کیا جسٹس عیسیٰ پاکستانی عوام کے مجرم ہیں؟

جاسم محمد

محفلین
بریکنگ نیوز: رس گُلّے کھانے والوں کو بدہضمی اور معدے میں جلن جیسے مسائل کا سامنا۔ ڈاکٹرز نے یہ کیفیت آئندہ تین ماہ برقرار رہنے کا عندیہ دے دیا۔ مزاحمتی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا فائدہ۔۔۔
مجھے یقین ہے کہ یہ آدمی باعزت بری ہوگا۔ آپ سے بس تصدیق کررہا ہوں۔۔۔
بھائی اس ملک میں فیصلے آئین، قانون، انصاف کے تحت نہیں بلکہ لوگوں کی خواہشات اور منشا کے مطابق کئے جاتے ہیں۔
جیسا کہ آپ نے اوپر دیکھا کہ لبرل جمہوریت پسندوں کی شدید خواہش تھی کہ جسٹس فائز عیسیٰ پر دائر کردہ ریفرنس ختم کر دیا جائے۔ سو عدالت نے اسے ختم کر دیا۔
مگر پھر ساتھ ہی فوجی دستوں کی شدید منشا تھی کہ ان کا احتساب کیا جائے۔ سو وہ معاملہ عدالت نے ایف بی آر اور سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج دیا ہے۔
لو ہو گیا "انصاف" کیونکہ اب دونوں پارٹیاں خوش ہیں۔ :)
 
بھائی اس ملک میں فیصلے آئین، قانون، انصاف کے تحت نہیں بلکہ لوگوں کی خواہشات اور منشا کے مطابق کئے جاتے ہیں۔
جیسا کہ آپ نے اوپر دیکھا کہ لبرل جمہوریت پسندوں کی شدید خواہش تھی کہ جسٹس فائز عیسیٰ پر دائر کردہ ریفرنس ختم کر دیا جائے۔ سو عدالت نے اسے ختم کر دیا۔
مگر پھر ساتھ ہی فوجی دستوں کی شدید منشا تھی کہ ان کا احتساب کیا جائے۔ سو وہ معاملہ عدالت نے ایف بی آر اور سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج دیا ہے۔
لو ہو گیا "انصاف" کیونکہ اب دونوں پارٹیاں خوش ہیں۔ :)
متفق۔!
یہاں محکمہٗ زراعت کبھی ہار نہیں مانتا! بے شک سیلیکٹڈ کی بے عزتی بہت ہوئی اور بے ان کے گماشتوں کی بے عزتی ہوئی لیکن ہوا وہی جو زراعت والے چاہتے تھے۔سیلیکٹڈ اور دیگر گماشتے آخر کو مہرے ہیں۔ وقتی طور پر جج صاحب خوش اور زراعت والے بھی جاگیردار بھی خوش کہ ان کو وہ نہیں بننے دینا جو یہ چاہتے ہیں۔ لکھ لیجیے۔
 
اوپر کچھ پوسٹس سے اگر یہ تاثر گیا ہے کہ میں لبرل نظریات کے خلاف ہوں تو یہ درست نہیں ہے۔ جمہوریت پسند لبرلز نظریاتی طور پر بالکل صحیح کہتے ہیں کہ ملک کے ہر محکمہ اور ادارہ کو اپنی آئینی حد میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ اور جو کوئی بھی اس سے تجاوز کرے اسے عبرتناک سزا ملنی چاہئے۔یہ چاہتے ہیں کہ ملک کو فوج کے تسلط سے آزادی ملے ۔ یہاں صحیح معنوں میں جمہوری اقدار نافذ ہوں۔ ٹھیک ہے اس میں کیا اختلاف ہو سکتا ہے؟ لیکن یہ سب حاصل کرنے کیلئے وہ خود کر کیا رہے ہیں؟
نواز شریف کو عدالت عظمیٰ کے پانچ ججز ایک کیس میں نااہل کرتے ہیں تو یہ لبرلز ان ججوں کو بوٹ پالشی، بغض سے بھرے ہوئے، قوم کی امنگوں کے خلاف فیصلہ دینے والے ٹاؤٹ اور پتا نہیں کن کن القابات سے نواز دیتے ہیں۔ ساتھ ہی نواز شریف کی شروع کردہ کیوں نکالا سیاسی مہم میں اسے بھرپور نظریاتی سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ کہ شاید اس طرح سیاسی دباؤ کے ذریعہ عدلیہ اور فوج ڈر جائے گی اور یہ تمام فیصلے کالعدم قرار دے دئے جائیں گے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جمہوری انقلابی نواز شریف ایک سال جیل میں سزا کاٹ کر اپنی بیماری کا بہانہ بنا کر فوج سے ڈیل کرملک سے رفو چکر ہو گئے۔
ان انتہائی مایوس کن حالات میں جمہوریت پسند لبرلز نے مولانا فضل الرحمان جیسے اینٹی لبرل کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر بنا کر اس کے دھرنے کی حمایت شروع کر دی۔ اس وقت وہ روزانہ اس سویلین فوجی حکومت کو گھر بھیج کر سویا کرتے تھے۔ مگر پھر کیا نتیجہ بر آمد ہوا؟ چند ہی ہفتوں بعد مولانا صاحب اپنی جلسی اٹھا کر گھر لوٹ گئے اور لبرلز ان کا منہ تکتے رہ گئے۔
پھر آرمی چیف کی ایکسٹینشن معطل کا معاملہ آیا تو وہاں ان لبرلز نے سپریم کورٹ کے ججز کی بھرپور حمایت کی بس اب انقلاب آنے کو۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ دو تین دن ججز نے حکومت کی کلاس لی اور آرمی چیف کو واپس عہدہ پر بحال کر دیا۔ اس کے بعد عدالتی فیصلہ کے مطابق ملک کی تمام بڑی جمہوری اور فوج مخالف سیاسی جماعتوں نے اچھے کپڑے پہن کر، خوشبو لگا کر ایوان اور ایوان بالا میں جاکر دو تہائی اکثریت کے ساتھ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے حق میں ووٹ ڈالا۔ اور یوں اس غیر قانونی اقدام کو قانونی بنا دیا۔ اس وقت یہ جمہوریت پسند لبرلز اور انقلابی کہاں بھاگ گئے تھے؟
یہ معاملہ ختم ہوا تو جسٹس فائز عیسی کا معاملہ سامنے آگیا۔ وہاں پھر وہی لبرل تاریخ دہرائی گئی۔ سب نے بڑھ چڑھ کر فائز عیسی کے حق میں قصیدہ گوئی شروع کر دی۔ سوشل میڈیا ، الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر پر بھرپور تحریک چلائی۔ وکلا تنظیموں کو ساتھ ملا لیا۔ مگر پھر ان سب کا نتیجہ کیا نکلا؟ عدالت عظمیٰ نے حکومتی ریفرنس معطل کرکے ان کا کیس ایف بی آر کو بھیج دیا۔ جہاں سے اب یہ یقینی طور پر کچھ ماہ بعد واپس سپریم جوڈیشل کونسل میں پہنچ جائے گا۔
الغرض کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر جمہوریت پسند لبرلز کا مقصد نیک ہے۔ لیکن ان کا طرز عمل اس کے منافی ہے۔ وہ اپنی خود کی پارٹی بنا کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جہاد کرنے کی بجائے کبھی پی پی پی تو کبھی پی ٹی ایم تو کبھی ن لیگ کی آغوش میں جا کر چھپ جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب موجودہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران ملک سے مفرور تھے۔ اور عمران خان اکیلئے ڈکٹیٹر مشرف کے خلاف جہاد کیا کرتے تھے۔ اس وقت تمام لبرلز کی ان کو حمایت حاصل کی۔ جبکہ آج وہ فوج کے ساتھ ایک پیج والی حکومت میں ہیں تو ان سے وہی عمران خان برداشت نہیں ہو رہے۔
ایسا کب تک چلے گا؟ جمہوریت پسند لبرلز کب بڑے ہوں گے اور تاریخ سے سبق سیکھیں گے؟ کیا مشرقی پاکستان کو فوجی تسلط سے رہائی اسی طرح اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر نظریاتی جہاد کرنے سے حاصل ہو گئی تھی؟ یا وہاں ایک جمہوری لیڈر شیخ مجیب کی قیادت میں بنگالیوں نے فوج کے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر اور اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر اپنے وطن کو فوج کے تسلط سے آزاد کروایا تھا؟
جب تک یہ لبرلز اپنے مقصد میں اخلاص کا مظاہرہ نہیں کریں گے ان کو کوئی کامیابی نہیں مل سکتی۔ دوسری جماعتوں کے لیڈروں میں پناہ ڈھونڈنے کی بجائے اپنی الگ سے سیاسی جماعت بنائیں جس کا ایک نکاتی ہو کہ ہم فوج کے تسلط سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس جماعت کے لیڈران بنگالی قوم کی طرح پاکستانی قوم کو ٹینکوں کے آگے لیٹنے اور اپنے سینوں پر گولیاں کھانے کیلئے تیار کریں۔ تب ہی کوئی بہتری کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔ بصورت دیگر جو حالات ہیں یہ جیسے پہلے تھے ویسے ہی رہیں گے۔ جتنا مرضی میڈیا پر نظریاتی جہاد کر لیں۔ اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔

کیا اب جمہوریت کی حمایت کرنے کے لیے لبرل ہی رہ گئے ہیں۔ جمہوریت پسند اور لبرل دو علیحدہ بحثیں ہیں۔ہم اپنے آپ کو جمہوریت پسند کہلوانے میں اچھا محسوس کرتے ہیں۔ جمہوریت پسند لبرل بھی ہوسکتا ہے اور نہیں بھی ہوسکتا۔ جمہوریت پسنفد ہونے کے لیے لبرل ہونا شرط نہیں۔

ویسے آپس کی بات ہے آپ شاید لبرل بھی ہوں لیکن آپ کے تبصروں سے جمہوریت مخالف ہی نظر آتے ہیں۔ شاید یہ ہماری نظروں کا قصور ہو؟
 
کمرہ عدالت میں موجود دونوں بڑی سکرینز پر اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نظر آنے لگ گئیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو ویلکم کہا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے دو سے تین دفعہ فل کورٹ کو سننے کا موقع دیے جانے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ کوشش کریں گی کہ بات اختصار سے کریں اور کوئی غلطی کر دوں تو پیشگی معذرت کرتی ہوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ وہ کافی عرصے سے یہ سب کچھ چلتا دیکھ رہی ہیں اور وہ اپنے شوہر سے پوچھتی بھی تھیں لیکن انہوں نے کہا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں، مجھے اس کا حصہ بننے کی ضرورت نہیں۔

بیگم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میرے بچے اور پوتے سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم نے کچھ غلط کیا ہے۔ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ضبط جواب دے گیا اور انہوں نے ایک ایسی بات کہی جس کا درد کوئی بیٹی محسوس کر سکتی ہے یا بیٹی کا باپ۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا کینسر کے مریض اپنے والد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میرا باپ مر رہا ہے اور انہوں نے بستر مرگ پر مجھے کہا کہ جاؤ بیٹا اپنا اور میرا نام صاف کروا کر آؤ۔ یہ کہتے ہوئے بیگم جسٹس عیسیٰ کی آواز آنسوؤں کی وجہ سے ڈوبنے لگی۔ انہوں نے پانی کا گلاس اٹھا کر پیا اور دوبارہ بولیں تو انہوں نے کیمرے کے سامنے ایک دستاویز کر دی جو پوری سکرین پر نظر آنے لگی۔

مسز جسٹس عیسیٰ نے کہا یہ میرا برتھ سرٹیفکیٹ ہے۔ آپ میرا نام دیکھ سکتے ہیں۔ یہ سرینہ کھوسو ہے اور یہ میرا 1980 کا شناختی کارڈ ہے۔ اس پر بھی نام سرینہ کھوسو ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ میری 1982 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے شادی ہوئی تو میں اپنے والد کے گھر سے ان کے گھر منتقل ہو گئی اور میں نے اپنے شناختی کارڈ پر 1983 میں نام سرینہ عیسیٰ کروا لیا۔ اس موقع پر انہوں نے نام تبدیلی والا شناختی کارڈ بھی سکرین پر دکھایا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا مزید کہنا تھا کہ میری والدہ ہسپانوی ہیں جن پر مجھے فخر ہے اور والدہ کی وجہ سے مجھے سپین کا پاسپورٹ ملا۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے سکرین پر اپنا سپینش پاسپورٹ دکھاتے ہوئے فل کورٹ کو بتایا کہ ہسپانوی زبان میں زیڈ دراصل ایس کو ساؤنڈ کرتا ہے اور انہوں نے مجھ پر الزام لگا دیا کہ میں دو نام دھوکہ دہی کے دو نام استعال کر رہی ہوں

اس کے بعد جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے اپنا پاکستانی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ دکھایا جو انہیں 2003 میں جاری ہوا اور 2010 میں مدت پوری ہونے پر ختم ہوا تو نیا آئی ڈی کارڈ جاری ہوا جو آج تک چل رہا ہے اور اب سکرین پر اس نئے شناختی کارڈ کی کاپی بھی دکھا دی۔ بیگم جسٹس عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے بچوں کی دستاویزات بھی اسی طرز پر بنی ہوئی ہیں۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے ایک بار پھر آنسوؤں میں ڈوبی آواز میں کہا کہ یہ کہتے ہیں میں نے پاکستانی ویزا کے لئے اپنے شوہر جج کے دفتر کو استعمال کیا جب کہ یہ میرا پہلا پانچ سالہ ویزا دیکھیے، یہ 2002 میں جاری ہوا جب میرے شوہرجج نہیں تھے۔

پاسپورٹ کا اگلا صفحہ پلٹتے ہوئے جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے اگلا ویزا دکھایا کہ یہ ویزا جب 2008 میں جاری ہوا تب بھی میرا شوہر جج نہیں تھا۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ تیسرا پانچ سالہ ویزا انہیں 2013 میں جاری ہوا جب میرے شوہر سپریم کورٹ کے جج نہیں تھے۔ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے انکشاف کیا کہ جب وہ ایک عام قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ تھیں تو حکومت پاکستان ان کو پانچ سال کا ویزا جاری کرتی تھی لیکن جب سے میرے شوہر سپریم کورٹ آئے تو انہیں تنگ کرنے اور ہراس کرنے کے لئے حکومت اب انہیں ایک سال کا ویزا جاری کرتی ہے تو آپ خود فیصلہ کیجئے کون بدنیت ہے اور کون اپنے عہدے کا غلط استعمال کر رہا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے فل کورٹ میں سکرین کے سامنے پانچ سے چھ موٹی موٹی فائلز اٹھا لیں اور سب سے پہلے دکھایا کہ وہ کراچی کے امریکن سکول میں پڑھاتی تھیں اور وہاں سے ایک بہتر آمدن کے ساتھ انہیں ہاؤس رینٹ اور یوٹیلٹی بلز جیسی مراعات بھی حاصل تھیں۔ جسٹس صاحب کی اہلیہ نے ایک صفحہ پلٹ کر دکھایا کہ وہ شروع سے ٹیکس جمع کروا رہی ہیں اور ان کے ٹیکس ریٹرن ریحان نقوی نامی فائلر فائل کر رہے ہیں۔ اس دوران جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے اپنے والد کی طرف سے ورثے میں ملنے والی بلوچستان اور سندھ میں زرعی رقبے کے طویل خسرہ نمبر پڑھ کر سنائے جو ان کے ایک بہت خوشحال گھرانے سے تعلق کی نشانی تھے۔

جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی تنخواہ سے کلفٹن میں ایک جائیداد بھی خریدی جو بعد میں فروخت کر دی۔ بیگم جسٹس عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ٹیکس فائلر ریحان سے مشورہ کیا کہ اگر انہوں نے بیرون ملک پیسے بھجوانے ہوں تو اس کا قانونی طریقہ کار کیا ہے؟ تو ریحان نقوی نے ان کو کہا کہ وہ فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوا لیں اور پیسے بھجوا سکیں گی۔ اس کے بعد جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے فارن کرنسی اکاؤنٹ کی بینک سٹیٹمنٹ سکرین پر دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ آپ اس میں سات لاکھ پاؤنڈ دیکھ سکتے ہیں اور یہ ریکارڈ ہے جو میں نے اپنے ہی نام پر لندن میں موجود اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیے 2003 میں اور پہلی جائیداد خریدیں۔

جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے رقت آمیز لہجے میں کہا کہ یہاں الزام لگایا گیا کہ ملینز آف پاؤنڈز کی جائیدادیں ہیں جب کہ ایک جائیداد 245,000 پاؤنڈ اور دوسری 275,000 پاؤنڈ کی لی گئی۔ بیگم جسٹس عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ اتنی ہی مالیت ہے جس میں اسلام آباد اور کراچی میں گھر خریدا جا سکتا ہے۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے اس موقع پر فل کورٹ کو آگاہ کیا کہ وہ کراچی کے امریکن سکول میں پڑھاتی تھیں، کراچی میں تنخواہ وصول کرتی تھیں اور کراچی میں ہی ٹیکس بھی ادا کرتی تھیں لیکن کچھ عرصہ پہلے ان کے علم میں لائے بغیر ان کا آر ٹی او کراچی سے بغیر اجازت کے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ وہ دو بار پوچھنے ایف بی آر کے دفتر گئیں لیکن کسی نے ان کو جواب نہیں دیا بلکہ گھنٹوں انتظار کروایا گیا اور ایک بندے کے پاس سے دوسرے بندے کے پاس بھیجتے رہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ 2014 میں ان کے ٹیکس فائلر نے انہیں کہا کہ اگر وہ پاکستان میں رہائش پذیر نہیں تو اب ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی ضرورت نہیں۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ان کے فائلر نے ایف بی آر کو خط لکھ کر آگاہ کر دیا اور ایف بی آر نے بھی تسلیم کر لیا اور پھر مجھےکبھی کوئی نوٹس نہیں بھیجا۔ بیگم جسٹس عیسیٰ نے اس موقع پر اگلا دھماکہ کیا جس نے بظاہر حکومتی ریفرنس کی عمارت زمین بوس کر دی انہوں نے سکرین پر ایف بی آر میں 2018 میں اپنے فائل کردہ ٹیکس ریٹرن کے کاغذات دکھائے اور عدالت کو بتایا کہ 2018 میں پاکستان واپس آنے کے بعد انہوں نے اپنا ٹیکس ریٹرن دوبارہ فائل کیا اور اس میں اپنی برطانوی جائیدادیں ظاہر کی تھیں۔

اس موقع پر دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ہم مطمئن ہو گئے ہیں کہ آپ سب ریکارڈ رکھتی ہیں اور کاش ایف بی آر آپ سے بہتر طریقے سے تبادلہ کر لیتا۔ بیگم جسٹس عیسیٰ نے جسٹس عمر عطا بندیال کو مخاطب کیا کہ سر میں ایک سوال پوچھ سکتی ہوں؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ جی پوچھیے۔ اہلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سر مجھ سے یہ سوال آج تک ایف بی آر نے کیوں نہیں پوچھے؟ بیگم جسٹس عیسیٰ نے ایک اور دھماکہ کیا کہ ادارے دو سال سے انہیں اور ان کے بچوں کو ہراس کر رہے ہیں لیکن ہم چپ ہیں۔ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کو فالو کیا گیا، اس کی تصویریں بناتے رہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ اب وہ یقینی بنائیں گے کہ ایف بی آر والے تعاون کریں اور کیونکہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بار کے دنوں سے جانتے ہیں تو انہیں معلوم ہے کہ وہ کتنے صاف شفاف کردار کے مالک ہیں اور امید ہے اس امتحان سے سرخرو ہو کر نکلیں گے۔
۔۔۔۔
منقول
 

جاسم محمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ اب وہ یقینی بنائیں گے کہ ایف بی آر والے تعاون کریں اور کیونکہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بار کے دنوں سے جانتے ہیں تو انہیں معلوم ہے کہ وہ کتنے صاف شفاف کردار کے مالک ہیں اور امید ہے اس امتحان سے سرخرو ہو کر نکلیں گے۔
بالکل ٹھیک۔ حکومت نے ایف بی آر سے انکوائری کروائے بغیر ریفرنس بنا دیا تھا۔ اب پہلے تحقیقات ہوں گی اور اگر کچھ غیر قانونی ملا تو اس بنیاد پر ریفرنس دائر ہوگا۔
 
Top