کیا یورپ کی ترقی مذہب کو ترک کرنے کی مرہون منت ہے؟

سید رافع

محفلین
دوستو زندگی پہلے بھی کھیل نہ تھی پر اب تو کافی مشکل لگنے لگی ہے۔ ایک دوست نے "میزان (فتویٰ یافتہ اسلامی) بینک" سے مکان بنانے کے لیے قرض (حسنہ نہیں) لیا تھا۔ کُچھ اُس نادان کی خبر دیں بچ رہے گا یا گیا سیدھا دوزخ کی آگ میں؟

بھائی کیا آپ اسلامک بینکنگ کو حلال کہہ رہے ہیں؟
 

سید رافع

محفلین
کچھ ہسپانوی ایمپائر کی امریکہ میں سونے چاندی کی کانوں کا معیشت پر اثر کے بارے میں ہی مطالعہ کر لیں

میرا خیال ہے آپ ہسپانوی سلطنت کے اس دور کی طرف توجہ دلانا چاہ رہے تھے۔

1500 سے 1650 کے درمیان ، ہسپانویوں نے نیو ورلڈ سے 181 ٹن سونا اور 16،000 ٹن چاندی کی درآمد کی۔ آج کے پیسوں میں ، اس قدر سونا تقریبا$ 4 بلین ڈالر کا ہوگا ، اور چاندی کی قیمت 7 بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہوگی۔ آج کی کھربوں ڈالر میں قومی بجٹ والی دنیا میں یہ بات کچھ خاص نہیں ہوگی ، لیکن اس زمانے میں ، یورپ میں قیمتوں میں 500 فیصدکا اضافہ ہوا۔ دوسرے لفظوں میں ، ایک روٹی 1600 میں 1500 کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ مہنگی تھی ، سونے اور چاندی کی درآمدات کا شکریہ۔

Between 1500 and 1650, the Spanish imported 181 tons of gold and 16,000 tons of silver from the New World. In today's money, that much gold would be worth nearly $4 billion, and the silver would be worth over $7 billion.8 This may not seem like a whole lot in a world with national budgets in the trillions of dollars, but during this span, prices in Europe rose by 500%; in other words, a loaf of bread was five times more expensive in 1650 than in 1500, thanks in great part to gold and silver imports.

Spanish Colonization Trivia


اگر اسی واقعے کی طرف اشارہ تھا تو اسکی سونے کی ذاتی حیثیت میں قدر ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ روٹی کا پانچ گنا قیمت میں بڑھ جانا لوگوں کی لالچ سے ہوا۔ سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ چودہویں صدی میں کیوں نہیں ہوا جب یورپ لنگڑے لولے پوپ اور چرچ سے وابستہ تھا؟ کیا وجہ ہے کہ سولہویں صدی میں یہ واقعہ ہوا؟ کیا وجہ ہے کہ یورپ غلط کار پادریوں سے جان چھڑا کر مذید خبطی و لالچی ہو گیا؟ کیا وجہ ہے کہ سائنس اور منطق کی تحریکوں کے کامیاب ہونے کے بعد یورپ کو اس قدر لالچی حکمران و عوام ملے جنہوں نے دولت کے پیچھے دوڑنے کی خاطر اپنے ہی لیے روٹی کو پانچ گنا مہنگا کر لیا؟

اصل بات یہ ہے کہ سولہویں صدی سے یورپ مذہب سے جان چھڑا کر عقلی طور پر دیوالیہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یورپ پوپ سے جان چھڑا کر عظیم اسلامی سلطنت کے روحانی انقلاب کو بھی اپنا یہاں برپا کرتا جس طرح اسکے سائنسدانوں نے علم دوستی، عدل اور فلاحی ریاست کے تصوارت اسلام سے مستعار لیے تھے۔
 
انسان کی بنیادی ضرورتیں ، روٹی، کپڑا، مکان اور توانائی ہیں، یہی وہ "دولت" ہے جس کا تبادلہ آج بارٹر کے بجائے، کرنسی سے ہوتا ہے۔۔ سونا ، چاندی نہیں۔ بھوک سے مرتے ہوئے کوئی بھی اپنا سونا نہیں کھا سکتا۔
دولت کے بارٹر کی جگہ ، کسی متبادل "کرنسی" چاہے وہ پرامیسوری نوٹ (ڈالر، روپیہ، دینا، یورو، آر ایم بی) ہو یا پھر ڈیجیٹل کرنسی ہو ، یہ صرف اور صرف دولت کی ترسیل اور دولت کے سٹوریج کا ذریعہ ہیں۔

کرنسی اگر پرامیسوری نوٹ، ہے تو اس کو جتنا چاہے چھاپ لو بلکہ اب تو صرف دولت مند، اپنی مرضی سے جتنی کرنسی، چاہے ، الیکٹرانک فارم میں جاری کرسکتا ہے۔ کاغذی ، نوٹ کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔

اسی طرح یہ تصور کرنا کہ ، کوئی دھات، سونا یا چاندی محدود رہے گی ، اس لئے کرنسی کے لئے اچھی ہے ، ایک مناسب سوچ نہیں۔ یا یہ تصور کرنا کہ کرپٹو کرنسی، محدود حل رکھتی ہے اس لئے یہ بہتر کرنسی ہے۔ یہ بھی کوئی بہتر حل نہیں ہے۔ کیوں؟

اس لئے کہ دھات ، پھر تیل، کے خلاف پرامیسوری نوٹ اپنی مرضی سے جتنا چاہے چھاپ رہے ہیں، لہذا ڈیجیٹل کرنسی کے لئے آف لائین ، پرامیسوری نوٹ پھر جاری ہوجائیں گے۔

افراط زر کی بنیادی وجہ فائیدہ یا منافع نہیں بلکہ مجرمانہ طور اور مجرمانہ حد تک پرامیسوری نوٹ چھاپنا ہے۔

امریکہ کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ جتنے ڈالر چاہے ، الیکٹرانیکلی بنا کر دے سکتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ آج کی دنیا میں وہ صنعتی مقام نہیں رکھتا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد رکھتا تھا۔ لیکن کرنسی چھاپ چھاپ کر بانٹ کر امریکہ اپنی صنعت و حرفت سے کئی ہزار گنا پرامیسوری نوٹ فروخت کرچکا ہے۔ یہی حال کئی دوسرے ممالک کا ہے۔ یہ ایک مجرمانہ حرکت ہے، جس طرح 1930 کی دہائی میں سونے کے عوض نوٹ چھاپ چھاپ کر بانٹے گئے، وہ امریکیوں کے ساتھ جرم تھا، آج یہی جرم ساری دنیا کے ساتھ، سونے کے بعد، پہلے تیل کے ذریعے اوراب اس سے بھی بڑھ کر ملٹری طاقت کے ذریعے اپنی معاشی وسعت سے بڑھ کر امریکہ نے نوٹ چھاپ کر کررہا ہے۔

یورپ ، کل تک امریکہ کا ساتھی تھا، آج یورپ بھی اس ہرے ہرے دھوکے سے بچنے کے راستے ڈھونڈھ رہا ہے، اور چین ایک نیا معاشی مخالف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یورپ اور چین دونوں کا اعتماد امریکی ڈالر پر کم ہوتا جارہا ہے۔ اور دونوں دولت کی ترسیل کے لئے نئی ڈیجیٹل کرنسی ڈھونڈھ رہے ہوں ۔ ایسی کرنسی جو معاشی دولت کی درست یا بہتر ترجمان ہو۔ یہ صورت حال امریکہ بہادر کو کسی طور قابل قبول نہیں۔ لہذا یہ کب جنگ کی صورت میں بدل جائے، کچھ کہا نہیں جاسکتا، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگلے 5 سے دس سالوں میں ڈالر کا وہ رتبہ برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔

بنیادی نکتہ اس تفصیل کا یہ ہے کہ ، افراط زر ، منافع کی زیادتی یا ٹیکس کی کمی کی وجہ سے نہیں ، بلکہ معاشی وسعت کے مقابلے میں پرامیسوری نوٹ (ڈالر) مجرمانہ حد تک چھاپ کر بانٹنے میں ہے۔ آج یہ حال ہے کہ امریکہ کی سب سے بڑی ایکسپورٹ، یہ پرامیسوری نوٹ ہیں۔ امریکہ اپنے ہی جاری کئے ہوئے پرامیسوری نوٹ (ڈالر) کے مقابلے میں وہ صنعتی پیداوار نہیں رکھتا جو ڈالر کی درست ترجمان ہو۔ اس کا علاج امریکہ اپنی فوجی طاقت سے ممالک پر سینکشنز لگا کر کرتا ہے اور اس طرح اپنے ہی ڈالر کی شکل میں کئے ہوئے وعدے کی وعدہ خلافی کرتا ہے۔ یہ صورت حال زیادہ دن برقرار نہیں رہ سکتی۔ دنیا کے ہر ملک کو اس مسئلہ کا اندازہ ہے،
بہت سی قومیں اور ممالک، اپنی ہی دولت کو امریکہ کے ہاتھوں لٹا چکے ہیں یا امریکہ نے سینکزنز لگا کر یا ایسی دولت کو بلیک منی قرار دے کر اپنے وعدے سے وعدہ خلافی کی ہے۔

کچھ معصوم لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر دولت ان کے ہاتھ میں سنے یا چاندی کی شکل میں یا تیل کی شکل میں ہوگی تو کوئی چھو نہیں سکتا۔ میں اس پر صرف ہنس سکتا ہوں۔ اس لئے کہ بہت دور نا جائیے، صرف دلی کا لال قلعہ یا لاہور کا لال قلعہ دیکھ لیجئے، یہ ایک زمانے میں سونے، چاندی، ہیرے جوہرات کے بہت ہی بڑے بڑے والٹ تھے۔ آج یہ والٹ خالی پڑے ہیں اور آنے جانے والوں کا منہہ چڑا رہے ہیں۔

اب وہ کونسی کرنسی ہوگی جو عالمی سطح پر قبول کی جائے اور ، معیشیت کی درست ترجمان بھی ہو اور افراط زر سے بچاؤ کا ذریعی بھی ہو۔ یہ جب ہی ممکن ہے جب ڈالر صرف امریکی سٹیٹس جاری نا کریں بلکہ ساری اقوام ایک ہی کرنسی استعمال کریں اور ہر ایک سٹیٹ ، اسی کرنسی کو جاری کرسکے۔ یہ دور کی کوڑی ہے، ایسا ہوگا یا نہیں ہوگا، اس میں آپ کا تکہ اور میرا تکہ دونوں کی کوئی اہمیت نہیں :)
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
اس سوال کا جواب بھی پہلے دیا جا چکا ہے۔ بہت سے مغربی ممالک کے اسٹیٹ بینک نے شرح سود طویل عرصہ تک صفر سے بھی نیچے یعنی منفی رکھا ہوا ہے۔ یعنی ان ممالک کے کمرشل بینک کو اُلٹا لینے کے دینے پڑ رہے ہیں۔ شرح سود اتنا کم کرنے کا مقصد ڈپازٹرز کو پیسے بینک میں رکھنے کی بجائے معیشت کا پہیہ چلانے کیلئے کہیں اور انویسٹ کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ اگر مقصد بینک کو زیادہ سے زیادہ سو کھلانا ہوتا تو شرح سود منفی رکھتے؟
ES2004Fig1_20200226112429.jpg


بٹ کوائن کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ محدود 21 ملین بٹ کوائن پر مبنی برقی کرنسی ہے۔ بفرض محال اگر دنیا بھر کی برق منقطع ہو جا ئے تو ساری تجارت ختم۔ لیکن اس سے کم تر درجے میں اگر کسی شخص کا داخلہ بٹ کوائن سرور تک داخلہ بند کر دیا جائے تو وہ کوئی خرید و فروخت نہ کر پائے گا۔ لینکس کمپیوٹر پر چلتے ہوئے بٹ کوائن کے سرورز جس کی ملکیت ہوئے وہی اس کرنسی کا اور اس کرنسی کو استعمال کرنے والوں کا آقا ہے۔ بٹ کوائن کے غلاموں کو بٹ کوائن سرورز کے مالکان کی ہر ہر بات سر جھکا کر ماننی پڑے گی۔ بلکہ بٹ کوائن کے حامی ایک شخص کو بلاآخر اپنا رب ہی مان لیں گے۔ یہ موجودہ معاشی غلامی کی بدترین حالت ہو گی۔

گولڈ کے ساتھ ایسا نہیں۔ گولڈ کی کاکنی دنیا بھر میں جاری ہے اور ہر روز اس کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس اضافے کی وجہ سے، طلب و رسد کے قانون کے تحت، کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ سونے کی قیمت کا تعین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کر لے۔ یہ بات ایک انسانوں کو عاجزی و انکساری کی طرف مائل رکھتی ہے تو دوسری طرف وہ اپنی بہترین صلاحیتیں حکمرانی، سیاست، فوج، طب و انجینیرئنگ کے میدان میں بروئے کار لاتے ہیں۔

مذہب اسلام قناعت اور آخرت کی زندگی کی مدد سے انسان کو گولڈ کی لالچ سے بچاتا ہے جو اسکو دجل یعنی بٹ کوائن کے لالچ سے بچاتی ہے۔ اسکے برعکس بٹ کوائن کا دجل انسان کو مستقبل سے ڈراتا ہے اور مفلسی کا یہی خوف اسے گولڈ کے لالچ اور طرح طرح کے شرمناک طریقے اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ لالچ سے جھوٹ پیدا ہوتا ہے اور جھوٹ سے بزدلی جبکہ قناعت سے آخرت کا خیال پیدا ہوتا ہے جس سے سچ اور بہادری پیدا ہوتی ہے۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
اس سوال کا جواب بھی پہلے دیا جا چکا ہے۔ بہت سے مغربی ممالک کے اسٹیٹ بینک نے شرح سود طویل عرصہ تک صفر سے بھی نیچے یعنی منفی رکھا ہوا ہے۔ یعنی ان ممالک کے کمرشل بینک کو اُلٹا لینے کے دینے پڑ رہے ہیں۔ شرح سود اتنا کم کرنے کا مقصد ڈپازٹرز کو پیسے بینک میں رکھنے کی بجائے معیشت کا پہیہ چلانے کیلئے کہیں اور انویسٹ کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ اگر مقصد بینک کو زیادہ سے زیادہ سو کھلانا ہوتا تو شرح سود منفی رکھتے؟
ES2004Fig1_20200226112429.jpg


چاہے منفی انٹرسٹ ریٹ ہو یا جاپان امریکہ یا دیگر ممالک کی quantitative easing ہر 'سودی ٹیکے' میں سینٹرل بینک کے ذریعے عام لوگوں کی ہی ٹیکس رقوم چوری یا ڈیفلیٹ ہوتی ہے۔

Coronavirus: Could a People’s Bailout Help?

Will $6 Trillion in Global Quantitative Easing Be Enough to Beat the 2020 Recession? – 24/7 Wall St.
 

سید رافع

محفلین
انسان کی بنیادی ضرورتیں ، روٹی، کپڑا، مکان اور توانائی ہیں، یہی وہ "دولت" ہے جس کا تبادلہ آج بارٹر کے بجائے، کرنسی سے ہوتا ہے۔۔ سونا ، چاندی نہیں۔ بھوک سے مرتے ہوئے کوئی بھی اپنا سونا نہیں کھا سکتا۔
دولت کے بارٹر کی جگہ ، کسی متبادل "کرنسی" چاہے وہ پرامیسوری نوٹ (ڈالر، روپیہ، دینا، یورو، آر ایم بی) ہو یا پھر ڈیجیٹل کرنسی ہو ، یہ صرف اور صرف دولت کی ترسیل اور دولت کے سٹوریج کا ذریعہ ہیں۔

کرنسی اگر پرامیسوری نوٹ، ہے تو اس کو جتنا چاہے چھاپ لو بلکہ اب تو صرف دولت مند، اپنی مرضی سے جتنی کرنسی، چاہے ، الیکٹرانک فارم میں جاری کرسکتا ہے۔ کاغذی ، نوٹ کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔

اسی طرح یہ تصور کرنا کہ ، کوئی دھات، سونا یا چاندی محدود رہے گی ، اس لئے کرنسی کے لئے اچھی ہے ، ایک مناسب سوچ نہیں۔ یا یہ تصور کرنا کہ کرپٹو کرنسی، محدود حل رکھتی ہے اس لئے یہ بہتر کرنسی ہے۔ یہ بھی کوئی بہتر حل نہیں ہے۔ کیوں؟

اس لئے کہ دھات ، پھر تیل، کے خلاف پرامیسوری نوٹ اپنی مرضی سے جتنا چاہے چھاپ رہے ہیں، لہذا ڈیجیٹل کرنسی کے لئے آف لائین ، پرامیسوری نوٹ پھر جاری ہوجائیں گے۔

افراط زر کی بنیادی وجہ فائیدہ یا منافع نہیں بلکہ مجرمانہ طور اور مجرمانہ حد تک پرامیسوری نوٹ چھاپنا ہے۔

امریکہ کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ جتنے ڈالر چاہے ، الیکٹرانیکلی بنا کر دے سکتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ آج کی دنیا میں وہ صنعتی مقام نہیں رکھتا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد رکھتا تھا۔ لیکن کرنسی چھاپ چھاپ کر بانٹ کر امریکہ اپنی صنعت و حرفت سے کئی ہزار گنا پرامیسوری نوٹ فروخت کرچکا ہے۔ یہی حال کئی دوسرے ممالک کا ہے۔ یہ ایک مجرمانہ حرکت ہے، جس طرح 1930 کی دہائی میں سونے کے عوض نوٹ چھاپ چھاپ کر بانٹے گئے، وہ امریکیوں کے ساتھ جرم تھا، آج یہی جرم ساری دنیا کے ساتھ، سونے کے بعد، پہلے تیل کے ذریعے اوراب اس سے بھی بڑھ کر ملٹری طاقت کے ذریعے اپنی معاشی وسعت سے بڑھ کر امریکہ نے نوٹ چھاپ کر کررہا ہے۔

یورپ ، کل تک امریکہ کا ساتھی تھا، آج یورپ بھی اس ہرے ہرے دھوکے سے بچنے کے راستے ڈھونڈھ رہا ہے، اور چین ایک نیا معاشی مخالف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یورپ اور چین دونوں کا اعتماد امریکی ڈالر پر کم ہوتا جارہا ہے۔ اور دونوں دولت کی ترسیل کے لئے نئی ڈیجیٹل کرنسی ڈھونڈھ رہے ہوں ۔ ایسی کرنسی جو معاشی دولت کی درست یا بہتر ترجمان ہو۔ یہ صورت حال امریکہ بہادر کو کسی طور قابل قبول نہیں۔ لہذا یہ کب جنگ کی صورت میں بدل جائے، کچھ کہا نہیں جاسکتا، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگلے 5 سے دس سالوں میں ڈالر کا وہ رتبہ برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔

بنیادی نکتہ اس تفصیل کا یہ ہے کہ ، افراط زر ، منافع کی زیادتی یا ٹیکس کی کمی کی وجہ سے نہیں ، بلکہ معاشی وسعت کے مقابلے میں پرامیسوری نوٹ (ڈالر) مجرمانہ حد تک چھاپ کر بانٹنے میں ہے۔ آج یہ حال ہے کہ امریکہ کی سب سے بڑی ایکسپورٹ، یہ پرامیسوری نوٹ ہیں۔ امریکہ اپنے ہی جاری کئے ہوئے پرامیسوری نوٹ (ڈالر) کے مقابلے میں وہ صنعتی پیداوار نہیں رکھتا جو ڈالر کی درست ترجمان ہو۔ اس کا علاج امریکہ اپنی فوجی طاقت سے ممالک پر سینکشنز لگا کر کرتا ہے اور اس طرح اپنے ہی ڈالر کی شکل میں کئے ہوئے وعدے کی وعدہ خلافی کرتا ہے۔ یہ صورت حال زیادہ دن برقرار نہیں رہ سکتی۔ دنیا کے ہر ملک کو اس مسئلہ کا اندازہ ہے،
بہت سی قومیں اور ممالک، اپنی ہی دولت کو امریکہ کے ہاتھوں لٹا چکے ہیں یا امریکہ نے سینکزنز لگا کر یا ایسی دولت کو بلیک منی قرار دے کر اپنے وعدے سے وعدہ خلافی کی ہے۔

کچھ معصوم لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر دولت ان کے ہاتھ میں سنے یا چاندی کی شکل میں یا تیل کی شکل میں ہوگی تو کوئی چھو نہیں سکتا۔ میں اس پر صرف ہنس سکتا ہوں۔ اس لئے کہ بہت دور نا جائیے، صرف دلی کا لال قلعہ یا لاہور کا لال قلعہ دیکھ لیجئے، یہ ایک زمانے میں سونے، چاندی، ہیرے جوہرات کے بہت ہی بڑے بڑے والٹ تھے۔ آج یہ والٹ خالی پڑے ہیں اور آنے جانے والوں کا منہہ چڑا رہے ہیں۔

اب وہ کونسی کرنسی ہوگی جو عالمی سطح پر قبول کی جائے اور ، معیشیت کی درست ترجمان بھی ہو اور افراط زر سے بچاؤ کا ذریعی بھی ہو۔ یہ جب ہی ممکن ہے جب ڈالر صرف امریکی سٹیٹس جاری نا کریں بلکہ ساری اقوام ایک ہی کرنسی استعمال کریں اور ہر ایک سٹیٹ ، اسی کرنسی کو جاری کرسکے۔ یہ دور کی کوڑی ہے، ایسا ہوگا یا نہیں ہوگا، اس میں آپ کا تکہ اور میرا تکہ دونوں کی کوئی اہمیت نہیں :)

حیرت ہے کہ آپ کو علم ہے کہ دو دفعہ1930 اور پھر 1970 میں گولڈ سے دور ہو کر چوری ہو چکی ہے تو تیسری دفعہ کیوں نہ ہو گی؟
 

سید رافع

محفلین
انسان کی بنیادی ضرورتیں ، روٹی، کپڑا، مکان اور توانائی ہیں، یہی وہ "دولت" ہے جس کا تبادلہ آج بارٹر کے بجائے، کرنسی سے ہوتا ہے۔۔ سونا ، چاندی نہیں۔ بھوک سے مرتے ہوئے کوئی بھی اپنا سونا نہیں کھا سکتا۔
دولت کے بارٹر کی جگہ ، کسی متبادل "کرنسی" چاہے وہ پرامیسوری نوٹ (ڈالر، روپیہ، دینا، یورو، آر ایم بی) ہو یا پھر ڈیجیٹل کرنسی ہو ، یہ صرف اور صرف دولت کی ترسیل اور دولت کے سٹوریج کا ذریعہ ہیں۔

کرنسی اگر پرامیسوری نوٹ، ہے تو اس کو جتنا چاہے چھاپ لو بلکہ اب تو صرف دولت مند، اپنی مرضی سے جتنی کرنسی، چاہے ، الیکٹرانک فارم میں جاری کرسکتا ہے۔ کاغذی ، نوٹ کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔

اسی طرح یہ تصور کرنا کہ ، کوئی دھات، سونا یا چاندی محدود رہے گی ، اس لئے کرنسی کے لئے اچھی ہے ، ایک مناسب سوچ نہیں۔ یا یہ تصور کرنا کہ کرپٹو کرنسی، محدود حل رکھتی ہے اس لئے یہ بہتر کرنسی ہے۔ یہ بھی کوئی بہتر حل نہیں ہے۔ کیوں؟

اس لئے کہ دھات ، پھر تیل، کے خلاف پرامیسوری نوٹ اپنی مرضی سے جتنا چاہے چھاپ رہے ہیں، لہذا ڈیجیٹل کرنسی کے لئے آف لائین ، پرامیسوری نوٹ پھر جاری ہوجائیں گے۔

افراط زر کی بنیادی وجہ فائیدہ یا منافع نہیں بلکہ مجرمانہ طور اور مجرمانہ حد تک پرامیسوری نوٹ چھاپنا ہے۔

امریکہ کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ جتنے ڈالر چاہے ، الیکٹرانیکلی بنا کر دے سکتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ آج کی دنیا میں وہ صنعتی مقام نہیں رکھتا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد رکھتا تھا۔ لیکن کرنسی چھاپ چھاپ کر بانٹ کر امریکہ اپنی صنعت و حرفت سے کئی ہزار گنا پرامیسوری نوٹ فروخت کرچکا ہے۔ یہی حال کئی دوسرے ممالک کا ہے۔ یہ ایک مجرمانہ حرکت ہے، جس طرح 1930 کی دہائی میں سونے کے عوض نوٹ چھاپ چھاپ کر بانٹے گئے، وہ امریکیوں کے ساتھ جرم تھا، آج یہی جرم ساری دنیا کے ساتھ، سونے کے بعد، پہلے تیل کے ذریعے اوراب اس سے بھی بڑھ کر ملٹری طاقت کے ذریعے اپنی معاشی وسعت سے بڑھ کر امریکہ نے نوٹ چھاپ کر کررہا ہے۔

یورپ ، کل تک امریکہ کا ساتھی تھا، آج یورپ بھی اس ہرے ہرے دھوکے سے بچنے کے راستے ڈھونڈھ رہا ہے، اور چین ایک نیا معاشی مخالف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ یورپ اور چین دونوں کا اعتماد امریکی ڈالر پر کم ہوتا جارہا ہے۔ اور دونوں دولت کی ترسیل کے لئے نئی ڈیجیٹل کرنسی ڈھونڈھ رہے ہوں ۔ ایسی کرنسی جو معاشی دولت کی درست یا بہتر ترجمان ہو۔ یہ صورت حال امریکہ بہادر کو کسی طور قابل قبول نہیں۔ لہذا یہ کب جنگ کی صورت میں بدل جائے، کچھ کہا نہیں جاسکتا، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگلے 5 سے دس سالوں میں ڈالر کا وہ رتبہ برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔

بنیادی نکتہ اس تفصیل کا یہ ہے کہ ، افراط زر ، منافع کی زیادتی یا ٹیکس کی کمی کی وجہ سے نہیں ، بلکہ معاشی وسعت کے مقابلے میں پرامیسوری نوٹ (ڈالر) مجرمانہ حد تک چھاپ کر بانٹنے میں ہے۔ آج یہ حال ہے کہ امریکہ کی سب سے بڑی ایکسپورٹ، یہ پرامیسوری نوٹ ہیں۔ امریکہ اپنے ہی جاری کئے ہوئے پرامیسوری نوٹ (ڈالر) کے مقابلے میں وہ صنعتی پیداوار نہیں رکھتا جو ڈالر کی درست ترجمان ہو۔ اس کا علاج امریکہ اپنی فوجی طاقت سے ممالک پر سینکشنز لگا کر کرتا ہے اور اس طرح اپنے ہی ڈالر کی شکل میں کئے ہوئے وعدے کی وعدہ خلافی کرتا ہے۔ یہ صورت حال زیادہ دن برقرار نہیں رہ سکتی۔ دنیا کے ہر ملک کو اس مسئلہ کا اندازہ ہے،
بہت سی قومیں اور ممالک، اپنی ہی دولت کو امریکہ کے ہاتھوں لٹا چکے ہیں یا امریکہ نے سینکزنز لگا کر یا ایسی دولت کو بلیک منی قرار دے کر اپنے وعدے سے وعدہ خلافی کی ہے۔

کچھ معصوم لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر دولت ان کے ہاتھ میں سنے یا چاندی کی شکل میں یا تیل کی شکل میں ہوگی تو کوئی چھو نہیں سکتا۔ میں اس پر صرف ہنس سکتا ہوں۔ اس لئے کہ بہت دور نا جائیے، صرف دلی کا لال قلعہ یا لاہور کا لال قلعہ دیکھ لیجئے، یہ ایک زمانے میں سونے، چاندی، ہیرے جوہرات کے بہت ہی بڑے بڑے والٹ تھے۔ آج یہ والٹ خالی پڑے ہیں اور آنے جانے والوں کا منہہ چڑا رہے ہیں۔

اب وہ کونسی کرنسی ہوگی جو عالمی سطح پر قبول کی جائے اور ، معیشیت کی درست ترجمان بھی ہو اور افراط زر سے بچاؤ کا ذریعی بھی ہو۔ یہ جب ہی ممکن ہے جب ڈالر صرف امریکی سٹیٹس جاری نا کریں بلکہ ساری اقوام ایک ہی کرنسی استعمال کریں اور ہر ایک سٹیٹ ، اسی کرنسی کو جاری کرسکے۔ یہ دور کی کوڑی ہے، ایسا ہوگا یا نہیں ہوگا، اس میں آپ کا تکہ اور میرا تکہ دونوں کی کوئی اہمیت نہیں :)

معاملہ کرنسی کی گولڈ، پیپر یا برقی حالت کا نہیں بلکہ سود اور غلام بنانے کا ہے۔ آپ خود ہی تاریخ بتا رہے ہیں کہ یہ لوگ ڈالر چھاپ کر افراط زر بھی کرتے ہیں اور جنگ اور سینکشنز سے قوموں کو اپنی اطاعت پر مجبور بھی کرتے ہیں۔ کیا یہ گروہ اب بھی یہی نہیں کرے گا؟
 

سید رافع

محفلین
افراط زر کی بنیادی وجہ فائیدہ یا منافع نہیں بلکہ مجرمانہ طور اور مجرمانہ حد تک پرامیسوری نوٹ چھاپنا ہے۔

یہ آدھا سچ ہے۔ مکمل سچ یہ ہے کہ گولڈ سے زائد نوٹ بھی چھاپ رہے ہیں اور سود پر ان نوٹوں کو قرضے پر بھی دے رہے ہیں۔

نوٹ زیادہ ہو جائیں تو سب کے پاس رقم آجاتی ہے۔ اس سے اشیاء مہنگی ہو جاتیں ہیں یعنی افراط زر۔

سود زیادہ ہو جائے تو اشیاء بنانے کے کاروبار ہی نہیں ہوتے۔ جب کاروبار نہیں تو نوکری نہیں۔ جب نوکری نہیں تو سیلری نہیں۔ جب سیلری نہیں تو خریداری نہیں۔ جب کوئی خریدار ہی نہیں تو اشیاء سستی۔ یعنی پھر افراط زر۔
 

سید رافع

محفلین
کچھ معصوم لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر دولت ان کے ہاتھ میں سنے یا چاندی کی شکل میں یا تیل کی شکل میں ہوگی تو کوئی چھو نہیں سکتا۔ میں اس پر صرف ہنس سکتا ہوں۔ اس لئے کہ بہت دور نا جائیے، صرف دلی کا لال قلعہ یا لاہور کا لال قلعہ دیکھ لیجئے، یہ ایک زمانے میں سونے، چاندی، ہیرے جوہرات کے بہت ہی بڑے بڑے والٹ تھے۔ آج یہ والٹ خالی پڑے ہیں اور آنے جانے والوں کا منہہ چڑا رہے ہیں۔

آپ فطرت کے چھن جانے سے کمی محسوس نہیں کرتے؟ یہی گفتگو ہم بالمشافہ کریں یا آن لائن کوئی فرق ہی نہیں؟ گھوڑے جو آپ سے محبت کریں آپ ان سے، وہ گاڑی یا جیٹ جہاز کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟ گولڈ کی چمکتی دمکتی ڈلیاں جو دل میں خوشی پیدا کریں موبائل پر چلتی بٹ کوائن ایپ کی طرح کیسے ہو سکتیں ہیں؟ کیا بادشاہوں اور انکے خزانے سے پیدا ہونے والی تہذیب اور ان سے وفاداری جمہوریت کے الیکشنز کی طرح مزہ دینے والی ہیں؟ اونٹوں گھوڑوں پر ہوتے دھیرے دھیرے پر تہذیب سفر کیا کبھی بھی جہاز کے تیز سفر جیسے ہو سکتے ہیں؟
 

زیک

مسافر
میرا خیال ہے آپ ہسپانوی سلطنت کے اس دور کی طرف توجہ دلانا چاہ رہے تھے۔

1500 سے 1650 کے درمیان ، ہسپانویوں نے نیو ورلڈ سے 181 ٹن سونا اور 16،000 ٹن چاندی کی درآمد کی۔ آج کے پیسوں میں ، اس قدر سونا تقریبا$ 4 بلین ڈالر کا ہوگا ، اور چاندی کی قیمت 7 بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہوگی۔ آج کی کھربوں ڈالر میں قومی بجٹ والی دنیا میں یہ بات کچھ خاص نہیں ہوگی ، لیکن اس زمانے میں ، یورپ میں قیمتوں میں 500 فیصدکا اضافہ ہوا۔ دوسرے لفظوں میں ، ایک روٹی 1600 میں 1500 کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ مہنگی تھی ، سونے اور چاندی کی درآمدات کا شکریہ۔

Between 1500 and 1650, the Spanish imported 181 tons of gold and 16,000 tons of silver from the New World. In today's money, that much gold would be worth nearly $4 billion, and the silver would be worth over $7 billion.8 This may not seem like a whole lot in a world with national budgets in the trillions of dollars, but during this span, prices in Europe rose by 500%; in other words, a loaf of bread was five times more expensive in 1650 than in 1500, thanks in great part to gold and silver imports.

Spanish Colonization Trivia


اگر اسی واقعے کی طرف اشارہ تھا تو اسکی سونے کی ذاتی حیثیت میں قدر ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ روٹی کا پانچ گنا قیمت میں بڑھ جانا لوگوں کی لالچ سے ہوا۔ سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ چودہویں صدی میں کیوں نہیں ہوا جب یورپ لنگڑے لولے پوپ اور چرچ سے وابستہ تھا؟ کیا وجہ ہے کہ سولہویں صدی میں یہ واقعہ ہوا؟ کیا وجہ ہے کہ یورپ غلط کار پادریوں سے جان چھڑا کر مذید خبطی و لالچی ہو گیا؟ کیا وجہ ہے کہ سائنس اور منطق کی تحریکوں کے کامیاب ہونے کے بعد یورپ کو اس قدر لالچی حکمران و عوام ملے جنہوں نے دولت کے پیچھے دوڑنے کی خاطر اپنے ہی لیے روٹی کو پانچ گنا مہنگا کر لیا؟

اصل بات یہ ہے کہ سولہویں صدی سے یورپ مذہب سے جان چھڑا کر عقلی طور پر دیوالیہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یورپ پوپ سے جان چھڑا کر عظیم اسلامی سلطنت کے روحانی انقلاب کو بھی اپنا یہاں برپا کرتا جس طرح اسکے سائنسدانوں نے علم دوستی، عدل اور فلاحی ریاست کے تصوارت اسلام سے مستعار لیے تھے۔
ذرا معاشیات کے بنیادی کانسیپٹ سمجھ لیں پھر یہاں بحث کریں۔ افراط زر کیا ہے؟ اگر سونا کرنسی ہو اور سونے کی سپلائی میں بہت اضافہ ہو جائے تو معیشت پر کیا اثر پڑے گا؟
 

سید رافع

محفلین
ذرا معاشیات کے بنیادی کانسیپٹ سمجھ لیں پھر یہاں بحث کریں۔ افراط زر کیا ہے؟ اگر سونا کرنسی ہو اور سونے کی سپلائی میں بہت اضافہ ہو جائے تو معیشت پر کیا اثر پڑے گا؟

آپکو گفتگو میں معاشیات کے بنیادی کانسیپٹ میں جھول دکھائی دیا؟
 

سید رافع

محفلین
میرا خیال ہے آپ ہسپانوی سلطنت کے اس دور کی طرف توجہ دلانا چاہ رہے تھے۔

1500 سے 1650 کے درمیان ، ہسپانویوں نے نیو ورلڈ سے 181 ٹن سونا اور 16،000 ٹن چاندی کی درآمد کی۔ آج کے پیسوں میں ، اس قدر سونا تقریبا$ 4 بلین ڈالر کا ہوگا ، اور چاندی کی قیمت 7 بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہوگی۔ آج کی کھربوں ڈالر میں قومی بجٹ والی دنیا میں یہ بات کچھ خاص نہیں ہوگی ، لیکن اس زمانے میں ، یورپ میں قیمتوں میں 500 فیصدکا اضافہ ہوا۔ دوسرے لفظوں میں ، ایک روٹی 1600 میں 1500 کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ مہنگی تھی ، سونے اور چاندی کی درآمدات کا شکریہ۔

Between 1500 and 1650, the Spanish imported 181 tons of gold and 16,000 tons of silver from the New World. In today's money, that much gold would be worth nearly $4 billion, and the silver would be worth over $7 billion.8 This may not seem like a whole lot in a world with national budgets in the trillions of dollars, but during this span, prices in Europe rose by 500%; in other words, a loaf of bread was five times more expensive in 1650 than in 1500, thanks in great part to gold and silver imports.

Spanish Colonization Trivia


اگر اسی واقعے کی طرف اشارہ تھا تو اسکی سونے کی ذاتی حیثیت میں قدر ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ روٹی کا پانچ گنا قیمت میں بڑھ جانا لوگوں کی لالچ سے ہوا۔ سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ چودہویں صدی میں کیوں نہیں ہوا جب یورپ لنگڑے لولے پوپ اور چرچ سے وابستہ تھا؟ کیا وجہ ہے کہ سولہویں صدی میں یہ واقعہ ہوا؟ کیا وجہ ہے کہ یورپ غلط کار پادریوں سے جان چھڑا کر مذید خبطی و لالچی ہو گیا؟ کیا وجہ ہے کہ سائنس اور منطق کی تحریکوں کے کامیاب ہونے کے بعد یورپ کو اس قدر لالچی حکمران و عوام ملے جنہوں نے دولت کے پیچھے دوڑنے کی خاطر اپنے ہی لیے روٹی کو پانچ گنا مہنگا کر لیا؟

اصل بات یہ ہے کہ سولہویں صدی سے یورپ مذہب سے جان چھڑا کر عقلی طور پر دیوالیہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یورپ پوپ سے جان چھڑا کر عظیم اسلامی سلطنت کے روحانی انقلاب کو بھی اپنا یہاں برپا کرتا جس طرح اسکے سائنسدانوں نے علم دوستی، عدل اور فلاحی ریاست کے تصوارت اسلام سے مستعار لیے تھے۔

ہسپانوی سلطنت میں ہونے والے اس واقعہ سے ١٠٠ سال قبل یعنی 1336 میں طاعون کی وجہ سے آبادی کم ہوٙی تھی۔ سولہویں صدی میں لوگ پوپ سے آزاد ہو کر ہر قسم کی دنیاوی لالچ میں مبتلا ہوئے اور امریکہ کا سونا یورپ میں بھر دیا۔ جس سے افراط زر ہوا۔ لیکن اب گولڈ محدود ہے۔

گولڈ ایک محدود مقدار میں دنیا میں میسر ہے۔ اس کے استعمال سے سیاست دان اور سینٹرل بینک کنٹرول میں رہیں گے۔

فی ایٹ fiat money یا کاغذی کرنسی کے استعمال سے تجربہ بتاتا ہے کہ سینٹرل بینک اور سیاست دان جرم کر کے بے حد و حساب نوٹ چھاپتے ہیں۔ جیسا کہ 1930 میں ہوا یا 1971 کے بعد سے ہو رہا ہے۔

اب بٹ کوائن سے معیشت کو ہی سکیڑ دیا جائے گا۔
 

سید رافع

محفلین
میرا خیال ہے آپ ہسپانوی سلطنت کے اس دور کی طرف توجہ دلانا چاہ رہے تھے۔

1500 سے 1650 کے درمیان ، ہسپانویوں نے نیو ورلڈ سے 181 ٹن سونا اور 16،000 ٹن چاندی کی درآمد کی۔ آج کے پیسوں میں ، اس قدر سونا تقریبا$ 4 بلین ڈالر کا ہوگا ، اور چاندی کی قیمت 7 بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہوگی۔ آج کی کھربوں ڈالر میں قومی بجٹ والی دنیا میں یہ بات کچھ خاص نہیں ہوگی ، لیکن اس زمانے میں ، یورپ میں قیمتوں میں 500 فیصدکا اضافہ ہوا۔ دوسرے لفظوں میں ، ایک روٹی 1600 میں 1500 کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ مہنگی تھی ، سونے اور چاندی کی درآمدات کا شکریہ۔

Between 1500 and 1650, the Spanish imported 181 tons of gold and 16,000 tons of silver from the New World. In today's money, that much gold would be worth nearly $4 billion, and the silver would be worth over $7 billion.8 This may not seem like a whole lot in a world with national budgets in the trillions of dollars, but during this span, prices in Europe rose by 500%; in other words, a loaf of bread was five times more expensive in 1650 than in 1500, thanks in great part to gold and silver imports.

Spanish Colonization Trivia


اگر اسی واقعے کی طرف اشارہ تھا تو اسکی سونے کی ذاتی حیثیت میں قدر ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ روٹی کا پانچ گنا قیمت میں بڑھ جانا لوگوں کی لالچ سے ہوا۔ سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ چودہویں صدی میں کیوں نہیں ہوا جب یورپ لنگڑے لولے پوپ اور چرچ سے وابستہ تھا؟ کیا وجہ ہے کہ سولہویں صدی میں یہ واقعہ ہوا؟ کیا وجہ ہے کہ یورپ غلط کار پادریوں سے جان چھڑا کر مذید خبطی و لالچی ہو گیا؟ کیا وجہ ہے کہ سائنس اور منطق کی تحریکوں کے کامیاب ہونے کے بعد یورپ کو اس قدر لالچی حکمران و عوام ملے جنہوں نے دولت کے پیچھے دوڑنے کی خاطر اپنے ہی لیے روٹی کو پانچ گنا مہنگا کر لیا؟

اصل بات یہ ہے کہ سولہویں صدی سے یورپ مذہب سے جان چھڑا کر عقلی طور پر دیوالیہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یورپ پوپ سے جان چھڑا کر عظیم اسلامی سلطنت کے روحانی انقلاب کو بھی اپنا یہاں برپا کرتا جس طرح اسکے سائنسدانوں نے علم دوستی، عدل اور فلاحی ریاست کے تصوارت اسلام سے مستعار لیے تھے۔

آج 200 سال ہونے کو آئے ہیں۔ ورلڈ وار اول و دوئم لڑ لی اسی لالچی اور احمق یورپ کے ہاتھوں اور بعض لوگ اب بھی سمجھتے ہیں کہ دنیا کا مسئلہ مانیٹری پالیسی یا کرنسی ہے۔

دنیا کا مسئلہ دولت کو استعمال کرنے کے اخلاق نہ جاننا ہے۔ کچھ مال اس پر بھی خرچ کریں۔
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
بھائی کیا آپ اسلامک بینکنگ کو حلال کہہ رہے ہیں؟
حضور میری کیا مجال کہ میں ان نازک معاملات میں کچھ کہہ سکوں۔ میں تو فقط سوال پوچھنے کا سزاوار ہوں اگر آپ حضرات علم میں اضافہ فرمائیں تو عین علم دوستی ہو گی۔
 
اسکا پیمانہ کیا ہو گا؟ مطلب ٹیسٹ کیسے لیں گے اگر بحث ہی موقوف کر دی۔
برادر من، سیکھنے کے لئے کچھ یونیورسٹیز کے بارے میں معلومات فراہم کررہا ہوں۔

The annual list price to attend Southern Methodist University on a full time basis for 2018/2019 is $74,737
Annual Cost Of A Harvard Business School MBA $148،000
Georgia Tech MBA tuition is one of the more reasonably priced MBAs among top programs $59،000۔.
The cost of attending the GSB - Stanford MBA Program - is the same for both U.S. and international students. The cost of tuition for the 2019-2020 school year was $73,062.

آپ گوگل کر سکتے ہیں، اپنی آسانی کے لئے۔ سود یعنی منافع، اس پر ٹیکس، افراط زر، اور اسی طرح کے مالی نظریات بآسانی سمجھ میں آجائیں گے۔ کرنسی اور دولت کا فرق بھی سمجھ آجائے گا، اور ڈھائی فی صد خیرات کردینے والے ممالک کا جی ڈی پی بھی سامنے آجائے گا اور سمجھ میں جائے گا۔ اور 20 فی صد ٹیکس ادا کرنے والے ممالک کا جی ڈی پی بھی۔ یہ طعنہ نہیں ہے۔ معلومات ہیں اس کو ایسے ہی لیجئے۔ اور دیکھئے کہ ان یونیرسٹیوں میں کتنے لوگ ڈاخل ہونے کے لئے لائین لگاتے ہیں اور کتنوں کو موقع ملتا ہے کہ یہاں سے پڑھ سکیں۔ مدافعتی انداز اپنانے سے علم حاصل نہیں ہوسکتا۔
 

سید رافع

محفلین
برادر من، سیکھنے کے لئے کچھ یونیورسٹیز کے بارے میں معلومات فراہم کررہا ہوں۔

The annual list price to attend Southern Methodist University on a full time basis for 2018/2019 is $74,737
Annual Cost Of A Harvard Business School MBA $148،000
Georgia Tech MBA tuition is one of the more reasonably priced MBAs among top programs $59،000۔.
The cost of attending the GSB - Stanford MBA Program - is the same for both U.S. and international students. The cost of tuition for the 2019-2020 school year was $73,062.

آپ گوگل کر سکتے ہیں، اپنی آسانی کے لئے۔ سود یعنی منافع، اس پر ٹیکس، افراط زر، اور اسی طرح کے مالی نظریات بآسانی سمجھ میں آجائیں گے۔ کرنسی اور دولت کا فرق بھی سمجھ آجائے گا، اور ڈھائی فی صد خیرات کردینے والے ممالک کا جی ڈی پی بھی سامنے آجائے گا اور سمجھ میں جائے گا۔ اور 20 فی صد ٹیکس ادا کرنے والے ممالک کا جی ڈی پی بھی۔ یہ طعنہ نہیں ہے۔ معلومات ہیں اس کو ایسے ہی لیجئے۔ اور دیکھئے کہ ان یونیرسٹیوں میں کتنے لوگ ڈاخل ہونے کے لئے لائین لگاتے ہیں اور کتنوں کو موقع ملتا ہے کہ یہاں سے پڑھ سکیں۔ مدافعتی انداز اپنانے سے علم حاصل نہیں ہوسکتا۔

میں باتوں میں تنوع سے گھبراتا نہیں۔ آپ کو بھی نہیں گھبرانا چاہیے۔ معاشیات اس قدر وسیع مضمون ہے کہ اس پر نوبل پرائز ملتا ہے۔ اسی بات کو واضح کرنے کے لیے ایک مختصر ویڈیو ہدیہ ہے۔

 

سید رافع

محفلین
حضور میری کیا مجال کہ میں ان نازک معاملات میں کچھ کہہ سکوں۔ میں تو فقط سوال پوچھنے کا سزاوار ہوں اگر آپ حضرات علم میں اضافہ فرمائیں تو عین علم دوستی ہو گی۔

بھائی مجال ہماری بھی نہیں۔ ہم بھی علماء کے خوشہ چیں ہیں۔ ان سے کسی قرینے کے بغیر بلا ضرورت آگے بڑھنے کو ایمان کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

اسلامک بینکنگ کمرشل بینکنگ کی طرح حرام ہے۔ مذید یہاں دیکھیں۔ اگر پھر مذید گفتگو چاہیں تو بندہ ناچیز حاضر خدمت ہے۔

سوالات برائے فصل اسلامی بینکاری | جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 

سید رافع

محفلین
برادر من، سیکھنے کے لئے کچھ یونیورسٹیز کے بارے میں معلومات فراہم کررہا ہوں۔

The annual list price to attend Southern Methodist University on a full time basis for 2018/2019 is $74,737
Annual Cost Of A Harvard Business School MBA $148،000
Georgia Tech MBA tuition is one of the more reasonably priced MBAs among top programs $59،000۔.
The cost of attending the GSB - Stanford MBA Program - is the same for both U.S. and international students. The cost of tuition for the 2019-2020 school year was $73,062.

آپ گوگل کر سکتے ہیں، اپنی آسانی کے لئے۔ سود یعنی منافع، اس پر ٹیکس، افراط زر، اور اسی طرح کے مالی نظریات بآسانی سمجھ میں آجائیں گے۔ کرنسی اور دولت کا فرق بھی سمجھ آجائے گا، اور ڈھائی فی صد خیرات کردینے والے ممالک کا جی ڈی پی بھی سامنے آجائے گا اور سمجھ میں جائے گا۔ اور 20 فی صد ٹیکس ادا کرنے والے ممالک کا جی ڈی پی بھی۔ یہ طعنہ نہیں ہے۔ معلومات ہیں اس کو ایسے ہی لیجئے۔ اور دیکھئے کہ ان یونیرسٹیوں میں کتنے لوگ ڈاخل ہونے کے لئے لائین لگاتے ہیں اور کتنوں کو موقع ملتا ہے کہ یہاں سے پڑھ سکیں۔ مدافعتی انداز اپنانے سے علم حاصل نہیں ہوسکتا۔

عزیزم، جب گفتگو میں کسی شخص کے دلائل کو پوری طرح انہی تعریفات کے تحت سمجھایا نہیں جاتا جن کو وہ جانتا ہے تو وہ گفتگو اس کے لیے غیر دلچسپ ہو جاتی ہے۔ وہ بور ہو کر کہتا ہےکہ سامنے والا اس موضوع کے اسرار و رموز تو کیا جانے اسے تو موضوع کی بنیاد ہی کا نہیں پتہ۔ میں نے یہ ایک قاعدہ بیان کیا ہے، اپنے لیے نہیں کہا۔ میں طفل مکتب ہی ہوں۔ طالب علم ہی ہوں۔

عموماً جب یہ صورتحال ہو تو علمی حلقوں میں ایسے میں سوال کرنا چاہیے کہ اس بارے میں آپکا کیا خیال ہے یا اس کے بارے میں تو آپ نے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ اس گفتگو میں کیا ہوا؟

جب جاسم محمد میاں نے یہ کہا کہ:

آپ سے اسی لئے کہا تھا کہ بجائے یہاں اُلٹی سیدھی باتیں لکھنے کہ کسی ایسی کرنسی پر کام کرنے کی کوشش کریں جس کی گزرتے وقت کے ساتھ قوت خرید میں کمی نہ آتی ہو۔ یعنی ایسی کرنسی جو افراط زر کا شکار نہ ہوتی ہو۔ لیکن آپ بجائے اس پر محنت کرنے کے پھر وہی مرغی کی ایک ٹانگ کہ بس سود کو ختم کردو۔

تو واضح ہے کہ وہ زچ ہو کر سمجھ رہے ہیں کہ بینک کے سود ختم کرنا حل نہیں بلکہ ایسی کرنسی حل ہے جو افراط زر کا شکار نہ ہوتی ہو۔ میرے نزدیک ایسی کرنسی ممکن نہیں۔ ان کے نزدیک بٹ کوائن ایک ایسی کرنسی ثابت ہو گی۔

جب میرا اصرار سود ہی کو ختم کرنے پر بڑھا تو جاسم محمد میاں کا کہنا تھا کہ سود کے ذریعے بینک افراط زر سے ہونے والا اپنا نقصان پورا کرتا ہے۔ ان کے اعصاب پر موجودہ علامی مالیاتی نظام اسقدر حاوی ہے کہ وہ اس فریم ورک سے باہر نکل کر چند قدم چلنے کو بھی اپنی علمی جستجو کہ خلاف سمجھتے ہیں۔ میرا مؤقف یہ ہے کہ صرف بینک کا قرضہ ہی محترم کیوں کہ افراط زر سے بچایا جائے؟ عام لوگوں کی جیب میں رکھا پیسہ بھی تو ہر لمحہ افراط زر کا شکار ہے۔ جیسے وہ نقصان برداشت کرتے ہیں بینک بھی کریں۔ جس نظام کی بنیاد ہی غیر عادلانہ ہے وہ کیونکر معاشرے میں کرپشن نہ لائے گا؟

لیکن ایک ایسے عالمی مالیاتی نظام میں جہاں ڈالر اور دیگر قومی کرنسیاں مسلسل افراط زر یا قوت خرید میں کمی کا شکار ہیں وہاں قرض پر سود لئے بغیر معیشت اور مالیاتی نظام کیسے چلے گا؟ قرض پر سود اس لئے لیا جاتا ہے تاکہ قرضہ واپسی کے دوران جو کرنسی کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی ہے، اس نقصان کو پورا کیا جا سکے۔

اس پر جاسم محمد میاں کا اصرار ہے کہ مالیاتی اعشاریے، کرنسی، افراط زر کی ہی فریم ورک سے وہ نیا مالیاتی نظام ترتیب دینے کی گفتگو میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ چنانچہ اب سے میں انہی معاشیات کی ٹرمز میں بات کرتا ہوں۔
جس ملک کی معیشت اور مالیاتی عشاریے مستحکم ہوں گے اس ملک کی قومی کرنسی کی افراط زر ان ممالک سے کم ہوگی جن کی معیشت مضبوط ہے نہ مالی حالات۔

جاسممحمد میاں سود اور افراط زر کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں۔ جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ سود پر قرضے دینے کی وجہ سے ہی تو افراط زر ہے۔ لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ افراط زر پہلے آیا اور بعد میں سود۔
میرا موقف تو واضح ہے کہ جب تک قومی کرنسیاں افراط زر کا شکار ہوتی رہیں گی، موجودہ مالیاتی نظام میں سے سود کو نکالا نہیں جا سکتا۔

جاسم محمد میاں کا اصرار ہے کہ کرنسی کی قدر جو سن 2000 میں ہے وہی سن 2020 میں ہونی چاہیے۔ حالانکہ کرنسی کی قدر قدرتی آفات کے تابع ہے۔ سو ایسی کرنسی جو اپنی قدر ایک سی رکھتی ہو اس کو دریافت کرنے سے پہلے آپکو اتنی قدرت ہونی چاہیے کہ قدرتی آفات آپ کے زیر اطاعت ہوں۔ مجھے اسکا نسخہ پتہ ہے۔
ہاں اگر اقوام عالم کوئی ایسی کرنسی دریافت کرلیتی ہیں جو وقت گزرنے کے باوجود اپنی قوت خرید برقرار رکھ سکتی ہو تو اس صورت میں اس سودی نظام کو خیرباد کہا جا سکتا ہے۔

اب میں نے جوں ہی کہا کہ:
ایسی کرنسی جو افراط زر کا شکار ہی نہ ہو، نہ آج ہے اور نہ کل ہو گی۔ البتہ سونے اور چاندی ذاتی حیثیت میں اپنی قدر رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کی دی ہوئی کرنسی ہے۔ پیپر کرنسی کی کوئی ذاتی قدر نہیں۔ ردی ہے۔

تو زیک میاں کیونکہ ایک من چلے نوجوان ہیں سو انکا قہقہ محفل کی فضاؤں میں تحلیل ہوا۔

میں نے کہا ہنس لیں تو پوچھوں:
بھائی کچھ بتا کر ہنسا کریں۔ آپ یوں ہنستے ہیں کہ سامنے والا احمق محسوس ہوتا ہے۔ جبکہ ہماری نظر میں بات اسکے بالکل برعکس ہے۔

اس پر وہ 400 سال پیچھے چلے گئے:
کچھ ہسپانوی ایمپائر کی امریکہ میں سونے چاندی کی کانوں کا معیشت پر اثر کے بارے میں ہی مطالعہ کر لیں

وہ واقعہ یوں تھا:
1500 سے 1650 کے درمیان ، ہسپانویوں نے نیو ورلڈ سے 181 ٹن سونا اور 16،000 ٹن چاندی کی درآمد کی۔ آج کے پیسوں میں ، اس قدر سونا تقریبا$ 4 بلین ڈالر کا ہوگا ، اور چاندی کی قیمت 7 بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہوگی۔ آج کی کھربوں ڈالر میں قومی بجٹ والی دنیا میں یہ بات کچھ خاص نہیں ہوگی ، لیکن اس زمانے میں ، یورپ میں قیمتوں میں 500 فیصدکا اضافہ ہوا۔ دوسرے لفظوں میں ، ایک روٹی 1600 میں 1500 کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ مہنگی تھی ، سونے اور چاندی کی درآمدات کا شکریہ۔

کیونکہ زیک میاں کی امید تھی کہ میں یہ کہوں گا کہ واقعی جب سونا کرنسی ہو اور ایک دم زیادہ سونا دریافت ہو جائے تو 100 سال میں افراط زر وقوع پذیر ہوتا ہے اور قیمتیں 5 گنا بڑھ جاتی ہیں۔ اس کے برعکس میں نے لڑی کے عنوان کے تحت اس افراط زر کو مذہب سے دوری تعبیر کیا۔ یعنی یورپی لوگوں نے لالچ کی۔
اگر اسی واقعے کی طرف اشارہ تھا تو اسکی سونے کی ذاتی حیثیت میں قدر ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ روٹی کا پانچ گنا قیمت میں بڑھ جانا لوگوں کی لالچ سے ہوا۔

زیک میاں کیونکہ موجودہ مالیاتی ٹرمز کو ہی سمجھتے ہیں اور آزاد گفتگو اور نئے زاویوں سے گفتگو کے قائل معلوم نہیں ہوتے سو کہا:
ذرا معاشیات کے بنیادی کانسیپٹ سمجھ لیں پھر یہاں بحث کریں۔ افراط زر کیا ہے؟ اگر سونا کرنسی ہو اور سونے کی سپلائی میں بہت اضافہ ہو جائے تو معیشت پر کیا اثر پڑے گا؟

حالانکہ معاشیات کو سمجھنے کے لیے سیاست، مذہب، رواج، تاریخ، فوج، جغرافیہ، موسمیاتی تبدیلیوں سب پر گفتگو کرنی ہوتی ہے۔ بات تہہ در تہہ عوامل کو سمجھنے انکو عدل سے جانچنے سے سمجھ میں آتی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top