خدایا یہ تیری جنت

کیا اس میں شک ہے کہ میڈیا عیاش اور اوباش لوگوں کا اڈہ ہے؟؟؟
یہ لوگ تہجد میں اللہ کے حضور مناجات میں خونِ جگر بشکل آنسو پیش کرنے کی ترغیب تو نہیں دیں گے۔۔۔
اور جس چیز کی ترغیب دیں گے وہ سب کے سامنے ہے!!!
آگے دیکھیئے رمضان ٹرانمشن کے نام پر کیا تماشے لگائے جائیں گے۔
 

سید عمران

محفلین
آگے دیکھیئے رمضان ٹرانمشن کے نام پر کیا تماشے لگائے جائیں گے۔
جی ہاں۔۔۔
لوگوں کے عقائد تو بگاڑے۔۔۔
اب اعمال سے بھی محرومی۔۔۔
سال میں ایک بار تو بھلے لوگ رج کے عبادت کرلیا کرتے تھے۔۔۔
اب یہ باب بھی بند ہوا!!!
 

با ادب

محفلین
جی ہاں۔۔۔
لوگوں کے عقائد تو بگاڑے۔۔۔
اب اعمال سے بھی محرومی۔۔۔
سال میں ایک بار تو بھلے لوگ رج کے عبادت کرلیا کرتے تھے۔۔۔
اب یہ باب بھی بند ہوا!!!
فتنوں کا دور ... . . سورہ کہف پڑھئیے دجالی فتنوں سے محفوظ رہیئے. اللہ دیدہء بینا دے آمین
 

نور وجدان

لائبریرین

شکیب

محفلین
سوچا نہ تھا کہ کبھی ہماری یہ پوسٹ غیروں کے ہتھے یوں چڑھے گی کہ ہمارا نام و نشاں بھی باقی نہ رہے گا۔۔۔
رہے نام اللہ کا!!!
پوسٹ اوپر لانے کے لیے شکریہ، ہم تو محروم ہی رہ جاتے۔

ہم تو یہ سمجھیں گے ہماری نظر سے گزارنے کے لیے اللہ نے اس کاپی پیسٹ کو ذریعہ بنایا۔

کیا ہی خوب تحریر ہے اور کیا یا انداز ہے ما شاء اللہ۔ اور پھر افراط و تفریط سے پاک۔ روح تک خوش ہو گئی۔ بارک اللہ فی علمک و عملک۔ جزاک اللہ خیرا۔

شیئرنگ۔
 

سیما علی

لائبریرین
سوچا نہ تھا کہ کبھی ہماری یہ پوسٹ غیروں کے ہتھے یوں چڑھے گی کہ ہمارا نام و نشاں بھی باقی نہ رہے گا۔۔۔
رہے نام اللہ کا!!!
بڑی افسوسناک صورتحال ہے ۔ایسا نہیں ہے سید صاحب آپکا نام ایسا نہیں کہ نام و نشاں باقی نہ رہے گا
ایسے لوگ نہ رہیں گے انشاءاللہ،
جنوں سے کھیلتے ہیں، آگہی سے کھیلتے ہیں
یہاں تو اہلِ سخن آدمی سے کھیلتے ہیں۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
پوسٹ اوپر لانے کے لیے شکریہ، ہم تو محروم ہی رہ جاتے۔

ہم تو یہ سمجھیں گے ہماری نظر سے گزارنے کے لیے اللہ نے اس کاپی پیسٹ کو ذریعہ بنایا۔

کیا ہی خوب تحریر ہے اور کیا یا انداز ہے ما شاء اللہ۔ اور پھر افراط و تفریط سے پاک۔ روح تک خوش ہو گئی۔ بارک اللہ فی علمک و عملک۔ جزاک اللہ خیرا۔

شیئرنگ۔
درست کہا آپ نے بہت عمدہ تحریر ہے، روح سرشار ہو گئی ۔۔۔۔۔واقعی ورنہ ہم محروم ہی رہتے۔بہت شکریہ عمران صاحب۔سلامت رہیے۔۔۔۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ماشااللہ عمران بھائی ۔ بہت پراثر تحریر ہے آپکی۔ اللہ ہم سب کو وہ مبارک دن دیکھنا نصیب فرمائے جس کی آپ نے منظر کشی کی ہے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
ماشا اللہ ۔۔۔ سبحان اللہ ۔ ۔ بہت عمدہ تحریر ۔ ۔
دل و دماغ کو کیسے تراوٹ کیسے ٹھنڈک ملی ہے ۔ ۔ جزاک اللہ

بارہا یہ الفاظ گونجے ۔ ۔

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

اللہ آپ کے قلم میں طاقت و برکت دے ۔ ۔ آمین
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
سید عمران بھائی اتنی پرانی تحریر آج پڑھی ۔ واہ ماشاء اللہ بہت پسند آئی ۔ خوب سے خوب تر الماس جڑے ہیں کہ ہر ہر نگینے کے پیچھے ایک خاص معانی کا جڑاؤ سانچہ بھی ڈھلا نظر آتا ہے ۔ اللہ تعالی قبول کرے ۔
 

سیما علی

لائبریرین
سید عمران بھائی اتنی پرانی تحریر آج پڑھی ۔ واہ ماشاء اللہ بہت پسند آئی ۔ خوب سے خوب تر الماس جڑے ہیں کہ ہر ہر نگینے کے پیچھے ایک خاص معانی کا جڑاؤ سانچہ بھی ڈھلا نظر آتا ہے ۔ اللہ تعالی قبول کرے ۔
سید صاحب !!!
بہت خوب صورت الفاظ میں تعریف۔۔۔۔ہر ہر نگینے کے پیچھے ایک خاص معانی کا جڑاؤ سانچہ ڈھلا نظر آتا ہے۔۔
سچ کہا آپ نے عمران صاحب کے الفاظ انتہائی مناسب اور برمحل ہیں گویا موتی پروئے ہوئے ہوں۔۔۔۔ماشاءاللہ
 

سیما علی

لائبریرین
ماشاءاللہ ماشاء اللہ سید صاحب!
ایک مرتبہ،دوسری مرتبہ ،تیسری بار پڑھ کے جو سرور آیا ،الفاظ حق ادا نہ کرسکیں گے،میرے پاس بخدا الفاظ نہیں میرے دل نے جو محسوس کیا اسکی صیحح ترجمانی کر سکیں۔بہت ساری دعائیں آپکے لئیے۔۔
 

سید عمران

محفلین
پوسٹ اوپر لانے کے لیے شکریہ، ہم تو محروم ہی رہ جاتے۔

ہم تو یہ سمجھیں گے ہماری نظر سے گزارنے کے لیے اللہ نے اس کاپی پیسٹ کو ذریعہ بنایا۔

کیا ہی خوب تحریر ہے اور کیا یا انداز ہے ما شاء اللہ۔ اور پھر افراط و تفریط سے پاک۔ روح تک خوش ہو گئی۔ بارک اللہ فی علمک و عملک۔ جزاک اللہ خیرا۔

شیئرنگ۔
شکیب صاحب آپ کی اتنی محبت پر شکرگزارم!!!
 

سید عمران

محفلین
بڑی افسوسناک صورتحال ہے ۔ایسا نہیں ہے سید صاحب آپکا نام ایسا نہیں کہ نام و نشاں باقی نہ رہے گا
ایسے لوگ نہ رہیں گے انشاءاللہ،
جنوں سے کھیلتے ہیں، آگہی سے کھیلتے ہیں
یہاں تو اہلِ سخن آدمی سے کھیلتے ہیں۔۔
سچے جذبات کے اظہار پر بہت شکریہ!!!
 

سید عمران

محفلین
حدیث پاک کی رو سے رمضان کے بابرکت مہینہ کے چار خاص اعمال میں سے ایک عمل اللہ سے کثرت کے ساتھ جنت مانگنا بھی ہے!!!
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
جن لوگوں نے دنیا میں آخرت کی تیاری کے لیے مشقتیں اٹھائیں۔۔۔مصیبتوں پر۔۔۔ بیماریوں پر۔۔۔ لوگوں کی تکلیف دہ باتوں پر۔۔۔ ان کے کالے کرتوتوں پر۔۔۔ اذیتوں پر۔۔۔ رزق کی تنگی پر۔۔۔ جانی مالی نقصان پر۔۔۔ اور۔۔۔ گناہوں سے بچنے پر صبر کیا۔۔۔ سخت سے سخت حالات میں بھی اپنی تقدیر سے۔۔۔ اللہ سے ناراض نہیں ہوئے۔۔۔ کوئی شکوہ نہیں کیا۔۔۔آج ان کے صبر اور برداشت کا انعام مل رہا ہے۔۔۔ آج ان کے چہرے چمک رہے ہیں۔۔۔ مارے خوشی کے دمک رہے ہیں ۔۔۔ ایک طرف اللہ کے رسول ان سے خوش۔۔۔ تو دوسری طرٖف اللہ ان سے راضی۔۔۔ دنیا کی تکلیفیں برداشت کرنا رائیگاں نہیں جارہا ہے۔۔۔ دین پر عمل کرنے میں جو دشواریاں پیش آئیں انہیں سہنا بڑا کام آرہا ہے۔۔۔
آج فرشتے اعلان کررہے ہیں ۔۔۔کائنات کی عظیم الشان کامیابی مبارک ہو۔۔۔دنیا کے رنج و الم کے گھر سے نجات مبارک ہو۔۔۔اب چلو جنت کو۔۔۔ امن و سکون والے گھر کو۔۔۔ رنگ و نور والی دنیا کو۔۔۔ خوشیوں اور شادمانیوں کو۔۔۔ جہاں ہمیشہ موج مستیاں ہیں۔۔۔ بیوی بچوں سے خوش گپیاں ہیں۔۔۔دوستوں کی محفلیں ہیں۔۔۔ دعوتیں ہیں۔۔۔ نعمتیں ہیں۔۔۔ اور وہ کچھ ہے جو ہم بیان نہیں کرسکتے اور تم دیکھے بغیر سمجھ نہیں سکتے۔۔۔
جنت روانگی کے اس عظیم الشان قافلے کی روانگی کا عجیب منظر ہے۔۔۔ دنیا میں تقویٰ سے رہنے والے۔۔۔گناہوں سے بچنے والے۔۔۔نیک اعمال کرنے والے۔۔۔آج گروہ در گروہ جنت کی جانب رواں دواں ہیں۔۔۔گاتے مسکراتے۔۔۔ہنستے ہنساتے۔۔۔نہ کوئی فکر نہ کوئی غم۔۔۔ نہ کوئی پریشانی نہ کسی نقصان کا اندیشہ۔۔۔
جنت کے راستے میں پانی کی ایک نہر ہے۔۔۔ اس کی لطافت۔۔۔ رنگ و روشنی۔۔۔ خوشبو اور مہک کون بیان کرسکتا ہے۔۔۔ کہا جائے گا اس سے غسل کرو۔۔۔ چمکتی دمکتی جنت میں جانے کے لیے خود بھی مہک جاؤ۔۔۔ چمک جاؤ۔۔۔ دمک جاؤ۔۔۔تب جو اس پانی سے نہائے گا۔۔۔معطر ہوجائے گا۔۔۔ رنگ و نور کا سیلاب اس کے جسم پر چھا جائے گا۔۔۔ اس کا لباس بن جائے گا۔۔۔
آگے جو نگاہ گئی۔۔۔ تو جنت کے دروازے پر اٹک گئی۔۔۔ کیا چمک ہوگی۔۔۔ کیا شعاعیں پھوٹ رہی ہوں گی۔۔۔ عقل دنگ اور زبان گنگ ہوجائے گی۔۔۔ جب۔۔۔ نگاہ جمائے ایک عالم گذر جائے گا۔۔۔ تب ۔۔۔ فرشتے کہیں گے۔۔۔ خدا کے ولی۔۔۔ چالیس برس بیت گئے۔۔۔ اب مزید کتنا انتظار؟؟؟ سب کہیں گے کیا یہ حسن کسی جنت سے کم ہے؟؟؟ کیا یہی ہماری جنت نہیں ہے؟؟؟ فرشتے ان کی معصومیت پر مسکرائیں گے۔۔۔ انہیں ترغیب دلائیں گے۔۔۔ آگے کی جانب بڑھنے کی۔۔۔ دائمی گھر میں جانے کی۔۔۔
پھر ۔۔۔ وہ بھی ایک منظر ہو گا جب لاکھوں کروڑوں لوگ جنت کے دروازے سے گذر رہے ہوں گے۔۔۔ بھیڑ کی وجہ سے کندھے سے کندھا چھل رہا ہوگا۔۔۔ ہنسنے بولنے سے رونق میلہ لگا ہوگا۔۔۔اور اس میلے کی رونق بڑھانے۔۔۔ خوشیوں کو چار چاند لگانے۔۔۔ فرشتوں کی ٹولیاں آئیں گی۔۔۔ ایک جائے گی دوسری آئے گی۔۔۔دوسری جائے گی تیسری آئے گی۔۔۔ پررونق چہروں کے ساتھ۔۔۔ نورانی جسموں کے ساتھ۔۔۔ استقبال کرنے کے لیے۔۔۔ خوش آمدید کہنے کے لیے۔۔۔ اھلاَ و سھلاً مرحبا۔۔۔سلامٌ علیکم طِبْتُمْ۔۔۔آئیے۔۔۔تشریف لائیے۔۔۔مبارک۔۔۔ سلامت۔۔۔ امن کے شہر میں۔۔۔ خوشیوں کے دیس میں۔۔۔ نعمتوں کے ملک میں داخلہ مبارک۔۔۔ اب یہاں سے کوئی نہیں نکالے گا۔۔۔ کبھی نہیں نکالے گا۔۔۔
اور۔۔۔ جنت پہلی دفعہ دیکھنے کے باوجود کسی کو اجنبی نہیں لگے گی۔۔۔ جانی پہچانی لگے گی۔۔۔ گویا اس سے کچھ بھولی بسری یادیں وابستہ ہیں۔۔۔ گویا کبھی ہم بھی اسی دیار کے باشندے تھے۔۔۔ گویا کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا۔۔۔آج رحمتِ خداوندی سے مومنوں کو ان کی میراث واپس مل رہی۔۔۔ تاکہ ان کے لیے رحمتوں کا اتمام ہو۔۔۔ نعمتوں کا اہتمام ہو۔۔۔ اور خدا کا فضلِ عام ہو۔۔۔
جنت میں داخل ہوتے ہی۔۔۔۔ فرشتوں کی مبارک سلامت وصول کرتے ہی۔۔۔ سب بکھر جائیں گے۔۔۔ اپنی اپنی جنتوں کی جانب روانہ ہوجائیں گے۔۔۔ خود بخود ہی۔۔۔ اپنے آپ ہی۔۔۔ جیسے وہ برسوں سے ان ہی راستوں پر چلتے رہے ہوں۔۔۔ اچانک راستے میں خوش لباس، خوش شکل، نور کے پیکر ان کو گھیر لیں گے۔۔۔ ان کے قدموں میں قالین بچھائیں گے۔۔۔ خوشبوؤں کی برسات کریں گے۔۔۔ کہیں گے ہم آپ کے خادم ہیں۔۔۔ آپ کے غلام بے دام ہیں۔۔۔ ہم آپ کے باغات تک۔۔۔ آپ کے محلات تک آپ کے ہمراہ ہوں گے۔۔۔
ان باغات۔۔۔ محلات۔۔۔ اور اشجار و انہار کا کیا کہنا۔۔۔ ایک طرف نظر دوڑائی تو دیکھا نعمتوں سے لدے گہرے سبز باغات ہیں۔۔۔ ایک باغ کا سلسلہ ختم ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔۔۔ دوسرا ختم تو تیسراشروع۔۔۔ دوسری طرف دیکھیں گے تو ایک کے بعد دوسرا محل۔۔۔ دوسرے کے بعد تیسرا۔۔۔ چم چم کرتے چاندی کے کلس۔۔۔ شعاعیں بکھیرتے سونے کے مینار۔۔۔ اور سرخ یاقوت کا گنبد سبز باغات کے درمیان ایسا سج رہا ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔۔۔پلٹ کر پیچھے نظر دوڑائی تو سرسبز گھاس پر۔۔۔ رنگ برنگے خوشبو بکھیرتے پھولوں کے درمیان۔۔۔ چمک دار موتیوں کی مانند چھوٹے چھوٹے کم عمر خادم پھر رہے ہیں۔۔۔ کوئی جامِ شراب لارہا ہے تو کوئی گرم گرم کباب۔۔۔
نہریں ہیں کہ کہیں قدموں کو چھو کر گزر رہی ہیں۔۔۔ تو کہیں محل کے نیچے سے بہہ رہی ہیں۔۔۔ اور کہیں ہاتھ میں موجود سونے کی چھڑی کے اشارے سے رُخ بدل رہی ہیں۔۔۔ کہیں ٹھنڈے میٹھے۔۔۔ بے بدل ذائقے والے پانی کی نہریں ہیں ۔۔۔تو کہیں دودھ، شہد اور شراب نہروں کی شکل میں بہہ رہے ہیں۔۔۔ نہروں میں رواں کشتیوں پر بیٹھے سوار کو مچھلیاں پیشکش کرتی ہیں۔۔۔ ہمیں نوشِ جان فرمائیں تو ایسا ذائقہ کہیں نہ پائیں۔۔۔
وہم و گمان سے ماوراء ان حسین مناظر کے طلسم میں گم کتنے عالم گذر جائیں گے۔۔۔ کون جانتا ہے۔۔۔ وہاں کون ہے جو وقت کا حساب رکھے۔۔۔ اعمال کی کتاب لکھے۔۔۔ پھر۔۔۔ اچانک کانوں میں رس گھولتی آواز گونجے گی۔۔۔ جیسے فضاؤں میں گھنٹیاں بج اٹھیں۔۔۔ سُر بکھر گئے۔۔۔ ترنم نے انگڑائیاں لیں۔۔۔ تب وہ چونکے گا۔۔۔ مخاطب کو دیکھے گا ۔۔۔ حسن و جمال کا پیکر جس کی خوبصورتی پر شاعری دم توڑ دے۔۔۔ غزل اپنی ذات پہ شرمندہ ہوکر منہ چھپاتی پھرے۔۔۔ سورج کی روشنی اندھیر ہوجائے۔۔۔ اور۔۔۔ چاند اپنی بے رونقی پر خاک اُڑائے۔۔۔
اس پیکر حسن و جمال کے سر کا ایک ایک بال اپنی تعریف خود کروائے گا۔۔۔ دانتوں کو موتی سے تشبیہ دینا ان کی توہین ہے۔۔۔ کیوں کہ۔۔۔ موتیوں سے نور نہیں نکلتا۔۔۔ کئی کئی لباس میں ملبوس ہونے کے باوجود ایک ایک لباس الگ الگ نظر آئے گا۔۔۔ لباس کا گھیر اتنا طویل کہ سینکڑوں حسین خادمائیں قطار اند قطار اس کی کمر سے دور تک جاتا دامن تھامے کھڑی ہوں گی۔۔۔ بڑی بڑی آنکھوں میں معصومیت، حیرت اور انتظار ہوگا۔۔۔ حیرت اس پر کہ بھلا میرے ہوتے ہوئے کسی اور جانب بھی نظر اٹھ سکتی ہے۔۔۔ اور انتظار اس بات کا کہ ہجر مزید کتنا طویل ہوگا!!!
دوستوں یاروں کی محفل کا۔۔۔ مجلس کا۔۔۔ بے تکلفی کا الگ ہی مزا ہے۔۔۔ دسترخوان اتنا وسیع کہ سینکڑوں ہزاروں لوگ بیٹھے ہیں لیکن سب نظر کے اتنا نزدیک جیسے سامنے بیٹھے ہوں۔۔۔ اس دعوت میں شور ہوگا۔۔۔ ہنگامہ ہوگا۔۔۔ چھینا جھپٹی ہوگی۔۔۔ بد مزگی کوئی نہ ہوگی۔۔۔ شراب کا جام لیے موتی جیسے خادم اس انداز سے حاضر ہوں گے کہ سونے کے شفاف جام میں سرخ چمکتی شراب دور سے نظر آئے گی۔۔۔ یہ دنیا کی شراب کی طرح ناپاک نہ ہوگی۔۔۔ بدبودار نہ ہوگی۔۔۔بد ذائقہ نہ ہوگی۔۔۔ بد رنگ بھی نہ ہوگی۔۔۔ اسے پی کر نہ کوئی بے ہوش ہوگا۔۔۔نہ الٹیاں ہوں گی۔۔۔ اورنہ ہی کسی کے سر میں درد ہوگا۔۔۔اِدھر غلمان۔۔۔ وِلدان ۔۔۔ سرخ جام ہتھیلی پر دھرے حاضر ہوں گے۔۔۔ اُدھر درختوں کی شاخیں جھکی چلی آئیں گی۔۔۔ اپنے ثمر لُٹا ئیں گی۔۔۔ فضاؤں سے بھنے ہوئے پرندے اور دریاؤں سے تلی ہوئی مچھلیاں آئیں گی۔۔۔ اور ان کی بچی ہوئی ہڈیاں دوبارہ زندہ ہوکر واپس چلی جائیں گی۔۔۔ کیوں کہ جنت میں کسی کو موت نہیں۔۔۔ کسی کو بھی نہیں!!!
ایک دن۔۔۔ اچانک۔۔۔ یکایک ۔۔۔ معلوم ہے کیا ہوگا؟؟؟ عجب سماں ہوگا۔۔۔ جنت کا نور ایسا نکھرے گا کہ کبھی کسی نے نہ دیکھا ہوگا۔۔۔ فرشتوں میں ہل چل مچ جائے گی جیسے کوئی عظیم الشان واقعہ رونما ہونے والا ہو۔۔۔ تب ۔۔۔سب اوپر کی طرف۔۔۔ اس نور کی طرف دیکھنے لگیں گے۔۔۔ جو ہر آن۔۔۔ ہر لحظہ۔۔۔ ہر لمحہ بڑھ رہا ہے۔۔۔ پھر اس حجاب سے۔۔۔ نور کے نقاب سے۔۔۔ کائنات عالم کے خالق۔۔۔ جنت کے مالک۔۔۔ مخلوقات کے رب۔۔۔ عزتوں کے رب۔۔۔ اللہ رب العزت بذات خود اپنی شان کے مطابق جنتیوں کو مخاطب کریں گے۔۔۔ شور و مستیوں کی ۔۔۔رنگ و نور کی اس جنت میں چاروں طرف سناٹا چھایا ہے۔۔۔ سانس سینوں میں رُک گئی ۔۔۔ پلکیں جھپکنا اور دل دھڑکنا بھول گیا۔۔۔
تب ان کی جانب سے سلام ہوگا۔۔۔ لطف آفریں کلام ہوگا۔۔۔ اللہ ایک ایک جنتی سے اس کا حال پوچھیں گے۔۔۔ پوچھیں گے تمہیں یہاں کوئی تکلیف تو نہیں؟؟؟ کسی چیز کی کمی تو نہیں؟؟؟ تم یہاں خوش تو ہو؟؟؟ تب سب کہیں گے۔۔۔ ہمیں امیدوں سے بڑھ کر ملا، گمان سے زیادہ پایا، جن کے حق دار نہ تھے وہ نعمتیں ملیں۔۔۔ ہماری اوقات سے زیادہ نوازا گیا۔۔۔ اب نہ کوئی حسرت ہے نہ آرزو۔۔۔ مگر یہ کہ آپ ہوں ہمارے روبرو!!!
تو اللہ کہیں گے کہ اچھا آجاؤ میدانِ مزید میں۔۔۔ یہاں دیدار عام ہوگا۔۔۔ کوئی محروم نہ ہوگا۔۔۔ سب کشاں کشاں اس میدان کی جانب چلیں گے جس کانام ’’مزید‘‘ ہے۔۔۔ اعلان ہوگا منبر سجایا جائے۔۔۔داؤد علیہ السلام کو بٹھایا جائے۔۔۔ پھر داؤد ہوں گے اور زبور کے نغمے۔۔۔ خدا کی حمد کے ترانے۔۔۔ ایک سماں ہوگا۔۔۔ سب دم بخود ہوں گے۔۔۔ ایک زمانہ گذرے گا تو یہ سحر ٹوٹے گا۔۔۔ جب داؤد خاموش ہوں گے تو اعلان ہوگا۔۔۔ منبر سجایا اور محمد کو بٹھایا جائے۔۔۔ صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم۔۔۔ آج وجد میں سارا جہاں ہے کہ رسول عربی کی زباں ہے اور تلاوتِ قرآں ہے۔۔۔
آپ خاموش ہوں گے تو عالم پہ سناٹا طاری ہو گا۔۔۔ اربوں کھربوں لوگ ہوں گے لیکن سانسوں کی بھی آواز نہ ہوگی۔۔۔ پھر خداوندِ عالم کہیں گے۔۔۔ اب مجھ سے بھی کچھ سنو۔۔۔ اب میں اپنے بندوں کو۔۔۔ جنت کے مہمانوں کو سناؤں گا۔۔۔ پھر ان کی کیا شان ہوگی۔۔۔ ناقابل بیان ہوگی۔۔۔ تعریف سے لغت حیران ہوگی۔۔۔ بلاغت پریشان ہوگی۔۔۔ پھر جب اللہ تعالیٰ خاموش ہوں گے۔۔۔ تب۔۔۔ نگاہ مشتاق ہوگی۔۔۔ روح بے تاب ہوگی۔۔۔ کہ کب وعدۂ خدا پورا ہوگا۔۔۔ جن کی خاطر دُکھ جھیلے ان کا وصل ہوگا۔۔۔ آخر جنت کے داروغہ رضوان کو حکم ہوگا۔۔۔ یا رضوان ارفع الحجب۔۔۔ اے رضوان ہمارے اور ہمارے بندوں کے درمیان سے پردے اٹھانا شروع کرو۔۔۔ حکم کی تعمیل ہوگی۔۔۔ ایک ایک کرکے حجاب اٹھتے جائیں گے۔۔۔ دل خاموش ۔۔۔ سانس خاموش۔۔۔ نگاہیں متجسس۔۔۔ کب دیدار عام ہوگا۔۔۔ جلوہ تام ہوگا۔۔۔ یہاں تک کہ سارے حجاب اٹھ جائیں گے۔۔۔ آج لوگ اپنے خدا کو دیکھیں گے۔۔۔ مسکراتا ہوا۔۔۔ راضی اور خوش۔۔۔ نور ہی نور۔۔۔اللہ نور السموات و الارض!!!
لذت و انبساط کا یہ عالم ہوگا کہ کسی کو یاد نہ ہوگا کہاں کی جنت، کون سی حوریں۔۔۔ محبوب رب سامنے ہے۔۔۔ حواس گم ہیں۔۔۔ رخِ جلوۂ جاناں کے سامنے جنت ہیچ۔۔۔ حوریں ہیچ۔۔۔ ہر نعمت ہیچ۔۔۔ مخلوق اور خالق کا کیا مقابلہ ۔۔۔ اللہ خالق ہے۔۔۔ اللہ اللہ ہے۔۔۔ اللہ لا مثل لہُ ہے۔۔۔ سب کہیں گے بس خدا ہو اور ہم ہوں۔۔۔ یہ منظر یوں ہی قائم رہے۔۔۔
تب۔۔۔ مدتوں بعد۔۔۔ حجاب دوبارہ گرنے لگیں گے۔۔۔اللہ کہیں گے۔۔۔ بس اب اپنی اپنی جنتوں کو لوٹ جاؤ۔۔۔ ان نعمتوں میں مگن ہوجاؤ جو ہم نے تمہارے لیے بنائی ہیں۔۔۔ ہم نے تمہارے ذرّہ برابر عمل کو بھی ضائع نہیں کیا۔۔۔ ہر عمل کا اجر بڑھا چڑھا کر دیا۔۔۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دیا۔۔۔ اس میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔۔۔ جاؤ لوٹ جاؤ خوشیوں کے گھر۔۔۔ آج میں تم سے ایسا راضی ہوں کہ اب کبھی خفا نہ ہوں گا۔۔۔کبھی ناراض نہ ہوں گا ۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔
کیوں کہ ہم کو تم سے محبت جو بڑی ہے!!!
انتہائی انتہائی انتہائی اعلیٰ۔۔۔۔
 
Top