اپنے عہد کی پابندی کرو

اسلام نے عہد کی پابندی پر بہت زور دیا ہے۔ سورہ مومنون میں مومن کی ایک صفت اپنے وعدوں کی پاسداری کرنا بھی بتائی ہے۔ قرآن میں کئی اور جگہ پر بھی وعدے کی پاسداری کا حکم ملتا ہے " عہد کو پورا کرو، کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہوگا۔"
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بہت سے واقعات ہمیں ملتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو وعدہ کیا اسے پورا فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی سے ایسا وعدہ نہ کرو جسے پورا نا کرسکو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی وعدے کے پابند تھے اور صحابہ کرام کو بھی عہد توڑنے سے منع فرماتے تھے چاہیے کہ وہ کتنا ہی مشکل مرحلہ ہو۔ غزوہ بدر کفر اور اسلام کا پہلا معرکہ تھا افراد کی قلت وسائل کی قلت مگر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ اپنے والد کے ساتھ مکہ سے مدینہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے جارہے تھے راستے میں ابو جہل نے پکڑ لیا اور اس عہد پر چھوڑا کہ وہ جنگ میں شریک نہ ہوں گے۔ جب حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور سارا حال سنایا اور جنگ میں شرکت کرنی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روک دیا کہ نہیں تم عہد کر چکے ہو اسی بنا پر ابو جہل نے رہا کیا ہے۔
صلح حدیبیہ میں معاہدہ تحریر ہو رہا ہے اور ابو جندل رضی اللہ تعالی بیڑیوں میں بمشکل وہاں پہنچتے ہیں ،مسلمان ان کی حالت دیکھ کر تڑپ جاتے ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "اے ابو جندل ،صبر کر ہم اپنا عہد نہیں توڑ سکتے اللہ تبارک وتعالیٰ جلد ہی تیرے لئے رستگاری کی کوئی اور صورت پید ا کردے گا۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعہدی کو منافق کی نشانیوں میں سے ایک قرار دیا۔ اور نفاق کفر کی بدترین قسم ہے۔ منافق کو جہنم کے سب سے نچلے درجے میں پھینکا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدعہد کا کوئی دین نہیں ہے۔ یعنی وہ دین سے خارج پے۔

بدعہدی کے سب سے بدترین مثال کوفیوں کی وہ بدعہدی ہے جو انہوں نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی۔ کوفیوں نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی کو مسلسل خطوط لکھے۔ یزید سے اپنی بے زاری اور ان کی مدد کی یقین دہانی کراتے رہے۔ ہر خط میں پہلے سے بڑھ کر ساتھ دینے کی یقین دہانی کی۔ ان کے مسلسل خطوط کی وجہ آپ رضی اللہ تعالی نے مسلم بن عقیل کو پہلے کوفہ بیعت کے لئے بھیجا اور جب کوفیوں نے بڑی تعداد میں ان کی بیعت کر لی تو حضرت حسین رضی اللہ تعالی روانہ ہوئے۔بیعت عہد ہی تو ہوتا ہے۔ دوسری طرف ابن زیاد کی دھمکیوں اور قتل کے خوف سے کوفیوں نے اپنا وعدہ توڑ لیا۔ مسلم بن عقیل کو بھی شہید کر دیا۔ وہی کوفی جنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی خط لکھ کر بلایا تھا ان سے وفاداری کی بیعت کی تھی ، وہی ان کے خلاف کربلا میں نکل آئے۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالی نے خطوط کا وہ تھیلا میدان جنگ میں لا رکھا اور ایک ایک شخص کا خط پڑھتے اور فرماتے اے فلاں بن فلاں کیا تم نے مجھے یہ خط نہیں لکھا تھا۔۔۔۔
ان بدعہدوں کو خوف لاحق ہوا کہ اگر حسین رضی اللہ تعالی یزید تک پہنچ گئے اور یہ ہمارے خطوط دکھا دیئے تو پھر ہماری خیر نہیں۔ انہوں نے نا صرف آپ رضی اللہ تعالی کو شہید کر دیا بلکہ آپ رضی اللہ تعالی کے خیمے کو آگ بھی لگا دی گئی کہ وہ تمام ثبوت ہی ختم ہو جائیں ۔
حضرت حسین رضی اللہ تعالی تو شہید ہو کر امر ہو گئے وہ تو جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں مگر کوفیوں نے اپنے وعدے سے غداری کر کےاپنی آخرت برباد کر ڈالی۔ ہمیشہ کے لئے ان پر مہر لگ گئی "کوفی لا یوفی" کوفی کبھی وفا نہیں کرتا۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالی کا راستہ عظیمت کا راستہ ہے اس راستے پر چلنے والے کم ہی ملیں گے مگر
آج بھی اہل کوفہ کی سنت پر چلنے والے بہت ہیں۔ وہ بے شرمی کی تمام حدیں پار کر جاتے ہیں۔ اپنے ہی بھائی بندوں کا سودا کر دیتے ہیں۔ مگر وہ کبھی کامیاب نہ ہو پائیں گے دنیا ان کو مل بھی گئی تو آخرت ان کی نہیں رہے گی۔ حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ تعالی کے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی کو جب حجاج بن یوسف نے شہید کیا اور ان کی لاش کو کئی دن لٹکانے کے بعد یہودیوں کے قبرستان میں پھینکوا دی پھر حضرت اسماء رضی اللہ تعالی کو کہنے لگا کہ دیکھ میں نے تیرے بیٹے کو کیسے برباد کیا انہوں نے جواب میں فرمایا کہ " تو نے میرے بیٹے کی دنیا ہی برباد کی مگر اس نے تو تمہاری آخرت برباد کر دی"
بدعہدی کا وہ ناسور ہے جو انفرادی بھی اور اجتماعی طور پر بھی لوگوں میں سرایت کر چکا ہے۔ مسلمہ امہ کا آج یہ سب سے بڑا المیہ بن چکا ہے کہ یہاں جا بجا کوفی نظر آتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی کے ساتھ غداری کرنے والے بدعہدی کرنے والے کیسے ہوں گے؟؟ وہ کیسے بد بخت ہوں گے جنہوں نے آپ رضی اللہ تعالی کا سر مبارک اتارا ہو گا؟؟ آج ہم اپنے اردگرد دیکھیں فلسطین سے کشمیر تک کیسے کیسے کوفی موجود ہیں۔ اپنے مفادات کے لئے اپنے مسلمان بھائیوں کے خون کا سودا کرنے والے اسی مسلم امہ کے ہی تو فرد ہیں۔۔ یاد رکھیں بدعہدوں اور غداروں کو نہ تو تاریخ بھولتی ہے نہ معاف کرتی ہے۔ ابن العربی کا قول ہے کہ
"غدار اپنے نام سونے سے ہی کیوں نا لکھوا لیں تاریخ میں وہ سیاہ ہی لکھے جائیں گے"
 

سیما علی

لائبریرین
بہت خوب ،باکل درست کہا آپ نے بد عہدوں اور غداروں کو نہ تاریخ بھولتی ہے نہ معاف کرتی ہے ۔ حدیث میں منافق ایسی ہی چار خصلتوں کا ذکر ہے اُس میں سے بد عہدی ہے
“ جب عہد کرے تو بد عہدی کرے : یعنی جب وہ کسی کو عہد دیتا ہے ، لوگوں سے وعدے کرتا ہے تو اسے پورا نہیں کرتا ، حاکم سے بیعت کرتا ہے تو اسے توڑدیتا ہے ۔ اللہ تعالی سے کئے عہد و پیمان بھی سب اسی ضمن میں آتے ہیں ، یہ خصلت بھی ایک حقیقی مومن کے شایان شان نہیں ہے “۔
اسکی مثالیں آپ نے بڑی خوب صورتی سے بیان کی ہیں ماشاء اللّہ۔
جھوٹ ، خیانت اور بدعہدی و غیرہ ایسی بری خصلتیں ہیں جن سے پرہیز کئے بغیر کسی کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ۔پرودگار ہمیں ان برُائیوں سے محفوظ رکھے آمین۔۔۔۔۔
 
بہت خوب ،باکل درست کہا آپ نے بد عہدوں اور غداروں کو نہ تاریخ بھولتی ہے نہ معاف کرتی ہے ۔ حدیث میں منافق ایسی ہی چار خصلتوں کا ذکر ہے اُس میں سے بد عہدی ہے
“ جب عہد کرے تو بد عہدی کرے : یعنی جب وہ کسی کو عہد دیتا ہے ، لوگوں سے وعدے کرتا ہے تو اسے پورا نہیں کرتا ، حاکم سے بیعت کرتا ہے تو اسے توڑدیتا ہے ۔ اللہ تعالی سے کئے عہد و پیمان بھی سب اسی ضمن میں آتے ہیں ، یہ خصلت بھی ایک حقیقی مومن کے شایان شان نہیں ہے “۔
اسکی مثالیں آپ نے بڑی خوب صورتی سے بیان کی ہیں ماشاء اللّہ۔
جھوٹ ، خیانت اور بدعہدی و غیرہ ایسی بری خصلتیں ہیں جن سے پرہیز کئے بغیر کسی کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ۔پرودگار ہمیں ان برُائیوں سے محفوظ رکھے آمین۔۔۔۔۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 
Top