بہارانِ خزاں

پیشِ خدمت ہے خاکسار کی کاوش، خزاں رسیدہ قلوب کی خدمت میں وجدانیت کے نغمے...


بہارانِ خزاں


خزاں رسیدگی جس قلب کی متاع قرار پائے وہ آمدِ خزاں پر افسردہ نہیں آسودہ پھرا کرتا ہے...

وہ برگِ شجر، شادابی جس کی وقتِ بہاراں نازِ بوستاں ہوا کرتی تھی، وہ آمدِ خزاں کے لمحات میں زرد روشنائی سے ہجر کے فسانے رقم کر رہا ہوتا ہے....

ان فسانوں میں زرد برگ کی آوارگیوں کو سرد ہواؤں کی اٹھکھیلیاں جِلا بخشتی ہیں اور ان دونوں کو ہم رقص ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے ....

اور یوں ہجر کی داستانوں میں جہاں قربتوں کے مخفی فسانے شامل ہو جاتے ہیں وہیں خزاں کی داستانوں میں سرد ہواؤں کے رقص....

ہجر کے فسانے تکمیلِ برگِ زرد کے امین ہوتے ہیں.... جفاؤں کے رفاقت آشناؤں کو ازنِ وفا سے واسطہ پڑتا ہے....

شبِ فراقِ اول میں نکہتِ خزاں کی اٹھکھیلیاں برگِ زرد کو چمن کے سبز جواں سینے پر کروٹیں بدلنا اور ماہِ تمام کی میٹھی حدّتیں سلگنا سکھلاتی ہیں....

اور اس وصالِ شبِ فراق کی رازداں، ایک دُرِّ شبنم جو اپنے یارِ ازل، شعاعِ آفتاب کو آواز دیتی ہے کہ یہ برگِ زرد کیسا تڑپتا سلگتا ہے مگر دمکتا ہے....

اور یہ شعاعِ فتب، صبح کے پہلے سفر پر، مسکراتی ہے مگر کتنی تھکی تھکی سی معلوم ہوتی ہے.... زندگی کے بوجھل کچھ لمحوں کی طرح...

وہ لمحاتِ زیست جو یاد کے جزیروں میں پنہاں ہیں.... اور ماضی کی کسی دریچے سے جھلملاتے ہیں.... لمحات جو زرد بھی تھے اور سنہری بھی، ان لمحات کے رنگ اس برگِ زرد کے رنگوں سے نامانوس نہیں ہوتے...

اور نا ہی ان لمحات کی خوشبو غیر مانوس... خوشبو.... کچھ بوسیدہ کتب کے اوراق کی مانند.... کتنی حیات افزا اور کس قدر سحر انگیز....

وہ خوشبوئیں جو روح کے تلاطم کو سکون کے جزیرے کی سیر کراتی ہیں....

روح کے سکون کے وجدان کا یہ عالم اور حسنِ سماعت کے خزینے کا جب اس وجدان سے یارا ہو تو سرد ہواؤں میں رقصاں موسیقی اور نغمگی روح کے سکون کے لمحوں سے کتنی ہم آہنگ ہوتی ہیں....

اس خزاں کا ہر لمحہ ،ہر اک لمحوں میں مخفی فسانے، فسانوں میں مسکراتی رقص کی داستانیں ، اور وجدانیت کے وہ نغمے... یہ سب پوشیدہ ہیں خزاں کے ایک برگِ زرد کی راہِ ہجر میں.... خزاں کے یہ خزینے صد ہزار بہاراں کو شرماتے ہیں....خزینے جو عیاں ہوتے ہیں صرف انہی قلوب پر کہ خزاں رسیدگی جن قلوب کی متاع قرار پائی ہو....

بقلم ذکی انور ہمدانی
میلبورن، 15 مارچ 2019
 
Top