کفر باشد در طریقِ عاشقان آزارِ دل
گر مسلمانی چرا آزار می داری روا؟
(شاه نعمت الله ولی)

عاشقوں کے طریق میں دل کو آزار دینا کفر ہے۔ اگر تو مسلمان ہے تو آزار کو کیوں روا رکھتا ہے؟
 
کی تواند هر کسی رفتن طریقِ عشق را؟
ز انکه هم در منزلِ اول فنا اندر فنا است
(شاه نعمت الله ولی)

طریقِ عشق پر ہر کوئی کب چل سکتا ہے؟ کیونکہ (عشق کی) منزلِ اول میں بھی فنا در فنا ہے۔
 
خویش فربه می‌نماییم از پیِ قربانِ عید
کان قصابِ عاشقان بس خوب و زیبا می‌کشد
(مولوی رومی)

عید پر قربان ہونے کے لئے ہم خود کو فربہ(موٹا) ظاہر کرتے ہیں کہ عاشقوں کا وہ قصاب بسیار خوب اور زیبا (انداز میں) قتل کرتا ہے۔
 
همچو اسماعیل گردن پیشِ خنجر خوش بنه
دَرمَدُزد از وی گلو گر می‌کَشد تا می‌کُشد
(مولوی رومی)

جب وہ (معشوق تجھے) قتل کرتا ہے تو اگر وہ (تیرا) گلہ کھینچے تو اس سے (گلہ) دور مت کر (بلکہ) حضرت اسماعیل علیہ سلام کی مانند خنجر کے آگے گردن اچھے (انداز میں) رکھ۔
 
نیست عزرائیل را دست و رهی بر عاشقان
عاشقانِ عشق را هم عشق و سودا می‌کشد
(مولوی رومی)

عزرائیل (فرشتہٗ مرگ) کو عاشقوں (کی روح قبض کرنے) پر کوئی قدرت اور اجازت نہیں ہے۔ عشق کے عاشقوں کو عشق بھی اور سودا (بھی) قتل کرتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نیست عزرائیل را دست و رهی بر عاشقان
عاشقانِ عشق را هم عشق و سودا می‌کشد
(مولوی رومی)

عزرائیل (فرشتہٗ مرگ) کو عاشقوں (کی روح قبض کرنے) پر کوئی قدرت اور اجازت نہیں ہے۔ عشق کے عاشقوں کو عشق بھی اور سودا (بھی) قتل کرتا ہے۔
زبردست اریب آغا بھائی ۔ واہ!
موت ، کیا آکے فقیروں سے تجھے لینا ہے
مرنے سے پہلے ہی یہ لوگ تو مرجاتے ہیں
میر درد۔ بر سبیل تذکرہ ۔
 
کشتگان نعره زنان یا لیت قومی یعلمون
خفیه صد جان می‌دهد دلدار و پیدا می‌کشد
(مولوی رومی)

(معشوق یا عشق کے)مقتول نعرہ لگاتے ہیں: یا لیت قومی یعلمون (اے کاش میری قوم جانتی) کہ دلدار ظاہراََ قتل کرتا ہے اور حالتِ اخفا اور خلوت میں صد (سو) جانیں دیتا ہے۔
 

عمار نقوی

محفلین
کشتگان نعره زنان یا لیت قومی یعلمون
خفیه صد جان می‌دهد دلدار و پیدا می‌کشد
(مولوی رومی)

(معشوق یا عشق کے)مقتول نعرہ لگاتے ہیں: یا لیت قومی یعلمون (اے کاش میری قوم جانتی) کہ دلدار ظاہراََ قتل کرتا ہے اور حالتِ اخفا اور خلوت میں صد (سو) جانیں دیتا ہے۔
واہ کیا بات ہے !!
 
آن گمان ترسا برد مؤمن ندارد آن گمان
کو مسیحِ خویشتن را بر چلیپا می‌کشد
(مولوی رومی)

نصرانی وہ گمان کرتا ہے، مومن وہ گمان نہیں رکھتا کہ وہ اپنے مسیح کو صلیب پر قتل کر رہا ہے۔
 
هر یکی عاشق چو منصورند، خود را می‌کشند
غیرِ عاشق وانما که خویش عمدا می‌کشد
(مولوی رومی)

ہر ایک عاشق منصور کی طرح ہیں، خود کو قتل کرتے ہیں۔ عاشق کے سوا کوئی دکھاوٗ جو خود کو قصداََ قتل کرتے ہیں۔
 
صد تقاضا می‌کند هر روز مردم را اجل
عاشق حق خویشتن را بی‌تقاضا می‌کشد
(مولوی رومی)

ہر روز اجل (مرگ) لوگوں سے صد (بار) تقاضا کرتی ہے(یعنے لوگ اپنی جان قصداََ جان‌آفرین کو سپر کرنے پر راضی نہیں ہوتے)۔ حق کا عاشق خود کو بےتقاضا قتل کرتا ہے۔
 
عشق چو قربان کندم عیدِ من آن روز بُوَد
ور نبود عیدِ من آن مرد نی‌ام بلک غَرَم
(مولوی رومی)

عشق جب مجھے قربان کرتا ہے تو اس دن میری عید ہوتی ہے۔اور اگر میری عید نہ ہو (یعنے عشق نے مجھے قربان نہ کیا) تو میں مرد نہیں بلکہ نامرد ہوں۔
 
اس غزل کا ترجمہ وارث صاحب فر ما ئیں گے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
من سنگدل چه اثر برم زحضور ذکر دوام او
چو نگین نشدکه فرو روم به خود از خجالت نام او
سخن آب‌ گشت و عبارتی نشکافت رمز تبسمش
تک وتاز حسرت موج می نرسید تا خط جام او
نه سری‌که سجده بناکند نه لبی‌که ترک ثناکند
به‌کدام مایه اداکند عدم ستمزده وام او
سر خاک اگربه هوا رسد چونظرکنی ته پا رسد
نرسیده‌ام به عمارتی‌که ببالم از در و بام او
به بیانم آن طرف سخن به تامل آنسوی وهم و وظن
ز چه عالمم‌که به من ز من نرسیده غیرپیام او
تک و پوی بیهده یافتم به هزار کوچه شتافتم
دری از نفس نشکافتم‌که رسم به‌گرد خرام او
به هوا سری نکشیده‌ام به نشیمنی نرسیده‌ام
ز پر شکسته تنیده‌ام به خیال حلقهٔ دام او
نه دماغ دیده‌گشودنی نه سر فسانه شنودنی
همه را ربوده غنودنی به‌کنار رحمت عام او
زحسد نمی‌رسی ای دنی به عروج فطرت بیدلی
تو معلم ملکوت شو که نه‌ای حریف‌ کلام او
 

محمد وارث

لائبریرین
کی بُوَد دل بستگی ما را بہ اہلِ روزگار
دامنِ دریا گرفتارِ خس و خاشاک نیست


محسن فانی کاشمیری

دنیا والوں کے ساتھ ہماری دل بستگی کیسے ہو کہ دریا کا دامن کبھی خس و خاشاک میں نہیں اُلجھتا۔
 
هر شبی گويم که: فردا ترکِ اين سودا کنم
باز چون فردا شود، امروز را فردا کنم
(هلالی چغتایی)

ہر شب میں کہتا ہوں کہ فردا (آنے والا کل) میں اس سودا (عشق) کو ترک کروں گا. پھر جب فردا ہوجاتی ہے تو میں امروز (آج) کو فردا کردیتا ہوں.
 

محمد وارث

لائبریرین
گذشتگاں کہ ز تشویشِ ما و من رَستند
مقیمِ عالمِ یارند ہر کجا ہستند


ابوالعانی میرزا عبدالقادر بیدل

(اِس دنیا سے) چلے جانے والے کہ وہ ما و من کی تشویش (دنیاوی جھگڑوں) سے نجات پا گئے، وہ اب محبوب کی دنیا میں مقیم ہیں، جہاں کہیں بھی ہیں۔

(دوسرے مصرعے میں 'عالمِ یارند' کی بجائے 'عالمِ نازند' بھی ملتا ہے۔)
 
مظهرِ انوارِ ربانی، حسینِ بن علی
آن که خاکِ آستانش دردمندان را شفاست
(صائب تبریزی)

انوارِ ربانی کے مظہر وہ حسین ابنِ علی (علیہ سلام) ہیں جن کی خاکِ آستان دردمندوں کے لئے شفا ہے۔
 
تکیه‌گاهش بود از دوشِ رسولِ هاشمی
آن سری کز تیغِ بیدادِ یزید از تن جداست
(صائب تبریزی)

وہ سر، جو یزید کی شمشیرِ ستم کی وجہ سے تن سے جدا ہوا ہے، اس کی تکیہ گاہ رسولِ ہاشمی ﷺ کا دوش (کندھا) تھا ۔
 
حضرت حسین (علیہ سلام) کے برائے ایک قصیدہ میں صائب تبریزی کہتے ہیں:

مغزِ ایمان تازه می‌گردد ز بویِ خاکِ او
این شمیمِ جان‌فزا با مشک و با عنبر کجاست؟
(صائب تبریزی)

مغزِ ایمان ان کی خاک کی بُوئے (خوش) سے تازہ ہوتی ہے۔یہ جاں‌فزا بوئے خوش مشک و عنبر کے ساتھ کہاں ہے؟
 
Top