شکیب

محفلین
فقیہِ شہر کی اصطلاح کب سے شروع ہوئی؟ کسی کو کسی ریفرنس کا علم ہو تو بتائیں۔
فقیہ شہر
( فَقِیہِ شَہْر )
{ فَقی + ہے + شَہْر (فتح ش مجہول) }

تفصیلات


عربی میں ثلاثی مجرد سے مشتق اسم 'فقیہ' کو کسرہ اضافت کے ذریعے فارسی سے ماخوذ اسم 'شہر' کے ساتھ ملانے سے مرکب بنا جو اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً س سے پہلے ١٩٣٥ء کو "بالِ جبریل" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع : فُقَہائے شَہِر [فُقَہا + اے + شَہْر (فقہ ش مجہول)]
١ - کسی خاص علاقے یا شہر کا عالم، فقہی مسائل کا ماہر۔
"ماحول کی منافقت اور فقیہ شہر کی دو عملی کے زیر میں بجھی ہوئی دو دھاری تلوار سے بچنے کی کوئی راہ یا پناہ گاہ موصوف کو نظر آتی ہے تو وہ "سرمدِ عریاں" کی بارگاہ میں ہی نظر آتی ہے۔" ( ١٩٨٩ء، صحیفہ، لاہور، اپریل، جون، ٤٧ )

بشکریہ اردو لغت ڈاٹ انفو
 

جاسمن

لائبریرین
یہ غریب شہر ھیں دوستو نہ ڈرو تم انکے سوال پر
انھیں دے کے جھوٹی تسلیاں پھر وعدہ فرداپہ ٹال دو
 

سیما علی

لائبریرین
جس دیس کی کورٹ کچہری میں انصاف ٹکوں میں بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
 
امیرِ شہر سے سارا حساب لے لیں گے
غریبِ شہر کے بچے جوان ہونے دو
۔
سید حامد حسین شاہ
وہ الگ بات ہے کہ غریبِ شہر نسل در نسل غریب تر ہی ہو رہا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
حاکمِ شہر کی خواہش کہ حکومت کی جائے
ورنہ حالات تو ایسے ہیں کہ ہجرت کی جائے
انجم فاروق
 

سیما علی

لائبریرین
تُو حاکم ھے تو اِن آفات پر رو کیا رھا ھے ؟
ھمیں بتلا ھمارے دیس میں ھو کیا رھا ھے

رحمان فارس
 

سیما علی

لائبریرین
جس دیس کے عہدیداروں سے
عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں

جس دیس کے سادہ لوح انساں
وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں

اس دیس کے ہر اک لیڈر پر
سوال اٹھانا واجب ہے

اس دیس کے ہر اک حاکم کو
سولی پہ چڑھانا واجب ہے
فیض احمد فیض
 
Top