ای سی سی نے اسٹیل مل کے تمام ملازمین کو فارغ کرنے کی منظوری دے دی

مندرجہ بالا سارے بیانیے ٹھیک ہیں لیکن ایک جو بیان نہیں ہوا لیکن ہے وہ اصلی تے سُچا بیان۔

پچھلے دو سال میں جس بھی ریٹائرڈ جرنیل کو سٹیل مل آفر کی گئی اس نے انکار کر دیا۔ خلی ولی
 

جاسم محمد

محفلین
جناب شرم انہی کو دلائی جا سکتی ہے جن میں شرم موجود ہو، جب چراغوں میں تیل ہی نہ ہو تو وہ جلیں گے کیسے ایسے ہی تحریک انصاف کی قیادت میں شرم ائے گی کیسے
حکومت وعدوں پر نہیں مالی وسائل سے چلتی ہے۔ وہ اسٹیل ملز جو ۲۰۱۵ سے بند پڑی ہے اور ۲۰۰۸ سے کئی سو ارب روپے کا خسارہ کر رہی ہے۔ اسے مزید اسی حالت میں رکھنے کا کیا جواز ہے؟ کیا ٹیکس پیئر کا پیسا برباد کرکے اس سفید ہاتھی کو قیامت تک زندہ رکھا جائے؟
 
حکومت وعدوں پر نہیں مالی وسائل سے چلتی ہے۔ وہ اسٹیل ملز جو ۲۰۱۵ سے بند پڑی ہے اور ۲۰۰۸ سے کئی سو ارب روپے کا خسارہ کر رہی ہے۔ اسے مزید اسی حالت میں رکھنے کا کیا جواز ہے؟ کیا ٹیکس پیئر کا پیسا برباد کرکے اس سفید ہاتھی کو قیامت تک زندہ رکھا جائے؟
بہت اچھی بات ہے لیکن حکومت کو ایک حوصلہ اور بھی کرنا چاہیے۔ اچھے الفاظ میں کہے ' ہم نے پچھلی سوچ سے رجوع کر لیا ہے' یا پھر عوامی زبان میں یہ کہ 'پہلے ہم بکواس کرتے تھے'۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
بہت اچھی بات ہے لیکن حکومت کو ایک حوصلہ اور بھی کرنا چاہیے۔ اچھے الفاظ میں کہے ' ہم نے پچھلی سوچ سے رجوع کر لیا یے' یا پھر عوامی زبان میں یہ کہ پہلے ہم بکواس کرتے تھے۔
بالکل ٹھیک۔ البتہ پیشتر عوام ان پڑھ اور جذباتی ہے۔ زمینی حقائق کی بجائے جذباتی وعدوں پر ووٹ دیتی ہے۔ صرف پڑھے لکھے افراد کو ووٹ کا حق ہوتا تاکہ وہ زمینی حقائق کے مطابق قیادت منتخب کر سکتی۔ البتہ بھٹو نے آئین میں ہر پاکستانی کو ووٹ کا حق دے دیا تھا جس کی وجہ سے سیاست حقائق کی بجائے جذبات یعنی جھوٹ کی بنیاد پر ہوتی ہے
 
بالکل ٹھیک۔ البتہ پیشتر عوام ان پڑھ اور جذباتی ہے۔ زمینی حقائق کی بجائے جذباتی وعدوں پر ووٹ دیتی ہے۔ صرف پڑھے لکھے افراد کو ووٹ کا حق ہوتا تاکہ وہ زمینی حقائق کے مطابق قیادت منتخب کر سکتی۔ البتہ بھٹو نے آئین میں ہر پاکستانی کو ووٹ کا حق دے دیا تھا جس کی وجہ سے سیاست حقائق کی بجائے جذبات یعنی جھوٹ کی بنیاد پر ہوتی ہے
میں آپ کے مطالبے کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں بس ایک شرط ہے۔۔۔ ہر قسم کا ٹیکس، محصولات، چارجز حتی کہ پارکنگ اور ٹال ٹیکس بھی پھر صرف ووٹ دینے والوں سے لینا ہے۔
 
پچھلے دو سال میں جس بھی ریٹائرڈ جرنیل کو سٹیل مل آفر کی گئی اس نے انکار کر دیا۔ خلی ولی
آپ احباب نے شاید یہ سمجھا کہ موجودہ حکومت کے ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ بات کہی ہے، لیکن۔۔۔ میرا مراسلہ اس ریکارڈ سے ہٹ کر تھا کیونکہ میرے پاس بالکل ذاتی معلومات تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ احباب نے شاید یہ سمجھا کہ موجودہ حکومت کے ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ بات کہی ہے، لیکن۔۔۔ میرا مراسلہ اس ریکارڈ سے ہٹ کر تھا کیونکہ میرے پاس بالکل ذاتی معلومات تھی۔
پاکستانی جرنیل کوئی جنگ نہ بھی لڑ سکیں البتہ مال کے معاملہ میں بلا کے ذہین ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسٹیل ملز وہ مردہ گھوڑا اور سفید ہاتھی ہے جس میں مزید کھانچے لگانے کی گنجائش تک موجود نہیں ہے
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف نے اسٹیل ملز کو کیوں نہ بحال کیا یا کراچی کے قریب گڈانی کی شپ بریکنگ کو کیوں برباد کیا یا شاہد خاقان عباسی پی آئی اے کو کیوں نہ چلا سکے
فرض کریں کہ آپ کے پاس دس مرلے کا پلاٹ ہے جس پر آپ نے گھر کی تعمیر شروع کررکھی ہے۔ گرے سٹرکچر پر کام جاری ہے، اس مقصد کیلئے کم و بیش پندرہ مزدور، دو عدد راج اور ایک ٹھیکیدار سائٹ پر موجود ہے۔ یہ کنسٹرکشن لیبر ریٹ پر ہورہی ہے، یعنی آپ ان کو روزانہ کی بنیاد پر دیہاڑیاں دے رہے ہیں۔
پھر ایک دن آپ کا ہمسایہ ہ عدالت سے سٹے آرڈر لے آتا ہے کہ یہ پلاٹ اس کی ملکیت ہےاوریہاں تعمیر نہیں ہوسکتی۔ آپ کو فوری طور پر کام بند کرنے کا حکم مل جاتا ہے، مقدمہ عدالت میں چلا جاتا ہے جہاں آپ کو پتہ ہے کہ فیصلہ ہونے میں کئی مہینے، بلکہ کئی سال لگ جائیں گے۔
آپ کو تمام مزدوروں کی روزانہ کی دیہاڑی تقریباً پچاس ہزار روپے میں پڑ رہی ہے۔ آپ کیا کریں گے؟
کیا آپ مزدوروں کو اپنے پلاٹ پر رکھ کر بغیر کام کئے روزانہ پچاس ہزار روپے کی دیہاڑیاں دیتے جائیں گے؟
یا آپ انہیں فوری نوٹس دے کر کام سے فارغ کردیں گے؟

پاکستان سٹیل مل - جس نے اپنی فل استعداد پر پروڈکشن 2005 میں کی تھی اور اس کے بعد پروڈکشن گرتی گئی اور پھر 2015 میں جب تجربہ کار شریف خاندان حکمران ہوا کرتا تھا، سٹیل مل کے تمام پلانٹس بند کردیئے گے۔ عجیب بات یہ تھی کہ اپنی سٹیل ملوں سے اربوں کمانے والا شریف خاندان سرکاری سٹیل مل کو منافع بخش بنانا تو دور، خسارے میں چلانا تو دور، پروڈکشن تک جاری نہ رکھ سکا۔

خیر، سٹیل مل کے ملازمین پچھلے پانچ سال سے بغیر کچھ کئے تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ نہ یہ دفتر جاتے ہیں، نہ ہی پروڈکشن یونٹس پر کام کرتے ہیںِ۔ ہر مہینے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے ہیں اور اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ایسے ملک میں پیدا ہوئے جہاں پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے سیاسی رشوت کے نام پر انہیں سرکاری مل میں نوکری دلوا کر عیاشی کا موقع فراہم کیا۔

ہر مہینے پاکستان سٹیل مل صرف تنخواہوں کے نام پر 35 کروڑ روپے ان ملازمین کو دیتی ہے ، جو کہ سب خسارے میں جاتا ہے اور ان تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے حکومت مزید قرضے لیتی ہے۔ چنانچہ موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 9 ہزار کے قریب ملازمین کو ایک مہینے کے نوٹس پر نوکری سے برخاست کردیا جائے۔

اب آپ میرے اس سوال کا جواب دیں کہ کیا آپ مزدوروں کو فارغ کردیں گے یا نہیں؟
یقینناً آپ فارغ کردیں گے لیکن حکومت ان ملازمین کو صرف فارغ نہیں کررہی بلکہ ہر ایک ملازم کو 23 لاکھ روپے بطور گولڈن شیک ہینڈ ادار کررہی ہے۔ ایک چوتھائی کروڑ روپے سے یہ لوگ اگر چاہیں تو بہت اچھا کاروبار کرسکتے ہیں، اگر ان کے پاس قابلیت ہوئی تو پرائیویٹ سیکٹر میں نوکری بھی کرسکتے ہیں۔

گولڈن شیک ہینڈ کے بعد کم از کم سالانہ خسارے میں کمی آئی گی۔ ایک ہی دفعہ یہ رقم ادا کرکے حکومت اس مستقل بوجھ سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔

لیکن ان سیاستدانوں کا کیا کریں، جن میں ن لیگ، جماعت اسلامی، پی پی اور جے یوآ ئی شامل ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دس ہزار ملازمین کو پچھلے کئی سال سے بغیر کام کاج کئے اربوں روپوں کی تنخواہیں مل رہی ہیں ۔ اور جب حکومت ان تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے قرضہ لیتی ہے تو یہ سیاستدان اس بات پر بھی شور مچاتے ہیں۔

یہی وہ چار جماعتیں ہیں جنہوں نے پچھلے پینتیس برسوں میں اپنے رشتے داروں کو سرکاری نوکریاں دلوائی اور سٹیل مل، پی آئی اے اور ریلوے جیسے قومی اداروں کا بیڑہ غرق کیا۔

اللہ ان تمام سیاستدانوں کا بیڑہ غرق کرے !!! بقلم خود باباکوڈا
 
فرض کریں کہ آپ کے پاس دس مرلے کا پلاٹ ہے جس پر آپ نے گھر کی تعمیر شروع کررکھی ہے۔ گرے سٹرکچر پر کام جاری ہے، اس مقصد کیلئے کم و بیش پندرہ مزدور، دو عدد راج اور ایک ٹھیکیدار سائٹ پر موجود ہے۔ یہ کنسٹرکشن لیبر ریٹ پر ہورہی ہے، یعنی آپ ان کو روزانہ کی بنیاد پر دیہاڑیاں دے رہے ہیں۔
پھر ایک دن آپ کا ہمسایہ ہ عدالت سے سٹے آرڈر لے آتا ہے کہ یہ پلاٹ اس کی ملکیت ہےاوریہاں تعمیر نہیں ہوسکتی۔ آپ کو فوری طور پر کام بند کرنے کا حکم مل جاتا ہے، مقدمہ عدالت میں چلا جاتا ہے جہاں آپ کو پتہ ہے کہ فیصلہ ہونے میں کئی مہینے، بلکہ کئی سال لگ جائیں گے۔
آپ کو تمام مزدوروں کی روزانہ کی دیہاڑی تقریباً پچاس ہزار روپے میں پڑ رہی ہے۔ آپ کیا کریں گے؟
کیا آپ مزدوروں کو اپنے پلاٹ پر رکھ کر بغیر کام کئے روزانہ پچاس ہزار روپے کی دیہاڑیاں دیتے جائیں گے؟
یا آپ انہیں فوری نوٹس دے کر کام سے فارغ کردیں گے؟

پاکستان سٹیل مل - جس نے اپنی فل استعداد پر پروڈکشن 2005 میں کی تھی اور اس کے بعد پروڈکشن گرتی گئی اور پھر 2015 میں جب تجربہ کار شریف خاندان حکمران ہوا کرتا تھا، سٹیل مل کے تمام پلانٹس بند کردیئے گے۔ عجیب بات یہ تھی کہ اپنی سٹیل ملوں سے اربوں کمانے والا شریف خاندان سرکاری سٹیل مل کو منافع بخش بنانا تو دور، خسارے میں چلانا تو دور، پروڈکشن تک جاری نہ رکھ سکا۔

خیر، سٹیل مل کے ملازمین پچھلے پانچ سال سے بغیر کچھ کئے تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ نہ یہ دفتر جاتے ہیں، نہ ہی پروڈکشن یونٹس پر کام کرتے ہیںِ۔ ہر مہینے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے ہیں اور اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ایسے ملک میں پیدا ہوئے جہاں پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے سیاسی رشوت کے نام پر انہیں سرکاری مل میں نوکری دلوا کر عیاشی کا موقع فراہم کیا۔

ہر مہینے پاکستان سٹیل مل صرف تنخواہوں کے نام پر 35 کروڑ روپے ان ملازمین کو دیتی ہے ، جو کہ سب خسارے میں جاتا ہے اور ان تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے حکومت مزید قرضے لیتی ہے۔ چنانچہ موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 9 ہزار کے قریب ملازمین کو ایک مہینے کے نوٹس پر نوکری سے برخاست کردیا جائے۔

اب آپ میرے اس سوال کا جواب دیں کہ کیا آپ مزدوروں کو فارغ کردیں گے یا نہیں؟
یقینناً آپ فارغ کردیں گے لیکن حکومت ان ملازمین کو صرف فارغ نہیں کررہی بلکہ ہر ایک ملازم کو 23 لاکھ روپے بطور گولڈن شیک ہینڈ ادار کررہی ہے۔ ایک چوتھائی کروڑ روپے سے یہ لوگ اگر چاہیں تو بہت اچھا کاروبار کرسکتے ہیں، اگر ان کے پاس قابلیت ہوئی تو پرائیویٹ سیکٹر میں نوکری بھی کرسکتے ہیں۔

گولڈن شیک ہینڈ کے بعد کم از کم سالانہ خسارے میں کمی آئی گی۔ ایک ہی دفعہ یہ رقم ادا کرکے حکومت اس مستقل بوجھ سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔

لیکن ان سیاستدانوں کا کیا کریں، جن میں ن لیگ، جماعت اسلامی، پی پی اور جے یوآ ئی شامل ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دس ہزار ملازمین کو پچھلے کئی سال سے بغیر کام کاج کئے اربوں روپوں کی تنخواہیں مل رہی ہیں ۔ اور جب حکومت ان تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے قرضہ لیتی ہے تو یہ سیاستدان اس بات پر بھی شور مچاتے ہیں۔

یہی وہ چار جماعتیں ہیں جنہوں نے پچھلے پینتیس برسوں میں اپنے رشتے داروں کو سرکاری نوکریاں دلوائی اور سٹیل مل، پی آئی اے اور ریلوے جیسے قومی اداروں کا بیڑہ غرق کیا۔

اللہ ان تمام سیاستدانوں کا بیڑہ غرق کرے !!! بقلم خود باباکوڈا

بابا کوڈا کہانیاں گھڑنے کا ماہر ایک کردار ہے۔


جو دس ہزار مزدور مستری ٹیکنیشن وغیرہ فارغ کیے جارہے ہیں وہ کوئی ان دس بارہ سالوں کے بھرتی ہوئے تو نا ہوں گے۔ سول ملازمین 35, 40 سال تک ملازمت کرتے ہیں، انھی ملازموں میں 60 سے 70 فیصد مل کے ساتھ اک عمر بِتا چکے ہوں گے اور جب مل خوب منافع دیتی تھی تب سے اب تک موجود ہیں۔ مسئلہ ملازموں میں نہیں، ٹاپ مینجمنٹ میں ہے۔
 
Top