ایک کاوش: دل مرا اس سے اٹھ گیا ہوتا

عاطف ملک

محفلین
ویسے تو آج کل مصروفیت کے باعث شعر کہنا کارِ دشوار ہے لیکن بقول مظفرؔ وارثی "کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن"،سو تقریباً زبردستی کی ایک کاوش پیش ہے۔احباب کی رائے کا منتظر۔

دل مرا اس سے اٹھ گیا ہوتا
کاش وہ شخص بے وفا ہوتا

لمحہ لمحہ خیال آتا ہے
یوں نہ ہوتا اگر تو کیا ہوتا

اس کے غم سے گزر رہا ہوں ابھی
ورنہ شاید گزر چکا ہوتا

عشق بے موت مار دیتا ہے
کاش پہلے سے جانتا ہوتا

تُو بھی ہو جاتا خود پہ وارفتہ
میں اگر آئنہ ترا ہوتا

کچھ نہیں چاہیے مجھے عاطفؔ
ہاں مگر کاش وہ مِرا ہوتا

عاطفؔ ملک
جولائی ۲۰۲۰
 
اس کے غم سے گزر رہا ہوں ابھی
ورنہ شاید گزر چکا ہوتا
کیا کہنے! اگر زبردستی بھی کہا ہے تو خوب کہا ہے :)
کسی زمانے میں کراچی میں ساکنان شہر قائد کے زیر اہتمام عالمی مشاعرہ ہوا کرتا تھا (شاید اب بھی ہوتا ہو). اسٹیج پر ایک بزرگ کو (جو لال رنگ کی ترکی ٹوپی قسم کی کوئی تو ٹوپی پہنے ہوتے تھے نام ان کا یاد نہیں) محض اس لیے بٹھایا جاتا تھا کہ وہ بڑھ بڑھ کر "واہ واہ، کیا کہنے" کے نعرے لگاتے رہیں.
آپ شعر پڑھ ہم نے زیر لب اسی جوش و جذبے سے "کیا کہنے" کہا :)
 

عاطف ملک

محفلین
کیا کہنے! اگر زبردستی بھی کہا ہے تو خوب کہا ہے :)
کسی زمانے میں کراچی میں ساکنان شہر قائد کے زیر اہتمام عالمی مشاعرہ ہوا کرتا تھا (شاید اب بھی ہوتا ہو). اسٹیج پر ایک بزرگ کو (جو لال رنگ کی ترکی ٹوپی قسم کی کوئی تو ٹوپی پہنے ہوتے تھے نام ان کا یاد نہیں) محض اس لیے بٹھایا جاتا تھا کہ وہ بڑھ بڑھ کر "واہ واہ، کیا کہنے" کے نعرے لگاتے رہیں.
آپ شعر پڑھ ہم نے زیر لب اسی جوش و جذبے سے "کیا کہنے" کہا :)
:redheart:
شکریہ ادا کرنے کیلیے الفاظ نہیں ہیں مرے پاس
 
Top