مولانا جلال الدین رومی

مولاناجلال الدین رومی کی شخصیت اور ان کا کالام دونوں هی کسی تعارف کے محتاج نهیں۔ چھبیس ھزار چھ سو چھیاسٹھ اشعار پر مبنی ان کی مشهور زمانه مثنوی تصوف اور عشق الهٰی کے جمله موضوعات کو انتهائ سادگی روحانی اور عام فهم انداز مین بیان کرتی ھے۔ عشق الهٰی اور معرفت کے انتهائ مشکل و پیچیده نکات سلجھانے کے لیے مولانا نے سبق آموز حکایات و قصے کهانیوں سے مدد لی ھے جو بھی لکھا ھے قرآن و حدیث نبوی سے اس کی سند بھی بیان کی جاتی هے اس لیئے آج آٹھ سو سال گزر جانے کے باوجود ان کے کلام کی اهمیت و افادیت میں کوئ کمی واقع نهین ھوئ۔ مولانا جلال الدین رومی الملقب به مولوی معنوی سن باره سو سات میں بلخ میں پیدا ھوئے۔ آپ کے والد بزرگوار بهاء الدین اپنے دور کے مشهور علماء مین شمار کیئے جاتے تھے، حتی کے ان حلقهء درس میں حاکم وقت خوارزم شاه بھی شرکت کیا کرتے تھا۔ وحشی منگولوں کے حملوں کے منڈلاتے خطرات کے پیش نظر مولانا کے خاندان نے بلخ کو خیر باد کها اور پناه کی تلاش مین انا طویه کی راه لی، راستے میں نیشاپور میں رکے جهاں مشهور صوفی بزرگ عطار نیشا پوری سے ملاقات کی۔ عطا بڑے قیافه شناس تھے۔ جلال الدین رومی کو دیکھ کر سمجھ گئے که آگے چل کر یه بچه عشق و معرفت کی دنیا میں دھوم مچا دے گا۔ چناں چه انهوں نے بهاء الدین کو ان کی تربیت پر خصوصی توجه دینے کی هدایت کی۔ حج کی سعادت حاصل کرتے هوئے بهاء الدین اناطولیه پهنچے جهاں کے سلجوتی حاکم علاءالدین کیقباد نے انکا پرتپاک استقبال کیا۔ قونیه میں بهاء الدین نے ایک مدرسے میں تدریس شروع کی اور بهت جلد مشهور ھوگئے، ان کے انتقال کے بعد مولانا رومی نے والد کی گدی سنبھال لی۔ حلقهء درس میں شریک هونے والے حاکم وقت اور اعیان دولت ان سے بے انتها عقیدت رکھتے تھے۔ مولانا کی زندگی بڑے سکون سے گزررهی تھی، ایک دن گرمیوں کی صبح وه حوض کے پاس معمول کے مطابق درس دے رهے تھے، ایک خوانچه فروش حلوه بیچتا ھوا مدرسے کے احاطے میں آگیا۔ اپنے اطراف اور ماحول سے بے پرواه اور بے خبر اس جگه جا کر کھڑا ھواگیا جهاں مولانا تدریس میں مشغول تھے۔ خوانچه فروش نے تعجب سے پوچھا که یه سب کیا ھے، کیا ھورھا هے۔ مولانا نے بڑے تحمل سے کها یه تم نهین جانتے جاؤ، اپنا کام کرو۔ وه آگے بڑھا اور کتاب مولانا کے هاتھ سے لے کر اٹھا اور حوض میں پھینک دی۔ مولانا نے کها یه تم نے کیا کیا۔ میں نے تو کچھ بھی نهیں کیا۔ یه کهه کر اس نے حوض سے کتاب نکال کر رومی نے حیرت سے پوچھا، یه کیا ھے، اب باری اس کی تھی، یه تم نهیں جانتے یه که کر اس نے اپنا خوانچه اٹھایا اور اسی طرح صدا لگاتا ھوا باهر چلا گیا۔ یه حضرت شمس تبریز تھے۔ مولانا رومی، شمس تبریز کو اپنے ساتھ لے آئے۔ انهوں نے علم کی انتھائ اعلیٰ منازل طے کررکھی تھین، اب عشق الهٰی و معرفت کے سفر کا آغاز کیا جس مین قدم قدم پر انهیں اپنے مرشد شمس تبریز کی راه نمائ حاصل تھی۔ مولانا رومی نے رفته رفته اپنا رابطه اپنے ماحول اور گردو پیش سے منقطع کرلیا۔ بس وه تھے اور شمس تبریز کی صحبت۔ یه صورت حال ان کے شاگردوں کے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نه تھی۔ چنانچه شمس تبریز انکے نزدیک متنازع شخصیت بن گئے، شاگردوں و عقیدت مندوں کے بدلتے هوئے تیور دیکھ کر ایک رات اچانک حضرت شمس تبریز غائب ھوگئے۔ بعض روایات کے مطابق انھیں شهید کردیا گیا۔ شمس تبریز کی جدائ مولانا رومی کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اپنے مرشد کے فراق میں خود و ارفتگی کے عالم میں انهوں نے فی البدیهه شعر کهنا شروع کردیئے۔ یوں عرفان و آگهی کی مضبوط ترین دستاویز مثنوی تخلیق ھوئ۔ اس مثنوی کے علاوه مولانا رومی کا دیوان کبیر، جو چالیس هزار اشعار پر مشتمل ھے، جس میں بائیس شعری مجموعے بشمول دیوان شمس تبریز عربی، ترکی اور یونانی زبانوں میں ان کا کلام۔ تصوف پر ایک کتاب فی مافیه، مجالس سبع اور مکتوبات، ایسی کتابیں هیں جو ان کے نام کو صوفیانه ادب میں همیشه روشن اور تابنده رکھیں گی۔ هر سال ستره دسمبر کو مولانا کا عرس [شب عروس] کے نام سے قونیه میں منعقد کیا جاتا ھے۔ سن دوهزار سات کو ان کی ولادت کی آٹھ سو ساله تقریبات کے طور پر منایا ۔ مئ کے مهینے میں یونیسکو نے استنبول میں ایک شاندار کانفرنس کا اهتمام کیا تھا، اسی مهینے میں تهران مین بھی ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد ھوچکا ۔ قارئین مولانا سلوک کی اس منزل پر پهنچ چکے تھے که انهیں هر طرف الله هی کا جلوه نظر آتا تھا، جو قرآن کی آیت [الله نور السموات و الارض] کی گویا تفسیر ھے، وه حسن و زیبائ کے کائناتی، ملکاتی اور الهامی تصور کے علم بردار تھے۔ الله تعالی نے محبت رسول الله سے شیفتگی کے اس مرتبے پر پهنچ چکے تھے، جهاں ان کی اپنی هستی معدوم هوچکی تھی۔
 
تکبر عزازئیل را خوار کرد ، بزندان لعنت گرفتار کرد
شیطان بہی بہت بڑا عالم تھا اور اسی علم پہ غرور کیا تو لعنتی بن گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دل میں خیال کیا تھا کہ میرا جیسا علم والا اس دنیا میں اور کوئی نہیں تو اللہ تعالی اسے حضرت حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کروائی جس کا ذکر تفصیل کے ساتھ قرآن مجید فرقان حمید میں موجود ہے۔اور یہ واقعہ بہی حقیقت پر مبنی ہے ،قبلہ اجر و ثواب نیتوں پر ہوتا ہے !اللہ تعالی تمام غلامان مصطفیٰ ﷺ کے حال پر اپنا رحم و کرم فرمائے،
ایمان پہ زندہ رکھے اور ایمان پہ خاتمہ کرے ۔آمین ثم آمین
 

جان خان

محفلین
مولانا روم رحمہ اللہ درس دے رہے اور شمس تبریز رحمہ اللہ نے ان کی کتاب اٹھا کر پھینک دی
اس واقعے میں قابل اعتراض کیا بات ہے؟
یہ لازمی نہیں کہ درس ہمیشہ قرآن و حدیث کا ہی دیا جائے۔یہ بات حقیقت ہے کہ مدارس میں آج بھی علوم دینیہ کے علاوہ دنیاوی فنون بھی پڑھائے جاتے ہیں، اور یہی طرز شروع سے علماء کا چلا آرہا ہے، اسی لیے اس واقعے کو ہم یوں بھی لے سکتے ہیں کہ مولانا کسی دنیاوی فنون سے متعلق کتاب کا درس دے رہے تھے اور شمس تبریز رحمہ اللہ نے اس کتاب کو پانی میں پھینک دیا۔
اب بتائیے قابل اعتراض بات بنتی ہے۔
 

علی اسود

محفلین
سوز شمس از گفتہ ملا فزود
آتشے از جان تبریزی کشود

شمس تبریزی کے سوز کی گرمی مولانا روم کی باتوں سے بڑھ گئ ،
ان کی جان میں چھپی آگ ظاہر ہوگئ۔

بر زمیں برق نگاہ او فتاد
خاک از سوز دم او شعلہ زاد

انہوں نے جلال سے بھری آنکھ زمیں پہ ڈالی
ان کے پھونک سے مٹی شعلہ بن گی

آتش دل خرمن ادراک سوخت
دفتر آں فلسفی را پاک سوخت

دل کی آگ نے عقل و فہم و ادراک کا کھلیان جلا دیا
اس فلسفی کا دفتر جل کر راکھ ہوگیا
 
جواب
جناب محترم یہ واقعہ درست ہے
لیکن سمجنھے میں ایک اہم غلط فہمی ہے وہ یہ کہ
یہ واقعہ اس وقت کا جب جناب رومی ایک مولوی صاحب کی حیثیت سے درس دیتے تھے
اور اہل علم کا تکبر علم کا شکار ہوجانا ایک عام بات ہے
اور زمانہ قدیم میں تو جس کے پاس علم ہوتا وہ اور زیادہ متکبر ہو جایا کرتا
سوائے ان چند خاص لوگوں کے جن کو اللہ کریم اپنی رحمت کے ذریعے تکبر سے بچا لیتا اور شیطان کے چنگل میں نہ پھنسنے دیتا
تب آپ کو ایک ایسا شخص جو کہ عام میلے کچیلے کپڑوں میں ہے وہ کچھ کہتا ہے تو ایک مولوی کی حیثیت سے آپ کا جواب ہوتا ہے

جناب رومی کا اپنا ایک ارشاد ہے کہ
مولوی ہرگز مولائے روم نہ بن پاتا اگر وہ غلام شمس تبریز نہ ہوتا
بعد کی باتیں عشق اور عاجزی کی ہیں
درست کہا۔ اللہ آپکی اس کاوش کو قبول فرمائے کہ آپ نے ایک اللہ والے کی حمایت کی۔ با ادب با مراد۔ بے ادب بے مراد
 
Top