین پر ان کے کھر مارنے کی آوازوں نے گوجروں کو بیدار کر دیا۔ اپنے طویل تجربے کی بنا پر انہیں معلوم ہوگیا کہ وہاں کوئی درندہ آگیا ہے۔ انہوں نے لالٹین روشن کی اور بھینسوں کو خاموش کرانے کے لیے چل پڑے۔ انہوں نے دیکھا کہ کسی بھینس نے رسہ نہیں توڑا تھا۔
دونوں بھائی چند منٹ کے لیے اپنی جگہ سے غیر حاضر ہوئے تھے۔ جب وہ واپس آئے تو لڑکی وہاں موجود نہ تھی۔ وہ اسے سوتا ہوا چھوڑ گئے تھے۔ جس کمبل پر وہ لیٹی ہوئی تھی اس پر خون کے بڑے بڑے دھبے پڑے تھے۔
جب دن نمودار ہوا تو لڑکی کا باپ اور چاچا خون کی لکیر کے تعاقب میں چل پڑے۔ بھینسوں کے اوپر سے ہو کر یہ لکیر پہاڑی کے نیچے چلی گئی تھی۔ جہاں چند گز دور تیندوے نے اپنے شکار کا صفایا کر دیا تھا۔
"صاحب! میرا بھائی منحوس ستارے کے سائے میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا کوئی بیٹا نہیں، اس کی یہی ایک لڑکی تھی۔ جس کی جلد ہی شادی ہونے والی تھی۔ اس شادی سے میرا بھائی اپنی جائیداد کا وارث حاصل کرنا چاہتا تھا مگر تیندوے نے یہ امید بھی ختم کردی۔"
میں ایسے کئی واقعات بیان کر سکتا ہوں۔ ہر واقعہ اپنے پہلو میں ایک المناک داستان لیے ہوئے ہے۔ لیکن میرے خیال میں اب آپ کو یقین آگیا ہوگا کہ گھڑوال کے لوگ ردر پریاگ کے آدم خور تیندوے سے اس قدر کیوں ہراساں تھے۔ خاص طور پر جب یہ بات دھیان میں رکھی جائے کہ گھڑوالی بےحد توہم پرست ہوتے ہیں۔ تیندوے کے خوف کے علاوہ ان پر مافوق الفطرت قسم کا ایک خوف بھی سوار تھا۔ جس کی ایک مثال میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
ایک صبح جب سورج ابھی طلوع ہو رہا تھا میں ردرپریاگ کے معائنہ بنگلے سے باہر نکلا۔ جونہی میں برآمدے سے باہر نکلا، مجھے زمین پر تیندوے کے پنجے کے نشان دکھائی دیے۔
وہ نشان بالکل تازہ تھے۔ تیندوہ مجھ سے فقط چند منٹ پہلے شکار حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر کے لوٹ گیا تھا۔ وہ یاترا سڑک کی جانب گیا تھا جو وہاں سے پچاس گز دور تھی۔
سخت زمین کے سبب بنگلے اور سڑک کے درمیان تیندوے کے پنجوں کے نشان تلاش کرنا مشکل تھا۔ لیکن میں جونہی بیرونی گیٹ کی سمت گیا وہاں سے پنجوں کے نشان گلاب رائے کی سمت جارہے تھے۔ نشان اس قدر واضح تھے کہ جیسے تازہ تازہ گری ہوئی برف پر ثبت ہوں۔
اس وقت تک میں آدم خور کے پنجوں کے نشانات سے بخوبی واقف ہو چکا تھا اور انہیں سینکڑوں تیندووں کے پنجوں کے نشانوں میں سے پہچان سکتا تھا۔
درندوں کے پنجوں کے نشانات سے بہت سی معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً وہ نر ہے کہ مادہ، کتنی عمر کا ہے اور کس سائز کا ہے۔ میں اس سے پہلے ان پنجوں کے نشانات کا بغور معائنہ کر کے اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ وہ ایک بڑا تیندوہ تھا جو عرصہ ہوا شباب کی منزلوں سے گزر چکا تھا۔ اس کے پنجوں کے نشانات کا تعاقب کرتے ہوئے مجھے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ مجھ سے فقط چند منٹ آگے تھا اور وہ سست رفتار سے چل رہا تھا۔
یہ سڑک جس پر صبح کے وقت آمدورفت نہیں ہوتی، کئی ندی نالوں پر سے بل کھا کے گزرتی ہے۔ تیندوہ دن کی روشنی میں باہر نہیں نکلتا۔ لیکن میں ڈرتا تھا کہ کہیں وہ اس اصول کی خلاف ورزی کرکے آس پاس گھات میں نہ بیٹھا ہو۔ لہذا میں ہر موڑ سے بڑی احتیاط سے گزرتا۔ آخر ایک میل چل کر تیندوہ سڑک سے الگ ہو کر ایک گنے جنگل میں داخل ہوگیا تھا۔
جہاں تیندوہ سڑک سے جدا ہوا تھا وہاں سے ایک سو گز دور ایک چھوٹا سا کھیت تھا۔ جس کے درمیان بکریوں اور بھیڑوں کا ایک ریوڑ کھڑا تھا۔ ریوڑ کے مالک نے ریوڑ کے گرد خاردار جھاڑیوں کی باڑھ باندھ رکھی تھی۔
اس ریوڑ کا مالک ایک بوڑھا گلہ بان تھا۔ جو گزشتہ ایک چوتھائی صدی سے بکریوں کا کاروبار کر رہا تھا۔ جب میں کھیت میں داخل ہوا تو وہ باڑھ کا دروازہ ہٹانے میں مصروف تھا۔ میرے استفسار کے جواب میں اس نے کہا کہ اس نے تیندوہ تو نہیں دیکھا تھا مگر جب پو پھوٹ رہی تھی تو اس کے دو نگران کتے زور زور سے ضرور بھونکے تھے اور سڑک کے اوپر جنگل میں سے ایک ککر کی آواز بھی سنائی دی تھی۔
میں سے بوڑھے گلہ بان سے دریافت کیا کہ کیا وہ اپنی کوئی بکری فروخت کرنے پر تیار ہے تو اس نے مجھ سے اس کے خریدنے کا مقصد دریافت کیا۔ جب میں سے اسے بتایا کہ میں وہ بکری آدم خور کے لیے جنگل کے کنارے پر باندھنا چاہتا ہوں۔ تو وہ کھلے کھیت سے گزر کر سڑک کے کنارے آ گیا، اور میرا ایک سگریٹ قبول کر کے سرِ راہ بیٹھ گیا۔
ہم چند لمحوں تک سگریٹ پیتے رہے۔ اس نے ابھی تک میرے سوال کا جواب نہ دیا تھا۔ پھر بوڑھا خود بخود بولنے لگا، "صاحب! آپ بلاشبہ وہی شخص ہیں جس کا ذکر بدری ناتھ کے نزدیک اپنے گاؤں میں سے چند روز پہلے سنا تھا۔ مجھے اس بات سے دکھ ہوتا ہے کہ آپ ایک بےمقصد کام کی خاطر اپنے گھر سے اتنی دور یہاں آئے ہیں۔ وہ بدروح جو اس علاقے میں اتنی ساری انسانی جانوں کی ہلاکت کی ذمہ دار ہے، کوئی درندہ نہیں، جیسا کہ آپ کا خیال ہے۔ نہ ہی آپ اسے گولی یا کسی اور دوسرے ذریعے سے ہلاک کر سکتے ہیں جو آپ سے پہلے بہت سے لوگ آزما چکے ہیں۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں، میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ یہ واقعہ مجھے میرے باپ نے سنایا تھا جس کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ اس نے کبھی جھوٹ نہ بولا تھا۔
اس وقت میرا باپ نوجوان تھا اور میں ابھی پیدا نہ ہوا تھا۔ آج کل جیسی ایک بدروح ہمارے گاؤں میں آنکلی۔ ہر ایک یہی کہتا کہ وہ ایک تیندوہ تھا۔ مرد، عورتیں اور بچے گھروں کے اندر ہلاک ہونے لگے۔ آج کل کی طرح اسے بھی ہلاک کرنے کی ہر کوشش کی گئی۔ پنجرے رکھے گئے اور نامور شکاری تیندوے پر گولیاں چلاتے رہے۔ مگر جب ساری جدوجہد ناکام ثابت ہوئی تو لوگوں پر بڑی دہشت چھاگئی۔ کوئی رات کے وقت گھر سے نکلنے کی جرات نہ کرتا۔
آخر ایک دن ہمارے گاؤں کے نمبردار اور گرد و نواح کے دیہات کے نمبرداروں سے لوگوں سے کہا کہ وہ ایک پنچایت میں شرکت کریں۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو پنج سے لوگوں نے کہا کہ وہ آدم خور تیندوے سے نجات حاصل کرنے کی خاطر کوئی نیا طریقہ سوچنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ پھر ایک بوڑھا جس کے پوتے کو گزشتہ شب آدم خور تیندوہ ہلاک کر گیا تھا اور جس کی چتا کو آگ لگا کر وہ ابھی ابھی واپس آیا تھا، اٹھا اور کہنے لگا کہ یہ کسی تیندوے کا کام نہ تھا کہ اس کے گھر میں گھس کر اس کے پہلو میں سوئے ہوئے پوتے کو اٹھا کر لے جائے بلکہ یہ تو انہیں میں سے کوئی شخص تھا جسے جب انسانی گوشت اور خون کی اشتہا ہوتی ہے تو وہ تیندوے کا روپ دھار لیتا ہے اور ایسا شخص گولی وغیرہ سے ہرگز ہلاک نہیں کیا جا سکتا۔ اسے اس سادھو پر شک تھا جو شکستہ مندر کے قریب ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔
اس پر لوگوں نے بڑا ہنگامہ بپا کیا۔ بعض کہتے تھے کہ پوتے کے غم میں بوڑھے کا دماغ چل گیا ہے۔ لیکن بعض لوگ اس کی یہ بات سچ مانتے تھے اور کہتے تھے کہ جب سے سادھو اس گاؤں میں آیا تھا انسانی ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ انہوں نے لوگوں کو یہ بتایا تھا کہ انسانی ہلاکت کے اگلے دن سادھو سارا دن دھوپ میں پاؤں پھیلائے بڑے مزے سے خمار کی حالت میں لیٹا رہتا تھا۔
جب ہجوم کا مزاج ذرا اعتدال پر آیا تو اس مسئلے پر طویل بحث ہوئی اور آخر پنچایت نے فیصلہ کیا کہ فوری طور پر سادھو کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے بلکہ آئندہ سادھو کی حرکت و سکنات پر کڑی نظر رکھی جائے۔ پھر ہجوم کو تین ٹولیوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ پہلی ٹولی اس رات سے اپنی نگرانی کا کام شروع کرے جس رات اگلی انسانی ہلاکت متوقع ہو کیونکہ انسانی ہلاکتیں ایک باقاعدہ وقفے کے بعد وقوع پذیر ہوتی تھیں۔
پروگرام کے مطابق پہلی دو ٹولیاں باری باری نگرانی کا فرض ادا کرتی رہیں مگر سادھو اپنی جھونپڑی سے باہر نہ نکلا۔
میرا باپ تیسری ٹولی میں شامل تھا۔ رات کے وقت وہ خاموشی سے سادھو کی کٹیا کے قریب چھپ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد جھونپڑی کا دروازہ آہستہ سے کھلا سادھو اندر سے نکلا اور اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ پھر کچھ وقفے بعد پہاڑوں کی طرف سے کوئلہ بنانے والے مزدوروں کے جھونپڑوں میں سے ایک دلدوز چیخ ہوا کے دوش پر تیرتی ہوئی آئی اور پھر بدستور خاموشی چھاگئی۔
میرے والد کی ٹولی کے دوسرے لوگوں میں سے کسی ایک نے اس رات پلک تک نہ جھپکی۔ جب مشرق میں خاکستری پو پھوٹ رہی تھی تو انہوں نے سادھو کو تیز تیز قدموں کٹیا کی طرف آتے دیکھا۔ اس کا منہ اور ہاتھ خون سے لتھڑے ہوئے تھے۔
جب سادھو نے جھونپڑی کے اندر داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا تو میرا باپ اور دوسرے لوگ دبے پاؤں وہاں گئے اور انہوں نے باہر سے دروازے کی زنجیر چڑھا دی اور پھر سب مل کر خشک گھاس کے بڑے بڑے گٹھے لائے اور انہیں جھونپڑی کے گرد چن دیا گیا۔ جب سورج نمودار ہوا تو جھونپڑی جل کر راکھ ہو چکی تھی۔ اس دن سے انسانی ہلا کتوں کا سلسلہ ختم ہوگیا۔
لیکن اس علاقے کے بہت سے سادھوؤں میں سے ابھی کسی پر شک نہیں ہوا اگر کسی پر شک ہو گیا تو وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جو میرے باپ کے زمانے میں لوگوں نے اختیار کیا تھا۔ جب تک وہ دن نہیں آتا گھڑوال کے لوگوں کو جانی نقصان برداشت کرنا ہوگا۔
آپ نے مجھے بکری فروخت کرنے کے لیے کہا ہے۔ صاحب! میرے پاس فروخت کرنے کے لیے کوئی فالتو بکری نہیں۔ لیکن میری کہانی سننے کے بعد اگر آپ اب بھی آدم خور تیندوے کے لیے بکری باندھنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو اپنی ایک بکری ادھار دے سکتا ہوں۔ اگر یہ بکری ہلاک ہو گئی تو آپ مجھے اس کی قیمت ادا کر دیں ورنہ دوسری صورت میں ہمارے درمیان کوئی سودے بازی نہ ہوگی۔ آج کا دن اور رات میں تم یہیں ٹھہروں گا۔ کل صبح پو پھٹنے کے ساتھ ہی میں یہاں سے اپنا ریوڑ لے جاؤں گا۔"
سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی میں دوبارہ وہاں آیا اور بوڑھے گلہ بان کی اجازت سے میں نے اس کے ریوڑ میں سے ایک ایسی موٹی تازی بکری چن لی جو تیندوے کی دو دن کی خوراک بن سکتی تھی۔ یہ بکری میں نے سڑک کے قریب جنگل کے کنارے باندھ دی۔ جہاں بارہ گھنٹے پیشتر تیندوہ داخل ہوا تھا۔
اگلی صبح میں جلدی اٹھ بیٹھا۔ جب میں بنگلے سے باہر نکالا تو مجھے پھر تیندوے کے پنجوں کے تازہ نشان برآمدے کے باہر دکھائی دیے۔ بیرونی گیٹ پر مجھے معلوم ہوا کہ وہ گلاب رائے کی سمت سے آیا تھا اور بنگلے کا چکر لگا کر ردرپریاگ بازار کی طرف گیا تھا۔
یہ حقیقت کہ تیندوہ انسانی شکار حاصل کرنے کی کوشش میں تھا، صاف ظاہر کرتی تھی کہ اسے اس بکری میں کوئی دلچسپی نہ ہو سکتی تھی۔ جو میں نے اس کے لیے مہیا کی تھی۔ وہ بکری اس نے شام ہی کو ہلاک کردی تھی مگر اسے بالکل نہ کھایا تھا۔
"صاحب! اپنے گھر واپس چلے جائیں۔ کیوں وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔"
بوڑھے گلہ بان نے اپنا ریوڑ ہردوار کی سمت ہانکتے ہوئے مجھے آخری نصیحت کی۔
اس قسم کا ایک واقعہ چند برس پہلے ردرپریاگ کے قریب رونما ہوا تھا۔ مگر خوش قسمتی سے اس کا انجام المناک نہ ہو سکا۔
اپنے عزیزوں اور دوستوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں سے مشتعل ہو کر لوگوں نے ایک سادھو کو پکڑ لیا۔ ان کا یقین تھا کہ وہی سادھو تمام موتوں کا ذمہ دار تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنے انتقام کی آگ بجھانے میں کامیاب ہو جاتے اس زمانے میں گھڑوال کا ڈپٹی کمشنر فلپ مین دورے پر وہاں آیا ہوا تھا اور یہ خبر سنتے ہی وہاں پہنچ گیا۔ وہ بڑا تجربہ کار افسر تھا اس نے لوگوں کا بگڑا ہوا مزاج دیکھ کر ان سے کہا کہ وہ صحیح ملزم پکڑنے میں کامیاب ہو گئے ہیں مگر سادھو کو سزا دینے سے پہلے انصاف کا تقاضا ہے کہ اس کا جرم ثابت کیا جائے۔ پھر اس نے تجویز کیا کہ سادھو کو قید کر کے دن رات اس کی نگرانی کی جائے۔ اس تجویز سے ہجوم متفق ہو گیا۔ سات دن اور سات راتوں تک پولیس اور لوگ سادھو کی نگرانی کرتے رہے۔ آٹھویں دن صبح کے وقت یہ خبر آئی کہ وہاں سے چند میل دور گزشتہ شب آدم خور ایک گھر میں گھس کر ایک آدمی کو اٹھا لے گیا تھا۔
یہ سن کر لوگوں کو سادھو کی رہائی پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔ اور کہنے لگے کہ اس دفعہ غلط آدمی پکڑا گیا تھا مگر آئندہ ایسی غلطی ہرگز نہ کریں گے۔
گھڑوال میں آدم خور کی تمام ہلاکتیں سادھوؤں اور نینی تال اور الموڑہ کے اضلاع میں ترائی کے علاقوں میں رہنے والے نجسار لوگوں سے منسوب کی جاتی ہیں۔ موخر الذکر لوگ زیادہ تر شکار پر گزر اوقات کرتے ہیں۔
لوگوں کا یقین ہے کہ سادھو انسانی گوشت اور خون کی اشتہا کے سبب اور نجسار عورتوں کے زیورات کی وجہ سے انسانی جانیں لیتے ہیں۔ نینی تال اور الموڑہ کے اضلاع میں مردوں کی نسبت عورتیں زیادہ ہلاک ہوتی ہیں مگر اس کی یہ وجہ نہیں جو لوگ بیان کرتے ہیں۔
میں اس قدر تنہا اور خاموش جگہوں پر رہا ہوں کہ خیال پرست نہیں ہو سکتا۔ ردرپریاگ میں ایسے مواقع بھی آئے جب میں متواتر کئی کئی راتیں، ایک دفعہ مہینے میں اٹھائیس راتیں، آدم خور کی تلاش میں پلوں، چوراہوں، دیہات کے گرد و نواح میں گھومتا رہا اور انسانی اور دوسری لاشوں کے قریب چھپ کر بیٹھا آدم خور کا انتظار کرتا رہا تھا۔ اس زمانے میں ممکن تھا کہ میں آدم خور کو کوئی ایسا جانور تصور کرنے لگوں جس کا دھڑ تیندوے کا مگر سر شیطان کا ہو۔
بعض اوقات یوں بھی ہوتا کہ کوئی درندہ شب بھر میری گھات میں بیٹھا رہتا ۔ مجھے بار بار اس کے شیطانی قہقہے سنائی دیتے۔ وہ مجھے جل دینے کی فکر میں ہوتا اور اس موقع کی تاک میں رہتا کہ جونہی میں ذرا بےخبر ہوجاؤں تو وہ اپنے دانت میری گردن میں گاڑ دے۔
ممکن ہے یہ سوال آپ کے ذہن میں ابھرے کہ اس سارے عرصے میں حکومت نے گھڑوال کے باشندوں کو آدم خور سے بچانے کے لیے کیا کیا تھا؟ میں حکومت کا حاشیہ بردار نہیں ہوں۔ لیکن اس علاقے میں دس ہفتے گزارنے، سینکڑوں میل پیدل سفر کرنے اور متاثرہ علاقے کے بہت سے دیہات کا جائزہ لینے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس درد سر کو دور کرنے کی خاطر حکومت نے اپنی طرف سے حتی الامکان کوشش کی۔ انعامات پیش کیے گئے۔ یہ انعامات دس ہزار روپے نقد اور دو دیہات کی جاگیر پر مشتمل تھے۔ یہ انعامات گھڑوال کے چار ہزار لائسنس یافتہ شوقین اور پیشہ ور شکاریوں کو آدم خور کو ہلاک کرنے کی ترغیب دینے کے لیے کیے تھے۔ گھاگ پیشہ ور شکاری تنخواہوں پر بلائے گئے اور آدم خور کو ہلاک کرنے کی صورت میں انہیں خاص انعامات دینے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ بندوقوں کے تین مزید لائسنس جاری کیے گئے۔ لینس ڈاؤن میں مقیم گھڑوال رجمنٹ کے سپاہیوں کو چھٹی پر گھر جانے کے وقت رائفل ساتھ لے جانے کی اجازت تھی۔ اس کے علاوہ ان کے افسر انہیں شکاری بندوقیں بھی مہیا کرتے۔ تمام ہندوستان کے شکاریوں سے درخواست کی گئی کہ وه اس تیندوے کو ہلاک کرنے میں حکومت کی مدد کریں۔ دیہات اور سڑکوں کے کنارے بہت سے ایسے پنجرے رکھے گئے جن کے دروازے خود بخود بند ہو جاتے تھے۔ ان پنجروں میں بکریاں وغیرہ تیندوے کو ترغیب دینے کے لیے باندھی گئیں۔ پٹواریوں اور سرکاری ملازموں کو اس مقصد کے تحت زہر مہیا کیا گیا کہ وہ انسانی لاش کو زہریلا بنا دیں۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازم بھی آدم خور کو ہلاک کرنے کی خاطر اپنے فرض کی ادائیگی کے طور پر وہاں آئے۔
ان تمام مشترکہ مساعی کا نتیجہ فقط یہ نکلا کہ ایک دفعہ تیندوے کے پچھلے بائیں پنجے میں ایک گولی لگ گئی اور وہاں سے اس کا گوشت اڑ گیا۔ گھڑوال کے ڈپٹی کمشنر نے اس مد کا اندراج اپنے رجسٹر میں کر دیا۔ جہاں تک زہر کا تعلق ہے، آدم خور زہریلی چیزیں کھانے کے بعد بھی زندہ رہا تھا۔
ایک سرکاری رپورٹ میں تین دلچسپ واقعات درج کیے گئے ہیں۔ میں ان کے اقتباس آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
پہلا: اخبارات میں حكومت کی درخواست پر 1921ء میں دو نوجوان انگریز شکاری ردرپریاگ پہنچے۔ کس وجہ کی بنا پر انہوں نے یہ تصور کر لیا تھا کہ تیندوہ دریا سے الک نندہ کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے جھولا نما پل کے راستے آتا جاتا ہے، اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بہرحال انہوں نے اپنی کوشش کو اس پل تک محدود رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کا منصوبہ تھا کہ اگر رات کے وقت تیندوہ پل پر سے گزرے تو اسے ہلاک کرنے کی کوشش کی جائے۔ پل کے دونوں جانب ایک ایک مینار ہے لہذا دونوں شکاری پل کی طرف منہ کر کے ایک ایک مینار میں بیٹھ گئے۔
انہیں وہاں بیٹھتے دو ماہ گزر گئے۔ ایک رات بائیں کنارے والے مینار پر بیٹھے شکاری نے دیکھا کہ تیندوہ اس کے نیچے والی محراب سے پل کی سمت جارہا ہے۔ جب تیندوہ اچھی طرح پل پر آگیا تو اس نے گولی چلا دی۔ جب تیندوہ بھاگ کر پل کی دوسری جانب گیا تو دوسرے شکاری نے اس پر تابڑ توڑ چھ فائر کر دیے۔ اگلی صبح پل پر خون کے قطرے دکھائی دیے۔ خون کی لکیر پہاڑی کی سمت جاتی تھی۔ خیال تھا کہ یہ زخم تیندوے کے لئے مہلک ثابت ہوں گے۔ لہذا کئی دن تک ایک تلاشی پارٹی تیندوے کو تلاش کرتی رہی۔ رپورٹ میں درج ہے کہ زخمی ہونے کے چھ ماہ بعد تک تیندوے نے کوئی انسانی شکار نہ کیا تھا۔
یہ واقعہ ان لوگوں نے بھی مجھے بتایا جنہوں نے ساتوں فائر سنے تھے اور جو زخمی تیندوے کی تلاش میں مدد دیتے رہے تھے۔ دونوں شکاریوں اور دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ پہلی گولی تیندوے کی پشت پر لگی تھی اور باقی گولیوں میں سے کوئی ایک اس کے سر پر۔ اس لیے اتنے جوش و خروش سے تیندوے کی تلاش جاری رہی۔ خون کی لکیر کی جو تفصیل مجھے بتائی گئی اس سے میں نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ شکاری یہ سوچنے میں غلطی پر تھے کہ گولیاں تیندوے کے سر اور پشت پر لگی تھیں۔ اس کے برعکس جس نوعیت کی خون کی لکیر بتائی گئی تھی، وہ تو پیر کے زخم کی ہونی چاہیے تھی۔ بعد میں میرا یہ خیال درست ثابت ہوا۔ بائیں مینار والے شکاری کی گولی تیندوے کے پاؤں میں لگی تھی اور دوسرے شکاری کی تمام گولیاں ضائع گئی تھیں۔
دوسرا: پنجروں میں تقریباً بیس تیندوے پکڑنے اور ہلاک کرنے کے بعد آخر ایک پنجرے میں ایک ایسا تیندوہ پکڑ لیا گیا جس کے متعلق ہر ایک یہی کہتا تھا کہ وہ آدم خور تھا۔ لیکن ہندو آبادی اس خوف کے تحت اسے ہلاک نہ کرتی تھی کہ آدم خور کے مارے ہوئے لوگوں کی روحیں بددعائیں دیں گی۔ آخر ایک عیسائی کو وہاں بھیجا گیا۔ یہ عیسائی تیس میل دور ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ لیکن اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی تیندوہ پنجرے کے نیچے سے زمین کھود کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
تیسرا: ایک آدمی کو ہلاک کرنے کے بعد تیندوہ اپنے شکار کے ہمراہ جنگل میں ایک تنہا جگہ پر لیٹ گیا۔ دوسری صبح جب اس بدنصیب شخص کی تلاش جاری تھی تو تیندوہ جنگل میں سے نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ تھوڑے سے تعاقب پر وہ ایک غار میں گھس گیا۔ لوگوں نے خاردار جھاڑیوں اور بھاری پتھروں نے غار کا منہ بند کر دیا۔ ہر روز لوگوں کا ایک جوم وہاں جاتا۔ پانچویں دن جب کوئی پانچ سو آدمی جمع تھے تو ایک آدمی جس کا نام درج نہیں لیکن اسے ”بااثر آدمی“ لکھا گیا ہے وہاں آیا اور ناک بھوں چڑھا کر کہنے لگا، "غار کے اندر کوئی تیندوہ نہیں؟" اور اس نے غار کے منہ پر سے جھاڑیاں اور پتھر ہٹا دیے۔ جونہی غار کا دہانہ صاف ہوا تیندوہ آرام سے پانچ سو آدمیوں کے درمیان سے گزر گیا۔
تیندوے کو آدم خور بنے زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا کہ یہ واقعات رونما ہوئے۔ اگر تیندوہ پل پر، پنجرے کے اندر یا غار میں مارا جاتا تو چند سو آدمیوں کی جانیں بچ جاتیں اور گھڑوال کئی برس تک ایک محفوظ جگہ ہوتا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
 
آمد
1925 میں نینی تال کے شیلٹ تھیٹر میں "یومین آف دی گارڈ" ڈرامہ پیش کیا جا رہا تھا۔ ایک رات جب میں وہ ڈرامہ دیکھنے گیا تو اس کے وقفوں کے دوران پہلی مرتبہ مجھے ردرپریاگ کے آدم خور کے متعلق کوئی معتبر خبر ملی۔
میں نے سرسری طور پر سن رکھا تھا کہ گھڑوال میں کوئی آدم خور تیندوہ ہے۔ میں نے اخبارات میں اس کے متعلق خبریں بھی پڑھی تھیں۔ لیکن یہ جانتے ہوئے کہ گھڑوال میں چار ہزار سے زیادہ لوگوں کے پاس بندوقوں کے لائسنس ہیں اور لانس ڈاؤن میں بھی کئی ایک مشاق شکاری ہیں، میرا خیال تھا کہ شکاری آدم خور کو ہلاک کرنے کی دوڑ میں ایک دوسرے پر گر رہے ہوں گے اور ایسے حالات میں کسی اجنبی کو خوش آمدید نہ کہا جائے گا۔
اس رات میں شیلٹ بار میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بادہ نوشی میں مشغول تھا کہ مجھے مائیکل کین کی آواز سنائی دی۔ اس زمانے میں وہ متحدہ صوبجات کے چیف سیکرٹری تھے مگر بعد میں آسام کے گورنر مقرر ہو گئے تھے۔ وہ آدمیوں کے ایک گروپ کو آدم خور کے متعلق کچھ بتارہے تھے اور انہیں وہاں جانے کی ترغیب دے رہے تھے۔ لیکن ان کی باتوں پر سامعین نے کچھ زیادہ توجہ نہ دی۔ ان میں سے ایک نے کہا، "ایسے آدم خور کے پیچھے جانا کہاں کی دانائی ہے جس نے سو سے زیادہ انسان ہلاک کر دیے ہوں۔" دوسروں نے بھی اس کی تصدیق کی۔
دوسرے دن میں مائیکل کین کے پاس گیا اور ان سے ضروری معلومات حاصل کیں۔ وہ مجھے صحیح طور پر نہ بتا سکے کہ آدم خور کسی علاقے میں سرگرم عمل تھا۔
انہوں سے مجھے ردرپریاگ جانے اور ایبٹ سن سے ملنے کے لیے کہا۔ جب میں گھر آیا تو میری میز پر ایبٹ سن کا خط پڑا تھا۔
ایبٹ سن جو اب سر ولیم ایبٹ سن ہیں۔ ان دنوں گھڑوال میں نئے نئے ڈپٹی کمشنر بن کر گئے تھے۔ وہ سب سے پہلے اپنے ضلع کو آدم خور سے نجات دلانا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مجھے خط لکھا تھا۔
میں نے جلدی سے تیاری مکمل کرلی اور رانی کھیت، اوبا دری اور کرن پریاگ کے راستے سے ہوتا ہوا دسویں دن نگراسو کے قریب ایک بنگلے میں پہنچ گیا۔ نینی تال سے رخصت ہوتے وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ اس بنگلے میں ٹھہرنے کے لیے اجازت نامے سے لیس ہونا ضروری تھا۔ چونکہ بنگلے کے نگران کو ہدایت تھی کہ ایسے اجازت نامے کے بغیر کسی کو بنگلے میں نہ ٹھہرنے دے۔ لہذا میں اور میرے ساتھی آدمی ردرپریاگ سڑک پر مزید دو میل کا سفر کرنے پر مجبور ہو گئے۔ آخر ہمیں ایک مناسب جگہ مل گئی جہاں ہم کیمپ لگا کر رات بسر کر سکتے تھے۔
جب میرے آدمی پانی اور لکڑیاں وغیرہ لانے میں مصروف تھے تو میں نے ایک کلہاڑی لی اور کیمپ کے گرد حفاظت کی خاطر خار دار جھاڑیوں کی باڑ باندھے کی خاطر جنگل کی طرف جھاڑیاں کاٹنے چل پڑا۔ ہمیں دس میل دور ہی بتا دیا گیا تھا کہ ہم آدم خور کے علاقے میں داخل ہو چکے تھے۔
جب ہم نے شام کا کھانا پکانے کے لیے آگ روشن کی تو ہمیں پہاڑ کی سمت سے کسی گاؤں کے ایک آدمی کی تیز آواز سنائی دی۔ وہ ہم سے پوچھ رہا تھا کہ ہم وہاں کیا کر رہے تھے۔ پھر اس نے ہمیں تنبیہ کی کہ اگر ہم وہیں رہے تو ہم میں سے کوئی نہ کوئی آدم خور کا شکار ہو جائے گا۔ یہ اقدام اس نے اپنی جان پر کھیل کر کیا تھا کیونکہ اس وقت اندھیرا پھیل چکا تھا اور کوئی شخص ایسے میں گھر سے نکلنے کی جرات نہ کر سکتا تھا۔ لیکن مادھو سنگھ نے مجھ سے کہا۔
"صاحب! ہم یہیں رات بسر کریں گے۔ ہماری لالٹین میں رات بھر جلنے کے لیے تیل ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی رائفل بھی تو ہے۔"
واقعی لالٹین میں رات بھر جلنے کے لیے تیل تھا کیونکہ صبح ہم بیدار ہوئے تو وہ جل رہی تھی اور میری رائفل میرے سرہانے پڑی تھی۔ دس دن کے سفر سے ہم سخت تھک گئے تھے اور اگر اس رات تیندوہ وہاں آ نکلتا تو آسانی سے انسانی شکار حاصل کر سکتا تھا۔
اگلے دن ہم ردرپریاگ پہنچ گئے۔ ایبٹ سن اور لوگوں نے بڑی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا۔

تحقیق
ردرپریاگ میں، میں نے جو دس ہفتے گزارے ان کی روزمرہ رپورٹ میں آپ کے سامنے بیان نہیں کروں گا۔ کیونکہ اتنا عرصہ گزر جانے پر مجھے اس قدر تفصیلات یاد نہیں رہیں اور پھر آپ ان کو پڑھ کر بور ہوجائیں گے۔ میرا یہ بیان فقط چند واقعات تک محدود ہوگا۔ جو بعض اوقات مجھے تنہا اور کبھی ایبٹ سن کی رفاقت میں پیش آئے۔ لیکن یہ واقعات بیان کرنے سے پہلے میں اس علاقے کا خاکہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جہاں آٹھ برس تک آدم خور تیندوہ دہشت بنا رہا اور جہاں میں نے اسے شکار کرنے کے لیے دس ہفتے بسر کیے۔
اگر آپ ردرپریاگ کے مشرق میں واقع ایک پہاڑی پر کھڑے ہوجائیں تو آپ کو اس پانچ سو مربع میل علاقے کا زیادہ حصہ دکھائی دے گا۔ جہاں ردرپریاگ کا آدم خور سرگرم عمل تھا۔ دریائے الک نندہ نے یہ علاقہ کم وبیش دو برابر حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ دریائے الک نندہ کرن پریاگ سے گزر کر ردرپریاگ کے جنوب میں بہتا ہے۔ جہاں وہ شمال مغرب سے آنے والے دریائے منڈاکنی سے مل جاتا ہے۔ ان دو دریاؤں کے درمیان پھیلا ہوا چوکور سا رقبہ اس علاقے کی نسبت کم پہاڑی ہے جو دریائے الک نندہ کے بائیں کنارے پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اول الذکر علاقے میں زیادہ دیہات ہیں۔
اس پہاڑی پر سے آپ کو دور سرسبز کھیتوں کا ایک سلسلہ دکھائی دے گا۔ جیسے پہاڑوں کے چہرے پر کسی نے سبز لکیر کھینچ دی ہو۔ یہ کھیت ایک گز سے پچاس گز تک چوڑے ہیں۔ آپ دیکھیں گے دیہاتی مکان کھیتوں کے بالائی حصے پر واقع ہیں۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ مویشیوں اور دوسرے جنگلی جانوروں سے فصلوں کو بچایا جا سکے۔ کیونکہ اونچی جگہ سے فصلوں کی خوب رکھوالی ہو سکتی ہے۔ کھیتوں کے گرد کسی قسم کی حفاظتی باڑ نہیں ہوتی۔ دور بھورے اور سبز رنگ کے جو خطے دکھائی دیتے ہیں وہ جنگل اور چراگاہیں ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ بعض دیہات تو مکمل طور پر چراگاہوں اور بعض مکمل طور پر جنگوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ سارا علاقہ بڑا ناہموار ہے اور ہر جگہ ندیاں اور پتھریلی چٹانیں ہیں۔ اس علانے میں فقط دو سڑکیں ہیں۔ ایک ردرپریاگ سے شروع ہو کر کیدار ناتھ تک اور دوسری بدری ناتھ تک جاتی ہے۔ اس زمانے میں یہ دونوں سڑکیں بڑی تنگ اور ناہموار تھیں اور ان پر کسی قسم کی گاڑی وغیرہ نہ چل سکتی تھی۔
ذرا فرض کر لیں کہ کھیتوں سے گھرے ہوئے دیہات کی نسبت جنگلات سے گھرے ہوئے دیہات میں آدم خور نے زیادہ انسانی ہلاکتیں کی ہوں گی۔ اگر آدم خور شیر ہوتا تو یقیناً ہمارا یہ مفروضہ سچ ثابت ہوتا۔ لیکن آدم خور تیندوہ جو زیادہ تر رات کے وقت اپنا شکار تلاش کرتا ہے۔ اس کے لیے کسی قسم کی پناہ گاہ کا ہونا یا نہ ہونا ایک جیسا ہے۔ ایک گاؤں میں دوسرے گاؤں کی نسبت زیادہ انسانی ہلاکتوں کی صرف یہ وجہ ہے کہ بعض گاؤں والے آوم خور سے باخبر رہتے تھے اور دوسرے قدرے تساہل برتتے تھے۔
میں پہلے آپ کو بتا چکا ہوں کہ آدم خور ایک بڑا تیندوہ تھا جو جوانی کے دن گزار چکا تھا لیکن بوڑھا ہونے کے باوجود وہ بڑا طاقتور تھا۔ کوئی درندہ جس جگہ اپنا شکار آرام سے کھا سکے اور اسے مداخلت کا خطرہ نہ ہو وہ عموماً اس علاقے میں شکار بھی کرتا ہے۔ ردر ریاگ کے آدم خور کے لیے تمام جگہیں ایک جیسی تھیں کیونکہ وہ اپنا شکار اٹھا کر دور دور تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ایک دفعہ وہ ایک آدمی کو اٹھا کر چار میل تک لے گیا تھا۔ یہ شخص بڑا تندرست اور فربہ اندام تھا اور تیندوے نے اسے اس کے گھر میں ہلاک کیا تھا۔ تیندوہ اسے اٹھا کر دو میل تک گیا اور دشوارگزار جنگل میں لے گیا۔ اس نے ایسا کیوں کیا، اس کی بظاہر مجھے کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔ تیندوے نے شام سے تھوڑی دیر بعد اس شخص کو ہلاک کیا تھا اور دوسرے دن دوپہر کے وقت ایک تلاشی پارٹی اس کے کھوج میں نکلی تھی۔
ردرپریاگ کے آدم خور تیندوے کی ہلاکتوں کی فہرست (دیہات کے لحاظ سے)، 1918 سے 1926
چھے ہلاکتیں ۔۔۔۔۔ چوپڑا
پانچ ہلاکتیں ۔۔۔۔۔ کوٹھکی، رتوڑا
چار ہلاکتیں ۔۔۔۔۔ بجرا کوٹ
تین ہلاکتیں ۔۔۔۔۔ ناکوٹ، گندھاری، کوکھنڈی، ڈاڈولی، کوئٹھی، جھرمولی
دو ہلاکتیں ۔۔۔۔۔ بجادو، رام پور، میکوٹی، چتولی، کوٹی، مڈولا، راؤتا، کنڈے (جوگی)، بارن، سری، راناؤ، پنار، تلانی، باؤنتھا، نگراسو، گوار، ماروارہ
ایک ہلاکت ۔۔۔۔۔ آسون، پلو، بھنسل، منگو، بینجی، بھٹواری، کھامولی، سوانری، پھلسی، کنڈا دھرکوٹ، ڈنگی، گناؤن، بھٹ گاؤن، باول، برسل، بھینس گاؤن، ناری، سندر، تمیند، کھٹیانہ، سیو پوری، سان، سیند، کمیرا، درماری، دھمکا، بیلا، بیلاکنڈ، سور، بھینساری، بجنو، قوئیلی، دھرکوٹ، بھین گاؤن، چھنکا، ڈھنگ، کیوری، بمن کنڈائی، پوکھتا، تھپال گاؤن، بنسو، ناگ، بیسانی، ردرپریاگ، گور، کلنا، بھنکا، کمیرا، سیل، پابو، بھینس واڑہ
سالانہ اعداد و شمار
1918 ۔۔۔۔۔ 1
1919 ۔۔۔۔۔ 3
1920 ۔۔۔۔۔ 6
1921 ۔۔۔۔۔ 23
1922 ۔۔۔۔۔ 24
1923 ۔۔۔۔۔ 26
1924 ۔۔۔۔۔ 20
1925 ۔۔۔۔۔ 8
1926 ۔۔۔۔۔ 14
ٹوٹل ۔۔۔۔ 125
آدم خور تیندووں کے سوا دوسرے تیندووں کا شکار کرنا بڑا آسان ہے کیونکہ ان میں سونگھے کی حس نہیں ہوتی۔
کسی دوسرے جانور کا شکار کرنے میں جو طریقے استعمال کے جاتے ہیں۔ ان سے کہیں زیادہ طریقے تیندوے کے شکار میں استعمال ہوتے ہیں۔ محض شکار کے لیے جو تیندوے ہلاک کیے جاتے ہیں الگ اور نفع کی غرض سے ہلاک کیے جانے والے تیندووں کے لیے دوسرے طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ شکار کی خاطر تیندوے کو ہلاک کرنے کا سب سے دلچسپ اور ولولہ انگیز یہ طریقہ ہے کہ جنگل میں تیندوے کو تلاش کر کے اس پر گولی چلائی جائے۔ لیکن سب سے آسان اور ظالمانہ طریقہ یہ ہے کہ تیندوے کا شکار تلاش کر کے اس کے اندر ایک چھوٹا سا مگر تباہ کن بم رکھ دیا جائے۔ بہت سے دیہاتی ایسے بم بنانے سیکھ گئے ہیں۔ جب تیندوہ اپنا شکار کھانے کے لیے دوبارہ آتا ہے اور بےدھیانی میں اس کا دانت اس بم سے ٹکرا جاتا ہے تو تیندوے کا جبڑا اڑ جاتا ہے۔ بعض اوقات تیندوہ فوراً مرجاتا ہے مگر اکثر ایسا تیندوہ آہستہ آہستہ بڑی تکلیف دہ موت مرتا ہے کیونکہ بم رکھنے والے لوگوں میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ تیندوے کا تعاقب کر کے اسے ختم کر سکیں۔
تیندووں کا کھوج لگانا اور شکار کرنا دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ آسان بھی ہے۔ تیندووں کے پاؤں بڑے نازک ہوتے ہیں وہ حتی الامکان عام راستوں پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر جنگل میں پرندے اور دوسرے جانور بھی ان کی موجودگی کی غمازی کردیتے ہیں۔ اگرچہ تیندووں کی قوت باصرہ اور قوت سامعہ بےحد تیز ہوتی ہے مگر ان میں سونگھنے کی حس نہیں ہوتی۔ لہذا ہوا خواہ کسی بھی سمت میں چل رہی ہو شکاری کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ ان میں شکار کرنے کا کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ تیندوے جتنا خوبصورت اور بارعب کوئی دوسرا جانور نہیں ہوتا۔ اسے دیکھنے میں بڑا لطف آتا ہے۔

پہلا انسانی شکار
ردرپریاگ میں میری آمد سے چھے دن پہلے ایبٹ سن نے ایک ہانکا منظم کیا تھا وہ ہانکا کامیاب ہو جاتا تو پندرہ انسانی جانیں بچ جاتیں۔ یہ ہانکا جن حالات میں منظم کیا گیا وہ قابل ذکر ہیں۔
بدری ناتھ جانے والے بیس یاتری ایک شام کو سڑک کے کنارے ایک دکان پر پہنچے۔ جب یاتریوں نے دکان سے ضروری اشیاء خرید لیں تو دکاندار نے ان سے کہا کہ وہ جلدی کریں اور وہاں سے چار میل دور ایک آشرم میں پہنچنے کی کوشش کریں جہاں انہیں کھانا اور رات گزارے کے لیے جگہ مل جائے گی۔ یاتری ان کی بات ماننے پر تیار نہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ دن بھر کے سفر سے تھک چکے ہیں اور اب مزید چار میل چلنے کی سکت نہیں رکھتے۔ انہوں نے دکاندار سے درخواست کی کہ وہ انہیں دکان کے تھڑے پر کھانا وغیرہ پکانے اور وہیں سونے کی اجازت دے دے۔ اس بات پر دکاندار نے شدید اعتراض کیا۔ اس نے یاتریوں کو بتایا کہ آدم خور اکثر اس کے گھر کا چکر لگاتارہتا تھا اور باہر سونا موت کو دعوت دینے کے برابر تھا۔
ان میں تکرار زوروں پر تھی کہ ایک سادھو وہاں آپ پہنچا۔ وہ متھر اسے بدری ناتھ جا رہا تھا۔ وہ بھی یاتریوں کی ہاں میں ہاں ملانے لگا۔ اس نے کہا کہ اگر وہ دکان دار پارٹی کی عورتوں کو سونے کے لیے اندر جگہ مہیا کردے تو وہ بھی دوسرے آدمیوں کے ساتھ باہر تھڑے پر سو جائے گا اور اگر کسی تیندوے وغیرہ نے انہیں تنگ کرنے کی جرات کی تو وہ جبڑے سے پکڑ کر اسے دو حصوں میں چیر دے گا۔
ناچار دکاندار کو ان کی بات ماننی پڑی۔ عورتیں تو سونے کے لیے دکان کے عقب میں چلی گئیں مگر مرد تھڑے پر بستر بچھا کر لیٹ گئے۔ سادھو ان کے درمیان میں لیٹا تھا۔
تھڑے پر سوئے ہوئے یا تری جب صبح کو بیدار ہوئے تو انہیں اپنے درمیان سادھو نظر نہ آیا۔ جس کمبل پر وہ سویا ہوا تھا وہ گچھا پچھا پڑا تھا اور جو چادر اس نے اپنے جسم کے گرد لپیٹ رکھی تھی وہ تھڑے سے نیچے لٹک رہی تھی اور اس پر خون کے دھبے پڑے تھے۔ یاتریوں کے شور پر دکاندار نے دروازہ کھولا اور فوراً صورتِ حال سے واقف ہو گیا۔ سورج نکلنے پر دکاندار دوسرے آدمیوں کے ہمراہ خون کی لکیر کا تعاقب کرنے لگا۔ یہ لکیر پہاڑی کے نزدیک اور تین کھیتوں میں سے ہوتی ہوئی ایک پست دیوار تک جا پہنچی۔ وہاں سادھو کی ادھ کھائی لاش پڑی تھی۔
ان دنوں ایبٹ سن آدم خور کا سراغ لگانے کی کوشش میں ردرپریاگ آئے ہوئے تھے۔ ان کے قیام کے زمانے میں کوئی انسانی ہلاکت نہ ہوئی تھی۔ لہذا انہوں نے دریائے الک نندہ کے دور افتادہ حصے پر ہانکا لگوانے کا ارادہ کیا۔ مقامی باشندوں کا خیال تھا کہ آدم خور دن کو اسی جگہ لیٹا رہتا تھا۔ جب بیس یاتری اس چھوٹی سی دکان کی طرف محو سفر تھے تو اس وقت ایبٹ سن کے اسٹاف کے آدمی اور پٹواری گرد و نواح کے دیہات میں جا کر لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ کل ہانکے کے لیے تیار ہو جائیں۔
اگلی صبح وقت سے پہلے ناشتہ کرنے کے بعد ایبٹ سن کی بیوی، ان کا ایک دوست جس کا نام میں بھول گیا ہوں، ان کا سٹاف اور دوسو کے قریب دیہاتی جھولا نما پل عبور کر کے مقررہ جگہ پر پہنچ گئے اور ہانکا شروع ہوگیا۔
ہانکا ابھی جاری تھا کہ کچھ لوگ بھاگم بھاگ سادھو کی موت کی خبر لے کر وہاں پہنچے۔
ہانگا ناکام ثابت ہوا– فوری طور پر ایک میٹنگ کی گئی۔ فیصلہ ہوا کہ ایبٹ سن اور ان کی پارٹی چار میل آگے جا کر ایک دوسرے جھولا نما پل کے زریعے دریا کو عبور کر کے دریا کے بائیں کنارے پر پہنچیں اور وہاں سے جائے حدثہ پر آئیں۔ اس دوران ایبٹ سن کا اسٹاف دوبارہ دیہات میں جائے اور مزید لوگوں کو اس دکان پر جمع ہونے کے لیے کہے۔
دوپہر تک دو ہزار دیہاتی اور چند شکاری جمع ہو گئے۔ دکان کے اوپر والی پہاڑی پر اچھی طرح بانکا دیا گیا۔ اگر آپ ایبٹ سن کو جانتے ہیں تو مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بانکا بہت عمدہ منظم کیا گیا تھا۔ ایبٹ سن کو محض اس لیے ناکامی ہوئی کہ تیندوہ اس علاقے میں موجود نہ تھا۔
جب کوئی تیندوہ یا شیر اپنی مرضی سے کھلی جگہ پر شکار چھوڑ جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اب اسے اپنے شکار میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ کھانے سے فارغ ہونے پر شیر یا تیندوہ ہمیشہ دور چلا جاتا ہے۔ کبھی دو میل کبھی چار میل اور کبھی دس میل دور۔ لہذا یہ عین ممکن ہے کہ جب ایبٹ سن اور ان کی پارٹی ہانکے میں مصروف تھی تو آدم خور وہاں سے دس میل دور نیند کے مزے لے رہا ہو۔

تیندوے کی تلاش
آدم خور تیندوے بہت کم ہوتے ہیں اس لیے ان کے متعلق زیادہ کچھ نہیں بتایا جاسکتا۔ ان کے بارے میں اس وقت تک میرا اپنا تجزیہ بڑا محدود تھا۔ کئی برس پہلے مجھے فقط ایک آدم خور تیندوے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اگرچہ مجھے یہ شک تھا کہ آدم خور بننے کے ساتھ ہی شیر کی طرح تیندوے کی عادات میں بھی فرق آ جاتا ہو گا۔ مگر یہ معلوم نہ تھا کہ یہ فرق کس حد تک آتا ہے۔ لہذا میں نے اس دوران آدم خور تیندوے کو بھی عام تیندووں کی طرح ہلاک کرنے کی کوشش کی۔
تیندووں کو شکار کرنے کا عام طریقہ یہ ہے کہ یا تو ان کے شکار کے قریب چھپ کر بیٹھ جائیں یا پھر کوئی بکری وغیرہ باندھ کر تیندوے کو اس کا شکار کرنے کی ترغیب دی جائے اور جب وہ اس لالچ میں وہاں آئے تو اس کا شکار کر لیا جائے۔
میرا ردرپریاگ جانے کا یہ مقصد تھا کہ مزید انسانی ہلاکتوں کو روکنے کی کوشش کی جائے۔ لہذا میری یہ نیت ہرگز نہ تھی کہ کسی انسانی ہلاکت کا انتظار کروں اور پھر تیندوے کو ہلاک کرنے کے لیے اس کے قریب چھپ کر بیٹھوں۔ میرا مقصد تو تیندوے کو تلاش کر کے اسے ٹھکانے لگانا تھا۔
یہاں ایک بڑی مشکل مجھے درپیش تھی۔ اس علاقے کا جو نقشہ مجھے مہیا کیا گیا تھا اس سے پتہ چلتا تھا کہ آدم خور پانچ سو مربع میل میں سرگرم عمل تھا۔ اتنے بڑے اجنبی اور غیر ہموار علاقے میں کسی ایسے درندے کو تلاش کرنا جو فقط رات کے وقت اپنی کارروائی کرتا تھا، خاصا مشکل کام تھا۔ لہذا سب سے پہلے میں نے دریائے الک نندہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا جو اس علاقے کو کم و بیش برابر حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔
لوگوں کا یہ عام خیال تھا کہ دریائے الک نندہ آدم خور کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہیں کرتا تھا اور جب اسے ایک حصے میں انسانی شکار نہیں ملتا تو وہ دریا میں تیر کر دوسرے حصے میں آجاتا تھا۔
مجھے اس بات سے اختلاف تھا۔ کوئی تیندوہ کسی حالات میں بھی الک نندہ کے تیز رو اور برفیلے پانی میں اترنے کی کوشش نہ کر سکتا اور مجھے یقین تھا کہ آدم خور جب ایک حصے سے دوسرے حصے میں آنا چاہتا تھا تو جھولا نما پل کے ذریعے آتا تھا۔ اس علاقے میں دو جھولا نما پل تھے ایک ردرپریاگ میں اور دوسرا وہاں سے بارہ میل دور چٹورپی پال کے مقام پر۔ ان دو پلوں کے درمیان ایک اور پل تھا جورسوں اور تاروں سے بنایا گیا تھا اور یہ وہی پل تھا جس پر سے کچھ عرصہ پہلے ایبٹ سن اور دو سو دیہاتی ہانکے کے موقع پر گزرے تھے۔ یہ پل جس پر سوائے کسی چوہے کے اور کوئی جانور چلنے کی جرات نہ کر سکتا تھا، اپنی ساخت اور ڈھانچے میں بےحد خوفناک تھا۔ یہ پل تعمیر ہوئے مدت گزر چکی تھی اور موسموں کے تغیر و تبدل نے رسوں، تاروں اور کڑیوں کو خستہ حال بنا دیا تھا۔ پل کے دونوں نچلے رسوں کے درمیان ایک ایک فٹ کے فاصلے پر لکڑی کے گول گول ڈنڈے لگے تھے۔ ایک رسہ قدرے ڈھیلا ہوگیا تھا۔ جس سے وہ پل 45 ڈگری کا زاویہ بنائے ہوئے تھا۔ اس پل پر سے گزرنے والوں سے کرایہ وصول کرنے کے لیے جو آدمی مقرر تھا میں نے اس سے پوچھا کہ کیا کبھی اس پل کی مرمت بھی ہوئی تھی۔ اس نے مشتبہ نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے جواب دیا کہ پل کی کبھی مرمت نہ ہوئی تھی۔ ہاں ایک آدمی اس پر سے گزر رہا تھا کہ وہ ٹوٹ گیا۔ اس حادثے کے بعد اس کی مرمت ہوئی تھی۔ اس کا یہ جواب سن کر میری ہڈیاں سرد ہو گئیں۔ میں خدا خدا کرتا ہوا اس پل پر سے گزرنے لگا۔ اور جب باحفاظت وہاں سے گزر گیا تو پل کی دہشت نے تھوڑی دیر تک میرا پیچھا نہ چھوڑا۔
ظاہر ہے اس پل پر سے آدم خور کا گزرنا ناممکن تھا۔ اب باقی دو جھولا نما پل تھے۔ میرا یقین تھا کہ اگر میں ان دونوں پلوں پر چلنے کی ناکہ بندی کر لوں تو اسے ایک علاقے میں محدود کر لوں گا۔ اور اسے دریا کی دونوں جانب تلاش کرنے کے بجائے فقط ایک جانب تلاش کروں گا۔
اس صورت میں میرا پہلا کام یہ معلوم کرنا تھا کہ تیندوہ دریا کی کس جانب تھا۔ سادھو کی آخری انسانی ہلاکت چٹواپی وال کے جھولا نما پل سے چند میل دور دریا کے بائیں کنارے پر واقع ہوئی تھی۔ اور مجھے یقین تھا کہ تیندوہ اپنا شکار چھوڑنے کے بعد پل عبور کر کے دوسری جانب چلا گیا تھا۔ کسی انسانی ہلاکت کے بعد اس علاقے کے لوگ بہت زیادہ محتاط ہو جاتے تھے جس کے پیش نظر تیندوے کے لیے اس علاقے میں دوسرے یا تیسرے دن کوئی اور شکار حاصل کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ آپ پوچھیں گے کہ پھر ایک ہی گاؤں میں چھے چھے انسانی ہلاکتیں کیوں ہوتی تھیں؟ اس کا یہی جواب ہے کہ لوگ زیادہ دیر تک محتاط نہیں رہ سکے تھے۔ مکان چھوٹے اور آرام دہ نہیں اور پھر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ جب ایک گاؤں کے لوگوں کو یہ معلوم ہوتا کہ تیندوہ ان سے دس پندرہ میل دور ایک گاؤں میں ہے تو کوئی مرد، عورت یا بچہ چند منٹ کے لیے کسی ضروری کام سے رات کو باہر نکل جاتا اور تیندوے کو وہ موقع مہیا کر دیتا جس کے لیے وہ کئی راتوں سے انتظار میں ہوتا۔ اس طرح وہ آرام سے اپنا کام کر سکتا تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
 
دوسرا انسانی شکار
نہ تو کوئی تصویر اور نہ ہی کوئی دوسرا ذریعہ موجود تھا جس سے میں آدم خور کے پنجوں کے نشانات کی شناخت کر سکتا- جب تک یہ موقع مجھے خود مہیا ہوتا میں نے ردرپریاگ کے علاقے میں تمام تیندووں کو مشتبہ قرار دینے اور اگر کوئی ہاتھ لگ جائے تو اسے ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
ردرپریاگ پہنچتے ہی میں نے دو بکریاں خرید لیں۔ ان میں سے ایک بکری تو میں نے یاترا سڑک پر ایک میل کے فاصلے پر باندھ دی اور دوسری کو الک نندہ کی دوسری جانب لے گیا اور وہاں اسے ایک ایسے راستے پر باندھ دیا جو کھلے جنگل میں سے گزرتا تھا اور جس پر میں نے تیندوے کے پنجوں کے پرانے نشان دیکھے تھے- دوسری صبح بکریوں کا دورہ کرنے پر معلوم ہوا کہ الک نندہ کی دوسری جانب والی بکری ہلاک ہو چکی تھی اور اس کا تھوڑا سا حصہ بھی کھایا گیا تھا بکری کو بلاشبہ تیندوے نے ہلاک کیا تھا اگر اسے کسی گیدڑ وغیرہ نے کھایا تھا۔
دن کے وقت آدم خور کی کوئی خبر نہ پا کر میں نے ہلاک شدہ بکری کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور شام کے تین بجے بکری سے تقریباً پچاس گز دور ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا- میں نے جو تین گھنٹے وہاں بسر کیے ان میں کسی جانور یا پرندے نے کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہ کیا- جس سے پتہ چل سکتا کہ تیندوہ گرد و نواح میں موجود تھا۔ جب اندھیرا پھیل رہا تھا تو درخت سے اتر آیا اور بکری کے گلے کا رسہ کاٹ کر جسے تیندوے نے توڑنے کی کوشش نہ کی تھی، بنگلے کی سمت چل پڑا۔
میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ اس وقت آدم خور تیندووں کے متعلق میرا تجزیہ بڑا محدود تھا- اگرچہ آدم خور شیروں سے میرا سامنا ضرور ہو چکا تھا۔ لہٰذا درخت سے اترنے اور بنگلے تک پہنچنے تک یہ سارا وقت میں خود کو اچانک حملے سے بچانے کے لیے بڑا محتاط رہا اور میری خوش قسمتی تھی کہ میں نے ایسا کیا تھا۔
اگلی صبح میں جلدی بنگلے سے نکل پڑا- جونہی میں بیرونی گیٹ کے پاس آیا مجھے باہر ایک بڑے تیندوے کے پنجوں کے نشان دکھائی دیے- میں الٹے قدموں ان نشانات کا تعاقب کرے لگا- یہ نشان ایک ایسی ندی تک جاتے تھے جو اس راستے کو کاٹتی تھی جس کے قریب میں نے بکری باندھ رکھی تھی- رات بھی تیندوے نے بکری کو نہ چھیڑا تھا۔
میرا تعاقب کرنے والا آدم خور تیندوہ ہی ہو سکتا تھا۔ اس دن مجھ سے جس قدر چلا گیا میں چلا- اور دیہات میں جاکر اور راستے میں لوگوں کو بتاتا رہا کہ تیندوہ دریا کی اس طرف ہے لہذا محتاط رہیں۔
اس دن کوئی واقعہ رونما نہ ہوا لیکن دوسرے دن جب میں ناشتے سے فارغ ہونے والا تھا تو ایک آدمی بھاگا بھاگا میرے پاس یہ خبر لایا کہ آدم خور نے گزشتہ شب بنگلے کے اوپر والی پہاڑی کے ایک گاؤں میں ایک عورت کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ یہ وہی پہاڑی اور تقریباً وہی جگہ ہے جہاں پر کھڑے ہو کر آپ نے پانچ سو مربع میل کے علاقے کا سرسری جائزہ لیا تھا۔
چند منٹ میں، میں نے ضروری چیزیں جمع کر لیں۔ یعنی ایک فالتو رائفل، ایک شاٹ گن، کارتوس، رسہ اور مچھلیاں پکڑنے والی ڈوری اور اپنے دو ملازموں اور اس دیہاتی کے ہمراہ جائے حادثہ کی طرف چل پڑا۔ وہ بڑا گرم دن تھا- اگرچہ فاصلہ زیادہ نہ تھا- زیادہ سے زیادہ تین میل ہو گا۔ مگر دھوپ کی حدت میں چار ہزار فٹ کی چڑھائی بڑی تھکادینے والی ثابت ہوئی- جب میں گاؤں پہنچا تو پسینے سے شرابور تھا۔
میرے وہاں پہنچتے ہی اس بدنصیب عورت کے شوہر نے مجھے حادثے کی تفصیل سنائی- چولہے کے قریب رات کا کھانا کھانے کے بعد جھوٹے برتن صاف کرنے کی غرض سے انہیں اٹھا کر بیرونی دروازے کی دہلیز پر لے گئی۔ ادھر اس کا شوہر حقہ گڑگڑانے لگا- دروازے کے قریب پہنچ کر عورت دہلیز پر بیٹھ گئی۔ ابھی وہ بیٹھی تھی کہ برتن زمین پر گرنے کی آواز آئی- یہ جاننے کی خاطر کہ برتن کیوں گرے تھے آدمی باہر آیا اور اس نے اپنی بیوی کو آواز دی- جب اسے کوئی جواب نہ آیا تو اس نے بھاگ کر بیرونی دروازہ بند کر دیا- "صاحب! اپنی جان خطرے میں ڈال کر مردہ جسم کو حاصل کرنے کا کیا فائدہ تھا-" اس شخص نے کہا۔ اس کا یہ جواب اگرچہ انسانیت سے بعید تھا مگر تھا منطق پر مبنی۔ اسے اپنی بیوی کی موت کا انتا دکھ نہ تھا جتنا اس بچے کو کھونے کا غم تھا جو چند روز بعد ان کے یہاں پیدا ہونے والا تھا۔
اس مکان کا بیرونی دروازہ ایک چار فٹ چوڑی گلی میں کھلتا تھا جو تقریباً پچاس گز لمبی تھی اور جس کی دونوں جانب مکان تھے- برتن گرنے اور آدمی کی آواز سن کر تمام گھروں کے دروازے ایک دم بند ہو گئے- زمین پر نشانات سے پتہ چلتا تھا کہ آدم خور بدنصیب عورت کو گلی کے آخر تک گھسیٹ کر لے گیا تھا اور پھر اسے ہلاک کرکے پہاڑی کے نیچے ایک ندی کے کنارے ویران کھیتوں میں لے آیا تھا- یہاں اس نے عورت کو کھایا اور اس کے بچے کھچے حصے چھوڑ گیا۔
باقی ماندہ لاش سے چالیس گز دور ناریل کا ایک بے برگ درخت تھا۔ جس کے ایک دو شاخے میں گھاس کا ایک بڑا سا گٹھا پڑا تھا۔ یہ دو شاخہ اور گھاس کا گٹھا زمین سے کوئی چار فٹ بلند ہوں گے۔ میں نے گھاس کے اس گٹھے میں چھپ کر بیٹھے کا فیصلہ کر لیا۔
لاش کے ساتھ ہی ایک جگہ راستہ ندی کی سمت جاتا تھا۔ اس راستے پر آدم خور کے پنجوں کے نشان موجود تھے- یہ نشان اس تیندوے کے پنجوں کے نشانات سے مشابہت رکھے تھے جس نے دو رات پہلے بنگلے تک میرا تعاقب کیا تھا۔ یہ نشان ایک بڑے مگر بوڑھے تیندوے کے تھے- اس کے پچھلے بائیں پنجے میں بڑا نقص تھا۔ چار برس پہلے یہیں اسے گولی لگی تھی۔
میں نے آٹھ آٹھ فٹ اونچے دو مضبوط بانس لیے اور انہیں لاش کے قریب کھیت میں گاڑ دیا- ان دونوں بانسوں کے ساتھ میں نے اپنی فالتو رائفل اور شاٹ گن باندھیں اور ان کا منہ پیچھے کی سمت کر دیا- پھر مچھلی پکڑنے والی ڈوری کو رائفل اور شاٹ گن کی لبلبیوں سے باندھ کر اس ڈوری کو زمین میں دو کیل گاڑ کر اس راستے پر باندھ دیا جو ندی کی طرف جاتا تھا اور جس پر میں نے آدم خور کے پنجوں کے نشانات دیکھے تھے- اگر تیندوہ دوبارہ اسی راستے سے اپنے شکار کی طرف آتا اور وہ ڈوری کو کھینچ دیتا تو رائفل اور شارٹ گن نے خود بخود چل جاتا تھا اور تیندوے کے ہلاک ہونے کا امکان تھا۔ اس کے برعکس اگر وہ اس پھندے سے گریز کر کے کسی دوسرے راستے سے اپنے شکار پر آتا اور میں اس پر گولی چلاتا تو پھر بھی اس پھندے میں اس کے پھنسنے کا امکان تھا۔ کیونکہ وہ پھندا اس کی پسپائی کے فطری راستے پر تھا- تیندوہ اپنے کالے جسم کے سبب اندھیرے میں دکھائی نہیں دیتا۔ لہذا گولی چلانے کی سمت کا اندازہ رکھنے کے لیے میں پہاڑی پر سے ایک سفید رنگ کا پتھر لایا اور اسے کھیت کے کنارے پر لاش سے ایک فٹ کے فاصلے پر رکھ دیا۔
جب یہ انتظامات مکمل ہو گئے تو میں اپنی نشست کی طرف متوجہ ہوا۔ میں نے گھاس کے گٹھے میں سے کچھ گھاس زمین پر پھینک دی اور باقی گھاس اپنے پیچھے اور کمر تک اپنے آگے رکھ لی۔ چونکہ میرا منہ لاش کی طرف اور پشت درخت کی طرف تھی لہٰذا اس بات کا زیادہ امکان نہ تھا کہ تیندوہ مجھے دیکھ لیتا۔ خواہ وہ کسی وقت کیوں نہ آتا۔ اس شہرت کے باوجود کہ وہ دوبارہ اپنے شکار پر نہیں آتا مجھے یقین تھا کہ اب کی دفعہ وہ ضرور آئے گا۔ میرے کپڑے ابھی تک پسینے سے گیلے تھے مگر میری جیکٹ نے مجھے سرد ہوا سے قدرے بچا رکھا تھا- آخر میں رات بھر کی نگرانی کے لیے اپنی آرام دہ جگہ پر بیٹھ گیا- میں نے اپنے آدمی واپس بھیج دیے اور انہیں ہدایت کی کہ وہ نمبردار کے گھر رہیں- میں خود وہاں چلا آؤں گا یا پھر سورج نکلنے پر وہ میرے پاس آئیں- میں زمین سے چھلانگ لگا کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا تھا۔ ظاہر ہے تیندوہ بھی یہی حرکت میرے جتنی آسانی سے کر سکتا تھا۔
سورج غروب ہونے کے قریب تھا اور وادی گنگا کا منظر جب کہ اس کے پسِ منظر میں برف پوش ہمالیہ اپنے نیلے اور آتشی رنگوں کی جھلک دکھا رہا ہو آنکھوں کے لیے ایک جنت سے کم نہ تھا- میرے دیکھتے ہی دیکھے دن کا اجالا رات کی تاریکی میں چھپ گیا۔
اندھیرا جب رات کی نسبت سے استعمال کیا جائے تو یہ ایک اضافتی چیز بن جاتا ہے اور اس کا کوئی مقررہ معیار نہیں رہتا۔ ایک شخص کے نزدیک جو کثیف اندھیرا ہوتا ہے ممکن ہے دوسرا اسے محض اندھیرا خیال کرے اور تیسرا شخص اسے عام اندھیرے کا درجہ دے- اپنی زندگی کا بہت سا حصہ کھلی جگہوں پر گزارنے کے سبب مجھے رات بھی تاریک محسوس نہیں ہوتی مگر آسمان پر گہرے بادل چھا جائیں تو پھر دوسری بات ہے۔ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ میں رات کے وقت بھی دن کی طرح دیکھ سکتا ہوں۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ رات کے وقت میں جنگل میں یا کوئی جگہ ہو اپنا راستہ بخوبی دیکھ سکتا ہوں۔ لاش کے قریب سفید پتھر میں نے احتیاط کے طور پر رکھا تھا۔ مجھے امید تھی کہ ستاروں کی چمک اور سفید برف کا عکس یہ دونوں چیزیں مجھے اتنی روشنی مہیا کر دیں گی کہ میں تیندوے پر آسانی سے گولی چلا سکوں۔
لیکن قسمت نے میرا ساتھ نہ دیا۔ ابھی آغازِ شب تھا کہ دور بجلی چمکنے لگی۔ پھر بادلوں کی گرج سنائی دی اور چند منٹ میں مطلع گہرا ابر آلود ہوگیا۔ بارش کا پہلا موٹا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی مجھے ندی کے اندر کوئی چھوٹا سا پتھر لڑھکنے کی آواز سنائی دی اور پھر کوئی میرے نیچے گھاس کو کرید نے لگا– تیندوہ آپہنچا تھا- جب میں موسلادھار بارش میں بھیگ رہا تھا اور ٹھنڈی ہوا میرے کپڑوں میں سیٹیاں بجا رہی تھی تو وہ اس دوران میرے نیچے خشک گھاس میں مزے سے لیٹا رہا- ایسا مہیب طوفان باد و باراں میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا- جب طوفان اپنے عروج پر تھا تو میں نے ایک شخص کو لالٹین اٹھائے گاؤں کی سمت جاتے دیکھا۔ مجھے اس شخص کی جرات پر رشک آنے لگا- بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ شخص پوری سے بہ حالت مجبوری تیس میل طے کر کے اس گاؤں میں مجھے رات کے وقت شکار کے لیے استعمال کی جانے والی برقی ٹارچ دینے آیا تھا، جس کا وعدہ حکومت نے مجھ سے کر رکھا تھا۔ کاش یہ ٹارچ تین گھنٹے پہلے پہنچ جاتی۔ لیکن افسوس بےسود ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ چودہ آدمی زیادہ طویل عرصہ زندہ رہتے جو اس ٹارچ کے دیر سے پہنچنے کے بعد آدم خور کا شکار بنے تھے- بالفرض اگر ٹارچ بروقت پہنچ جاتی تو پھر بھی اس بات کی کیا ضمانت تھی کہ میں اس رات تیندوے کو ہلاک کر لیتا۔
تھوڑی دیر بعد بارش بند ہو گئی- میری ہڈیاں تک سرد ہو چکی تھیں- بادل چھٹ رہے تھے کہ اچانک سفید پتھر دھندلا سا ہو گیا- پھر مجھے تیندوے کے کھانے کی آواز آئی۔ گزشتہ شب وہ ندی میں لیٹ کر لاش کا اوپر والا حصہ کھاتا رہا تھا۔ مجھے امید تھی کہ وہ آج بھی ایسا ہی کرے گا اور اس لیے میں نے لاش کے قریب پتھر رکھا تھا۔ لیکن بارش پڑنے سے ندی میں جگہ جگہ پانی جمع ہونے کے سبب تیندوے نے اسے نظر انداز کر کے نئی پوزیشن اختیار کرلی تھی۔ جس سے میرا نشان دھندلا گیا تھا۔ میں نے اس بات کی پیش بینی نہ کی تھی۔ بہرحال تیندووں کی عادات سے واقف ہونے کی بنا پر مجھے معلوم تھا کہ پتھر زیادہ دیر تک دھندلایا نہ رہے گا اور وہ جلدی دکھائی دینے لگے گا- دس منٹ بعد مجھے پھر پتھر دکھائی دیا اور اس کے ساتھ ہی میں نے تیندوے کو اپنی نشست کے نیچے اندھیرے میں غائب ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کا رنگ بڑھاپے کی وجہ سے مدھم پڑ چکا تھا- لیکن چلتے وقت جو آواز وہ پیدا کر رہا تھا اس کا مجھے آج تک پتا نہیں چل سکا۔ وہ آواز کسی خاتون کے ریشمی لباس کی سرسراہٹ سے مشابہ تھی اور یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ سکی کہ ویران کھیتوں میں وہ آواز کیسے پیدا ہو سکتی تھی۔
رائفل اٹھا کر میں پھر سے یہ انتظار کرنے لگا کہ کب پتھر دوبارہ دھندلائے اور میں گولی چلاؤں- لیکن بازو ایک بھاری رائفل کا بوجھ کچھ وقت سے زیادہ برداشت نہیں کر سکے- آخر میں نے بازوؤں کو آرام دینے کی خاطر رائفل نیچے کر لی- ابھی میں نے ایسا کیا ہی تھا کہ سفید پتھر پھر نظروں سے اوجھل ہو گیا- اگلے دو گھنٹوں میں تین مرتبہ یہی کچھ ہوا۔ آخر تنگ آکر جب تیندوہ چوتھی مرتبہ درخت کی طرف آرہا تھا تو میں نے جھک کر اس کی غیر واضح ہئیت پر گولی چلا دی۔
میں نے جس جگہ پر گولی چلائی تھی وہاں کھیت کی چوڑائی فقط دو فٹ تھی- اگلی صبح میں نے اس جگہ کا جائزہ لیا تو میری گولی وہاں کھیت کے درمیان میں لگی تھی اور اس کے قریب ہی تیندوے کی گردن سے کچھ بال کٹ کر زمین پر بکھرے پڑے تھے۔
اس رات وہ دوباره دکھائی نہ دیا- اگلی صبح سورج طلوع ہونے پر میں اپنے آدمیوں کے ہمراہ ردرپریاگ کی سمت چل پڑا اور اس عورت کا شوہر اور ان کے رشتہ دار مردے کو جلانے کی رسم پوری کرنے کے لیے لاش کا بچا کھچا حصہ اٹھا کر لے گئے۔

تیاریاں
جب میں اپنی رات والی ناکامی کی جگہ سے ردرپریاگ کی سمت جارہا تھا تو میرے خیالات و جذبات بڑے تلخ اور سرد مہر تھے۔ تقدیر نے میرے ساتھ اور گھڑوال کے باسیوں کے ساتھ ایک ایسی چال چلی تھی جس کے ہم دونوں مستحق نہ تھے۔ اگرچہ میں اسے اپنی خوبی تصور نہیں کرتا مگر پہاڑی علاقوں کے لوگ آدم خور کو ہلاک کرنے کے سلسلے میں مجھے مافوق الفطرت طاقت کا مالک سمجھتے ہیں۔ یہ خبر کہ میں گھڑوال کو آدم خور سے نجات دلانے جا رہا ہوں، مجھ سے پہلے گھڑوال پہنچ گئی تھی۔
ابھی مجھے گھڑوال پہنچنے میں کئی دن لگنے تھے لیکن سڑک پر یا راستے کے کنارے کھیتوں پر کام کرنے والے لوگ جب مجھے دیکھتے تو بڑے خلوص سے میری کامیابی کی دعا مانگتے۔ انہیں مجھ پر مکمل اعتماد تھا اور بعض اوقات ان کا یہ اعتماد میرے لیے گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا سبب بن جاتا- جوں جوں میں منزلِ مقصود کے قریب پہنچ رہا تھا لوگوں کی ولولہ انگیزی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ردرپریاگ میں میرے داخلے کے وقت اگر آپ میں سے کوئی وہاں موجود ہوتا تو یہ جان کر اسے حیرت ہوتی کہ جس شخص کے گرد مشتاق ہجوم نے گیرا ڈال لیا تھا وہ کسی جنگ کا ہیرو نہیں بلکہ ایک عام آدمی تھا، جسے اپنی خامیوں کا پورا احساس تھا اور اسے یہ ڈر لگا ہوا تھا کہ جو کام اس نے اپنے ذمے لیا ہے اسے پورا کرنے کی اس میں صلاحیت نہ تھی۔
پانچ سو مربع میل جس کا زیادہ تر رقبہ پہاڑی اور جنگلاتی تھا اور جس میں کوئی پچاس کے قریب تیندوے رہتے تھے۔ اتنے بڑے علاقے میں کسی خاص تیندوے کو تلاش کر کے ہلاک کرنا نہایت مشکل کام تھا۔ جوں جوں میں اس خوبصورت علاقے سے واقف ہوتا جاتا، میری ہمت پست ہوتی جاتی۔ مگر وہاں کے عوام کو میرے خیالات کا کس طرح علم ہو سکتا تھا۔ ان کے نزدیک میں تو ایک ایسا شخص تھا جس نے دوسرے کئی علاقوں کو آدم خور سے نجات دلائی تھی اور جو اب انہیں ایک ایسی مصیبت سے چھٹکارا دلانے آیا تھا جو گزشتہ آٹھ برس سے ان کے دل و دماغ پر محیط تھی اور پھر میری آمد سے چند گھنٹے بعد ناقابلِ یقین خوش قسمتی سے مجھے آدم خور کا سراغ مل گیا تھا اور میرے خیال کے مطابق وہ گھڑوال کے اس حصے میں موجود تھا جہاں اس نے نبٹنا میرے خیال کے مطابق قدرے آسان تھا- ان ابتدائی کامیابیوں کے بعد بدنصیب عورت کی ہلاکت بھی وقوع پذیر ہو گئی تھی- میں نے مزید انسانی ہلاکتوں کو روکنے کی کوشش کی گر کامیاب نہ ہوسکا۔ اسی ناکامی نے مجھے آدم خور پر گولی چلانے کا موقع بھی مہیا کیا۔ جو شاید مجھے مہینوں حاصل نہ ہوتا۔
گزشتہ دن جب میں اپنے راہنما کے پیچھے پیچھے اس گاؤں کی سمت جارہا تھا تو میں نے دل ہی دل میں تیندوے کو ہلاک کرنے کے امکان کا اندازہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اسے ہلاک کرنے کے لیے تین میں سے دو امکان تھے۔ اس حیثیت کے باوجود کہ گزشتہ برسوں میں اس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ دوبارہ اپنے شکار کے پاس نہ آتا تھا اور وہ اندھیری رات تھی اور میرے پاس برقی ٹارچ بھی نہ تھی- جس دن میں مائیکل کینن کے پاس گیا تھا اور انہیں گھڑوال جانے کے سلسلے میں اپنے ارادے سے مطلع کیا تھا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ مجھے کسی چیز کی ضرورت تو نہ تھی- میں نے انہیں بتایا تھا کہ میرے پاس برقی ٹارچ نہیں تھی اور اس کا آرڈر میں نے کلکتہ کی ایک کمپنی کو دے رکھا تھا- انہوں نے ازراہ کرم بتایا کہ وہ برقی ٹارچ حکومت مجھے مہیا کرے گی اور میرے ردرپریاگ پہنچنے سے پہلے وہاں موجود ہوگی۔
اگرچہ یہ جان کر مجھے بڑی مایوسی ہوئی تھی کہ میرے پہنچنے سے پہلے برقی ٹارچ وہاں نہ پہنچی تھی، مگر اس مایوسی پر جلد ہی اس خیال سے غلبہ پالیا کہ میں اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔ اسی صلاحیت کے بل بوتے پر میں نے رات کے وقت تیندوے کو ہلاک کرنے کے متعلق تین میں سے دو امکان کا اندازہ کیا- مجھے اس رات اپنی کامیابی کا اس قدر یقین تھا کہ میں اپنے ہمراہ ایک فالتو رائفل اور ایک شارٹ گن لے گیا تھا اور جب میں نے گھاس کے گھٹے کے اندر چھپ کر چند گز دور پڑی ہوئی لاش اور اپنے دوسرے دام کاجائزہ لیا تو میری امیدیں بلند ہوگئیں۔ اب تو ایک کے مقابلے میں تیندوے کو ہلاک کرنے کے دس امکان تھے- لیکن پھر طوفان باد و باراں آگیا- دو گز دور بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ میرے پاس برقی مارچ بھی نہیں تھی۔ الغرض آدم خور کو ہلاک کرنے میں میں ناکام رہا تھا اور چند گھنٹوں میں اس خبر نے سارے علاقے میں پھیل جانا تھا۔
ورزش، گرم پانی اور غذا یہ چیزیں یخ خیالات پر بڑاخوشگوار اثر کرتی ہیں- بنگلے پر پہنچنے، غسل کرنے اور کھانا کھانے کے بعد میں نے تقدیر کو کوسنا بند کردیا اور اپنی رات کی ناکامی کا جائزہ معقول نقطہ نظر سے لینے کے قابل ہوگیا۔ نشانہ خطا ہونے پر تاسف کرنا زمین پر دودھ گرنے کے تاسف کے برابر ہے- اگر تیندوہ الک نندہ عبور نہیں کر گیا تھا تو اسے ہلاک کرنے کے میرے مواقع بہتر ہو گئے تھے- کیونکہ اب میرے پاس برقی ٹارچ بھی موجود تھی۔
پہلی بات تو یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا آدم خور الک نندہ عبور کر گیا تھا کہ نہیں۔ جیسا کہ میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں میرا یقین تھا کہ وہ جھولا نما پل کے ذریعے ہی سے ایسا کر سکتا تھا۔ ناشتے کے بعد میں یہ اطلاع حاصل کرنے نکل پڑا- وہ چٹوابی چال کا جھولا نما پل عبور نہ کر سکتا تھا۔ کیوں کہ اپنے سر سے چند فٹ دور بھاری رائفل کے چلنے کی آواز کے شدید صدے کے باوجود اس بات کا امکان نہ تھا کہ اس نے چند گھنٹوں میں چودہ میل کا سفر طے کر لیا ہو گا۔ لہذا میں نے اپنی تلاش کو ردرپریاگ کے پل تک محدود کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اس پل تک تین راستوں سے جایا جا سکتا تھا۔ پہلا راستہ شمال کی جانب سے اور دوسرا جنوب کی طرف سے تھا اور ان دونوں کے درمیان ایک تیسرا راستہ ردرپریاگ بازار سے آتا تھا۔ ان تینوں راستوں کا بڑی احتیاط سے جائزہ لینے کے بعد میں نے پل عبور کر لیا اور نصف میل تک کیدار ناتھ یاترا سڑک کا جائزہ لیا- وہاں سے پھر راستے پر آیا جہاں تین راتیں پہلے تیندوے نے میری بکری ہلاک کی تھی۔ اس بات سے مطمئن ہو کر کہ تیندوے نے دریا عبور نہیں کیا تھا، میں نے دونوں پلوں کو رات کے وقت بند کرنے اور تیندوے کو اس علاقے میں رہنے پر مجبور کرنے کا فیصلہ کر لیا- پلوں کے نگرانوں نے میرے ساتھ تعاون کیا- وہ پلوں کے نزدیک دریا کے بائیں کنارے پر رہتے تھے۔
آپ خیال کرتے ہوں گے کہ عوامی پلوں کو اس طرح بند کردینا سراسر زیادتی ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہ تھا۔ کیونکہ تیندوے کے نافظ کیے ہوئے کرفیو آرڈر کے سبب کوئی شخص رات کے وقت ان پلوں پر سے گزرنے کی جرات نہ کر سکتا تھا۔
رات کے وقت پلوں کے چار فٹ چوڑے راستے پر خاردار جھاڑیاں رکھ دی جاتیں۔ اس سارے عرصے میں کسی شخص نے رات کے وقت پلوں پر سے گزرنے کا مطالبہ نہ کیا۔
ردرپریاگ کے بائیں کنارے والے مینار پر میں نے تقریباً بیس راتیں بسر کیں۔ وہ راتیں میں بھی فراموش نہیں کر سکوں گا۔ وہ مینار ایک آگے کی سمت جھکی ہوئی چٹان پر تھا۔ ایستادہ تھا اور کوئی بیس فٹ بلند تھا۔ اس مینار کی چھت چار فٹ چوڑی اور آٹھ فٹ لمبی تھی اور اس پر چڑھنے کے دو راستے تھے- ایک تو موٹے تار کے ذریعے اور دوسرا بانس کی بنی ہوئی سیڑھی کے ذریعے- میں سے مؤخر الذکر ذریعہ پسند کیا۔ کیوں کہ تار پر کوئی کالا اور بو دار سیال لگا ہوا تھا جو ہاتھوں سے چمٹ جاتا اور کپڑوں سے ایسا لگتا کہ اس کا داغ چھوٹنے کا نام نہ لیتا تھا۔
اس کی سیڑھی مینار کی چھت سے چار فٹ نیچے ختم ہو جاتی تھی اور پھر ہاتھوں کو مینار کی چھت پر ڈال کر بازیگر کی طرح اچھل کر اوپر چڑھنا پڑتا تھا۔
اس علاقے کے دریا شمال سے جنوب کی سمت بہتے ہیں اور وہاں سارا سال ایک تیز ہوا چلتی ہے جو سورج کے طلوع و غروب کے ساتھ ہی اپنا رخ بدل لیتی ہے- دن کے وقت یہ ہوا جسے مقامی طور پر "دارو" کہا جاتا ہے، جنوب کی سمت سے اور رات کے وقت شمال کی سمت سے چلتی ہے۔
جس وقت میں چھت پر چڑھا کرتا تھا ہوا ساکن ہوتی تھی لیکن جوں جوں دن کی روشنی مدھم پڑنے لگتی اس کی رفتار تیز تر ہونے لگتی اور نصف رات تک وہ آندھی کی شکل اختیار کر لیتی- چھت پر کوئی اسی جگہ نہ تھی جسے میں سہارے کے لیے پکڑ سکتا۔ جب ہوا کے دباؤ کو اپنے جسم پر کم محسوس کرانے کی خاطر میں چھت پر لیٹ جاتا تو پھر بھی مجھے یہی فگر دامن گیر رہتی کہ کہیں ہوا مجھے اٹھا کر ساٹھ فٹ نیچے چٹانوں پر نہ پھینک دے- ان چٹانوں پر گرنے کے بعد میں نے اچھل کر الک نندہ کے برفانی پانی میں جا پڑنا تھا- یہ الگ بات ہے کہ ساٹھ فٹ کی بلندی سے گرنے کے بعد پانی کا درجہ حرارت انسان کے لیے دلچسپی کا سبب نہیں رہتا۔ عجیب بات تھی کہ مجھے جب بھی گرنے کا خیال آتا تو میں چٹانوں کے بجائے برفانی پانی سے زیادہ خوفزدہ ہوتا۔ ہوا کی تکلیف کے علاوہ وہاں چیونٹیوں کا ایک بل بھی تھا جو میرے کپڑوں میں گھس کر میری جلد سے چمٹ جاتیں۔ جو بیس راتیں میں نے وہاں پر بسر کیں ان میں پل کے منہ پر خار دار جھاڑیاں نہ رکھی گئیں اور اس سارے عرصہ میں فقط ایک زندہ چیز نے اسے عبور کیا- وہ تھا ایک گیدڑ۔

جادو
ہر شام جب میں مینار کی چھت پر چڑھنے کے لیے جاتا تو میرے ساتھ دو آدمی ہوتے جنہوں نے بانس کی سیڑھی اٹھا رکھی ہوتی تھی۔ مجھے چھت پر چڑھانے اور میری رائفل میرے حوالے کرنے کے بعد وہ سیڑھی کو ہٹا لیتے۔
دوسری شام جب ہم پل پر پہنچے تو ہم نے ایک ایسا آدمی دیکھا جس نے سفید چوغا پہن رکھا تھا اور اس کے سر اور چھاتی پر کوئی چیز چمک رہی تھی۔ اس نے اپنے ہاتھ میں چھ فٹ اونچی چاندی کی ایک صلیب اٹھا رکھی تھی اور وہ کیدار ناتھ سے پل کی سمت آرہا تھا- پل کے اوپر پہنچ کر وہ آدمی جھک گیا اور اپنی صلیب کو اپنے سامنے رکھ کر اپنا سر جھکا لیا تھوڑی دیر بعد اس نے صلیب کو بلند کیا، پاؤں کے بل کھڑا ہوگیا، چند قدم آگے اٹھانے اور پھر آگے کی سمت جھک کر اپنا سر بھی جھکا لیا۔ لمبے پل کے سارے راستے پر وہ شخص یہی کچھ کرتا آیا۔
میرے پاس سے گزرتے وقت اس شخص نے سلام کرنے کے انداز میں ہاتھ اوپر اٹھایا- لیکن چونکہ وہ اپنی عبادت میں بےحد مگن دکھائی دیتا تھا لہذا میں نے اسے بلانا مناسب خیال نہ کیا- اس کے سر اور چھاتی پر چمکنے والی چیز چاندی کی چھوٹی چھوٹی صلیبیں تھیں۔
میری طرح میرے آدمی بھی اس عجیب شے میں دلچسپی لے رہے تھے- جب وہ شخص ردرپریاگ کے راستے پر چلنے لگا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ وہ کیا شے تھی اور وہ کس ملک سے آیا تھا۔ صلیبوں کے نشانات سے پتہ چلتا تھا کہ وہ عیسائی تھا۔ چونکہ میں نے اس کی آواز نہ سنی تھی لہذا میں نے اس کی جٹوں، کالی داڑھی اور خدوخال سے اندازہ کیا کہ وہ شمالی ہندوستان کا باشندہ ہو سکتا تھا۔
اگلی صبح سیڑھی کی مدد سے نیچے اتر کر جب میں بنگلے کی طرف جا رہا تھا تو مجھے وہی شخص ایک بڑی چٹان پر کھڑا دریا کی سمت گھورتا دکھائی دیا- جب میں اس کے نزدیک گیا تو وہ چٹان سے اتر کر میرے قریب آیا- میرے یہ پوچھنے پر کہ وہ اس علاقے میں کیا لینے آیا تھا اس نے جواب دیا کہ وہ دور دراز کا سفر طے کر کے گھڑوال کے لوگوں کو اس بدروح سے نجات دلانے آیا تھا جو اتنے عرصے سے انہیں تنگ کر رہی تھی۔ جب میں نے پوچھا کہ وہ یہ کام کس طرح انجام دے گا۔ اس نے جواب دیا کہ وہ لکڑی وغیرہ سے شیر کا ایک مجسمہ بنائے گا، پھربدروح کو دعاؤں کے ذریعے اس پنجرے میں قید کر کے اسے دریائے گنگا میں بہا دے گا۔ دریائے گنگا اسے سمندر تک پہنچا دے گا جہاں سے وہ واپس نہیں آسکے گا۔
جو کام اس نے اپنے ذمے لیا تھا اگرچہ مجھے شک تھا کہ وہ اس پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے گا- لیکن میں اس کے اعتماد اور مشقت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ سارا دن بانسوں، کاغذوں، رنگ دار کپڑوں اور دھاگے سے شیر کا مجسمہ بناتا رہتا۔ وہ صبح اپنی جگہ پر آ جاتا اور جب شام کو میں مینار پر چڑھنے کے لیے جاتا تو وہ اس وقت بھی اپنے فن میں مشغول ہوتا۔ جب مجسمہ مکمل ہونے والا تھا تو ایک رات سخت بارش نے اس کے اجزاء بکھیر دیے لیکن اس کے ولولے میں کوئی فرق نہ آیا- اگلی صبح وہ پھر اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ کام کرتے وقت وہ ساتھ ساتھ گانا بھی رہتا تھا۔
آخر ایک دن شیر مکمل ہو گیا۔ اس کی جسامت ایک گھوڑے جتنی تھی اور وہ کسی زندہ جانور سے مشابہ نہ تھا۔ مگر وہ شخص اسے بنا کر بڑا مطمئن تھا۔
پہاڑی باشندوں میں کون ایسا ہے کہ جو تماشے وغیرہ میں دلچسپی نہ لیتا ہو۔ جب اس شیر کو ایک مضبوط بانس کے ساتھ باندھ کر دریا کی سمت لے جانے کا وقت آیا تو تقریباً سو سے زیادہ لوگ جمع ہوگئے جو ڈھول اور طبلے بجا رہے تھے۔
دریا کے کنارے پہنچ کر مجسمے کو بانس سے الگ کیا گیا۔ پھر وہ درویش زمین پر جھک کر بدروح کو اس مجسمے میں داخل ہونے کی ترغیب دینے لگا۔ جب وہ اپنا عمل مکمل کر چکا تو لوگوں نے باجوں اور ڈھولوں کے شور میں مجسمے کو بدروح کے ہمراہ گنگا مائی کے سپرد کر دیا۔
اگلے دن وہ درویش چٹان پر دکھائی نہ دیا- دریا میں اشنان کی غرض سے جانے والے چند آدمیوں سے جب میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں ہے کہا کہ، "کون بتا سکتا ہے کہ کوئی مقدس ہستی کہاں سے آتی ہے اور کون یہ پوچھنے کی جرات کرسکتا ہے کہ وہ کدھر جا رہی ہے۔"
ہندوستان میں جہاں کوئی پاسپورٹ یا شناختی کارڈ وغیرہ رائج کرنے کا سسٹم نہیں اور جہاں مذہب کو بےحد اہمیت دی جاتی ہے، میرا یقین ہے کہ کوئی شخص بھی فقیرانہ لباس پہن كر دره خیبر سے راس کماری تک بلا روک ٹوک سفر کر سکتا ہے اور کوئی اس سے پوچھنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ اس کی منزلِ مقصود کونسی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
 
بال بال بچاؤ
ابھی میں پل کی نگرانی کر رہا تھا کہ ایبٹ سن اور ان کی بیوی جین پوری سے وہاں آ پہنچے۔ چونکہ بنگلے میں نہایت محدود جگہ تھی لہذا میں نے ان کے قیام کے لیے بنگلہ خالی کر دیا اور یاترا سڑک سے دور پہاڑی پر اپنا چالیس پونڈ وزنی خیمہ نصب کر دیا۔
ایک ایسا جانور جس نے گرد و نواح کے کئی دیہات کے دروازوں اور کھڑکیوں پر اپنے پنجوں کے گہرے نشان چھوڑ رکھے تھے، اس سے بھلا ایک خیمہ کیا پناہ دے سکتا تھا۔ لہذا میں نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ خیمے کے گرد خاردار جھاڑیوں کی ایک بلند باڑھ کھڑی کر دیں۔ جس جگہ ہم نے خیمہ نصب کیا وہاں ناشپاتی کا ایک بہت بڑا درخت تھا۔ اس درخت کی شاخیں خیمہ نصب کرنے میں دخل انداز ہورہی تھیں۔ لہذا میں نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ وہ درخت کو کاٹ دیں۔ جب درخت تھوڑا سا کٹ چکا تو میں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ مجھے اچانک خیال آگیا کہ دن کے وقت وہ درخت مجھے گرمی سے پناہ دے گا۔ لہذا میں نے آدمیوں سے کہا کہ وہ درخت کو گرانے کے بجائے وہ شانہیں کاٹ دیں جو حارج ہورہی تھیں۔ درخت جو خیمے پر پینتالیس درجے کے زاویے سے جھکا ہوا تھا، اس کی جڑ اور تنا باڑھ سے باہر تھا۔
اس چھوٹے سے خیمے میں آٹھ آدمیوں نے سونا تھا۔ شام کو کھانے سے فارغ ہونے پر میں باڑھ کا دروازہ بند کرنے کی غرض سے جب کیمپ سے باہر نکلا تو میں نے سوچا کہ آدم خور کے لیے تنے کے راستے درخت پر چڑھ کر ہماری طرف اتر آنا بڑا آسان ہو گا۔ بہرحال اب کچھ نہ ہو سکتا تھا اگر تیندوہ آج کی رات ہمہیں معاف کر دیتا تو اگلے دن میں نے درخت کٹوا دینا تھا۔
میرے آدمیوں کے لیے کوئی خیمہ نہ تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ ایبٹ سن کے ملازموں کے ہمراہ بنگلے کے کوارٹروں میں سو جائیں۔ لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور اس انکار کا یہ جواز پیش کیا کہ اگر میرے لیے کھلی جگہ سونے میں کوئی خطرہ نہیں تھا تو پھر ان کے لیے کیسے ہو سکتا تھا۔ میرا خانساماں جو نیند میں خراٹے لینے کا عادی تھا مجھ سے ایک گز دور سویا ہوا تھا اور اس سے دور چھ گھڑوالی ایک گوشے میں ٹھنسے پڑے تھے۔
ہمارے دفاع کا کمزور پہلو درخت تھا اور میں اس کے متعلق سوچتا ہوا سو گیا۔ وہ بھرپور چاندنی رات تھی۔ نصف شب کے قریب درخت پر تیندوے کے چڑھنے کی آواز سے ایک دم میری آنکھ کھل گئی۔ اپنے پہلو میں پڑی ہوئی رائفل اٹھاکر میں سلیپر پہننے میں مصروف تھا کہ درخت پر کھڑکھڑاہٹ ہوئی۔ میں تیزی سے خیمے سے باہر نکلا لیکن تیندوہ اس اثناء میں شاخوں کی آواز سے گھبرا کر ایک دم درخت سے چھلانگ لگا گیا۔ میں نے نشانہ لینے کی غرض سے رائفل اوپر اٹھائی تھی کہ وہ ملحقہ ویران کھیت میں جا پہنچا۔ میں باڑھ کے دروازے سے جھاڑیاں ہٹا کر ایک دم باہر کھیت میں آگیا اور تیندوے کو دیکھنے میں مصروف تھا کہ دور پہاڑی کے اوپر ایک گیدڑ کی چوکنی آواز سنائی دی، جس سے مجھے پتہ چل گیا کہ تیندوہ میری دسترس سے باہر جا چکا تھا۔
بعد میں خانساماں نے مجھے بتایا کہ وہ چت لیٹا ہوا تھا اور درخت پر شاخوں کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔ تیندوے کا چہرہ بالکل اس کی آنکھوں کے سامنے تھا اور وہ نیچے چھلانگ لگانے کی تیاری کر رہا تھا۔
دوسرے دن درخت کاٹ دیا گیا اور باڑھ مزید مضبوط کر دی گئی۔ اس کے بعد ہم چند ہفتے اس خیمے میں رہے مگر پھر کبھی ہماری نیند میں خلل نہ آیا۔

لوہے کا پھندہ
گرد و نواح کے دیہات جہاں آدم خور نے انسانی شکار حاصل کرنے کی ناکام کوششیں کی تھیں وہاں کی خبروں سے اور راستوں پر پنجوں کے نشانات سے میں جانتا تھا کہ تیندوہ ابھی آس پاس ہی تھا– ایبٹ سن کی آمد کے چند روز بعد مجھے خبر ملی کہ تیندوے نے ردرپریاگ سے دو میل دور اور اس گاؤں سے جہاں میں نے رات کے وقت اس پر گولی چلائی تھی، وہاں سے نصف میل دور، ایک گائے ہلاک کر دی تھی۔
اس گاؤں پہنچ کر صورت حال کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ تیندوہ ایک کمرے کا دروازه توڑ کر چند گائیوں میں سے ایک کو ہلاک کر کے اسے دروازے تک گھسیٹ لایا تھا اور جب اسے دروازے سے باہر نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکا تو اس کا تھوڑا بہت گوشت کھا کر چلتا بنا۔
وہ مکان گاؤں کے وسط میں تھا۔ چند گز کے فاصلے پر ایک دوسرے مکان کی دیوار میں چھید کر کے ہم ہلاک شدہ گائے کی نگرانی کر سکتے تھے۔
اس گھر کا مالک جو مردہ گائے کا مالک بھی تھا، ایبٹ سن اور میرے منصوبے سے پوری طرح متفق تھا۔ جب شام کے سائے گہرے ہونے لگے تو ہم نے خود کو دوسرے مکان کے کمرے میں مقفل کر لیا اور سینڈوچز وغیرہ کھا کر باری باری دیوار کے سوراخ میں سے گائے کی نگرانی کرنے لگے۔ لیکن تیندوہ رات بھر نہ تو دکھائی دیا اور نہ ہی اس کی آواز سنائی دی۔
صبح کے وقت جب ہم کمرے سے باہر نکلے تو دیہاتوں نے ہمیں سارے گاؤں کا چکر لگوایا اور وہ دروازے اور کھڑکیاں دکھائیں جن پر آدم خور نے انسانی شکار حاصل کرنے کی کوشش میں اپنے پنجوں کے گہرے نشان چھوڑ رکھے تھے۔ ایک دروازے پر خاص طور پر زیادہ گہرے نشانات تھے۔ یہ وہی کمرہ تھا جہاں چالیس بکریاں اور لڑکا رہتے تھے اور تیندوہ جس کا دروازہ کھول کر لڑکے کو اٹھا کر لے گیا تھا۔
دو دن بعد بنگلے سے چند سو گز دور پہاڑی پر ایک دوسرے گاؤں میں ایک گائے کے ہلاک ہونے کی خبر ملی۔ یہاں بھی تیندوہ گائے کو کمرے کے اندر ہلاک کر کے اسے دروازے کی دہلیز تک کھینچ لایا تھا اور پھر اس کا تھوڑا سا حصہ کھا کر چلا گیا تھا۔ دروازے کے ساتھ کوئی دس گز دور لکڑی کے دو فٹ اونچے ایک چبوترے پر خشک گھاس کا کوئی سولہ فٹ اونچا انبار پڑا تھا۔
گائے کے ہلاک ہونے کی خبر ہمیں صبح صبح پہنچا دی گئی تھی۔ لہذا تیاری کے لیے ہمارے پاس سارا دن تھا۔ شام کے وقت ہم نے جو مچان تیار کی اس سے زیادہ موثر اور بہتر مچان میں نے زندگی بھر نہ دیکھی تھی اور نہ خود بنائی تھی۔
ہم نے سب سے پہلے گھاس کا انبار وہاں سے اٹھایا۔ پھر ہم نے لکڑی کے پلیٹ فارم کے ارد گرد کئی بانس مضبوطی سے زمین میں گاڑ دیے۔ ان بانسوں کے ساتھ پہلے پلیٹ فارم سے چار فٹ بلند ایک دوسرا پلیٹ فارم بنایا گیا اور اس سارے ڈھانچے کے گرد تار لپیٹ دیا گیا۔ پھر ان پلیٹ فارموں کے نیچے اور اوپر خشک گھاس بکھیر دی گئی۔ جب سورج غروب ہو رہا تھا تو ہم تاروں کے نیچے سے رینگ کر مچان پر چڑھے اور باڑھ کا دروازہ حفاظت سے بند کر دیا۔ ایبٹ سن مجھ سے قد میں قدرے چھوٹے ہیں لہذا وہ اوپر والے پلیٹ فارم پر بیٹھ گئے اور میں نیچے والے پلیٹ فارم پر ۔ جب ہم اپنی اپنی جگہ پر آرام سے بیٹھ گئے تو ہم نے تیندوے پر گولی چلانے کے لیے اپنے ارد گرد کی گھاس کو تھوڑا سا ادھر کر کے اس میں ایک ایک سوراخ بنا لیا۔ چونکہ تیندوے کی آمد پر ہم ایک دوسرے سے گفتگو نہیں کر سکتے تھے لہذا ہم نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ جو بھی اسے پہلے دیکھے اس پر گولی چلا دے وہ بھرپور چاندنی رات تھی اور برقی ٹارچ کی ضرورت نہ تھی۔
شام کے کھانے کے فوراً بعد دیہاتی گھروں کے اندر اور باہر خاموشی مسلط ہو گئی۔ کوئی دس بجے کے قریب میں نے اپنے عقب والی پہاڑی سے تیندوے کے آنے کی آواز سنی۔ خشک گھاس کے انبار کے قریب آکر وہ لمحہ بھر کے لیے ر کا اور پھر اس پلیٹ فارم کے نیچے رینگے لگا جس پر میں بیٹھا ہوا تھا۔ میرے اور اس کے درمیان فقط لکڑی کا ایک تختہ تھا۔ جب اس کا سر عین میرے نیچے تھا تو چند منٹ تک اس نے رینگنا بند کر دیا۔ پھر وہ آگے بڑھنے لگا میں اس انتظار میں تھا کہ وہ پلیٹ فارم کے نیچے سے نمودار ہو تو میں تین چار فٹ کے فاصلے سے اس کا سر اڑادوں لیکن ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ میرے اوپر والے پلیٹ فارم پر لکڑی کے ایک تختے کے چرچرانے کی تیز آواز آئی۔ تیندوہ یہ سنتے ہی گولی کی طرح دائیں جانب بھاگا اور پہاڑی پر چڑھ گیا۔ بیٹھے بیٹھے ایبٹ سن کی ٹانگیں جڑ سی گئی تھیں۔ انہوں نے انہیں سیدھا کرنے کی خاطر جونہی دراز کیا تو ان کے نیچے والا تختہ چرچرا اٹھا۔ اس خوف کے بعد تیندوے نے اپنا شکار چھوڑ دیا اور وہ اس شب اور اس سے اگلی شب بھی وہاں نہ آیا۔
دو راتیں بعد ردرپریاگ بازار کے اوپر چند سو گز دور ایک اور گائے ہلاک ہوگئی۔
اس گائے کا مالک ایک الگ تھلگ مکان میں رہتا تھا جو ایک کمرے پر مشتمل تھا۔ کمرے کو اس نے تقسیم کر کے باورچی خانے اور رہائش میں تقسیم کر رکھا تھا۔ رات کے کسی وقت اسے باورچی خانے میں آواز سنائی دی۔ وہ باورچی خانے کا دروازہ بند کرنا بھول گیا تھا اس نے لکڑی کے تختوں کی بڑی بڑی درازوں میں سے چاندنی کی روشنی میں تیندوے کو ایک تختہ گرانے کی کوشش میں مصروف دیکھا۔
وہ پسینے میں شرابور دبکا بیٹھا رہا اور تیندوہ ایک کے بعد دوسرے تختے کو گرانے کی کوشش کرتا رہا۔ آخر اپنی کوشش میں ناکام ہونے پر تیندوہ کمرے سے باہر نکل گیا اور اس نے مکان کے قریب ہی بندھی ہوئی اس شخص کی گائے ہلاک کر دی۔ گائے ہلاک کر کے اس نے اس کا رسہ توڑا اور اسے گھسیٹ کر تھوڑا دور ایک کھیت میں لے گیا اور پیٹ بھر کر چلا گیا۔
پہاڑی کے کنارے اور مردہ گائے سے بیس گز دور ایک بڑا سا درخت تھا جس کی بالائی شاخوں میں کھیتوں کی رکھوالی کے لیے گھاس کو رسوں وغیرہ سے باندھ کر ایک نشست بنائی گئی تھی۔ جو ایک طرح کی مچان تھی۔ اس مچان پر ایبٹ سن اور میں نے بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا۔
آدم خور کو ہلاک کرنے کی خاطر ہماری مدد کے لیے حکومت نے چند روز پہلے ہمیں لوہے کا ایک پھندہ بھیجا تھا۔ وہ پھندہ جو پانچ فٹ لمبا اور اسی پونڈ وزنی تھا، اس جیسی خوفناک چیز میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ اس کے جبڑوں میں تین تین انچ لمبے لوہے کے دانت لگے ہوئے تھے۔ جو دو اسپرنگوں کی مدد سے چوبیس انچ تک کھل جاتے تھے۔ لیکن ان طاقتور اسپرنگوں کو دبانے کے لیے دو آدمیوں کی ضرورت ہوتی تھی۔
اپنے شکار کو چھوڑ کر تیندوہ ایک پگڈنڈی کے راستے ایک چالیس فٹ چوڑے کھیت میں سے گزر کر ایک دوسرے ایسے کھیت میں سے گزرا تھا جہاں بہت سی جھاڑیاں اگی تھیں۔ ان دونوں کھیتوں کے درمیان ایک "بٹ" تھی جو تین فٹ چوڑی تھی۔ اس بٹ پر جہاں سے تیندوہ گزرا تھا ہم نے پھندا لگا دیا اور تیندوے کو اس کی طرف آنے اور پھندے کے اوپر سے گزرنے کی ترغیب دینے کی خاطر اس راستے کے دونوں جانب خاردار جھاڑیاں لگا دیں۔ پھر زمین میں ایک میخ گاڑھ کر زنجیر کی مدد سے پھندا اس کے ساتھ باندھ دیا۔
جب یہ انتظامات مکمل ہو گئے تو جین ایبٹ سن ہمارے آدمیوں کے ہمراہ واپس بنگلے چلی گئیں۔ ادھر میں اور ایبٹ سن درخت کے اوپر چڑھ گئے اور تیندوے کا انتظار کرنے لگے۔ ہمیں یقین تھا کہ اس دفعہ وہ بچ کر نہ جا سکے گا۔
شام ہوتے ہی مطلع گہرے بادلوں کی زد میں آگیا۔ چاند نے نو بجے سے پہلے طلوع نہ ہونا تھا۔ اگر تیندوہ اس وقت سے پہلے آ جاتا تو اسے دیکھنے اور اس پر صحیح گولی چلانے کے لیے ہمارے پاس برقی ٹارچ موجود تھی جو خاصی بھاری تھی۔ ایبٹ سن اس بات پر مصر تھے کہ میں تیندوے پر گولی چلاؤں۔ لہذا تھوڑی سی دقت کے بعد میں نے برقی ٹارچ اپنی رائفل پر جمالی۔
اندھیرا پھیلے ہوئے ایک گھنٹہ گزرا تھا کہ اچانک تیندوے کی غصیلی گرج سنائی دی۔ تیندوہ پھندے میں پھنس گیا تھا۔ برقی مارچ روشن کر کے میں نے دیکھا کہ تیندوہ پھندے کو پیچھے کی جانب کھینچ رہا تھا اور اس کا ایک اگلا پنجہ اس میں پھنسا ہوا تھا۔ میں نے جلدی سے اپنی اعشاریہ 450 بور رائفل کا نشانہ لیا اور گولی چلادی۔ گولی اس زنجیر میں لگی جسں سے ہم نے پھندے کو باندھ رکھا تھا۔ گولی لگتے ہی اس کی ایک کڑی ٹوٹ گئی۔
زنجیر ٹوٹتے ہی تیندوہ پھندے کو لے کر اپنے آگے آگے کھیتوں میں بھاگنے لگا۔ میں نے اور ایبٹ سن نے یکے بعد دیگرے تین گولیاں چلائیں مگر تینوں خطا گئیں۔ رائفل کو دوبارہ بھرنے کے عمل میں برقی مارچ کا کوئی پرزہ ادھر ادھر ہوگیا اور اس نے کام کرنا بند کردیا۔
تیندوے کا شور اور گولیوں کی آواز سن کر ردرپریاگ بازار اور گرد و نواح کے دیہات کے لوگ لالٹین اور مشعلیں لے کر گھروں سے نکل دوڑے۔ انہیں شور مچا کر دور رہنے کی تلقین کرنا بےسود تھا کیونکہ وہ اس قدر شور مچارہے تھے کہ ہماری آواز اس میں دب گئی تھی۔ میں جلدی سے اندھیرے میں درخت سے اترا۔ اتنے میں ایبٹ سن نے وہ پیڑول لیمپ روشن کر لیا جسے ہم اپنے ساتھ مچان پر لے گئے تھے۔ ایبٹ سن نے وہ لیمپ ایک رسے کے ذریعے نیچے لٹکا دیا اور پھر خود بھی نیچے اتر آئے اور ہم دونوں اس سمت چل پڑے جدھر تیندوہ گیا تھا۔ کھیتوں سے دور چٹانوں کا ایک جھرمٹ سا تھا۔ ایبٹ سن نے لیمپ اپنے سر سے اوپر اٹھا رکھا تھا۔ ہم بڑی احتیاط سے ان چٹانوں تک پہنچے۔ میں نے رائفل اپنے کندھے سے جما رکھی تھی۔ چٹانوں سے دور ایک نشیب تھا اس نشیب میں ہماری طرف منہ کر کے تیندوہ غرا رہا تھا۔ دوسرے لمحے میری گولی نے اسی کے سر کے پرخچے اڑا دیے۔ اتنے میں لوگوں کا ہجوم وہاں پہنچ گیا اور ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ وہ اپنے دیرینہ خوفناک دشمن کے گرد ناچ اور خوشی کے گیت گانے لگے۔
میرے سامنے ایک بڑا تیندوہ لیٹا تھا جس نے گزشتہ شب لکڑی کا پھٹا توڑنے اور انسانی شکار حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ پھر وہ ایک ایسے علاقے میں ہلاک ہوا تھا جہاں درجنوں انسان آدم خور کا شکار بن چکے تھے۔ یہ تمام باتیں یہ تصور کرنے میں مدد دیتی تھیں کہ یہ وہی آدم خور تھا۔ لیکن میں خود کو یقین دلانے سے قاصر تھا کہ یہ وہی تیندوہ تھا جو میں نے بارش والی رات دیکھا تھا اور جس پر میں نے گولی چلائی تھی۔ یہ سچ ہے کہ وہ اندھیری رات تھی اور میں نے تیندوے کو مبہم طور پر دیکھا تھا اس کے باوجوو مجھے یقین نہ آتا تھا کہ وہ آدم خور تھا۔
لوگوں نے تیندوے کو ایک بانس کے ساتھ باندھا اور ہم سب ردرپریاگ بازار کے راستے بنگلے کی سمت چل پڑے۔
اس سارے ہجوم میں فقط میں ہی ایک ایسا آدمی تھا جسے ردرپریاگ کے آدم خور کی ہلاکت پر یقین نہ آ رہا تھا۔ میرے خیالات اس واقعے کی سمت پلٹ گئے جو بچپن میں ہماری موسم سرما کی رہائش گاہ کے قریب رونما ہوا تھا اور جو کئی برس بعد "بہادر کارنامے" نامی ایک کتاب میں شائع ہوا تھا۔ یہ واقع دو آدمیوں کے متعلق تھا سمٹین اور بریڈوڈ نامی دو انگریزوں کے متعلق۔ ریل کی آمد سے پہلے کے زمانے میں یہ دونوں محض ایک ڈاک گاڑی میں مراد آباد سے کالا ڈھنگی جا رہے تھے۔ وہ اندھیری اور طوفانی رات تھی۔ سڑک کے ایک موڑ پر اچانک ایک شیطان ہاتھی سے ان کی مدبھیڑ ہوگئی۔ گاڑی بان اور دونوں گھوڑوں کو ہلاک کر کے ہاتھی نے گاڑی الٹا دی۔ بریڈوڈ کے پاس رائفل تھی۔ جب وہ رائفل کو اس کے کیس میں سے نکالنے اور اسے جوڑنے اور اسے بھرنے میں مصروف تھا، سمٹین گاڑی کے اوپر چڑھ گیا اور اس نے گاڑی کے ساتھ بندھا ہوا ایک لیمپ کھول لیا اور اسے اپنے سر سے اونچا کیے ہاتھی کی سمت بڑھا۔ لیمپ کی روشنی بڑی مدھم تھی لیکن ہاتھی کی پیشانی اس میں دکھائی دے رہی تھی۔ اس روشنی میں بریڈوڈ اس کی پیشانی میں گولی اتارنے اور اسے ہلاک کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ مانا کہ ایک شیطان ہاتھی اور ایک تیندوے میں بڑا فرق ہوتا ہے لیکن درد سے پاگل تیندوے کے قریب جانے کی بہت کم لوگ جرات کرتے ہیں۔ پھر وہ تیندوہ جو بڑی حد تک اپنا زخمی پنجہ پھندے سے آزاد کرانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ یہ ایبٹ سن کی جرات تھی کہ وہ اپنی حفاظت میرے ذمے چھوڑ کر لیمپ اٹھائے میرے ساتھ چل رہے تھے۔
کئی برس بعد وہ پہلی رات تھی کہ گھروں کے دروازے کھلے تھے اور بچے اور عورتیں دہلیزوں میں کڑی دکھائی دیں۔ ہماری رفتار بڑی مدھم تھی کیونکہ ہمیں ہر چند قدم کے فاصلے پر تیندوے کو زمین پر رکھنا پڑتا اور بچے اور عورتیں اس کے گرد گیرا ڈال لیتے۔ آخر بازار کی آخری نکڑ پر دیہاتی رخصت ہو گئے اور ہمارے آدمی تیندوے کو اٹھا کر بنگلے لے آئے۔
خیمے میں غسل کرنے کے بعد میں بنگلے پر آیا۔ رات کے کھانے کے دوران اور پھر کتنی دیر بعد تک ایبٹ سن اور میں اس متنازعہ فیہ مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے رہے کہ کیا وہ تیندوہ آدم خور تھا کہ نہیں۔ آخر کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم دونوں تیندوے کی کھال اتاریں اور اترسوں پوری کی سمت چل پڑیں۔ جہاں ایبٹ سن نے چند ضروری فرائض انجام دینے تھے۔ میں بھی ردرپریاگ میں اس طویل قیام سے تھک چکا تھا۔
اگلے دن صبح سے شام تک نزدیک دور کے دیہات کے لوگ تیندوے کو دیکھے آتے رہے۔ ان میں سے بہت سے آدمیوں کا دعوی تھا کہ وہ آدم خور کو جانتے تھے اور یہ وہی تھا۔ ایبٹ سن کا یہ اعتماد کہ وہ صحیح اور میں غلطی پر تھا، لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا۔ اس کے باوجود میں نے ایبٹ سن سے دو باتیں کرنے کی درخواست کی۔ پہلی، وہ لوگوں سے کہہ دیں کہ آدم خور سے متعلق اپنی احتیاط میں کمی واقع نہ ہونے دیں۔ دوسری، حکومت کو ابھی بزریعہ تار مطلع نہ کریں کہ ہم آدم خور کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
اس رات ہم جلدی سو گئے کیونکہ اگلے دن ہمیں علی الصبح اپنے سفر کا آغاز کرنا تھا۔ ابھی اندھیرا ہی تھا کہ میں اٹھ بیٹھا اور جب میں "چھوٹے ناشتے" میں مصروف تھا تو سڑک پر لوگوں کی آوازیں سنائی دیں۔ اتنی صبح لوگوں کو سڑک پر دیکھنا معمول کے خلاف تھا۔ لہذا میں نے ان سے پوچھا کہ وہ اس وقت سڑک پر کیا کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر چار آدمی پگڈنڈی سے میرے خیمے تک آئے اور بتایا کہ پٹواری نے انہیں مجھ تک یہ اطلاع پہنچانے کے لیے بھیجا تھا کہ چٹواپی پال کے پل کی دوسری جانب پل سے ایک میل دور آدم خور نے ایک عورت ہلاک کر دی تھی۔

شکاریوں کا تعاقب
ایبٹ سن کا ملازم ان کے لیے چائے لے کر ان کے کمرے میں داخل ہو رہا تھا کہ میں بھی پہنچ گیا۔ پوری جانے کا ارادہ ملتوی کرنے اور اپنے آدمیوں کو اس سے آگاہ کرنے کے بعد ہم دونوں جین کے بستر پر بیٹھ گئے اور اسکے درمیان اس علاقے کا ایک بڑا نقشہ پھیلا کر چائے کی پیالی پر آئندہ منصوبوں کے متعلق بات چیت کرنے لگے۔
چونکہ ایبٹ سن کو پوری میں بہت ضروری کام تھا۔ لہذا انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ زیادہ سے زیادہ یہاں دو دن مزید قیام کر سکیں گے۔ میں نے گزشتہ دن اپنے گھر نینی تال تار دیا تھا کہ میں براستہ پوری اور کوٹ وارہ گھر پہنچ رہا تھا۔ میں نے یہ تار منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میرا ارادہ تھا کہ ریل کے بجائے جس راستے سے آیا تھا اسی سے پیدل واپس جاؤں۔ ان باتوں کا فیصلہ کرنے کے بعد ہم نے نقشے پر وہ گاؤں تلاش کیا جہاں عورت ہلاک ہوئی تھی۔ اپنے ارادے میں ردوبدل سے اپنے آدمیوں کو مطلع کرنے کی خاطر میں کیمپ واپس آیا اور انہیں بتایا کہ وہ سامان باندھ کر ان چار آدمیوں کے ہمراہ ہمارے پیچھے آئیں جو تیندوے کے تازہ انسانی شکار کی خبر لائے تھے۔
جین کو ردرپریاگ میں ٹھہرنا تھا۔ لہذا ناشتے کے بعد ایبٹ سن اور میں گھوڑوں پر روانہ ہو پڑے۔ وہ دونوں بڑی عمدہ نسل کے گھوڑے تھے۔
ہم نے انپے ہمراہ اپنی رائفلیں، ایک چولہا، ایک پیڑول لیمپ اور تھوڑا سا سامان رد و نوش لے لیا تھا۔
ہم نے گھوڑے چٹواپی پال کے پل پر چھوڑ دیے۔ جس رات ہم نے تیندوہ ہلاک کیا تھا۔ پل اس رات بند نہ کیا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آدم خور دریا عبور کر کے دوسری طرف چلا گیا اور پہلے گاؤں ہی میں انسانی شکار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
پل پر ایک گائیڈ ہمارا منتظر تھا۔ وہ ہمیں پہلے تو ایک بلند پہاڑی پر، پھر ایک شاداب پہاڑی کے ساتھ اور پھر گھنے درختوں سے ڈھکی ہوئی ایک ندی کے کنارے کنارے لے گیا۔ کچھ آگے چل کر اس ندی میں سے ایک اور ندی نکلتی تھی۔ وہاں پٹواری اور تقریباً بیس آدمی لاش کی نگرانی کر رہے تھے۔
وہ اٹھارہ یا انیس سال کی ایک نوجوان اور تنومند لڑکی کی لاش تھی۔ وہ اوندھے منہ لیٹی تھی اور اس کے بازو اس کے پہلوؤں کے ساتھ لگے ہوئے تھے اس کے جسم پر کپڑے کا ایک تار نہ تھا۔ تیندوے نے اسے پاؤں سے گردن تک چاٹ رکھا تھا۔ گردن پر دانوں کے چار بڑے بڑے نشان تھے۔ اس کے جسم کے بالائی اور نچلے حصے سے فقط چند پونڈ گوشت کھایا گیا تھا۔
پہاڑی پر جن ڈھولوں کی آواز ہمیں سنائی دی تھی انہیں لاش کی نگرانی کرنے والے لوگ بجا رہے تھے۔ اس وقت دوپہر کے دو بجے تھے اور چونکہ دن میں تیندوے کے آنے کا کوئی امکان نہ تھا لہذا ہم چائے بنانے کی خاطر گاؤں چلے گئے۔ پٹواری اور دوسرے لوگ بھی ہمارے ساتھ آگئے۔
چائے کے بعد ہم اس مکان پر گئے جہاں سے لڑکی اٹھائی گئی تھی۔ وہ پتھر کا بنا ہوا ایک کمرے پر مشتمل مکان تھا جو ایک کھیت کے وسط میں واقع تھا۔ اس میں وہ لڑکی، اس کا شوہر اور ان کا چھے ماہ کا بچہ رہتے تھے۔
لڑکی کی ہلاکت سے دو دن پہلے لڑکی کا شوہر زمین کے کسی مقدے میں گواہی دینے کے لیے پوری گیا تھا اور اپنے والد کو گھر کی حفاظت کے لیے چھوڑ گیا تھا۔ حادثے کے دن شام کے کھانے سے فارغ ہو کر لڑکی نے اپنا بچہ اپنے سسر کو دیا اور رفع حاجت کے لیے دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ پہاڑی دیہات میں صفائی وغیرہ کا خاطر خواہ انتظام نہیں ہوتا۔
جب بچہ اپنی ماں سے اپنے دادا کے پاس گیا تو وہ رونے لگا۔ لہذا اگر باہر کوئی آواز بھی ہوئی اور مجھے یقین ہے کہ کوئی آواز نہ ہوئی ہوگی، تو وہ پھر بھی اسے سن نہ سکتا تھا۔ وہ اندھیری رات تھی۔ چند منٹ کے انتظار کے بعد اس نے لڑکی کو آواز دی۔ کوئی جواب نہ پا کر اس سے پھر آواز دی۔ پھر وہ اٹھا اور اس نے جلدی سے دروازہ بند کرلیا۔
اس شام بارش ہوئی تھی۔ بارش رکنے کے تھوڑی دیر بعد تیندوہ جو گاؤں کی سمت سے آرہا تھا، اس تنہا مکان سے تیس گز دور ایک چٹان کے عقب میں دبک کر بیٹھ گیا۔ یہاں وہ کچھ دیر لیٹا رہا۔ شاید وہ لڑکی اور اس کے سسر کی باتیں سنتا رہا تھا۔ جب لڑکی اپنے گھر سے دس گز دور دائیں سمت رفع حاجت کے لیے بیٹھ گئی تو تیندوہ پیٹ کے بل رینگ کر چٹان کی دوسری سمت چلا گیا۔ وہاں سے اس نے باقی بیس گز کا فاصلہ پھر پیٹ کے بل رینگ کر طے کیا اور لڑکی کو عقب سے پکڑ کر دوبارہ چٹان کی سمت گھسیٹ کر لے گیا۔ یہاں جب لڑکی مر گئی یا ممکن ہے جب اس کے سسر نے اسے آواز دی تو تیندوہ اسے منہ میں پکڑ کر اور اسے زمین سے بلند کر کے تاکہ اس کے ہاتھوں یا پیروں کے گھسٹنے کا نشان زمین پر نہ لگے، کھیت کی دوسری جانب لے گیا۔ وہاں تین فٹ چوڑی ایک بٹ تھی اس بٹ کی دوسری جانب ایک اور کھیت تھا جو بارہ فٹ نیچے واقع تھا۔ جہاں وہ کھیت ختم ہوتا تھا۔ وہاں ایک کچا راستہ تھا۔تیندوہ لڑکی کے ہمراہ بارہ فٹ نیچے کھیت میں کود گیا۔ تیندوے کی طاقت کا کچھ اندازہ اس حقیقت سے کیا جا سکتا ہے کہ جب تیندوے نے چھلانگ لگائی تو اس نے لڑکی کے جسم کا کوئی حصہ زمین پر نہ لگنے دیا۔
اس کچے راستے سے گزر کر تیندوہ نصف میل طے کر کے اس جگہ آیا جہاں اس نے لڑکی کے کپڑے اتارے تھے۔ لڑکی کے جسم سے تھوڑا سا گوشت کھانے کے بعد وہ اسے ایک درخت کے نیچے گھنی سر سبز گھاس کے ایک تختے میں چھوڑ گیا۔
چار بجے کے قریب ہم اپنی رائفلیں اور پیڑول لیمپ لے کر لاش کی نگرانی کے لیے چل پڑے۔
یہ فرض کر لینا عقل پر مبنی تھا کہ تیندوے نے دیہاتوں اور ڈھولوں کی آوازیں سن لی تھیں اور اب اس نے اپنے شکار کی طرف بڑی احتیاط سے آنا تھا، لہذا ہم نے لاش سے دور بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا اور ایک ایسا درخت چنا جو لاش سے ساٹھ گز دور پہاڑی کے اوپر تھا اور جہاں سے گھاس کا تختہ اور لاش صاف دکھائی دیتے تھے۔
بڑ کا یہ درخت پہاڑی کے اوپر زاویہ قائمہ بنائے ہوئے تھا۔ لیمپ کو درخت کی کھوہ میں چھپانے اور اسے پتوں وغیرہ سے ڈھانپنے کے بعد ایبٹ سن درخت کے ایک ایسے دو شاخے میں بیٹھ گئے جہاں سے وہ لاش کو صاف طور پر دیکھ سکتے تھے۔ ادھر میں ان کی طرف پشت اور پہاڑی کی طرف منہ کر کے درخت کے تنے پر بیٹھ گیا۔ اس دفعہ ایبٹ سن نے گولی چلانی تھی اور میں نے حفاظت کا خیال رکھنا تھا۔ چونکہ برقی ٹارچ کام نہ کر رہی تھی، شاید اس کی بیٹری ختم ہو گئی تھی اس لیے ہمارا ارادہ تھا کہ جب تک لاش دکھائی دے ہم وہاں بیٹھے رہیں اور پھر پیڑول لیمپ کی مدد سے گاؤں پہنچ جائیں، جہاں ہمارے آدمی ہمارے انتظار میں ہوں گے۔
ہمیں گرد و نواح کی جگہ کا جائزہ لینے کا موقع نہ ملا تھا۔ لیکن دیہاتیوں نے ہمیں بتا دیا تھا کہ لاش کی مشرق کی سمت ایک گھنا جنگل تھا اور ان کا یقین تھا کہ شور وغیرہ سن کر تیندوہ وہاں جا چھپا تھا۔ اگر تیندوہ اس سمت سے آیا تو لاش تک پہنچنے سے پہلے ہی ایبٹ سن اسے دیکھ لیں گے اور اس پر گولی چلانا بھی آسان ہو گا۔ ایبٹ سن کی رائفل کے ساتھ دوربین کا شیشہ تھا۔ جس سے نشانہ صحیح ہونے کے علاوہ اندھیرے میں بھی ایک حد تک دیکھا جا سکتا تھا۔
سورج بلند پہاڑیوں کے پیچھے مغرب میں غروب ہورہا تھا۔ ہمارے چاروں سمت سائے پھیلنے لگے۔ اتنے میں ایک ککر گھنے جنگل کی سمت سے شور مچاتا ہوا پہاڑی کی سمت آیا۔ پہاڑی کے اوپر کھڑے ہو کر اس نے گردن اٹھا کر دیکھا اور پھر چلاتا ہوا پہاڑى كى دوسری جانب چلا گیا۔
بلاشبہ ککر نے تیندوے کو دیکھ لیا تھا۔ اگرچہ اس علاقے میں دوسرے تیندووں کی موجودگی کا امکان بھی تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ ککر نے آدم خور ہی کو دیکھا ہوگا۔ جب میں نے ایبٹ سن کی طرف دیکھا تو وہ رائفل کو کندھے سے لگائے بڑے چوکنے بیٹھے تھے۔
روشنی آہستہ آہستہ دم توڑ رہی تھی مگر اتنی ضرور تھی کہ دوربین والے شیشے کی مدد کے بغیر گولی چلائی جا سکے۔ راستے میں اچانک ہمارے اوپر پہاڑی پر تیس گز دور صنوبر کے درخت کی ایک سوکھی شاخ پہاڑی سے لڑھکتی ہوئی نیچے آئی اور ہمارے درخت سے آ ٹکرائی۔ تیندوہ آ پہنچا تھا اور ممکن ہے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اس نے ایک الگ راہ اختیار کی تھی۔ جہاں کھڑے ہو کر وہ اپنے شکار کے گرد و نواح کی جگہ اچھی طرح دیکھ سکے۔ بدقسمتی سے ہمارا درخت اور اس کا شکار ایک سیدھ میں تھے۔ میں پتوں میں چھپا ہوا تھا۔ شاید تیندوہ مجھے نہ دیکھ سکتا لیکن ایبٹ سن تو بالکل اس کے سامنے تھے اور ظاہر ہے تیندوے نے انہیں دیکھ لیا تھا۔جب اچھی طرح اندھیرا پھیل گیا اور دوربین کے شیشے کی مدد سے گولی چلانے کا امکان بھی ختم ہو گیا تو ہم نے تیندوے کو دبے پاؤں درخت کی سمت آتے دیکھا۔ اب واپس جانے کا وقت تھا لہذا میں نے ایبٹ سن سے کہا کہ وہ میری جگہ پر آجائیں۔ میں نے لیمپ روشن کر لیا۔ اس کی روشتی بڑی تیز تھی مگر اس کا ہینڈل بڑا لمبا تھا اور وہ جنگل میں بطور لالٹین استعمال نہ ہو سکتا تھا۔
میں ایبٹ سن سے ذرا دراز قامت ہوں لہذا میں نے لیمپ اٹھانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ لیکن ایبٹ سن نے کہا کہ لیمپ وہ اٹھائیں گے اور میں رائفل سے اپنے گرد و پیش کی نگرانی کروں۔ آخر ہم چل پڑے۔ ایبٹ سن میرے آگے لیمپ اٹھائے چل رہے تھے اور میں عقب میں دونوں ہاتھوں میں رائفل تھامے بڑی ہوشیاری سے آس پاس دیکھ رہا تھا۔
درخت سے پچاس گز دور ایک چٹان پر چڑھتے وقت ایبٹ سن کا پاؤں پھسل گیا اور لیمپ کا پیندا زور سے چٹان کے ساتھ ٹکرایا۔ لیمپ میں سے ایک تیر شعلہ نکلا جس کی روشنی میں ہم یہ دیکھنے کے قابل ہو گئے کہ پاؤں کہاں رکھنا چاہیے۔ لیکن پیندا چٹان کے ساتھ ٹکراتے ہی لیمپ کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ اب یہ سوال ہمارے درپیش تھا کہ بتی بجھنے کے بعد ہم اندھیرے میں کس طرح چلیں گے۔ لیمپ نے زیادہ سے زیادہ تین منٹ مزید جلنا تھا۔ ان تین منٹ میں نصف میل تک ناآشنا پہاڑی راستے پر چلنا اور منزل تک پہنچنا ناممکن تھا اور پھر جب راستے میں جابجا خاردار جھاڑیاں اور خطرناک چٹانیں ہوں اور پھر بھی دھڑکا لگا ہو کہ کہیں آدم خور تعاقب تو نہیں کر رہا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ آدم خور واقعی ہمارا تعاقب کر رہا تھا۔
انسانوں کی زندگی میں بعض ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ ان کے نقش وقت کی گرد بھی دھندلا نہیں سکتی۔ اندھیرے میں پہاڑی پر چڑھنا میرے لیے ان واقعات میں سے ایک ہے۔ آخر جب ہم راستے پر پہنچ گئے تو ہماری دقت پھر بھی ختم نہ ہوئی کیونکہ وہ راستہ عجیب بھول بھلیاں تھا اور ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہمارے آدمی کہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آخر دو چار مرتبہ گرنے کے بعد ہم ایک ایسے چٹانی زینے کے قریب پہنچ گئے جو راستے سے ہٹ کر دائیں سمت جاتا تھا۔ اس زینے پر چڑھ کر ہمیں ایک صحن دکھائی دیا جس کی دوسری طرف ایک دروازہ تھا۔ زینے پر چڑھتے وقت مجھے کمرے کے اندر کے حصے کی گڑگڑاہٹ سنائی دی تھی۔ لہذا دروازے پر پہنچتے ہی میں نے اسے پاؤں سے زور سے ٹھوکر ماری اور کمرے کے اندر موجود لوگوں سے دروازہ کھولنے کے لیے کہا۔ جب اندر سے کوئی آواز نہ آئی تو میں نے جیب سے دیا سلائی نکال کر اسے زور سے جلایا اور ساتھ ہی بلند آواز میں چلایا کہ اگر ایک منٹ کے اندر اندر دروازہ نہ کھولا تو میں گھاس کی چھت کو آگ لگا دوں گا۔ میرے ان الفاظ پر کمرے کے اندر سے ایک احتجاجی آواز آئی جو درخواست کر رہی تھی کہ میں کمرے کو آگ نہ لگاؤں اور یہ کہہ کر دروازہ کھولا جا رہا تھا۔ ایک منٹ بعد پہلے اندرونی اور پھر بیرونی دروازہ کھلا۔ میں اور ایبٹ سن دو بڑے بڑے ڈگ بھر کر کمرے میں داخل ہو گئے اور اپنے پیچھے دروازے کو بند کردیا۔
کمرے میں بارہ یا چودہ ہر عمر کے مرد، عورتیں اور بچے موجود تھے۔ اس تھوڑی سی تلخی کے بعد جب ماحول ذرا بہتر ہوا تو مرد جلدی دروازہ نہ کھولنے کے سلسلے میں ہم سے معانی مانگنے لگا۔ انہوں نے بتایا کہ اتنے طویل عرصے سے آدم خور کی دہشت نے ان پر اس طرح غلبہ پا رکھا تھا کہ ان کی ہمت سلب ہو چکی تھی۔ یہ نہ جانتے ہوئے کہ آدم خور كونسا روپ دھار لے۔ وہ رات کے وقت ہر آواز پر شک کرتے تھے۔ ان کے اس خوف سے ہم پوری طرح متفق تھے۔ جب سے ایبٹ سن نے چٹان پر سے پھسل کر لیمپ کا شیشہ توڑ لیا تھا اور بتی بجھ گئی تھی۔ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ ہم میں سے ایک یا دونوں صحیح سلامت گاؤں تک نہ پہنچ سکیں گے۔
ہمیں بتایا گیا کہ ہمارے آدمی غروبِ آفتاب کے قریب گاؤں پہنچے تھے اور انہیں پہاڑی کی دوسری جانب عمارتوں کے ایک بلاک میں ٹھہرایا گیا تھا۔ کمرے میں سے دونوں نوجوانوں نے ہمیں وہاں تک پہنچانے کی پیش کش کی۔ لیکن چونکہ ہم جانتے تھے کہ انہیں تنہا واپس آنے کی اجازت دینا انہیں موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا اس لیے ہم نے ان کی پیش کش قبول نہ کی۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ ہمیں کوئی لالٹین وغیرہ دے سکتے تھے۔ کمرے میں تھوڑی سی تلاش کے بعد ایک پرانی شکتہ چینی والی لالٹین نکالی گئی۔ اسے زور سے بلانے پر معلوم ہوا کہ اس کے اندر تیل کے چند قطرے تھے۔ کمرے کے باسیوں کی دعاؤں کے ہمراہ ہم باہر نکل پڑے۔ ہمارا باہر نکلنا ہی تھا کہ انہوں نے ایک دم دونوں دروازے بند کرلیے۔
راستے میں اب بھی کئی بھول بھلیاں اور نوکیلی چٹانیں تھیں۔ لیکن لالٹین کی مدھم روشنی میں ہمیں تھوڑا بہت راستہ دکھائی دے رہا تھا۔ چند قدم چلنے کے بعد پتھروں کا ایک زینہ آیا۔ ہمیں اس زینے پر چڑھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ زینے پر چڑھنے کے بعد ہم نے خود کو ایک وسیع صحن میں پایا جس کے سامنے دائیں سے بائیں دو منزلہ مکانوں کی ایک قطار تھی۔ ہر مکان کا دروازہ بند تھا اور کہیں سے ہلکی سی روشنی بھی نمودار نہ ہو رہی تھی۔
ہماری آواز پر ایک دروازہ کھلا ایک چھوٹا سا زینہ چڑھنے کے بعد ایک برآمدہ آگیا جس کے ساتھ دو کمرے تھے۔ ایک ہمارے آدمیوں کے لیے اور دوسرا ہمارے لیے۔ جب ہمارے آدمی ہمارے ہاتھوں سے رائفلیں اور لیمپ لے رہے تھے تو نہ جانے ایک کتا کہاں سے آگیا۔ ہمارے پاؤں کو سونگھنے اور دم ہلانے کے بعد وہ اس زینے کی طرف چل پڑا جو ہم نے ابھی ابھی طے کیا تھا۔ دوسرے لمحے ہی خوف کی ایک چیخ اور بےتحاشا بھونکنے کے ساتھ وہ ہماری طرف تیزی سے پلٹا۔ اس کے جسم کے تمام بال کھڑے ہو گئے تھے۔
جو لالٹین ہم مانگ کر لائے تھے وہ دو منٹ پہلے بجھ چکی تھی مگر ہمارے آدمیوں کے پاس اس قسم کی دو لالٹینیں تھیں۔ ایبٹ سن نے ایک لیمپ جلدی سے سر کے اوپر کیا اور میں رائفل کو دوبارہ لوڈ کرنے لگا۔ مگر لالٹین کی روشنی آٹھ فٹ سے آگے نہ جا سکتی تھی۔
کتے پر نظر رکھنے سے تیندوے کی نقل و حرکت کا اندازہ کیا جا سکتا تھا۔ جب تیندوہ صحن میں سے گزر کر اور زینہ اتر کر راستے پر چلا گیا تو کتے نے آہستہ آہستہ بھونکنا بند کر دیا اور زمین پر بیٹھ کر اس سمت غور سے دیکھنے لگا۔ گاہے گاہے وہ غراتا رہا۔
ہمارے لیے جو کمرہ خالی کیا گیا تھا اس میں کوئی کھڑکی نہ تھی۔ ہماری حفاظت کا یہی طریقہ تھا کہ ہم دروازے کو اچھی طرح بند کر دیں اور روشنی اور ہوا کو بھی اندر آنے کی اجازت نہ دیں۔ یہ ہمارے لیے مشکل تھا لہذا ہم نے برآمدے میں سونے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ کتا کمرے کے پہلے مالک کا تھا اور برآمدے میں سونے کا عادی تھا۔ وہ ہمارے پاؤں میں بڑے آرام سے رات بھر سویا رہا۔ ایبٹ سن اور میں باری باری رات بھر جاگتے رہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
 
Top