حکمت اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ: فوز المبین در رد حرکت زمین ایک سیاسی کتاب ہے نہ کہ مذہبی یا سائنسی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سید رافع

محفلین
مغلوں کے عہدِ رفتہ اور قصہ پارینہ کو چھوڑو اور انگریزوں اور ان کی تعلیم و ترقی کی طرف دیکھو۔ سر سید اس پر غالب سے ناراض ہو گئے اور اس تقریظ کو اپنی کتاب میں شامل ہی نہ کیا، غالب نے اسے علیحدہ سے چھپوا دیا۔

یہ قصہ صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ غالب شیعہ تھے اور سرسید سنی تھے۔ غالب کے مشورے کی بنیاد یہی شیعہ نقطہ نظر ہے کہ مغل (یا اہل سنت کی اکثریت) منافق اور انگریز کافر ہیں۔ سرسید کا ناراض ہونا ظاہر شریعت کے زائل ہونے کا قدیم سنی خوف ہے۔

روحانی سطح پر شیعہ رجاء اور سنی خوف میں مبتلا ہیں۔ اس خوف کا ایک حصہ حقیقی خوف خدا جبکہ دوسرا بادشاہوں اور درباری علماء کا پھیلایا ہوا ہے۔ اسی طرح رجاء کا یہ عالم ہے کہ آغا خانی شیعہ ظاہر شریعت پر بہت کم عمل پیرا ہیں اور جدید علوم حاصل کرنے میں مصروف ہیں جبکہ امامیہ شیعہ رجاء کے ساتھ ظاہر شریعت پر بھی عمل پیرا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سنی خوف ہو یا شیعہ رجاء کوئی تکلف والی شئے نہیں کہ اگر کر لی جائے تو فائدہ دے گی بلکہ پوری بصیرت کے ساتھ ہر ہر لمحہ اپنے خوف و رجاء کو سچا ہونے کے لیے جانچنے کا نام ہے۔
 
آخری تدوین:

دوست

محفلین
بھئی اعلٰی حضرت تو قبر میں تشریف لے گئے۔
پیچھے سے متعلقین اعلٰی حضرت کے ارشادات کی ایسی ایسی تاویلات فرماتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاوے۔
اور پھر منہ سے بس یہی نکلے کہ انا للہ و انا الیہ راجعون
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ قصہ صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ غالب شیعہ تھے اور سرسید سنی تھے۔ غالب کے مشورے کی بنیاد یہی شیعہ نقطہ نظر ہے کہ مغل (یا اہل سنت کی اکثریت) منافق اور انگریز کافر ہیں۔ سرسید کا ناراض ہونا ظاہر شریعت کے زائل ہونے کا قدیم سنی خوف ہے۔

روحانی سطح پر شیعہ رجاء اور سنی خوف میں مبتلا ہیں۔ اس خوف کا ایک حصہ حقیقی خوف خدا جبکہ دوسرا بادشاہوں اور درباری علماء کا پھیلایا ہوا ہے۔ اسی طرح رجاء کا یہ عالم ہے کہ آغا خانی شیعہ ظاہر شریعت پر بہت کم عمل پیرا ہیں اور جدید علوم حاصل کرنے میں مصروف ہیں جبکہ امامیہ شیعہ رجاء کے ساتھ ظاہر شریعت پر بھی عمل پیرا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سنی خوف ہو یا شیعہ رجاء کوئی تکلف والی شئے نہیں کہ اگر کر لی جائے تو فائدہ دے گی بلکہ پوری بصیرت کے ساتھ ہر ہر لمحہ اپنے خوف و رجاء کو سچا ہونے کے لیے جانچنے کا نام ہے۔
قصہ صحیح ہے، باقی بس طوطا مینا ہی ہے!
 

زیک

مسافر
بھئی اعلٰی حضرت تو قبر میں تشریف لے گئے۔
پیچھے سے متعلقین اعلٰی حضرت کے ارشادات کی ایسی ایسی تاویلات فرماتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاوے۔
اور پھر منہ سے بس یہی نکلے کہ انا للہ و انا الیہ راجعون
حالانکہ ان فالوورز کو سوچنا چاہیئے کہ اپنے مرشد کی غلطیوں کی ایسی تشریح و تشہیر کر کے وہ ان کے مضحکہ کا باعث بن رہے ہیں اور کچھ نہیں
 

سید رافع

محفلین
اسی لئے وہ تمام مسلمانوں میں سب سے بہتر مسلمان ہیں۔ کیونکہ حقیقی مومن اپنے زمانہ کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے۔

صحیح فرمایا کہ وہ مسلمان ہیں۔ بہتر اور ہم آہنگ ہونا ایک بحث طلب معاملہ ہے جو کہ کسی اور لڑی میں صحیح۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
بہتر اور ہم آہنگ ہونا ایک بحث طلب معاملہ ہے جو کہ کسی اور لڑی میں صحیح۔
اسمائیلی شیعہ اس وقت مسلمانوں میں سب سے زیادہ علما دین کی اندھی تقلید کی بجائے اجتہاد کی تعلیم پر چل رہے ہیں۔ اسی لئے وہ اس جدید دور سے ہم آہنگ یعنی حقیقی مومن ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
ایک برادرانہ مشورہ ہے۔
زیادہ سوچنا اور گمان کرنا صحت اور عاقبت دونوں کے لیے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ :)

بارہا اس میسج کا جواب دینے کی کوشش کی لیکن لاک ڈاون میں زائد لوگوں کی وجہ سے نیٹ سست رفتار ہے اور محفل ہر وقت جاوا اسکرپٹ کے ایرر میسج دکھاتی رہتی ہے۔

بہرحال آپ سے تو ہم پہلے ہی محبت رکھتے تھے :)اب جب سے آپ نے ماہر القادری کا کلام ہم تک پہنچایا ہے آپ سے محبت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ماہر القادری کو تو اللہ ہی ان کے کلام کا بے حساب اجر دے۔ آمین۔

آپ کی بات صد فیصد صحیح ہے۔ میں اس میں آپکے پیچھے پیچھے ہوں۔
 

فہد مقصود

محفلین
جب آپ نے بتا دی تو کافی ہے۔

آپکے لیے علم لدنی یہ ہے کہ صبح جیسے نماز پڑھتے ہیں پڑھ لیں۔ پھر قریبی جماعت اسلامی کے دفتر جائیں۔ علیک سلیک کریں اور قلب میں جگہ دیے بغیر جماعت کے موجودہ مقاصد کی بابت دریافت کریں۔ وہاں سے ڈاکٹر اسرار احمد کی تنظیم اسلامی کے دفتر کی راہ لیں۔ وہاں بھی یہی عمل دہرائیں۔ ظہر قریبی بریلوی مسلک کی مسجد میں پڑھیں۔ امام و موذن صاحب سے مصافحہ کریں اور پانچ پانچ سو روپے ہدیہ کریں۔ مسجد سے نکل کر ڈاکٹر طاہر القادری کے منہاج کے دفتر کی راہ لیں۔ وہاں بھی وہی عمل دوہرائیں کہ ان لوگوں کے مقاصد دریافت کریں۔ ان سے خوارج سے متعلق کتاب خرید لیں یا انٹرنیٹ کا لنک دریافت کریں۔ حالانکہ آپ یہ سب معلومات خود انٹرنیٹ سے حاصل کر سکتے ہیں۔ عصر قریبی دیوبندی مسجد میں ادا کریں۔ اگر نماز کا وقت نہ ہوا ہو تو درود شریف صلی اللہ تعالیٰ علی محمد میں مصروف رہیں۔ نماز ادا کریں۔ امام و موذن سے مصافحہ فرمائیں اور امام صاحب سے علم لدنی سے متعلق دریافت کریں۔ حالانکہ آپکو معلوم ہے۔ مغربین قریبی امام بارگاہ میں ادا کریں۔ جانے سے قبل انٹرنیٹ سے شیعہ نماز کا طریقہ سیکھ کر جائیں۔ بعد از نماز امام صاحب سے نہجہ البلاغہ کے صحیح ترین ایڈیشن کے متعلق پوچھیں۔ گھر آ کر پہلے انجینیر علی مرزا کو آدھا گھنٹا دیکھیں اور پھر ڈاکٹر ذاکر نائک کو ایک گھنٹہ دیکھیں۔ آخر میں صحیح مسلم کا باب الفتن پڑھ کر سو جائیں۔ بقیہ زندگی جیسے آج گزارتے ہیں گذاریں۔

واہ بھائی صاحب آپ نے تو خوب دامن چھڑایا!!!
اگر آپ شرکاء محفل کی معلومات میں اضافہ کرنے سے گریزاں ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے ہم ہیں نا!!! ہم کئے دیتے ہیں!!!
علمِ لدنی پر بہت ہی ایک عمدہ لیکچر آپ کی اور شرکاء محفل کی خدمت میں حاضر ہے۔






انجنئر مرزا علی سے تو آپ واقف معلوم ہوتے ہیں تو ان کا علمِ لدنی سے متعلق لیکچر یہاں منسلک نہیں کر رہا ہوں لیکن یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ اس لیکچر کو سماعت فرما لیں گے۔

دین خیر خواہی کا نام ہے۔ جو اپنے لیے پسند کریں وہی میرے لیے پسند کریں۔ کتابوں سے پیدا ہونے والا خوف اور ہوتا ہے جبکہ اللہ کا اور ہوتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام آپکے قلب کے لیے تسکین کا باعث ہیں۔

دیکھیے حضور آپ سے کہا نا کہ آپ اپنے بارے میں کچھ بھی سوچنا اور کہنا پسند فرمائیں آپ کی مرضی لیکن آپ مجھے ایسی باتوں سے معاف رکھیں!!! آپ کا بہت شکر گزار ہوں گا۔

جی ہاں۔ اپنے گھر کی چھت یا کسی گوشے میں یا قبرستان یا کسی پہاڑ یا کسی سمندر کے کنارے ایسی جگہ کھڑے ہوں جہاں تنہائی میسر ہو۔ اپنے ذہن کو دیکھیں کہ کس چیز سے خوف کھا رہا ہے؟ کسی کتاب، کسی دلیل، کسی عالم وہ کیا شئے ہے جو آپ کو خوف میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ خوف کا اپنے قلب کی نیت سے موازنہ کیجیے۔ نیت اللہ سے ڈرنے کی نہیں پائیں گے۔

حضور میرا تو ایمان ہے کہ نیتوں کا حال اللہ رب العزت جانتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ آپ کیسے میری نیت سے واقف ہو گئے اور اس قدر یقین سے آپ نے اس بارے میں اعلان بھی فرما دیا!!!
آپ شریعت کے قیل و قال سے آزاد ہونے کے سوال کے جواب میں جی ہاں فرماتے ہیں اور آگے لکھتے ہیں کہ جست لمبی نہ ہو شریعت کے اندر ہو!!! کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ نے کس قدر تضاد سے بھرپور گول مول جواب عنایت فرمایا ہے؟؟؟

اب اپنے اعصاب کو ہر روز اس ڈر و خوف سے آزاد کرنے میں لگائیں جو اللہ کے لیے نہیں ہے۔ ہر شئے کا علاج اسکی ضد سے ہے۔ سو الٹ کام کر کے خوف سے آزاد ہوں۔ چاہے برادری بھائی کا ہو، دلیل یا عالم کا ہو یا معاشرے اور روایات کا ہو۔ یاد رکھیں جست لمبی نہ ہو۔ شریعت کے اندر ہو۔ حواس برقرار رہیں۔ معاش و صحت برقرار رہے۔

ایک بات بتائیے کہ اگر کوئی کسی عالم یا کتاب کے خوف سے ہی چوری نہیں کر رہا تو آپ کی منطق کے مطابق چوری نہ کرنے کا الٹ کیا ہوگا اور اس الٹ کام کو شریعت کے اندر کیسے انجام دیا جائے گا؟؟؟ شریعت میں اگر چوری کرنا یا قتل کرنے کی ممانعت ہے اور کوئی اس کے الٹ کام کرتا ہے تو وہ شریعت کے باہر ہی ہوگا آپ یا کوئی اور اسے شریعت کا کسی صورت بھی حصہ قرار نہیں دے سکتے ہیں!!!

جو جو خوف اللہ کے لیے نہیں ہے جب اس سے نجات پائیں، یعنی برعکس عمل کر لیں تو جان لیں کہ اللہ کتنا مہربان ہے کہ اس نے کوئی پکڑ نہیں کی۔ اللہ کا شکر ادا کریں۔ یوں اللہ کے دوست بن جائیں۔

شریعت کے الٹ کام کریں اور خدا نے پکڑ نہیں کی تو آپ خدا کے دوست بن جائیں گے؟؟؟؟ انا للہ وانا الیہ راجعون! آپ کے حق میں بس دعا ہی کرسکتا ہوں جو کہ اکثر مجھے کرنا پڑ جاتی ہے۔ آپ ہی کے دعوتِ اسلامی کے علم لدنی پر آرٹیکل سے ایک اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔

العلم نور - عِلْمِ لَدُنِّی

علم لدنی رَبّ تعالٰی کی خاص عطا ہے اور یہ ان لوگوں کو ملتا ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بَنْدَگی اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کی پیروی کرتے ہیں ۔(شرح الزرقانی علی المواہب،ج9،ص123) لہذا عام لوگوں کو چاہئے کہ علمِ لدنّی ملنے کا انتظار نہ کریں بلکہ محنت اورکوشش کرکے علم کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت وفرمانبرداری اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کی پیاری پیاری سنّتوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی کے ایَّام گزارتے رہیں،اللہ عَزَّوَجَلَّ جس کو چاہےیہ نعمت عطا فرمادے گا۔

اب آپ ذرا غور فرمائیے کہ آپ کس چیز کی عوام کو ترغیب دے رہے ہیں؟؟؟ مجھے حیرت ہے کہ آپ کو پسندیدگی کی ریٹنگ بھی اس مراسلے پر ملی ہوئی ہے! یقیناً کوئی آپ کی شریعت کے الٹ کام کرنے کی باتوں سے متاثر ہو گیا ہے! آپ کے لئے اور آپ سے متاثر ہونے والوں کے لئے بس دعا ہی کرسکتا ہوں!
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
واہ بھائی صاحب آپ نے تو خوب دامن چھڑایا!!!
بھائی محفل میں آپ سے بات چیت کی وجہ سےآپ سے ایک تعلق سا پیدا ہو گیا ہے۔ :) اسی خاطر آپکو ایک سفر کا مشورہ دیا تھا جیسا کہ سورہ کہف میں ہے کہ "یا مدتوں چلتا رہوں"۔ لیکن آپ کی بعض باتیں دل دکھاتی ہیں۔ یہ سفر آپکے سوچنے کے مقام کو قوت دینے کے لیے تھا۔

18:60 اور (وہ واقعہ بھی یاد کیجئے) جب موسٰی (علیہ السلام) نے اپنے (جواں سال ساتھی اور) خادم (یوشع بن نون علیہ السلام) سے کہا: میں (پیچھے) نہیں ہٹ سکتا یہاں تک کہ میں دو دریاؤں کے سنگم کی جگہ تک پہنچ جاؤں یا مدتوں چلتا رہوں

سفر ضروری ہے۔

آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ وہ دماغ ہے حالانکہ وہ قلب ہے۔

7: 179 انسانوں میں سے بہت سے کو پیدا فرمایا وہ دل رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے۔

دماغ تضاد نہیں سہار سکتا قلب سہار سکتا ہے۔ میں تو اس وقت سے ڈرتا ہوں کہ آپ دماغ کی دلیل سے اللہ کو پا لیں اور اسکے روبرو پہچنے کے بعد کہیں کہ رحمن و رحیم میں قہار و جبار کا تضاد کیسا۔ حالانکہ دماغ سے اللہ کو پا لینا ناممکنات میں سے ہے چاجائکہ ھو کے بھید میں منہمک ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دماغ مقام تجلیات نہیں۔ قلب ہے۔ قلب اسی سفر سے مضبوط ہو گا۔ اسی لیے آپکو سفر کے لیے کہا۔

7: 179 انسانوں میں سے بہت سے کو پیدا فرمایا وہ دل رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے۔

اگر آپ شرکاء محفل کی معلومات میں اضافہ کرنے سے گریزاں ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے ہم ہیں نا!!! ہم کئے دیتے ہیں!!!
علم لدنی کا سفر آپ جیسے معقول اور شریعت کا صحیح درد رکھنے والے کے لیے ہیں۔علم لدنی ہرگز ہرگز شرکاء محفل نہیں مل سکتا جو کم از کم آپ جیسی کیفیت سے آراستہ نہ ہو۔ جس کے قدم شریعت پر ہی نہ جمے ہوئے ہوں وہ اس سے زیادہ سخت تر کا بوجھ کیسے سہارے گا۔ کچھ اسی سے سمجھیں حالانکہ موسیٰ علیہ السلام وقت کے رسول اور الولعزم پیغمبر ہیں:

18:66 اس سے موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ اس (شرط) پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے (بھی) اس علم میں سے کچھ سکھائیں گے جو آپ کو بغرضِ ارشاد سکھایا گیا ہے

18:67 اس (خضرعلیہ السلام) نے کہا: بیشک آپ میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہ کر سکیں گے

18:68 اور آپ اس (بات) پر کیسے صبر کر سکتے ہیں جسے آپ (پورے طور پر) اپنے احاطہء علم میں نہیں لائے ہوں گے

18:69 موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: آپ اِن شاء اﷲ مجھے ضرور صابر پائیں گے اور میں آپ کی کسی بات کی خلاف ورزی نہیں کروں گا

18:69 (خضرعلیہ السلام نے) کہا: پس اگر آپ میرے ساتھ رہیں تو مجھ سے کسی چیز کی بابت سوال نہ کریں یہاں تک کہ میں خود آپ سے اس کا ذکر کردوں

علمِ لدنی پر بہت ہی ایک عمدہ لیکچر آپ کی اور شرکاء محفل کی خدمت میں حاضر ہے۔
شرکاء محفل کو کم از کم شریعت موسوی علیہ السلام یا سب سے بہتر شریعت محمدی ﷺ پر قدم جمانے کی جدوجہد کرنا ہو گی۔ ہاں جو اس کیفیت سے آراستہ ہیں وہ آگے چلیں۔
  1. میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔
  2. کوئی بت نہ بنانا۔
  3. تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ ہی اُن کی عبادت کرنا۔ کیونکہ میں خداوند تیرا خدا غیور ہوں۔
  4. تُو خداوند اپنے خدا کا نام بری نیت سے نہ لینا کیونکہ جو کوئی اُس کا نام بری نیت سے لے گا تو خداوند اُسے بے گناہ نہ ٹھہرائے گا
  5. سبت (مسلمانوں کے لیے جمعے) کے دِن کو یاد سے پاک رکھنا۔
  6. اپنے باپ اور ماں کی عزت کرنا تاکہ تیری عمر اُس ملک میں جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے، دراز ہو۔
  7. تُو قتل نہ کرنا۔
  8. تُو زِنا نہ کرنا۔
  9. تُو چوری نہ کرنا۔
  10. تُو اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔ تُو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا۔ تُو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا اور نہ اُس کے غلام یا اُس کی کنیز کا، نہ اُس کے بیل یا گدھے کا اور نہ اپنے پڑوسی کی کسی اور چیز کا۔
مسلمانوں کے لیے احکام عشرہ کے بجائے قرآن ہے۔ جس میں یہ احکام عشرہ بھی موجود ہیں۔

لیکن آپ مجھے ایسی باتوں سے معاف رکھیں!!!
آپکو کس بات کا خوف ہے؟

آپ کچھ احساس کریں آپکا دماغ مضبوط اور قلب کمزور ہے جو اصل سوچنے کا مقام ہے اور تضاد سہار سکتا ہے۔ جابجا آپ کو تضاد دکھائی دیتا ہے۔ آپ بہت آگے جا سکتے ہیں اگر تضاد کو سہارنے کا ملکہ پیدا کریں۔ ان 'تضادات' کے بارے میں کیا کہیں گے جو قرآن میں جابجا پھیلے ہیں۔ ویسے ہمارے سلسلہ عطاریہ کا مقصد اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ ہمیں بحث و مباحثے سے منع کیا جاتا ہے۔ ایک چپ سو سکھ ہمارا طریقہ ہے۔ لیکن خیر خواہی کے جذبے سے یہ قرانی آیت آپکے سامنے رکھتا ہوں:

اللہ غفور ہے کہ قہار؟
15: 49-50 آپ میرے بندوں کو بتا دیجئے کہ میں ہی بیشک بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہوں۔ اور میرا ہی عذاب بڑا دردناک عذاب ہے۔

صحابہ (رض) سخت گیر ہیں کہ رحم دل؟
48:29 محمد (ﷺ) اﷲ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں ، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں ، (اور) آپس میں ایک دوسرے کیلئے رحم دل ہیں ۔

اللہ گمراہ کرنے والا ہے یا ہدایت دینے والا؟
2:26 اللہ ایک ہی بات کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے۔

قرآن کی آیات آسان ہیں یا مشکل؟
54:32 ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیاہے
3:7 ان (آیات) کا مطلب کوئی نہیں جانتا سوا اللہ کے۔

اللہ رحمن ہے لیکن کیا اس نے اپنا نائب فساد انگیزیز اور خون بہانے والے کو بنایا؟
2:30 آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟

آپ کہیں گے تو کئی لاکھ بلکہ لاتعداد ایسے موقع دکھا سکتا ہوں۔ مجھے امید ہے میری زندگی ختم ہو جائے گی لیکن قرآن کے " عقلی تضادات" ختم نہ ہوں گے جو دماغ کی سوچ سے جنم لیتے ہیں۔ قلب کی سوچنے کی صلاحیت نورانی ہے وہی ان تضادات کو سہار سکتی ہے اور اللہ کے بھید کو پا سکتا ہے۔

جب بھی آپکو کچھ گول مول دکھائی دے، سمجھ لیں اب اور نور کمانے کا وقت آگیا ہے۔ غفلت دماغ کی نہیں قلب کی ہوتی ہے۔ قلب ذکر میں مشغول نہیں رہتا اسی لیے چیزیں گول مول دکھائی دینے لگتی ہیں۔

21:16-17 اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل تماشے کے طور پر (بے کار) نہیں بنایا۔ اگر ہم کوئی کھیل تماشا اختیار کرنا چاہتے تو اسے اپنی ہی طرف سے اختیار کر لیتے اگر ہم (ایسا) کرنے والے ہوتے۔


جو میں کہہ رہا ہوں اسکو بھی اللہ دیکھ رہا ہے اور جو آپ کر رہے ہیں وہ بے شک اللہ کی نظروں میں ہے۔ ہم دونوں ہی کھیل و تماشا کے لیے نہیں ہیں۔

اسکو بھی منطق سے حل کیجیے:

29:64 یہ دُنیا کی زندگی تو کھیل کود اور تماشے کے سوا کچھ نہیں.
21:16 ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل تماشے کے طور پرنہیں بنایا۔

میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ شریعت کے اندر ہو اور آپ سمجھ رہے ہیں کہ شریعت کے الٹ ہوں۔ میں آپکو توجہ دلا رہا تھا کہ "خوف محض" کے غلام نہ بنیں بلکہ دھیرے دھیرے "خوف خدا" کے عدل سے آراستہ ہوں۔ اور یہ دھیرے دھیرے بھی اس لیے کہ آپ کی صحت، معاش اور دین متاثر نہ ہو۔ پوری بصیرت کے ساتھ زندگی گزاریں اور دعا بھی کریں۔
 

فہد مقصود

محفلین
لیکن آپ کی بعض باتیں دل دکھاتی ہیں۔ یہ سفر آپکے سوچنے کے مقام کو قوت دینے کے لیے تھا۔

بھائی صاحب مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی کسی کو کافر، مشرک، ملحد، منافق، قادیانی، ڈیوڈ وغیرہ کہا ہو۔ بلکہ یہ تو آپ ہی اکثر دوسروں کے لئے فرماتے رہتے ہیں!!! مجھے تو جو بات درست معلوم ہوتی ہے وہ بول دیتا ہوں۔ پھر آپ کو کس بات سے میری دکھ پہنچا ہے؟؟؟

آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ وہ دماغ ہے حالانکہ وہ قلب ہے۔

7: 179 انسانوں میں سے بہت سے کو پیدا فرمایا وہ دل رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے۔

دماغ تضاد نہیں سہار سکتا قلب سہار سکتا ہے۔ میں تو اس وقت سے ڈرتا ہوں کہ آپ دماغ کی دلیل سے اللہ کو پا لیں اور اسکے روبرو پہچنے کے بعد کہیں کہ رحمن و رحیم میں قہار و جبار کا تضاد کیسا۔ حالانکہ دماغ سے اللہ کو پا لینا ناممکنات میں سے ہے چاجائکہ ھو کے بھید میں منہمک ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دماغ مقام تجلیات نہیں۔ قلب ہے۔ قلب اسی سفر سے مضبوط ہو گا۔ اسی لیے آپکو سفر کے لیے کہا۔

7: 179 انسانوں میں سے بہت سے کو پیدا فرمایا وہ دل رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے۔

خدائے رب العزت نے قرآن میں دسیوں بار انسان کو غور و فکر کی دعوت دی ہے اور عقل استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ مَا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُسَمًّى وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ

ترجمہ: کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا ؟ اللہ نے آسمانوں ، زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کو کسی حقیقی مصلحت اور ایک مقررہ وقت تک کے لئے پیدا کیا ہے۔ مگر لوگوں میں سے اکثر اپنے پروردگار کی ملاقات سے منکر ہیں۔ [الروم: 8]

وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ

ترجمہ: اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے، یا عقل سے کام لیتے ہوتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں نہ ہوتے۔ [الملک: 10]

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

ترجمہ: کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ایسے ہو جاتے جن سے کچھ سمجھتے ہوتے اور کان ایسے جن سے وہ سن سکتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، اندھے تو وہ دل ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ [الحج: 46]

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ (190) الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

ترجمہ: یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، اور شب و روز کے باری باری آنے جانے میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ [190] جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچ بچار کرتے (اور پکار اٹھتے) ہیں۔ "اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا تیری ذات اس سے پاک ہے۔ تو اس لیے ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے" [آل عمران: 190- 191]

یقیناً ان آیاتِ قرآنی کے مطالعہ سے یہ واضح ہو گیا ہوگا کہ اللہ رب العزت کے نزدیک عقل کا استعمال کتنا اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اسلام میں صرف اندھی تقلید اور عقل کا استعمال کیے بغیر ہی مذہب کی جانب متوجہ کرنا مقصود ہوتا تو یہ دینِ فطرت نہ ہوتا بلکہ ایک cult ہوتا!!! اور الحمدللہ ہمارا مذہب کلٹ نہیں ہے جہاں انسانی دماغ کو بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے!!! رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار مسلسل سوالات کرتے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سوالات کے جوابات دیتے تھے!!! عقل استعمال کرنے سے وہاں روکا جاتا ہے جہاں افکار کے کمزور ہونے کا ڈر ہو اور نتیجتاً ان کو چیلنج اور رد کیے جانے کے کئی امکانات موجود ہوں لیکن اسلام میں ایسا نہیں ہے!!!

میرا صوفیت پر بالکل بھی ایمان نہیں ہے! صوفیت کی بے شمار تباہ کاریاں سامنے آچکی ہیں! صوفیت کے ذریعے درِحقیقت عقیدہ توحید اور ختم نبوت پر حملے کیے جاتے ہیں، چور راستے مہیا کیے جاتے ہیں!!! ان چور راستوں کی بدولت اس خطے میں کئی فتنے سر اٹھا چکے ہیں جن میں قادیانیت سرِ فہرست ہے!!! قادیانیت بس تھوڑا سا کھلا ہوا ہے اور باقی سب ذرا ڈھکے چھپے رہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن زیادہ فرق نہیں ہے !!! اس لئے میں صوفیت سے بہت دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں!!!

میں نے آپ کو کئی بار عطا اللہ ڈیروی صاحب کی کتاب پڑھنے کی دعوت دی ہے لیکن لگتا ہے کہ آپ مخالف مکتبہ فکر کی کتب پڑھنے میں بالکل بھی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں!!! میں آپ کو ایک بار پھر دعوت دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اس بار اس طرف توجہ دینے کی کوشش کریں گے!!!

عطاء اللہ ڈیروی صاحب کی کتاب کا مطالعہ

اس کے علاوہ اس کتاب کا مطالعہ بھی ضرور فرمائیے گا

شریعت و طریقت | Shariat wa Tariqat | کتاب و سنت

میرے ایمان کے بارے میں آپ پھر دعویٰ فرما رہے ہیں!!! میں نے غور کیا ہے کہ آپ بہت مغرور ہیں جبھی اتنی آسانی سے کبھی اپنے لئے نبی کی مثال دے دیتے ہیں یا پھر کسی کی نیت کا حال جان لیتے ہیں یا پھر کسی کے ایمان کے انجام کے بارے میں پیشنگوئی فرما دیتے ہیں!!! خدائے رب العزت کی صفات پر اگر بات کرنی ہے تو یہ ایک طویل گفتگو کا متقاضی موضوع ہے۔ اسے کسی اور جگہ اور وقت پر اٹھا رکھیں تو بہتر ہوگا۔

علم لدنی کا سفر آپ جیسے معقول اور شریعت کا صحیح درد رکھنے والے کے لیے ہیں۔علم لدنی ہرگز ہرگز شرکاء محفل نہیں مل سکتا جو کم از کم آپ جیسی کیفیت سے آراستہ نہ ہو۔ جس کے قدم شریعت پر ہی نہ جمے ہوئے ہوں وہ اس سے زیادہ سخت تر کا بوجھ کیسے سہارے گا۔ کچھ اسی سے سمجھیں حالانکہ موسیٰ علیہ السلام وقت کے رسول اور الولعزم پیغمبر ہیں:

18:66 اس سے موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ اس (شرط) پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے (بھی) اس علم میں سے کچھ سکھائیں گے جو آپ کو بغرضِ ارشاد سکھایا گیا ہے

18:67 اس (خضرعلیہ السلام) نے کہا: بیشک آپ میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہ کر سکیں گے

18:68 اور آپ اس (بات) پر کیسے صبر کر سکتے ہیں جسے آپ (پورے طور پر) اپنے احاطہء علم میں نہیں لائے ہوں گے

18:69 موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: آپ اِن شاء اﷲ مجھے ضرور صابر پائیں گے اور میں آپ کی کسی بات کی خلاف ورزی نہیں کروں گا

18:69 (خضرعلیہ السلام نے) کہا: پس اگر آپ میرے ساتھ رہیں تو مجھ سے کسی چیز کی بابت سوال نہ کریں یہاں تک کہ میں خود آپ سے اس کا ذکر کردوں
میں انتظار میں تھا کہ آپ کب علمِ لدنی کی دلیل قرآن سے لاتے ہیں!!! علم لدنی کے جاری ہونے پر ایمان رکھنے والوں کے دلائل پڑھ رکھے ہیں۔

ان آیاتِ قرآنی سے حضرت خضر کے لئے تو علم لدنی عطا ہونے کا نص ملتا ہے لیکن کیا آپ قرآن اور حدیث سے نص لا سکتے ہیں کہ علم لدنی حضرت خضر کے بعد بھی عطا ہوتا رہا ہے؟؟؟ نص کے غیر موجود ہونے سے کسی صورت یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے کہ علمِ لدنی اعلیٰ حضرت یا اور اولیاء کو عنایت فرمایا جاتا رہا ہے!!! پہلے شریعت سے ثبوت فراہم کر دیجئے کہ علمِ لدنی اب تک عنایت فرمایا جاتا ہے پھر علمِ لدنی حاصل کرنے کی جستجو کے بارے میں بات کریں گے!!!

غیر شرعی دلائل سے ایسے عقائد بنا لینا صرف مذہب میں چور راستے ہی پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں اور اس کی کیا کیا تباہ کاریاں ہو سکتی ہیں اس کے لئے عطا اللہ ڈیروی کی کتاب کا مطالعہ فرمائیں اور توصیف الرحمن صاحب کا لیکچر سماعت فرمائیں!!!

مجھے پوری امید ہے کہ جب آپ سنیں گے اور پڑھیں گے تو بہت کچھ سمجھ آجائے گا لیکن اس کے بغیر آپ کو کوئی فائدہ نہیں ملنے والا ہے!!!

شرکاء محفل کو کم از کم شریعت موسوی علیہ السلام یا سب سے بہتر شریعت محمدی ﷺ پر قدم جمانے کی جدوجہد کرنا ہو گی۔ ہاں جو اس کیفیت سے آراستہ ہیں وہ آگے چلیں۔
  1. میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔
  2. کوئی بت نہ بنانا۔
  3. تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ ہی اُن کی عبادت کرنا۔ کیونکہ میں خداوند تیرا خدا غیور ہوں۔
  4. تُو خداوند اپنے خدا کا نام بری نیت سے نہ لینا کیونکہ جو کوئی اُس کا نام بری نیت سے لے گا تو خداوند اُسے بے گناہ نہ ٹھہرائے گا
  5. سبت (مسلمانوں کے لیے جمعے) کے دِن کو یاد سے پاک رکھنا۔
  6. اپنے باپ اور ماں کی عزت کرنا تاکہ تیری عمر اُس ملک میں جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے، دراز ہو۔
  7. تُو قتل نہ کرنا۔
  8. تُو زِنا نہ کرنا۔
  9. تُو چوری نہ کرنا۔
  10. تُو اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔ تُو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا۔ تُو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا اور نہ اُس کے غلام یا اُس کی کنیز کا، نہ اُس کے بیل یا گدھے کا اور نہ اپنے پڑوسی کی کسی اور چیز کا۔
مسلمانوں کے لیے احکام عشرہ کے بجائے قرآن ہے۔ جس میں یہ احکام عشرہ بھی موجود ہیں۔

میں صحیح سمجھا تھا آپ نے لیکچر سنا ہی نہیں ہے یا پھر سن لیا ہے تو توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ لیکچر میں بالکل الگ باتیں ہیں!!! ایسی بھی کیا ضد ہے سن لیجئے، کر لیتے ہیں اس پر بھی بات چیت کیا ہو جائے گا اگر کر لی گئی تو؟؟؟؟
اور بالکل سب مسلمانوں کو ان باتوں پر عمل کرنا چاہئے اور اکثر کرتے بھی ہیں لیکن علم لدنی کی تو آپ نے ہی بات چھیڑی ہے اور آپ ہی علم لدنی کی طرف دعوت دے رہے ہیں جبکہ میری کوشش ہے کہ علم لدنی کی شرعی حیثیت شرکاء محفل کو معلوم ہو جائے کیونکہ ذکر تو آپ نے اب کر ہی دیا ہے!!! شرکاء محفل کی کیوں نا توجہ ادھر ہی رہنے دیں!!!

آپکو کس بات کا خوف ہے؟
میں بہت گنہگار انسان ہوں اور مجھے قصیدہ خوانی سے نفرت ہے اور وہ بھی اپنے لئے کیونکہ اپنے آپ کو جب میں نے کچھ سمجھنا شروع کر دیا اور وہ بھی اللہ کے جلیل القدر نبی علیہ السلام جیسا تو پھر ایمانداری کے ساتھ سیکھنے اور سمجھنے کا کام کرنا ختم کر بیٹھوں گا کیونکہ میں اپنے آپ کو بہتوں سے بہتر سمجھنا شروع کر دوں گا اور بہتری پیدا کرنے کی گنجائش میرے لئے ضروری نہیں رہے گی۔

آپ کچھ احساس کریں آپکا دماغ مضبوط اور قلب کمزور ہے جو اصل سوچنے کا مقام ہے اور تضاد سہار سکتا ہے۔ جابجا آپ کو تضاد دکھائی دیتا ہے۔ آپ بہت آگے جا سکتے ہیں اگر تضاد کو سہارنے کا ملکہ پیدا کریں۔ ان 'تضادات' کے بارے میں کیا کہیں گے جو قرآن میں جابجا پھیلے ہیں۔ ویسے ہمارے سلسلہ عطاریہ کا مقصد اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ ہمیں بحث و مباحثے سے منع کیا جاتا ہے۔ ایک چپ سو سکھ ہمارا طریقہ ہے۔ لیکن خیر خواہی کے جذبے سے یہ قرانی آیت آپکے سامنے رکھتا ہوں:

اللہ غفور ہے کہ قہار؟
15: 49-50 آپ میرے بندوں کو بتا دیجئے کہ میں ہی بیشک بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہوں۔ اور میرا ہی عذاب بڑا دردناک عذاب ہے۔

صحابہ (رض) سخت گیر ہیں کہ رحم دل؟
48:29 محمد (ﷺ) اﷲ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں ، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں ، (اور) آپس میں ایک دوسرے کیلئے رحم دل ہیں ۔

اللہ گمراہ کرنے والا ہے یا ہدایت دینے والا؟
2:26 اللہ ایک ہی بات کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے۔

قرآن کی آیات آسان ہیں یا مشکل؟
54:32 ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیاہے
3:7 ان (آیات) کا مطلب کوئی نہیں جانتا سوا اللہ کے۔

اللہ رحمن ہے لیکن کیا اس نے اپنا نائب فساد انگیزیز اور خون بہانے والے کو بنایا؟
2:30 آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟

آپ کہیں گے تو کئی لاکھ بلکہ لاتعداد ایسے موقع دکھا سکتا ہوں۔ مجھے امید ہے میری زندگی ختم ہو جائے گی لیکن قرآن کے " عقلی تضادات" ختم نہ ہوں گے جو دماغ کی سوچ سے جنم لیتے ہیں۔

حضور آپ خدائے رب العزت کی صفات اور تقدیر پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ میں بات کرنے کے لئے حاضر ہوں آپ بے شک ایک الگ دھاگہ بنا لیجئے میں حاضر ہو جاؤں گا لیکن بات علم لدنی پر اور آپ کے الٹ کام کرنے کی ترغیب دینے پر ہو رہی ہے۔ معاملہ بہت الجھ جائے گا اور میں چاہتا ہوں اصل نکات پر سے قاری کی توجہ نہ ہٹے!!!

ویسے مجھے بہت افسوس ہوا ہے کہ آپ اپنی بات منوانے کے لئے آیاتِ قرآنی کو بیچ میں لے آئے اور اپنی کم علمی کی بنیاد پر تضاد کا دعویٰ کر دیا جبکہ تضاد درِحقیقت موجود نہیں ہے!!! آپ تو قرآن میں سے وہ نکات سامنے لے آئے ہیں جو غیر مسلم اور ملحدین خدا پر یقین نہ کرنے کے لئے اٹھاتے ہیں! ان کا سب سے پہلا سوال ہی غفور اور قہار کا ہوتا ہے اور آپ نے بھی مذہب میں تضاد کا دعویٰ کر دیا ہے! انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کے لئے دعا گو ہوں!

قلب کی سوچنے کی صلاحیت نورانی ہے وہی ان تضادات کو سہار سکتی ہے اور اللہ کے بھید کو پا سکتا ہے۔


جب بھی آپکو کچھ گول مول دکھائی دے، سمجھ لیں اب اور نور کمانے کا وقت آگیا ہے۔ غفلت دماغ کی نہیں قلب کی ہوتی ہے۔ قلب ذکر میں مشغول نہیں رہتا اسی لیے چیزیں گول مول دکھائی دینے لگتی ہیں۔

21:16-17 اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل تماشے کے طور پر (بے کار) نہیں بنایا۔ اگر ہم کوئی کھیل تماشا اختیار کرنا چاہتے تو اسے اپنی ہی طرف سے اختیار کر لیتے اگر ہم (ایسا) کرنے والے ہوتے۔


جو میں کہہ رہا ہوں اسکو بھی اللہ دیکھ رہا ہے اور جو آپ کر رہے ہیں وہ بے شک اللہ کی نظروں میں ہے۔ ہم دونوں ہی کھیل و تماشا کے لیے نہیں ہیں۔


اسکو بھی منطق سے حل کیجیے:

29:64 یہ دُنیا کی زندگی تو کھیل کود اور تماشے کے سوا کچھ نہیں.
21:16 ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل تماشے کے طور پرنہیں بنایا۔

یہ نور اور نورانی کام والی باتیں میں بہت پیچھے چھوڑ چکا ہوں۔ میرا صوفیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ آپ کو جو دو کتابیں پیش کی ہیں ان کا مطالعہ اب آپ فرما لیں!!!

انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ایک آیت میں زندگی کی بات ہو رہی ہے اور ایک آیت میں خدا کی عظیم تخلیق کے بارے میں خدائے رب العزت فرما رہے ہیں کہ ان کو بیکار نہیں بنایا ہے۔ کہاں تضاد نظر آرہا ہے آپ کو؟؟؟؟ میں آپ کے علم میں اضافے کے لئے دعا گو ہوں لیکن ہاتھ جوڑ کر گزارش کروں گا کہ جس چیز کا آپ کو علم نہیں ہے اس کے بارے میں آپ بے شک سوال کر لیں لیکن دعوی کرنے سے گریز فرمائیں اور وہ بھی قرآن اور حدیث سے متعلق۔ کیا معلوم آپ کی کم علمی کی گفتگو کسی کی گمراہی کا سبب بن جائے! اتنے یقین سے نہ بات کیا کریں! آپ چاہتے تو اس طرح کہہ سکتے تھے کہ مجھے لگتا ہے لیکن آپ نے فرمایا کہ آپ دکھا سکتے ہیں کہ قرآن میں جا بجا تضاد ہے! انا للہ وانا الیہ راجعون!

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ۛ فِيْهِ

یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں

انسان کے دماغ سوالات سر اٹھاتے ہیں کیاملسمان کیا غیر مسلمان کیا ملحد لیکن ھیرت اس بات پر ہے کہ آپ خود کو بہت مذہبی ظاہر کرتے رہے ہیں اور آپ یہ سب کہہ رہے ہیں اور وہ بھی ایسے جیسے آپ کی بات حرفِ آخر ہو!!! آج آپ نے بہت مایوس کیا صاحب! آپ سے یہ امید نہیں تھی!!!

کیا کر رہے ہیں صاحب آپ؟؟؟؟ کس حد تک جائیں گے؟؟؟ ہوش میں آجائیں!!! زبردستی قرآن میں تضاد دکھانا چاہ رہے ہیں!!! خدا آپ پر رحم فرمائے۔ آج تو آپ نے بہت ہی مایوس کیا!!!

اسی لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ کسی کی تعلیمات پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کرنا چاہئے۔ اپنی عقل استعمال کرنی چاہئے اور تحقیق جاری رکھنی چاہئیے!!! شرکاء محفل دیکھ لیں کہ یہاں کیا ہوا ہے! خدارا کسی کے کہے پر آنکھ بند کر کے یقین نہ کریں اور اگر کچھ سمجھ نہ آئے یا کچھ غلط محسوس ہو تو کسی دوسرے صاحبِ علم سے رجوع کرنے سے ہرگز نہ کترائیں!

میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ شریعت کے اندر ہو اور آپ سمجھ رہے ہیں کہ شریعت کے الٹ ہوں۔ میں آپکو توجہ دلا رہا تھا کہ "خوف محض" کے غلام نہ بنیں بلکہ دھیرے دھیرے "خوف خدا" کے عدل سے آراستہ ہوں۔ اور یہ دھیرے دھیرے بھی اس لیے کہ آپ کی صحت، معاش اور دین متاثر نہ ہو۔ پوری بصیرت کے ساتھ زندگی گزاریں اور دعا بھی کریں۔

میں نہیں سمجھ رہا ہوں!!! آپ نے فرمایا ہے!!! اور یہ آپ کے الفاظ ہیں!!! اور آپ کے الفاظ کا اقتباس لے کر نمایاں بھی کر چکا ہوں!!!

آپ صرف مثال سے سمجھا دیجئے کہ مثال کے طور پر کوئی زنا کرتے ہوئے ڈرتا ہے تو اس کا الٹ کیا کرنا ہوگا کہ اس کا خوف جو کسی کتاب یا عالم کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ختم ہو جائے؟؟؟ کیا کرنا ہوگا تفصیل سے بیان فرما دیجئے!!! کیا ادھر ادھر "گہری" نظریں صنف مخالف پر ڈالنے سے کام چل جائے گا یا پھر غور و فکر کرنا پڑے گا کہ کس میں "کتنا" اور "کیسا" حسن ہے یا ہے بھی یا نہیں؟؟؟
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
ان آیاتِ قرآنی سے حضرت خضر کے لئے تو علم لدنی عطا ہونے کا نص ملتا ہے لیکن کیا آپ قرآن اور حدیث سے نص لا سکتے ہیں کہ علم لدنی حضرت خضر کے بعد بھی عطا ہوتا رہا ہے؟؟؟ نص کے غیر موجود ہونے سے کسی صورت یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے کہ علمِ لدنی اعلیٰ حضرت یا اور اولیاء کو عنایت فرمایا جاتا رہا ہے!!! پہلے شریعت سے ثبوت فراہم کر دیجئے کہ علمِ لدنی اب تک عنایت فرمایا جاتا ہے پھر علمِ لدنی حاصل کرنے کی جستجو کے بارے میں بات کریں گے!!!

لدنی ہو یا علم نیت سب کا سب غیب کے علوم میں سے ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ کچھ تہمید غیب پر ہو جائے۔ غیبوں میں سب سے بڑھ کر غیب ھو کا ہے۔ بندوں کو یہ زیبا ہے کہ گفتگو میں ھو کی طرف یکسوئی رہے۔ یہی زندگی کا اصل ہے اور تمام تر غیوب کو جاننے کی کنجی۔ قرآن مجید میں ہے کہ 112:1 قل ھو اللہ احد۔ یعنی اللہ کی اصل حقیقت راز ھو ہے۔ یہ غیب ہے اور لامحدود ہے۔ اسی لیے اس پر صرف ایمان لایا جاسکتا ہے۔ 2:3 جو غیب پر ایمان لاتے۔ علم لدنی ہو یا علم نیت ہو یہ سب غیب کے علوم ہیں۔ چاہے ھو ہو، زمین و آسمان کی کوئی شئے ہو، سرگوشی ہو، سینے میں چھپا راز ہو، خشکی و تری کی کوئی مخلوق ہو، پچھلی قوموں کے حالات ہوں یہ سب کے سب غیب ہیں اور اس لامحدود مسلسل بڑھتے اور تبدیل ہوتے غیب کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ 27:65 فرمادیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے اللہ کے۔ اللہ کسی خاص ضرورت کے تحت اس غیب کا کچھ حصہ کسی رسول پر کھولتا ہے تاکہ اللہ کی طرف ہدایت کرنے میں رسول کے معاون ہو۔ 3:179 اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے چن لیتا ہے۔ پچھلی قوموں کے حالات ہوں یا دور دراز مقامات کی خبر ہو یہ وحی کے ذریعے اس رسول پر کھولی جاتیں ہیں۔ 3:44 (اے محبوب ﷺ) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں۔ اسی لیے رسول ہمیشہ اس بات کو واضح کرتے رہے کہ وہ خزانے جو اللہ معین مقدار میں بغرض حکمت اتارتا رہتا ہے اور وہ غیب کہ جس سے اللہ بضرورت رسول کو مطلع کرتا رہتا ہے، رسول خود انکے مالک ہیں نہ ان پر مطلع۔ 6:50 آپ (ﷺ) فرما دیجئے کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں۔ اللہ کے یہ سب خزانے مخصوص کنجیوں سے کھلتے ہیں اور ان کنجیوں کا علم اللہ کو ہے۔ 6:59 اُسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

کفار کے جنگوں کی چالیں ہوں، خشکی اور تری کے فتنے ہوں، آسمانوں سے برسنے والی برکت ہو یا برسنے والے فتنے ہوں سب کے سب غیب ہیں۔ یہ ایک خاص مقدار میں ہیں اور خاص مقدار میں ہی اتارے جاتے ہیں تاکہ ھو کی طرف یکسوئی کرنے والے شہید، صالح یا صدیق بن جائیں۔ اللہ کی سب آیات اور سب صفات کا ظہور پوری شان سے برقرار رہے۔ تاکہ کافروں پر حجت رہے اور مومنین ھو کے راز میں منہمک رہیں۔ اگر کل غیب پر رسول ہر وقت مطلع رہتے تو رسول کل بھلائی کو حاصل کرتے اور کل سختی کو دور کرتے۔ یوں حجت تمام نہ ہوتی۔ اگر رسول کل غیب جاننے کے بعد بھی اپنے سے بھلائی کو جانے دیتے اور سختی کو آنے دیتے تو وہ انسان جیسے ہی نہ رہتے۔ انکا علم تو رب کی طرح ہوتا لیکن ذات میں وہ انسان ہوتے۔ یہ محال ہے۔ اسی لیے رسول غیب کے علم حاصل ہونے کی نفی کرتے رہے۔ 7:188 مگر جس قدر اللہ نے چاہا، اور اگر میں (ﷺ) خود غیب کا علم رکھتا تو میں اَز خود بہت سی بھلائی حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی سختی نہ پہنچتی۔ وہ تمسخر اڑانے والے لوگوں اور طنز کرتے افراد سے دل کو پہچنے والی سخت تکلیف کے باوجود فرما دیتے کہ غیب اللہ ہی کو زیبا ہے۔ 10:20 غیب تو محض اللہ ہی کے لئے ہے، سو تم انتظار کرو میں (ﷺ) بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ انسان ہی نہیں جن اور فرشتے بھی غیب پر مطلع نہیں۔ 34:14 پھر جب آپ (سلیمان علیہ السلام) کا جسم زمین پر آگیا تو جنّات پر ظاہر ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلّت انگیز عذاب میں نہ پڑے رہتے۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام جن کی پیدائش ہی کلمۃ اللہ سے ہے وہ بھی غیب جاننے کی نفی کرتے ہیں۔ 5:116 اور میں (عیسیٰ علیہ السلام) ان کو نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہیں۔ بیشک تو ہی غیب کی سب باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ بلکہ تمام رسول غیب کا جاننا اللہ ہی کا حق تسلیم کرتے ہیں۔ 5:109 جس دن اللہ تمام رسولوں کوجمع فرمائے گا پھر فرمائے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا تھا؟ وہ عرض کریں گے: ہمیں کچھ علم نہیں، بیشک تو ہی غیب کی سب باتوں کا خوب جاننے والا ہے۔

نبی کے معنی غیب کی خبریں بتانے والا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے قیامت تک آنے والے واقعات سے تفصیلاً امت کو مطلع کیا لیکن ہمیشہ غیب ناجاننے کا اقرار کیا۔ 11:31 اور میں (ﷺ) تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ میں خود غیب جانتا ہوں۔ آپ ﷺ نے احادیث دجال میں صورت سے لے کردجال کے ایک ایک شر سے تو متنبہ کیا لیکن غیب کی خبریں جاننے کی نفی کی۔ اور ان خبروں کا ذریعہ وحی بتایا۔ 11:49 یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے قبل نہ آپ انہیں جانتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث بخاری سے پتہ چلتا ہے کہ سوال کرنے والے کو یہ مطلع کیا کہ اس کا باپ کو کون ہے لیکن غیب کی خبروں پر مطلع ہونے کی نفی کی۔ 12:102 (اے حبیبِ مکرّم ﷺ) یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی فرما رہے ہیں، اور آپ (کوئی) ان کے پاس موجود نہ تھے۔ حدیث بخاری میں آپ ﷺ نے بلال حبشی کو آسمانوں میں انکے قدموں کی آہٹ سے تو مطلع کیا لیکن آسمانوں کے غیب سے مطلع ہونے کی نفی کرتے رہے۔ 18:26 آسمانوں اور زمین کی (سب) پوشیدہ باتیں اسی کے علم میں ہیں۔ حدیث مسلم سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرشتوں کو دیکھتے لیکن ہمیشہ یہی فرمایا کہ اللہ ہی زمین و آسمان کے غیب جاننے والا ہے۔ 35:38 بیشک اﷲ آسمانوں اور زمین کے غیب کو جاننے والا ہے، یقیناً وہ سینوں کی باتوں سے خوب واقف ہے۔ حدیث مسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت و دوزخ جو کہ غیب میں سے ہے اس دنیا کی دیوار پر رسول اللہ ﷺ کو دکھائی جاتیں لیکن آپ ﷺ یہی فرماتے کہ غیب کا جاننے والا اللہ ہے۔ 72:26 غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا۔

حدیث مسلم سے اطلاع ملتی ہے کہ رسول اللہ ایک عام انسان کی شکل میں آئے فرشتے کو پہچانتے تھے اور لوگوں سے خوب کھول کھول کر یہ غیب بیان بھی کرتے۔81:24 اور وہ (حبیبِ مکرّم ﷺ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں۔ اسی صحبت رسول ﷺ کی وجہ سے صحابہ میں یہ علم منتقل ہوا اور سنت رسول ﷺ کو جاری رکھنے کے لیے یہ سلسلہ آج تک امت میں جاری ہے۔ حدیث بخاری سے پتہ چلتا ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف دیکھ کر کسی کے کاہن ہونے کا پتہ لگا لیتے۔ بلکہ حدیث بخاری سے پتہ چلتا ہے کہ جو بھی سوال کرنے سے بچے گا اور صبر کرے گا وہ بھی غیب پر مطلع ہو جائے گا۔ عام مومنین کے صبر کی وجہ سے ان پرحق القاء ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً دور قریب کے لوگوں کی اچھی بری نیت، تحریر اور کلام میں کجی یا حق ہونا۔ 34:48 فرما دیجئے: میرا رب حق کا القاء فرماتا ہے سب غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔

یہ نور اور نورانی کام والی باتیں میں بہت پیچھے چھوڑ چکا ہوں۔

سینہ اور نور کا تو تعلق ہے لیکن دماغ اور نور کا کوئی تعلق نہیں۔ دماغ نورانی نہیں ہوتا بلکہ سینہ نور پر ہو جاتا ہے۔ 39:22 بھلا اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہوجاتا ہے۔ ذکر میں کوتاہی یا کمی کی وجہ سے چیزوں میں تضاد دکھائی دیتا ہے اور وہ گول مول دکھائی دینے لگتی ہیں۔ یہ وقت نور کمانے کا ہوتا ہے۔ 39:22 پس اُن لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر (کے فیض) سے (محروم ہو کر) سخت ہوگئے، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔ خود اللہ عام لوگوں کی کوشش کے موافق ان کا سینہ کھول دیتا ہے۔ 6:125 پس اﷲ جس کسی کو ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کشادہ فرما دیتا ہے۔ آپ ﷺ کا سینہ مبارک کفار کی باتوں سے تنگ ہوتا تھا۔ 15:97 اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینۂ (اقدس) ان باتوں سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں۔ خود آپ ﷺ کے سینہ اقدس کو اللہ نے کشادہ فرمایا۔ 94:1 کیا ہم نے آپ (ﷺ) کی خاطر آپ کا سینہ کشادہ نہیں فرما دیا۔ جبکہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سینے کی کشادگی کی دعا کی۔ یہاں سے بھی رسول اللہ ﷺ کی ایک فضیلت محبوبیت ظاہر ہوتی۔ 20:25 (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما دے۔ ایک دفعہ سینہ کشادہ ہوجائے اور نور پر ہو جائے تو اس حالت کو برقرار رکھنے کے لیے کفر سے مسلسل حالت جنگ میں رہنا چاہیے تاکہ سینے کی بیماریوں سے شفاء رہے۔ 9:14 تم ان سے جنگ کرو، اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا اور ان پر تمہاری مدد فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینوں کو شفا بخشے گا۔ جنگ کا طریقہ قرآنی ہونا چاہیے ورنہ شفاء کے بجائے بیماری ہو گی۔ قلب تنگ ہو گا۔ نور جاتا رہے گا۔ 10:57 ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں۔

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

ترجمہ: کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ایسے ہو جاتے جن سے کچھ سمجھتے ہوتے اور کان ایسے جن سے وہ سن سکتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، اندھے تو وہ دل ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ [الحج: 46]

صرف سیدنا خضر علیہ السلام کی تعلیم ہی سے نہیں بلکہ عام سفر سے بھی سینہ روشن ہوتا ہے لیکن دل سمجھنے والا ہونا چاہیے نہ کہ دماغ۔ قلب سخت ہو تو محض دماغ کے ساتھ سفر غفلت کا ہو گا۔ پھر کہتا ہوں کہ عقل سلیم کا مسکن قلب ہے نہ کہ دماغ۔ اس آیت میں بھی دل کا تعلق سمجھ سے بتایا گیا ہے نہ کہ دماغ کا۔ 22:46 تو کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی کہ ان کے دل (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ سمجھ سکتے یا کان (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ (حق کی بات) سن سکتے، تو حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ دماغ محض کی عقل نکرہ ہے۔ جیسے کہ فرعون کی عقل۔ اسکا قلب سخت تھا۔ جب اس پر بات اچھی طرح واضح ہو گئی تو کہا کہ یہ موسیٰ ع تمہارا بڑا جادوگر ہے۔ عقل کی کارگزاری کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ 26:49 بیشک یہ (موسٰی علیہ السلام) ہی تمہارا بڑا (استاد) ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ بعض لوگوں کو صحیح علم دیا جاتا ہے یہ رسولوں کے علاوہ ہیں۔ 29:49 بلکہ وہ (قرآن ہی کی) واضح آیتیں ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں (محفوظ) ہیں جنہیں (صحیح) علم عطا کیا گیا ہے۔

میں نے غور کیا ہے کہ آپ بہت مغرور ہیں جبھی اتنی آسانی سے کبھی اپنے لئے نبی کی مثال دے دیتے ہیں یا پھر کسی کی نیت کا حال جان لیتے ہیں یا پھر کسی کے ایمان کے انجام کے بارے میں پیشنگوئی فرما دیتے ہیں!
حدیث مسلم سے اطلاع ملتی ہے کہ غرور یا گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کو ناحق کرے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔ دلیل کے ساتھ آیت کے متعلق بحث بھی غرور نہیں۔ 40:56 بے شک جو لوگ اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر کسی دلیل کے جو اُن کے پاس آئی ہو، ان کے سینوں میں سوائے غرور کے اور کچھ نہیں ہے وہ اُس (حقیقی برتری) تک پہنچنے والے ہی نہیں۔ پس آپ (ان کے شر سے) اللہ کی پناہ مانگتے رہئے، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔ حدیث مسلم اور سلسلہ احادیث صحیحہ سے پتہ چلتا ہے کہ ازرہ غرور کپڑے زمین پر لٹکا کر گھسیٹنے میں ہے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں کہ جو سلام میں پہل کرے، کسی کو گالی نہ دے، کسی نیکی کو حقیر و معمولی نہ سمجھے، اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملےاس میں غرور نہیں ہے۔ غرور کی مثال بلند عمارتیں بنانا اور ان پر فخر کرنا ہے۔ اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ بعض لوگ شیاطین نما انسانوں کی صحبت اختیار کرتے ہیں۔ اسی کا اثر گفتگو میں بھی آجاتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں۔ 114:5 جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔

اسکو بھی منطق سے حل کیجیے:

29:64 یہ دُنیا کی زندگی تو کھیل کود اور تماشے کے سوا کچھ نہیں.
21:16 ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل تماشے کے طور پرنہیں بنایا۔

ایک آیت میں زندگی کی بات ہو رہی ہے اور ایک آیت میں خدا کی عظیم تخلیق کے بارے میں خدائے رب العزت فرما رہے ہیں کہ ان کو بیکار نہیں بنایا ہے۔ کہاں تضاد نظر آرہا ہے آپ کو؟

جی یہی کہہ رہا تھا کہ قرآن میں کہیں تضاد نہیں۔ نہ ان آیات میں۔ لیکن عقل محض، دماغ اور منطق سے کلام الہی یا ھو کے بھید کو سمجھنے میں مشغول ہوئے تو اسکو بھی منطق سے تضاد ثابت کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی زندگی بھی تو زمین و آسمان کے درمیان کی ہی شئے ہے۔ اور وہ کھیل تماشا ہے۔ چنانچہ وہ زمین و آسمان سے باہر کی کوئی شئے ہے۔ کیونکہ زمین و آسمان کھیل و تماشا نہیں۔

میرا صوفیت پر بالکل بھی ایمان نہیں ہے! صوفیت کی بے شمار تباہ کاریاں سامنے آچکی ہیں! صوفیت کے ذریعے درِحقیقت عقیدہ توحید اور ختم نبوت پر حملے کیے جاتے ہیں، چور راستے مہیا کیے جاتے ہیں!!! ان چور راستوں کی بدولت اس خطے میں کئی فتنے سر اٹھا چکے ہیں جن میں قادیانیت سرِ فہرست ہے!!! قادیانیت بس تھوڑا سا کھلا ہوا ہے اور باقی سب ذرا ڈھکے چھپے رہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن زیادہ فرق نہیں ہے !!! اس لئے میں صوفیت سے بہت دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں!!!

ایمان تو اللہ پر اس کے اسماء و صفات کے پر ہونا چاہیے۔ یا اس کے تمام احکامات پر، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں،یومِ آخرت، اللہ کی جانب سے اچھی بری تقدیر پر اور مرنے کے بعد جینے پر۔ یہ صوفیت کوئی ایمان لانے کی چیز نہیں ہے۔ کفار اسلام کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ انکا اسلام پر بالکل بھی ایمان نہیں ہے! اسلام کی بے شمار تباہ کاریاں سامنے آچکی ہیں! اسلام کے ذریعے درِحقیقت عقیدہ توحید اور نبوت پر حملے کیے جاتے ہیں، چور راستے مہیا کیے جاتے ہیں۔ اب جب کئی ہزار کتابیں دنیا میں اسطرح لکھ دی جائیں تو آپ سادگی میں اسلام کا چولا بھی اتار پھینکیے گا!

بات یہ ہے کہ ان کفار تک اسلام کی تعلیمات نہیں پہنچیں یا پھر اللہ کو انکی ہدایت مقصود نہیں ہے۔ وہ ہیں ہی شقی اور کفر کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ بہرحال مومنین کو نصیحت فائدہ دیتی ہے۔

اسود عسنی اور مسلیمہ کذاب برصغیر میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ وہ اس دور اور ان ممالک کے ہیں جہاں ہدایت زیادہ عام تھی۔ یہ جھوٹے نبی ہونے کے دعویٰ سخت شقی ہونے سے ہے۔ اللہ کی مرضی ہے کہ جس خطے اور جہاں چاہے پیدا کرے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں جو سکہ زیادہ چلتا ہے وہاں ہی کھوٹے سکے پیدا ہوتے ہیں۔ اسود عسنی اور مسلیمہ کذاب عرب شریف کے علاقوں کے ہیں جہاں نبی کی بات سنی اور مانی جاتی تھی۔ غلام احمد برصغیر کا ہے جو اولیاء اللہ کا مسکن رہا ہے جو توحید کی تفصیل بیان کرتے۔ پچھلی صدی میں اسلامی تزکیہ کا سب سے بڑا مرکز ہند ہی تھا۔ اور تزکیہ قرآن کا ہی شعبہ ہے۔ 2:129 انہی میں سے رسول (ﷺ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دےاور ان کو خوب پاک صاف کر دے۔ یہ خوب پاک کر دینا بھی تو امت میں کسی کا کام ہونا چاہیے؟ یا یہ بند کردیں؟ آپ کہیں تو یہ آیت کا کتاب و حکمت کی تعلیم کا حصہ جاری رکھتے ہیں اور تزکیہ والا حصہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا اثر وہی ہو گا جو اس سے قبل کئی بار کہا چکا ہے کہ دماغ کی منطق، علم کلام، فلسفہ کو خوب ترقی ملے گی۔ بری طبعیتوں کو انہی میں مزہ آئے گا۔ قلب تاریک اپنے اپنے طور سے جس قدر چاہیں گے حق پر نقب لگائیں گے۔ دلیل فرعونی ہو جائے گی کہ ہادی کو گمراہ کہا جائے گا۔ 26:49 بیشک یہ (موسٰی علیہ السلام) ہی تمہارا بڑا (استاد) ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔

آپ صرف مثال سے سمجھا دیجئے کہ مثال کے طور پر کوئی زنا کرتے ہوئے ڈرتا ہے تو اس کا الٹ کیا کرنا ہوگا کہ اس کا خوف جو کسی کتاب یا عالم کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ختم ہو جائے؟؟؟ کیا کرنا ہوگا تفصیل سے بیان فرما دیجئے!!! کیا ادھر ادھر "گہری" نظریں صنف مخالف پر ڈالنے سے کام چل جائے گا یا پھر غور و فکر کرنا پڑے گا کہ کس میں "کتنا" اور "کیسا" حسن ہے یا ہے بھی یا نہیں؟؟؟

اب اس ساری گفتگو کو سمجھنے کے لیے یہی مثال لے لیں۔ بات شریعت کے اندر رہ کر سفر کرنے کی ہو رہی ہے اور یہاں زنا اور دیگر گناہوں میں تطبیق پیدا کرنے کو کہا جا رہا ہے جو کہ ایک عام مسلمان بھی جانتا ہے کہ شریعت سے باہر ہیں۔ منطق محض سے عقل سلیم نہیں عقل نکرہ پیدا ہوتی ہے۔ ایسی عقل جو دن و رات قلب کو تاریک سے تاریک تر کرتی ہے۔

بھائی صاحب مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی کسی کو کافر، مشرک، ملحد، منافق، قادیانی، ڈیوڈ وغیرہ کہا ہو۔ بلکہ یہ تو آپ ہی اکثر دوسروں کے لئے فرماتے رہتے ہیں!!! مجھے تو جو بات درست معلوم ہوتی ہے وہ بول دیتا ہوں۔ پھر آپ کو کس بات سے میری دکھ پہنچا ہے؟؟؟

مجھے تو جو بات درست معلوم ہوتی ہے وہ بول دیتا ہوں۔

آپ اس سے ہی ذرا تکلیف موسیٰ علیہ السلام کا اندازہ لگائیں۔ 2:67 (تو) وہ بولے: کیا آپ ہمیں مسخرہ بناتے ہیں؟ 2:68 آپ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہم پر واضح کر دے۔ اب تعمیل کرو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ 2:69 وہ (پھر) بولے: اپنے رب سے ہمارے حق میں دعا کریں وہ ہمارے لئے واضح کر دے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ 2:70 وہ کون سی گائے ہے؟ (کیونکہ) ہم پر گائے مشتبہ ہو گئی ہے۔ 2:71 پھر انہوں نے اس کو ذبح کیا حالانکہ وہ ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔


انسان کے دماغ سوالات سر اٹھاتے ہیں کیاملسمان کیا غیر مسلمان کیا ملحد لیکن ھیرت اس بات پر ہے کہ آپ خود کو بہت مذہبی ظاہر کرتے رہے ہیں اور آپ یہ سب کہہ رہے ہیں اور وہ بھی ایسے جیسے آپ کی بات حرفِ آخر ہو!!! آج آپ نے بہت مایوس کیا صاحب! آپ سے یہ امید نہیں تھی!!!

کیا کر رہے ہیں صاحب آپ؟؟؟؟ کس حد تک جائیں گے؟؟؟ ہوش میں آجائیں!!! زبردستی قرآن میں تضاد دکھانا چاہ رہے ہیں!!! خدا آپ پر رحم فرمائے۔ آج تو آپ نے بہت ہی مایوس کیا!!!

اسی لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ کسی کی تعلیمات پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کرنا چاہئے۔ اپنی عقل استعمال کرنی چاہئے اور تحقیق جاری رکھنی چاہئیے!!! شرکاء محفل دیکھ لیں کہ یہاں کیا ہوا ہے! خدارا کسی کے کہے پر آنکھ بند کر کے یقین نہ کریں اور اگر کچھ سمجھ نہ آئے یا کچھ غلط محسوس ہو تو کسی دوسرے صاحبِ علم سے رجوع کرنے سے ہرگز نہ کترائیں!

بہت سے ہندووں، عیسائیوں اور یہودیوں سے بات کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ انکے فلاسفہ کا طریقہ بھی یہی ہے جو کہ طریقہ محمدی ﷺ کی ضد ہے۔ ان میں اکثر یونہی بات کرتے 2:67 (تو) وہ بولے: کیا آپ ہمیں مسخرہ بناتے ہیں؟ 2:68 آپ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہم پر واضح کر دے۔ اب تعمیل کرو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ 2:69 وہ (پھر) بولے: اپنے رب سے ہمارے حق میں دعا کریں وہ ہمارے لئے واضح کر دے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ 2:70 وہ کون سی گائے ہے؟ (کیونکہ) ہم پر گائے مشتبہ ہو گئی ہے۔ 2:71 پھر انہوں نے اس کو ذبح کیا حالانکہ وہ ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔

دعا گو ہوں کہ اللہ ہمیں عقل سلیم اور قلب سلیم عطا فرمائے تاکہ ہم اللہ کے بھید کو جاننے میں مشغول ہوں۔ آمین
 
آخری تدوین:
دعا گو ہوں کہ اللہ ہمیں عقل سلیم اور قلب سلیم عطا فرمائے تاکہ ہم اللہ کے بھید کو جاننے میں مشغول ہوں۔ آمین

آمین۔ ثم آمین
سید صاحب۔۔۔ اس انتہائی بھرپور مراسلے پر آپ کو بے شمار داد دینا واجب ہے، جس کا اظہار کسی درجہ بندی یا الفاظ کے استعمال سے ممکن ہی نہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ وہ آپ کے علم میں خوب اضافہ، اور ہم جیسوں کو اس سے سبق لینے کی توفیق اور ہمت عطا فرماتا رہے۔ آمین

حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی ایک نظم ’درد عشق‘ یاد آ رہی ہے۔ پیش خدمت ہے۔

اے دردِ عشق! ہے گُہرِ آب دار تُو
نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تُو!
پنہاں تہِ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفلِ نَو کی نگاہ ہے
آئی نئی ہوا چمنِ ہست و بود میں
اے دردِ عشق! اب نہیں لذّت نمود میں
ہاں، خود نمائیوں کی تجھے جُستجو نہ ہو
منّت پذیر نالۂ بُلبل کا تُو نہ ہو!
خالی شرابِ عشق سے لالے کا جام ہو
پانی کی بوند گریۂ شبنم کا نام ہو
پنہاں دُرونِ سینہ کہیں راز ہو ترا
اشکِ جگر گداز نہ غمّاز ہو ترا
گویا زبانِ شاعرِ رنگیں بیاں نہ ہو
آوازِ نَے میں شکوۂ فُرقت نہاں نہ ہو
یہ دَور نُکتہ چیں ہے، کہیں چھُپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تُو مکیں ہے، وہیں چھپ کے بیٹھ رہ
غافل ہے تجھ سے حیرتِ علم آفریدہ دیکھ!
جویا نہیں تری نگہِ نا رسیدہ دیکھ
رہنے دے جُستجو میں خیالِ بلند کو
حیرت میں چھوڑ دیدۂ حکمت پسند کو
جس کی بہار تُو ہو یہ ایسا چمن نہیں
قابل تری نمود کے یہ انجمن نہیں
یہ انجمن ہے کُشتۂ نظّارۂ مجاز
مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز
ہر دل مئے خیال کی مستی سے چُور ہے
کچھ اور آجکل کے کلیموں کا طُور ہے
 

سید رافع

محفلین
کیا معلوم آپ کی کم علمی کی گفتگو کسی کی گمراہی کا سبب بن جائے! اتنے یقین سے نہ بات کیا کریں! آپ چاہتے تو اس طرح کہہ سکتے تھے کہ مجھے لگتا ہے لیکن آپ نے فرمایا کہ آپ دکھا سکتے ہیں کہ قرآن میں جا بجا تضاد ہے! انا للہ وانا الیہ راجعون!

جی مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہے۔ اسی لیے میں سلسلہ عطاریہ سے منسلک ہوں۔ شرعی معاملات میں دارلالفتاء سے رجوع کرتا ہوں۔ یہاں بھی جاب کی وجہ سے کم ہی توجہ دے پاتا ہوں۔ ہر سوال کا جواب نہ مجھے آتا ہے اور نہ دینے کا وقت ہے۔ خاص کر بے سبب تکرار سے گھبراتا ہوں اور ڈرتا ہوں کہ کہیں اسکا مصداق نہ بن جاؤں (العیاذ باللہ)۔ جو شخص علم اس واسطے سیکھے کہ اس کے ذریعہ علماء کی برابری کرے، کم علم اور بیوقوفوں سے بحث و تکرار کرے یا اس علم کے ذریعہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل فرمائے گا ( سنن ترمذی --- کتاب: علم اور فہم دین --- حدیث نمبر: 2654)- تم علم کو علماء پر فخر کرنے یا کم عقلوں سے بحث و تکرار کے لیے نہ سیکھو ، اور علم دین کو مجالس میں اچھے مقام کے حصول کا ذریعہ نہ بناؤ ، جس نے ایسا کیا تو اس کے لیے جہنم ہے ، جہنم (سنن ابن ماجہ --- (ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت) ---حدیث نمبر: 254

ایمان خوف اور رجاء کے درمیان ہے۔ چنانچہ اس حدیث سے بات کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔ میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ ! اگرچہ ایک ہی آیت ہو اور بنی اسرائیل کے واقعات تم بیان کر سکتے ہو ، ان میں کوئی حرج نہیں اور جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا تو اسے اپنے جہنم کے ٹھکانے کے لیے تیار رہنا چاہئے (صحیح بخاری --- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں --- حدیث نمبر: 3461)۔ اور اس بات سے اطمینان ہوتا ہے کہ 16:125 (اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔

دعا گو ہوں کہ آپ کو، مجھے اور کل مومنین و مومنات کو احسن طریقے سے بحث کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارا انداز ایسا حسین ہو کہ ہم ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوں اور ہماری نصیحت خود ہمیں فائدہ دے۔ آمین۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top