پاکستان میں کورونا کیسز کی تعداد

جاسم محمد

محفلین
upload-image-5ed3400f36440.png
 

جاسم محمد

محفلین

چند مخصوص شعبے بند رہیں گے بقیہ کھول دیے جائیں گے، وزیراعظم
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
2046655-imrankhan-1591019501-305-640x480.jpg

اوورسیز پاکستانیوں کو جلد اور بڑی تعداد میں وطن واپس لانے کے لیے فلائٹس کی تعداد بڑھانے کا اعلان (فوٹو : فائل)


اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جن شعبہ جات کی وجہ سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ زیادہ ہیں انہیں تاحال بند رکھا جائے گا، قوم ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایس او پیز پر عمل کرے۔

وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے پھیلاؤ کا علم ہوتے ہی محض 26 کیسز پر ہی ہم نے اجلاس طلب کیے اور لاک ڈاؤن کیا، اس وقت تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ آگے کیا حالات ہوں گے، ہم نے ڈاکٹروں سے رائے لی اور عالمی حالات کا جائزہ لیا۔

انہوں نے کہا کہ جب یورپ میں کورونا وائرس پہنچا تو ہم نے دیکھا کہ ہمارت حالات چین اور یورپ کی طرح نہیں، ہمارے ملک میں ان ممالک کے مدمقابل غربت بہت ہے، 5 کروڑ افراد دو وقت کا کھانا نہیں کھاسکتے، ڈھائی کروڑ افراد یومیہ کمانے والے ہیں جو اگر روز نہیں کمائیں گے تو ان کے گھر کا چولہا نہیں جلے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میرے ذہن میں تھا کہ اگر پاکستان میں یورپ جیسا لاک ڈاؤن کیا گیا تو ان غریبوں کا کیا ہوگا؟ لاک ڈاؤن سے وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جاسکتا ہے لیکن یہ اس کا علاج نہیں کیوں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریب بہت متاثر ہوا۔

عمران خان نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے امیر افراد پر اثرات الگ اور کچی آبادی پر الگ طرح سے مرتب ہورہے ہیں، ہمیں وائرس کے پھیلاؤ اور بھوک و افلاس دونوں کو مدنظر رکھنا ہے، صوبوں کے پاس اختیارت ہیں انہیں بھی دیکھنا ہے، پیسے والے کچھ اور کہتے ہیں لیکن غریب طبقہ جو تکلیف میں ہے اس کی آواز سامنے نہیں آرہی، لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں کاروبار کبھی بند نہیں کرتا لیکن مجبوری میں ایسا کیا، جب تک ویکیسن نہیں ملے گا یہ وائرس ختم نہیں ہوگا امیر ترین ممالک سمیت ساری دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ ہمیں اس وائرس کے ساتھ جینا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ وائرس کے ساتھ کامیاب طریقے سے جینے کی ذمہ داری عوام کی ہے، اگر لوگ لاک ڈاؤن کے دوران عام زندگی گزارنے لگیں اور احتیاط چھوڑ دی تو اس کا نقصان عوام کو ہی پہنچے گا، ہم ایس او پیز دے رہے ہیں، جن شعبہ جات میں خطرہ زیادہ ہے انہیں تاحال بند رکھا جائے گا تاہم بقیہ تمام شعبہ جات کھلے رہیں گے جن کی فہرست جلد سامنے آجائے گی، عوام سے اپیل ہے کہ ہمیں ایک ذمہ دار قوم بننا پڑے گا۔

وزیراعظم نے بھارت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مکمل لاک ڈاؤن کیا تو وہاں عوام کا برا حال ہوگیا، کافی لوگ مرگئے انہیں میلوں پیدل چلنا پڑا لیکن پھر بھی وہاں کورونا وائرس پھیلا اور اسپتال بھر گئے اور انہیں معاشی حالات کے باعث ملک کھولنا پڑا، میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ وائرس کے پھیلاؤ اور اموات میں اضافہ ہوگا اس لیے عوام جتنا احتیاط کریں گے ان کے لیے اتنا بہتر ہے۔

ٹائیگر فورس کے متعلق انہوں نے کہا کہ اس فورس کے اب تک 10 لاکھ رضا کار سامنے آچکے ہیں، جلد اس فورس کو استعمال کریں گے کم از کم اس سال وائرس کے ساتھ گزرا کرنا ہے اور ایس او پیز پر مکمل طور پر عمل کرنا ہے تاکہ وائرس نہ پھیلے، میری اٹلی کے وزیراعظم سے آج بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ کورونا وائرس کے مریضوں کی وجہ سے طبی عملے پر کتنا بوجھ ہے، میں اپنے ہیلتھ ورکرز کی خدمات کو سراہتا ہوں۔

انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں سے متعلق اعلان کیا کہ انہیں جلد از جلد اور بڑی تعداد میں وطن واپس پاکستان لایا جائے گا جس کے لیے فلائٹس کی تعداد بڑھائی جائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھائی اب تو سندھ کے ہسپتالوں کی ویڈیوز آرہی ہیں اس میں جو کورونا سے نہیں مر رہا ان کو گلے دبا دبا کر مارا جارہا ہے۔ پیپلز پارٹی سے یہی امید کرتا ہوں میں۔ کہ بھٹو کے علاوہ کوئی زندہ نہ رہے۔
استغفراللّٰہ
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت کہہ رہی کہ اب بھی اموات اور مریض ان کے اندازے سے بہت کم ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ؟؟؟؟
حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ جانیں بچانا زیادہ ضروری ہے یا معیشت۔ اوپر سے آئی ایم ایف نے مزید شرائط لگا کر مصیبت میں ڈالا ہوا ہے۔
upload-image-5eda7dbf0f1a4.png
 
Top