برائے اصلاح

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن


خط
میں نے خط جو تم کو لکھا ہے
فرصت جو ملے سب کاموں سے
اک بار اسے پڑھ لینا تم
خط میرا جب تم کھولو گی
تو خط بھی تم سے بولے گا
سب راز یہ دل کے کھولے گا
اس خط کو عام نہ سمجھو تم
مرے دل کی باتیں ہیں یہ سب
جھوٹے نہ یہ میرے وعرے ہیں
جھوٹی نہ یہ میری قسمیں ہیں
مرے عشق کے سچے جذبے سب
الفاظ میں میں نے ڈھالے ہیں
کچھ عشق کے سچے شعر بھی ہیں
مرے عشق کے دلکش اس خط میں
دل کے رنگیں صفحوں پر ہی
چاہت کی قلم سے میں نے جاں
اور خون جگر کی سیاہی سے
الفاظ یہ سارے لکھے ہیں
مرے سچے عشق کے لفظ ہی تو
تم کو یہ گواہی ہیں دیتے۔
تم میرے چاند ہو تارے ہو۔
تم جان سے مجھ کو پیارے ہو۔
ہاں جان سے مجھ کو پیارے ہو
یاسر علی میثم
 

الف عین

لائبریرین
نظم کے بہت موضوعات ہو سکتے ہیں، لیکن تم رومانی ہی کیوں کہتے ہو؟ یہی خیال غزل کے ایک شعر میں آتا تو تاثیر بہتر ہوتی۔
دوسری بات یہ کہ جب ہم وزن مصرعے ہوں تو بہتر ہے کہ ان میں قوافی استعمال کر کے کچھ بند نما حصے کر لئے جائیں، اس سے نظم مترنم ہو جاتی ہے اور خوبصورت لگتی ہے.۔
تیسری بات یہ کہ جب قوافی کا التزام نہ ہو تو ایسے ہم وزن مصرعوں میں راست انداز، یعنی نثر کے قریب کا بیانیہ اختیار کیا جائے تاکہ روانی متاثر نہ ہو۔ دیکھو
تم کو یہ گواہی ہیں دیتے۔
اچھا ہے یا
تم کو یہ گواہی دیتے ہیں.....؟
بھرتی کے الفاظ سے بھی بچنا ضروری ہے، جیسے
چاہت کی قلم سے میں نے جاں
جاں بھرتی کا ہے، مزید یہ کہ قلم مذکر ہے!
اس کے علاوہ اہم خامیوں میں 'سیاہی' فعولن کے وزن پر ہے، فعلن نہیں۔
 

یاسر علی

محفلین
نظم کے بہت موضوعات ہو سکتے ہیں، لیکن تم رومانی ہی کیوں کہتے ہو؟ یہی خیال غزل کے ایک شعر میں آتا تو تاثیر بہتر ہوتی۔
دوسری بات یہ کہ جب ہم وزن مصرعے ہوں تو بہتر ہے کہ ان میں قوافی استعمال کر کے کچھ بند نما حصے کر لئے جائیں، اس سے نظم مترنم ہو جاتی ہے اور خوبصورت لگتی ہے.۔
تیسری بات یہ کہ جب قوافی کا التزام نہ ہو تو ایسے ہم وزن مصرعوں میں راست انداز، یعنی نثر کے قریب کا بیانیہ اختیار کیا جائے تاکہ روانی متاثر نہ ہو۔ دیکھو
تم کو یہ گواہی ہیں دیتے۔
اچھا ہے یا
تم کو یہ گواہی دیتے ہیں.....؟
بھرتی کے الفاظ سے بھی بچنا ضروری ہے، جیسے
چاہت کی قلم سے میں نے جاں
جاں بھرتی کا ہے، مزید یہ کہ قلم مذکر ہے!
اس کے علاوہ اہم خامیوں میں 'سیاہی' فعولن کے وزن پر ہے، فعلن نہیں۔

محترم دراصل یہ نظمیں سکول اور کالج کے ابتدائی ادوار میں لکھی تھیں۔آپ سمجھ سکتے ہیں کہ سکول اور کالج کے جذبات کیا ہوتے ہیں۔اور اس کے بعد جب کالج چھوڑا تو مصروفیت بڑھ گئی تو شاعری بھی ترک کردی ۔اور میں پہلے کبھی کسی سے براہ راست اصلاح بھی نہیں لی۔اس لئے مجھے شاعری کے محاسن اور عیوب کا کچھ بھی نہیں بتا تھا۔
ایک دن اردو ویب پر گیا تو سلسلہ اصلاح سخن میں دیکھا تو کئی نوآموز شعرا کی اصلاح بہت اچھے طریقے سے کئی گئی۔پھر میں نے بھی سوچا کی میں بھی اصلاح کےلئے کلام پیش کروں۔اکاؤنٹ بنا کر اب اصلاح کےلئے کلام کر رہا ۔مطلب ابھی ابتدائی اسٹیج سے گزر رہا ہوں۔
مجھے لگتا ہے کہ مرے کچھ بہتری آ رہی ہے۔
سکول کے ادوار کی لکھی ہوئی نظموں اصلاح ہو جائے گی تو۔
دوسرے موضوعات پر لکھنے کی کوشش کروں گا۔
شکریہ
 
یہی خیال غزل کے ایک شعر میں آتا تو تاثیر بہتر ہوتی۔
استادِ محترم کی اس بات سے ایک لطیفہ یاد آگیا، شفیق الرحمن کی کتاب شگوفے سے
لکھتے ہیں
’’۔۔۔ ایک اور صاحب ملے، جو نہایت معقول دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نہ صرف ہمارا استقبال کیا بلکہ ایک شعر بھی پڑھا۔ پھر فرمائش کی کہ کوئی اچھا سا شعر انہیں سنایا جائے۔ ایک لڑکے نے یہ شعر پڑھا ؎
ترے کوچے اس بہانے، مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا!
کیا تو وہ مسکرا رہے تھے اور کیا یکلخت غمگین ہوگئے۔ بولے ’’یہ شاعری ہے؟ کیا اسے شاعری کہا جاتا ہے؟ افسوس ہے آپ لوگوں کی ذہنیت پر، اور ملک کی حالت پر۔ جو شاعری غدر کے زمانے تھی، وہی اب تک چلی آتی ہے۔ توبہ توبہ یہ ہم لوگ بھی کتنے قدامت پسند ہیں؟ آج کل نئے نئے ہتھیار آگئے ہیں، لیکن ہمارے ہاں وہی خنجر، نیمچہ اور کٹارا استعمال کرتے ہیں۔ نہ کہیں پستول کا ذکر ہے نہ رائفل کا۔ ایک سے ایک اچھا ساز رائج ہے ۔۔۔ وائلن، کلاریونٹ، گٹار، لیکن ہمارے شعروں سے بانسری اس بری طرح چمٹی ہے کہ اسے پنشن ہی نہیں ملتی!‘‘

ہم اس مدلل گفتگو پر حیران رہ گئے۔

’’تو کیا یہ شعر جو ابھی پڑھا گیا ہے، غلط تھا؟‘‘، کسی نے پوچھا۔

’’تعجب ہے کہ آپ لوگ اب بھی اسے شعر ہی سمجھ رہے ہیں، ذرا پھر پڑھیے‘‘

انہوں نے دوبارہ شعر سنایا۔
وہ کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے ۔۔۔ ’’یہی خیال اگر اس طرح ظاہر کیا جاتا تو بہتر ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھندلی دھندلی شام کے لمحات میں
کام سے فرصت ہو جب
سائیکل لے کر کرائے کی، ترے کوچے کا رخ
سائیکل بے لیمپ اور ہر دم کرائے کا خیال!
عاشقی کی یہ روایاتِ قدیم
کہ ترے کوچے میں ہر رہگیر سے باتیں کروں
ہر جوان و پیر سے باتیں کروں
اور ٹریفک کے سپاہی کا بھی فکر
جانے کب سیٹی بجا کر آ پڑے
اور پوچھے سائیکل کا لیمپ ہے حضّت کہاں؟

آہ یہ مجبوریاں!
غیر کاروں میں پھریں
اور
ہم عشاق کو
سائیکل، وہ بھی کرائے کی ملے
ہائے رے ظالم سماج!
یاد آتا ہے ہمیں
دھندلی دھندلی شام کے لمحات میں
جانا کوچے میں ترے!
۔۔۔۔۔۔۔
دیکھیے کس قدر بہتر چیز ہو گئی ہے!‘‘ انہوں نے فاتحانہ انداز سے ہمیں دیکھا۔‘‘
:)
 
آخری تدوین:
Top