غزل برائے اصلاح

فیضان قیصر

محفلین
جسے دیکھیے وہ مریضِ انا ہے
مرض غالِباً یہ وبا بن چکا ہے
چھٹی گرد منظر سے تب یہ کھلا ہے
تعلق لڑائی میں مارا گیا ہے
میں دشتِ جفا کا مسافر رہا ہوں
الم آشنا ہوں خدا جانتا ہے
مقید نہ کر طائرِ فکر کو تُو
کہ منطق کی پرواز عقدہ کشا ہے
بہلتا نہیں ہوں میں جھوٹی ادا سے
مرا دل محبت کو پہچانتا ہے
عجب رنگ ہے ان دنوں میرے دل کا
نہ خوش آشنا ہے نہ ٖغم آشنا ہے
سبھی سے ہی تُو مسکرا کر ملا کر
کسی کو ترے غم سے کیا واسطہ ہے
انھوں نے تو فیضان ہے تجھ کو پایا
ذرا تُو بتا نا تجھے کیا ملا ہے
 
ہماری صلاح

عجب رنگ ہے ان دنوں میرے دل کا
نہ خوش آشنا ہے نہ ٖغم آشنا ہے

خوشی آشنا ہے نہ غم آشنا ہے

انھوں نے تو فیضان ہے تجھ کو پایا
ذرا تُو بتا نا تجھے کیا ملا ہے

انہوں نے تو پایا ہے فیضان تجھ کو
 
سر ! کیا انا،تا، کا ،نا وغیرہ کا قوافی ،،طہ،، ہو سکتا ہے؟
جی، ہوسکتا ہے.
یہ جس کو عرف عام میں سلسلہ والی ہ کہتے ہیں، اس پر ختم ہونے والے الفاظ کو الف پر ختم ہونے الفاظ کا قافیہ بنایا جاسکتا ہے اگر مطلع میں کوئی مخصوص بندش نہ قائم کی گئی ہو.
 
جسے دیکھیے وہ مریضِ انا ہے
مرض غالِباً یہ وبا بن چکا ہے
چھٹی گرد منظر سے تب یہ کھلا ہے
تعلق لڑائی میں مارا گیا ہے
میں دشتِ جفا کا مسافر رہا ہوں
الم آشنا ہوں خدا جانتا ہے
مقید نہ کر طائرِ فکر کو تُو
کہ منطق کی پرواز عقدہ کشا ہے
بہلتا نہیں ہوں میں جھوٹی ادا سے
مرا دل محبت کو پہچانتا ہے
عجب رنگ ہے ان دنوں میرے دل کا
نہ خوش آشنا ہے نہ ٖغم آشنا ہے
سبھی سے ہی تُو مسکرا کر ملا کر
کسی کو ترے غم سے کیا واسطہ ہے
انھوں نے تو فیضان ہے تجھ کو پایا
ذرا تُو بتا نا تجھے کیا ملا ہے
اچھی غزل ہے، ماشاءاللہ. جناب خلیل صاحب کی اصلاح نے اور نکھار دیا ہے. مزید بہتری استاد محترم ہی تجویز کرسکتے ہیں.
 

الف عین

لائبریرین
آخری دو اشعار پر ہی مزید اعتراض کیا جا سکتا ہے
سبھی سے ہی تُو مسکرا کر ملا کر
کسی کو ترے غم سے کیا واسطہ ہے
سبھی سے ہی... میں ہی کا اضافہ اور دو بار 'کر' کچھ گراں گزرتے ہیں، الفاظ بدل دیں

انھوں نے تو فیضان ہے تجھ کو پایا
ذرا تُو بتا نا تجھے کیا ملا ہے
پہلے مصرع کی خلیل میاں کی، صلاح کے علاوہ دوسرے میں 'نا' بتا کے ساتھ 'بتانا' فعل لگتا ہے جب کہ شاید مراد ہے بتا نا! ( اس نا کو کچھ لوگ ناں بھی لکھتے ہیں جو اگرچہ غلط ہے لیکن محض سمجھانے کے لئے لکھ رہا ہوں، الفاظ بدل کر کوشش کریں
 

فیضان قیصر

محفلین
آخری دو اشعار پر ہی مزید اعتراض کیا جا سکتا ہے
سبھی سے ہی تُو مسکرا کر ملا کر
کسی کو ترے غم سے کیا واسطہ ہے
سبھی سے ہی... میں ہی کا اضافہ اور دو بار 'کر' کچھ گراں گزرتے ہیں، الفاظ بدل دیں

شکریہ سر
انھوں نے تو فیضان ہے تجھ کو پایا
ذرا تُو بتا نا تجھے کیا ملا ہے
پہلے مصرع کی خلیل میاں کی، صلاح کے علاوہ دوسرے میں 'نا' بتا کے ساتھ 'بتانا' فعل لگتا ہے جب کہ شاید مراد ہے بتا نا! ( اس نا کو کچھ لوگ ناں بھی لکھتے ہیں جو اگرچہ غلط ہے لیکن محض سمجھانے کے لئے لکھ رہا ہوں، الفاظ بدل کر کوشش کریں
 

فیضان قیصر

محفلین
آخری دو اشعار پر ہی مزید اعتراض کیا جا سکتا ہے
سبھی سے ہی تُو مسکرا کر ملا کر
کسی کو ترے غم سے کیا واسطہ ہے
سبھی سے ہی... میں ہی کا اضافہ اور دو بار 'کر' کچھ گراں گزرتے ہیں، الفاظ بدل دیں

انھوں نے تو فیضان ہے تجھ کو پایا
ذرا تُو بتا نا تجھے کیا ملا ہے
پہلے مصرع کی خلیل میاں کی، صلاح کے علاوہ دوسرے میں 'نا' بتا کے ساتھ 'بتانا' فعل لگتا ہے جب کہ شاید مراد ہے بتا نا! ( اس نا کو کچھ لوگ ناں بھی لکھتے ہیں جو اگرچہ غلط ہے لیکن محض سمجھانے کے لئے لکھ رہا ہوں، الفاظ بدل کر کوشش کریں

کیا یوں بہتر رہے گا

سرِ بزم یاروں سے ہنس کے ملا کر

یا
سرِ بزمِ یاراں فقط خوش رہا کر

کسی کو ترے غم سے کیا واسطہ ہے
انہوں نے تو پایا ہے فیضان تجھ کو
ذرا تو بتا اب تجھے کیا ملا ہے
 
آخری تدوین:

فیضان قیصر

محفلین
ہنس کے ملا کر.. بہتر ہے
مقطع درست ہو گیا

سران تینوں اشعار کے حوالے سے بھی رائے مطلوب ہے

انا درمیاں آگئی ہے ہمارے

وگرنہ تو اک کال کا فاصلہ ہے

سبھی کو ضرورت ہے اک دوسرے کی

محبت کا بندھن فقط واہمہ ہے

ترا مشورہ ہے بہت خوب لیکن

مرا دل کسی کی نہیں مانتا ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
سران تینوں اشعار کے حوالے سے بھی رائے مطلوب ہے

انا درمیاں آگئی ہے ہمارے

وگرنہ تو اک کال کا فاصلہ ہے

سبھی کو ضرورت ہے اک دوسرے کی

محبت کا بندھن فقط واہمہ ہے

ترا مشورہ ہے بہت خوب لیکن

مرا دل کسی کی نہیں مانتا ہے
پہلے دونوں اشعار تو درست لگ رہے ہیں لیکن تیسرا شعر واضح نہیں، کس بات کا مشورہ ہے، کچھ اس کا اشارہ تو کیا جائے!
 
Top