غزل برائے اصلاح

فیضان قیصر

محفلین
فرطِ غم میں تو مرے تک تو کھنچی آتی ہے

مجھ کو دل جوئی مگر واجبی سی آتی ہے

تھوڑی ترمیم کہانی میں ذرا کر واعظ

قصہِ حور پہ اب مجھ کو ہنسی آتی ہے

کیا عداوت ہے تجھے مجھ سے سخی یہ تو بتا

کیوں ترے در سے سدا میری تہی آتی ہے

یوں نہیں ہے کہ رسائی میں نہیں میخانہ

میرے حصے میں مگر تشنہ لبی آتی ہے

کارِ دنیا سے نظر کو میں ہٹا کر اکثر

آسماں دیکھتا ہوں، خوب ہنسی آتی ہے

اس لیے سب سے سوالات کیا کرتا ہوں

کہ سوالوں سے جہالت میں کمی آتی ہے

ان دنوں مجھ کو میسر ہے یہ سکوں فیضان

نہ میں ہنستا ہوں نہ آنکھوں میں نمی آتی ہے
 
آخری تدوین:
فیضان بھائی، آداب!

فرطِ غم میں تو مرے تک تو کھنچی آتی ہے
مجھ کو دل جوئی مگر واجبی سی آتی ہے
مطلع میں مجھے کچھ مقامات پر مشکل محسوس ہوتی ہے۔ ایک تو پہلے مصرعے میں غم اور میں کا تنافر بہت نمایاں ہے۔ دوسرے یہ کہ مرے تک اس محل پر غیر فصیح معلوم ہوتا ہے، مجھ تک کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔
دوسرے مصرعے میں دلجوئی اور واجبی دونوں کی ی ساقط ہو رہی ہے، جس سے روانی میں کچھ خلل محسوس ہوتا ہے۔

تھوڑی ترمیم کہانی میں ذرا کر واعظ
قصہِ حور پہ اب مجھ کو ہنسی آتی ہے
اس قسم کے موضوعات پر مبنی اشعار پر میں عموماً تبصرے سے گزیز کرتا ہوں۔ ایسی باتیں جن کا تذکرہ خود قرآنِ مجید اور احادیث مبارکہ میں موجود ہو، اس پر طنزیہ پیرائے میں کی گئی گفتگو کم از کم میرے طبیعت پر تو بہت بھاری گزرتی ہے۔

کیا عداوت ہے تجھے مجھ سے سخی یہ تو بتا
کیوں ترے در سے سدا میری تہی آتی ہے

شعر معنوی اعتبار سے مجھے کچھ الجھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
میرا گمان یہ ہے دوسرے مصرعے میں آپ کا مقصود صدا، بمعنی آواز ہے؟ کیونکہ سدا تو دوام کے اظہار کا کلمہ ہے۔
اگر مراد صدا ہے تو کسی دوسرے کے در سے اس کا تہی آنا کیا معنی رکھتا ہے؟ تہی لوٹنا شاید پھر بھی قابل قبول ہو۔ یہ بھی ممکن ہے یہ تاثر میری ہی قلت مطالعہ کے سبب ہو۔ واللہ اعلم :)

یوں نہیں ہے کہ رسائی میں نہیں میخانہ
میرے حصے میں مگر تشنہ لبی آتی ہے

پہلے مصرعے میں مجھے ’’ہے‘‘ حشو معلوم ہوتا ہے۔

اس لیے سب سے سوالات کیا کرتا ہوں
کہ سوالوں سے جہالت میں کمی آتی ہے
پہلے مصرعے میں ’’بھی‘‘ کی کمی محسوس ہورہی۔ شعر کا مفہوم بیان میں شدت کا متقاضی ہے۔
مزید یہ کہ اس بحر میں دوسرے مصرعے کا ’’کہ‘‘ سے شروع ہونا مجھے اتنا اچھا نہیں لگتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں آپ بحر کے پہلے رکن کو فاعلاتن، اور فعلاتن دنوں باندھ سکتے ہیں، سو مصرعہ اگر کہ سے ہی شروع ہو تو کہ اور کے درمیان کچھ اشتباہ سا ہونے لگتا ہے، اور روانی میں میں خلل محسوس ہوتاہے۔ ویسے یہ محض میرا ذاتی رجحان ہے، تکنیکی اعتبار سے کوئی خامی نہیں۔

ان دنوں مجھ کو میسر ہے یہ سکوں فیضان
نہ میں ہنستا ہوں نہ آنکھوں میں نمی آتی ہے
پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہورہا ہے۔ غالبا آپ نے عروض کی ویب سائٹ پر ہی انحصار کیا، اور اس نے سُکوں کو سِکّوں کرکے وزن پورا کردیا :)
دوسرے مصرعے میں بطور اصرار جمع نفیین کا یہ اسلوب بھی پسندیدہ نہیں۔ میرے خیال میں ’’نہ تم جانو نہ ہم‘‘ کہنا غیر فصیح ہے بالمقابل ’’تم جانو نہ ہم‘‘ کہنے کے۔ اسی جملے پر آپ دوسرے مصرعے کو قیاس کرلیں۔ میرے خیال میں اگر یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا۔
اب میں ہنستا ہوں نہ آنکھوں میں نمی آتی ہے!
 

فیضان قیصر

محفلین
فیضان بھائی، آداب!


مطلع میں مجھے کچھ مقامات پر مشکل محسوس ہوتی ہے۔ ایک تو پہلے مصرعے میں غم اور میں کا تنافر بہت نمایاں ہے۔ دوسرے یہ کہ مرے تک اس محل پر غیر فصیح معلوم ہوتا ہے، مجھ تک کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔
دوسرے مصرعے میں دلجوئی اور واجبی دونوں کی ی ساقط ہو رہی ہے، جس سے روانی میں کچھ خلل محسوس ہوتا ہے۔


اس قسم کے موضوعات پر مبنی اشعار پر میں عموماً تبصرے سے گزیز کرتا ہوں۔ ایسی باتیں جن کا تذکرہ خود قرآنِ مجید اور احادیث مبارکہ میں موجود ہو، اس پر طنزیہ پیرائے میں کی گئی گفتگو کم از کم میرے طبیعت پر تو بہت بھاری گزرتی ہے۔



شعر معنوی اعتبار سے مجھے کچھ الجھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
میرا گمان یہ ہے دوسرے مصرعے میں آپ کا مقصود صدا، بمعنی آواز ہے؟ کیونکہ سدا تو دوام کے اظہار کا کلمہ ہے۔
اگر مراد صدا ہے تو کسی دوسرے کے در سے اس کا تہی آنا کیا معنی رکھتا ہے؟ تہی لوٹنا شاید پھر بھی قابل قبول ہو۔ یہ بھی ممکن ہے یہ تاثر میری ہی قلت مطالعہ کے سبب ہو۔ واللہ اعلم :)



پہلے مصرعے میں مجھے ’’ہے‘‘ حشو معلوم ہوتا ہے۔


پہلے مصرعے میں ’’بھی‘‘ کی کمی محسوس ہورہی۔ شعر کا مفہوم بیان میں شدت کا متقاضی ہے۔
مزید یہ کہ اس بحر میں دوسرے مصرعے کا ’’کہ‘‘ سے شروع ہونا مجھے اتنا اچھا نہیں لگتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں آپ بحر کے پہلے رکن کو فاعلاتن، اور فعلاتن دنوں باندھ سکتے ہیں، سو مصرعہ اگر کہ سے ہی شروع ہو تو کہ اور کے درمیان کچھ اشتباہ سا ہونے لگتا ہے، اور روانی میں میں خلل محسوس ہوتاہے۔ ویسے یہ محض میرا ذاتی رجحان ہے، تکنیکی اعتبار سے کوئی خامی نہیں۔


پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہورہا ہے۔ غالبا آپ نے عروض کی ویب سائٹ پر ہی انحصار کیا، اور اس نے سُکوں کو سِکّوں کرکے وزن پورا کردیا :)
دوسرے مصرعے میں بطور اصرار جمع نفیین کا یہ اسلوب بھی پسندیدہ نہیں۔ میرے خیال میں ’’نہ تم جانو نہ ہم‘‘ کہنا غیر فصیح ہے بالمقابل ’’تم جانو نہ ہم‘‘ کہنے کے۔ اسی جملے پر آپ دوسرے مصرعے کو قیاس کرلیں۔ میرے خیال میں اگر یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا۔
اب میں ہنستا ہوں نہ آنکھوں میں نمی آتی ہے!
بہت شکریہ راحل بھائی، اغلاط کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 
Top