اس ملک کی سرحد کو کوئی چھو نہیں سکتا

اس ملک کی سرحد کو کوئی چھو نہیں سکتا



آزادی وطن کے ساتھ ہی ہمیں ایک نہایت عیار و مکار دشمن سے واسطہ پڑا۔ وطن عزیز کے ابتدائی ایام نہایت ہی مشکل تھے اور اس پر ایسا عیار مکار دشمن جو موقعے کی تاک میں تھا کہ کیسے اس نوزائیدہ ملک کو ہڑپ کر دے۔ اسی سلسلے میں بارہا اس نے وطن عزیز پر دست درازی کی کوششیں کی۔ مگر اللہ تعالی کے فضل و کرم سے وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ 6 ستمبر 1965 کو بھی پاکستان پر زبردستی جنگ مسلط کر دی گئی۔ دنیاوی نظر سے دیکھا جائے تو دشمن ہم سے کئی گنا زیادہ طاقتور تھا مگر اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہیں کہ

’جن لوگوں کو یقین تھا کہ وہ اللہ سے ملاقات کرنیوالے ہیں انھوں نے کہا، کہ کئی بار ایسا ہوا کہ اللہ کے حکم سے قلیل جماعتیں کثیر جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں اور اللہ صبر کرنیوالوں کیساتھ ہے، (۲۴۹/۲)

اللہ تعالی کی خاص مدد کے ذریعے ہی یہ ممکن ہوا کہ ہماری افواج نے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے۔ وہ جو ایک دن میں پاکستان کو فتح کرنے کا خواب لے کر آئے تھے وہ ان کے لئےڈراونا خواب ثابت ہوا۔ 1965 میں جو چائے لاہور میں پینے کے ارادوں سے وہ نکلے تھے،ان کی وہ ادھار چائے ابھی نندن کو 2018 میں پلا کر لاہور ہی سے رخصت کرنا پڑا۔ کیونکہ ہماری افواج ادھار کسی کا نہیں رکھتیں ۔۔

یوم دفاع اس عہد کی تجدید کے ساتھ گزارا جاتا ہے کہ ہم اپنی فوج کے ساتھ ہیں۔ آج اگر گھر میں سب سکون سے سوتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ سرحدوں پر جاگنے والے ہیں۔اسلامی سرحد پر پہرہ دینے کو رباط کہا جاتا ہے اور جو پہرہ دینے والے ہیں ان کو مرابطہ کہا جاتا ہے۔ ان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ اجر کی خوشخبری سنائی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن ایک رات پہرہ دیا اسے ایک مہینے کے روزے و نماز کا ثواب ملے گا، اور جو پہرہ دینے کی حالت میں مر گیا اسے اسی طرح کا اجر برابر ملتا رہے گا، اور اس کا رزق بھی جاری کر دیا جائے گا، اور وہ فتنوں سے محفوظ ہو جائے گا۔

یعنی سرحد پر پہرہ دینے والے کا اجر ہمیشہ جاری رہے گا۔ اور ایک اور حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ "وہ قبر کے فتنوں سے محفوظ رکھا جائے گا"

رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ ہر ایک مرنے والے کا عمل اس کی موت کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔ بجز مرابطہ کے (وہ فوجی جو مسلمان مُلک کی سرحدوں کی حفاظت پر ہو) اس کا عمل قیامت تک بڑھتا ہی رہتا ہے اور قبر میں حساب و کتاب والوں سے مامون اور محفوظ رہتا ہے۔

انسان کے مرنے کے بعد اس کے اعمال ساکت ہو جاتے ہیں اور صرف صدقہ جاریہ کا اجر ملتا ہے جب تک کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ جبکہ رباط(سرحد پر پہرہ دینا) کا قیامت تک بڑھتا ہی رہے گا۔

حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں ایک دن مورچے پر رہنا دنیا ومافہیا سے بہتر ہے۔ جنت میں تم میں سے کسی کے کوڑا رکھنے کی جگہ تمام دنیا ومافہیا سے بہتر ہے۔ اور کسی شخص کاصبح یا شام کے وقت اللہ کی راہ میں چلنا ساری دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ "

یہ کتنی عظیم بات ہے کہ مورچے پر ایک دن رہنا دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے بہتر ہے۔
اسلام میں صف باندھ کر اور ہر وقت تیار رہنے کو کس قدر اہمیت حاصل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا جب مطالعہ کرتے تو علم ہوتا ہے کہ وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے مال و دولت نہیں نکلا تھا مگر سات تلواریں تھیں جو ہمیں ہر صورت تیار رہنے کا درس دے رہی ہیں۔ دشمن کے مقابلے پر ہر وقت چوکس اور تیار رہنے کی ضرورت ہے۔اپنی تیاری پوری کر کے پھر توکل اللہ پر ہونا چاہیئے۔ جب اتنی ساری خوشخبریاں ہیں جبھی تو ہمارے سپاہی وطن کی حفاظت پر ڈٹے کھڑے ہیں۔
الحمدللہ ہماری افواج ہر وقت چوکس اور چوکنا ہیں۔ ستمبر 1965 میں تو دشمن نے سامنے سے حملہ کیا تھا مگر آج دشمن نے سازشوں اور حملوں کا انداز بدل دیا ہے۔ اب ہماری افواج کو سرحد پر بھی اور ملک کے اندر بھی نظر رکھنی ہوتی ہے۔ ہم ہر محاذ پر اپنی افواج کے ساتھ ہیں۔
اس ملک کی سرحد کو کوئی چھو نہیں سکتا
جس ملک کی سرحد کی نگہبان ہیں آنکھیں
 

ظفری

لائبریرین
1971 کی جہاں تک بات ہے تو آپ بالکل مختلف لوگوں کو کب تک اپنے ساتھ زبردستی باندھ سکتے ہیں؟ ویسے علامہ اقبال نے جو خواب دیکھا تھا اس میں بنگال شامل نہیں تھا۔
دوسرا ۔۔۔۔۔ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
پاکستان سے متعلق معلوم نہیں قوم علامہ اقبال کے خواب کو کیا سمجھتی ہے ۔ یہ خواب وہ خواب نہیں تھا جو سوتے وقت لوگ دیکھتے ہیں ۔ بلکہ وہ علمی بصیرت اور وژن سے بھرپور ایک احساس تھا جس کے تحت علامہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی اکثریت جن ریاستوں میں زیادہ ہے وہاں ان کی الگ ریاست ہونی چاہیئے ۔دیگر ریاستوں میں حیدر آباد ، جونا گڑھ ، بھوپال ، کشمیر اور دیگر بہت سی ریاستیں تھیں ۔
علامہ اقبال کا وہ خطبہ جس کو خطبہِ الہٰ آباد کہا جاتا ہے ۔ اس میں انہوں نے صرف یہ بات کہی تھی کہ شمالی مغربی ہندوستان ( جسے اب ہم پاکستان کہتے ہیں ) میں ایک فطری وحدت پیدا ہوچکی ہے۔ جو ایک نئی وحدت اختیار کرلے گا ۔ بس اتنی بات تھی جو انہوں نے بیان کی ۔ سو اگر اس تناطر میں مشرقی حصے کو دیکھیں تو وہاں بھی مسلمان اکثریت موجود تھی ۔اور اس بات کا اطلاق وہاں بھی ہوسکتا تھا ۔ جسے آج بنگلہ دیش کہتے ہیں ۔
اس کے بعد جب پاکستان کی تحریک چلی اور اس کے نتیجے میں پاکستان نام آگیا اور انہی علاقوں میں پاکستان وجود پذیر بھی ہوا ۔ چناچہ اس عمل کے بعد جب ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال نے جو بات کہی تھی اگرچہ اُس وقت وہ پاکستان کے لفظ یا پاکستان کے اس طرح کے تصور سے تو خالی تھی جو تصور آج موجود ہے ۔ لیکن اس میں وہ وژن موجود تھا ۔ جس کا ظہور پاکستان کی صورت میں ہوا ہے ۔ یعنی جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی وہاں پاکستان بن گیا ۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
پاکستان سے متعلق معلوم نہیں قوم علامہ اقبال کے خواب کو کیا سمجھتی ہے ۔ یہ خواب وہ خواب نہیں تھا جو سوتے وقت لوگ دیکھتے ہیں ۔ بلکہ وہ علمی بصیرت اور وژن سے بھرپور ایک احاس تھا جس کے تحت علامہ سمجھتے تھے کہ مسلمان کی اکثریت جن ریاستوں میں زیادہ ہے وہاں ان کی الگ ریاست ہونی چاہیئے ۔دیگر ریاستوں میں حیدر آباد ، جونا گڑھ ، بھوپال ، کشمیر اور دیگر بہت سی ریاستیں تھیں ۔
علامہ اقبال کا وہ خطبہ جس کو خطبہِ الہٰ آباد کہا جاتا ہے ۔ اس میں انہوں نے صرف یہ بات کہی تھی کہ شمالی مغربی ہندوستان ( جسے اب ہم پاکستان کہتے ہیں ) میں ایک فطری وحدت پیدا ہوچکی ہے۔ جو ایک نئی وحدت اختیار کرلے گا ۔ بس اتنی بات تھی جو انہوں نے بیان کی ۔ سو اگر اس تناطر میں مشرقی حصے کو دیکھیں تو وہاں بھی مسلمان اکثریت موجود تھی ۔اور اس بات کا اطلاق وہاں بھی ہوسکتا تھا ۔ جسے آج بنگلہ دیش کہتے ہیں ۔
اس کے بعد جب پاکستان کی تحریک چلی اور اس کے نتیجے میں پاکستان نام آگیا اور انہی علاقوں میں پاکستان وجود پذیر بھی ہوا ۔ چناچہ اس عمل کے بعد جب ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال نے جو بات کہی تھی اگرچہ اُس وقت وہ پاکستان کے لفظ یا پاکستان کے اس طرح کے تصور سے تو خالی تھی جو تصور آج موجود ہے ۔ لیکن اس میں وہ وژن موجود تھا ۔ جس کا ظہور پاکستان کی صورت میں ہوا ہے ۔ یعنی جن علاقوں میں مسلم اکثریت تھی وہاں پاکستان بن گیا ۔
خوب صورت پیرائے میں علامہ اقبال رح کے وژن اور بصیرت کو بیان کیا۔
بہت ساری دعایں جیتے رہیے۔
 
Top