پاکستانی

محفلین
1979ء میں لکھی گئی فیض احمد فیض کی نظم ”ندائے غیب“


ہر اِک اُولیِ الامر کو صدا دو
کہ اپنی فردِ عمل سنبھالے
اُٹھے گا جب جَمّ سرفروشاں
پڑیں گے دارو رَسن کے لالے
کوئی نہ ہوگا کہ جو بچا لے
جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی
یہیں عذاب و ثواب ہوگا
یہیں سے اُٹھے گا شورِ محشر
یہیں پہ روزِ حساب ہوگا



کسی دوست کے پاس مکمل نظم ہو تو یہاں شیئر کریں ۔۔۔ شکریہ
 

غضنفر علی

محفلین
ندائے غیب
فیض احمد فیض

جلا دو فردِ گناہ میری
کہ میری بخشش کو یہ بہت ہیں
رہِ خدا میں لہو کے قطرے
ہر ایک ظالم سے جا کے کہہ دو
وہ اپنی فردِ عمل اُٹھالے
کہ اپنی گردن ہمارے ہاتھوں
اگر ہے ہمت اُسے بچالے
یہیں سے اُٹھے گا شورِ محشر
بپا قیامت یہیں پہ ہو گی
یہیں جلیں گے بُتانِ آذر
نہ کوئی جائے گا آج بچ کر
ہر ایک ظالم کا گندہ چہرہ
یہیں پہ اب بے نقاب ہوگا
ہماری غافل طبیعتوں میں
کچھ ایسا اب انقلاب ہو گا
تمہاری گردن یہیں اُڑے گی
یہیں تمہارا حساب ہو گا
چلو چلیں ہم جہاد پہ اب
لہو کی پیاسی ہیں مدتوں سے
یہ تیغیں اپنی سیراب کرلیں
لے آؤ توپیں یہیں پہ یارو
یہیں پہ دشمن کا کام کر دیں
یہ کام اب کے تمام کر دیں
یہیں پہ اُس کا حساب کر دیں
چلو چلیں اب جہاد پہ ہم
کہ اپنے دامن کے داغِ عصیاں
لہو کے قطروں سے جا کے دھو لیں
لہو کے قطرے نکھرتی کلیاں
یہ اپنی کشتِ ویراں میں بو لیں
لہو کے قطرے بہار بن کر
جوپھول برسائیں گے زمیں پر
لہو کے قطرے ستارے بن کر
جوجگمگائیں گے اِس جبیں پر
ہماری بستی مہک اُٹھےگی
ہماری بستی چمک اُٹھے گی
لہو کے قطرے رخِ حسیں پر
پیام قوموں کی زندگی کا
اُٹھاؤ فردِ عمل اے یارو
لہو کے قطروں سے اِس پہ لکھدو
لہو کے قطرے حیاتِ دائم
لہو کے قطرے سدا سے قائم
شہید مر کر نہیں مرے گا
شہید مر کر رہے گا زندہ
وہ دیکھو یارو جہادمیں اب
لہو کے قطرے چمک رہے ہیں
لہو کے قطرے دمک رہے ہیں
وہ دیکھو یارو جہادمیں اب
لہو کے قطرے د ھک رہے ہیں
اندھیری راتوں میں رہبری کو
مِنار جیسے ہو روشنی کا
لہو کے قطروں کی روشنی میں
پیام یارو ہے آگہی کا
لہو کے قطروں کی روشنی سے
یہ ظلمتِ کفر دور ہوگی
یاں صبح ہو گی ضرور ہو گی
لہو کے قطرے ہیں چڑھتا سورج
لہو کے قطرے بدر میں چمکے
لہو کے قطرے اُحد میں دمکے
فاران و یثرب کی وادیوں میں
لہو کے قطروں سے پھول مہکے
جلا دو فردِ گناہ میری
کہ میری بخشش کو یہ بہت ہیں
رہِ خدا میں لہو کے قطرے
رہِ خُدا میں لہو کے قطرے
رہِ محبّت کی پہلی منزل
رہ خُدا میں لہو کے قطرے
ہمارے دین و ایماں کی مشعل
رہِ خُدا میں لہو کے قطرے
ہیں کامیابی کا نقشِ اوّل
چلو چلیں اب جہاد پہ ہم
ہمیں شہادت بُلا رہی ہے
خُدا کی رحمت بُلا رہی ہے
مجھے تو جنّت کی پیاری خُوشبُو
اسی زمیں پر ہی آ رہی ہے
یہی ہے معراج زندگی کی
یہی ہے معراج بندگی کی
میں جا رہا ہوں اُدھر ہی یارو
جو ہو سکے تَو ضرور آنا
مع السّلامہ مع السّلامہ
ذرا تو ٹھہرو ہم آ رہے ہیں
ذرا توٹھہرو ہم آرہے ہیں
1979ء میں لکھی گئی فیض احمد فیض کی نظم ”ندائے غیب“


ہر اِک اُولیِ الامر کو صدا دو
کہ اپنی فردِ عمل سنبھالے
اُٹھے گا جب جَمّ سرفروشاں
پڑیں گے دارو رَسن کے لالے
کوئی نہ ہوگا کہ جو بچا لے
جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی
یہیں عذاب و ثواب ہوگا
یہیں سے اُٹھے گا شورِ محشر
یہیں پہ روزِ حساب ہوگا



کسی دوست کے پاس مکمل نظم ہو تو یہاں شیئر کریں ۔۔۔ شکریہ
 

بافقیہ

محفلین
ندائے غیب
فیض احمد فیض

جلا دو فردِ گناہ میری
کہ میری بخشش کو یہ بہت ہیں
رہِ خدا میں لہو کے قطرے
ہر ایک ظالم سے جا کے کہہ دو
وہ اپنی فردِ عمل اُٹھالے
کہ اپنی گردن ہمارے ہاتھوں
اگر ہے ہمت اُسے بچالے
یہیں سے اُٹھے گا شورِ محشر
بپا قیامت یہیں پہ ہو گی
یہیں جلیں گے بُتانِ آذر
نہ کوئی جائے گا آج بچ کر
ہر ایک ظالم کا گندہ چہرہ
یہیں پہ اب بے نقاب ہوگا
ہماری غافل طبیعتوں میں
کچھ ایسا اب انقلاب ہو گا
تمہاری گردن یہیں اُڑے گی
یہیں تمہارا حساب ہو گا
چلو چلیں ہم جہاد پہ اب
لہو کی پیاسی ہیں مدتوں سے
یہ تیغیں اپنی سیراب کرلیں
لے آؤ توپیں یہیں پہ یارو
یہیں پہ دشمن کا کام کر دیں
یہ کام اب کے تمام کر دیں
یہیں پہ اُس کا حساب کر دیں
چلو چلیں اب جہاد پہ ہم
کہ اپنے دامن کے داغِ عصیاں
لہو کے قطروں سے جا کے دھو لیں
لہو کے قطرے نکھرتی کلیاں
یہ اپنی کشتِ ویراں میں بو لیں
لہو کے قطرے بہار بن کر
جوپھول برسائیں گے زمیں پر
لہو کے قطرے ستارے بن کر
جوجگمگائیں گے اِس جبیں پر
ہماری بستی مہک اُٹھےگی
ہماری بستی چمک اُٹھے گی
لہو کے قطرے رخِ حسیں پر
پیام قوموں کی زندگی کا
اُٹھاؤ فردِ عمل اے یارو
لہو کے قطروں سے اِس پہ لکھدو
لہو کے قطرے حیاتِ دائم
لہو کے قطرے سدا سے قائم
شہید مر کر نہیں مرے گا
شہید مر کر رہے گا زندہ
وہ دیکھو یارو جہادمیں اب
لہو کے قطرے چمک رہے ہیں
لہو کے قطرے دمک رہے ہیں
وہ دیکھو یارو جہادمیں اب
لہو کے قطرے د ھک رہے ہیں
اندھیری راتوں میں رہبری کو
مِنار جیسے ہو روشنی کا
لہو کے قطروں کی روشنی میں
پیام یارو ہے آگہی کا
لہو کے قطروں کی روشنی سے
یہ ظلمتِ کفر دور ہوگی
یاں صبح ہو گی ضرور ہو گی
لہو کے قطرے ہیں چڑھتا سورج
لہو کے قطرے بدر میں چمکے
لہو کے قطرے اُحد میں دمکے
فاران و یثرب کی وادیوں میں
لہو کے قطروں سے پھول مہکے
جلا دو فردِ گناہ میری
کہ میری بخشش کو یہ بہت ہیں
رہِ خدا میں لہو کے قطرے
رہِ خُدا میں لہو کے قطرے
رہِ محبّت کی پہلی منزل
رہ خُدا میں لہو کے قطرے
ہمارے دین و ایماں کی مشعل
رہِ خُدا میں لہو کے قطرے
ہیں کامیابی کا نقشِ اوّل
چلو چلیں اب جہاد پہ ہم
ہمیں شہادت بُلا رہی ہے
خُدا کی رحمت بُلا رہی ہے
مجھے تو جنّت کی پیاری خُوشبُو
اسی زمیں پر ہی آ رہی ہے
یہی ہے معراج زندگی کی
یہی ہے معراج بندگی کی
میں جا رہا ہوں اُدھر ہی یارو
جو ہو سکے تَو ضرور آنا
مع السّلامہ مع السّلامہ
ذرا تو ٹھہرو ہم آ رہے ہیں
ذرا توٹھہرو ہم آرہے ہیں
جناب عالی! یہ فیض احمد فیض کی نظم نہیں ہے۔ اور نہ کسی اعتبار سے ہوسکتی ہے۔
 
Top