پیارےآصف فرخی : کوئی یوں مرتا ہے

محمداحمد

لائبریرین
محمد حمید شاہد کی تحریر:

پیارےآصف فرخی : کوئی یوں مرتا ہے —- محمد حمید شاہد

جب اندر بیٹھا پڑھتے لکھتے اکتا گیا تو کچھ دیر کے لیے یاسمین اور بچوں کے ساتھ باہر گیٹ پر اس پہاڑ ی نما پلاٹ کو دیکھنے کھڑاگیا تھاجسے بڑی بڑی مشینوں سے ہموار کیا جا رہا تھا۔ زمین سخت تھی، محض سخت نہیں سنگلاخ، دن بھر ایک قوی ہیکل مشین اپنی نوکدار چونچ سے پتھروں کو یوں ٹھونگتی رہی تھی جیسے ہد ہد درختوں کے تنے ٹھونگتا ہے، پتھریلی زمین کے ٹوٹ ٹوٹ کر علیحدہ ہونے والے ٹکڑے اسی مشین نے یہاں وہاں دھکیل گھسیٹ کر ایک جگہ ڈھیر کردیے تھے۔ پھر وہاں ایک اور مشین آگئی تھی، پہلی جتنی بڑی۔ یہ پتھر توڑتی نہیں، ٹوٹ چکے پتھروں کی ڈھیریوں کو جناتی مٹھی میں بھر بھر اٹھاتی اور ٹریکٹر کے پیچھے بندھی ٹرالی میں ڈالے جاتی تھی، کہیں اور لے جانے کے لیے۔ ٹریکٹر ٹرالی کے کئی پھیرے لگ چکے تھے۔ میں شاید وہی پھیرے گن رہا تھا کہ میری بہو بیٹی اندر سے میرا فون اٹھائے “بابا، بابا “کہتی باہر آئی، کہنے لگی۔ آپ کا فون کب کا بجتے بجتے خاموش ہو گیا ہے۔

میں نے فون تھام لیا، جھانک کر دیکھا۔ سرخ ہو چکے وہاں کئی نام تھے۔ دو سب سے اوپر تھے کشور ناہید اور نجیبہ عارف۔

کشور ناہید سے دن میں تین چار بار بات ہو چکی تھی۔ ایک کتاب کی پی ڈی ایف کا تبادلہ ہوا تھا۔ نجیبہ کا فون کئی دنوں کے بعد آیا تھا، سوچا کشورممکن ہے کتاب کے حوالے سے بات کرنا چاہ رہی ہوں، کھڑے کھڑے نجیبہ کی بات سن کر انہیں فون کرتا ہوں اورمفصل بات کریں گے اور نجیبہ کا نمبر ملالیا۔ نجیبہ نے لگ بھگ روتےہوئے پوچھا تھا۔

“پتہ چلا؟”

میں بوکھلا گیا، یاالہی یہ کیا ماجرا ہے۔ پوچھا۔

“کیا؟”۔

“ہائے اللہ۔ ۔ ۔ آصف فرخی”

کیا ہوا آصف کو؟ ”

پتہ نہیں اس کے بعد نجیبہ نے کیا کہا تھامجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا، جیسے “ٹھک ٹھک “ہو رہی تھی میرے اندر اور سب کچھ ریزہ ریزہ ہو رہا تھا اور وہیں ڈھیر ہو رہا تھا۔ میں وہیں بیٹھ گیا۔

کشور ناہید سے بات ہوئی تو ہم دونوں کی چیخیں نکل گئیں، میں فون کے اس طرف تھا وہ فون کے اس طرف۔ یاسمین اور بچے مجھے دلاسا دینے پاس آئے اور پھر یوں اداس ہو کر چپ چاپ بیٹھ گئے تھے جیسے ہم سب کا اپنا کوئی یہیں پاس سے اٹھ کر اچانک چلا گیا تھا، ہمیشہ کے لیے، اور جہاں سے وہ اٹھ کر گیا تھا وہاں ایک خلا کا سناٹا گونج رہا تھا۔

فون مسلسل بج رہا تھا۔ سب مجھے پرسہ دے رہے تھے۔ ڈاکٹر اقبال آفاقی، عابدہ تقی، ڈاکٹر زاہد چغتائی، رحمن عباس، امر شاہد اور اور بہت سارے۔ ۔ ۔ ناصر عباس نیر تو بات کرتے کرتے رو دیے تھے۔ آصف سے ہماری آخری ملاقات ایک ساتھ کراچی میں ہوئی تھی۔ ہم کراچی لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کے لیے وہاں تھے۔ آصف اس فیسٹول کے بانیوں میں تھے مگر جس طرح الگ ہو ئے تھے یہاں کسی پروگرام میں ملاقات ممکن نہ تھی۔ آصف کا فون آگیا۔ ملاقات طے پاگئی۔ افضال احمد سیداور تنویرانجم نے ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھایا اپنے گھر لے گئے۔ وہیں آصف منتظر تھے، وہاں سے نکلے توکھانا کھانے نکل گئے خوب گپ شپ رہی، ہماری گپ شپ بھی کیا تھا کیا لکھا جارہا ہے، کیا پڑھا جا رہا ہے کچھ تخلیق کے بھید بھنور، کچھ تنقید کے پینترے، اور رات گئے ہوٹل واپسی ہوئی تھی۔

ناصر عباس نیر کا فون آیا تو ایک ایک بات یاد آگئی تھی۔ جب ہم وہاں جدا ہونے لگے تو آصف نے کہا تھا:
“یہ ہمارا مل بیٹھنا ہی ہمارا فیسٹول ہے۔ ”

ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پیغامات کا الگ سے سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ سب مجھے پرسہ دے رہے تھے۔ مجھے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا تھا۔ مجھے بھی کندھا چاہیے تھا جس پر سر رکھ کر رو سکوں۔ احمد شاہ کو فون کیا۔

” سچ سچ بتائیں ہوا کیا تھا۔ ”

“کیا ہونا تھا، بس چلا گیا، مرگیا ہمارا یار آصف فرخی۔ اور کیا بتائوں۔ چلا گیا۔ ”

جیسے احمد شاہ خود نہیں بول رہے تھے، ان کا دکھ بول رہا تھا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید نے کہا ؛

“شدید دل کا دورہ پڑا۔ بخار سے پہلے ہی کمزور پڑ گئے تھے۔ سنبھل نہ سکے۔ لاش یہاں ہسپتال کے سرد خانے میں رکھوا دی ہے جنازہ کل ہوگا کراچی یونیورسٹی میں۔ ”

وہ بولتے چلے گئے، جیسے وہ بھی خود نہیں بول رہے تھے۔

انور سن رائے، افضال احمدسید، تنویر انجم ایک ایک کرکے سب سے بات کی۔ سب دکھ سے کناروں تک بھرے ہوئے تھے، بات کرتے ہی جیسےچھلکنے لگے تھے۔

انتظار حسین مر گئے تو آصف جنازے میں شریک ہونے کے لیے کراچی سے فلائٹ لے کے لاہور پہنچے تھ۔ ادھر اسلام آباد سے میں اور کشور ناہید وہاں پہنچے توآصف پہلے سےپہنچ گئے تھے۔ مجھے دیکھا، لپک کر آئے اور میرے گلے لگ کر یوں دھاڑیں مار مار کر روئے کہ میرے دل کا بوجھ بھی اتر گیا تھا۔ مجھے اپنے دل کا بوجھ اتارنا تھا کسی سے گلے لگ کر اور اُسی طرح دھاڑیں مار کر رونا تھاجیسے آصف اور میں انتظار حسین کی موت پرروئے تھے۔

“آصف فرخی تو آپ کو زندگی کی طرف لائے تھے۔ اب آپ کیا کریں گے۔ کر بھی کیا سکتے ہیں، رونے اور دعا کرنے کے علاوہ۔ ”

جب میں رونے کے لیے کوئی کندھا تلاش کر رہا تھا مجھ اپنے سیل پر شاہد اعوان کا یہ میسج ملاتھا۔

میں نے آصف کے اس احسان کا ذکر اپنی کسی گفتگو میں کیا تھا، جی، ایک سوال کے جواب میں، جب مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ وبا کے دنوں میں، میں نے کیا لکھا۔ تالا بندی کے ابتدائی دنوں میں مجھ پر ڈپریشن کے دورے پڑے تو لکھنا پڑھنا سب چھوٹ گیا تھا۔ تب آصف کا فون آیا تھا۔ کہا:

” پڑھنا لکھنا نہیں چھوڑنا۔ لکھیں اور مجھے بھیج دیں ارادہ ہے دنیا زاد کا وبا اور ادب کے حوالے سے خاص شمارہ مرتب کروں۔ ”

اس فون کے بعد میں نے ڈپریشن کو جھٹک دیا کہ جینے کی امنگ جاگ اٹھی تھی، بس پھر کیا تھااوپر تلے کئی تحریریں ہو گئیں۔ لکھنے والے نے درست لکھا تھا کہ مجھے آصف زندگی کی طرف لائے تھے۔

جتنے دکھ آصف نے سہے تھے اور جس اذیت میں وہ تھے، بہ طور خاص اپنی عائلی زندگی کی ناکامی کے بعد، وہ سب میرے علم میں تھے۔ وہ بہت اکیلے ہو گئے تھے اور اکیلے ہی زندہ رہنے کی جد وجہد کر رہے تھے کتاب کتاب اور بس کتاب۔ مگر میں جانتا تھا وہ اندر سے روز تھوڑا تھوڑا کرکےمر رہے تھے۔ عیداور اس کی موت کے درمیانی وقفے میں ہماری تین بار فون پر بات ہوئی تھی۔ آصف بیمار تھے، انہیں تیز بخار تھا، شوگر لیول زیادہ تھا، ڈپریشن بھی تھا مگر وہ ایسا ظاہر کر رہے تھے جیسے سب کچھ ٹھیک ہونے والا تھا مگر کچھ بھی توٹھیک نہیں ہوا اوران کا دِل دغا دِے گیا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید نے بتایا تھا :ّ” ہارٹ اٹیک بہت شدید تھا، سنبھل ہی نہ پائے تھے۔ ”

مجھے یاد آتا ہے کہ آصف نے اپنی ایک کتاب کافکا کو منسوب کی تھی۔ کافکا کو یاد کرنے کا سبب انتساب کا حصہ ہونے والا ایک بہت قیمتی مشورہ ہے، جی، دم سادھے اپنی لکھنے والی میز کے سامنے بیٹھ جانے کا مشورہ؛یوں جیسے کوئی شکاری پانی میں کانٹا پھینک، دم سادھ کر بیٹھ رہتا ہے۔ میں نے آصف کی لگ بھگ سب تحریریں پڑھ رکھی ہیں، اور بہ سہولت ایسی تحریریں ( بہ طور خاص افسانے) نشان زد کر سکتا ہوں جہاں پوری دنیا کی سرمستی اُن کے تخلیقی وفور کے سپرد ہوئی ہے مگر اپنے عہد کی نہایت فعال ادبی شخصیت، افسانہ نگار، تنقید نگار، مترجم، منتظم، اور ’’دنیا زاد‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے ادبی حلقوں میں وقار پانے والے آصف فرخی کے بارے میں یہ گمان باندھنا کہ وہ ٹک کر کہیں بیٹھے رہتے تھے، میرے لیے بہت مشکل تھا۔ تاہم ڈاکٹر اسلم فرخی اور محترمہ تاج بیگم کے اس فرزند کی گھٹی میں ادب سے محبت پڑی ہوئی تھی اور یہ ان کی زندگی کی ترجیحات میں رہا۔ آصف کے دادا محمد احسن ادیب تھے اور چچا انور احسن صدیقی بھی۔ ۔۔آصف کی والدہ ڈپٹی نذیر احمد کی پڑپوتی اور شاہد احمد دہلوی کی بھتیجی ہیں۔ ایسے میں سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اگر دنیا کی سرمستی کو آنکنے پر وہ قادر ہو گئے تھے تو یہ مختلف بات ضرور تھی انہونی نہیں۔ اوراگر یہ انہونی تھی بھی تو ہم اس انہونی کو ہوتے دیکھ رہے تھے۔

ڈائو میڈیکل کالج کراچی سے ایم بی بی ایس کیا، ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے ماسٹرز کی ڈگری لی، آغا خان یونیورسٹی کراچی، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف اور حبیب یونیورسٹی کراچی میں عملی زندگی کی جدوجہد میں حصہ لیا، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس والوں کے لیے ادبی میلوں کا اہتمام کیا، ملکی و غیر ملکی کانفرنسوں میں شرکت کی، ادبی جریدے ’’دنیا زاد‘‘ کی ادارت اور ایک اشاعتی ادارے’’ شہرزاد‘‘ کی انتظامی ذمہ داریوں کو بہ خوبی نبھایا اور ساتھ ہی ساتھ افسانے لکھے، تراجم کئے، تنقید کی، اخبارات میں کالم لکھے وبا اور تالا بندی کا زمانہ آیا تو کئی وڈیو کالم دیے۔ زندگی کے جس شعبے میں بھی انہوں نے قدم رکھا پوری کمٹ منٹ سے رکھا اور ہر فرض اخلاص نیت سے سر انجام دی اور نام کمایا۔

’’ آتش فشاں پر کھِلے گلاب‘‘، ’’اِسم اعظم کی تلاش‘‘، ’’چیزیں اور لوگ‘‘، ’’شہربیتی‘‘، ’’شہر ماجرا‘‘، ’’میں شاخ سے کیوں ٹوٹا‘‘، ’’اِیک آدمی کی کمی”، ’’میرے دِن گزررہے ہیں‘‘ آصف فرخی کے افسانوں نے مجموعے ہیں تنقید اور ترجمے کی کتب الگ۔ جتنا انہوں نے لکھا، ترجمہ کیا یا مرتب کیا، اتنا تو عام آدمی زندگی بھر پڑھ بھی نہیں پاتا۔ آخری دنوں میں تو وہ بہت عجلت میں تھے، سب کام ہو گئے ابھی دو باقی تھے، دنیازاد مرتب ہو نا تھا اور بیٹی سے ملنے باہر جانا تھا۔ یہی انہوں نے مجھے بتایا تھا مگر وبا کے سبب یہ کام موخر ہو رہے تھے۔ وہ لوگوں کو وبا میں مرنے سے بچنے کی تلقین کرتے کرتے موت کی نظر میں آگئے۔ موت، جس کا فیصلہ اٹل تھا ملتوی نہیں ہو سکتا تھا۔ عیدآئی اکیلے میں بیمار پڑے اور ادھر کراچی میں مر گئے۔

کوئی یوں بھی مرتا ہے پیارے دوست۔ کاش میں کراچی پہنچ سکتا آپ کی چارپائی کو کندھا دیتا، خود قبر میں اتارتا اور کسی کا کندھا تلاش کرکے خوب روتاتو دل کا بوجھ بھی اتر جاتا۔ کاش، اے کاش مگر سب کچھ ہماری مرضی اور خواہش سے کہاں ہوتا ہے۔

حوالہ دانش پی کے
 
Top