پندرہویں سالگرہ برصغیر کی معدوم ہوتی اشیاء

سید عمران

محفلین
چلمن۔۔۔
بانس یا سرکنڈے کی موٹی تیلیوں سے بنی ہوتی ہے۔۔۔
کچھ رد و بدل کے ساتھ اسے چق بھی کہتے ہیں۔۔۔
عموماً برآمدے کی محرابوں پر لگاتے تھے۔۔۔
گرمیوں میں دھوپ کی تپش اور سردیوں میں یخ بستہ ہواؤں کی شدت روکنے کے لیے کمر بستہ کھڑی رہتی تھی۔۔۔
تاریخ میں داغ دہلوی کی وجہ سے اس کا ایک اور استعمال بھی نظر آتا ہے۔۔۔
جیسا کہ داغ کے اشعار کے بارے میں مشہور ہے کہ نکلے ہونٹوں چڑھے کوٹھوں۔۔۔
تو داغ جہاں جانے کا ذوق رکھتے تھے وہاں کے ماحول کی ایک تصویر کھینچتے ہیں۔۔۔
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
چلمن کا چلن اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔۔۔
شاید اس کی وجہ زمانہ کا چال چلن ہو!!!

image.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
راحل بھائی ، نہالچہ وہ پتلا سا نرم گدّا ہوتا ہے جس پر بچوں کو سلایا جاتا ہے ۔اس میں روئی کا پتلا استر لگایا جاتا تھا ۔ یعنی یہ طفلانہ سائز کا گدا ہوتا تھا ۔
پوتڑا وہ سستا سا ، ردی سا کپڑا ہوتا تھا جو بستر کو بچوں کے پیشاب وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لئے نہالچے کے اوپر بچھادیا جاتا تھا ۔
اس کے علاوہ پوتڑا اس لنگوٹ کو بھی کہتے تھے جو ننھے بچوں کو ڈائپر کی طرح باند ھ دی جاتی تھی ۔ اسی سے کہاوت بنی ہے " پوتڑوں میں کھیلے ہوئے" ۔
اس کے علاوہ اوڑھنے کے لئے دُلائی استعمال ہوتی تھی ۔ یہ بھی نرم اور کم موٹی رضائی ہوتی تھی جو اکثر لوگ سردی میں بدن پر لپیٹ کر بھی گھر میں پھرا کرتے تھے ۔
گدّے کے لئے ایک لفظ توشک بھی تحریر میں مستعمل رہا ہے ۔
ظہیر صاحب!!!!
کیا یاد دلا دیا نہ کوئی تو شک ،جانتا ہے نہ رضائی، نہ نہ دلاُئی ،یہ لفظ ہمارے بڑوں کے ساتھ ہی فنا ہوگئے ،اب تو لے دے کہ موُئی کویلٹ ہے وہی اوڑھئیے وہی بچھائیے۔
:shock::shock:
 

سیما علی

لائبریرین
چلمن۔۔۔
بانس یا سرکنڈے کی موٹی تیلیوں سے بنی ہوتی ہے۔۔۔
کچھ رد و بدل کے ساتھ اسے چق بھی کہتے ہیں۔۔۔
عموماً برآمدے کی محرابوں پر لگاتے تھے۔۔۔
گرمیوں میں دھوپ کی تپش اور سردیوں میں یخ بستہ ہواؤں کی شدت روکنے کے لیے کمر بستہ کھڑی رہتی تھی۔۔۔
تاریخ میں داغ دہلوی کی وجہ سے اس کا ایک اور استعمال بھی نظر آتا ہے۔۔۔
جیسا کہ داغ کے اشعار کے بارے میں مشہور ہے کہ نکلے ہونٹوں چڑھے کوٹھوں۔۔۔
تو داغ جہاں جانے کا ذوق رکھتے تھے وہاں کے ماحول کی ایک تصویر کھینچتے ہیں۔۔۔
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
چلمن کا چلن اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔۔۔
شاید اس کی وجہ زمانہ کا چال چلن ہو!!!

image.jpg
گر پڑی ہے جب سے بجلی دشتِ ایمن کے قریب
مدتیں گزریں نہیں آتے وہ چلمن کے قریب!!!!!!!
اُستاد قمر جلالوی ۔

دیکھا نہ ہو گا خواب میں بھی یہ فروغِ حسن
پردے کو اس کے جلوے نے چلمن بنا دیا
مصطفٰی خان شیفتہ

چلمن پیچھے اک چلمن ہے آنکھوں سے آکاش تلک
جو تیری دیکھن میں آیا، تھا وہ جھلکا چلمن کا،،،،،،،،
جون ایلیا
 
چلمن۔۔۔
بانس یا سرکنڈے کی موٹی تیلیوں سے بنی ہوتی ہے۔۔۔
کچھ رد و بدل کے ساتھ اسے چق بھی کہتے ہیں۔۔۔
عموماً برآمدے کی محرابوں پر لگاتے تھے۔۔۔
گرمیوں میں دھوپ کی تپش اور سردیوں میں یخ بستہ ہواؤں کی شدت روکنے کے لیے کمر بستہ کھڑی رہتی تھی۔۔۔
تاریخ میں داغ دہلوی کی وجہ سے اس کا ایک اور استعمال بھی نظر آتا ہے۔۔۔
جیسا کہ داغ کے اشعار کے بارے میں مشہور ہے کہ نکلے ہونٹوں چڑھے کوٹھوں۔۔۔
تو داغ جہاں جانے کا ذوق رکھتے تھے وہاں کے ماحول کی ایک تصویر کھینچتے ہیں۔۔۔
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
چلمن کا چلن اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔۔۔
شاید اس کی وجہ زمانہ کا چال چلن ہو!!!

image.jpg
یہ جو چلمن ہے دشمن ہے ہماری۔۔ کتنی شرمیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گلوکار محمد رفیع سے ابتدائی آشنائی اس چلمن گردی کا شکار ہوئے گانے کی بدولت ہوئی۔:)
 
چکی۔۔۔
اناج بالخصوص گندم کو پیس کر آٹا بنانے کے کام آتی ہے۔۔۔
ایک دوسرے کے اوپر رکھے پتھر کے دو بھاری پاٹوں پر مشتمل، اوپر والے پاٹ پر لکڑی کا دستہ جسے پکڑ کر چکی چلائی جاتی ہے۔۔۔
یہ محاورہ چکی چلانے کے بعد ہی مستعمل ہوا ہے کہ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پِسنا۔۔۔
چکی کا بھاری پتھر چلانے سے بازو مضبوط ہوتے ہیں اور پیٹ کی چربی ختم ہوتی ہے۔۔۔
تاہم ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے ہیں۔۔۔
جیسے حضرت فاطمہ کے چھالے مشہور ہیں۔۔۔
پُر مشقت کام ہونے کی بِنا پر جیلوں میں مجرموں سے بطور سزا چلوائی جاتی ہے۔۔۔
اگر چکی ایجاد نہ ہوتی تو حسرت موہانی کو جیل میں نہ چلانی پڑتی۔۔۔
پھر ان کا مشہورِ زمانہ شعر بھی معرض وجود میں نہ آتا۔۔۔
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
یہ چکی کا ہم پر ایک اور احسان ہے۔۔۔
آج کل موٹر لگا کر تجارتی بنیادوں پر چلائی جاتی ہے۔۔۔
پیارے بچو، یہ جو تمہاری امی کہتی ہیں کہ جاکر چکی کا آٹا لے آؤ تو وہاں یہی موٹر والی چکی لگی ہوتی ہے!!!
سندھ میں جنگ شاہی کے مقام پر اب بھی مخصوص پیلے پتھروں کی سلیں تراش کر بنائی جاتی ہے، مگر یہ صنعت صحیح معنوں میں اس وقت معدومی کے کنارے پر ہے کیونکہ اس کام سے وابستہ کاریگروں نے واضح اعلان کر رکھا ہے کہ اس کام میں درپیش خطرات، خصوصاً امراضِ تنفس کے خطرے کے پیشِ نظر، انہوں نے اپنی نئی نسل کو یہ ہنر منتقل نہیں کیا۔
غالباً یہی حال قلعی کے کام کا بھی۔ کچھ سال پہلے کچھ ٹرافیاں اور شیلڈز قلعی کروانی تھیں، بڑی مشکل سے کاریگر ملا، حالانکہ 90 دہائی تک تو میں نے خود قلعی کرنے والوں کو گلیوں میں چکر لگاتے دیکھا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
سندھ میں جنگ شاہی کے مقام پر اب بھی مخصوص پیلے پتھروں کی سلیں تراش کر بنائی جاتی ہے، مگر یہ صنعت صحیح معنوں میں اس وقت معدومی کے کنارے پر ہے کیونکہ اس کام سے وابستہ کاریگروں نے واضح اعلان کر رکھا ہے کہ اس کام میں درپیش خطرات، خصوصاً امراضِ تنفس کے خطرے کے پیشِ نظر، انہوں نے اپنی نئی نسل کو یہ ہنر منتقل نہیں کیا۔
غالباً یہی حال قلعی کے کام کا بھی۔ کچھ سال پہلے کچھ ٹرافیاں اور شیلڈز قلعی کروانی تھیں، بڑی مشکل سے کاریگر ملا، حالانکہ 90 دہائی تک تو میں نے خود قلعی کرنے والوں کو گلیوں میں چکر لگاتے دیکھا ہے۔
احسن صاحب!
مجھے سب سے زیادہ کوفت گندی دیگیں دیکھ کر ہوتا ہے ، پہلے اتنی صاف ستھری دیگیں آتیں تھیں! نذر و نیاز کا حسن ہی الگ تھا پر اب دیگیں لگتا ہے مانجھتے بھی نہیں۔ میں نے مگر اس زمانے میں بھی ایسا آدمی ڈھونڈ لیا ہے جو باقائدہ دیگ قلعی کرواتے ہیں۔۔۔۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
" نیک مائی ! نیک بابو ! دے اللہ کی راہ میں ۔ "
یہ والے سریلے فقیر بھی معدوم ہوگئے ۔ ان کی جگہ اب
"اللہ تمہاری جوڑی سلامت رکھے"
والے فقیروں نے لے لی ہے ۔ :)
 

زیک

مسافر
" نیک مائی ! نیک بابو ! دے اللہ کی راہ میں ۔ "
یہ والے سریلے فقیر بھی معدوم ہوگئے ۔ ان کی جگہ اب
"اللہ تمہاری جوڑی سلامت رکھے"
والے فقیروں نے لے لی ہے ۔ :)
آپ واقعی بہت پرانے ہیں۔ یا پھر جوانی میں کسی خاتون یا لڑکی کے ساتھ باہر نہیں نکلے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ واقعی بہت پرانے ہیں۔ یا پھر جوانی میں کسی خاتون یا لڑکی کے ساتھ باہر نہیں نکلے
پرانے سے نہ جانے آپ نے کیا مراد لی ہے اور اس پر "بہت" کا طرہ الگ سجانے کا تکلف کیا ۔ ایک بات کی البتہ گارنٹی اور تجربہ ہے کہ منکوحہ خاتون کے ساتھ بہت باہر نکلا کراچی میں 2002 سے 2007 تک ۔ نیز یہاں محفل کے ریکارڈ میں تاریخ پیدائش بھی اتنی درست ہے کہ جتنی میرے پاسپورٹ میں بھی نہیں ۔ :)
خیر نیک مائی اور نیک بابو والے فقروں کا واقعہ کراچی کا نہیں لڑکپن کے زمانے میں اندرون سندھ کا ہے ۔ اور وہاں کے فقیروں میں جوڑی کی سلامتی کی نیک خوہشات عطا کرنے کا رواج نہ تھا ۔
 
آخری تدوین:
احسن صاحب!
مجھے سب سے زیادہ کوفت گندی دیگیں دیکھ کر ہوتا ہے ، پہلے اتنی صاف ستھری دیگیں آتیں تھیں! نذر و نیاز کا حسن ہی الگ تھا پر اب دیگیں لگتا ہے مانجھتے بھی نہیں۔ میں نے مگر اس زمانے میں بھی ایسا آدمی ڈھونڈ لیا ہے جو باقائدہ دیگ قلعی کرواتے ہیں۔۔۔۔۔

قلعی سے گانا یاد آ گیا، اور جٹ رنگیلا بھی۔
بھانڈے قلعی کرا لو۔
 

سیما علی

لائبریرین
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
کنوؤں کا رواج بھی اب ختم ہو چکا ہے۔ اور ویسے بھی شاید اب چالو کنویں کم ہی رہ گئے ہوں گے۔
پہلے تو گھروں میں بھی کنوؤں کا رواج رہا ہے۔
ان کی جگہ دستی نلکوں یعنی ہینڈ پمپس نے لے لی تھی جو اب بھی گھروں میں خال خال نظر آ ہی جاتے ہیں ۔

244415908_4c17520a3e_b.jpg
 
کنوؤں کا رواج بھی اب ختم ہو چکا ہے۔ اور ویسے بھی شاید اب چالو کنویں کم ہی رہ گئے ہوں گے۔
پہلے تو گھروں میں بھی کنوؤں کا رواج رہا ہے۔
نئے کنویں کھودنے کا کام بالکل بھی نہیں ہو رہا۔ میرے کچھ جاننے والے احباب کے گھروں میں کنویں موجود ہیں، البتہ اوپر سے بند کر کے ان میں موٹریں لگا دی گئیں ہیں۔
 

زیک

مسافر
نئے کنویں کھودنے کا کام بالکل بھی نہیں ہو رہا۔ میرے کچھ جاننے والے احباب کے گھروں میں کنویں موجود ہیں، البتہ اوپر سے بند کر کے ان میں موٹریں لگا دی گئیں ہیں۔
واٹر ٹیبل کے مسائل بھی ہیں۔ ایکویفرز کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔
 
قلعی سے گانا یاد آ گیا، اور جٹ رنگیلا بھی۔
بھانڈے قلعی کرا لو۔
ہاہاہاہا ۔۔۔ کیا یاد دلا دیا :)
غالباً شاہد نے وہ رول کیا تھا ۔۔۔ بھانڈے قلعی کرنے والے کا کسی امیر گھرانے میں رشتہ ہوجاتا ہے، پھر وہ اس کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں کوئی کہانی گھڑ لیتے ہیں شاید
آخر میں موصوف بھری محفل میں سوٹ پہنے بھانڈے لیے پہنچ جاتے ہیں اور آواز لگاتے ہیں ’’پانڈے کلئی کرالو‘‘ ۔۔۔ اور اپنی اصلیت کا اعلان فرماتے ہیں :)
 
Top