اقتباسات خطوط

لاریب مرزا

محفلین
زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ خط و کتابت باہمی رابطے کا اہم ذریعہ تھی۔ لوگ خطوط کے ذریعے ایک دوسرے کی احوال پرسی کیا کرتے تھے۔ اب خط لکھنے کا رواج متروک ہو چکا ہے۔ لیکن ہمارے مشہور ادباء کے خطوط اب بھی علم و حکمت کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ اس لڑی میں مختلف ادباء کے خطوط شریک کیے جائیں گے۔


قدرت اللہ شہاب کا شیما مجید کے نام خط​


اسلام آباد
10 اکتوبر، 1983

محترمہ عزیزہ شیما مجید صاحبہ​

السلام علیکم۔ آپ کا خط مل گیا تھا۔ امام غزالی (رحمتہ اللہ علیہ) کی جو کتابیں آپ نے حاصل کی ہیں۔ وہ بہت اچھی ہیں۔ لیکن میری رائے میں ابھی ان کا مطالعہ ضروری نہیں۔ ابھی آپ طالبہ علم ہیں۔ اس لیے اولین فرض حصول علم کی تکمیل ہے۔ اس دوران اتنا ہی کافی ہے کہ انسان نماز میں رسوخ حاصل کرے۔
نماز میں رسوخ حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عادتاً یہ حالت ہو جائے کہ جب نماز ادا کرنے میں سستی محسوس ہو۔ سستی کا مقابلہ کر کے اسے ادا کرے۔ اور جب دل میں نماز قضا کرنے کا خیال اور تقاضا پیدا ہو، اس خیال اور تقاضے کا مقابلہ کر کے اس سے بچے۔ نماز میں دل لگے یا نہ لگے، اسے ادا کرتا رہے۔ ۔۔۔۔ نماز پڑھنا فرض ہے۔ نماز میں دل لگنا فرض نہیں۔
جس نے نماز میں رسوخ حاصل کر لیا۔ اس نے ایک بہت بڑے پہاڑ کو سر کر لیا۔ اس کے بعد ترقی کی سب راہیں شاہراہیں بن جاتی ہیں۔ اور شاہراہیں ہموار ہو جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو روحانی ترقی اور بلندی کی صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا ہے۔ آپ ان صلاحیتوں کو خوب سنبھال کر رکھیں اور ایسی احتیاط اور مہارت سے کام میں لائیں کہ آپ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ارفع مقامات کو چھو لیں۔
میری بیٹی بن کر آپ نے مجھے باعزت کیا۔ مجھے امید ہے کہ یہ رشتہ اس بندہ پرُتقصیر کی نجات کا باعث بھی بنے گا۔
جیسے جیسے نماز میں رسوخ قائم ہو مجھے لکھتی رہیں۔ تاکہ اس سے اگلی شاہراہوں پر قدم رکھنے کا اہتمام کیا جا سکے۔

والسلام​
دعا گو
قدرت اللہ شہاب​

("ذکر شہاب" سے اقتباس)
 

لاریب مرزا

محفلین
قدرت اللہ شہاب کا شیما مجید کے نام خط​

اسلام آباد
5 جون 1983

محترمہ عزیزہ شیما مجید صاحبہ!!​

السلام علیکم۔ آپ کا خط ملا۔ آپ کی دادی جان کی وفات کا سنکر رنج ہوا۔ بزرگوں کا سایہ گھر میں غنیمت ہوتا ہے۔ لیکن موت سے کسی کو مفر نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی روح کو غریق رحمت فرمائے۔
تصوف کے معاملے میں امام غزالی (رحمتہ اللہ علیہ) کی مثال پہ نہ جائیں۔ وہ گنتی کے چند لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے راہ سلوک پر ایک خاص طرز کی زندگی اختیار کی، اور ایک علم کو فن کے درجہ پر پہنچا دیا۔ باقی لوگوں کے لیے تقلید کی صرف ایک مثال ہے۔ وہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت مبارکہ ہے۔ ہم گناہگاروں کو اپنی بساط کے مطابق حضور کے نقش قدم پر ہی چلنا چاہیے، جس میں دین اور دنیا کا مکمل ترین امتزاج اور توازن ہے۔
تصوف کے شوق میں نہ تارکِ دنیا ہونا چاہیے نہ متروک دنیا۔ اصلی کمال تو یہ ہے کہ ظاہر میں نارمل دنیاوی زندگی گزارے۔ باطن میں صرف اللہ کا ہو کر رہے۔ باطن کی خبر ظاہر سے کبھی نظر نہ آنی چاہیے۔ حتی الوسع۔
آپ نے لکھا ہے: میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ جب تک انسان کسی گوشے میں بیٹھ کر خدا کی طرف پوری طرح متوجہ نہ ہو جائے تب تک اس پر کشف الہام کے دروازے کھلنا مقصود ہی نہیں۔ اصلی مقصود تو معرفتِ الٰہی ہے۔ اس کے لیے ترک دنیا کی ضرورت نہیں۔ یہ ہر جگہ موجود اور ممکن الحصول ہے۔ بشرطیکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے ہوتے رہیں. اور اس کے علاوہ اپنی ہمت اور استعداد کے مطابق کچھ مزید کوشش اور مشق بھی کرتے رہیں۔ اپنی والدہ محترمہ کو میرا سلام دیں۔
والسلام​
طالب دعا
قدرت اللہ شہاب​
 

لاریب مرزا

محفلین
میجر عزیز بھٹی شہید کا میدان جنگ سے شہادت سے 3 دن پہلے اپنے ابو جان کے نام خط

پیارے ابا جان!
السلام علیکم! ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بخیریت ہیں اور دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں، جس کو بلاشبہ ہم نے شکست دے دی ہے. آپ کوئی فکر نہ کریں. آپ صرف یہ کریں کہ جنگ کے دوران بھی بچوں کو پڑھاتے رہیں تو مجھے بڑی خوشی ہو گی.

میں جنگ کے شور و غل کا عادی ہوں. مجھے اس کا ذرا بھر بھی خوف نہیں ہے. میں امید کرتا ہوں کہ فضل ایزدی نے آپ کو ہمت دے رکھی ہے کہ مہاماں جی ( امی جان) کو تسلی دیتے رہیں.
زرینہ اور بچوں کو سلام اور پیار
آپ کا فرزند................ عزیز
 

لاریب مرزا

محفلین
میجر عزیز بھٹی کی شہادت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی رشید احمد بھٹی کا گھر والوں کے نام خط

موتی جھیل_ ڈھاکہ
15 اکتوبر 1965ء

ہر ایک کو السلام علیکم!

میں کل یہاں پہنچا ہوں. گھر میں ہر طرح سے خیریت ہے. میں 18 اکتوبر کو لادیاں سے لاہور آیا. شہید کی رجمنٹ کے افسروں اور قطب الدین سے ملاقات ہوئی، لاہور دو چار منٹ کے لیے سکینہ کے گھر بھی گیا.

کوئٹہ میں ظفر (شہید کا بیٹا) نے مجھے دیکھا تو اسے حیرت ہوئی. بہر حال یہ ملاقات بڑی مفید رہی. اس کے ساتھ گھر کے مالی حالات اور دیگر مسائل پر بات چیت ہوئی. اگلے ماہ کی 18 تاریخ کو اس کے امتحانات شروع ہو رہے ہیں. دسمبر کے پہلے ہفتہ میں وہ فارغ ہو جائے گا. میں نے اسے کہہ دیا ہے کہ وہ امتحان کے بعد سیدھا گھر آئے. میں نے ظفر کے ریاضی کے ٹیچر سے کہہ دیا ہے کہ وہ اسے ایک مہینہ اور محنت کرائیں. میں اس کی انگلش کی ٹیچر مسز کرنل نصر اللہ سے مل کر بہت خوش ہوا، وہ ایک عمدہ شخصیت کی مالک ہیں.

بابو جی! میں نے کراچی میں"تاروچ یونین انشورنس" کمپنی والوں سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ایک رسیدی فارم آپا زرینہ کے نام بھیج دیا ہے. جو تصدیق کے بعد واپس بھیج دیں گی. اس کے آنے پر بلا تاخیر چیک جاری کر دیا جائے گا.

میں لاہور میں بچوں کے پرنسپل صاحبان سے نہیں مل سکا. البتہ کیپٹن دلشاد نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بچوں کے سرٹیفکیٹ لے کر جی ایچ کیو بھیج دیں گے. کیپٹن بخاری نے تعلیمی وظائف کے کاغذات پہلے ہی یونٹ میں بھیج دئیے ہیں. کراچی پہنچ کر معلوم ہوا کہ آپا طاہرہ لادیا‍ں روانہ ہو چکی ہیں. کراچی میں باقی سب ٹھیک ٹھاک ہیں. کراچی میں مجھے شاہ نواز سے بھی ملنے کا موقع ملا. مجھے امید ہے کہ میرا تبادلہ مارچ تک کراچی سے لاہور ہو جائے گا. وہ خود محسوس کرتے ہیں کہ میری نئی ذمہ داریوں کے پیشِ نظر میرا تبادلہ لاہور ہو جانا چاہیے. اگرچہ منصب اور مالی لحاظ سے مجھے نقصان رہے گا. بچوں کی دیکھ بھال کے لیے میرا لاہور ہونا ضروری ہے.

بھائی جان! مجھے آپ کے 3 اکتوبر کے خط کی تسلی ملی ہے. معلوم نہیں میرا لادیاں سے بھیجا ہوا خط آپ کو ملا ہے، یا نہیں. اس میں، میں نے تفصیل سے حالات لکھے تھے. بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے بے شمار لوگوں کی طرف سے عطیات کی پیش کش ہو رہی ہیں. لیکن میں نے حسبِ ذیل وجوہ کی بنا پر انہیں قبول نہ کرنے کی رائے دی ہے.

1. عطیات سے آمدنی میں تقدیس باقی نہیں رہتی اور ان اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے جن کو ہم نے شدت سے اپنا رکھا ہے.

2. روپیہ پیسہ کی افراط سے بچوں کے بگڑنے کا اندیشہ ہے.
3. شہید نے بچوں کے لیے جو کچھ چھوڑا ہے وہ ان کی خود دارانہ روزی کے لیے بہت کچھ ہے. بالخصوص جبکہ زمین کا مسئلہ بخیر و خوبی طے ہو جائے گا.

4. ہر مسئلہ کا فیصلہ کرتے وقت ہمارے پیش نظر صرف ایک ہی اصول ہونا چاہیے کہ اس مسئلہ میں شہید بھائی کا کیا رد عمل ہوتا، کیا وہ ایسی پیش کش قبول کر لیتے؟
اس سوال کا اثبات یا نفی میں جواب ہی اس مسئلہ کا حل ہے.

5. بابو جی کا یہ خیال کہ ایسی رقوم کو خیراتی اداروں کے نام منتقل کر دیا جائے. ذاتی طور پر مجھے پسند نہیں ہے. اگر خیرات کرنا ہو. وہ تو اپنے ہی (خواہ کتنے قلیل ہوئی) ذرائع سے کرنا چاہیے. عطیات قبول کر کے انہیں خیرات میں دینا تو بے معنی ہے.

جہاں تک ہمارے پیارے شہید بھائی کی یادگار کا تعلق ہے، میں اپنی تجویز پیش کر چکا ہوں. مگر اس پر عمل حالات کے معمول پر آنے کے بعد کیا جا سکے گا.

بھائی جان! میرا خیال ہے کہ باغ میں قبر کا فیصلہ ٹھیک رہا ہے. لادیاں جانے تک میری اپنی رائے بھی یہی تھی جو آپ کی ہے مگر گاؤں کے قبرستان کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہے. قبروں کے اوپر مویشی چرتے رہتے ہیں. مگر باغ میں بڑی محفوظ اور پُر فضا جگہ ہے. سب سے زیادہ تسکین دہ امر یہ ہے کہ مہاماں جی دن میں جتنی بار چاہیں قبر پر آ جا سکتی ہیں جو قبرستان کی صورت میں ممکن نہ تھا.
بےشمار لوگ تعزیت اور فاتحہ خوانی کے لیے آتے رہتے ہیں. ان میں سے کئی ایک کے ساتھ قبر تک جانا پڑتا ہے. قبرستان کی صورت میں یہ بڑا مشکل تھا.

آپ نے لکھا ہے اس طرح صحن شاہراہ بن جائے گا. اس کے متعلق بابو جی کی تجویز یہ ہے کہ گھر کے پیچھے سے مشرق میں چچا غلام علی کی زمین میں سے باغ کو بیرونی راستہ سے ملا دیا جائے. اس طرح گھر کے پردہ میں بھی خلل اندازی نہیں ہو گی.

سردار! رضیہ اور بچے بخیریت پہنچ گئے ہوں گے. معلوم نہیں آپ کو میرا تار بروقت مل سکا یا نہیں. آپ نے ٹائپ شدہ سرکلر خطوط سے ہمیشہ نفرت کا اظہار کیا ہے. کیا آپ اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کو تھوڑا دبا کر ان خطوط کے ذریعہ ہی کچھ سننا گوارا کر لیں گے؟ میں بچوں کےخود آپ کے پاس آنا چاہتا تھا مگر وقت کی کمی کےباعث نہ آ سکا.
آپا زرینہ! میں نے ظفر کی فیس ادا کر دی ہےاور فیروز کے ہاتھ اس کی رسید بھیج دی ہے.

میں بٹالین کے افسروں سے ملنے گیا تھا مگر کوارٹر ماسٹر مجھے نہیں مل سکے تھے. اس لیے درزی کے بل ادا نہیں کر سکا.

میں تاریخی نہر بی آر بی پر بھی گیا تھا اور بھائی جان کی شہادت گاہ کی زیارت بھی کی، وہاں سے مقدس خون آلود مٹی بھی اپنے پاس بطور یادگار رکھنے کے لیے لے آیا ہوں. شہادت گاہ پر اینٹوں کا دائرہ بنا ہوا ہے. جہاں بعد میں یادگار تعمیر کرنا چاہتے ہیں. وہاں کرنل قریشی، میجر بلوچ، کیپٹن دلشاد، کیپٹن منیر داڈ جوٹنٹ اور صوبیدار میجر محمد شریف سے ملاقات ہوئی، وہ سب کے سب آپ کو تسلیمات بھیجتے ہیں.

میں اب اس خط کو ختم کرتا ہوں، مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ میرا تبادلہ لاہور ہو جائے گا اور میں ان فرائض کی ادائیگی اور ان مسائل کو حل کرنے کے قابل ہو جاؤں گا. جو حالات نے میرے سپرد کیے ہیں.

خدا حافظ سب کو السلام علیکم

(رشید)

اس خط کی نقول...... بھائی جان......... سردار........ بابوجی...... ظفر......... طاہرہ...... اور شیدی کو بھیجی جا رہی ہیں.
 
Top