غزل برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
#غزل

ہمارے ارادے علم ہو رہے ہیں
اگرچہ ستم پر ستم ہو رہے ہیں

ہمیں کھٹکھٹائے تھے بابِ عدالت
ہمیں پر مقدمے رقم ہو رہے ہیں

بڑھے جا رہے ہیں فرامینِ نفرت
محبت کے احکام کم ہورہے ہیں

کہاں آگیا ہے یہ دورِ سیاست
جہاں بدچلن محترم ہو رہے ہیں

سزا تو کجا دور کی بات ٹھہری
یہاں مجرموں پر کرم ہو رہے ہیں

جو دامن بسیرے تھے خوشیوں کے کل تک
وہ اب غم کے اشکوں سے نم ہو رہے ہیں

زباں تک جنہیں لا سکا نہ میں فائق
وہ جذبات نذرِ قلم ہو رہے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
پہلے چار اشعار درست ہیں
سزا تو کجا دور کی بات ٹھہری
یہاں مجرموں پر کرم ہو رہے ہیں
... یا تو کجا ہی رکھو، یا دور کی بات۔ دونوں ایک ہی باتیں ہیں کجا کی جگہ 'بہت' استعمال کرو

جو دامن بسیرے تھے خوشیوں کے کل تک
وہ اب غم کے اشکوں سے نم ہو رہے ہیں
... بسیرے تھے؟ پسارے شاید کہنا چاہ رہے ہیں، لیکن اس کا بھی مفعول 'پسارے گئے' ہوتا ہے۔ پسارے سے تو ان لوگوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو دامن پسارے ہوئے تھے!
ایک صورت یہ ہو سکتی ہے
پسارے گئے تھے جو دامن خوشی کے

زباں تک جنہیں لا سکا نہ میں فائق
وہ جذبات نذرِ قلم ہو رہے ہیں
.. نہ دو حرفی باندھا گیا ہے، آسانی سے درست ہو سکتا ہے
لا سکا میں نہ فائق
لیکن نذر قلم؟ شاید زیر قلم چل جائے سید عاطف علی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
پہلے چار اشعار درست ہیں
سزا تو کجا دور کی بات ٹھہری
یہاں مجرموں پر کرم ہو رہے ہیں
... یا تو کجا ہی رکھو، یا دور کی بات۔ دونوں ایک ہی باتیں ہیں کجا کی جگہ 'بہت' استعمال کرو

جو دامن بسیرے تھے خوشیوں کے کل تک
وہ اب غم کے اشکوں سے نم ہو رہے ہیں
... بسیرے تھے؟ پسارے شاید کہنا چاہ رہے ہیں، لیکن اس کا بھی مفعول 'پسارے گئے' ہوتا ہے۔ پسارے سے تو ان لوگوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو دامن پسارے ہوئے تھے!
ایک صورت یہ ہو سکتی ہے
پسارے گئے تھے جو دامن خوشی کے

زباں تک جنہیں لا سکا نہ میں فائق
وہ جذبات نذرِ قلم ہو رہے ہیں
.. نہ دو حرفی باندھا گیا ہے، آسانی سے درست ہو سکتا ہے
لا سکا میں نہ فائق
لیکن نذر قلم؟ شاید زیر قلم چل جائے سید عاطف علی
زیر قلم ۔ نذر قلم سے تو بہتر ہے ۔ کیونکہ نذر کا محاورہ الگ معنی کی طرف لے جاتا ہے۔۔۔ میرے خیال سے سپرد قلم کیسا رہے گا۔ وہ جذبے سپرد قلم ہو رہے ہیں ۔
 
آخری تدوین:

محمد فائق

محفلین
بہت شکریہ آپ اساتذہ کا رہنمائی کے لیے

اصلاح کے بعد

ہمارے ارادے علم ہو رہے ہیں
اگرچہ ستم پر ستم ہو رہے ہیں

ہمیں کھٹکھٹائے تھے بابِ عدالت
ہمیں پر مقدمے رقم ہو رہے ہیں

بڑھے جا رہے ہیں فرامینِ نفرت
محبت کے احکام کم ہورہے ہیں

کہاں آگیا ہے یہ دورِ سیاست
جہاں بدچلن محترم ہو رہے ہیں

سزا تو بہت دور کی بات ٹھری
یہاں مجرموں پر کرم ہو رہے ہیں

پسارے گئے تھے جو دامن خوشی کے
وہ اب غم کے اشکوں سے نم ہو رہے ہیں

زباں تک جنہیں لا سکا میں نہ فائق
وہ جذبے سپرد ِ قلم ہو رہے ہیں
 
Top