وزیر اعظم نے ملک کا سیاسی نقشہ جاری کردیا

جاسم محمد

محفلین
اس نقشے میں نئی بات کیا ہے؟
پاکستان کے نئے سیاسی نقشے میں کیا ہے؟
  • عمر دراز ننگیانہ
  • بی بی سی اردو لاہور
4 اگست 2020
اپ ڈیٹ کی گئی 6 گھنٹے قبل
_113805709_flag.jpg

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے منگل کو پاکستان کے 'نئے سیاسی نقشے' کی باقاعدہ رونمائی کی ہے جس میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کو بھی پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔

پاکستان کی طرف سے یہ اقدام اس وقت کیا گیا ہے جب انڈیا کی طرف سے کشمیر کی نیم خود مختاری ختم کرنے کا ایک سال ایک روز بعد مکمل ہو رہا ہے۔ اس موقع پر انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں سخت کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

وزیرِاعظم عمران خان نے رونمائی کے موقع ہر بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'کابینہ کی طرف سے منظوری کے بعد اس نئے نقشے کو پاکستان کے سرکاری نقشے کی حیثیت حاصل ہو گئی اور یہ سکولوں اور کالجوں میں استعمال ہو گا۔'

پاکستان کی طرف سے نئے سیاسی نقشے کے سامنے آنے کے بعد انڈیا کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والی بیان میں کہا گیا کہ 'اس قسم کے مضحکہ خیز دعوے کی کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی بین االاقوامی قبولیت۔'

نئے نقشے میں انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھاتے ہوئے اس پر لکھا گیا ہے 'انڈیا کے غیر قانونی قبضے میں جموں اور کشمیر' جبکہ ساتھ ہی سرخ سیاہی میں درج کیا گیا ہے کہ 'متنازع علاقہ، حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں ہونا ہے۔'

پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کو اپنا حصہ سمجھا ہے اور یہ اس جانب پہلا قدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے تنازع کا واحد حل سکیورٹی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد ہے۔

'پاکستان طاقت کے استعمال سے مسائل کے حل پر یقین نہیں رکھتا، ہم سیاسی جدوجہد کریں گے۔ ہم اقوامِ متحدہ کو بار بار یاد دلاتے رہیں گے کہ آپ نے کشمیر کے لوگوں سے ایک وعدہ کیا تھا جو کہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔'

_112549194_hi055446861.jpg

،تصویر کا ذریعہGOVERNMENT OF PAKISTAN

نئے سیاسی نقشے میں نیا کیا دکھایا گیا ہے؟
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے نئے سیاسی نقشے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس میں گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو پاکستان کے نقشے کا حصہ دکھایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس نقشے سے 'یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل سکیورٹی کونسل کی سفارشات کی روشنی ہی میں ممکن ہے اور دوسرا یہ کہ سیاچن ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا۔'

ان کی طرف سے نئے سیاسی نقشے کی جو تصویر دکھائی گئی اس میں سر کریک اور انڈیا کی ریاست گجرات کے علاقے جوناگڑھ اور مناوادر کو بھی دکھایا گیا ہے۔

سر کریک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 'پاکستان نے انڈیا کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ مغربی حصے کی جانب بڑھ رہا ہے، ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہماری سرحد مشرق کی طرف ہے۔'

_108191115_055688295-1.jpg

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن
انڈیا کی طرف سے کشمیر کی نیم خود مختاری ختم کیے جانے کو ایک سال مکمل ہو رہا ہے

انڈیا کا ردِ عمل کیا ہے؟
پاکستان کی طرف سے نئے سیاسی نقشے کے سامنے آنے کے بعد انڈیا کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 'پاکستان کا طرف سے انڈیا کی ریاستوں گجرات اور اس کے یونین علاقوں کشمیر اور لداخ ہر ناقابلِ مدافعت حق ظاہر کرنا سیاسی طور پر ایک بے معنی مشق ہے۔'

بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈیا نے پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے جاری کیے جانے والا 'نام نہاد نیا سیاسی نقشہ دیکھا ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'اس قسم کے مضحکہ خیز دعوے کی نہ تو کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی بین االاقوامی معتبریت ہے۔'

'درحقیقت یہ نئی کوشش صرف سرحد پار دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کے علاقائی اضافے کے جنون کی حقیقت کو تقویت دیتی ہے۔'

'انتہائی بچگانہ اقدام ہے'
پاکستان کی طرف سے نئے سیاسی نقشے کے اجرا کے حوالے سے بی بی سی نے کچھ مبصرین سے بات کی جن کا کہنا کہ اس نوعیت کے اقدامات سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کو کوئی مدد حاصل نہیں ہو گی۔

لاہور کی پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر شبیر احمد خان کا کہنا تھا پاکستان کا جو سیاسی نقشہ نیا کہہ کر پیش کیا گیا ہے اس میں کچھ زیادہ نہیں ہے۔ پاکستان پہلے بھی 'کشمیر میں اپنے زیر انتظام کشمیر کو دکھانے کے لیے نقشے پر لائن آف کنٹرول کو نقطوں کی لائن لگا کر دکھاتا تھا۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ اس کو بھی ختم کر دیا جائے تو وہ ہٹا دی گئی۔'

تاہم شبیر احمد خان کا کہنا تھا کہ اس نقشے کو جاری کرنے کے پیچھے جو مقصد ہے 'وہ پاکستان کی طرف سے ایک انتہائی قابلِ شرم اور بچگانہ اقدام ہے۔ یہ کوئی علامتی پیغام بھی نہیں ہے۔ بڑی طاقتیں ایک دوسرے کو اس طرح اکساتی نہیں ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'اس طرح نقشے بنانے سے یا کسی شاہراہ کا نام سرینگر شاہراہ رکھنے سے کوئی اس کو تسلیم تھوڑی کر لے گا۔' ان کا کہنا تھا کہ ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے ذمہ دار حکومتیں کسی دوسری بڑی طاقت کا ان طریقوں سے اکساتی نہیں ہیں۔

'اس طرح کے نقشوں کو بین الاقوامی حمایت نہیں مل سکتی'
تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس نوعیت کے اقدامات سے حکومت اندرونی سطح پر جذبات کو خوش کر سکتی ہے تاہم 'بین الاقوامی حمایت اس طرح بنائے گئے نقشوں کو نہیں ملتی۔'

اس کا کہنا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کے حقیقی حل کے لیے اب بھی پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا ہو گی۔

حسن عسکری رضوی کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئے سیاسی نقشے میں کچھ زیادہ ایسا نہیں ہے جو نیا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ سنہ 1971 سے قبل پاکستان ریاست جونا گڑھ کو سیاسی نقشے کا حصہ دکھاتا تھا تاہم بعد ازاں اس کو نکال دیا گیا تھا۔

_109511508_gettyimages-1178435248.jpg

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن
پروفیسر شبیر احمد خان کے مطابق کوئی بھی ملک ایسا نہیں کرتا کہ وہ کسی متنازع علاقے کو اپنا علاقہ ظاہر کردے

'پاکستان کے علاقوں کا تعین آئین کرتا ہے'
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے یہ اقدام نقشوں کی اس جنگ کا ردِ عمل ہو سکتا ہے جو گذشتہ کچھ عرصے سے خطے میں جاری ہے جیسا کہ نیپال اور انڈیا کے درمیان تنازع پر نیپال نے ایک نقشے پر متنازع علاقے کو اپنے علاقے میں شامل دکھایا۔

تاہم ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے مطابق 'متنازع علاقوں کے حل کے لیے پھر بھی پاکستان کو بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔'

ان کا کہ بھی کہنا تھا کہ اس قسم کے نقشوں کی اجرا میں قانونی سقم بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں شامل علاقوں کا تعین پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 1 کرتا ہے۔ اس طرح پاکستان کے علاقوں میں اضافہ پارلیمان کی جانب سے ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں قانونی سقم بھی موجود ہیں۔'

'تو کیا آپ نے تسلیم کر لیا کہ تنازع ختم ہو گیا؟'
پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر شبیر احمد خان کے مطابق اس طرح کے نقشے جارے کرنے کے اقدامات الٹا آپ کے خلاف بھی جا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ملک ایسا نہیں کرتا کہ وہ کسی متنازع علاقے کو اپنا علاقہ ظاہر کردے۔ ان کا کہنا تھا حتیٰ کہ ایسے ملک جنہوں نے کسی علاقے پر قبضہ کر رکھا ہو وہ بھی اس علاقے کو اپنا حصہ ظاہر نہیں کرتے۔

'اس طرح کے یکطرفہ اقدام سے کیا آپ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ تنازع ختم ہو گیا۔ کل کو اگر آپ بین الاقوامی سطح پر جا کر یہ کہتے ہیں کہ فلاں علاقہ متنازع ہے تو ہو سکتا ہے وہ تسلیم نہ کریں۔ وہ کہیں گے کہ جی ہم نے آپ کا سرکاری طور پر جاری نقشہ دیکھا ہے اس میں تو یہ متنازع علاقہ نہیں ہے۔'

'نقشہ نگاری کا فریب نظر': سوشل میڈیا پر ردِ عمل
پاکستان کی طرف سے نیا سیاسی نقشہ جاری کرنے کے ساتھ ہی سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یہ عنوان ایک ٹرینڈ کے طور پر ابھرا جہاں چند افراد نے اس پر پاکستان کے وزیرِاعظم کو سراہا۔

ریحان علوی نامی ایک صارف کا کہنا تھا کہ 'یوں تو علامتی ہے لیکن یہ حکومت کا ایک ماسٹر سٹروک ہے۔ اس سے یقیناً ایک بحث چھڑے گی اور بین الاقوامی برادری کو ایک مضبوط پیغام جائے گا۔'

طلحہ مصطفوی نامی دوسرے ایک صارف نے لکھا کہ 'یقین کریں یا نہیں آج کی صدی ٹینکوں اور میزائیلوں سے جنگ کرنے کی نہیں ہے۔ یہ بیانیے، میڈیا، ڈپلومیسی اور سیاسی دانشمندی کا وقت ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے پاکستان افواج کے ساتھ الائنس نے پاکستان کے سفارتی مقام کو انتہائی نیچے سے اٹھا کر مطلوبہ سطح پر پہنچا دیا ہے۔'

تاہم تویٹر پر کئی صارف پاکستان کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر سوالات اٹھاتے بھی نظر آئے۔

ماہ زالہ خان نامی ایک صارف نے لکھا کہ 'ایک سوال ہے، کیا یہ پاکستان کا نیا نقشہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم یا استعمال کیا جائے گا؟ مجھے سمجھ نہیں آئی۔'

اسی طرح ایک صارف ولید طارق نے نقشے کی تصویر کے ساتھ صرف اتنا لکھا 'نقشہ نگاری کا فریب نظر۔'

بعیمان نامی ایک صارف نے لکھا کہ 'اور ایسے کرائیں گے ہم کشمیر آزاد، گانے بنا کر اور اسے نقشے میں شامل کر کے اور امید کریں گے کہ ایک دن یہ سچ ہو جائے گا۔'
 

ابو ہاشم

محفلین
کچھ عرصہ قبل بھارت نے بھی ایک نقشہ جاری کیا تھا جس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا تھا
 
پرانے نقشوں کے مقابلہ میں:
  • سر کریک کا اضافہ
  • فاٹا کے پی کے میں ضم شدہ
  • مشرقی کشمیر کے علاوہ باقی سارا کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ
Eel4N7bXgAU2-SX

new-map-big-jpg.658465

ان دونوں نقشوں میں میں جغرافیائی حدبندی میں فرق تلاش کرنے پر انعام ہونا چاہیے!!!
ملکی تاریخ میں پہلی بار ’’نقشے باز‘‘ حکومت آئی ہے ۔۔۔ جس کا خیال ہے کہ ’’کشمیر‘‘ ہائی وے کا نام ’’سرینگر‘‘ ہائی وے کرنے سے ’’کشمیر‘‘ کا مسئلہ مزید اجاگر ہوگا!!!
سبحان اللہ!
 
اگر اس ’’نئے نقشے‘‘ میں ہم نے کشمیر کو بطور اپنا ’’اٹوٹ انگ‘‘ شامل کیا ہے تو کیا اس بات کی ترجمانی کے لئے آئینِ پاکستان کی متعلقہ دفعات میں ترمیم کی گئی ہے، جن میں پاکستان کی جغرافیائی حدود کا تعین کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ جب ۷۳ کا آئین تشکیل دیا گیا تھا تو پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا تھا، اور آئین کے مطابق بنگلہ دیش کا علاقہ بدستور مشرقی پاکستان تھا!
1974 میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر جب بنگلہ دیش کو تسلیم کیا گیا تو پہلی آئینی ترمیم ہی یہی کی گئی تھی کہ مشرقی پاکستان کا ذکر حذف کیا گیا تھا۔

مزید سوال یہ کہ اگر نقشے میں کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ دکھایا گیا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ہمارا وہ غیر متنازعہ علاقہ ہے جو دشمن کے قبضے میں ہے ۔۔۔ کیا ہم نے دشمن سے اپنا علاقہ بازیاب کروانے کے لئے کوئی حکمت عملی ترتیب دی ہے؟ یا بس ہر سال ایک گانا ریلیز کرنے پر ہی تکیہ کیا جائے گا!

مشہور شاعر جناب سجادؔ علی نے کیا خوب فرمایا ہے
الٹے سیدھے راگ پاٹ نہ سنائیے
’’نقشے بازی‘‘ کسی اور کو دکھائیے! :)
 

جاسم محمد

محفلین
ان دونوں نقشوں میں میں جغرافیائی حدبندی میں فرق تلاش کرنے پر انعام ہونا چاہیے!!!
ملکی تاریخ میں پہلی بار ’’نقشے باز‘‘ حکومت آئی ہے ۔۔۔ جس کا خیال ہے کہ ’’کشمیر‘‘ ہائی وے کا نام ’’سرینگر‘‘ ہائی وے کرنے سے ’’کشمیر‘‘ کا مسئلہ مزید اجاگر ہوگا!!!
سبحان اللہ!
 

جاسم محمد

محفلین
مزید سوال یہ کہ اگر نقشے میں کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ دکھایا گیا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ہمارا وہ غیر متنازعہ علاقہ ہے جو دشمن کے قبضے میں ہے ۔۔۔ کیا ہم نے دشمن سے اپنا علاقہ بازیاب کروانے کے لئے کوئی حکمت عملی ترتیب دی ہے؟ یا بس ہر سال ایک گانا ریلیز کرنے پر ہی تکیہ کیا جائے گا!
حکمت عملی سے کیا مراد ہے؟ کیا آپ بھارت سے جنگ کی بات کر رہے ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
بھائی صاب اگر بات ارشاد بھٹی کے ٹوئیٹس تک آگئی ہے تو بہتر ہے کہ صلح کر لیں :)
میرا خیال ہے کہ ہمیں اب مغالطوں کی دنیا سے باہر آجانا چاہیے، اور کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے تاریخی اور اصولی موقف کا ادراک کرنا چاہیے۔
بھارت نے کشمیر پچھلے سال اپنے نقشے میں شامل نہیں کیا، بلکہ وہ ہمیشہ سے ہی سابق ریاستِ کشمیر کی مکمل جغرافیائی حدود کو اپنے سرکاری نقشوں میں اپنے ملک کا حصہ دکھاتا آیا ہے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ بھارتی آئین کی رو سے سابق ریاستِ جموں کشمیر بھارتی مملکت کا حصہ ہے، جس کا قانونی جواز ان کی نظر میں مہاراجہ ہری سنگھ ڈوگرا کی جانب سے دستاویزِ الحاق پر دستخط کرنا ہے۔
سو بھارتی حکومت کے مطابق کشمیر 1950 سے ہی بھارت کا آئینی حصہ ہے۔
اس کے برعکس پاکستان نے کبھی بھی سابق ریاستِ جموں کشمیر کے اپنے زیر انتظام علاقوں کو اپنی آئینی حدود میں ضم نہیں کیا، بلکہ ہمارا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ جموں کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جس کی حتمی حیثیت کا تعین اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصوابِ رائے کے ذریعے ہوگا۔ ہمارا اصولی موقف یہ رہا ہے کہ چونکہ مہاراجہ ہری سنگھ دستاویزِ الحاق پر دستخط کرتے وقت ریاست پر اپنی عملداری عملاً کھوچکا تھا، اس لئے اس کی جانب سے کئے گئے الحاق کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔
سو میرے بھائی، بھارت گزشتہ برس کشمیر کا کوئی نیا نقشہ جاری کرے، اس سال یا اگلے سال ۔۔۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ہمارے یہاں بھی اعتراض نقشہ جاری کرنے پر نہیں، ’’نقشے بازی‘‘ پر ہے۔ آپ نے خود ہی ایک قدیم نقشہ شریک کیا ہے ۔۔۔ اگر اس میں اور اس ’’نئے نقشے‘‘ میں کوئی عملی فرق ہے تو بتائیے!
ہم نے تو اپنے بچپن میں جتنے بھی اٹلس دیکھے، ان میں ہمیشہ سرکریک اور جوناگڑھ کا نقشہ ساتھ منسلک ہی پایا ہے، اور کشمیر کے معاملے میں ہمارے زیرِ انتظام حصے کو ڈاٹڈ لائنز کے ذریعے الگ دکھایا جاتا ہے اور باقی کے بارے میں ’’متنازع علاقہ‘‘ ہی لکھا جاتا رہا ہے، اس نقشے میں بھی ایسا ہی کیا گیا ہے۔
ایک بار پھر وضاحت کرتا چلوں کہ کسی بھی علاقے کو اپنا ’’اٹوٹ انگ‘‘ ظاہر کرنے لئے ضروری ہے کہ آئین کی متعلقہ دفعات میں ترمیم کی جائے۔ اس کے بغیر ہر دعوے کی حیثیت محض ’’منہ کے فائر‘‘ کی ہے!

حکمت عملی سے کیا مراد ہے؟ کیا آپ بھارت سے جنگ کی بات کر رہے ہیں؟
اگر بھارت آگے بڑھ کر لاہور، کراچی، ملتان وغیرہ پر قبضہ کر لے تو ہم کیا کریں گے؟ تب بھی بس گانوں اور نقشوں سے اپنے علاقے آزاد کروائیں گے؟ اگر کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے، تو اس کی آزادی کے لئے بھی وہی کچھ کرنا چاہیے جو ہم کراچی، لاہور، ملتان، اسلام آباد کے لئے کریں گے!

پاک فوج تو صرف گانے بناتی ہے،فروری ۲۰۱۹ میں جو دو جہاز گرے تھے وہ تو باؤ جی نے گرائے تھے :p
پاک فضائیہ کی عظمت کو سلام ۔۔۔ ہر شخص پاک فضائیہ کی صلاحیتوں کا معترف ہے۔
مگر یہاں فوج کا ذکر کہاں سے آگیا؟؟؟ پالیسی سازی فوج کا کام ہے یا حکومت کا؟ یا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں درپردہ فوج اقتدار پر قابض ہے نعوذباللہ؟؟؟
 

جاسم محمد

محفلین
اگر بھارت آگے بڑھ کر لاہور، کراچی، ملتان وغیرہ پر قبضہ کر لے تو ہم کیا کریں گے؟ تب بھی بس گانوں اور نقشوں سے اپنے علاقے آزاد کروائیں گے؟ اگر کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے، تو اس کی آزادی کے لئے بھی وہی کچھ کرنا چاہیے جو ہم کراچی، لاہور، ملتان، اسلام آباد کے لئے کریں گے!
آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1965 کی جنگ میں بھارت نے لاہور پر حملہ کیا تھا اور پاک فوج نے اس کا بھرپور جواب دیا تھا۔
اسی طرح اس جنگ میں پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے اندر گھس کر کاروائی کی تھی اور ان کا ایک بڑا شہر اکھنور فتح کے قریب تھا۔
فوج کیلئے گانے، ڈرامے اور فلمیں بنانا ذیلی شعبہ آئی ایس پی آر کا کام ہے۔ یہ کام تو ہمیشہ سے ہو رہا ہےتو اس باری اس کی تضحیک اور تمسخر سمجھ سے بالا تر ہے۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں تاریخی جنگی گیت اور ملی نغمہ نہیں بنائے گئے تھے؟
باقی بھارت بھی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنا حصہ مانتا ہے لیکن کبھی وہاں چڑھائی کرکے اسے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ایسے میں پاک فوج پر یہ پریشر کیوں ڈالا جا رہا ہے کہ وہ گانے اور نقشے چھوڑ کر اس حوالہ سے عملی اقدامات کرے؟
 

جاسم محمد

محفلین
مگر یہاں فوج کا ذکر کہاں سے آگیا؟؟؟ پالیسی سازی فوج کا کام ہے یا حکومت کا؟ یا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں درپردہ فوج اقتدار پر قابض ہے نعوذباللہ؟؟؟
حکومت صرف پالیسی بنا سکتی ہے۔ عمل درآمد بہرحال فوج کا کام ہے۔ کیونکہ میدان جنگ میں فوج نے لڑنا ہے حکومت نے نہیں۔
 
آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1965 کی جنگ میں بھارت نے لاہور پر حملہ کیا تھا اور پاک فوج نے اس کا بھرپور جواب دیا تھا۔
اسی طرح اس جنگ میں پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے اندر گھس کر کاروائی کی تھی اور ان کا ایک بڑا شہر اکھنور فتح کے قریب تھا۔
فوج کیلئے گانے، ڈرامے اور فلمیں بنانا ذیلی شعبہ آئی ایس پی آر کا کام ہے۔ یہ کام تو ہمیشہ سے ہو رہا تو اس باری اس کی تضحیک اور تمسخر سمجھ سے بالا تر ہے۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں تاریخی جنگی گیت اور ملی نغمہ نہیں بنائے گئے تھے؟
باقی بھارت بھی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنا حصہ مانتا ہے اور کبھی وہاں چڑھائی کرکے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ایسے میں پاک فوج پر یہ پریشر کیوں ڈالا جا رہا ہے کہ وہ گانے اور نقشے چھوڑ کر اس حوالہ سے عملی اقدامات کرے؟
کون پریشر ڈال رہا ہے بھائی. کسی حکومت مخالف نے کہا تھا کہ نئے نقشے کہ نقشے بازی کی جائے.
لاہور پر حملہ ہوا، ہم نے عملی اقدام کیا کیونکہ لاہور ہمارے ملک کا آئینی حصہ ہے، اٹوٹ انگ ہے!
کشمیر صرف کہہ دینے سے اٹوٹ انگ نہیں بنے گا، دعوی عملی ثبوت مانگتا ہے.
 
حکومت صرف پالیسی بنا سکتی ہے۔ عمل درآمد بہرحال فوج کا کام ہے۔ کیونکہ میدان جنگ میں فوج نے لڑنا ہے حکومت نے نہیں۔
یہ آپ سے کس نے کہہ دیا بھائی؟؟؟ پالیسی بنانا بھی حکومت کا کام ہے اور اس پر فوج یا کسی بھی اور ماتحت محکمے کے ذریعے عمل درآمد کروانا بھی حکومت کا ہی کام. فوج اپنی مرضی کی مختار نہیں کہ خود سے پالیسی تشکیل دے یا کسی حکومتی پالیسی پر از خود عمل درآمد کرے.
 

جاسم محمد

محفلین
کشمیر صرف کہہ دینے سے اٹوٹ انگ نہیں بنے گا، دعوی عملی ثبوت مانگتا ہے.
مقبوضہ کشمیر کوئی آج سے مقبوضہ علاقہ نہیں ہے، 1947 سے ہے۔ 2019 میں بھی اسے "فتح" نہیں کیا گیا بلکہ اس کی آئینی ، قانونی اور انتظامی حیثیت تبدیل کی گئی ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان بھی یہ سب کر سکتا تھا مگر چونکہ پاکستان کی پالیسی کشمیر کو اپنے میں ضم کرنے کی نہیں بلکہ کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلوانے کی رہی ہے۔ اس لئے پاکستان نے فی الحال صرف نقشہ جاری کرکے بھارت اور دیگر دنیا کو باور کروا دیا ہے کہ ہماری پوزیشن تبدیل نہیں ہوگی۔
بھارتی میڈیا و تجزیہ نگار اس نقشہ کو اس رنگ میں پیش کر رہے ہیں جیسے پاکستان نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو بھلا دیا ہے۔ جبکہ یہ درست نہیں ہے۔ آل کشمیری استصواب رائے بغیر پاکستان کشمیر کے کسی بھی حصے کو اپنا آئینی و قانونی علاقہ نہیں بنا سکتا۔ اسی لئے بھارت کا یہ اقدام غیر قانونی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ آپ سے کس نے کہہ دیا بھائی؟؟؟ پالیسی بنانا بھی حکومت کا کام ہے اور اس پر فوج یا کسی بھی اور ماتحت محکمے کے ذریعے عمل درآمد کروانا بھی حکومت کا ہی کام. فوج اپنی مرضی کی مختار نہیں کہ خود سے پالیسی تشکیل دے یا کسی حکومتی پالیسی پر از خود عمل درآمد کرے.
کسی بھی فیصلہ سے قبل بہرحال فوج سے ان پٹ لیا جاتا ہے۔ مشرف کے کارگل ایڈونچر پر اسی لئے بہت تنقید ہوئی تھی کہ اس نے حکومت اور دیگر جرنیلوں کو بتائے بغیر یہ آپریشن شروع کیا تھا۔
 
کسی بھی فیصلہ سے قبل بہرحال فوج سے ان پٹ لیا جاتا ہے۔ مشرف کے کارگل ایڈونچر پر اسی لئے بہت تنقید ہوئی تھی کہ اس نے حکومت اور دیگر جرنیلوں کو بتائے بغیر یہ آپریشن شروع کیا تھا۔
آئین کی رو سے صدر پاکستان افواج کا کمانڈر انچیف ہوتا ہے. سپریم کمانڈر کی اجازت کے بغیر جنگ شروع کرنے کو عرفِ عام میں کیا کہتے ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
آئین کی رو سے صدر پاکستان افواج کا کمانڈر انچیف ہوتا ہے. سپریم کمانڈر کی اجازت کے بغیر جنگ شروع کرنے کو عرفِ عام میں کیا کہتے ہیں؟
ظاہر ہے مشرف نے غداری کی تھی ۔ کارگل آپریشن کا علم ہوتے ساتھ ہی اسے برطرف کرکے غداری کا مقدمہ چلانا چاہئے تھا۔ مگر نواز شریف کی حماقت کو سلام جو کارگل آپریشن کے بعد بھی اسے کئی ماہ تک آرمی چیف کی سیٹ پر برقرار رکھا اور جب برطرف کیا تو مارشل لا لگ گیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
مودی حکومت بند گلی میں پھنس چکی اب کشمیر آزاد ہوگا، وزیراعظم
ویب ڈیسک بدھ 5 اگست 2020
2065736-imran-1596619720-921-640x480.jpg

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کا حل ہونا چاہیے، وزیراعظم ۔ فوٹو : فائل

مظفر آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے ہندوستان میں حالات اب بگڑتے جائیں گے، مودی حکومت بند گلی میں پھنس چکی اور اب کشمیر آزاد ہوگا۔

یوم استحصال کشمیر کے موقع پر مظفرآباد میں آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم عمران خان سمیت صدر اور وزیراعظم آزاد کشمیر نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران آزاد کشمیر قانون سازی اسمبلی میں بھارتی اقدام کے خلاف مذمتی قرارداد بھی پیش کی گئی جس کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

وزیراعظم عمران خان کا خطاب؛

آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جو صلاحیت پاکستان میں ہے کسی ملک میں نہیں اور پاکستانیوں کو اپنی صلاحیت کا خود بھی اندازہ نہیں، ملک کو تیزی سے اوپر جاتے دیکھا او پھر نیچے کی جانب آتے دیکھا، 60 کی دہائی میں پاکستان کو دنیا میں مانا جاتا تھا، دنیا کی تاریخ دیکھیں تو قوم اصولوں پر چلتی ہے تو اوپر جاتی ہے اور اصولوں سے ہٹ جاتی ہے تو نیچے آجاتی ہے۔

مودی گزشتہ سال 5 اگست کو بہت بڑی غلطی کر بیٹھا ہے

وزیراعظم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کشمیریوں کو ایسی صورتحال سے گزار رہاہے جس کا اختتام آزادی ہے، مودی گزشتہ سال 5 اگست کو بہت بڑی غلطی کر بیٹھا ہے، مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے بہت بڑی اسٹریٹیجک غلطی کی۔

بھارت کو بار بار کہا آپ ایک قدم بڑھاؤ ہم دو بڑھائیں گے

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مودی نے ہندو کارڈ کھیل کر الیکشن جیتا، پاکستان کے خلاف نفرت کی مہم چلائی، مودی نے پلوامہ واقعے کو پاکستان کے خلاف نفرت کیلئے استعمال کیا، بھارت کو بار بار کہا آپ ایک قدم بڑھاؤ ہم دو بڑھائیں گے، ہم نے بات چیت کے زریعے مسئلہ کشمیر کے حل کی پیشکش کی۔

چین سے خوفزدہ مغربی ممالک بھارت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں

وزیراعظم نے کہا کہ مودی سمجھتا تھا غیرقانونی اقدام پر دنیا خاموش رہے گی تاہم گزشتہ ایک سال میں دنیا میں مسئلہ کشمیر بھرپور طریقے سے اٹھایا گیا، بھارت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیرکی آبادی کا تناسب بدلنا چاہتا تھا جب کہ چین سے خوفزدہ مغربی ممالک بھارت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

مودی کی متکبرانہ سوچ اس کی تباہی ثابت ہوگی

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بھارتی حکومت کی تمام سرگرمیوں کے پیچھے تکبر ہے، مودی کی متکبرانہ سوچ اس کی تباہی ثابت ہوگی، روس نے تکبر کی وجہ سے اپنی فوج تباہ کرلی جب کہ مودی کی اصلیت آج دنیا کے سامنے آگئی ہے۔

آج دنیا کشمیر کی طرف دیکھ رہی ہے

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستانی اقدامات کے نتیجے میں بھارت کو پسپائی ہوئی اور عالمی سطح پر پاکستان کے بیانیے کو پذیرائی ملی ہے، آج دنیا کشمیر کی طرف دیکھ رہی ہے، کشمیر کے لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ظلم کے باوجود کشمیریوں نے سری نگر میں پاکستان کا جھنڈا اٹھایا ہے۔

کشمیریوں کی جدوجہد کے نتیجے میں کشمیر آزاد ہوگا

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کشمیری نوجوان موت سے بے خوف ہیں، بھارت کا کشمیریوں سے متعلق جو پلان ہے اس میں کامیاب نہیں ہوسکتا، ہندوستان میں حالات اب بگڑتے جائیں گے، مودی حکومت بند گلی میں پھنس چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتے رہیں گے، کشمیریوں کی جدوجہد کے نتیجے میں کشمیر آزاد ہوگا، ہم نے مکمل منصوبہ بندی کررکھی ہے۔

سید علی گیلانی کو نشان پاکستان سے نوازیں گے

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کا حل ہونا چاہیے، پاکستان کے سیاسی نقشے کا اجراء ایک اہم قدم ہے جب کہ سید علی گیلانی کو نشان پاکستان سے نوازیں گے، سید علی گیلانی بڑے لیڈر ہیں اور ان کی طویل جدوجہد ہے۔

وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کا خطاب؛

وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے خطاب میں کہا کہ نریندر مودی کی سوچ فاشسٹ ہے، بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں طویل محاصرہ ختم کر کے تمام سیاسی قیادت کو رہا کیا جائے۔
 
Top