سیما علی

لائبریرین
الطاف حسین حالی
جنوں کار فرما ہوا چاہتا ہے
قدم دشت پیما ہوا چاہتا ہے

دم گریہ کس کا تصور ہے دل میں
کہ اشک اشک دریا ہوا چاہتا ہے

خط آنے لگے شکوہ آمیز ان کے
ملاپ ان سے گویا ہوا چاہتا ہے

بہت کام لینے تھے جس دل سے ہم کو
وہ صرف تمنا ہوا چاہتا ہے

ابھی لینے پائے نہیں دم جہاں میں
اجل کا تقاضا ہوا چاہتا ہے

مجھے کل کے وعدے پہ کرتے ہیں رخصت
کوئی وعدہ پورا ہوا چاہتا ہے

فزوں تر ہے کچھ ان دنوں ذوق عصیاں
در رحمت اب وا ہوا چاہتا ہے

قلق گر یہی ہے تو راز نہانی
کوئی دن میں رسوا ہوا چاہتا ہے

وفا شرط الفت ہے لیکن کہاں تک؟
دل اپنا بھی تجھ سا ہوا چاہتا ہے

بہت حظ اٹھاتا ہے دل تجھ سے مل کر
قلق دیکھیے کیا ہوا چاہتا ہے

غم رشک کو تلخ سمجھے تھے ہمدم
سو وہ بھی گوارا ہوا چاہتا ہے

بہت چین سے دن گزرتے ہیں حالیؔ
کوئی فتنہ برپا ہوا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
مانا حجاب دید مِری بے خودی ہوئی
تم وجہِ بے خودی نہیں یہ ایک ہی ہوئی
دل ہے وہ طاقِ غمکدۂ عمر دوش کا
رکھی ہے جس پہ شمعِ تمنا بجھی ہوئی
میں منزلِ فنا کا نشانِ شکستہ ہوں
تصویرِ گربادِ وفا ہوں مِٹی ہوئی
تعبیرِ دل نے تجھ سے لیا انتقامِ عشق
تیری ہی بزم جلوہ گہِ عاشقی ہوئی
آتی رہے گی خیر اب اس زندگی کی موت
یہ تو ہوا کہ موت مِری زندگی ہوئی
مرحوم کس ادا کے تماشائیوں میں تھا
پھرتی ہے دل کی لاش تماشا بنی ہوئی
دنیائے دل میں یاس کی اللہ رے دار و گیر
جو آرزو کہ خلق ہوئی، کُشتنی ہوئی
کیجے دعا کہ اف نہ کرے دردمندِ عشق
اول تو دل کی چوٹ، پھر اتنی دُکھی ہوئی
میرا وجود کفر، مِری زندگی گناہ
ہستی کو ہوش، ہوش کو لازم خودی ہوئی
یارب! نوائے دل سے تو کان آشنا سے ہیں
آواز آ رہی ہے یہ کب کی سنی ہوئی
لازم ہے احتیاط، ندامت نہیں ضرور
لے اب چھری تو پھینک لہو سے بھری ہوئی
فانیؔ میں ہوں وہ فقط موہوم اتصال
جس میں عدم کی دونوں حدیں ہیں ملی ہوئی

فانی بدایونی
 

سیما علی

لائبریرین
خدا جانے کہاں ہے اصغرِؔ دیوانہ برسوں سے
کہ اس کو ڈھونڈتے ہیں کعبہ و بت خانہ برسوں سے
تڑپنا ہے نہ جلنا ہے نہ جل کر خاک ہونا ہے
یہ کیوں سوئی ہوئی ہے فطرتِ پروانہ برسوں سے
کوئی ایسا نہیں یارب! کہ جو اس درد کو سمجھے
نہیں معلوم کیوں خاموش ہے دیوانہ برسوں سے
کبھی سوزِ تجلی سے اسے نسبت نہ تھی گویا
پڑی ہے اس طرح خاکسترِ پروانہ برسوں سے
ترے قربان ساقی! اب وہ موجِ زندگی کیسی
نہیں دیکھی ادائے لغزشِ مستانہ برسوں سے
مری رِندی عجب رِندی مری مستی عجب مستی
کہ سب ٹوٹے پڑے ہیں شیشہ و پیمانہ برسوں سے
حسینوں پر نہ رنگ آیا نہ پھولوں میں بہار آئی
نہیں آیا جو لب پر نغمہ مستانہ برسوں سے
کھلی آںکھوں سے ہوں حسنِ حقیقت دیکھنے والا
ہوئی لیکن نہ توفیقِ درِ بت خانہ برسوں سے
لباسِ زہد ہو پھر کاش نذرِ آتشِ صہبا
کہاں کھوئی ہوئی ہے جرأتِ رِندانہ برسوں سے
جسے لینا ہو آ کر اس سے اب درسِ جنوں لے لے
سنا ہے ہوش میں ہے اصغرِؔ دیوانہ برسوں سے

اصغر گونڈوی
 

فاخر رضا

محفلین
میں نے چپ چاپ سارے صفحات پڑھے مگر آخر میں آکر رہا نہ گیا
خیر موضوع کی طرف آتا ہوں

ہمارے ایک بزرگ جو حیدرآباد سے تعلق رکھتے تھے جب بھی کراچی تشریف لاتے تو ہمارے ہاں ضرور آتے. شاعر تھے اور ہر ایک کو شاعر مانتے بھی نہیں تھے. ساتھ ہی اشعار سنا سنا کر ثابت بھی کرتے تھے کہ فلاں شاعر کیوں نہیں ہے
اسی طرح بات چلی تو فیض احمد فیض تک پہنچی. خلاف توقع وہ فیض پر بھی معترض نکلے. کہنے لگے فیض، اس نے تو بہت واہیات شاعری کی ہے
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن (بائی) کا کاروبار چلے
کہتے ہیں کہ یہ شخص بائیوں کے کاروبار کی بات کررہا ہے. یہ بھی کوئی شاعری ہے
 

سیما علی

لائبریرین
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی

انشا اللہ خاں انشا


جرأت نابینا تھے ۔ایک روز بیٹھے فکر سخن کررہے تھے کہ انشاءؔ آگئے ۔ انہیں محو پایا تو پوچھا۔’’حضرت کس سوچ میں ہیں؟‘‘

جرأت نے کہا’’کچھ نہیں ،بس ایک مصرعہ ہوا ہے ۔شعر مکمل کرنے کی فکر میں ہوں۔‘‘ انشاءؔ نے عرض کیا ’’کچھ ہمیں بھی پتہ چلے ‘‘

جرأت نے کہا’’نہیں !تم گرہ لگاکر مصرعہ مجھ سے چھین لوگے‘‘ آخر بڑے اصرار کے بعد جرأت نے بتایا مصرعہ تھا

’’اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی‘‘

انشاءؔ نے فوراً گرہ لگائی :

’’اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی‘‘

جرأت لاٹھی اٹھاکر انشاءؔ کی طرف لپکے۔دیر تک انشاءؔ آگے اور جرأت پیچھے پیچھے انہیں ٹٹولتے ہوئے بھاگتے رہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ساقی کی گاڑی کا پہیا

فیض احمد فیض
زہرہ نگاہ کے ہاں دعوت ختم ہوئی تو زہرہ نگاہ نے ساقی فاروقی سے درخواست کی کہ احمد فراز صاحب کو ان کی رہائش گاہ تک پہنچادیں ۔ ساقی نے جواب دیا:
’’میں انہیں اپنی گاڑی میں نہیں بٹھا سکتا ۔ کیونکہ جوں ہی کوئی خراب شاعر میری گاڑی میں بیٹھتا ہے، گاڑی کا ایک پہیہ ہلنے لگتا ہے ۔‘‘
اس پر فیض احمد فیض نے فقرہ کسا:
’’ساقی تمہارے بیٹھنے سے تو تمہاری گاڑی کے دونوں پہیئے مستقل ہلتے رہتے ہوں گے۔‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
جلیس کی دعوت اور لاہور سے واپسی

قتیل شفائی
ابراہیم جلیس کراچی میں قیام پذیر تھے ۔ قتیل شفائی، احمد ندیم قاسمی کے علاوہ کچھ اور دوست جب کراچی تشریف لے جاتے تو جلیس ملتے ہی پوچھتے’’کب تک قیام ہے ؟‘‘اور جب ملاقاتی کہتا کہ فلاں تاریخ تک ہے تو فوراًجواب دیتے کہ اس دن تو میں آپ کی دعوت کرنا چاہتا تھا۔ دوچار دفعہ جب ایسا ہی ہوا تو قتیل معاملہ کو بھانپ گئے ۔ اس دفعہ جب قتیل شفائی اور قاسمی کراچی پہنچے تو حسب معمول جلیس نے پوچھا کہ قیام کب تک ہے ؟ قتیل نے جواب دیا ۔’’اس بار ہم فیصلہ کرکے آئے ہیں کہ آپ کی دعوت کے بعد ہی لاہور واپس جائیں گے ۔‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
اکبر الہ آبادی

کلکتہ کی مشہور مغنیہ گوہر جان ایک مرتبہ الہ آباد گئی اور جانکی بائی طوائف کے مکان پر ٹھہری ۔ جب گوہر جان رخصت ہونے لگی تو اپنی میزبان سے کہا کہ ’’میرا دل خان بہادر سید اکبر الہ آبادی سے ملنے کو بہت چاہتا ہے ۔‘‘ جانکی بائی نے کہا کہ’’ آج میں وقت مقرر کرلوں گی ، کل چلیں گے ۔‘‘ چنانچہ دوسرے دن دونوں اکبر الہ آبادی کے ہاں پہنچیں ۔ جانکی بائی نے تعارف کرایا اور کہا یہ کلکتہ کی نہایت مشہور و معروف مغنیہ گوہر جان ہیں ۔ آپ سے ملنے کا بے حد اشتیاق تھا، لہذا ان کو آپ سے ملانے لائی ہوں۔ اکبر نے کہا ’’زہے نصیب ، ورنہ میں نہ نبی ہوں نہ امام ،نہ غوث ،نہ قطب اور نہ کوئی ولی جو قابل زیارت خیال کیا جاؤں ۔ پہلے جج تھا اب ریٹائر ہوکر صرف اکبرؔ رہ گیا ہوں ۔ حیران ہوں کہ آپ کی خدمت میں کیا تحفہ پیش کروں ۔ خیر ایک شعر بطور یادگار لکھے دیتا ہوں ۔‘‘ یہ کہہ کر مندرجہ ذیل شعر ایک کاغذ پر لکھا اور گوہر جان کے حوالے کیا۔

خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
 

سیما علی

لائبریرین
شوکت تھانوی ایک مرتبہ شدید بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ مرض میں سر کے سارے بال جھڑ گئے۔
دوست احباب عیادت کو آتے تو گنجے سر کو دیکھ کر پوچھتے کہ یہ کیا ہوا۔
شوکت تھانوی اپنے مخصوص انداز میں کہتے: ’’ملک الموت آئے تھے، صورت دیکھ کر ترس کھا گئے
لیکن جاتے ہوئے سر پر ایک چپت رسید کر کے چلے گئے۔‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
بنگال میں بنگالیوں کی ہندی اردو کا جہاں تلفظ غلط ہوتا ہے وہیں جمع واحد اور تذکیر و تانیث کے اصول بھی بالکل الگ ہیں۔ مظفر حنفی کا جب کلکتہ یونیورسٹی میں تقرر ہوا تو کچھ عرصے بعد وائس چانسلر بھاسکر راؤ چودھری نے ان سے پوچھا : پروفیسر حنفی۔ آپ تو بنگلہ بول لیتے ہوں گے۔ حنفی نے ہنس کر جواب دیا ۔ جی سر ! چائے کھابو اور جول کھابو کی حد تک۔۔۔۔۔

بنگلہ تو بہت آ سانی سے سیکھی جا سکتی ہے۔ چودھری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

وہ تو ٹھیک ہے چودھری صاحب۔ حنفی صاحب نے کہا: لیکن میرے پاس وقت ہی کہاں ہے میں تو چوبیس گھنٹے اپنی اردو بچانے میں لگا رہتا ہوں۔
 

سیما علی

لائبریرین
شملہ میں ایک کانفرنس ہو رہی تھی جس میں مولانا محمد علی جوہر بھی شریک تھے۔ گفتگو اردو زبان ہی میں ہو رہی تھی بات مین کچھ الجھاؤ پیدا ہو گیا تو جوش خطابت میں مولانا نے انگریزی میں بولنا شروع کر دیا اور سب کو لا جواب کر دیا۔ مجلس میں ایک ہندو رانی بھی تھی۔ اس نے جب ایک مولانا کو اتنی شستہ انگریزی بولتے سنا تو ششدر رہ گئی اور پوچھا:

’’مولانا آپ نے اتنی اچھی انگریزی کہاں سیکھی؟‘‘

مولانا نے جواب دیا ۔

’’میں نے انگریزی ایک بہت ہی چھوٹے سے قصبے میں سیکھی ہے۔‘‘
انہوں نے حیرانی سے پوچھا ۔۔۔کہاں
تو مولانا شگفتگی سے بولے: ’’آ کسفورڈ میں۔‘‘
جس پر سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔

٭٭
 

محمد وارث

لائبریرین
محمد وارث
کیا آپ اپنی لڑی کا خون ہوتے دیکھ کر احتجاج بھی نہیں کریں گے
شکریہ ڈاکٹر صاحب یاد آوری کے لیے۔ یہ لڑی بنیادی طور پر تو طنز و مزاح یعنی "لطیف" باتوں کے لیے تھی لیکن "لطافت" کی تعریف مختلف لوگوں کے نزدیک مختلف ہو سکتی ہے۔ :)
 

سیما علی

لائبریرین
نقوش ادبی معرکے نمبر 1981ء

نقوش ادبی معرکے نمبر 1981ء سے پاکستان کے مشہور کارٹونسٹ جاوید اقبال کے کچھ دلچسپ کارٹونز۔
C_8.jpg
وارث صاحب !!
السلام علیکم
میرے پاس پچاس سال پرانے شمارے ہیں نقوش کے کیونکہ یہ سب والد صاحب کی نشانیاں ہیں کچھ تو دوبارہ جلد کروانا پڑے ۔۹یہ شوق ان سے ہی ورثہ میں ملا ہے ۔مگر نیٹ پر یہ مجھے نہی ملتے ۔۔۔
 
وارث صاحب !!
السلام علیکم
میرے پاس پچاس سال پرانے شمارے ہیں نقوش کے کیونکہ یہ سب والد صاحب کی نشانیاں ہیں کچھ تو دوبارہ جلد کروانا پڑے ۔۹یہ شوق ان سے ہی ورثہ میں ملا ہے ۔مگر نیٹ پر یہ مجھے نہی ملتے ۔۔۔
اگر سکین کروا لیں تو زیادہ محفوظ ہو جائیں گے اور نیٹ پر بھی اپلوڈ ہو جائیں گے۔
 

سیما علی

لائبریرین

سیما علی

لائبریرین
اگر سکین کروا لیں تو زیادہ محفوظ ہو جائیں گے اور نیٹ پر بھی اپلوڈ ہو جائیں گے۔
ماشاء الللہ آپ لوگوں کی کاوشیں دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے اتنی کم عمری میں اتنے بڑے کام الللہ سلامت رکھے،اصل میں آپ لوگ ماشاءالللہ آئی ٹی میں ایکسپرٹ ہیں ۔ مجھے اس میں دشواری ہے ۔ٹرمینل میں کام کرنا اور ادبی کام کرنے میں بڑا واضع فرق ہے۔۔۔۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
وارث صاحب !!
السلام علیکم
میرے پاس پچاس سال پرانے شمارے ہیں نقوش کے کیونکہ یہ سب والد صاحب کی نشانیاں ہیں کچھ تو دوبارہ جلد کروانا پڑے ۔۹یہ شوق ان سے ہی ورثہ میں ملا ہے ۔مگر نیٹ پر یہ مجھے نہی ملتے ۔۔۔
سیما علی ، اس خزانے کی حفاظت کیجئے۔ کتب خانوں کا اجڑنا اور ضائع ہونا اب عام ہوتا جارہا ہے۔ یہاں امریکا میں کئی ایسے واقعات ہوئے کہ والد یا والدہ نے جو ذخیرہء کتب زندگی بھرمحنت اور محبت سے جمع کیا تھا وہ ان کی وفات کے بعد اولاد نے ضائع کردیا کہ نہ تو وہ اردو لکھ پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو شعر و ادب کا شوق ہے۔ محبی و مکرمی سرور عالم راز سرور کہ اب اسی بیاسی سال کے ہوچکے ہیں آئے دن اپنی کتابیں مختلف جگہوں پر عطیہ کرتے رہتے ہیں ۔ یہاں کچھ یونیورسٹیاں ہیں کہ جن میں اردو چیئر یا اردو کا شعبہ موجود ہے وہ کتابیں لے لیتے ہیں ۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی عرصہ ہوا کتابیں جمع کرنا چھوڑدیں ۔ اب برقی کتب سے کام چلاتا ہوں ۔ آپ اگر ان کتب کو رکھنا چاہتی ہیں تو بہت ہی اچھی بات ہے ورنہ کسی ادارے یا لائبریری وغیرہ کو عطیہ کرنے کے بارے میں سوچئے ۔
یاد آیا کہ راشد اشرف صاحب پرانی کتب کو محفوظ کرنے کا کام کررہے ہیں ۔ شاید وہ اس میں دلچسپی رکھتے ہوں ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب !!
السلام علیکم
میرے پاس پچاس سال پرانے شمارے ہیں نقوش کے کیونکہ یہ سب والد صاحب کی نشانیاں ہیں کچھ تو دوبارہ جلد کروانا پڑے ۔۹یہ شوق ان سے ہی ورثہ میں ملا ہے ۔مگر نیٹ پر یہ مجھے نہی ملتے ۔۔۔
میرے پاس بھی "نقوش" کے کچھ ایسے نمبرز ہیں جو 1950ء کی دہائی میں چھپے تھے جیسے "افسانہ نمبر"، مجھے لاہور سے پرانی انارکلی کے فٹ پاتھوں پر ملے تھے، 1990ء کی دہائی میں جب میں لاہور میں تعلیم کی غرض سے مقیم تھا۔ :)
 
Top