آخری بات ڈھونڈ لیتے ہیں

درد کی رات ڈھونڈلیتے ہیں
تیری سوغات ڈھونڈ لیتے ہیں
اس فسانے میں ربط کی خاطر
اتفاقات ڈھونڈلیتے ہیں
لوگ پوچھیں گے کچھ سوال تو ہم
کچھ جوابات ڈھونڈ لیتے ہیں
ڈوب کر درد کی گپھاؤں میں
اپنی ہی ذات ڈھونڈ لیتے ہیں
ان کی خدمت میں پیش کرنے کو
کچھ مناجات ڈھونڈ لیتے ہیں
اب روایات کو بدلتے ہیں
کچھ نئی بات ڈھونڈ لیتے ہیں
جس کی خوشبو ابھی بھی باقی ہے
وہ ملاقات ڈھونڈ لیتے ہیں
بادہ و جام و ساغر و مینا
یہ خرافات ڈھونڈ لیتے ہیں
اب شکیل اختتام کرتے ہیں
آخری بات ڈھونڈ لیتے ہیں

محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
و دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
 

الف عین

لائبریرین
درست لگ رہی ہے غزل
اب روایات کو بدلتے ہیں
کو بدل دیں، یہ بھی ردیف 'ہیں' پر ختم ہو رہا ہے
 
درست لگ رہی ہے غزل
اب روایات کو بدلتے ہیں
کو بدل دیں، یہ بھی ردیف 'ہیں' پر ختم ہو رہا ہے
شکریہ استادِ محترم
یہ غلطی مقطع میں بھی در آئی ہے
کیا یوں مناسب ہو جائیں گے دونوں اشعار

اب روایات کو بدلتے ہوئے
کچھ نئی بات ڈھونڈ لیتے ہیں
اور
اب شکیل اختتام ہے نزدیک
آخری بات ڈھونڈ لیتے ہیں
 
Top