ہر لفظ احساس ہو گیا ہے

لعابِ حواس ہو گیا ہے
ہر لحظہ ہی طاس ہو گیا ہے

افسردہ لباس ہو گیا ہے
اک پیکرِ یاس ہو گیا ہے

کر چاک حریر کو دوانے
فیشن کرپاس ہو گیا ہے

جب سے میں خموش ہو گیا ہوں
وہ حرف شناس ہو گیا ہے

کر دیجے خیال بھی قرنطین
مشغولِ مساس ہو گیا ہے

مختص تھا گلوں کے واسطے جو
وہ وقتِ سپاس ہو گیا ہے

دل کو تو ابھی کیا تھا راضی
کیوں پھر سے اداس ہو گیا ہے

ہر لفظ مری غزل میں ریحان
گویا احساس ہو گیا ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کی زیادہ غور نہیں کیا والی بات سے متفق ہوں ، ریحان بھائی ۔ یہ غزل آپ کی شاعری کے عمومی اعلی معیار تک نہیں پہنچ پائی ۔
ویسے یہ "لعاب" صدرِ مصرع میں کیا کرہا ہے ؟ اس کا وزن تو فعول ہے ۔ ایسی کوئی عروضی اجازت میرے علم میں نہیں ۔ ریحان ، اس پر ذرا روشنی ڈالئے گا ۔
 
آپ کی زیادہ غور نہیں کیا والی بات سے متفق ہوں ، ریحان بھائی ۔ یہ غزل آپ کی شاعری کے عمومی اعلی معیار تک نہیں پہنچ پائی ۔
رائے دینا کا بہت بہت شکریہ ظہیر بھائی۔ کچھ تبدیلیاں کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ آخری دو اشعار شاید کسی تقریب میں پڑھنے کے کام آجائیں اس لیے مکمل غزل حذف نہیں کر رہا۔
ویسے یہ "لعاب" صدرِ مصرع میں کیا کرہا ہے ؟ اس کا وزن تو فعول ہے ۔ ایسی کوئی عروضی اجازت میرے علم میں نہیں ۔ ریحان ، اس پر ذرا روشنی ڈالئے گا ۔
یہ لعِب سے لعّاب ہے، بازیگر کے معنوں میں استعمال کیا تھا، مراد یہ تھی کہ ہر لحظہ حواس کی بازی کھیل رہا ہے معلوم نہیں کب رخصت ہو جائیں۔ طاس کا قافیہ ہی غریب ہے اس پر کچھ واضح کہنا میرے لیے تو ناممکن ہی ہوگا۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں نے بھی یہ سوچا تھا کہ آپ نے عربی کا لعّاب ہی استعمال کیا ہے شایدلیکن پوچھ لینا مناسب سمجھا ۔ لعّاب تو اردو میں مستعمل نہیں ہے اور نہ ہی کسی اردو لغت میں کسی کو ملے گا ۔ شعر کے ساتھ تشریح لکھنی پڑجائے گی ۔ میری ناقص رائے میں کوئی قریب المعنی متبادل لے آئیے تو بہتر ہے۔ لعّاب ویسے بھی صوتی اعتبار سے ثقیل ہے ا ور اس میں قاری کو عام فہم لفظ لعاب سے اشتباہ بھی ہوسکتا ہے ۔
 
Top