جسٹس قاضی فائز نے شہزاد اکبر سے متعلق 15 سوالات اٹھادیے

کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ملک کی خیرخواہ نہیں ہے۔ وہ صرف اپنی اجارہ داری چیلنج کرنے والوں کو احتساب کے ذریعہ راستے سے ہٹانے کا گر جانتی ہے۔ حالانکہ جتنی کرپشن یہ کرنل جرنل کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں۔ یہی احتساب ان سب کا ہونے لگے تو ملک کے سارے کور کمانڈرز فارغ ہو جائیں۔
سرکار بس کرئیے۔۔۔ ویگو ڈالا ۔۔۔ آدم بو آدم بو۔
 

جاسم محمد

محفلین
جسٹس افتخار کو جب پی پی والے بحال نہیں کر رہے تھے
جسٹس افتخار چوہدری اپنے حق کیلئے تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ڈٹ گئے تھے۔ البتہ کچھ سال بعد ملک کے منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو فارغ کرنے میں اسٹیبلشمنٹ کو بھرپور معاونت فراہم کی۔ اس وقت اپوزیشن لیڈر نواز شریف بھی کالا کوٹ پہن کر اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر سپریم کورٹ چلے گئے تھے۔
 
اس ملک میں کسی سے بھی منی ٹریل مانگیں تو اپنے آپ کو کلئیر کرنے کی بجائے ہر کوئی یہ کہتا ہے 'کس قانون کے تحت میری جائیدادوں کا پتہ چلایا' :sneaky:
کل کس طرح منصف کرپٹ سیاستدان سے پوچھے گا کہ تمہارے اہل خانہ کے نام جائیدادیں کیسے بنیں۔۔۔
کل ریپ کرنے والے اور قتل کرنے والے مجرم بھی پوچھیں گے کہ "جج صاحب، آخر کس قانون کے تحت، میرے کرتوتوں کا پتہ لگایا گیا؟ "
 
جسٹس افتخار چوہدری اپنے حق کیلئے تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ڈٹ گئے تھے۔ البتہ کچھ سال بعد ملک کے منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو فارغ کرنے میں اسٹیبلشمنٹ کو بھرپور معاونت فراہم کی۔ اس وقت اپوزیشن لیڈر نواز شریف بھی کالا کوٹ پہن کر اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر سپریم کورٹ چلے گئے تھے۔
منتخب وزیر اعظم حضرات ، یوسف گیلانی اور نواسز شریف ، کو بذریعہ عدالت الگ کرنا ایک سنگین جرم ہے، حکومت کے خلاف عدلیہ کی یہ کاروائی ، پاکستان کے ساتھ غداری کے زمرے میں آنی چاہئے اور یہ فیصلے کرنے والے دونوں سابقہ ججوں کو اسی جگہ لٹکانا چاہئے جہاں بھگت سنھ کو لٹکایا گیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
کل ریپ کرنے والے اور قتل کرنے والے مجرم بھی پوچھیں گے کہ "جج صاحب، آخر کس قانون کے تحت، میرے کرتوتوں کا پتہ لگایا گیا؟ "
ایک فقیر کے ہاں چوری ہو گئی۔ بھاگتے چور کو محلے والوں نے پکڑ کر سامان کی تلاشی لی تو اندر سے سونے کے بسکٹ برآمد ہوئے۔ یہ منظر دیکھ کر اہل محلہ پریشان ہو گئے کہ پولیس کے حوالے کس چور کو کریں؟
نوٹ: کسی بھی جج سے مماثلت اتفاقیہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ ہیں اصل لفافی جرنلسٹ
ہر طرف کے ٹاؤٹ نما صحافیوں کی واحد ذمہ داری یہی ہے کہ عوام الناس کا دھیان 'اُن' کو لفافہ مہیا کرنے والے کی طرف نا جا سکے۔ اور وہ اس میں اکثر و بیشتر کامیاب بھی رہتے ہیں۔
ارشاد بھٹی اور صابر شاکر جیسے صحافی اسٹیبلشمنٹ کے لفافے یا ٹاؤٹ ہیں۔ اصولا تمام صحافیوں کو غیرجانبدار ہونا چاہئے۔ البتہ جس ملک میں سینئر صحافیوں کا مختلف سیاسی جماعتوں کے پے رول پر ہونا معمول ہو وہاں اسٹیبلشمنٹ کیوں پیچھے رہے۔ Journalism for Rent
 

جاسم محمد

محفلین
ایک منتخب حکومت ججز کے جاسوسی پر گھر بھیج دی گئی تھی: جسٹس مقبول باقر کی فروغ نسیم کو تنبیہ
اسد علی طور جون 11, 2020


آج 10 بج کر 53 منٹ پر پارکنگ والے دروازے سے سپریم کورٹ کے احاطے میں داخل ہوا تو آج دائرے اور لکیریں کھینچی گئی تھیں جن پر کھڑے ہو کر آپ نے سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے باری باری اپنا ٹمپریچر چیک کروانا تھا۔ جسمانی درجہ حرارت لینے کے لئے تھرمل ڈیوائس لیے ایک پولیس اہلکار اور سپریم کورٹ کا اہلکار عمارت کے داخلی دروازے پر موجود ہوتا ہے۔ میرا آج کا ٹمپریچر 95.4 تھا اور جب کا کورونا آیا ہے، ابھی تک 97 سے زیادہ نہیں آیا۔

کورٹ روم نمبر ون کی سیڑھیوں کے پاس پہنچا تو دو لوگوں نے بھاگتے ہوئے میرے پاس سے گزرتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنی شروع کر دیں اور جلد ہی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا تو ان دونوں کو پولیس اہلکاروں نے روک رکھا تھا اور وہ بحث کر رہے تھے کہ انہوں نے بیرسٹر شہزاد اکبر کو پانی کی بوتل پہنچانی ہے جو ان کے ہاتھ میں موجود تھی۔ پولیس اہلکار کہہ رہے تھے کہ تھوڑا تحمل کر لیں، ویسے بھی کمرہ عدالت میں کھانے پینے کی کوئی چیز لے جانے کی اجازت نہیں۔ اس بحث کے دوران کمرہ عدالت کے باہر موجود بیرسٹر شہزاد اکبر کا ایلیٹ فورس کا گارڈ بھی آ کر مکالمے میں شامل ہو گیا اور دونوں کو اندر جانے کی اجازت دلوائی۔


یہ سب دیکھ کر موبائل فون باہر لیڈی اہلکار کے پاس جمع کروائے اور ٹوکن جیب میں ڈالتے کمرہ عدالت میں داخل ہو گیا۔ پچھلی سماعت ایک جج کے قرنطینہ میں ہونے کی وجہ سے ملتوی ہوئی تھی، اس لئے سب سے پہلے ججز کی کرسیاں گنیں تو وہ پوری دس تھیں اور ایکسپریس ٹربیون کے سینیئر صحافی حسنات ملک بھی آ کر گنتی میں شامل ہو چکے تھے۔ پچھلی سماعتوں کے برعکس آج تمام ججز کی نشستوں میں چھ فٹ کا فاصلہ رکھا گیا تھا اور یوں کورٹ روم نمبر ون میں ججز کے بیٹھنے والا مقام پوری طرح ججز کی نشستوں سے بھر چکا تھا۔

کمرہ عدالت میں بیرسٹر شہزاد اکبر ایک ساتھی وکیل کے ساتھ اکیلے بیٹھے تھے جب کہ خلاف توقع کورٹ روم نمبر ون مکمل خالی تھا۔ 11:10 پر حکمران تحریک انصاف کی ایم این اے ملیکا بخاری بھی آ کر بیٹھ گئیں اور 11:20 پر بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے چار معاونین کے ساتھ انٹری دی۔ آج ججز نے انتظار نہیں کروایا اور 11:32 پر آواز لگی کورٹ آ گئی ہے۔

وفاق کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم روسٹرم پر ہی موجود تھے اور 10 رکنی فل کورٹ بیٹھ گئی تو سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کو مخاطب کر کے ججز کا موڈ بتا دیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فروغ نسیم صاحب آج آپ اپنی مرضی کے مطابق دلائل دیں، آپ کا دیا ہوا سوالنامہ ہم نے پڑھ لیا ہے جس میں سے بہت سے متعلقہ نہیں ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ آپ نے ایسٹ ریکوری یونٹ کا بتایا کہ وہ رولز آف بزنس کے مطابق جائز ہے تو اس پر دو سے تین مزید مثالیں دیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ہدایت کی کہ وہ آج بددیانتی اور کوڈ آف کنڈکٹ پر بھی دلائل دیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر اصل مقدمہ ہی کوڈ آف کنڈکٹ کا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے لقمہ دیا کہ بالکل بتائیں ہم سننے کو تیار ہیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کا پورا کیس یہ ہے کہ بیوی بچے میرے زیر کفالت نہیں، اس لئے میں ان کا جوابدہ نہیں ہوں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے فل کورٹ کی توجہ دلائی کہ ریفرنس کی بنیاد تین دستاویزات ہیں۔ ایک آرٹیکل 209، دوسری ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ اور تیسری سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز آف پروسیجر 2005۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کا مزید کہنا تھا کہ آرٹیکل 209 میں لفظ مس کنڈکٹ تو استعمال ہوا ہے لیکن مس کنڈکٹ کیا ہے اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 209 یہ نہیں کہتا کہ بڑی خلاف ورزی ہی مس کنڈکٹ کے زمرے میں آئے گی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مؤقف تھا کہ آرٹیکل 209 میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کا لفظ جان کر استعمال نہیں کیا گیا تاکہ کوڈ آف کنڈکٹ اور دیگر قوانین سے مدد لی جا سکے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے سابق چیف جسٹس اے آر کارنیلس کا ایک فیصلہ پڑھتے ہوئے بتایا کہ جسٹس کارنیلس نے طے کر دیا تھا کہ کسی بھی قانون یا رولز کی خلاف ورزی مس کنڈکٹ شمار ہوگا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے دلیل دی کہ مس کنڈکٹ ارادی یا غیر ارادی بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ذمہ داریوں کی ادائیگی یا قانون پر عملدرآمد کے دوران بھی ہو سکتا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 209 سے آگے بڑھ کر اب بیرسٹر فروغ نسیم نے سپریم کورٹ کے ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ 2009 کھولا تو جسٹس مقبول باقر نے اشارہ کیا کہ یہ کہتا ہے جج کو برے کردار کا نہیں ہونا چاہیے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ کوڈ آف کنڈکٹ حضرت عمر اور حضرت علی کو ذہن میں رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا کہ قاضی وقت کو کیسا ہونا چاہیے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کوڈ آف کنڈکٹ کی جگہ مذہب کا مزید سہارا لیتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت خلفاؑ راشدین سے یقیناً بڑی شخصیات پر مشتمل نہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے مذہب کا استعمال جاری رکھتے ہوئے دلیل دی کہ اسلام میں عوام کا اعتماد قاضی میں وضع کر دیا گیا تھا اور میری نظر میں یہ عدالتیں مقام مقدس ہیں۔ اب بیرسٹر فروغ نسیم نے پاکستان کی تخلیق اور مذہب کا مشترکہ تڑکہ دیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے تو انصاف کے لئے جج کو بھی قوم کی اسلامی امنگوں پر پورا اترنا ہوگا۔

سب صحافی حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ سپریم کورٹ کے وضع کردہ کوڈ آف کنڈکٹ میں اس سب کا ذکر کہاں ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے مختلف قوانین کا حوالہ دے کر کہا کہ ریفرنس ملک کے کسی بھی قانون کی خلاف ورزی پر بن سکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے آئین پاکستان کی سبز کتاب ہاتھ میں پکڑ کر ریمارکس دیے کہ آئین تمام قوانین کو جنم دیتا ہے اور ان کو زندگی بھی دیتا ہے لیکن آپ کی تشریح سے لگ رہا ہے، آئین اپنے ہی تشکیل دیے گئے قوانین کے تابع ہے۔ جسٹس منیب اختر نے آبزرویشن دی کہ ججز کے مس کنڈکٹ کو آئین میں وضع کردہ معیار پر پرکھا جائے گا ان اضافی ایکٹس اور آرڈیننسز پر نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ رولز آف بزنس سے مس کنڈکٹ مت نکالیے۔

بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جج کا عہدہ دراصل پبلک آفس ہے اور چاہے بیوی ان کے زیر کفالت ہے یا نہیں لیکن کیونکہ بیوی ایک بہت ہی قریبی رشتہ ہے، اس لئے جج صاحب کو ان کا جواب دینا ہوگا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ 2019 کا ایکٹ کہتا ہے کہ اگر آپ پبلک آفس ہولڈر ہیں تو آپ اپنے زیر کفالت بچوں اور بیوی کی جائیدادیں ظاہر کرنے کے پابند ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال پوچھا کہ کیا جج کا دفتر اس قانون کے دائرے میں آتا ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ 2018 کی ایمنسٹی اسکیم کا ایکٹ کہتا ہے کہ جج پبلک آفس ہولڈر ہے اور یہ جج اور بیوی میں فرق نہیں کرتا۔

دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ ایمنسٹی سکیم کا اس کیس سے کیا تعلق ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ چونکہ جج صاحب کہتے ہیں کہ مجھ سے نہیں، بیوی بچوں سے سوال پوچھو۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال اٹھایا کہ کیا جج یا ان کے اہلخانہ نے ایمنسٹی سکیم میں اپلائے کیا تھا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا کہ یہ سوالات سپریم جوڈیشل کونسل کو جج سے پوچھنے دیں۔

جسٹس مقبول باقر نے آبزرویشن دی کہ اگر آپ جو کہہ رہے ہیں، وہ اصول طے ہوگیا تو کل کو کوئی بھی اٹھ کر سپریم جوڈیشل کمیشن کے دروازے پر دستک دے گا کہ فلاں جج سے سوال کا جواب لے کر دیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جسٹس مقبول باقر کو بیک فٹ پر کرنے کے لئے فوری جواب دیا کہ اگر آج یہ مان لیا کہ جج جوابدہ نہیں تو یہ بہت نقصان دہ اصول طے ہو جائے گا۔ جسٹس مقبول باقر نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ ہم نہیں کہہ رہے کہ جج جوابدہ نہیں ہے لیکن جج جوابدہ ہوگا تو کسی قانون کے تحت ہوگا۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ آپ پہلے بیوی بچے جج کے زیرِ کفالت ثابت کریں پھر جواب مانگیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اس موقع پر پانامہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک جج کے بیوی بچوں کے نام پر لندن میں تین مہنگی جائیدادیں ہیں اور جب یہ جائیدادیں خریدی گئیں تو بچے طالبعلم تھے، اس لئے کن ذرائع سے یہ جائیدادیں خریدی گئیں؟ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ ایسا ہی سوال پانامہ پیپرز میں سابق وزیر اعظم نواز شریف سے پوچھا گیا تھا تو انہوں نے بھی جواب دینے سے انکار کر دیا تھا۔

جسٹس مقبول باقر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ٹوکتے ہوئے ریمارکس دیے کہ دو مقدمات کا یوں موازنہ نہیں ہو سکتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس مقبول باقر کے ریمارکس کی وضاحت کر دی کہ پانامہ پیپرز اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمات کا موازنہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ فل کورٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر ایک جج کی اہلیہ کی اپنی اچھی خاصی آمدن ہے اور وہ خود مختار ہیں، وہ اپنے پیسوں سے لندن میں جائیدادیں خرید لیتی ہیں تو اس میں جج صاحب کیسے جوابدہ ہو سکتے ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے بتاتا چلوں کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ایک بڑے زرعی رقبے کی مالک ہیں جہاں سے انہیں اچھی خاصی آمدن ہوتی ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ان معاملات کے لئے ایف بی آر کا متعلقہ فورم موجود ہے، حکومت کو اس سے رجوع کرنا چاہیے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جج کہتا ہے وہ جوابدہ نہیں ہے۔ اس موقع پر اب تک خاموش جسٹس سجاد علی شاہ نے قدرے برہمی سے ریمارکس دیے کہ جج بالکل نہیں کہہ رہا کہ میں جواب نہ دوں گا، بلکہ وہ کہہ رہا ہے کہ سوال کسی قانون کے تحت پوچھیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اب بیوی کو جج کا زیر کفالت بتانے کے لئے اپنی پوزیشن تبدیل کرتے ہوئے نئی دلیل دی کہ 205 کا 4th شیڈول کہتا ہے کہ جج کے انتقال کی صورت میں جج کی بیوی اس کی پینشن کی حقدار ہوگی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ یہاں پر یہ تو نہیں لکھا کہ جج کی بیوی زیرِ کفالت ہوگی تو ہی پینشن کی حقدار ہوگی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ اگر جج کی بیوی پینشن کی حقدار ہو سکتی تو وہ جوابدہ بھی ہوگی۔

جسٹس منیب اختر نے اپنے چہرے سے ماسک تھوڑا نیچے سرکاتے ہوئے طنزیہ لہجے میں بیرسٹر فروغ نسیم کو کہا کہ وکیل صاحب آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ ذرا اس سے اگلی شق بھی پڑھیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ آگے لکھا ہے کہ جج کی بیوی تب تک پینشن لے سکتی ہے جب تک دوسری شادی نہ کر لے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اپنی دلیل کو خود ہی رد کردیا ہے کیونکہ اگر جج کی بیوی دوسری شادی کر سکتی ہے تو مطلب وہ خود مختار ہے، پینشن لینے سے جج کی زیر کفالت نہیں بن گئی۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اس دلیل سے پسپائی کے بعد 2009 کے ججز پینشن کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کہا گیا کہ ججز کو بھی مراعات وفاقی سیکرٹریوں کے مطابق ملیں گی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ اگر پبلک آفس ہولڈر کی اہلیہ مراعات لے سکتی ہے تو جوابدہی بھی ہوگی۔ اس کے بعد بیرسٹر فروغ نسیم نے گورنمنٹ سرونٹ کنڈکٹ رولز 2005 کا مطالعہ شروع کر دیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال پوچھا کہ یہ تمام رولز سرکاری ملازمین کی مراعات سے متعلق ہیں، ان کا جج کے کیس سے کیا تعلق ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اگر آپ ججز مراعات لیتے ہیں تو جوابدہ بھی ہونا پڑے گا۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال اٹھایا کہ لیکن ریفرنس تو ٹیکس کے سیکشن 116 کی خلاف ورزی کا ہے، اس پر آپ کا کیا کہنا ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں اس پر آگے چل کر پوری معاونت کروں گا۔

سماعت اپنے مقررہ وقت سے 20 منٹ اوپر جا چکی تھی تو فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتہائی اہم سوالات وفاقی حکومت کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کے سامنے رکھتے ہوئے ریمارکس دیے کہ فروغ نسیم ہم سپریم جوڈیشل کونسل کے کام میں مداخلت نہیں کر رہے لیکن آپ ہمیں جواب دیں کہ کیسے یہ ریفرنس بدنیتی سے داغدار نہیں اور معلومات غیر قانونی طور پر جاسوسی کر کے جمع نہیں کی گئیں۔ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ عمر عطا بندیال نے اس موقع پر اہم آبزرویشن دی کہ وہ کہنا نہیں چاہتے لیکن اگر معلومات اکٹھی کرنے کے پیچھے بدنیتی تھی تو پھر اس کا مطلب ریفرنس دائر کرنے کے پیچھے وجہ کوئی اور تھی۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے انتہائی اطمینان سے جواب دیا کہ آپ کا اشارہ فیض آباد دھرنا کیس کی جانب ہوگا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا ہی تھا کہ جسٹس مقبول باقر نے حکومتی قانونی ٹیم پر انتہائی مہلک وار کیا کہ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ 90 کی دہائی میں ایک منتخب حکومت کو ججز کی جاسوسی پر گھر بھیج دیا گیا تھا۔ جسٹس مقبول باقر کا اشارہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی دوسری حکومت کی طرف تھا جن کو گھر بھیجنے کی جو چارج شیٹ اس وقت کے صدر فارق لغاری نے سنائی تھی اس میں ایک الزام ججز کی جاسوسی بھی تھا۔ سماعت کل صبح 10:30 بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
فروغ نسیم ہمیں میاں بیوی کا بائیو لوجیکل ریلیشن شپ سمجھا رہے ہیں: جسٹس قاضی امین
اسد علی طور جون 12, 2020

آج 10 بج کر 35 منٹ پر کورٹ روم نمبر ون میں داخل ہوا تو بیرسٹر فروغ نسیم دلائل شروع کر چکے تھے۔ فروغ نسیم فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ سے اسلام کی رو سے میاں بیوی کے تعلق کی نوعیت کر رہے تھے۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ میاں بیوی کا تعلق اتنا غیر معمولی ہوتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کا لباس بن جاتے ہیں۔ جسٹس قاضی امین نے مداخلت کی کہ آپ ہمیں میاں بیوی کے بائلوجیکل ریلیشن شپ کا سمجھا رہے ہیں اور بہت خطرناک سمت پر جا رہے ہیں۔ مجھے ایک لمحے کو لگا شاید بیرسٹر فروغ نسیم کتاب بہشتی زیور سے اقتباسات پڑھ رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ مسٹر فروغ نسیم آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں، پاکستان میں عورت کو کوئی حقوق حاصل نہیں؟ وہ خودمختار نہیں ہو سکتی یا خود سے اپنے لئے کوئی کما نہیں سکتی نہ ہی جائیداد لے سکتی ہے؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر میں عوامی اعتماد کی بات کر رہا ہوں۔ وہ جج میاں بیوی میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ اس موقع پر دس رکنی فل کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال پوچھا کہ آپ نے کل کہا کہ جج کو سہولیات ملتی ہیں جج کی بیوی ان کو انجوائے کرتی ہے تو آپ کا پوائنٹ ہے کیا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ہم میاں بیوی میں فرق نہیں کر سکتے کیونکہ افتخار چوہدری کیس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس بھی پبلک سرونٹ ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ پبلک سرونٹ ہونے کی بنیاد پر جج بھی قابلِ احتساب ہوگا۔

اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے انتہائی اہم ریمارکس دیے کہ کس نے کہا ہے کہ جج قابل احتساب نہیں ہے؟ ہم صرف کہہ رہے ہیں کہ جج کا احتساب کریں لیکن کسی قانون کے تحت۔ آپ ایف بی آر کا نوٹس جاری کرتے ہیں لیکن اس کی کارروائی مکمل ہونے سے پہلے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کر لیتے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر کا مزید کہنا تھا کہ جج قابلِ احتساب ہے لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ جسٹس مقبول باقر نے بینچ کے دونوں اطراف سر گھما کر اپنے ساتھی ججوں سے اجازت چاہتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میں اپنے ساتھی ججوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ ہم بالکل قابلِ احتساب ہیں اور قانون کے تابع ہیں لیکن احتساب بھی قانون کے دائرے میں ہی ہوگا۔ آپ نے جج کی بیوی سے سوال کیا، انہیں نوٹس بھیجا لیکن پھر سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کر لیا۔ جسٹس مقبول باقر نے اپنے ریمارکس کا اختتام اس جملہ پر کیا کہ آپ ایک ہی مسئلے پر دو کارروائیاں ایک ساتھ نہیں چلا سکتے، اس لئے براہِ مہربانی قانون کے ساتھ ذلت آمیز استعمال مت کریں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے معذرت خواہانہ انداز میں جواب دیا کہ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ ججز خود کو قابلِ احتساب نہیں سمجھتے اور اگر کسی نے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی ہے تو وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کی توجہ گھڑی کی طرف دلاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ نے 15 منٹ گزار دیے ہیں، براہِ مہربانی ذرا توجہ مرکوز کر کے دلائل دیں کیونکہ پھر ہم نے نماز جمعہ کے لئے اٹھ جانا ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں قرآن کے احکامات کی طرف واپس آؤں گا اور اس کا حوالہ فیڈرل شریعت کورٹ کے 2014 اور 2009 کے فیصلوں سے دوں گا اور پھر قانون شہادت کی شق پانچ پڑھوں گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اسلام کہتا ہے کہ میاں، بیوی ایک دوسرے کے بہت قریبی ہوتے ہیں اور اسلام ان پر لازم کرتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی عزت اور مال کا تحفظ کریں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے دستاویز پڑھتے ہوئے سر اٹھا کے کہا، یہ آپ کی دلیل ہے؟ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ اب اس پر میں کیا کہوں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے آبزرویشن دی کہ آپ کی اگر یہ دلیل ہے تو یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں جائے گی کیونکہ قرآن بھی کہتا کہ تم ایک دوسرے کا پردہ رکھو۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر ہم تو صرف ان سے منی ٹریل مانگ رہے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم ایک اور قرآنی حوالہ دینے لگے تو جسٹس عمر بندیال نے سختی سے روک دیا کہ یہ اس بارے میں نہیں ہے جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں اس لئے مت پڑھیے۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ قرآن امانتوں کی بات کرتا ہے، براہِ مہربانی آپ پبلک سرونٹ اور جج کے دفتر پر بات کریں۔ اس موقع پر جسٹس قاضی محمد امین احمد نے اہم سوال پوچھا کہ بیرسٹر فروغ نسیم، کیا آپ اسلام کے یہ اصول غیر مسلم ججوں پر بھی لاگو کریں گے؟ جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ ہماری عدلیہ میں غیر مسلم ججز بھی ہیں جو بہت قابل ہیں اور وہ چاہیں گے مزید غیر مسلم بھی عدلیہ کا حصہ بنیں، لیکن پھر کیا ہم ان کی جوابدہی بھی اسلامی اصولوں پر کریں گے؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر ہم ہندوؤں کی مثال لے لیتے ہیں۔ ان میں تو بیوی ستی ہوتی ہے جو شوہر کے انتقال کی صورت میں ساتھ جلا دی جاتی ہے۔ جسٹس قاضی محمد امین احمد اتنا چونکے کہ بے اختیار ان کی آواز بلند ہو گئی کہ بیرسٹر فروغ نسیم آپ اس غیر انسانی فعل کی حمایت کر رہے ہیں؟ بنچ کے دوسرے ججز بھی بیرسٹر فروغ نسیم کی اس دلیل پر ہکا بکا بیرسٹر فروغ نسیم کا منہ دیکھنے لگے جب کہ کمرہ عدالت میں سب نے سر گھما کر ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھا اور کچھ نے سر پکڑ کر افسوس کے انداز میں سر نفی کے انداز میں ادھر ادھر ہلایا۔

اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے موضوع بدلتے ہوئے سوال پوچھا کہ اگر آپ جج سے سوال کرتے اور وہ جواب دینے سے انکار کرتے تو آپ اس کو ٹیکس قانون کی شق 116 سے نکل کر مس کنڈکٹ بنا لیتے لیکن یہاں تو آ نے جج سے سوال بھی نہیں کیا اور مس کنڈکٹ کا الزام لگا کر ریفرنس بھیج دیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جج منی ٹریل نہیں دیتا تو مس کنڈکٹ ہو گیا۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ پہلے جج کا ان جائیدادوں سے تعلق تو ثابت کریں پھر منی ٹریل مانگیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال اٹھایا کہ کیا آپ بیوی سے تعلق کی بنیاد پر جج سے جواب مانگیں گے؟ جسٹس مقبول باقر نے ہنستے ہوئے لقمہ دیا کہ پاکستان میں اچھی خاصی پڑھی لکھی خواتین کو بھی اپنے شوہر کی دوسری شادی تک کا علم نہیں ہوتا تو دونوں ایک دوسرے کے فعل کے کیسے جوابدہ ہو گئے؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے اب جبرالٹر کے چیف جسٹس کے کیس کا فیصلہ پڑھنا شروع کر دیا جس میں جبرالٹر کے چیف جسٹس کی بیوی جو خود بھی وکیل تھی اور اس نے بار کی توہین کی تو چیف جسٹس کو عہدہ سے فارغ کر دیا گیا کہ وہ اپنی بیوی کے فعل کا ذمہ دار ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ جبرالٹر کے چیف جسٹس کے کیس میں بیوی کا مس کنڈکٹ ثابت شدہ تھا لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں تو بیوی کا مس کنڈکٹ بھی ابھی تک آپ ثابت نہیں کر سکے۔ جسٹس مقبول باقر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو کہا کہ آپ بہت قابل وکیل ہیں اور ہم آپ سے امید رکھتے ہیں کہ دلائل بھی آپ اپنی قابلیت کے معیار کے دیں گے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنی تعریف سن کر خوشی سے جواب دیا کہ سر میں آپ تمام ججز کی بہت عزت اور تکریم کرتا ہوں۔ جسٹس مقبول باقر نے فوراً مسکرا کر طنز کیا کہ پھر مہربانی کر کے ہماری عزت کو ناکام طریقے سے پامال مت کریں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال پوچھا کہ یہ بتائیں مس کنڈکٹ کہاں ہوا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ایک جج کو بیوی کے بار کو نوٹس بھیجنے پر نکال دیا گیا، یہاں تو بیوی کے نام پر ملین پاونڈ کی جائیدادیں ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک بھارتی عدالت کے فیصلے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک بھارتی جج نے بھی اپنے خلاف کارروائی رکوانے کی کوشش کی تھی کیونکہ ان کی جائیدادوں کی بیوی بے نامی دار نکلی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بھارتی جج کے خلاف تحقیقات میں ثابت ہو چکا تھا کہ بیوی بے نامی دار ہے کیا آپ نے اس کیس میں تحقیقات میں ثابت کیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ بے نامی دار ہیں؟

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ پہلے ایف بی آر ثابت تو کر لیتی کہ جج بے نامی دار ہے۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پہلے آپ بیوی کو بے نامی دار ثابت کرتے پھر سپریم جوڈیشل کونسل آتے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر جج سے سوال کا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے اس لئے ان سے کہا کہ آپ ہی پوچھ لیں۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال پوچھا کہ آپ 116 کے ایف بی آر کے نوٹس کی کارروائی مکمل ہونے دیتے ریفرنس دائر کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ مس کنڈکٹ ایک مختلف معاملہ ہے جس کے خلاف کارروائی سپریم جوڈیشل کونسل ہی کر سکتی ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے آبزرویشن دی کہ نہیں، نہیں، ایسا نہیں ہے۔ پہلے ایف بی آر کی کارروائی بنتی تھی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ آپ غیر ظاہر شدہ اثاثوں پر کیا کہیں گے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ہمارا کہنا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آمدن سے خریدے جا سکتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کا وقت ختم ہونے کا کہا تو جسٹس منصور علی شاہ نے فل کورٹ کے سربراہ سے ایک سوال کی اجازت چاہی۔ جسٹس عمر عطا بندیال سے اجازت ملنے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم سے پوچھا کہ آپ نے کہا تھا برطانوی نظام میں آپ آن لائن جا کر کسی بھی شخص کا نام ڈالیں تو جائیداد کی تفصیلات آ جاتی ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے اور میں نے اس کا تحریری خاکہ بھی جمع کروا رکھا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ میں نے وہ دیکھا ہے اور تبھی کہہ رہا ہوں کہ وہ غلط ہے۔ جب تک آپ جائیداد کا پتہ نہیں ڈالیں گے اس کے مالک کا نام نہیں آئے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ کے یہ ریمارکس بہت اہم تھے۔ وہ اشارہ دے رہے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جاسوسی کی گئی ہے اور ان کی نگرانی کر کے ان کے گھر کے ایڈریس معلوم کیے گئے جو کم از کم شکایت کنندہ وحید ڈوگر کے لئے پاکستان میں بیٹھ کر ممکن نہ تھا۔ اس مکالمے کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کو سوموار تک ملتوی کرتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم کو ہدایت دی کہ ہماری عدالتی چھٹیاں سوموار سے شروع ہو رہی ہیں لیکن میرے ساتھی ججز نے بہت مہربانی کی ہے کہ وہ عدالتی چھٹیوں کے دوران وڈیو لنک پر بھی سماعت کے لئے موجود ہوں گے۔ فل کورٹ کے سربراہ عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ ایک دن پہلے اپنے دلائل کی دستاویزات سپریم کورٹ پہنچا دیں تاکہ وہ ججز کو گھر پہنچائی جا سکیں کیونکہ یہ ہمارا یوں سماعت کا پہلا تجربہ ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
قاضی فائز عیسیٰ کیس: پاکستان بھر کی بارز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑی ہیں، ان پر آج تک مالی کرپشن کا الزام نہیں لگا، جسٹس عمر عطا بندیال
اسد علی طور جون 15, 2020

آج سماعت ساڑھے نو بجے شروع ہونی تھی اور سُپریم کورٹ کے ذرائع کل سے کنفرم کررہے تھے کہ کل دو بجے تک کسی جج نے اپنے آبائی شہر کے لیے سفر نہیں کیا تو امکان تھا کہ آج کوئی بھی جج وڈیو لنک پر دستیاب نہیں ہوگا بلکہ سب کمرہ عدالت میں ہوں گے۔

یاد رہے کہ جمعہ کو سماعت کے اختتام کرتے ہوئے جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ اگلی سماعت پر کچھ ججز وڈیو لنک سے سماعت جوائن کریں گے۔ کورٹ روم نمبر ون میں وفاق کے وکیل اور سابق وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم حکومتی وُکلا کے لیے مخصوص نشستوں کی بجائے اکیلے علیحدہ عام شُرکا کے لیے مخصوص نشستوں پر بیٹھے تھے۔ حکومتی بینچوں پر خالد رانجھا ایڈوکیٹ، ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ بیرسٹر شہزاد اکبر اور حکومتی ایم این اے ملیکا بُخاری موجود تھے۔ نو بجکر پینتیس منٹ پر کورٹ آگئی کی آواز لگی اور کمرہ عدالت میں موجود ہر شخص ججز کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔

ذرائع کی خبر درست نکلی دس کے دس جج اسلام آباد میں ہی تھے۔ جسٹس قاضی امین سب سے پہلے اور فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال سب سے آخر میں کمرہِ عدالت میں داخل ہوئے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کے روسٹرم پر آنے سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک کراچی رجسٹری سے وڈیو لنک پر روسٹرم پر کھڑے نظر آرہے تھے۔ اںہوں نے فُل کورٹ سے استدعا کی کہ وہ حکومتی جوابات کا جواب الجواب داخل کرنا چاہتے ہیں، جس کی اجازت کراچی میں عملہ نے نہیں دی۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے آرڈر لکھوا دیا کہ یہ جواب داخل کروائے جاسکتے ہیں۔ اِس کے بعد بیرسٹر فروغ نسیم روسٹرم پر آگئے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مِس کنڈکٹ صرف قانون یا رولز کی خلاف ورزی نہیں بلکہ قوانین کے تحت کام کرنے والی باڈیز کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی بھی مِس کنڈکٹ کہلائے گی۔

بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین صنفی امتیاز نہیں کرتا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ آج کے دور میں جج بہت طاقتور اور بااختیار عہدہ ہے لیکن اتنے اہم عہدہ کا اختیار بھاری ذمہ داری کے ساتھ آتا ہے۔ تریسٹھ ون کے این اور او کو پڑھیے آئین جج یا سرکاری مُلازم میں فرق نہیں کرتا۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے دلیل دی کہ اگر کسی جج کا احتساب کرنا ہو تو ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ، سُپریم جوڈیشل کونسل کے رولز اور آئین کے آرٹیکل دو سو نو میں میاں بیوی کا فرق مناسب نہیں ہوگا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے کہا کہ اِن دلائل کا اِس مُقدمہ سے تعلق بتائیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جب کوئی شخص حکومت یا سرکار کی نوکری کررہا ہو تو اُس کے لیے اپنے اہلخانہ کے نام پر اثاثوں کی وضاحت قابلِ سزا ہوگا اگر اثاثے اُس کی آمدن سے زیادہ ہوں گے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اُنیس سو چھپن، اُنیس سو باسٹھ اور اُنیس سو تہتر کا آئین سب صدرِ پاکستان سے لے کر ہر عہدے کو سروس آف پاکستان میں شُمار کرتے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ آرٹیکل دو سو ساٹھ میں جو کہا گیا آرٹیکل دو سو تریسٹھ میں اُسکی وضاحت کردی گئی ہے کہ اگر کوئی پبلک سرونٹ مِس کنڈکٹ کرے گا تو وہ پبلک آفس ہولڈ کرنے سے نااہل ہوجائے گا۔

اِس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے مُداخلت کی کہ میں آپ کو روکنا نہیں چاہتا تھا کہ لیکن یہ تو آپ کیس ہی نہیں تھا نہ آپ نے اِس پر میٹریل جمع کروایا تھا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ شوکاز جاری ہونے کے بعد ریفرنس چیلنج نہیں ہوسکتا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم سے وضاحت مانگی کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اگر شوکاز نوٹس جاری ہوگیا تو ریفرنس چل پڑا اِس لیے اب روکا نہیں جاسکتا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں بالکل یہی کہہ رہا ہوں۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جب ایک بار ریفرنس کی سماعت شروع ہوگئی تو اِس علمی بحث کے لیے اِسکو سُپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دئیے کہ یہ دیکھنا ہوگا آپ نے صدر کے سامنے کیا مواد رکھا اور کیسے ثابت کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آمدن سے زائد کے اثاثے رکھتے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے آبزرویشن دیا کہ یہ آپ کو جج کے ٹیکس ریٹرن سے ثابت کرنا ہوگا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دو ہزار آٹھ اور نو کے ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں اپنی آمدن اور اخراجات ظاہر کیے لیکن بیرونِ مُلک یہ جائیدادیں ظاہر نہیں کیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنی بات کو مزید سادہ انداز میں بیان کرنے کے لیے مثال دی کہ اگر کوئی امیر آدمی اپنی دولت ظاہر کردے لیکن بعد میں اُسکے کُچھ اضافی اثاثے بھی نکل آئیں تو سوال ہوگا۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال اُٹھایا کہ پہلے یہ تو بتائیں کہ جج نے اِن جائیدادوں کی خریداری کے لیے فنڈنگ کی۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں۔ جسٹس مقبول باقر نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیا کہ میں بھی آپ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن ہم میں بہت بےچینی پائی جاتی ہے برائے مہربانی بتائیں کہ آپ اِس نتیجے پر کیسے پہنچے ہیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اگر میں مہنگی گاڑی استعمال کرتا ہوں اور مہنگی جگہ پر رہتا ہوں تو یہ میرے ٹیکس ریٹرن سے ظاہر ہونا چاہیے اور جب یہ جواب سُپریم جوڈیشل کمیشن کو ٹیکس ریٹرن میں نہیں ملا تو میاں بیوی کے تعلق کی بُنیاد پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے سوال پوچھا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ اگر بیوی کہتی ہے کہ یہ جائیدادیں اُن کو ورثہ میں ملی ہیں یا اُن کی اپنی آمدن کی ہیں تو کیا آپ نے اِس پہلو کو بھی دیکھا ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ جواب شوہر دے دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پہلے یہ تو ثابت کریں کہ بیوی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے زیرِ کفالت ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اگر آپ کا طرزِ زندگی آپ کی آمدن سے مُطابقت نہیں رکھتا تو سروس رولز کے تحت آپ کو اپنے طرزِ زندگی کی وضاحت کرنا ہوگی۔ جسٹس مُنیب اختر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ٹوک کر سروس رولز پڑھنے کا کہا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے سروس رولز پڑھ لیے تو جسٹس منیب اختر نے ریمارکس آبزرویشن دی کہ سروس رولز کے تحت سوال تو تب بنے کا اگر طرزِ زندگی آمدن سے مُطابقت نہ رکھتا ہو اور یہاں یہ کیس نہیں ہے تو اِن سروس رولز کا اطلاق بھی نہیں ہوگا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے نُکتے پر اصرار جاری رکھے کہ سرکاری ملازم اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے آمدن سے زائد اثاثوں کی وضاحت کا پابند ہے۔ جسٹس مُنیب اختر نے سوال اُٹھایا کہ آپ اپنے پورے ریفرنس میں اسٹائل آف لیونگ یعنی طرزِ زندگی کا لفظ پڑھ کر بتائیں اگر وہاں نہیں تو آج آپ کہاں سے یہ لے کر آگئے؟ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ ہم آپ کے الزامات کا جائزہ لینے نہیں بیٹھے ہوئے وہ سُپریم جوڈیشل کونسل دیکھتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ یہ کیسے ثابت ہوا کہ جج کی بیوی کے نام پر ناقابلِ وضاحت اثاثے ہیں؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ ٹیکس ریٹرن سے لگ رہا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اگلا سوال پوچھا کہ یہ ٹیکس ریٹرن سے کہا ظاہر ہورہا ہے؟ اِس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو یاد دلایا کہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس کورائے کیس میں سُپریم کورٹ نے طے کردیا تھا کہ اثاثوں کا معاملہ ایف بی آر دیکھے گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جسٹس مقبول باقر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ جی ہاں میں ہی اُن کا وکیل تھا اور آپ بھی بینچ کا حصہ تھے۔

اب دس رُکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ سے ایک ایسا سوال کیا جس نے کم از کم آج کی سماعت کی بحث کے رُخ کا تعین کردیا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے سوال پوچھا کہ آپ یہ بتائیں آپ کا کیس ہے کیا؟ کیا آپ آمدن کے ذرائع کا پوچھ رہے یا انکم ٹیکس نہ دینے کا الزام لگا رہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر یہاں آمدن کے ذرائع نہیں بتائے جا رہے۔ جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ آپ نے جو بھارتی عدالت کا فیصلہ پڑھا اُس میں جج کے ذاتی اثاثے تھے جو انہوں نے ظاہر نہیں کیے تھے جبکہ یہاں جج کی بیوی کی جائیدادوں کا سوال ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کی طرف سے آمر جنرل ایوب خان کے بنائے گئے اُنیس سو اُنہتر کے سروس رولز کے حوالہ دئیے جانے پر اظہارِ ناپسندیدگی کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ آپ جن سروس رولز اُنیس سو اُنہتر کا حوالہ دے رہے ہیں میں اُن سے خوش نہیں ہوں کیونکہ وہ آئین کے آرٹیکل دس اے سے مُتصادم ہیں۔

اِس موقع پر جسٹس یحیٰ آفریدی نے سوال پوچھا کہ کل آپ کہیں گے کہ تمام ججوں سے ایف بی آر نہیں سُپریم جوڈیشل کونسل پوچھے گی؟ جسٹس یحیٰ آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ اگر معاملہ آمدن کے ذرائع کا ہے تو ایف بی آر کو کارروائی کرنے دیں اور اگر وہاں جج جواب نہ دے سکے تو سُپریم جوڈیشل کونسل چلے جائیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس آفریدی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اگر ایف بی آر کہہ دیتی ہے کہ جائیدادیں بیوی کی ہیں تو آپ کو ہوسکتا ہے سُپریم جوڈیشل کونسل ہی نہ جانا پڑے۔ جسٹس مقبول باقر نے اِس موقع پر سوال کیا کہ یہ تو بتائیں مِس کنڈکٹ کی بُنیاد کیا بنی؟ وفاق کے وکیل نے جواب دیا کہ ڈسپلن کی کارروائی کا دائرہ اختیار ایک الگ سے دائرہ کار ہے جبکہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق ایک سو سولہ اِس ریفرنس کا صرف ایک پہلو ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اصل سوال یہ ہے کہ آمدن کہاں سے آئی کیونکہ بیوی کے ٹیکس ریٹرن اِس پر خاموش ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال اُٹھایا کہ ایف بی آر نے کیا ایک سو سولہ، ایک سو چودہ، ایک سو سترہ اور ایک سو بیس کے نوٹس بھجوائے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ جائیدادوں کی وضاحت کردیتی ہیں تو کیس ختم ہو جائے گا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا جی ہاں بالکل۔ جسٹس منصور علی شاہ فوراً بولے تو بیوی سے پوچھیے نہ آپ جج سے پوچھنے چلے گئے ہیں۔

دس رُکنی فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ جس سوال کا جواب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ایف بی آر میں دے سکتی تھیں آپ نے وہ ڈسپلن کا معاملہ بنا کر ہمارے نو ماہ ضائع کردئیے اور اِس نو ماہ میں جو بے چینی ہم میں پیدا ہوئی اُس کا ہمیں بہت دُکھ ہے۔ اِس موقع پر جسٹس عُمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ جس اُنیس سو اُنہتر کے جنرل ایوب خان کے سروس کا حوالہ دے رہے ہیں وہ آمر کے بنائے قوانین ہیں۔ یعنی کہ جسٹس عُمر عطا بندیال نشاندہی کررہے تھے کہ سُپریم کورٹ کے جج کی وفاداری آئینِ پاکستان کے ساتھ ہوتی ہے نہ کے آئین کے غداروں کے ساتھ اور حکومت ایک آئین شِکن جرنیل کے بنائے قوانین پر ایک آئین پسند جج کو پراسکیوٹ کرنے کی بات کررہی ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اِن قوانین کو آج تک نہ تو سُپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا اور نہ ہی مُنتخب نمائندوں نے کسی آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا موقف تھا کہ اگر یہ قوانین اب بھی موجود ہیں تو اِن کا اطلاق تو ہوگا۔ اِس موقع پر بیرسٹر فروغ نسیم نے ارسلان افتخار کیس میں جسٹس خلجی عارف کا اضافی نوٹ پڑھنا شروع کیا تو جسٹس مُنیب نے سوال پوچھا کہ یہ آپریشنل فیصلہ کا حصہ تھا یا ایک اضافی نوٹ کے طور پر اُن کی ذاتی رائے تھی؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ شاید اضافی نوٹ تھا۔ جسٹس مُنیب اختر نے ریمارکس دیا کہ یہ تکنیکی لحاظ سے اہم ہے اگر یہ فیصلہ کا حصہ نہیں ہے۔ بیرسٹر فرغ نسیم نے جسٹس ریٹائرڈ خلجی عارف کے اضافی نوٹ میں سے پڑھا کہ ججز ڈیوٹی کرتے ہوئے عوام کی نظر میں ہوتے ہوئے اِس لیے اُن کو اور اُن کے اہلخانہ کو پبلک ڈیلنگ میں بہت مُحتاط ہونا چاہیے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نوٹ پڑھتے جارہے تھے جبکہ جسٹس مقبول باقر سے لے کر جسٹس قاضی امین تک دائیں سمت بیٹھے ججز میں سے کوئی بھی نوٹ نہیں پڑھ رہا تھا صرف بیرسٹر فروغ نسیم کو تکتے ہوئے یہ ججز نوٹ صرف سُن رہے تھے۔ اِس موقع پر جسٹس مُنیب اختر اور جسٹس سجاد علی شاہ آپس میں سرگوشیاں بھی کررہے تھے۔ اِسی دوران گھڑی نے دس بجکر اُنسٹھ بجائے تو دربان جاکر ججز کی نشستوں کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے دستاویز پڑھتے ہوئے سر ہلکا سا اُٹھا کر دیکھا تو دربانوں کو کھڑا دیکھ کر خاموش ہوگئے۔ فُل کورٹ کے سربراہ نے جسٹس عُمر عطا بندیال نے بریک کے بعد بقیہ نوٹ سُننے کا کہہ کر سماعت میں آدھے گھنٹے کے وقفے کا اعلان کردیا۔

گیارہ پینتیس دوبارہ کورٹ آگئی کی آواز لگی تو سب سے پہلے جسٹس قاضی مُحمد امین احمد کمرہِ عدالت میں داخل ہوئے اور فُل کورٹ کے سربراہ کے پیچھے سب سے آخر میں جسٹس مقبول باقر داخل ہوئے۔ بریک کے بعد بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک ایڈوکیٹ کراچی رجسٹری سے وڈیو لنک پر روسٹرم پر موجود تھے اور انہوں نے بینچ سے درخواست کی کہ وہ اور اُنکے ساتھی آنے والے دنوں میں اسلام آباد میں کورٹ روم نمبر ون میں موجود ہونا چاہتے ہیں اِس لیے اگر بیرسٹر فروغ نسیم کوئی ٹائم فریم دے دیں کہ وہ کب تک اپنے دلائل مُکمل کریں گے تو وہ اپنے سفر کے انتظامات کرلیں گے۔ مُنیر اے ملک کے بیٹھنے کے بعد بیرسٹر فروغ نسیم نے کینیڈین عدالت کا فیصلہ پڑھنا شروع کردیا اور بتایا کہ عدالت کی طاقت صرف عوام میں ساکھ ہوتی ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اگر ایک جج کے بارے میں شکوک پیدا ہوجائیں اور عوام کا اعتماد مُتزلزل ہوجائے تو جج کو چاہیے کہ وہ رضاکارانہ طور پر عہدہ چھوڑ دے کیونکہ جج کی ساکھ سے پوری عدلیہ داو پر لگ جاتی ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ میں آپ کی آبزرویشن کو مانتا ہوں کہ جج کی ساکھ سے عدلیہ پر سوال آتا ہے لیکن کیا اِس مُقدمہ میں ثبوت کی بات بھی دیکھی جائے گی؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے اب بھارتی عدالت کا فیصلہ نکال لیا کہ بھارت کی عدلیہ نے طے کردیا ہے کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کارروائی کیسے ہوگی۔ جسٹس مقبول باقر نے اختلاف کیا کہ بھارت کی آئینی سکیم میں جج کو ہٹانے کی کارروائی پاکستان سے مُختلف ہے۔ جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ بھارت کا وضع کردہ طریقہ پاکستان میں لاگو نہیں ہوسکتا کیونکہ ہمارے آئین میں طریقہ کار مُختلف ہوتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر کا مزید کہنا تھا کہ آپ مدارس ہائیکورٹ کے جس جج کے کیس کا حوالہ دے رہے ہیں اُس میں جج کی ذاتی جائیدادوں کا مواد سامنے رکھا گیا تھا جو سی بی آئی نکال کر لائی تھی۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے دلیل دی کہ پاکستان اور بھارت کے قوانین کی بُنیادی روح ایک ہی ہے بس کارروائی کا طریقہ کار مُختلف ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اِس موقع پر بھارتی سُپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کا دِلچسپ طریقہ کار بتایا کہ بھارت کے آئین کا آرٹیکل ایک سو چوبیس بتاتا ہے کہ بھارتی سُپریم کورٹ کے جج کو صدر کے حُکم کے بغیر نہیں ہٹا سکتے ہے۔ بھارتی آئین کی روح سے صدر بھی ہٹانے کا حُکم تب دے گا جب بھارت کے دونوں ایوانوں میں اکثریتی ووٹ جج کے خلاف آجائے اور اِس کے لیے دونوں ایوانوں میں ووٹنگ میں کم از کم دو تہائی ارکان حصہ لیں۔ لیکن ووٹنگ تک بات آنے سے قبل بھارت میں بھی ججز کی ایک کمیٹی کے آگے مواد کے ساتھ جج کے خلاف کارروائی کی شکایت درج کروائی جاتی ہے اور وہ کمیٹی جائزہ لے کر اگر الزم ثابت ہو جائے تو جج کے مواخذہ کے لیے معاملہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو بھجواتی ہے جہاں سے مُواخذہ کے بعد بھارت کے صدر کو جج ہٹانے کے لیے فائل بھجوا دی جاتی ہے۔

اِس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ کیا میں ایف بی آر سے اپنی بیوی کے ٹیکس ریٹرن مانگ سکتا ہوں؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ دیکھنے کے لیے مُجھے ریسرچ کرنا پڑے گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کندھے اُچکا کر کہا کہ سادہ سا سوال تھا اگر میں بیوی کے ٹیکس ریٹرن تک ایف بی آر سے نہیں لے سکتا تو اگر مُجھ سے سُپریم جوڈیشل کونسل سوال پوچھتی ہے تو میرا جواب ہوگا کہ میری بیوی خودمُختار ہے اور میں اُس کے ٹیکس گوشواروں تک رسائی نہیں رکھتا تو جواب بھی نہیں دے سکتا۔ اِس موقع پر بیرسٹر فروغ نسیم کے پِچھلی سماعت میں میاں بیوی کی نوعیت پر دیے گئے ریمارکس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہدایت دی کہ برائے مہربانی اب مُجھے کوئی ( سیکسیسٹ) جنس پرست دلیل مت دیجیے گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر مُجھے یہ دیکھنا پڑے گا۔ جسٹس یحیٰ آفریدی نے اپنے ہمسایہ جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس کو بُنیاد بناتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اگر میں اپنی بیوی کے ٹیکس ریٹرن تک ایف بی آر سے نہیں لے سکتا تو پھر میں اپنی اہلیہ کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور معاملہ ختم ہوجائے گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک بار پھر کہا کہ سر میں مُتعلقہ قانون سے دیکھ کر بتاوں گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم کی معاون ٹیم کی طرف اشارہ کیا کہ آپ اپنی ٹیم سے کہیں وہ ابھی دیکھ دیتی ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے ججز کو ٹلتے نہ دیکھ کر پوزیشن اختیار کی کہ سر جواب میں نے دینا ہے ٹیم نے نہیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ممبئی ہائیکورٹ کے جج نے صرف اِس بُنیاد پر استعفیٰ دے دیا تھا کہ اُنہوں نے کُچھ کتابیں لکھی تھیں جن کی رائلٹی ظاہر نہیں کی تھی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی عدالت نے جج کے دفتر کو عوامی اعتماد سے مشروط کیا ہے جبکہ پاکستان نے مُسلمان مُلک ہونے کی وجہ سے مزید اعلیٰ معیار مُقرر کرتے ہوئے اِس کو مُقدس دفتر کا درجہ دیا ہے جو جج پر مزید بڑی اخلاقی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے فُل کورٹ کو بتایا کہ پاکستان میں ججز کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ اگر سُپریم کورٹ کا ایک جج بھی کوئی فیصلہ دے تو عوام کہتی اب تو مُہر لگ گئی کہ یہ بات تھی ہی ایسے۔ اِس موقع پر بیرسٹر فروغ نسیم نے جج کی خودمُختاری کو اُس کی ساکھ سے مشروط کیا جس کے لیے بقول بیرسٹر فروغ نسیم اِس بات کی بہت اہمیت ہے کہ جج اعلیٰ اخلاقی اقدار کی کیا مثال قائم کرتا ہے۔ اب جسٹس منصور علی شاہ نے انتہائی اہم سوال کیا کہ تو آپ کیا مانتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس عدلیہ کی خودمُختاری اور آزادی کا مُقدمہ ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے کمزور آواز میں سر ہلاتے ہوئے کہا جی یہ عدلیہ کی آزادی کا بھی مُقدمہ ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک دم سے دفاعی پوزیشن چھوڑتے ہوئے جوش سے کہا کہ ہمیں جسٹس منصور علی شاہ صاحب آپ پر فخر ہے جب آپ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے تو آپ نے خط لکھ کر رضاکارنہ طور پر اپنے تمام اثاثے ظاہر کرکے جو مثال قائم کی تھی وہ قابلِ تقلید ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنی تعریف تاثرات سے عاری چہرے کے ساتھ سُنی تو فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ جسٹس منصور علی شاہ کے اُس خط پر پوری لاہور ہائیکورٹ کو فخر ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کینڈین عدالت کے فیصلے میں ایک اصطلاح کا پوچھا کہ یہ ایس سی آر ایس کیا ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ پوچھ کر بتاؤں گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ہنستے ہوئے طنز کیا کہ آپ ابھی پوچھ کر بتادیں کیونکہ بعد میں آپ بتاتے نہیں ہوتے۔ اِس موقع پر پورے کمرہِ عدالت میں قہقہ لگا اور بیرسٹر فروغ نسیم شرمندگی سے ہلکے سے جھینپ گئے۔ جسٹس مُنیب اختر نے مُداخلت کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ کو بتایا کہ یہ فرینچ اصطلاح ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم سے اگلا سوال کیا کہ اگر سُپریم جوڈیشل کونسل جج سے اُس کی بیوی کی جائیداد کا سوال کرتی ہے اور جج کہتا ہے کہ میری بیوی خودمُختار ہے اپنی آمدن رکھتی ہے اور میرا اُس کی آمدن اور جائیدادوں سے کوئی تعلق نہیں تو سُپریم جوڈیشل کونسل کِس قانون کے تحت جج پر دباو ڈال سکتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کی پراپرٹی کا جواب دے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سُپریم جوڈیشل کونسل کہہ سکتی ہے کہ جج صاحب آپ اعلیٰ اخلاقی معیار قائم کرتے ہوئے جواب دیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک بار پھر جسٹس منصور علی شاہ کی تعریف کرتے ہوئے جواب کے لیے مُہلت مانگی کہ سر میں آپ کو جواب دوں گا میں آپ پر فخر کرتا ہوں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے طنز کیا کہ آپ جواب دیتے نہیں ہیں ابھی تک ایسٹ ریکوری یونٹ کا جواب بھی نہیں دیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے خفگی چُھپانے کے لیے مُسکراتے ہوئے کہا کہ سر میں کہہ رہا ہوں مُجھے آپ پر فخر ہے آپ پھر بھی مُجھے ایسی باتیں سُنا رہے ہیں۔ اِس پر کمرہِ عدالت میں ایک اور قہقہ لگا اور ججز بھی جسٹس منصور علی شاہ اور بیرسٹر فروغ نسیم میں جاری اِس نوک جھونک پر ہنس دیے۔

اِس موقع پر جسٹس عُمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جج کی نجی زندگی میں اُس کے بیوی بچے بھی آتے ہیں آپ نے ایسا کرکے جج کی نجی زندگی کو بھی مُتاثر کیا ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ بیرسٹر فروغ نسیم آپ نے جبرالٹر کی عدالت کے جس جج کا کیس بیان کیا اُس میں بیوی نے بار کے بارے میں خط لِکھ کر اپنے شوہر کو بھی معاملہ میں فریق بنا لیا تھا جبکہ یہاں ایسا معاملہ نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اِس موقع پر انتہائی اہم ریمارکس دیے کہ اگر جج کی بیوی سے ایف بی آر سوال پوچھتا ہے کہ آپ نے جائیداد کیوں نہیں ظاہر کی اور وہ جواب نہیں بھی دیتی تو ایف بی آر اُن سے جائیداد ظاہر نہ کرنے کا جُرمانہ لے کر بات ختم کردے گا اور ایسی صورت میں بھی کیس جج تک نہیں جاتا۔ جسٹس مںصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جب تک آپ کوئی ایسی منی ٹریل نہیں پیش کرتے کہ اِس جائیدادوں کی خریداری کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رقوم ٹرانسفر کیں آپ جج سے سوال نہیں کرسکتے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم سے سوال پوچھا کہ قانون میں دکھائیں کہ کہاں لکھا ہے کہ اگر بیوی خودمُختار ہے تو بھی جج کے خلاف کاروائی ہوسکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اُٹھایا کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے آپ جعلی اکاونٹس سے کسی جج کے ذات پر کیچڑ اُچھالیں الزامات لگائیں اور کل آکر عدالت میں کہیں کہ جج صاحب آپ کی ساکھ مُتاثر ہوگئی ہے عُہدہ چھوڑ دیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم بولے سر میں اِس بات کا جواب دیتا ہوں ورنہ آپ کہیں گے کہ جواب نہیں دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پھر چوٹ کی کہ یہ پہلا موقع ہے آپ کسی سوال کا جواب دیں گے۔ یہ کہہ کر جسٹس منصور علی شاہ نے مُسکرا کر اپنے بائیں ہاتھ بیٹھے جسٹس یحیٰ آفریدی کی طرف دیکھا جو پہلے سے معنی خیز مُسکراہٹ کے ساتھ بیرسٹر فروغ نسیم کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جھوٹے الزام اور خبر کی کوئی اہمیت نہیں لیکن یہاں جج صاحب کی اہلیہ کے نام جائیدادیں نکلی ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو یہیں سے پکڑ لیا اور ریمارکس دئیے کہ آپ جا کر جج کی اہلیہ سے پوچھ لیں ناں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ جج تو کہہ رہا ہے آپ میری اہلیہ سے پوچھ لیں۔ اِس موقع پر جسٹس یحیٰ آفریدی نے بیرسٹر فروغ نسیم کو کہا کہ آپ یہ بھی بتائیں کہ صدر کے سامنے کیا مُواد رکھا گیا تھا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں سوالات کی فہرست میں یہ سوال نوٹ کرلیتا ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ایک بار پھر طنز کیا کہ اور آپ کے پاس میرے سوالوں کی طویل فہرست بھی موجود ہوگی جن کا جواب بھی ابھی تک آپ نے دینا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اِن ریمارکس کے بعد معنی خیز انداز میں جسٹس یحیٰ کی طرف سر گُھما کر دیکھا تو وہ پہلے سے ہی سراہنے والے انداز میں مُسکراہٹ کے ساتھ کُہنی ٹیبل پر رکھے اپنے گالوں پر ہاتھ ٹکائے جسٹس منصور علی شاہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔

اِس موقع پر فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے سماعت کا اختتام کرتے ہوئے اہم ریمارکس دئیے اُن کا کہنا تھا کہ اگر آپ کا کیس ذرائع آمدن کا ہے تو اِن جنرلائز ٹرمز کے ذریعے ایک جج کو نشانہ مت بنائیے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھر کی وُکلا تنظیمیں آپ کو معلوم ہوگا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اِس لیے کھڑی ہیں کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ذات پر آج تک کسی نے بددیانتی اور مالی کرپشن کا الزام نہیں لگایا۔

جسٹس عُمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آج آپ نے اِس کو آمدن کے ذرائع کا کیس بنا کر انکم ٹیکس لا کی شِق ایک سو سولہ سے فاصلہ اختیار کیا ہے تو پھر جج کہہ رہا ہے آپ میری بیوی سے سوال کریں۔ دس رُکنی فُل کورٹ کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ آپ ہم سے ٹیکس امور پر فیصلہ مانگ رہے ہیں جبکہ آپ نے ابھی تک ایف بی آر کو کارروائی نہیں کرنے دی اور ایف بی آر کے بعد بھی ٹربیونل اور ہائیکورٹ کا فورم ہے وہاں سے بھی رجوع نہیں کیا سیدھا ہمارے پاس آگئے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا لیکن سر شوکاز نوٹس جاری ہوچُکا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ اگر بُنیاد ہی غلط رکھی گئی ہو تو شوکاز کی اہمیت نہیں رہتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اِس موقع پر انتہائی اہم اور سخت آبزرویشن دی کہ اگر ہم جج قابلِ احتساب ہیں تو یاد رکھیے کہ اگر ریفرنس غلط نکلا تو جنہوں نے ریفرنس بنایا پھر اُن کا بھی احتساب ہوگا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے سٹپٹا کر جواب دیا کہ سر جائیدادیں جج کی اہلیہ کی نکلی ہیں لیکن ایسا لگ رہا ہے کٹہرے میں حکومت کھڑی ہے۔

جسٹس عُمر عطا بندیال نے موضوع بدلتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ دوسری طرف نے تئیس دِن دلائل دئیے تھے آپ سے درخواست ہے آپ جتنی جلدی دلائل ختم کرلیں کیونکہ ابھی تک آپ نے پہلے نُکتے پر بھی دلائل نہیں سمیٹے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں دو دِن میں دلائل ختم کرلوں گا جس کے بعد خالد رانجھا اور عرفان قادر دلائل دیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال پوچھا کہ بیرسٹر فروغ نسیم آپ کا حساب کتاب ٹھیک ہے ناں؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ دو دِن میں دلائل مُکمل کرنے ہیں۔ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اپنے ساتھی جج کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ بیرسٹر فروغ نسیم آپ کا ماضی بتاتا ہے کہ آپ دو دِن میں دلائل ختم نہیں کریں گے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ پھر تیسرا دِن دے دیجیے گا اگر دلائل باقی ہوئے تو۔ اِس کے بعد سماعت کل صُبح ساڑھے نو بجے تک مُلتوی کردی گئی۔

کمرہِ عدالت سے باہر نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ بظاہر حکومتی حِکمتِ عملی یہ ہے کہ ججز کے سوالات کے جواب سے پہلے اپنی بات مُکمل کی جائے تاکہ عدالت سے باہر عوامی رائے عامہ ریفرنس کے حق میں ہموار کرکے فُل کورٹ کے ججز پر دباو ڈالا جاسکے۔
 

جاسم محمد

محفلین
قاضی فائز عیسیٰ کیس: کیس ہارتی حکومت کو عدالت نے مشروط نئی لائف لائن دے دی
اسد علی طور جون 16, 2020


آج 9 بج کر 20 منٹ پر کورٹ روم نمبر ون میں موجود تھا۔ 9 بج کر 22 منٹ پر حکومتی ایم این اے اور پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون ملیکا بخاری آ کر ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ بیرسٹر شہزاد اکبر کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ ٹھیک تین منٹ بعد وفاق کے وکیل اور سابق وزیر قانون فروغ نسیم بھی کمرہ عدالت میں داخل ہو گئے۔ کمرہ عدالت میں ہم تین صحافیوں سمیت چند لوگ ہی موجود تھے۔ 9 بج کر 32 منٹ پر دربان ہجوم کی صورت کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور آواز لگی کورٹ آ گئی ہے تو دس ججز اپنے ہاتھ ججز گاؤن کے آگے باندھے آہستہ آہستہ اپنی اپنی نشستوں پر آ کر بیٹھ گئے۔ ججز نے گاؤن کے سامنے ہاتھ شاید اس لئے باندھے ہوتے ہیں کہ گاؤن سامنے سے بند ہی رہے۔ آج صرف جسٹس منصور علی شاہ نے N-95 ماسک پہن رکھا تھا جب کہ باقی ججز سادہ سرجیکل ماسک میں تھے۔ ججز کے بیٹھتے ہی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ بیرسٹر فروغ نسیم آپ آج کن نکات پر دلائل دیں گے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں تین نکتوں پر بات کروں گا: پہلا جج میں عوامی اعتماد، دوسرا کمپنیز لا اور تیسرا جج کو حاصل اختیار کے ساتھ عائد ہوتی بھاری ذمہ داری۔

وفاق کے وکیل اس سے پہلے باقاعدہ دلائل کرتے دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے انتہائی اہم اوپننگ ریمارکس دے کر کم از کم آج تک حکومت کو ایک بہت بڑے ریلیف کی مشروط پیشکش کر دی۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا آپ نے کل ہمیں جو بتایا، اس سے ہم متفق بھی ہیں کہ جج کے عہدہ پر ذمہ داری بھی بڑی ہوگی لیکن منیر اے ملک نے بہت اہم ایشوز اٹھائے تھے، ان کا جواب دیں کہ بدنیتی، غیر قانونی طریقے سے مواد اکٹھا کرنا، جاسوسی اور مواد کی غیر قانونی طریقے سے صدر تک ترسیل۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر آبزرویشن دی کہ شوکاز نوٹس جاری ہونے کے باوجود ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر اس میں کوئی بدنیتی ہے تو یہ ہمارا دائرہ اختیار ہے کہ ہم اس ریفرنس کو سٹرائک ڈاون کر دیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ کے ریفرنس میں صرف ایک بات تسلیم شدہ ہے کہ جائیدادیں موجود ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے دو دفعہ دہرا کر کہا کہ مسٹر فروغ نسیم ہم نے ایک انتہائی چھوٹی اور میں کہہ رہا ہوں انتہائی چھوٹی سی بات نوٹ کی ہے کہ خریداری کے ذرائع کیا تھے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یہ بتانے سے انکاری نہیں ہیں بلکہ صرف وہ کہہ رہے ہیں فورم قانونی ہو جو ایف بی آر ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ آپ کو قانونی طور پر پہلے انکم ٹیکس آرڈیننس کے رول 114 کے تحت نوٹس جاری کر کے جواب طلب کرنا چاہیے تھا لیکن آپ نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا حالانکہ آپ کو جج کے خلاف نہیں جانا چاہیے تھا لیکن آپ پھر بھی گئے۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر حکومت کو وارننگ دیتے ہوئے اپنے طویل ابتدائی ریمارکس کو ان جملوں پر مکمل کیا کہ اگر آپ (بیرسٹر فروغ نسیم، وفاق) اب بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں مقدمہ چلانا چاہتے ہیں تو پہلے یہاں ہمیں جواب دیں اور اس صورت میں ہم فیصلہ دیں گے جس میں بدنیتی پر بھی بات کریں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے چہرے پر معنی خیز تاثرات کے ساتھ سر کو ہلکی ہلکی جنبش دیتے ہوئے بدنیتی کے نکتے پر حکومت کو فل کورٹ کے موڈ سے خبردار کیا کہ آپ بنچ کو دیکھ رہے ہیں، سب نہیں، لیکن پھر بھی کچھ ججز بدنیتی پر بات کریں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال دراصل بیرسٹر فروغ نسیم کو بنچ میں ججز سوالات سے ججز کا موڈ بتا رہے تھے۔ کون کون جج بدنیتی پر زیادہ بات کر رہا ہے تو وہ یقینی طور پر فیصلے میں بھی بدنیتی کو موضوع بنائے گا۔

جسٹس عمر عطا بندیال خاموش ہوئے تو ان کے دائیں ہاتھ بیٹھے ہمسایہ جج جسٹس مقبول باقر نے وارننگ کو مزید سخت کر دیا کہ یاد رکھیے اس کے قانونی نتائج ہوں گے۔ جسٹس فیصل عرب نے وفاق کے وکیل کی پیشکش کو سنجیدگی سے لینے کے لئے ریمارکس دیے کہ میرے سینئیر نے بہت اچھا آپشن دیا ہے۔ تمام ریمارکس دائیں ہاتھ سے ہی آ رہے تھے اور اب دائیں طرف ہی بیٹھے جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کو ایف بی آر جانے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور اگر ایف بی آر کے ذریعے جواب نہ ملے تو آپ سپریم جوڈیشل کونسل سے دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ آپ ذرائع کا جواب نہ ملنے کی صورت میں سپریم جوڈیشل کونسل دوبارہ جا سکتے ہیں کیونکہ ہم بھی نہیں چاہیں گے کہ سپریم کورٹ کا نام خراب ہو۔

اس پیشکش کے دوران جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے دو بار سر گھما کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ جسٹس فیصل عرب نے حکومت کے لئے مزید آسانی پیدا کرنے کے لئے پیشکش کو مزید پرکشش بناتے ہوئے کہا کہ آپ انکم ٹیکس کمشنر لیول کے افسر سے یہ ڈکلیریشن لے لیں کہ وہ جواب سے مطمئن نہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل جا سکتے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے ایک بار پھر پیشکش سے اختلاف کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ میری رائے میں صرف پورا قانونی عمل مکمل کر کے رجوع کیا جائے تو اعتراض نہیں ہوگا۔

دراصل جسٹس مقبول باقر ایک دن پہلے جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس کی طرف اشارہ کر رہے تھے جس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے کل کہا تھا کہ ایف بی آر بھی اگر جج کے اہلخانہ کے خلاف فیصلہ دے تو پھر ٹربیونل میں اپیل کا آپشن ہوگا جس کے بعد ہائی کورٹ میں اپیل کا آپشن ہوگا اور اس کے بعد آپ سپریم کورٹ آ سکتے ہیں تو آج جسٹس مقبول باقر یہی کہہ کر جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس فیصل عرب کی پیشکش سے اختلاف کر رہے تھے کہ صرف انکم ٹیکس کمشنر کے ڈکلیریشن کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل نہیں جایا جا سکتا۔

وفاق کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے ججز کی پیشکش پر سوچ سوچ کر آہستہ آہستہ الفاظ ادا کرتے ہوئے فل کورٹ سے سوال کیا کہ اگر ہم ایف بی آر سے رجوع کرتے ہیں تو کیا آپ ایف بی آر کو پابند بنائیں گے کہ وہ ایک مقررہ مدت میں اپنی کارروائی مکمل کرے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جسٹس مقبول باقر کا نام لیے بغیر کہا کہ بنچ کے کچھ ارکان کو قانونی عمل مکمل نہ ہونے پر اعتراض ہے لیکن ڈسپلن کی کارروائی تو ہونی چاہیے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ڈسپلن کی کارروائی کا انحصار بہت سے پہلوؤں پر ہوتا ہے اور آپ جب تک وہ تمام بنیادیں مکمل نہیں کر لیتے، ڈسپلن کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ جسٹس منصور علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ جج کہہ رہا ہے کہ جائیدادیں اہلیہ کی ہیں تو آپ جج کے خلاف ڈسپلن کی کارروائی نہیں شروع کر سکتے اور بیوی آپ کے ڈسپلن کے دائرہ کار میں نہیں آتی۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اگر ڈسپلن کی کارروائی شروع ہو جائے تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بیوی خود مختار ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں سپریم جوڈیشل کونسل میں جج یہ کہہ کر بری نہیں ہو سکتا کہ جائیدادیں بیوی بچوں کی ہیں، چلیں اچھا نکتہ ہے۔

اس موقع پر فل کورٹ کی پیشکش کی طرف واپس آتے ہوئے جسٹس منیب اختر نے آپشنز کی مزید وضاحت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر سے رجوع کرنے کی صورت میں تین آپشن ہو سکتے ہیں۔ پہلا ایف بی آر کہے کہ وہ اہلیہ کے جواب سے مطمئن ہے، دوسرا ایف بی آر کہے وہ مطمئن نہیں لیکن سپریم جوڈیشل کونسل کہے وہ مطمئن ہے اور تیسرا کہ ایف بی آر اور سپریم جوڈیشل کونسل دونوں مطمئن نہ ہوں تو آپ کو ایف بی آر کو ضرور آزمانا چاہیے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے پھر پوچھا کہ کیا ایف بی آر کو کوئی طے شدہ مدت دی جائے گی کارروائی مکمل کرنے کے لئے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ بالکل، انکم ٹیکس کمشنر معاملہ دیکھے گا کہ ذرائع آمدن کیا تھے، وہ حلال تھے یا دوسرے۔ جسٹس فیصل عرب نے ایک بار پھر ریمارکس دیے کہ اگر کوئی ایسی ویسی بات نکلتی ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل دیکھ لے گی۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر مجھے صدر اور وزیراعظم سے مشورے کی مہلت چاہیے ہوگی۔ فل کورٹ کے 9 ججز کورٹ روم کی لائٹس میں بیٹھے تھے جب کہ جسٹس مقبول باقر پر چھت سے سورج کی روشنی ایک دائرہ کی صورت میں چھلک رہی تھی جس سے وہ بینچ میں سب سے جدا نظر آ رہے تھے۔

جسٹس مقبول باقر نے ایک بار پھر اپنے ساتھی ججز سے اختلاف کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میری اس طریقہ کار پر رائے مختلف ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے جسٹس مقبول باقر کی مسلسل اپوزیشن پر ریمارکس دیے کہ بہرحال وہ فیصلہ تو بنچ میں ججز کی اکثریت کا ہوگا لیکن فروغ نسیم صاحب آپ حکومت سے مشورہ کر کے تو آئیں۔

ججز کی اس پیشکش سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ آپشن یقیناً سماعت شروع ہونے سے قبل چائے پر ججز میں موضوع بحث رہی ہے۔ جسٹس مقبول باقر کی کھلی مخالفت اور بعض ججز کی معنی خیز خاموشی سے معلوم ہوتا تھا کہ بنچ اس پیشکش پر تقسیم ہے لیکن پھر بھی فل کورٹ کے سربراہ نے یہ پیشکش کر دی تھی۔ میں پیشکش سنتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزام لگایا کہ ان کی غیر قانونی جاسوسی کی گئی، غیر قانونی طریقے سے معلومات اکٹھی کی گئیں اور ریفرنس کے پیچھے بدنیتی ہے جو فیض آباد دھرنا کیس کی وجہ سے ہے تو کیا ایف بی آر جانے سے یہ سب الزامات ختم ہو جائیں گے اور اگر ان الزامات میں سچائی بھی ہے تو کیا ایک ایف بی آر سے رجوع کرنے سے حکومت کا ریفرنس جائز ہو جائے گا۔ ریفرنس دائر کرنے والی شخصیات سے منسلک مختلف ذرائع سے کی گئی گفتگو کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کر سکتا ہوں کہ یہ ریفرنس اگر ناکام ہو بھی گیا تو یہ پہلا راؤنڈ ہے۔ ریاست جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک دوسرا راؤنڈ ضرور کھیلے گی جو شاید زیادہ خطرناک ہو۔ ریاست صرف ایک ہی صورت میں پیچھے ہٹ سکتی ہے کہ بدنیتی اور جاسوسی پر کوئی واضح فیصلہ آئے۔

بہرحال سماعت کی طرف واپس آتا ہوں۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جج صاحب کو اپنی اہلیہ کی جائیدادوں کا جواب دینا ہوگا۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال اٹھایا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے بڑا اہم سوال پوچھا تھا کہ اگر شوہر بیوی کے ٹیکس ریٹرن تک رسائی ہی حاصل نہ کر سکتا ہو تو وہ جواب کیسے دے سکتا ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سرکاری ملازم یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری بیوی مجھے نہیں بتا رہی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ اگر بیوی شوہر کو معلومات دینے سے انکار کر دے تو کیا جج پر مس کنڈکٹ کا ریفرنس دائر ہو جائے گا کہ آپ بیوی سے جواب لینے میں ناکام ہو گئے تو مس کنڈکٹ ہو گیا۔ اس ہی گفتگو کے دوران کورٹ روم نمبر ون کے عملہ نے کمرہ عدالت میں موجود شرکا کے لئے مخصوص نشستوں پر موجود جسٹس عمر عطا بندیال کی انٹرن کو بلوایا۔ وہ جسٹس عمر عطا بندیال کے پاس آئیں اور ان سے کچھ پوچھا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے ان کو ہاتھ کے اشارے سے بینچ کے سامنے سٹاف کے لئے مخصوص نشست پر بیٹھ کر کام کرنے کی ہدایت کی اور وہ خاموشی سے عملہ کے ساتھ بلیک لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گئیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جج نے سپریم جوڈیشل کونسل یا فل کورٹ میں جمع کروائے گئے کسی جواب میں نہیں کہا کہ وہ بیوی سے معلومات مانگ رہے ہیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے فیصلے میں کہا گیا کہ اگر آج ایک جج کو اجازت دے دی تو کل ہر کرپٹ سرکاری افسر یہی کہے گا کہ میں اپنے بیوی بچوں کا جواب کیوں دوں، وہ خودمختار ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر یہ سوال پوچھ لے گی نا۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ آپ سپریم جوڈیشل کونسل سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ جج سے وہ سوال بھی پوچھ لیں جو قانون میں موجود نہ ہوں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ اگر جج کہتا ہے کہ وہ جواب دیتا ہے لیکن آپ اگر جج کے ہاتھ پاؤں باندھ کر جواب مانگیں تو کیا ہوگا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اگر جج کہہ دے کہ آپ اس سے بیوی کے اثاثوں کا نہیں پوچھ سکتے تو خطرناک مثال قائم ہوگی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ نہیں، نہیں ایف بی آر پوچھ سکتا ہے۔ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ایف بی آر نے پوچھا تھا۔ جسٹس یحییٰ نے ٹوکا کہ جی نہیں، ایف بی آر کو آپ نے پہلے خط لکھا اور ایف بی آر کا خط بعد میں گیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنی مثال دی کہ میں سینیٹر ہوں اور مجھ سے الیکشن کمیشن میری اہلیہ کے اثاثوں کا سوال پوچھ لے اور میں انکار کر دوں تو وہ مجھے نااہل کر دیں گے۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ کارروائی تحقیقات کے بعد ہی ہوگی۔

جسٹس یحییٰ نے سوال پوچھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں آنے سے پہلے ایف بی آر اور ایسٹ ریکوری یونٹ نے کیسے معلومات کو حاصل کیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ معلومات ہونی تھیں تو ریفرنس کی بنیاد بننا تھی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے بیرسٹر فروغ نسیم کے جواب کو رد کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ تحقیقات صرف سپریم جوڈیشل کونسل کروا سکتی تھی لیکن آپ نے تو خود سے تحقیقات کرنے کے بعد ریفرنس دائر کیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر انتہائی اہم ریمارکس دیے کہ بیرسٹر فروغ نسیم آپ کو اندازہ ہونا چاہیے آپ کے ریفرنس میں نقائص ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ابھی تک ایسٹ ریکوری یونٹ اور دوسرے سوالات کے جواب نہیں دیے۔ بیرسٹر فروغ نسیم پسپا ہوتے ہوئے واپس فل کورٹ کی پیشکش کی طرف آئے اور سوال کیا کہ سر اگر حکومت ایف بی آر جائے تو کتنی مدت طے کی جائے گی کارروائی کے لئے؟ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ دو ماہ کی تو عدالتی چھٹیاں ہیں اس دوران کوئی دوسرا کام نہیں ہونا۔ بہتر ہے آپ ان دو ماہ میں ایف بی آر کی کارروائی مکمل کر لیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اس موقع پر دلچسپ نکتہ اٹھایا کہ افتخار چوہدری کیس میں فیصلہ جسٹس رمدے نے دیا تھا لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم نے اس فیصلے میں جسٹس اعجاز چوہدری کی رائے کو اپنی پیٹیشن کی بنیاد بنایا ہے جس کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل معاملہ تحقیقات کے لئے صدر کو بھیجے اور صدر کابینہ کی منظوری سے تحقیقات کروائے گی۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ سابق چیف جسٹس کی افتخار چوہدری کے کیس میں حقائق مختلف تھے۔ تب ایک ہی روز میں استعفا مانگا گیا اور اسی دن چیف جسٹس کو معطل کر کے قائم مقام چیف جسٹس بھی بنا دیا گیا جس نے سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کا انعقاد بھی کر دیا جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں حقائق مختلف ہیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ مواد موجود تھا تو سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکاز نوٹس جاری کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ ہمیں شوکاز نوٹس سے فرق نہیں پڑتا۔ ہمارا نکتہ یہ ہے کہ کیسے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جج اپنی بیوی کا جواب دے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے جوابات میں ہر چیز پر بات کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ جائیدادیں کہاں سے آئیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے پھر سوال پوچھا کہ بتائیں کس قانون کے تحت جج یہ جواب دینے کا پابند ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اب پوزیشن لی کہ سر یہ آج جو فیصلہ آپ کریں گے یہ آنے والے سالوں کے لئے بھی ہوگا اور ہمیں مستقبل کا بھی سوچنا ہوگا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ صدر کا کردار خود مختار ہے یا وہ مشورے پر عمل کا پابند ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ صدر کو خودمختار ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ ایگزیکٹو کا حصہ بن گیا تو اس کا مصالحت کار کا کردار ختم ہو جائے گا اور وہ اپنی رائے خودمختاری سے نہیں دے سکے گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک ہاتھ دل پر اور دوسرے سے جسٹس منصور علی شاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتہائی عاجزانہ انداز میں کہا کہ سر میرے میں دل میں انتہائی تکلیف ہو رہی ہے یہ کہتے ہوئے کہ آپ جو کہہ رہے وہ آرٹیکل 48 کے خلاف ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کچھ کہنے لگے تو بیرسٹر فروغ نسیم جلدی سے بولے کہ سر مجھے اپنی بات پوری کرنے دیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مسکرا کر جواب دیا کہ میں آپ کو سن رہا ہوں اور نہیں چاہتا آپ کے دل کو مزید کوئی نقصان پہنچے۔ کمرہ عدالت میں قہقہ لگا اور بیرسٹر فروغ نسیم نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا کہ میرے دل کا خیال کرنے کا شکریہ۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ (بیرسٹر فروغ نسیم) کہہ رہے ہیں کہ صدر وزیر اعظم کی بات کا پابند ہے تو آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس مقبول باقر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وضاحت کی کہ آرٹیکل 48 کی شق 1 کہتی ہے کہ اگر صدر مطمئن نہ ہو تو وہ کابینہ کو معاملہ واپس بھجوا سکتا ہے کہ ان سوالوں کا جواب اطمینان بخش دیں اور اگر پھر بھی جواب دیے بغیر معاملہ دوبارہ صدر کو بھیجا جائے تو وہ اپنا ذہن استعمال کر کے اپنی رائے کے ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گا کہ میں مطمئن نہیں ہوں، آپ دیکھ لیں۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صدر خودمختار عہدہ ہے۔

اس کے بعد فل کورٹ نے آدھے گھنٹے کا وقفہ لیتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم کو آپشن دیا کہ آپ فون گھمائیں اور صدر اور وزیراعظم سے ہماری پیشکش پر مشاورت کر لیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے درخواست کی کہ وہ مشورہ کر کے کل صبح عدالت کو آگاہ کریں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ پھر آپ وقفے کے بعد اپنے دلائل جاری رکھیں اور کل ہمیں حکومت کی ہدایت سے آگاہ کر دیجئے گا۔

دلچسپی کی بات ہے کہ جب کا کیس چل رہا ہے کمرہ عدالت میں دو نامعلوم شخصیات موجود ہوتی ہیں جو حکومتی ٹیم کے ساتھ نہیں آتیں اور علیحدہ سے آ کر الگ تھلگ بیٹھ جاتی ہیں۔ وہ کوئی نوٹس نہیں لیتے۔ جیسے ہی عدالتی وقفہ ہوتا ہے وہ باہر بیٹھ کر صحافیوں کی طرح فوراً کیس کی اپ ڈیٹ کہیں بھجوا رہے ہوتے ہیں۔ یہ دونوں اشخاص صحافی بھی نہیں ہیں اور وکیل بھی نہیں۔ آج دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جب عدالتی وقفہ ہوا تو بیرسٹر فروغ نسیم نے وزیر اعظم ہاؤس یا ایوان صدر کو فل کورٹ کی پیشکش سے تو آگاہ کرنا مناسب نہ سمجھا لیکن ان دو اشخاص میں سے ایک کے ساتھ بیٹھ کر کافی دیر سرگوشیوں میں مشاورت کی۔

بریک کے بعد 11:38 پر دوبارہ فل کورٹ بیٹھی تو بیرسٹر فروغ نسیم نے جسٹس اخلاق حیسن کیس کا حوالہ دیا کہ اس میں سپریم جوڈیشل کونسل نے دیکھا کہ غلط ٹیکس ڈکلریشن جمع کروایا گیا تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے جھوٹ یا غلط ڈکلریشن کا معاملہ نہیں ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ پارلیمینٹرینز کو اہلخانہ کے نام اثاثون پر نااہل کیا جا چکا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال کیا کہ کیا آپ اس کیس میں نااہلی مانگ رہے ہیں؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ پانامہ پیپرز رٹ پیٹیش میں یہ اصول طے ہو چکا ہے کہ اگر اثاثے چھپائے گئے تو نااہلی ہوگی۔

جسٹس مقبول باقر نے مسکرا کر طنز کیا کہ آپ سارے اصول وہی لگانا چاہتے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے اس موقع پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میں پوچھ پوچھ کر تھک گیا ہوں کہ ڈسپلن کی کارروائی کس بنیاد پر ہوگی؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اگر سرکاری ملازم جواب نہ دے تو ڈسپلن کی کارروائی ہوگی۔ جسٹس مقبول باقر نے اپنا سوال دہرایا لیکن کس قانون کے تحت؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے پھر جواب دیا کہ اگر سرکاری ملازم ہے تو جواب دینا ہوگا۔ جسٹس مقبول باقر نے جھنجلا کر جواب دیا اچھا رہنے دیں۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے نکتہ اٹھایا کہ جسٹس شوکت علی کیس میں الزامات بہت واضح تھے جو کوڈ آف کنڈکٹ کی شق چھ کے زمرے میں آتے تھے۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اگر جج کمپنی فیملی کے ذریعے چلا رہا ہوگا تو الزامات بہت واضح ہوں گے اور وہاں الزام تھا کہ جج کمپنیوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے بے نامی کا کیس تب ہوگا اگر آپ کوئی ثبوت لائیں گے۔ اس موقع پر بیرسٹر فروغ نسیم نے بنچ کو اقوام متحدہ کے تحت بنگلوز کمیشن کی ججز اور عدلیہ سے متعلق دی گئی سفارشات پڑھ کر سنائیں جس کے تحت برطانیہ سمیت متعدد ممالک نے ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ بنایا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ یہ سفارشات کہتی ہیں کہ جج کا عدالت کے اندر اور باہر کنڈکٹ ایسا ہونا چاہیے جس سے اس پر عوامی اعتماد برقرار رہے۔

اب جسٹس مقبول باقر کے ریمارکس پر جسٹس مقبول باقر اور بیرسٹر فروغ نسیم میں کافی گرما گرم بحث ہوئی۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ آپ اس پر کیا کہیں گے جو مہم جج کے خلاف چلائی گئی؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جج کے خلاف یا میرے خلاف یا میرے ساتھیوں کے خلاف کوئی بھی مہم چلائی گئی تو وہ قابل مذمت ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جذباتی ہو کر کہا کہ سر میرے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو الزام لگائے، بیرسٹر شہزاد اکبر کے خلاف جو زبان استعمال کی وہ بہت تکلیف دہ تھی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ جج صاحب کی جائیدادیں ہیں اور یوں لگ رہا کٹہرے میں ہم کھڑے ہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ آپ سوچیے آپ کو ایسا محسوس ہوا تو جج صاحب کس کیفیت سے گزر رہے ہوں گے پچھلے 9 ماہ سے۔ جسٹس مقبول باقر کا مزید کہنا تھا کہ کوئی اور ہوتا تو اتنے الزامات اور کردار کشی پر گر جاتا لیکن یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ہمت ہے ابھی تک کھڑے ہیں۔ اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے اہم ریمارکس دیے کہ ملک بہت بڑے چیلنجز سے گزر رہا ہے، بڑی بڑی باتیں ہورہی ہیں اور ایسے میں ملک مزید افراتفری اور بحران نہیں برداشت کر سکتا۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے تلخی سے جواب دیا کہ سر سپریم کورٹ کا جج مجھے ٹاؤٹ لکھ رہا ہے، یہ بھی تو دیکھیں۔

جسٹس مقبول باقر نے موضوع بدلتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم سے سوال کیا کہ اگر فرض کریں کسی سرکاری ملازم کی بیوی خود سے کرپشن کر کے کوئی جائیداد بناتی ہے جس سے سرکاری ملازم کا کوئی تعلق نہیں تو کیا ہوگا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میاں بیوی میں یہ فرق نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک اور فرضی صورتحال رکھی کہ بالفرض سپریم جوڈیشل کونسل جج کی بیوی کو طلب کرتی ہے اور وہ کہتی ہیں کہ میں نے سلائی مشین چلا کر پیسے کمائے اور ایک دکان خرید لی تو کیا کہیں گے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ وہ ایسا آ کر کہہ دیں کہ میں نے سلائی مشین چلائی اور یہاں سے پیسہ لندن لے گئی یا بالفرض لندن میں سلائی مشین چلائی اور پیسے کمائے۔

اس موقع پر جسٹس قاضی محمد امین احمد سے نہ رہا گیا اور وہ انتہائی بلند اور گرجدار آواز میں بولے کہ وکیل صاحب ادھر دیکھیں۔ بس بہت ہو گئی۔ آپ ایک جج کے اہلخانہ کے بارے میں ایسے توہین آمیز اور گرے ہوئے فرضی منظر مت دلائل میں لائیں۔ جسٹس قاضی محمد امین احمد کا کہنا تھا کہ آپ کے سامنے واضح جائیدادیں ہیں اور قاضی فائز عیسیٰ کی ٹیم کا دفاع بھی موجود ہے۔ دلائل صرف وہیں تک محدود رکھیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے گھبرا کر جواب دیا کہ سر میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔

اس کے بعد بیرسٹر فروغ نسیم نے کارپوریٹ کپمی لاز نکال لیے کہ اس میں بھی ڈائریکٹر اپنے اہلخانہ کے اثاثے ظاہر کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ کپمنی لاز کے ماہر جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ آپ براہِ مہربانی ہمارے ساتھ ایسے مت کریں۔ یہ بات کمپنی لا کمپنی میں اہلخانہ کے شیئرز ظاہر کرنے کے لئے کہتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس مقبول باقر کمپنی لاز کے ماہر ہیں۔ آپ بتائیں کارپوریٹ باڈی ایکٹ یہاں کیسے لاگو ہوا؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ قانون کہتا ہے کہ بیوی بہت قریبی رشتہ ہوتا ہے، اس لئے بیوی کا سوال شوہر سے پوچھا جا سکتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ براہِ مہربانی ہمارے ساتھ دلائل میں اتنی زیادتی مت کریں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کمپنی لا کی شق پڑھتے ہوئے سوال پوچھا کہ اس میں کہاں لکھا ہے کہ کمپنی ڈائریکٹر اپنی اہلیہ کی جائیدادیں ظاہر کرنے کا پابند ہوگا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ایسا صرف آپ کی تشریح ہے۔ کمپنی لا میں کہیں نہیں موجود۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر یہاں بھی قریبی رشتہ کا اصول لاگو ہوگا۔ اس موقع پر سماعت اپنے اختتام کی طرف بڑھنے لگی تو فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کو پیشکش پر جواب لانے کی ہدایت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ کے پیشکش سے متفق ہونے کی صورت میں ہم منیر اے ملک ایڈووکیٹ سے رائے لیں گے۔ اگر وہ متفق ہوئے تو آرڈر دے کر کیس نمٹا دیں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو کل آپ کو اپنے دلائل ختم کرنے ہوں گے اور کل آپ غیر قانونی طور پر معلومات اکٹھی کرنے، بدنیتی، جج کی جاسوسی اور جو مہم چلائی گئی اس پر دلائل دیں گے اور کل ہی اپنے دلائل ختم کریں گے جس کے بعد آپ کے ساتھی وکلا جمعرات کو روز اپنے دلائل ختم کریں گے اور جمعہ کو ہم منیر اے ملک سے دلائل لے لیں گے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے منت بھرے لہجے میں استدعا کی کہ سر اگر میرے دلائل مکمل نہ ہوں تو مجھے جمعرات کے روز کا پہلا ہاف دے دیں۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کے دلائل رات تک سننے کو تیار ہیں، میرے ساتھی ججوں نے بہت مہربانی کی ہے۔ کوئی چھٹی پر گھر نہیں گیا۔ اس لئے ہر صورت یہ کیس اس ہفتے نمٹا دیں گے۔ اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ہدایت کی کہ جب غیر قانونی طور پر معلومات جمع کرنے پر دلائل دیں تو ایسٹ ریکوری یونٹ کے کردار سے دلائل کا آغاز کریں تاکہ واقعات کے تسلسل سے پورا عمل سمجھ آ سکے۔ اس کے بعد کارروائی کل صبح 9:30 تک ملتوی کر دی گئی۔
 
Top