برائے اصلاح

یاسر علی

محفلین
برائے اصلاح وتنقید

نظر تجھ پر ٹھر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی
تو رگ رگ میں اتر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی

کرے دیدار جو اک بار تیرے حسن کا جاناں
وہ بندہ تجھ پہ مر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی

حسیں تو ہیں بہت جاناں مگر تجھ سا نہیں کوئی
فقط تجھ پر نظر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی

نہیں جاتی مری گلیوں سے تیرے لمس کی خوشبو
تو جس دن بھی گزر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی

لطافت حسن میں اتنی مری نظریں نہیں جھکتیں
اگر جاتا ہے سر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی

تجھے دیکھوں چلیں سانسیں کہیں اٹھ کر نہ تو جانا
کہیں میثم نہ مر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی
یاسر علی میثم




و
 
برادرم یاسر، آداب!
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے اور آنجناب عافیت سے.
ماشاء اللہ آپ کی عروضی مشق اچھی معلوم ہوتی ہے، البتہ معنویت کے اعتبار سے بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے.

نظر تجھ پر ٹھر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی
تو رگ رگ میں اتر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی
پہلے مصرعے میں مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے ٹہر کا تلفظ غلط کیا ہے. ٹہر میں ہ اور ر دونوں ساکن ہیں، یعنی اس کو "ٹہ+ر" پڑھتے اور تقطیع کرتے ہیں. اسی وجہ سے ایک تو یہ مصرعہ بحر سے خارج ہورہا ہے، دوسرے یہ کہ قافیہ بھی غلط ہوگیا ہے.
دوسرے مصرعے میں معنوی اعتبار سے مسئلہ یہ ہے کہ "رگ رگ میں اتر جانے" کا تعلق عموما تاثیر سے ہوتا ہے، کشش کے ساتھ نہیں، گویا یہاں ردیف درست طور پر نہیں نبھ رہی.

ویسے میرے خیال میں آپ ردیف کو بھی تبدیل کرنے کے بارے میں سوچیں. موجودہ آہنگ کچھ اتنا فصیح معلوم نہیں ہوتا. کچھ یوں کیا جاسکتا ہے جیسے "کچھ ایسی ہے کشش تجھ میں"

نہیں جاتی مری گلیوں سے تیرے لمس کی خوشبو
تو جس دن بھی گزر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی
یہاں بھی معنوی گڑبڑ ہے. "لمس کی خوشبو" "گلزاری محاورہ" تو ہو سکتا ہے، وگرنہ یہ ایک مہمل بات ہے. پھر خوشبو کا کشش سے کیا تعلق ہے؟؟؟ اس کی وضاحت کا بار بھی آپ کے کاندھوں پر آئے گا، اس لئے بہتر ہے کہ ایک بار نظر ثانی کر لیجئے.


لطافت حسن میں اتنی مری نظریں نہیں جھکتیں
اگر جاتا ہے سر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی
یہاں داستاں کا بہت سا (اہم) حصہ در بطن شاعر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے دونوں مصرعوں میں ربط نہیں بن پا رہا. اس کیفیت کو دولختی کہتے ہیں جو عیوب سخن میں شمار ہوتی ہے.

تجھے دیکھوں چلیں سانسیں کہیں اٹھ کر نہ تو جانا
کہیں میثم نہ مر جائے ہے تجھ میں جاں کشش اتنی
پہلے مصرعے کی بنت بہت کمزور محسوس ہوتی ہے، یقینا اس کہیں بہتر آپ سوچ سکتے ہیں. علاوہ ازیں دوسرے مصرعے میں میثم کے مر جانے سے محبوب کی کشش کا تعلق بھی محل نطر ہے.

آخر میں ایک مشورہ دینا چاہوں گا. طویل ردیف کو درست طور پر نبھانا مشکل کام ہے، اس لئے ابتدائے مشق میں بہتر یہی رہتا ہے ہے کہ مختصر اور آسان ردیف اختیار کیا جائے.

دعاگو،
راحل.
 
آخری تدوین:

یاسر علی

محفلین
راحل بہت بہت شکریہ اپنا قیمتی وقت دینے کا۔
واقعی ردیف طویل تھا جسے نبھانا ذرا مشکل تھا ۔
آئندہ آسان ردیف پر طبع آزمائی کروں گا۔اور آپ نے ہر ہر شعر کو گہرائی سے دیکھا ۔اور اپنی قیمتی آرا پیش کی جس سے مرے ذہین مزید ابواب پیدا ہوئے ہیں۔
شکریہ محترم۔۔
 

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ جان/جاں/جاناں/صنم جیسے الفاظ اکثر بھرتی کے ہوتے ہہں، یعنی یہ الفاظ اگر نکال بھی دیے جائیں تو مفہومِ میں فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے ایسے الفاظ سے پرہیز لازم ہے۔ یہ عموماً فلمی گیتوں میں استعمال ہوتے ہیں، اس لیے بھی اچھے نہیں۔
لمس کی خوشبو کی جگہ جسم کی خوشبو استعمال کریں۔ گلی کوچوں کو مس نہیں کیا جاتا۔
 
پہلے مصرعے میں مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے ٹہر کا تلفظ غلط کیا ہے. ٹہر میں ہ اور ر دونوں ساکن ہیں، یعنی اس کو "ٹہ+ر" پڑھتے اور تقطیع کرتے ہیں. اسی وجہ سے ایک تو یہ مصرعہ بحر سے خارج ہورہا ہے، دوسرے یہ کہ قافیہ بھی غلط ہوگیا ہے.
عزیزم یاسر صاحب، آداب!
ابھی ابھی ہمارے بہت ہی محترم برادر بزرگ اور استاذ جناب ظہیراحمدظہیر نے توجہ دلائی کہ لفظ ٹہر کا درست تلفظ بالفتح ہ ہی ہے. گویا اس بابت میری رائے غلط تھی جس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں.
 
Top