اعتماد

ع عائشہ

محفلین
بابو بس میں سفر کرتے ہوئے کنڈیکٹر کو کرایہ دینے کے لیےسائیڈ والی جیب میں ہاتھ ڈالنے لگا تو ساتھ بیٹھے اجنبی نے اس کا ہاتھ سختی سے پکڑتے ہوئے کہا:
"نہیں بابو صاحب! آپ کا کرایہ میں دیتا ہوں"
بابو نے بہت کہا کہ وہ اپنا کرایہ خود دے گا لیکن اجنبی بہت مہربان ہورہا تھا، بضد رہا اور اس کا کرایہ کنڈیکٹر کو دے دیا
اگلے سٹاپ پر اجنبی بس سے اتر گیا اور بابو جیب سے کوئی چیز نکالنے لگا تو سر تھام کر بیٹھ گیا کیونکہ وہ اجنبی اس کی جیب کا صفایا کرگیا تھا۔ دوسرے دن بابو نے بازار میں اس چور کو پکڑ لیا۔ چور بابو کے گلے لگ کر رونے لگا اور بولا:
"بابو صاحب! مجھے معاف کردو، تمہاری جیب کاٹنے کے بعد گھر گیا تو میری بیٹی مر گئی"
بابو نے اس کی بیٹی کی مغفرت کی دعا کی ساتھ ساتھ کچھ نصیحتیں بھی کیں اور دریا دلی کے ساتھ اسے معاف کردیا۔ چور کے جانے کے بعد بابو کو معلوم ہوا کہ چور ایک بار پھر اس کی جیب کا صفایا کرگیا تھا۔ چند دن بعد بابو موٹر سائیکل پر کہیں جارہا تھا کہ راستے میں اس کو اسی چور نے روکا۔ چور نے ایک بار پھر روتے ہوئے بابو سے معافی مانگی۔ بابو کو اس کے سارے پیسے بھی لوٹا دیئے اور قریب کی ایک دکان سے کولڈ ڈرنک لے کر بابو کو پکڑادی۔ بابو نے پہلے تو انکار کیا لیکن پھر اس سے کولڈ ڈرنک لے کر پینے لگا۔ بابو کے کولڈ ڈرنک پیتے ہی چور نے ایک بار پھر بابو سے معذرت کی اور اپنے راستے چل پڑا۔ بابو خوشی خوشی جب اپنی موٹر سائیکل والی جگہ پہنچا تو یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ چور اس بار اس کی موٹر سائیکل لے گیا تھا۔

سبق: یہی حال ہمارے عوام اور حکمرانوں کا ہے۔ عوام بار بار ان پر اعتماد کرتے ہیں جبکہ حکمران بار بار عوام کو نئے نئے طریقوں سے لوٹتے ہیں "لیکن عوام ہیں کہ عقل کے اندھے ہیں" ۔ ۔ ۔ ! ! !

(کاپی پیسٹ)
 
Top