السلام علیکم
میرے پاس مولوی احمد حسن اختر کی ایک نایاب قوالی ہے۔
دل و جاں فدائے تو،

اس قوالی کے شروع میں کسی اور کلام کو پڑھا ہے۔ کیا یہاں ہر کوئی اسکا ترجمہ کر سکتا ہے؟

شروع کا کلام اور قوالی کا گرہ بندی کے علاوہ
 
السلام علیکم
میرے پاس مولوی احمد حسن اختر کی ایک نایاب قوالی ہے۔
دل و جاں فدائے تو،

اس قوالی کے شروع میں کسی اور کلام کو پڑھا ہے۔ کیا یہاں ہر کوئی اسکا ترجمہ کر سکتا ہے؟

شروع کا کلام اور قوالی کا گرہ بندی کے علاوہ

قوالی آڈیو میں ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
تسکیں نہ یافتیم پس از مرگ زیر خاک
آخر غبار گشتہ بہ کوئے تو آمدیم
میر
ترجمہ
تسکیں ملی نہ ہم کو پس از مرگ زیرِ خاک
آخر غبار بن، ترے کوچے میں آ گئے
فرخ منظور
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
تسکیں نہ یافتم پس از مرگ زیر خاک
آخر غبار گشتہ بہ کوئے تو آمدیم
میر
ترجمہ
تسکیں نہ ملی ہم کو پس از مرگ زیرِ خاک
آخر غبار بن، ترے کوچے میں آ گئے
فرخ منظور
ایسا لگتا ہے یافتیم ہونا چاہیئے شاید معنی اور وزن دونوں کے لحاظ سے۔ فرخ بھائی ذرا ری چیک کیجیئے گا ۔ کمال کا شعر ہے ویسے ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایسا لگتا ہے یافتیم ہونا چاہیئے شاید معنی اور وزن دونوں کے لحاظ سے۔ فرخ بھائی ذرا ری چیک کیجیئے گا ۔ کمال کا شعر ہے ویسے ۔
عاطف بھائی ایک دوست کی فیس بک وال سے فارسی شعر کاپی کیا ہے۔ عین ممکن ہے آپ بالکل درست فرما رہے ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خلقے ہمہ را چشمِ حسد بر گُلِ وصل است
خارے کہ بوَد بر جگرِ مرد چہ دانند


اہلی شیرازی

تمام لوگوں کی حاسد نظریں صرف وصل کے پُھول پر لگی ہوتی ہیں، لیکن وہ کانٹا کہ جو عاشق کے جگر میں ہوتا ہے اُس کے بارے میں وہ کیا جانیں۔
 
نامِ شتر به ترکی چه بود؟ بگو دوا
نامِ بچه‌ش چه باشد؟ او خود پی‌اش دوا
(مولوی رومی)

شتر(اونٹ) کو ترکی میں کیا کہا جاتا ہے؟ بولو دوا (معاصر استانبولی ترکی میں اس کا تلفظ deve ہے جبکہ آذربائیجانی ترکی میں dəvə ہے)۔اس (اونٹ) کے بچے کا کیا نام ہے؟ وہ خود اس (اونٹ) کے پیچھے دوڑتا ہے(یعنے اس کا نام بھی وہی دوا ہی ہے)۔
 

الف نظامی

لائبریرین
تو سایہ دشمنی کجا در گنجی
جائے کہ خیالِ دوست زحمت باشد
تم دشمن کا سایہ ہو تم کہاں سماو گے؟ اس جگہ جہاں خیال دوست تک زحمت ہوتا ہے؟
اگر آپ کو یہ شعر کہنے والے شاعر کا نام معلوم ہو تو براہ کرم مطلع کیجیے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
دریں گُلشن پریشاں مثلِ بُویَم
نمی دانم چہ می خواہم چہ جُویَم
برآید آرزو یا بر نیایَد
شہیدِ سوز و سازِ آرزویَم


علامہ محمد اقبال

میں دُنیا کے اس گُلشن میں خوشبو کی طرح پھیلا ہوا ہوں، اور نہیں جانتا کہ میں کیا چاہتا ہوں اور کس کی تلاش میں ہوں۔ میری آرزو پوری ہوتی ہے یا پوری نہیں ہوتی (مجھے اس سے کچھ سروکار نہیں کہ) میں تو صرف آرزو کے سوز و ساز کا قتیل ہوں، شہید ہوں۔
بہت خوب۔
 
مثنوی معنوی میں مولوی رومیِ بلخی ایک قصہ بیان کرتے ہیں:۔

آن یکی نحوی به کشتی در نشست
رو به کشتی‌بان نهاد آن خودپرست
گفت هیچ از نحو خواندی گفت لا
گفت نیمِ عمر تو شد در فنا
دل‌شکسته گشت کشتیبان ز تاب
لیک آن دم کرد خامش از جواب
باد کشتی را به گردابی فکند
گفت کشتی‌بان بدان نحوی بلند
هیچ دانی آشنا کردن بگو
گفت نی ای خوش‌جوابِ خوب‌رو
گفت کلِ عمرت ای نحوی فناست
زانک کشتی غرقِ این گرداب‌هاست

(مولوی رومی)

ایک نحوی کشتی میں سوار ہوا۔اُس متکبر نحوی نے ملاح کا رخ کیا۔(اور) پوچھا کہ کیا تو نے (علمِ) نحو خوانا(پڑھا) ہے؟ اُس ملاح نے کہا کہ نہیں۔نحوی بولا کہ تیری آدھی عمر برباد ہوگئی۔رنج کی وجہ سے ملاح دل شکستہ ہوا لیکن اس وقت جواب سے خاموش رہا۔ہوا نے کشتی کو گرداب میں ڈال دیا۔ملاح نے اس نحوی سے بآوازِ بلند پوچھا کہ کیا تجھے کچھ تیراکی آتی ہے؟ نحوی بولا کہ نہیں اے خوب رُو خوش سخن!۔وہ ملاح بولا کہ اے نحوی! تیری پوری عمر برباد ہوگئی ہے کیونکہ کشتی ان گردابوں میں غرق ہونے والی ہے۔
 
آخری تدوین:
از زلزله و عشق خبر کس ندهد
آن لحظه خبر شوی که ویران شده‌ای
(شفيعی كدكنی)

زلزلہ اور عشق کے بارے میں(پہلے سے) کوئی خبر نہیں دیتا. تمہیں (ان دو چیزوں کے بارے میں) خبر اس وقت ملتی ہے جب تم ویران ہوگئے ہوتے ہو.
 
آخری تدوین:
استاد رازق فانی کی ایک فوق العادہ نظم:

همه کار و بار یک‌سو ،غمِ زلفِ یار یک‌سو
کشدش صبا به‌ یک‌سو ، زندش نگار یک‌سو

سارے کاروبار ایک طرف، (اور) زلفِ یار کا غم ایک طرف۔اس (زلفِ یار) کو بادِ صبا ایک طرف کھینچتی ہے (جبکہ) معشوق (یار) اس کو ایک طرف پھیرتا ہے۔

به شبِ فراقِ جانان، تو بساطِ عیشِ ما بین!
مَیِ نابِ اشک یک‌سو ، گلِ انتظار یک‌سو

جانان سے جدائی کی رات میں تو ہمارا بساطِ عیش دیکھ! اشکوں کا خالص شراب ایک طرف، انتظار کا گُل ایک طرف

به گذرگهِ خیالت ، شب و روز می‌نشینند
نگهِ خموش یک‌سو ،دلِ بی‌قرار یک‌سو

تیرے خیال کی گذرگاہ میں نگاہِ خاموش ایک طرف، بے قرار دل ایک طرف شب و روز بیٹھتے ہیں۔

نتوان به فصلِ مستی ، ز شرابِ دل بریدن
هوسِ گناه یک‌سو ، نفسِ بهار یک‌سو

مستی کے موسم میں شرابِ دل سے دور نہیں ہوا جاسکتا۔گناہ کی ہوس ایک طرف، بہار کی سانس ایک طرف۔

پَیِ صیدِ آهویِ دل ، دو بلا کمین گرفته
نگهش نهان ز یک‌سو ، مژه آشکار یک‌سو

دل کے آہو (ہرن) کے شکار کے لئے دو بلائیں گھات میں بیٹھی ہیں:۔ اس (یار) کی نگاہ ایک طرف چُھپی ہوئی ہے، (جبکہ) پلک ایک طرف ظاہر ہے۔

به بساطِ شوقِ «فانی » دوحریفِ سخت‌جان بین!
منِ دل شکسته یک‌سو ، غمِ کهنه کار یکسو

«فانی» کے بساطِ شوق میں دو سخت جان دشمنوں کو دیکھ! میں دل شکستہ ایک طرف، باتجربہ غم ایک طرف
(استاد رازق «فانی»)
 

محمد وارث

لائبریرین
خاطرِ بے آرزو از رنجِ یار آسودہ است
خارِ خشک از منتِ ابرِ بہار آسودہ است


رھی معیری

جس دل میں کوئی آرزو نہ ہو وہ دل رنجِ یار سے فارغ اور آسودہ ہوتا ہے، جیسے کہ خشک کانٹا بہار کے بادل کے احسانوں سے بے نیاز ہوتا ہے۔
 
افغانستان کے ایک نوزائیدہ بچوں کے شفاخانے میں حالیہ پُرتاسف حملے کی مناسبت سے تاجیکستانی شاعر لائق شیر علی کا ایک برمحل شعر:
درونِ سینه‌ی تنگم دلِ صدپاره می‌گرید
میانِ خانه‌ی بی‌کودکم گهواره می‌گرید
(لایق شیرعلی)

میرے تنگ سینہ میں سو ٹکڑے ہوا دل روتا ہے. میرے بغیر بچوں والے گھر کے درمیان جھولا روتا ہے.
 

محمد وارث

لائبریرین
ایسا لگتا ہے یافتیم ہونا چاہیئے شاید معنی اور وزن دونوں کے لحاظ سے۔ فرخ بھائی ذرا ری چیک کیجیئے گا ۔ کمال کا شعر ہے ویسے ۔
عاطف بھائی ایک دوست کی فیس بک وال سے فارسی شعر کاپی کیا ہے۔ عین ممکن ہے آپ بالکل درست فرما رہے ہوں۔
نقوش میر نمبر میں میر کا فارسی دیوان موجود ہے۔ اس میں مذکورہ شعر کا عکس ملاحظہ کیجیے۔
Fullscreen-capture-15-05-2020-114552-AM.jpg
 
جسمِ خاکی مانعِ عمرِ سَبُک‌رفتار نیست
پیشِ این سیلاب کَی دیوار می‌ماند بجا؟
(صا‌ئب تبریزی)

خاکی بدن زودگذر عمر کی راہ میں مانع نہیں ہے۔اس سیلاب کے آگے دیوار کب باقی رہتی ہے؟
 
ظالمان را مهلت از مظلوم چرخ افزون دهد
بیش‌تر از مور اینجا مار می‌ماند بجا
(صائب تبریزی)

چرخِ فلک مظلوم سے زیادہ ظالموں کو مہلت دیتا ہے۔چیونٹی سے زیادہ سانپ یہاں (دنیا میں) باقی رہتا ہے۔
 
من از وَرَع می و مطرب ندیدمی زین پیش
هوایِ مغ‌بچگانم در این و آن انداخت
(حافظ شیرازی)

پرہیزگاری کی وجہ سے میں اس سے پہلے شراب اور مطرب کو کبھی نہ دیکھتا۔ مغ‌بچوں کی خواہش نے مجھے اِس (شراب) اور اُس (مطرب) میں مبتلا کردیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دوست بر ما نگراں از سرِ شفقت بگذشت
خاک بُودیم ز فیضِ نظر اکسیر شدیم

نظیری نیشاپوری

دوست ہم پر شفقت کی نظر ڈالتا ہوا گذرا، ہم خاک تھے لیکن اس فیضِ نظر سے اکسیر ہو گئے۔
 
معاصر افغانستانی شاعر نجیب بارور کی ایک زیبا غزل ترجمے کے ساتھ:

با وجودِ آن‌که لطفِ باغبان بسیار بود
سرنوشتِ هرچه گُل دیدم کنارِ خار بود

اس کے باوجود کہ باغبان کا لطف اور مہربانی بہت تھی، جتنے بھی پھول میں نے دیکھے، وہ کانٹے کے ہمراہ تھے۔
آن‌که را دشمن تلقی کرده بودم، دوست شد
وانکه دشمن شد به قصد جانِ من، دلدار بود

جس کو میں دشمن سمجھتا تھا، وہ دوست ہوگیا۔اور جو میری جان کے ارادے کے لئے دشمن بن گیا، وہ دلدار تھا۔
پایِ عشقش مانده بودم تا همین اکنون ولی
حال می‌دانم که عاشق‌پیشه نه، غدار بود

میں نے ابھی اِس وقت تک اس کے عشق کا (قدم رکھنے کے لئے) پاوٗں رکھا تھا، لیکن اب میں جانتا ہوں وہ عاشق پیشہ نہیں غدار تھا۔
راحتم از رفتنش، بیزارم از عشق و جنون
او که رویِ شانه‌هایِ خسته‌یِ من بار بود

وہ کہ جو میرے خستہ کندھوں پر ایک بوجھ تھا، اس کے جانے سے میں آرام و راحت میں ہوں، عشق و جنون سے میں بےزار ہوں۔
درکِ او از عشقِ من مثلِ خودش ناچیز بود
بینِ احساسات من با عشقِ او دیوار بود

میرے عشق کے بارے میں اس کا ادراک خود اس کی مانند بےقدر اور بےارزش تھا۔اس کے عشق اور میرے احساسات کے درمیان دیوار تھی۔
اعتمادش مثلِ قولِ بی‌ثباتش سست بود
آنکه می‌گفت از خیانت، خود خیانت‌کار بود

اس کا اعتماد اس کے ناپائیدار و نامحکم قول اور وعدے کی مانند بےاساس اور سست تھا۔ وہ جو (اوروں کی) خیانت کے بارے میں بولتا تھا، خود خیانتکار تھا۔
از زلیخایی مگو دیگر که در سودایِ عشق
یوسفِ احساسِ شاعر غیرتِ بازار بود

کسی زلیخا کے بارے میں مزید مت بولو کہ (وہ وقت گزر گیا جب) عشق کے سودے میں شاعر کے احساس کا یُوسُف (یعنے حسن اور زیبائی) بازار (یعنے لوگوں) کے لئے مایہٗ رشک تھا (یعنے لوگوں کو رشک میں مبتلا کردیتا تھا)۔
کاش می‌شد هرچه بود و هست را بیرون کشید
از دلی که از نخستین روز یک آوار بود

کاش جو کچھ بھی موجود تھا اور موجود ہے، اس کو اُس دل سے باہر نکالا جاسکے، جو اولیں روز سے ہی ویرانہ تھا۔
(نجیب بارور)
 
Top