پیرس کی وہ حسین رات

سید رافع

محفلین
قسط 1
220px-Seine_by_Eiffel.jpg

رات کے دس بج رہے تھے۔ پیرس کے ایفل ٹاور کے سامنے شب جوان ہورہی تھی۔ ستمبر کی اس خوبصورت رات ہونے والی ہلکی پھوار نے سبز گھاس کو اور بھی خوبصورت بنا دیا تھا۔ ساری دنیا سے آئے ہوئے سیاح اس حسین رات کے ہر ہر پل سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ٹاور کے اردگرد رنگ برنگی روشنیوں میں ٹہلتے، محبت کرنے والے جوڑے ، ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اپنی یادوں کو پرلطف بنانے کے لیے ایک دوسرے کو ہلکی ہلکی مسکراہٹ کے تحفے دے رہے تھے۔

ایک آخری ہچکولا لے کرمیٹرو ٹرین پیرس کے خوبصورت پاسی اسٹیشن پر رکتی ہے۔فہد اس ٹرین میں ایک جھمگٹےکو توڑ کرٹرین کے گیٹ سے بمشکل باہر نکلتا ہے۔ فہد عرصے سے پیرس کے دریائے سین کے کنارے ایک اپارٹمنٹ میں اپنی بیوی فرح اور دو بچوں ایمن اور احمد کے ساتھ مقیم تھا۔ وہ لاہور سے پیرس دس سال قبل آیا تھا اور فیشن ڈزائن کے بزنس سے وابستہ تھا۔فہد نے پاسی اسٹیشن سے باہر آتے ہی اپنے اپارٹمنٹ کی طرف قدم بڑھائے جو ذرا ہی فاصلے پر دریا کے مشرقی کنارے پربنا ہوا تھا۔ فیشن ڈائزئن کے شعبے سے وابستہ ہونے کے سبب وہ زندگی کے ہر ہر پہلو میں خوبصورتی تلاش کر تا تھا اور یہی وجہ بنی کہ دریاکے کنارے اس حسین جگہ کا انتخاب کیا گیا۔

فہد پیزا اور کولڈ درنک لے کر اپارٹمنٹ کی گیلری میں آ چکا تھا۔ بھیگی ہوئی اس خوبصورت رات میں دریائے سین کا شور اور دور دکھائی دینے والے ایفل ٹاور کی روشنیاں ایک سحر سا طاری کیے دیتی تھیں۔ فرح بچوں سمیت لاہور گئی ہوئی تھی تاکہ اسکے بچے اس سیاحتی مقام پر کرونا وائرس کے خطرے سے بچ سکیں۔فہد نے پیزا کا ایک اور لقمہ لیتے ہوئے قریب ہی پڑےایم پی تھری پلیئر پرپلے کا بٹن دبایا۔ فضا میں کوک اسٹوڈیو میں ریکارڈ کیے گئے سجاد علی کے گانے 'تم ناراض ہو' کی دھن فضا میں رس گھولنے لگی۔اب وہ ٹیبل پر پاوں رکھے آرام سے ایک آرام دہ کرسی پر نیم لیٹا ہوا سا تھا۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ کچن کاونٹر پر رکھا موبائل گونج اٹھا۔

"ہیلو!" یہ گجرانوالہ سے فرح کی دوست مہوش کا فون تھا۔ پاکستان پیرس سے تین گھنٹے آگے ہے۔ اس وقت پیرس میں ساڑھے گیارہ اور پاکستان میں رات کا ڈیڑھ بج چکا تھا۔ فہد حیران تھا کہ رات کے اس پہرفرح کی بچپن کی دوست اسکو کیونکر کال کر سکتی ہے۔ (جاری ہے۔۔۔)
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
پیرس کی وہ حسین رات۔ قسط2

Minare-at-night-Lahore-Pakistan.jpg


احمد یہ موبائل چھوڑو تمہیں مہوش آنٹی کےیہاں نہیں جانا! آج صبیح کی برتھ ڈے ہے جانو۔ چھوڑو یہ موبائل گیمز اور جاؤ ایمن کو کہو کہ اس وقت پودوں کو پانی نہیں دیتے اندر آئے ماما بلا رہی ہیں۔ فرح اپنی الماری سے کپڑے نکالنے میں مصروف تھی۔وہ دو ماہ قبل ہی ماڈل ٹاون کے دس مرلہ گھر میں پیرس سے کرونا کے خوف کی وجہ سے منتقل ہوئی تھی۔جی ماما! فرح کی بڑی بیٹی جو کہ آٹھ سال کی تھی کمرے میں داخل ہوئی۔ بیٹا! چھ بج رہے ہیں ہمکو آدھے گھنٹے میں مہوش آنٹی کی طرف گجرانوالہ جانا ہے۔ آج صبیح کی برتھ ڈے ہے۔ مہوش فرح کی بچپن کی دوست تھی۔ شادی کے بعد مہوش لاہور سےگجرانوالہ اور فرح پیرس منتقل ہوگئی تھی۔

لاہور کا موسم بارش کے باعث خوشگوار ہو رہا تھا۔ نئے ماڈل کی سوک گاڑی اسٹارٹ ہوئی تو فضا میں نرم سی بھاپ گاڑی کے سائلنسر سے نکلی۔ بچوں کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے تھے۔ ایک تو سالگرہ کی تقریب اور دوسرے وہ کافی دن بعد گھر سے نکل رہے تھے۔فرح نے گفٹ پہلے سے ہی خرید لیا تھا۔ اب گاڑی کا رخ ھادیہ حلیمہ پارک کی جانب تھا جہاں سے وہ پھولوں کا گلدستہ خریدنا چاہتی تھی۔گلاب کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو نے ساری گاڑی کو مہکا دیا تھا۔ گاڑی کا اسپیڈو میٹر موٹروے پر گاڑی کی رفتار نوے کلو میٹر فی گھنٹےبتا رہا تھا۔بچے اپنے اپنے سمت کی کھڑکیوں سے باہر گزرتے نظاروں اور ڈوبتے سورج کو دیکھنے میں مصروف تھے۔ فرح نے ڈی وی ڈی پلیر کا پلے کا بٹن دبایا۔ کوک اسٹوڈیو کا آیا لاری اے کا نغمہ دھیمی آواز میں گاڑی کی آرام دہ ائیرکنڈیشنڈ ہوا میں تحلیل ہونے لگا۔

گاڑی ایک ہلکے سے جھٹکے کےساتھ مہوش کے بنگلے کے سامنے رکی۔ گاڑی کی بریک لائٹس ابھی بھی پوری طرح سرخ ہورہی تھیں۔" چلو ایمن احمد تحفہ اور پھول لے کر اترو"، فرح نے گاڑی کا اگنیشن آف کرتے ہوئے بچوں کو متوجہ کیا۔ بنگلہ چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے برقی قمقموں سے جل بجھ ہو رہا تھا۔ مدھم روشنی میں بنگلے کے گارڈن میں غبارے بہت خوبصورتی سے سجائے گئے تھے۔ رات ہو چکی تھی۔ کیک کٹنے کو تھا۔ بچے دوڑ کر کیک کٹنے کی رسم میں شامل ہو چکے تھے۔ مہوش نے فرح کو گلے لگاتے ہوئے کہا، " بے وفا! صبح سے تیرا انتظار کر رہی تھی۔ اب آئی ہے۔ صبیح نےایمن اور احمد کا پوچھ پوچھ کر برا حال کر دیا۔ چلواب جلدی آو کیک کٹ رہا ہے"۔ (جاری ہے۔۔۔)
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
کچھ ایسا لگتا ہے کہ کہانی موجودہ حالات کے تناظر میں ہے۔
خیر !
دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے
 

سید رافع

محفلین
پیرس کی وہ حسین رات۔ قسط3

26-2.jpg


شیخوپورہ میں گلیاں سنسان ہو چکی تھیں۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔ اسی گز کے کچے مکان میں ایک برقی قمقمہ ڈگگمگا رہا تھا۔ چھت میں لگا سیلنگ فین چر چر کی آواز کے ساتھ گھوم رہا تھا ۔ کمرے میں ایک عجیب پسینے کی بدبو بس چکی تھی۔ "او وقار! کھوتے دا پتر"۔ " کی ہو گیا بای، کی غلطی ہو گئی پرا "۔ وقار نے لپک کر اپنی نشست سے اٹھتے ہوئے، قدرے ڈرتے ہوئے شفقت کو جواب دیا جو کہ اسکا برادر نسبتی تھا۔ "تجھ کو کہا ہے نا میرےتھیلے کو ہاتھ نہ لگایا کر"۔ شفقت نے کرخت آواز میں چالیس سالہ وقار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔اور ساتھ ہی کالے رنگ کا کپڑے کا ایک تھیلا پلنگ کے نیچے سے نکالتے ہوئے گھر سے باہر کی راہ لی۔ اس تھیلے میں ایک عدد دیسی ساختہ پستول تھا۔

وقار اٹھائس سال کا ایک ان پڑھ نوجوان تھا۔جو قتل کی ایک واردات کے بعداپنے بہنوئی کے یہاں شیخوپورہ پناہ لینے آیا ہوا تھا۔ شفقت کی تین بیٹاں تھیں ماریا، ثوبیہ اور عائشہ جو کہ مقامی کارخانے میں ملازم تھیں جہاں شفقت مشین آپریٹر کے طور پر ایک زمانے میں کام کرتا تھا۔ "عائشہ کمرے کی صفائی کر رہی تھی اس لیے تھیلا پلنگ کے نیچے رکھ دیا تھا"۔ باہر جاتے ہوئےوقار کو شفقت نے وضاحت دیتے ہوئے کہا۔

موٹر سائیکل کو کک لگاتے ہوئےوقار نے شفقت کو گھورا اور کہا، "کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے میں ادھر آیا تھا"۔ رات کے سناٹے میں وقار تیزی سے موٹر سائیکل کی رفتار بڑھاتے ہوئے پیچھے دوڑتے بھونکتے کتوں کو مات دے گیا۔ وقار جلد از جلد گجرانوالہ پہنچنا چاہتا تھا تاکہ اپنے ساتھی عابد کے ساتھ نئی واردات کر سکے جو اس نے کل ہی اس کے ساتھ فون پر طے کی تھی۔وہ ایک ماہ سے اپنے بہنوئی کے یہاں چھپا ہوا تھا۔ اسکے عوض وہ اسکو واردات سے حاصل ہونے والی آمدن دیتا تھا۔

عابد طے شدہ مقام پر کھڑا رات کے اندھیرے میں ہوئےوقار کا انتظار کر رہا تھا۔ عابد کے ارادے اس رات کے گھپ اندھیرے سے زیادہ تاریک اور وحشت ناک تھے۔ شفقت تیزی سے مقررہ مقام پر پہنچ چکا تھا۔ عابد پھرتی سے جست لگا کر موٹر سائیکل پرسوار ہو گیا۔ اب وہ دونوں گجرانوالہ موٹر وے کی جانب روانہ ہو چکے تھے۔ (جاری ہے۔۔۔)
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
پیرس کی وہ حسین رات۔ قسط4

3e5a04362bd63eab3e2b6c60cded126d.jpg


ہیلو !ایلن۔فہد نے اپنے بزنس پارٹنر لیو کی گرل فرینڈ کو قدرے اضطراب سے فون پر مخاطب کیا۔ وہ دو سال قبل نیویارک سے پیرس فیشن ڈائزئن کی تعلیم کے لیےمنتقل ہوئی تھی اور اپنے یورنیورسٹی کے وزیٹنگ لیکچرر لیوکو دل دے بیٹھی۔

ہائی فہد۔رات کا ساڑھے گیارہ بج رہا تھا ۔ ایلن نے مخمور لہجے میں فہد کو جواب دیا۔ فہد نے فرانسیسی زبان میں گفتگو شروع کرتے ہوئے کہا۔ لیو فون کیوں نہیں اٹھا رہا ہے؟ میں نے کئی بار اسکو کال کی ہے۔ فہد نے ائیرپورٹ کی ایک نشست پر بیٹھتے ہوئے تیزی سے کہا۔

فہد وہ کل یورنیورسٹی میں ہونے والی کلاس سے متعلق یورنیورسٹی آف پیرس کے پروفیسر سے گفتگو کر رہا ہے۔میں بھی کافی دیر سے اسکا انتظار کر کے اب سونے ہی جا رہی تھی کہ تمھاری کال آ گئی۔ کیا میں لیو کو بلاوں؟ ایوری تھنگ اوکے۔ایلن نے فہد کے فکر مند لہجےسے اندازہ کرتے ہوئے سوال کیا۔وہ فہد کو جانتی تھی کہ وہ اس وقت کبھی کال نہیں کرتا۔

نہیں ایلن۔ اسکی ضرورت نہیں۔ میں ائیرپورٹ سے بات کر رہا ہوں اور پاکستان جا رہا ہوں۔ تم لیو کو یہ بتا دینا۔ میں بقیہ بات بعد میں کرتا ہوں۔ بائے۔ ایلن نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا اوکے بائے۔ فہد نے اپنا چھوٹا سا سوٹ کیس سنبھالتے ہوئے بورڈنگ ڈیکس کی طرف راہ لی جہاں سے امارت ائیر لائن کا جہاز لاہور براستہ دبئی روانگی کےلیے تیار تھا۔

✮ ✮ ✮​

فرح کیک لو نا۔ مہوش نے اپنےایک ہاتھ سے اپنے لمبے سلکی بالوں کو سنبھالتےہوئے کیک کی ڈش فرح کے سامنے کی۔میں تو فل ہو گئیں ہوں۔ تم مجھے موٹا کر کے چھوڑو گی۔ فرح نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ احمد ایمن تم کو کیک لینا ہے؟ فرح نے اپنے کاسنی رنگ کے دوپٹے کو کاندھے پر ڈالتے ہوئے پوچھا۔ نہیں ماما! دونوں بچے سالگرہ میں باٹے جانے والے سرپرائز گفٹ بیگ کو ٹٹولنے میں پوری طرح مصروف تھے۔یار اب میں چلوں گی قریبا بارہ بج رہےہیں۔ فرح نے اپنے موبائل سے نظر ہٹاتے ہوئے کہا۔ او تو کہیں نہیں جا رہی۔ مہوش نے آنکھیں نکال کر فرح کو جواب دیا۔ ابھی سارے گفٹ کھولیں گے۔ آج رات تو یہیں رہ۔ نا بابا نا۔مجھے معلوم ہے کہ آج پوری رات تیرا ہے جاگنے کا پروگرام اور میں ہوں نیند کی کچی۔ فرح کھلکھلاتے ہوئےاپنی نشست سے کھڑی ہو گئی۔

✮ ✮ ✮​

یہ زاہد نے پنچائت میں سارا کام خراب کر دیا ۔اسکےقتل کے بعد پورا ایک ماہ شفقت کی طرف رہا ہوں۔ شفقت نے موٹر سائیکل کو ریس دے کر گاڑی کو اوور ٹیک کرتے ہوئے ناگوار لہجے میں عابد کو مخاطب کیا۔دونوں کے بال اور کندھوں پر پڑا رومال ہوا میں لہرا رہا تھا۔ زاہد شیخوپورہ کے نزدیک مرید کے ایک نواحی گاؤں کی پنچائت کا حصہ تھا جس نے گاؤں کی ایک یتیم لڑکی سے شفقت اور عابد کی زبردستی آبروریزی کرنے پر پولیس میں پرچا کٹایا تھا۔

صحیح کہہ رہا شفقت تو۔ وہ تھا ہی اسی لائق۔ یاد نہیں وہ گاؤں میں بچپن سے ہی کچھ زیادہ ہی شکایتیں کرتا پھرتا تھا۔عابد نے دانت چباتے ہوئےکہا۔ تیرے باپ کو اسکول سے بھاگ کر نشہ کرنے کی شکایت بھی اسی نے لگائی تھی۔ عابد نے جھٹک کر اپنا رومال اپنے کندھے پر ڈالتے ہوئے کہا۔ کر دیے نا سارے اگلے پچھلے بدلے پورے۔ اب سڑے مٹی وچ۔ شفقت کےکرخت چہرے پر ایک نفرت انگیز غصہ اتر آیا۔ موٹر سائیکل نوے کی رفتار سے تاریک گجرانوالہ موٹر وے پر بھاگتی چلی جا رہی تھی۔ (جاری ہے۔۔۔)
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
پیرس کی وہ حسین رات۔ قسط5

model%20ps_0.jpg


شیخ صاحب ترکی جن پانچ سو لوگوں کو بھیجا تھا اسکے پانچ کروڑ آپکے بتائے ہوئے 3تین بینک اکاونٹس میں ٹرانسفر کر دیے تھے۔ دوپہر کی کھانے کی ٹیبل میں ایک ادھیڑ عمرشخص نے سی سی پی او کے کان میں آنکھ دباتے ہوئے سر گوشی کی۔اچھا اب جاؤ۔ سی سی پی او نے بے اعتنائی سے لذیذ بریانی سے بھرا چمچہ اپنے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔ سر میں جاتا ہوں لیکن ان میں سے زیادہ تر ترکی پولیس کے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ جو رہ گئے ہیں وہ وہیں مر جائیں لیکن جو واپس آ جائیں سر توآپ انکو سنبھال لینا۔ او میں دیکھ لوں گا اب تم جاؤ اور یہاں دفتر نہیں آیا کرو کتنی بار منع کیا ہے۔سی سی پی او نےمرغی کی اچھی بوٹی کے لیے ڈش میں موجود چاولوں کو الٹ پلٹ کرنا شروع کر دیا۔ جی سر میں جاتا ہوں۔ آنے والا شخص منہ پر رومال ڈھانپ کر دفتر کے دروازے سے باہر نکل گیا۔

سر! میں اندر آ سکتا ہوں۔ایک سینئر پولیس آفسر نے سی سی پی او کے دفتر میں اندر آنے کی اجازت مانگی۔ آؤ عمر۔ کیا پروگریس ہے؟ سی سی پی او نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے فربا پولیس آفیسر سے سوال کیا۔ سر مخالف سیاسی پارٹیوں کے جو جو لوگ کسی بھی جرم میں تھے ہم نے اندر کرنے شروع کر دیے ہیں۔ تین سو لوگ اندر کر دیے ہیں۔ باقی خوف سے انڈر گراونڈ ہو گئے ہیں۔ آفسر نے گردن لمبی کر کے ادھر ادھر دیکھ کر اپنی کارکردگی بیان کی۔ ویل ڈن۔ بس یہ دباؤ بڑوں میں ڈیل ہونے تک لگا کر رکھنا ہے۔ سی سی پی او نےٹشو سے اپنے ہونٹوں پر لگے تیل کر صاف کرتے ہوئے کہا۔ تھینک کیو سر! سر وہ کچھ خیال ہو جاتا! آفیسر نے سرگوشی کے انداز میں سی سی پی او کو اسکا وعدہ یاد دلایا۔ ہاں، آج شام تک دس لاکھ تمہارے اکاونٹ میں ٹرانسفر ہو جائیں گے۔اب جاؤ۔ سی سی پی او نے انگور کا دانہ اپنے منہ میں رکھتے ہو ئے کہا۔

سی سی پی او کا موبائل بج رہا تھا۔ آئی جی کی کال تھی۔ ہیلو! جی عثمان کیسے یاد کیا۔سی سی پی او نے اپنی گردن کرسی پر رکھی اور پاؤں سے کرسی کو گھمانا شروع کر دیا۔ بس کچھ خاص نہیں شیخ صاحب۔ وہ لاہور میں ماں اور بیٹی کا ڈکیتی کے بعد ریپ کیا گیا تھا اسکی پرچیاں دو دفعہ میرے پاس آ چکی ہیں۔آئی جی نے اپنا مدعا بیان کیا۔او یار چھڈو عثمان جی! یہاں پنچاب میں ہر سال دو ہزار ریپ ہوتے ہیں۔ ہمارے آپکے پاس اور بھی کرنے کے کام ہیں۔ سی سی پی او نے ایک زور دار قہقہ بلند کیا۔ جس پر آئی جی نے جوابا ایک قہقہ بلند کرتے ہوئے کہا۔ اچھا شیخ صاحب۔ مٹی پاؤ۔ مجھے ایک بندہ ملنے آیا ہے پھر بات ہو گی۔ آئی جی نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔

✮ ✮ ✮​

باؤ جی آپ بھی ناشتہ کر لیں ۔ شفقت کی بیوی افشاں نے ناشتے کے دسترخوان پر بیٹھی ماریا، ثوبیہ اور عائشہ کے سامنے پراٹھے رکھتے ہوئے کہا۔ نانا جی! آجاؤ آپ بھی ہمارے ساتھ ناشتہ کر لو۔ عائشہ نے پراٹھے کا ایک لقمہ رات کے بچے شوربے میں ڈبوتے ہوئے کہا۔او پتراں تو ناشتہ کر میں کر کے آیا ہوں۔ مجید جو کہ وقار اور افشاں کا باپ تھا چارپائی پر اپنی ٹانگیں اوپر کرتے ہوئے کہا۔ نانا جی! آپ کل آتے تو وقار ماما سے بھی مل لیتے۔ ثوبیہ نے چائے کا کپ اپنے پتلے پتلے گلابی ہونٹوں سےلگاتے ہوئے کہا۔ او وہ آیا تھا خبیث یہاں۔ مجید نے غصے سے کمر سیدھی کرتے ہوئے کہا۔ اس ذلیل نے محلے میں ہماری ناک کٹوا دی ہے۔ ہر وقت نشہ اور محلے کی عورتوں کو تنگ کرتا ہے۔ شفقت نے گھور کر ثوبیہ کو دیکھا۔ او چل تو نے ناشتہ کر لیا نا اب جا کارخانے۔ اٹھ یہاں سے۔تینوں لڑکیاں سہم کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔ وقار شفقت کو پچاس ہزار اس دفعہ دیا کر گیا تھا سو اس نے نمک حلالی کے لیے موضوع پھیرتے ہوئے کہا۔ او باؤ جی! اب وہ اپنے دوست کے ساتھ کاروبار کرنے لگا ہے۔ شفقت نے مجید کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کہا۔

✮ ✮ ✮​

سر آپ ٹی یا کافی! امارت ائیرلائن نے دلکش ائیرہوسٹس نے فہد کو متوجہ کرتے ہوئے کہا۔نوتھیکس! فہد جو کھڑکی کے باہر گم سم دیکھ رہا تھا چونکتے ہوئے کہا۔ جہاز پوری رفتار سے دبئی کی طرف پرواز کر رہا تھا اور دو گھنٹے میں اسے دبئی ائیرپورٹ پر لینڈ کرنا تھا۔

✮ ✮ ✮​

مہوش ذرا تم ان چاروں کے ساتھ کھڑی ہو جاؤ تو میں ایک پک لوں پھر بس میں نکلوں گی۔ فرح نے اپنا موبائل کا رخ ایمن احمد اور مہوش کے دو بچوں صبیح اور آمنہ کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ارے ہمیں شامل نہیں کریں گی۔ مہوش کے شوہر عمر نے اپنی بیوی کا کندھا مسکراتے ہوئے پکڑتے ہوئے کہا۔ جی ضرور عمر بھائی اچھا ہے کوئی تو مہوش کو چپ کرانے والا آیا۔ چلو بچوں تم چاروں آگے کھڑے ہو جاؤ۔ فرح نے ایک قدم پیچھے لیا تا کہ صحیح پوز آسکے۔صبیح کے ملائی جیسے گورے گال سرخ کرتے، آڑے پاجامے اور سلیم شاہی جوتوں پردمک اٹھے اور اس نے احمد کو اپنے برابر کر لیا۔ ایمن نے اپنی میکسی نما پیلی فراک سنبھالتےہوئے آمنہ کے کندھے پر ہاتھ جما لیا۔ ایک کیمرہ شٹر کی آواز پیدا ہوئی اور فرح نے آگے بڑھ کر کہا۔ چلو مہوش اور عمر بھائی ہم چلتے ہیں۔ آپ آئیں نا مہوش کے ساتھ۔ ہمارے تو مہینے کے پانچ سات چکر ہو ہی جاتے ہیں۔ فرح نے مہوش کے شوہر پر جملہ کستے ہوئے کہا۔ ضرور ضرور۔ فہد کر آ لینے دو ہمارے مہینے کے دس چکر لگیں گے۔ عمر نے جوابا جملہ کسا جبکہ وہ سب فرح کی گاڑی کی طرف قدم بڑھا رہے تھے۔ سب کے چہروں پر ایک ہنسی دوڑ گئی۔ اچھا بھئی اللہ حافظ۔ فرح نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔ فرح اور بچے اب تاریک گجرانوالہ موٹر وے پر آ چکے تھے۔ (جاری ہے۔۔۔)
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
موٹر وے حادثے نے ساری پاکستانی قوم کو دنیا بھر میں جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ جوں جوں پیرس کی وہ حسین رات تاریک تر ہوتی جا رہی ہے میری ہمت نے جرم پر لکھنے سے دم توڑ دیا۔ جن لوگوں تک ایسے حادثوں سے قبل ان کو روکنے کی اطلاع ہوتی ہے وہ کیونکر انتظامیہ اور عدالتوں کی دسترس سے باہر ہیں وہ ہر ہی پاکستانی پر ظاہر و باہر ہیں۔ اطلاع پہنچ چکی ہے، جرم بند ہونا چاہیے۔

اب میرا ارادہ محبت کی خوش رنگ تتلیاں لکھنے کا ہے۔ یہ کہانی دنیا بھر میں محبتوں کے رنگوں کو نمایاں کرے گی۔ جرم کی خار دار وادی میں قارئین کو لے جانا ان کی امیدوں اور ہمتوں کے لیے مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ البتہ جو جرم کی سنگینی سمجھنا چاہتے ہیں اور خود کو محفوظ رکھنے کا ارادہ ہے تو شاید اس مضمون سے کچھ ملے۔ سورہ کہف اور موجودہ دور کے مومنین کی سیاست کے لیے ہدایت
 
آخری تدوین:
Top