ایک غزل : اک نقشِ سطحِ آبِ رواں ہے یہ زندگی

سید عاطف علی

لائبریرین
اک نقشِ سطحِ آبِ رواں ہے یہ زندگی
اے موج ِتیز گام! کہاں ہے یہ زندگی

کل تک تھی اپنے آپ پہ نازاں یہ زندگی
کیوں آج خود پہ نوحہ کناں ہے یہ زندگی

شعلے میں شمع کے جو مسلسل تھی اک صدا
پروانے کہہ رہے تھے یہاں ہے یہ زندگی

جن کے بیاں کو قفل پڑے ہیں زبان پہ
ان کہنہ حسرتوں کا نشاں ہے یہ زندگی

کروبیءاجل کو ذرا دے کوئی صدا
شانوں پہ اب تو بار گراں ہے یہ زندگی

دو بھی قدم ٹھہرنا جہاں پر محال ہے
ایک ایسا کاروانِ رواں ہے یہ زندگی

مشہود میں ہو فرق نہ شاہد سے کچھ جہاں
ایسے مشاہدے میں نہاں ہے یہ زندگی

ہے پائمال ِکوشش ِ روزینہءِ بقا
کاندھے پہ ایک سنگ گراں ہے یہ زندگی

عاطف تجھے گماں تھا یقیں زندگی میں ہو
آخر ہوا یقیں کہ گماں ہے یہ زندگی

سید عاطف علی
13 جولائی 2020​
 
آخری تدوین:

ایس ایس ساگر

لائبریرین
واہ۔بہت ہی عمدہ شاعری۔خوبصورت خیالات۔ منفرد اسلوب۔ بہت خوب عاطف بھائی۔اللہ آپ پر اپنی رحمتوں کا نزول ہمیشہ جاری رکھے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوب ! بہت اچھے عاطف بھائی !
کیا اچھے اشعار ہیں ! لطف آیا پڑھ کر ۔ آپ کے خاص انداز کی غزل ہے ۔ واہ!
کہنہ حسرتوں والے شعر کے لفظِ اول کو دیکھ لیجئے ۔ ٹائپو ہوگیا ہے ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین

کل تک تھی اپنے آپ پہ نازاں یہ زندگی
کیوں آج خود پہ نوحہ کناں ہے یہ زندگی

ہے پائمال ِکوشش ِ روزینہءِ بقا
یوں مدتوں سے سربگریباں ہے زندگی

عاطف تجھے گماں تھا یقیں زندگی میں ہو
آخر ہوا یقیں کہ گماں ہے یہ زندگی


ما شا اللہ ۔ ۔ ۔ بہت شاندار بہت اعلیٰ ۔ ۔ ۔
ڈھیروں داد قبول کیجیئے ۔ ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوب ! بہت اچھے عاطف بھائی !
کیا اچھے اشعار ہیں ! لطف آیا پڑھ کر ۔ آپ کے خاص انداز کی غزل ہے ۔ واہ!
کہنہ حسرتوں والے شعر کے لفظِ اول کو دیکھ لیجئے ۔ ٹائپو ہوگیا ہے ۔
شکریہ اور بہت آداب ظہیر بھائی ۔
کچھ وقت سر کی حد سے گزر چکا تو اب یہ اصلاح محمد تابش صدیقی بھائی یا محمد خلیل الرحمٰن بھائی ہی کر سکیں ۔ اس شعر کے شروع میں جس کے بجائے جن کردیں تو خطا سے مامون ہو جائے ۔ تصحیح کا پھر شکریہ ۔

جن کے بیاں کو قفل پڑے ہیں زبان پہ
ان کہنہ حسرتوں کا نشاں ہے یہ زندگی​
 

نور وجدان

لائبریرین
اک نقشِ سطحِ آبِ رواں ہے یہ زندگی
اے موج ِتیز گام! کہاں ہے یہ زندگی

کل تک تھی اپنے آپ پہ نازاں یہ زندگی
کیوں آج خود پہ نوحہ کناں ہے یہ زندگی

شعلے میں شمع کے جو مسلسل تھی اک صدا
پروانے کہہ رہے تھے یہاں ہے یہ زندگی

جن کے بیاں کو قفل پڑے ہیں زبان پہ
ان کہنہ حسرتوں کا نشاں ہے یہ زندگی

کروبیءاجل کو ذرا دے کوئی صدا
شانوں پہ اب تو بار گراں ہے یہ زندگی

دو بھی قدم ٹھہرنا جہاں پر محال ہے
ایک ایسا کاروانِ رواں ہے یہ زندگی

مشہود میں ہو فرق نہ شاہد سے کچھ جہاں
ایسے مشاہدے میں نہاں ہے یہ زندگی

ہے پائمال ِکوشش ِ روزینہءِ بقا
یوں مدتوں سے سربگریباں ہے زندگی

عاطف تجھے گماں تھا یقیں زندگی میں ہو
آخر ہوا یقیں کہ گماں ہے یہ زندگی

سید عاطف علی
13 جولائی 2020​
واہ واہ واہ
لطف آگیا کافی عرصے بعد اچھی غزل پڑھ کے ۔ ابھی محترم ظہیر صاحب کی غزل کا اک جملہ گنگنا رہی تھی کہ
ع: اجلی رادائے عکس کو میلا کہیں گے لوگ

غلطی ہو لکھنے میں تو معذرت
اسکے بعد مطلع ہی بہت بڑھیا ہے
ردیف ایسی نبھی ہے کہ اک شعر بھی غیر ضروری نہیں
ماشاءاللہ
 

نور وجدان

لائبریرین
کِرّوبی یعنی فرشتہ ۔ (kirrobi) ۔ یہ تو عام لفظ ہے ، زیادہ اجنبی نہیں ۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
ہے تو لفظ عام. کروبی اجل کی اصطلاح عام نہیں تھی. پر بہت شکریہ ... کم کہتے ہیں پر اچھا اور عمدہ کہتے ۔ لاجواب کہتے
 
Top