حکمت اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ: فوز المبین در رد حرکت زمین ایک سیاسی کتاب ہے نہ کہ مذہبی یا سائنسی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
چوہدری صاحب عقیدت مند تو ہم بھی ہیں، "اللہ کے فضل" سے ایک بریلوی گھرانے میں پیدا ہوا تھا اور بچپن میں جمعے کی نماز کا خاص اہتمام صرف اور صرف اعلیٰ حضرت کے مشہور و معروف و مقبول سلام کو با جماعت پڑھنے کے لیے کیا جاتا تھا۔

لیکن اندھی عقیدت کا کیا کیا جائے؟ ہم اہلِ سنت مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیا و پیغمبر معصوم ہوتے ہیں یعنی غلطی نہیں کر سکتے، اہلِ تشیع اس میں چودہ معصومین کا اور اضافہ کر لیتے ہیں لیکن برصغیر میں تو لگتا ہے کہ ہر مولانا، ہر مولوی، ہر ملا ہی معصوم اور غلطی سے ماورا ہے۔ مجال ہے جو کسی کی غلطی مان لی جائے حالانکہ کسی کی غلطی ثابت ہو جانے سے اس کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مثال کے طور پر ارسطو کے کتنے ہی نظریات غلط ثابت ہو چکے ہیں، وہ تو یہ بھی کہتا تھا کہ عورتوں کے دانت کم ہوتے ہیں، لیکن ان تمام غلطیوں کے باوجود اس کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑا، لیکن یہاں کسی ایک شخص کی غلطی مان لینا گویا پورے اسلام کی توہین کر دینا ہے۔ اعلیٰ حضرت سے اگر کوئی سائنسی غلطی ہو گئی ہے تو اس کو مان لینے سے اعلیٰ حضرت کی عظمت پر کچھ فرق نہیں پڑتا لیکن اس غلطی کے کھوکھلے اور مضحکہ خیز دفاع سے لوگ اپنی اور اپنے ممدوح کی جگ ہنسائی ضرور کرواتے ہیں۔
مجھے آپ کی بات سے رتی بھر بھی اختلاف نہیں ہے۔
ہوتا دراصل یہ ہے کہ کسی سو، دو سو، چار سو سال پہلے کے قابل احترام و عقیدت کی غلطی نکل آئی یا بحث میں دلائل کا رخ کسی اور طرف مڑ گیا اور اس کے عقیدت مند مان کے نہیں دے رہے یا تاویلیں دے رہے ہیں تو جوابی دلیل والے احباب کسی ایک بریکنگ پوائنٹ پر غلطی سائیڈ پر رکھ کر تضحیک، طنز و تشنیع کا رخ اس محترم شخصیت کی ذات کی طرف کر دیتے ہیں۔ جو انتہائی خطرناک رواج بنتا چلا جا رہا ہے۔ علامات قیامت کی صغری نشانیوں میں سے ایک یہ تھی کہ امت کے بعد میں آنے والے لوگ پہلے والے بزرگوں کو برا بھلا کہا کریں گے۔ بدقسمتی سے ہم آہستہ آہستہ اسکا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
آج کی بات کہاں ملا دی۔ جواب نہیں ہے آپ کا۔

آپ ہی نے مطلق سیاست کی بات کی تھی۔ "سیاست" بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی۔ اگر آپ آج کی سیاست کی بات کرتے تو ویسی ہی مثال بھی دیتا۔

کچھ ہو بالادستی برقرار رکھنے کی جدوجہد یعنی سیاست کل بھی بے کثافت جلوہ پیدا میں معاون تھی اور آج بھی ہے۔
 
نه در هرسخن بحث کردن رواست
خطا بر بزرگان گرفتن خطاست

اس کے عقیدت مند مان کے نہیں دے رہے یا تاویلیں دے رہے ہیں
اور یہی الٹا بزرگوں پر انگلیاں اٹھوانے کا موجب بن رہے ہیں۔

احترام میں اس سے، کچھ نہ حرف آئے گا
”بھول کو بزرگوں کی، بھول ہی کہا جائے“
طاہر مدنی
 

فرخ منظور

لائبریرین
آپ ہی نے مطلق سیاست کی بات کی تھی۔ "سیاست" بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی۔ اگر آپ آج کی سیاست کی بات کرتے تو ویسی ہی مثال بھی دیتا۔

کچھ ہو بالادستی برقرار رکھنے کی جدوجہد یعنی سیاست کل بھی بے کثافت جلوہ پیدا میں معاون تھی اور آج بھی ہے۔
ارے بھائی یہ آپ کے اس دھاگے کے حوالے سے کہا ہے۔ آپ ہی نے کہا کہ اعلیٰ حضرت نے یہ سیاسی کتاب لکھی تھی اور یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اعلیٰ حضرت نے کثیف دلائل کے ساتھ یہ سیاسی کتاب لکھی۔ کہاں اعلیٰ حضرت اور کہاں قرون وسطی کے مسلمان۔ یقیناً اندھی عقیدت اور بے وقوفی کی کوئی حد نہیں۔
عمل اپنے کافر اٹھا لے گئے
عقیدت کو ہم سب بچا لے گئے
آپ کے پاس بہت فضول وقت ہے جو بیکار کے دلائل میں الجھے رہتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
وہ جو موسمیات اور گوگل والوں نے 40, 50 کلومیٹر اوپر غبارے کھڑے کر رکھے ہیں وہ کیوں ایک ہی جگہ پر ٹکے رہتے ؟
نیوٹن کے پہلے قانون کے مطابق کائنات کا ہر جسم اپنے inertia پر چلتا ہے۔ اس انیرشیا کی تین اقسام ہیں:
۱۔ ساکن: جب تک کسی جسم پر کوئی بیرونی قوت اثر نہ ڈالے وہ ساکن ہی رہتا ہے
۲۔ متحرک: جب تک کسی متحرک جسم پر کوئی بیرونی قوت اثر نہ ڈالے اس کی رفتار تبدیل نہیں ہو سکتی
۳۔ سمتی: جب تک کسی متحرک جسم پر کوئی بیرونی قوت اثر نہ ڈالے اس کی سمت تبدیل نہیں ہو سکتی

اس اٹل طبیعیاتی قانون کے مطابق زمین کا گردش کرنا اس پر پائے جانے ہر جسم کو ایک جیسا انیرشیا فراہم کرتا ہے۔ یوں جب سیٹلائٹ یا موسمیاتی غبارے کرہ ارض سے باہر نکل جاتے ہیں اور ہوا کی مزاحمت یعنی فکرشن ان پر اپنا اثر نہیں ڈال سکتی۔ تو یہ زمین کی گردش کے ساتھ جیو اسٹیشنری یعنی ایک جگہ ٹکا ہوا مدار حاصل کر لیتے ہیں:
FEB18-DB0-E32-D-4179-A680-C1-D07685-BD6-C.png

Newton's Law Of Inertia (Definition, Examples And Lot's More)
 

سید رافع

محفلین
ارے بھائی یہ آپ کے اس دھاگے کے حوالے سے کہا ہے۔ آپ ہی نے کہا کہ اعلیٰ حضرت نے یہ سیاسی کتاب لکھی تھی اور یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اعلیٰ حضرت نے کثیف دلائل کے ساتھ یہ سیاسی کتاب لکھی۔ کہاں اعلیٰ حضرت اور کہاں قرون وسطی کے مسلمان۔ یقیناً اندھی عقیدت اور بے وقوفی کی کوئی حد نہیں۔
عمل اپنے کافر اٹھا لے گئے
عقیدت کو ہم سب بچا لے گئے
آپ کے پاس بہت فضول وقت ہے جو بیکار کے دلائل میں الجھے رہتے ہیں۔

اندھی عقیدت ! میں زمین کو گھما رہا ہوں اور امام احمد رضا اسے ساکن کر رہے ہیں ! بھائی آپکی مصروفیت کا بھی جواب نہیں۔

میں نے امام احمد رضا رح کے حکمت کے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی اور آپ نے اسے بیوقوفی سے تعبیر کیا۔ آپ نے مطلق سیاست کی بات کی، ظاہر ہے انٹرنیٹ پر آپ کو نہ دیکھ سکتا ہوں نہ براہ راست پوچھ سکتا ہوں تو تحریر کی بنیاد پر ہی جواب لکھوں گا جس کو آپ نے بیکار دلائل میں الجھنا کہا اور اس میں خرچ ہونے والے وقت کو فضول وقت ضایع کرنا کہا۔ حالانکہ آہستہ آہستہ گفتگو کرنا ہی بہتر ہے چاہے اس میں کئی ہفتے لگیں۔ اہم کاموں کو چھوڑ کر گفتگو نہ کریں۔
 

سید رافع

محفلین
کہاں اعلیٰ حضرت اور کہاں قرون وسطی کے مسلمان۔

نہ قرون وسطی کے مسلمان اب واپس آئیں گے اور نہ ہی ایسا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے کہ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ سے قبل تھا۔ اچھی خاصی روشنی ہے۔ اعلی حضرت رح سے بھی کام چل جائے گا۔ ان سے نہ رجوع کریں تب بھی آپکا کام چل جائے گا۔ آپ میں خود ہی سمجھ بوجھ ہے۔ انشاء اللہ آپ سے جنت میں ملاقات ہو گی۔
 

سید رافع

محفلین
موسمیات اور گوگل کے بریلوی انجینئرز نے صرف اعلی حضرت کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کھڑے کیے ہیں۔

اے ایمان والو! ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے عجب نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے ٹھٹھا کریں کچھ بعید نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور ایک دوسرے کو طعنے نہ دو اور نہ ایک دوسرے کے نام دھرو، فسق کے نام لینے ایمان لانے کے بعد بہت برے ہیں، اور جو باز نہ آئیں سو وہی ظالم ہیں۔ سورہ 49- آیت 11
 

سید رافع

محفلین
نه در هرسخن بحث کردن رواست
خطا بر بزرگان گرفتن خطاست


اور یہی الٹا بزرگوں پر انگلیاں اٹھوانے کا موجب بن رہے ہیں۔

احترام میں اس سے، کچھ نہ حرف آئے گا
”بھول کو بزرگوں کی، بھول ہی کہا جائے“
طاہر مدنی

اس پر یہی کہوں گا کہ حکمت کس چیز کا نام ہے اس کی بھی خبر ہونی چاہیے۔ چلیں یہ تو سائنسی کتاب ہے۔ آپ بزرگوں کی غلطی کہہ کر معاملہ ختم کر دیں گے۔ لیکن تکفیر تو خالص فقہ کا مسئلہ ہے۔ حسام الحرمین کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا ہے جیسا کہ اس کتاب فوز المبین کا ہے۔ کفر کو علمائے اسلام نے ہمیشہ بے حد پابندیوں، حدود و قیود اورضروریات دین کے انکار صریح کا پابند کیا ہوا تھا۔ پھر کیا وجہ ہوئی کہ حسام الحرمین جیسی کتاب لکھنے کی نوبت آئی؟ آپ کو بالآخر امام احمد رضا خان رح کی حکمت سمجھنی پڑے گی۔ جس سے سب تشویش صاف ہو جائے گی۔
 

سید رافع

محفلین
چوہدری صاحب عقیدت مند تو ہم بھی ہیں، "اللہ کے فضل" سے ایک بریلوی گھرانے میں پیدا ہوا تھا اور بچپن میں جمعے کی نماز کا خاص اہتمام صرف اور صرف اعلیٰ حضرت کے مشہور و معروف و مقبول سلام کو با جماعت پڑھنے کے لیے کیا جاتا تھا۔

لیکن اندھی عقیدت کا کیا کیا جائے؟ ہم اہلِ سنت مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیا و پیغمبر معصوم ہوتے ہیں یعنی غلطی نہیں کر سکتے، اہلِ تشیع اس میں چودہ معصومین کا اور اضافہ کر لیتے ہیں لیکن برصغیر میں تو لگتا ہے کہ ہر مولانا، ہر مولوی، ہر ملا ہی معصوم اور غلطی سے ماورا ہے۔ مجال ہے جو کسی کی غلطی مان لی جائے حالانکہ کسی کی غلطی ثابت ہو جانے سے اس کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مثال کے طور پر ارسطو کے کتنے ہی نظریات غلط ثابت ہو چکے ہیں، وہ تو یہ بھی کہتا تھا کہ عورتوں کے دانت کم ہوتے ہیں، لیکن ان تمام غلطیوں کے باوجود اس کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑا، لیکن یہاں کسی ایک شخص کی غلطی مان لینا گویا پورے اسلام کی توہین کر دینا ہے۔ اعلیٰ حضرت سے اگر کوئی سائنسی غلطی ہو گئی ہے تو اس کو مان لینے سے اعلیٰ حضرت کی عظمت پر کچھ فرق نہیں پڑتا لیکن اس غلطی کے کھوکھلے اور مضحکہ خیز دفاع سے لوگ اپنی اور اپنے ممدوح کی جگ ہنسائی ضرور کرواتے ہیں۔

قبل اسکے کہ آپ مجھے اندھی عقیدت کے زندان میں بند کریں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ آپکے علم میں ہو گا ہی کہ جیسے شعراء کیفیات میں مبتلا ہوتے ہیں ویسے ہی اللہ کے دوست حال سے ممتاز ہوتے ہیں۔ امام احمد رضا خان کا حال جلال پر مبنی تھا۔ آپ جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام ضرور پڑھتے ہوں گے لیکن امام صاحب وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِين کے حال سے متمسک تھے۔ ان کے ایک ایک کام اور ایک ایک کتاب سے یہ حال چھلکتا ہے۔ چاہے انکی یہ سائنسی کتاب فوز المبین ہو یا فقہ و تکفیر کی کتاب حسام الحرمین ہو۔ جیسے اگر آپ شاعر کو اسکی کیفیت کو سمجھے بغیر تبصرہ کریں گے تو غلطی کھا جائیں گے ویسے ہی اللہ کے دوست کے حال کو سمجھے بغیر آپ انکے کاموں کی حکمت و سبب صحیح طور پر نہیں سمجھ پائیں گے۔

آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں کہ غالب کی ظرافت میں فلسفہ کی کیفیت تلاش کریں گے تو صحیح کیفیت نہ سمجھ پائیں گے۔

یہ مسائلِ تصّوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے ،جو نہ بادہ خوار ہوتا

اور اگر اقبال کی فلسفیانہ کیفیت کی تعبیر ظرافت کی سمت کریں گے تو مضحکہ خیز بات بن جائے گی۔

مَیں نہ عارِف، نہ مُجدِّد، نہ محدث،نہ فقیہ
مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوّت کا مقام

یا پروین شاکر کے پھول اور خوشبو میں تو نہ ہی فلسفہ ملے گا اور نہ ہی ظرافت۔ وہاں تو لطیف جذبات کی کیفیات کا سمندر ہے۔

وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

بالکل اسی طرح امام صاحب کے کاموں کی تعبیر یہ کرنی چاہیے کہ جو ان سے مکر کرتا وہ اسکو اسی کی زبان میں اس سے زیادہ بڑی چال میں لے آتے۔ یعنی وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِين۔ یہ ان برے لوگوں کے فسق کا نتیجہ ہے جو مکر کرتے ہیں کہ ان پر ایک اہل حق کی چال آ پڑتی ہے۔ آپ بے شک آم کا موازنہ سیب سے کریں اور ایک فلسفی محض ارسطو کو اللہ کے دوست سے ملا دیں لیکن یہ بر مبنی عدل کام نہ ہو گا۔ تجزیہ غلط ہو گا اور مایوسی آپ ہی کے اندر بڑھے گی۔ ظاہر ہے کہ آپ کو پورا حق ہے کہ اس دلیل کو یہ کہہ کر رد کر دیں کہ یہ اندھی تقلید اور برصغیر کے ہر مولانا، ہر مولوی، ہر ملا کو معصوم اور غلطی سے ماورا بتلانا ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک نہایت لطیف بات ہے۔ مان لیں تو آپ کا فائدہ نہ مانیں تو آپ کا ہی خسارہ ہے۔

جہاں تک ممدوح کی جگ ہنسائی کی بات ہے تو آپ ذرا لندن و برلن و واشنگٹن کی کسی محفل میں معراج اور براق کا تذکرہ کر کے دیکھ لیجیے گا اور اپنا حشر بھی ملاحظہ فرمایے گا۔ اس راہ میں جگ ہنسائی کی کوئی وقت نہیں۔ قرآن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ کو مجنون تک کہا گیا۔ تو میں اور آپ اور امام احمد رضا خان رح اس سے کیونکر بچ سکتے ہیں؟ اصل بات آپ کی نیت ہے۔ آپ کے دل میں کیا ہے۔ صحیح ہے تو کہیں۔

اہلِ تشیع اس میں چودہ معصومین کا اور اضافہ صحیح کرتے ہیں۔ آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہے؟ شاید اہل سنت کی اندھی عقیدت بعض کے آڑے آئے لیکن قرآن کی کل آیات کا بھی تو کوئی عامل ہونا چاہیے؟ اہل سنت کے تمام روحانی سلسلے جناب علی کرم اللہ وجہ سے ہوتے ہوئے رسول اللہ ﷺ تک پہنچتے ہیں۔ معصوم ہونے کا وہ مطلب نہیں جو عوام کے ذہن میں ہوتا ہے۔ آپ یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں اور ذہن میں رکھیں کہ رسول اللہ ﷺ معصوم ہیں۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا استغفار کا معمول بیان فرمایا:” والله انی لأستغفرالله واتوب إلیہ فی الیوم أکثر من سبعین مرّة․ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الدعوات، باب استغفار النبی صلی الله علیہ وسلم فی الیوم واللیلة، رقم الحدیث:6307)

الله کی قسم میں دن میں ستر بار سے زیادہ الله تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
چوہدری صاحب عقیدت مند تو ہم بھی ہیں، "اللہ کے فضل" سے ایک بریلوی گھرانے میں پیدا ہوا تھا اور بچپن میں جمعے کی نماز کا خاص اہتمام صرف اور صرف اعلیٰ حضرت کے مشہور و معروف و مقبول سلام کو با جماعت پڑھنے کے لیے کیا جاتا تھا۔

لیکن اندھی عقیدت کا کیا کیا جائے؟ ہم اہلِ سنت مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیا و پیغمبر معصوم ہوتے ہیں یعنی غلطی نہیں کر سکتے، اہلِ تشیع اس میں چودہ معصومین کا اور اضافہ کر لیتے ہیں لیکن برصغیر میں تو لگتا ہے کہ ہر مولانا، ہر مولوی، ہر ملا ہی معصوم اور غلطی سے ماورا ہے۔ مجال ہے جو کسی کی غلطی مان لی جائے حالانکہ کسی کی غلطی ثابت ہو جانے سے اس کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مثال کے طور پر ارسطو کے کتنے ہی نظریات غلط ثابت ہو چکے ہیں، وہ تو یہ بھی کہتا تھا کہ عورتوں کے دانت کم ہوتے ہیں، لیکن ان تمام غلطیوں کے باوجود اس کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑا، لیکن یہاں کسی ایک شخص کی غلطی مان لینا گویا پورے اسلام کی توہین کر دینا ہے۔ اعلیٰ حضرت سے اگر کوئی سائنسی غلطی ہو گئی ہے تو اس کو مان لینے سے اعلیٰ حضرت کی عظمت پر کچھ فرق نہیں پڑتا لیکن اس غلطی کے کھوکھلے اور مضحکہ خیز دفاع سے لوگ اپنی اور اپنے ممدوح کی جگ ہنسائی ضرور کرواتے ہیں۔

مجھے آپ کی بات سے رتی بھر بھی اختلاف نہیں ہے۔
ہوتا دراصل یہ ہے کہ کسی سو، دو سو، چار سو سال پہلے کے قابل احترام و عقیدت کی غلطی نکل آئی یا بحث میں دلائل کا رخ کسی اور طرف مڑ گیا اور اس کے عقیدت مند مان کے نہیں دے رہے یا تاویلیں دے رہے ہیں تو جوابی دلیل والے احباب کسی ایک بریکنگ پوائنٹ پر غلطی سائیڈ پر رکھ کر تضحیک، طنز و تشنیع کا رخ اس محترم شخصیت کی ذات کی طرف کر دیتے ہیں۔ جو انتہائی خطرناک رواج بنتا چلا جا رہا ہے۔ علامات قیامت کی صغری نشانیوں میں سے ایک یہ تھی کہ امت کے بعد میں آنے والے لوگ پہلے والے بزرگوں کو برا بھلا کہا کریں گے۔ بدقسمتی سے ہم آہستہ آہستہ اسکا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
اگر احمد رضا خان کوپرنیکس کے ہم عصر ہوتے تو بات اور تھی۔ اس کے چار سو برس بعد جب اس موضوع پر اجماع ہو چکا تھا ایسی کتاب لکھنا تو کافی عجیب بات ہے اور ان کے علم کو کافی شک میں ڈالتی ہے خاص طور پر سائنسی میدان میں جبکہ ان کا اور ان کے عقیدتمندوں کا دعوی ہے کہ وہ ہر علم میں یکتا تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس کے چار سو برس بعد جب اس موضوع پر اجماع ہو چکا تھا ایسی کتاب لکھنا تو کافی عجیب بات ہے
بالکل بھی عجیب بات نہیں ہے۔ جب آپ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ قرآنی آیات سے زمین کا گھومنا ثابت کیا جا سکتا ہے، تو پھر اگر کوئی عالم دین اس کے برعکس انہی قرآنی آیات سے ثابت کر دیتا ہے تو اسے بھی ماننا پڑا گے۔ تب آپ جدید مغربی سائنس کا حوالہ دے کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ صحیح وہی ہے جو سائنس کہہ رہی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ کتاب دراصل علی گڑھ کی سائنس نما مذہبی تحریک پر ایک سیاسی بند تھا
مذہبی تحریک ، سیاسی بند ۔ اور زیر عتاب آئے بیچارے اجرام فلک ، وہ بھی سو دلائل کےبوجھ تلے ۔۔۔۔
اگر چہ اب یہ بحث اتنی اہم نہیں رہی کہ حرکت اور سکون کے معانی یکسر بدل چکے ہیں ۔ لیکن ڈاکٹر اقبال کو اسلامی افکار کی تشکیل نو کی فکر بھی اسی زمانے میں درست لاحق ہوئی تھی ۔ (تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند)
لیکن لگتا ہے ہمیں مزید سو سال اور چاہیئں ۔
علی حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ نے واضح سائنسی انکشافات کا انکار کر کےایک مسلمانوں میں مباحثے کی فضاء پیدا کرکے مسلمان کے ایمان بچانے میں کھلی کامیابی حاصل کی
سوال یہ ہے کہ اس کتاب کے دلائل نے اسلام کو کیا دیا اور ایمان کو کیسے بچایا ؟
 
اندھی عقیدت ! میں زمین کو گھما رہا ہوں اور امام احمد رضا اسے ساکن کر رہے ہیں ! بھائی آپکی مصروفیت کا بھی جواب نہیں۔

میں نے امام احمد رضا رح کے حکمت کے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی اور آپ نے اسے بیوقوفی سے تعبیر کیا۔ آپ نے مطلق سیاست کی بات کی، ظاہر ہے انٹرنیٹ پر آپ کو نہ دیکھ سکتا ہوں نہ براہ راست پوچھ سکتا ہوں تو تحریر کی بنیاد پر ہی جواب لکھوں گا جس کو آپ نے بیکار دلائل میں الجھنا کہا اور اس میں خرچ ہونے والے وقت کو فضول وقت ضایع کرنا کہا۔ حالانکہ آہستہ آہستہ گفتگو کرنا ہی بہتر ہے چاہے اس میں کئی ہفتے لگیں۔ اہم کاموں کو چھوڑ کر گفتگو نہ کریں۔
سید صاحب، گو حکمت والی بات مکمل ہضم نہیں ہو پارہی اور شاید اس میں بھی زیادہ قصور میرے ناقص انداز فکر و سوچ کا یے، کہ معاملات کو اس پہلو پر کم ہی پرکھا۔ لیکن ایک بات وثوق سے کہوں گا کہ بہت عرصے بعد سوشل میڈیا پر کسی کو انتہائی مدلل گفتگو کرتے پایاہے۔ یقیناً آپ کو اپنا خیال اور فکر خوبصورت انداز میں بیان کرنے کا ہنر آتا ہے۔ ماشاءاللہ۔
 
اگر احمد رضا خان کوپرنیکس کے ہم عصر ہوتے تو بات اور تھی۔ اس کے چار سو برس بعد جب اس موضوع پر اجماع ہو چکا تھا ایسی کتاب لکھنا تو کافی عجیب بات ہے اور ان کے علم کو کافی شک میں ڈالتی ہے خاص طور پر سائنسی میدان میں جبکہ ان کا اور ان کے عقیدتمندوں کا دعوی ہے کہ وہ ہر علم میں یکتا تھے۔
زیک، کیا ہم یہ طے کر چکے کہ اس زمانے میں کوپرنیکس کے نظریات پر ہندوستان میں بھی اجماع ہو چکا تھا! اور یہ کہ ہمارے پاس اس زمانے کے کسی اور ہندوستانی ماہر فلکیات یا ریاضی دان کی اس موضوع پر کوئی علمی رائے موجود ہے ؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر احمد رضا خان کوپرنیکس کے ہم عصر ہوتے تو بات اور تھی۔ اس کے چار سو برس بعد جب اس موضوع پر اجماع ہو چکا تھا ایسی کتاب لکھنا تو کافی عجیب بات ہے اور ان کے علم کو کافی شک میں ڈالتی ہے خاص طور پر سائنسی میدان میں جبکہ ان کا اور ان کے عقیدتمندوں کا دعوی ہے کہ وہ ہر علم میں یکتا تھے۔
زیک، کیا ہم یہ طے کر چکے کہ اس زمانے میں کوپرنیکس کے نظریات پر ہندوستان میں بھی اجماع ہو چکا تھا! اور یہ کہ ہمارے پاس اس زمانے کے کسی اور ہندوستانی ماہر فلکیات یا ریاضی دان کی اس موضوع پر کوئی علمی رائے موجود ہے ؟
بر سبیل تذکرہ ۔
پندرھویں صدی کے کوپرنیکس کا نویں صدی کے البطانی اور تیرھویں صدی کے طوسی علماء سے "استفادہ" ۔
پروفیسر جارج کہتے ہیں کہ کوپرنیکس کے پاس ان کتب کی اشکال میسر تھیں جس سے اس نے اپنی ذہانت سے نتائج اخذ کیے ۔
اس مراسلے کو دوستانہ سمجھا جائے کوئی اور مقصد نہیں البطانی ہو یا کوپر نیکس سب اللہ کے بندے تھے بھئی ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top