غزل

گئے دن کی نشانی ہو گئی ہے
مری تختی پرانی ہو گئی ہے
گلوں نے خودکشی کرلی یہ سن کر
خزاں کی حکمرانی ہو گئی ہے
اچانک مل گئے جو آپ ہم سے
یہ رت کتنی سہانی ہو گئی ہے
ضرورت سے فقط ملتی ہے ہم سے
بہت دنیا سیانی ہو گئی ہے
نسیں دکھلاتی ہے ہاتھوں کی اکثر
وہ اک لڑکی دیوانی ہو گئی ہے
فقط اب رینگتی ہے گھر کے اندر
عذاب اک زندگانی ہو گئی ہے
فضا میں زہر ہے نفرت کا ایسا
ہوا بھی زعفرانی ہو گئ ہے
خورشید بھارتی
واسلیگنج،سول لائن،
مرزاپور، یو۔پی
انڈیا
 
Top