مکمل بارے آلو کا کچھ بیاں ہو جائے ۔ مشتاق احمد یوسفی

فرخ منظور

لائبریرین
بارے آلو کا کچھ بیاں ہو جائے
(مشتاق احمد یوسفی، خاکم بدہن)

دوسروں کو کیا نام رکھیں، ہم خود بیسیوں چیزوں سے چڑ تے ہیں۔ کرم کلا، پنیر، کمبل، کافی اور کافکا، عورت کا گانا، مرد کا ناچ، گیندے کا پھول، اتوار کا ملاقاتی، مرغی کا گوشت، پاندان، غرارہ، خوبصورت عورت کا شوہر۔۔۔ زیادہ حد ادب کہ مکمل فہرست ہمارے فرد گناہ سے بھی زیادہ طویل اور ہری بھری نکلے گی۔ گنہ گار سہی لیکن مرزا عبد الودود بیگ کی طرح یہ ہم سے آج تک نہیں ہوا کہ اپنے تعصبات پر معقولات کا نیم چڑھا کر دوسروں کو اپنی بے لطفی میں برابر کا شریک بنانے کی کوشش کی ہو۔ مرزا تو بقول کسے، غلط استدلال کے بادشاہ ہیں۔ ان کی حمایت و وکالت سے معقول سے معقول ’’کاز‘‘ نہایت لچر معلوم ہونے لگتا ہے۔ اس لئے ہم سب انہیں تبلیغ دین اور حکومت کی حمایت سے بڑی سختی سے باز رکھتے ہیں۔ ان کی ایک چڑ ہو تو بتائیں۔ فہرست رنگا رنگ ہی نہیں، اتنی غریب پرور بھی ہے کہ اس میں اس فقیر بے تقصیر کا نام بھی خاصی اونچی پوزیشن پر شامل رہ چکا ہے۔ بعد میں ہم سے یہ پوزیشن بینگن کے بھرتے نے چھین لی اور اس کی جیکی کینیڈی کے دولہا اوناسس نے ہتھیالی۔ مرزا کو آج جو چیز پسند ہے کل وہ دل سے اتر جائے گی اور پرسوں تک یقینا چڑ بن جائے گی۔ لوگ ہمیں مزرا کا ہمدم و ہمراز ہی نہیں، ہمزاد بھی کہتے ہیں۔ لیکن اس یگانگت اور تقرب کے باوجود ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ مرزا نے آلو اور ابو الکلام آزاد کو اول اول اپنی چڑ کیسے بنایا۔ نیز دونوں کو تہائی صدی سے ایک ہی بریکٹ میں کیوں بند کر رکھا ہے؟



بوئے یا سمن با قیست

مولانا کے باب میں مرزا کو جتنا کھرچا، تعصب کے ملمع کے نیچے خالص منطق کی یہ موٹی موٹی تہیں نکلتی چلی گئیں۔ ایک دن کئی وار خالی جانے کے بعد ارشاد فرمایا، ’’ایک صاحب طرز انشاء پردازنے بانیٔ ندوۃ العلماء کے بارے میں لکھا ہے کہ شبلی پہلا یونانی تھا جو مسلمانوں میں پیدا ہوا۔ اس پر مجھے یہ گرہ لگانے کی اجازت دیجئے کہ یونانیوں کی اس اسلامی شاخ میں ابو الکلام آخری اہل قلم تھا جس نے اردو رسم الخط میں عربی لکھی۔‘‘ ہم نے کہا، ’’ان کی شفاعت کے لئے یہی کافی ہے کہ انہوں نے مذہب میں فلسفے کا رس گھولا۔ اردو کو عربی کا سوز و آہنگ بخشا۔‘‘ فرمایا، ’’ان کی نثر کا مطالعہ ایسا ہے جیسے دلدل میں تیرنا! اسی لئے مولوی عبد الحق اعلانیہ انہیں اردو کا دشمن کہتے تھے۔ علم و دانش اپنی جگہ مگر اس کو کیا کیجئے کہ وہ اپنی انا اور اردو پر آخری دم تک قابو نہ پاسکے۔ کبھی کبھار رمضان میں ان کا ترجمان القرآن پڑھتا ہوں تو (اپنے دونوں گالوں پر تھپڑ مارتے ہوئے) نعوذ باللہ محسوس ہوتا ہے گویا کلام اللہ کے پردے میں ابوالکلام بول رہا ہے!‘‘ ہم نے کہا، ’’لاحول ولاقوۃ!اس بزرگ کی تمام کردہ و ناکردہ خطائیں تمہیں صرف اس بناء پر معاف کر دینی چاہئیں کہ تمہاری طرح وہ بھی چائے کے رسیا تھے۔ کیا نام تھا ان کی پسندیدہ چائے کا؟ اچھا سا نام تھا، ہاں یاد آیا۔ وہائٹ جیسمین! یاسمن سفید!‘‘



شگفتہ ہوئے۔ فرمایا، ’’مولانا کا مشروب بھی ان کے مشرب کی مانند تھا۔ ٹوٹے ہوئے بتوں کو جوڑ جوڑ کر امام الہند نے ایسا معبود تراشنے کی کوشش کی جو اہل سومنات کو بھی قابل قبول ہو۔ یونانی فلسفے کی عینک سے جب انہیں دین میں دنیا او ر خدا میں نا خدا کا جلوہ نظر آنے لگا تو وہ مسلمان ہو گئے اور سچے دل سے اپنے آپ پر ایمان لے آئے۔ اسی طرح یہ چینی چائے محض اس لئے ان کے دل کو بھا گئی کہ اس میں چائے کے بجائے چنبیلی کے گجرے کی لپٹ آتی ہے۔ حالانکہ کوئی شخص جو چائے پینے کا ذرا بھی سلیقہ رکھتا ہے، اس لئے چائے پیتا ہے کہ اس میں چائے کی، فقط چائے کی، مہک آتی ہے، نہ کہ چنبیلی کے تیل کا بھبکا!‘‘
ہم نے کہا، ’’تعجب ہے! تم اس بازاری زبان میں اس آب نشاط انگیز کا مضحکہ اڑا رہے ہو، جو بقول مولانا، طبع شورش پسند کو سرمستیوں کی اور فکر عالم آشوب کو آسودگیوں کی دعوت دیا کرتی تھی۔‘‘ اس جملے سے ایسے بھڑکے کہ بھڑکتے چلے گئے۔ لال پیلے ہو کر بولے، ’’تم نے لپٹن کمپنی کا قدیم اشتہار ’چائے سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہے، دیکھا ہوگا۔ مولانا نے یہاں اسی جملے کا ترجمہ اپنے مداحوں کی آسانی کے لئے اپنی زبان میں کیا ہے!‘‘ بحث اور دل شکنی کا یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ لیکن مزید نقل کفر کر کے ہم اپنی دنیا و عاقبت خراب کرنا نہیں چاہتے۔ لہذا اس تشبیب کے بعد مرزا کی دوسری چڑ یعنی آلو کی طرف گریز کرتے ہیں۔



یہ دانت سلامت ہیں جب تک

مرزا کا ’’باس‘‘ دس سال بعد پہلی مرتبہ تین دن کی رخصت پر جا رہا تھا۔ اور مرزا نے اپنے مشیروں اوربہی خواہوں کو جشن نجات منانے کے لئے بیچ لگژری ہوٹل میں لنچ پر مدعو کیا تھا۔ وہاں ہم نے دیکھا کہ سمندری کچھوے کا شوربہ سڑ سڑ پینے کے بعد مرزا مسلم کیکڑے (مسلم کے معنی یہ ہیں کہ مرحوم کی سالم ٹانگیں، کھپرے، آنکھیں اور مونچھیں پلیٹ پر اپنی قدرتی حالت میں نظر آ رہی تھیں) پر ٹوٹ پڑے۔ ہم نے کہا، ’’مرزا! ہم نے تمہیں چہکا مارتی خمیری نان کھاتے دیکھا ہے، کھروں کے چٹ پٹے سریش میں ڈبو ڈبو کر، جسے تم دلی کے نہاری پائے کہتے ہو۔ مفت کی مل جائے تو سڑاندی سارڈین یوں نگلتے ہو گویاناک نہیں رکھتے اور تو اور رنگا ماٹی میں چکما قبیلے کی ایک دوشیزہ کے ہاتھ سے نشیلا کسیلا جیک فروٹ لپ لپ کھاتے ہوئے فوٹو کھنچو اچکے ہو اور اس کے بعد پشاور میں چڑوں کے پکوڑے کھاتے ہوئے بھی پکڑے جا چکے ہو۔ تمہارے مشرب اکل و شرب میں ہر شے حلال ہے سوائے آلو کے!‘‘



کھل گئے۔ فرمایا، ’’ہم نے آج تک کسی مولوی، کسی فرقے کے مولوی کی تندرستی خراب نہیں دیکھی۔ نہ کسی مولوی کا ہارٹ فیل ہوتے سنا۔ جانتے ہو کیا وجہ ہے؟ پہلی وجہ تو یہ کہ مولوی کبھی ورزش نہیں کرتے۔ دوسری یہ کہ سادہ غذا اور سبزی سے پرہیز کرتے ہیں!‘‘



ہوٹل ہذا اور آلو کی عملداری
سبزی نہ کھانے کے فوائد ذہن نشین کرانے کی غرض سے مرزا نے اپنی زیر تجربہ زندگی کے ان گوشوںکو بے نقاب کی اجو آلو سے کیمیائی طور پر متاثر ہوئے تھے۔ ذکر آلو کا ہے۔ انہی کی زان غیبت بیان سے اچھا معلوم ہوگا،



تمہیں کیا یاد ہوگا۔ میں دسمبر1951 میں منٹگمری گیا تھا۔ پہلی دفعہ کراچی سے باہر جانے کی مجبوری لاحق ہوئی تھی۔ منٹگمری کے پلیٹ فارم پر اترتے ہی محسوس ہوا گویا سردی سے خون رگوں میں جم گیا ہے۔ ادھر چائے کے اسٹال کے پاس ایک بڑے میاں گرم چائے کے بجائے مالٹے کا رس پیے چلے جا ہرے تھے۔ اس بندہ خدا کو دیکھ دیکھ کر اور دانت بجنے لگے۔ کراچی کا دائمی حبس اور بغیر کھڑکیوں والا کمرہ بے طرح یاد آئے۔ قلی اور تانگے والے سے صلاح و مشورے کے بعد ایک ہوٹل میں بسترا لگا دیا۔جس کا اصلی نام آج تک معلوم نہ ہو سکا لیکن منیجر سے لے کر مہتر تک سبھی اسے ہوٹل ہذا کہتے تھے۔ کمرہ صرف ایک ہی تھا جس کے دروازے پر کوئلے سے بحروف انگریزی وار ’’دو کمرہ نمبر1‘‘ لکھا تھا۔ ہوٹل ہذا میں نہ صرف یہ کہ کوئی دوسرا کمرہ نہیں تھا، بلکہ مستقبل قریب یا بعید میں اس کی تعمیر کا امکان بھی نظر نہیں آتا تھا کیونکہ ہوٹل کے تین طرف میونسپلٹی کی سڑک تھی اور چوتھی طرف اسی ادارے کی مرکزی نالی جو شہر کی گندگی کو شہر ہی میں رکھتی تھی، جنگل تک نہیں پھیلنے دیتی تھی۔ جزیرہ نمائے کمرہ نمبر 1 میں ’’اٹیچڈ باتھ روم‘‘ تو نہیں تھا البتہ ایک اٹٰیچڈ تنور ضرور تھا، جس سے کمرہ اس کڑاکے کی سردی میں ایسا گرم رہتا تھا کہ بڑے بڑے ’’سنٹرلی ہیٹیڈ (Centrally heated) ہوٹلوں کو مات کرتا تھا۔ پہلی رات ہم بنیان پہنے سو رہے تھے کی تین بجے صبح جو تپش سے ایکا ایکی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ امام دین بیرا ہمارے سرہانے ہاتھ میں خون آلود چھری لئے کھڑا ہے۔ ہم نے فوراً اپنی گردن پر ہاتھ پھیر کر دیکھا۔ پھر چپکے سے بنیان میں ہاتھ ڈال کر پیٹ پر چٹکی لی اور پھر کلمہ پڑھ کے اتنی زور سے چیخ ماری کہ امام دین اچھل پڑا ور چھری چھوڑ کر بھاگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد تین بیرے سمجھا بجھا کر اسے واپس لائے۔ اس کے اوسان بجا ہوئے تو معلوم ہوا کہ چھری سے وہ ننھی ننھی بٹیریں ذبح کر رہا تھا۔ ہم نے ایک وقار کے ساتھ کہا، ’’عقلمند آدمی! یہ پہلے کیوں نہ بتایا؟‘‘ اس نے فوراً اپنی بھول کی معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ آئندہ وہ پہلے ہی بتا دیا کرے گا کہ چھری سے بٹیر ہی ذبح کرنا چاہتا ہے۔ نیز اس نے آسان پنجابی میں یہ بھی یقین دلایا کہ آئندہ وہ چیخ سن کر ڈر پوکوں کی طرح خوفزدہ نہیں ہوا کرے گا۔



ہم نے رسان سے پوچھا، ’’تم انہیں کیوں ذبح کر رہے تھے؟‘‘ بولا، ’’جناب! ضلع منٹگمری میں جانور کو حلال کر کے کھاتے ہیں! آپ بھی کھائیں گے؟‘‘ ہم نے قدرے ترشروئی سے جواب دیا، ’’نہیں!‘‘ اور ریلوے ٹائم ٹیبل سے پنکھا جھلتے ہوئے سوچنے لگے کہ جو لوگ دودھ پیتے بچوں کی طرح جلدی سو تے اور جلدی اٹھتے ہیں وہ اس رمز کو کیا جانیں کہ نیند کا اصل مزا اور سونے کا لطف آتا ہی اس وقت ہے جب آدمی اٹھنے کے مقررہ وقت پر سوتا رہے کہ اس ساعت دزدیدہ میں نیند کی لذتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اسی لئے کسی جانور کو صبح دیر تک سونے کی صلاحیت نہیں بخشی گئی۔ اپنے اشرف المخلوقات ہونے پر خود کو مبارکباد دیتے دیتے صبح ہو گئی اور ہم پوری اور آلو چھولے کا ناشتہ کر کے اپنے کام پر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد معدے میں گرانی محسوس ہوئی۔ لہذا دوپہر کو آلو پلاؤ اور رات کو آلو اور پنیر کا قورمہ کھا کر تنور کی گرمائی میں ایسے سوئے کہ صبح چار بجے بیرے نے اپنے مخصوص طریقے سے ہمیں جگایا، جس کی تفصیل آگے آئے گی۔



ناشتے سے پہلے ہم سر جھکائے قمیض کا بٹن نوچ کر پتلون میں ٹانکنے کی کوشش کر رہے تھے کہ سوئی کھچ سے انگلی میں بھک گئی۔ بالکل اضطراری طور پر ہم نے انگلی اپنی قمیض کی جیب پر رکھ کر زور سے دبائی، مگر جیسے ہی دوسری غلطی کا احساس ہوا تو خون کے گیلے دھبے پر سفید پاؤڈر چھڑک کر چھپانے لگے اور دل میں سوچنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے بیوی بھی کیا چیز بنائی ہے۔لیکن انسان بڑا ہی نا شکرا ہے۔ اپنی بیوی کی قدر نہیں کرتا۔ اتنے میں بیرا مقامی خالص گھی میں تلی ہوئی پوریاں لے آیا۔ منٹگمری کا اصلی گھی پاکستان بھر میں سب سے اچھا ہوتا ہے۔ اس میں چار فی صد گھی ہوتا ہے۔ بیرے نے حسب عمول اپنے ابروئے تساہل سے ہمیں کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور جب ہم اس پر چار کے ہندسے کی طرح تہرے ہو کر بیٹھ گئے تو ہمارے زانو پر گیلا تولیہ بچھایا اور اس پر ناشتے کے ٹرے جما کر رکھ دی۔



(ممکن ہے بعض شکی مزاج قارئین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر کمرے میں میز یا اسٹول نہیں تھا تو بان کی چارپائی پر ناشتہ کیوں نہ کر لیا۔ شکایتاً نہیں، اطلاعاً عرض ہے کہ جیسے ہی منٹگمری کا پہلا مرغ پہلی بانگ دیتا، بیرا ہماری پیٹھ اور چار پائی کے درمیان سے بستر ایک ہی جھٹکے میں گھسیٹ لیتا۔ اپنے زور بازو اور روز مرہ کی مشق سے اس کام میں اتنی صفائی اور مہارت پیدا کر لی تھی کہ ایک دفعہ سرہانے کھڑے ہو کر جو بستر گھسیٹا تو ہمارا بنیان تک اتر کر بستر کے ساتھ لپٹ کر چلا گیا اور ہم کھری چار پائی پر کیلے کی طرح چھلے ہوئے پڑے رہ گئے۔ پھر چار پائی کو پائنیتی سے اٹھا کر ہمیں سر کے بل پھسلاتے ہوئے کہنے لگا صاب! فرنیچر خالی کرو! وجہ یہ کہ اس فرنیچر پر سارے دن ’’پروپرائٹر ایند منیجر ہوٹل ہذا‘‘ کا دربار لگا رہتاتھا۔ ایک دن ہم نے اس بے آرامی پر پر زور احتجاج کیا تو ہوٹل کے قواعد و ضوابط کا پنسل سے لکھا ہوا ایک نسخہ ہمیں دکھایا گیا، جس کے سر ورق پر ’’ضابطہ فوجداری ہوٹل ہذا‘‘ تحریر تھا۔ اس کی دفعہ نو کی رو سے فجر کی اذان کے بعد ’’پسنجر‘‘ کو چار پائی پر سونے کا حق نہیں تھا۔ البتہ قریب المرگ مریض، زچہ او ر یہود و نصارا اس سے مستثنیٰ تھے۔ لیکن آگے چل کر دفعہ28 (ب) نے ان سے بھی یہ مراعات چھین لی تھیں۔ اس کی رو سے زچہ اور قریب المرگ مریض کو زچگی اور موت سے تین دن پہلے تک ہوٹل میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔ ’’خلاف ورزی کرنے والوں کو بیروں کے حوالے کر دیا جائے گا۔‘‘)



ہم نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو اسے جھاڑن منہ میں ٹھونسے بڑے ادب سے ہنستے ہوئے پایا۔ ہم نے پوچھا، ’’ہنس کیوں رہے ہو؟‘‘ کہنے لگا، ’’وہ تو منیجرصاب ہنس رہے تھے، بولتے تھے، ہم کو لگتا ہے کہ کراچی کا پسنجر بٹیر کو تلیر سمجھ کے نہیں کھاتا!‘‘



ہر چیز کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں۔ ایک تاریک، دوسری زیادہ تاریک۔ لیکن ایمان کی بات ہے اس پہلو پر ہماری نظر بھی نہیں گئی تھی اور اب اس غلط فہمی کا ازالہ ہم پر واجب ہو گیا تھا۔ پھولی ہوئی پوری لقمہ پلیٹ میں واپس رکھتے ہوئے ہم نے رندھی ہوئی آواز میں اس جعل ساز پرند کی قیمت دریافت کی۔ بولا، ’’زندہ یا مردہ؟‘‘ ہم نے جواب دیا کہ ہم تو اس شہر میں اجنبی ہیں۔ فی الحال مردہ کو ہی ترجیح دیں گے۔ کہنے لگا، ’’دس آنے پلیٹ ملتی ہے۔ ایک پلیٹ میں تین بٹیریں ہوتی ہیں۔ مگر جناب کے لئے تو ایک ہی راس کافی ہوگی!‘‘



قیمت سن کر ہمارے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ پھر یہ بھی تھا کہ کراچی میں مویشیوں کا گوشت کھاتے کھاتے طبیعت اکتا گئی تھی۔ لہذا دل ہی دل میں عہد کر لیا کہ جب تک منٹگمری کا آب و دانہ ہے، طیور کے علاوہ کسی چیز کے ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ لنچ پر بھنی ہوئی بٹیر یا چائے کے ساتھ بٹیر کا نوری چرغا سونے سے پہلے بٹیر کا آب جوش۔ اس رہائشی تنو رمیں فروکش ہوئے ہمیں چوتھا دن تھا، اور تین دن سے یہی اللے تللے تھے۔ چوتھی صبح ہم زانو پہ تولیہ اور تو لیے پر ٹرے رکھے تلی ہوئی بٹیر سے ناشتہ کر رہے تھے کہ بیرے نے جھاڑن پھر منہ میں ٹھونس لی۔ ہم نے چمک کر پوچھا، ’’اب کیا بات ہے؟‘‘ کہنے لگا، ’’کچھ نہیں۔ منیجر صاب ہنس رہے تھے۔ بولتے تھے کمرہ نمبر ایک کے ہاتھ بٹیر لگ گئی ہے!‘‘ ہم نے طنزاً اٹیچڈ تنور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، ’’تمہارے ہوٹل ہذا میں اور کون سا من و سلویٰ اترتا ہے؟‘‘ بولا، ’’حرام گوشت کے علاوہ دنیا بھر کی ڈش ملتی ہے، جوچاہیں آرڈر کریں، جناب! آلو مٹر، آلو گوبھی، آلو میتھی، آلو گوش، آلو مچھی، آلو بریانی، اور خدا تمہارا بھلا کرے، آلو کوفتہ، آلو بڑیا، آلو سموسہ، آلو کا رائتہ، آلو کا بھرتا، آلو کیماں(قیمہ۔۔۔)‘‘ ہم نے روک کر پوچھا، ’’اور سویٹ ڈش؟‘‘ بولا، ’’آلو کی کھیر۔‘‘ ہم نے کہا، ’’بھلے آدمی! تم نے تو آلو کا پہاڑہ سنا دیا۔ تمہارے ہوٹل میں کوئی ایسی ڈش بھی ہے جس میں آلو کا نام نہ آئے۔ فاتحانہ تبسم کے ساتھ فرمایا، ’’کیوں نہیں! پوٹے ٹو کٹلٹ! حاضر کروں جناب؟‘‘



قصہ در اصل یہ تھا کہ ایک سال پہلے مالک ہوٹل ہذا نے ہیڈکانسٹبل کے عہدے سے سبکدوش ہو کر زراعت کی طرف توجہ فرمائیاور زمین سے بھی انہی ہتھکنڈوں سے سونا اگلوانا چاہا۔ مگر ہوا یہ کہ آلو کی کاشت میں پچیس سال کی ذہانت سے جمع کی ہوئی رشوت ہی نہیں بلکہ پنشن اور پراویڈنٹ فنڈ بھی ڈوب گئے۔



زمیں کھا گئی بے ایماں کیسے کیسے



پس انداز کئے ہوئے آلوؤں سے ہوٹل کے دھندے کا ڈول ڈالا۔ جنہیں اب اس کے بہترین دوست بھی تازہ نہیں کہہ سکتے تھے۔ سنا ہے بٹیر بھی اسی زمانے میں پاس پڑوس کے کھیتوں سے پکڑ لئے تھے۔



مکالمہ در مذمت آلو
’’مرزا! یہ بٹیر نامہ اپنی جگہ، مگر یہ سوال ابھی تشنہ ہے کہ تم آلو کیوں نہیں کھاتے۔‘‘ ہم نے پھر وہی سوال کیا۔



’’نہیں صاحب! آلو کھانے سے آدمی آلو جیسا ہو جاتاہے۔ کوئی انگریز عورت (مرزا کی عادت ہے کہ تمام سفید فام غیر ملکیوں کو انگریز کہتے ہیں۔ مثلاً امریکہ کے انگریز، جرمنی کے انگریز حد یہ کہ انگلستان کے انگریز) جسے اپنا فگر ’’اور مستقبل ذرا بھی عزیز ہے، آ لو کو چھوتی تک نہیں۔ سامنے سوئمنگ پول میں پیر لٹکائے یہ میم جو مصر کا بازار کھولے بیٹھی ہے، اسے تم آلو کی ایک ہوائی بھی کھلا دو تو بندہ اسی حوض میں ڈوب مرنے کو تیار ہے۔ اگر یہ کافی میں چینی کے چار دانے بھی ڈالتی ہے، یا کوئی اسے میٹھی نظر سے بھی دیکھ لے تو اس کی کیلوریز کا حساب اپنی دھوبی کی کاپی میں رکھتی ہے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا۔
’’مرزا! کیا میمیں بھی دھوبی کی کاپی رکھتی ہیں؟‘‘



’’ہاں! ان میں کی جو کپڑے پہنتی ہیں، وہ رکھتی ہیں!‘‘



ہماری تشنگی، علم بڑھتی دیکھ کر مرزا نے آلو کی ہجو میں دلائل و نظائر کا طومار باندھ دیا۔ جہاں کہیں منطق کے ٹاٹ میں ذرا سوراخ بھی نظر آیا، وہاں مخملی مثال کا بڑا سا پیوند اس طرح لگایا کہ جی چاہتا تھا کچھ اور سوراخ ہوتے۔ کہنے لگے کرنل شیخ کل رات ہی یورپ سے لوٹے ہیں۔ کہہ رہے تھے یورپ کی اور ہماری خواتین میں بڑا فرق ہے۔ یورپ میں جو لڑکی دور سے سترہ برس کی معلوم ہوتی ہے وہ قریب پہنچ کر ستر برس کی نکلتی ہے اور ہمارے ہاں جو خا تون دور سے ستر برس کی دکھلائی پڑتی ہے وہ نزدیک آنے پر سترہ برس کی نکلتی ہے! مگر یہ وضعداری انگلستان میں ہی دیکھی کہ جو عمر دور سے نظر آتی ہے وہی پاس سے۔ چنانچہ کمر کمر تک بالوں والی جو لڑکی دور سے انیس سال کی نظر آتی ہے وہ پاس جانے پر بھی انیس ہی سال کا ’’ہپی‘‘ نکلتا ہے! خیر سنی سنائی باتوں کو چھوڑو۔ اس میم کا مقابلہ اپنے ہاں کی آلو خور خواتین سے کرو۔ ادھر فانوس کے نیچے، سرخ ساری میں جو محترمہ لیٹر بکس بنی اکیلے اکیلے گپا گپ بیف اسٹیک اور آلو اڑا رہی ہیں، اماں! گنواروں کی طرح انگلی سے اشارہ مت کرو۔ ہاں! ہاں! وہی، ارے صاحب کیا چیز تھی! لگتا تھا ایک اپسرا سیدھی اجنتا کے غاروں سے چلی آ رہی ہے اور کیا فگر تھا۔ کہتے ہوئے زبان سو سو بل کھاتی ہے۔ چلتی تو قدم یوں رکھتی تھی دن جیسے کسی کے پھرتے ہیں۔



پہلے پہل مارچ 1951 میں دیکھا تھا۔ وہ صبح یاد آتی ہے تو کوئی دل پر دستک سی دینے لگتا ہے اور اب؟ اب تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔ بارہ سال پہلے کی Go Go Girl گوشت کے انبار میں کہیں کھو گئی ہے۔ عشق اور آلو نے ان حالوں کو پہنچا دیا۔



ہم نے کہا، ’’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ!‘‘ بولے، ’’اہل زبان کے محاورے انہی کے خلاف اندھا دھند استعمال کرنے سے پہلے پوری بات تو سن لیا کرو۔‘‘ حمیرہ وہ آئیڈیل عورت تھی جس کے خواب ہر صحت مند آدمی دیکھتا ہے یعنی شریف خاندان، خوبصورت اور آوارہ! اردو، انگریزی، فرنچ اور جرمن فراٹے سے بولتی تھی، مگر کسی بھی زبان میں ’’نہ‘‘ کہنے کی قدرت نہیں رکھتی تھی۔ حسن اور جوانی کی بشرکت غیرے مالک تھی۔ یہ دونوں اشیائے لطیف جب تبرک ہو گئیں او رپلکوں کے سائے گہرے ہو چلے تو مارے باندھے ایک عقد شرعی بھی کیا۔ مگر ایک مہینے کے اندر ہی دولہا نے عروسی کمر بند کا پھندا گلے میں ڈال کر خود کشی کر لی۔ جا تجھے کشمکش عقد سے آزاد کیا۔ پھر تو ایسے کان ہوئے کہ اس بچاری نے شرعی تکلفات سے خود کو کبھی مکلف نہیں کیا۔ صاحب! مرد کا کیا بنے آج کل مرد زندگی سے اکتا جاتا ہے تو شادی کر لیتا ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو طلاق دے دیتا ہے لیکن عورت ذات کی بات اور ہے۔ بدی پہ آئی ہوئی عورت جب پریشان یا پشیمان ہوتی ہے تو ٹی ایس ایلیٹ کے بقول گراموفون ریکارڈ لگا کر اپنے جوڑے کو میکانکی انداز سے تھپتھپاتے ہوئے خواب گاہ میں بولائی بولائی نہیں پھرتی، بلکہ غذا سے غم غلط کرتی ہے۔ حمیرہ نے بھی مرد کی بے وفائی کا مقابلہ اپنے معدے سے کیا۔ تم خود دیکھ لو۔ کس رفتار سے آلو کے قتلے قاب سے پلیٹ اور پلیٹ سے پیٹ میں منتقل کر رہی ہے۔ بس اسی نے صورت سے بے صورت کر دیا۔



ہم نے ان کا وقت اور پنی رہی سہی عزت بچانے کی خاطر ان کی اس ’تھیوری‘ سے جھٹ اتفاق کر لیا کہ زنانہ آوارگی کی روک تھام کے لئے عقد اور آلو سے بہتر کوئی آلہ نہیں کہ دونوں سے بد صورتی اور بد صورتی سے نیک چلنی زور پکڑتی ہے۔ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ہم نے کہا، ’’لیکن اگر آلو سے واقعی مٹاپا پیدا ہوتا ہے تو تمہارے حق میں تو الٹا مفید ہوگا کیونکہ اگر تمہارا وزن صحیح مان لیا جائے تو معیاری حساب سے تمہارا قد تین فٹ ہونا چاہئے۔ ایک دن تمہیں نے بتایا تھا کہ آستین کے لحاظ سے 17نمبر کی قمیض تمہیں فٹ آتی ہے اور کالر کے لحاظ سے 13 نمبر!‘‘



کرشمے کاربو ہائیڈریٹ کے
اسی سال جون میں مرزا اپنے دفتر میں اگاتا کرسٹی کا تازہ ناول پڑھتے پڑھتے اچانک بے ہوش ہو گئے۔ ہوش آیا تو خود کوایک آرام دہ کلینک (Clinic) میں کمپنی کے خرچ پر صاحب فراش پایا۔ انہیں اس بات سے سخت مایوسی ہوئی کہ جس مقام پر انہیں دل کا شدید درد محسوس ہوا تھا، دن اس سے بالشت بھر دور نکلا۔ ڈاکٹر نے وہم دور کرنے کی غرض سے انگلی رکھ کر بتایا کہ دل یہاں نہیں، یہاں ہوتا ہے۔ اس کے بعد انہیں دل کا درد دل ہی میں محسوس ہونے لگا!



جیسے ہی ان کے کمرے سے ’مریض سے ملاقات منع ہے‘ کی تختی ہٹی، ہم زینیا کا گلدستہ لے کر عیادت کوپہنچے۔ دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھ دیکھ کر خوب روئے۔ نرس نے آ کر دونوں کو چپ کرایا او رہمیں علاحدہ لے جا کرمتنبہ کیا کہ اس اسپتال میں بیمار پرسی کرنے والو کو رونا اور کراہنا منع ہے۔ ہم نے فوراً خود پر فرمائشی بشاشت طا ری کر کے مرزا کو ہراساں ہونے سے منع کیا اور تلقین کی کہ مریض کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، وہ چاہے تو تنکے میں جانڈال دے۔ ہماری نصیحت کا خاطر خواہ بلکہ اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔



’’تم کیوں روتے ہو پگلے؟‘‘ ہم نے ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔



’’یونہی خیال آ گیا کہ اگر تم مر گئے تو میری عیادت کو کون آیا کرے گا!‘‘ مرزا نے اپنے آنسو نرس کے رومال میں محفوظ کرتے ہوئے وجہ رقت بیان کی۔



مرض کی اصل وجہ ڈاکٹروں کے نزدیک کثرت افکار تھی۔ جسے مرزا کی زبان میں قادر البیان نے کثرت کار بنا دیا۔ خیر، اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں تھی۔ تعجب کی بات تو یہ تھی کہ مرزا چائے کے ساتھ آلو کے ’’چپس‘‘ اڑا رہے تھے۔ ہم نے کہا، ’’مرزا! آج تم رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔‘‘ بولے (اور ایسی آواز میں بولے گویا کسی اندھے کنویں کے پیندے سے بول رہے ہیں۔) ڈاکٹر کہتے ہیں تمہارا وزن بہت کم ہے۔ تمہیں آلو اور ایسی چیزیں خوب کھانی چاہئیں جن میں ’اسٹارچ‘ اور کاربو ہائی ڈریٹ کی افراط ہو۔ صاحب! آلو ایک نعمت ہے، کم از کم سائنس کی رو سے!‘‘ ہم نے کہا، ’’تو پھر دبا دب آلو کھا کر ہی صحت یاب ہو جاؤ۔‘‘ فرمایا، ’’صحت یاب تو مجھے ویسے بھی ہونا ہی پڑے گا۔ اس لئے کہ یہ نرسیں اس قدر بدصورت ہیں کہ کوئی آدمی جو اپنے منہ پر آنکھیں رکھتا ہے، یہاں زیادہ عرصے پڑا نہیں رہ سکتا!‘‘



وہ نئے گلے، وہ شکایتیں، وہ مزے مز ےکی حکایتیں

کلینک سے نکلتے ہی مرزا نے اپنی توپوں کا رخ پھیر دیا۔ خوگر ہجو کے شب و و روز اب ا ٓلو کی تعریف و توصیف میں بسر ہونے لگے۔ ایک وقت تھا کہ ویت نام پر امریکی بمباری کی خبریں پڑھ کر مرزا پچھتاوا کرتے کہ کولمبس نے امریکہ دریافت کر کے بڑی نادانی کی۔ مگر اب پیار میں آتے تو آلو کی گدرائی ہوئی گولائیوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرماتے، ’’صاحب! کولمبس جہنم میں نہیں جائے گا۔ اسے واپس امریکہ بھیج دیا جائے گا۔ مہذب دنیا پر امریکہ کے دو احسان ہیں، تمباکو اور آلو۔ سو تمباکو کا بیڑا تو سرطان نے غرق کر دیا۔ مگر آلو کا مستقبل نہایت شاندار ہے۔ جو ملک جتنا غربت زدہ ہوگا، اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن زیادہ ہوگا۔‘‘



اور کبھی ایسابھی ہوتا کہ حریف ظریف سائنسی ہتھیاروں سے زیر نہیں ہوا تو شاعری کے مار سے وہیں ڈھیر کر دیتے۔ ’’صاحب! جوں جوں وقت گزرتا ہے یاد داشت کمزور ہوتی جاتی ہے۔ پہلے اپنی پیدائش کے دن ذہن سے اترا۔ پھر مہینہ اور اب تو سنہ بھی یاد نہیں رہتا، بیگم یا کسی بد خواہ سے پوچھنا پڑتا ہے۔ اکثر تمہارے لطیفے تمہیں ہی سنانے بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ تو جب تم پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنسنے لگتے ہو تو شک گزرتا ہے کہ لطیفہ تمہار ا ہی ہوگا۔ بیگم اکثر کہتی ہیں کہ کاک ٹیل پارٹیوں اور ڈانس میں تمہیں یہ تک یاد نہیں رہتا کہ تمہاری شادی ہو چکی ہے! غرض کہ حافظہ بالکل چوپٹ ہے۔ اب یہ آلو کا اعجاز نہیں تو اور کیا ہے کہ آج بھی کسی بچے کے ہاتھ میں بھو بل یں سنکا ہوا آلو نظر آجائے تو اس کی مانوس مہک سے بچپن کا ایک ایک واقعہ ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے۔ میں ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھتا ہوں۔ اس سے پھوٹتی ہوئی سوندھی بھاپ کے پرے ایک بھولی بسری صورت ابھرتی ہے۔ گرد آلود بالوں کے پیچھے شرارت سے روشن آنکھیں۔ کرتا بٹنوں سے بے نیاز، گلے میں غلیل، ناخن دانتوں سے کترے ہوئے۔ پتنگ اڑانے والی انگلی پر ڈور کی خون آلود لکیر، بیری سمے ہولے ہولے اپنی کنچلیاں اتارتا چلا جاتا ہے اور میں ننگے پاؤں تتلیوں کے پیچھے دوڑتا، رنگ برنگے بادلوں میں ریزگاری کے پہاڑ، پریوں اور آگ اگلتے اژدہوں کو بنتے بگڑتے دیکھتا۔ کھڑا رہ جاتا ہوں۔‘‘



’’یہاں تک کہ آلو ختم ہو جاتا ہے۔‘‘ ہم نے صابن کے بلبلے پر پھونک ماری، سنبھلے۔ گردش ایام کو اپنے بچپن کے پیچھے دوڑاتے دوڑاتے لگام کھینچی۔ اور گالی دینے کے لئے گلا صاف کرتے ہوئے فرمایا، ’’خدا جانے حکومت آلو کو بزور قانون قومی غذا بنانے سے کیوں ڈرتی ہے۔ سستا اتنا کہ آج تک کسی سیٹھ کو اس میں ملاوٹ کرنے کا خیال نہیں آیا۔ اسکنڈل کی طرح لذیذ اور زود ہضم! وٹامن سے بھر پور، خوش ذائقہ، صوفیانہ رنگ، چھلکا زنانہ لباس کی طرح، یعنی برائے نام!‘‘



’’صاف ادھر سے نظر آتا ہے ادھر کا پہلو‘‘



دست خود دہان خود
مرزا پر اب یہ جھک سوار تھی کہ اگر صندل کا گھسنا اور لگانا درد سر کے لئے مفید ہے تو اسے اگانا کہیں زیادہ مفید ہونا چاہئے۔ حکمت و زراعت کی جن پر خار راہوں کو مستانہ طے کر کے وہ اس نتیجے پر پہنچے، ان کا اعادہ کیا جائے تو طب پر ایک پوری کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ از بسکہ ہم حکیموں کی لگی لگائی روزی پہ ہاتھ ڈالنا نہیں چاہتے، اس لئے دو تین چنگاریاں چھوڑ کر دور کھڑے ہو جائیں گے۔۔۔



ایک دن ہم سے پوچھا، ’’بچپن میں کھٹ مٹھے بیر، میرا مطلب ہے جھر بیری کے بیر کھائے ہیں؟‘‘ عرض کیا، ’’جی ہاں! ہزار دفعہ۔ اور اتنی ہی دفعہ کھانسی میں مبتلا ہوا ہوں۔‘‘ فرمایا، ’’بس یہی فرق ہے، خرید کے کھانے میں اور اپنے ہاتھ سے توڑ کے کھانے میں۔ تجر بے کی بات بتاتا ہوں۔ بیر توڑ تے وقت انگلی میں کانٹا لگ جائے اور خون کی بوند پور پر تھرتھرانے لگے تو آس پاس کی جھاڑیوں کے تمام بیر میٹھے ہو جاتے ہیں!‘‘



’’سائنٹیفک دماغ میں یہ بات نہیں آتی۔‘‘ ہم نے کہا۔



ہمارا یہ کہنا تھا کہ زیادہ ابلے ہوئے آلو کی طرح تڑختے بکھرتے چلے گئے۔ کہنے لگے، ’’صاحب! بعضے حکیم یہ کرتے ہیں کہ جس کا معدہ کمزور ہو اسے اوجھڑی کھلاتے ہیں۔ جس کے گردوں کا فعل درست نہ ہو اسے گردے اور جو ضعف جگرمیں مبتلا ہو اسے کلیجی۔ اگر میں حکیم ہوتا تو تمہیں مغز ہی مغز ہی مغز کھلاتا!‘‘



راقم الحروف کے عضو ضعیف کی نشاندہی کرنے کے بعد ارشاد ہوا، ’’اب آلو خود کاشت کرنے کی سائنٹیفک وجہ بھی سن لو۔ پچھلے سال اترتی برسات کی بات ہے، میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کالے تیتر کی تلاش میں کچے میں بہت دور نکل گیا مگر ایک تیتر نظر نہ آیا، جس کی وجہ’گائیڈ‘ نے یہ بتائی کہ شکار کے لئے آپ کے پاس ڈپٹی کنسٹر کاپرمٹ نہیں ہے۔ واپسی میں رات ہو گئی اور ہماری 1945 ماڈل جیپ پر دمے کا دورہ پڑا۔ چند لمحوں بعد وہ ضعیفہ تو ایک گڑھے میں آخری ہچکی لے کر خاموش ہو گئی مگر قفس عنصری میں ہمارے طائر روح کو پرواز کرتا چھوڑ گئی۔ ہم اسٹیئرنگ پر ہاتھ رکھے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کر رہے تھے کہ رحمت ایزدی سے جیپ گڑھے میں گری ورنہ گڑھے کی جگہ کنواں ہوتا تو اس وقت خدا کا شکر کون ادا کرتا؟ نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا! ہمارے قرض خواہوں پر کیا گزرتی؟ ہمارے ساتھ رقم کے ڈوبنے پر انہیں کیسے صبر آتا کہ ابھی تو ہمارے تمسک کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی تھی؟ ہم ابھی ان کے اور ان کے چھوٹے بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیر ہی رہے تھے کہ ایک کسان بکری کا نوزائیدہ بچہ گردن پر مفلر کی طرح ڈالے ادھر سے گزرا۔ ہم نے آواز دیکر بلایا۔ ابھی ہم اتنی ہی تمہید باندھنے پائے تھے کہ ہم کراچی سے آئے ہیں اور کالے تیتر کی تلاش میں تھے کہ وہ گڑھے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ میں تیتر پانی میں نہیں رہتے۔ ہمارے گائیڈ نے ہماری فوری ضروریات کی ترجمانی کی تو وہ ایسا پسیجا کہ اپنی بیل گاڑی لانے اور اسے جیپ میں جوت کر اپنے گھر لے جانے کے لئے اصرا ر کرنے لگا اور وہ بھی بلا معاوضہ! صاحب! اندھا کیا چاہے۔۔۔؟‘‘



’’دو آنکھیں!‘‘ ہم نے جھٹ لقمہ دیا۔



’’غلط! بالکل غلط! اگر اس کی عقل بھی بینائی کے ساتھ زائل نہیں ہوئی ہے تو اندھا دو آنکھیں نہیں چاہتا، ایک لاٹھی چاہتا ہے!‘‘ مرزا نے محاورے کی بھی اصلاح فرمادی۔



ہم ہونکا را بھرتے رہے، کہانی جاری رہی، ’’تھوڑی دیر بعد وہ بیل گاڑی لے آیا جس کے بیل اپنی جوانی کو بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے۔‘‘ ادوان کی رسی سے جیپ باندھتے ہوئے اس نے ہمیں بیل گاڑی میں اپنے پہلو میں اگلی سیٹ کی پیش کش کی اور ڈیڑھ دو میل دور کسی موہوم نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تسلی دینے لگا،


’’او جیڑی، نویں لالٹین بلدی پئی اے نا، اوہی میرا گھاروے۔‘‘ (وہ جہاں نئی لالٹین جل رہی ہے نا! وہی میرا گھر ہے۔)



گھر پہنچتے ہی اس نے اپنی پگڑی اتار کر چار پائی کے سیروے والے پائے کو پہنا دی۔ منہ پر پانی کے چھپکے دیئے اور گیلے ہاتھ سفید بکری کی پیٹھ سے پونچھے۔ برسات کی چاندنی میں اس کے کرتے پر بڑا سا پیوند دور سے نظر آ رہا تھا اور جب تھونی پر لٹکی ہوئی نئی لالٹین کی لو بھڑکی تو اس پیوند میں لگا ہوا ایک اور پیوند بھی نظر آنے لگا جس کے ٹانکے ابھی اس کی مسکراہٹ کی طرح اجلے تھے۔ اس کی گھر والی نے کھڑی چار پائی پر کھانا چن کر ٹھنڈے میٹھے پانی کے دو دھات کے گلاس پٹی پر بان چھدرا کر کے جما دیئے۔ میز بان کے شدید اصرار اور بھوک کے شدید تر تقاضے سے مجبور ہو کر جو ہم نے خشک چنائی شروع کی ہے تو یقین مانو پیٹ بھر گیا مگر جی نہیں بھرا۔ رال نگلتے ہوئے ہم نے پوچھا، ’’چودھری! اس سے مزے دار آلو کا ساگ ہم نے آج تک نہیں کھایا، کیا ترکیب ہے پکانے کی؟‘‘



بولا، ’’بادشاہو! پہلے تے اک کلے زمین وچ پنچ من امریکہ دی کھاد پاؤ۔ فیر۔۔۔‘‘ (پہلے ایک ایکڑ زمین میں پانچ من امریکی کھاد ڈالو پھر۔۔۔ (اس زمانے میں کیمیائی کھاد امریکہ سے آتی تھی)



قصہ آلو کی کاشت کا
بات اگر اب بھی گلے سے نہیں اتری تو ’’خود اگا ؤ خود کھاؤ‘‘ سلسلے کی تیسرے داستان سنیئے جس کا عذاب ثواب مرزا کی گردن پر ہے کہ وہی اس کے فردوسی ہیں اور وہی رستم۔ داستان کا آغاز یوں ہوتا ہے،



’’صاحب! بازار سے سڑے بسے آلو خرید کر کھانے سے تو یہ بہتر ہے کہ آدمی چنے بھسکتا پھرے۔ پرسوں ہم خود آلو خریدنے گئے۔ شبرا تی کی دکان سے۔ ارے صاحب! وہی اپنا شبراتی جس نے چودہ پندرہ سال سے وہ سائن بورڈ لگا رکھا ہے،



مالک ایں دکان شبراتی مہاجرین
اگر کوئی دعویٰ کند باطل شود
بمقام موضع کاٹھ، عقب جامع مسجد کلاں
پوسٹ آفس قصبہ باغپت، ضلع میرٹھ۔

حال مقیم کرانچی



ہم نے ایک آلو دکھاتے ہوئے کہا، ’’میاں شبراتی! حال مقیم کرانچی! تمہارے آلو تو پلپلے ہیں، خراب لگتے ہیں۔‘‘ بولا، ’’باؤ جی!خراب نکلیں تو کالا ناگ (اس کے گدھے کا نام) کے موت سے مونچھ منڈوا دینا۔ در حقیقت میں یہ پہاڑی آلو ہیں۔‘‘ ہم نے کہا، ’’ہمیں تو کراچی سے پانچ سو میل تک کوئی پہاڑ نقشے میں نظر نہیں آتا۔‘‘ بولا، ’’باؤجی! تمہارے نقشے میں اور کون سی پھل پھلاری کرانچی میں نجر آوے ہے؟ یہ رپے چھٹانک کا سانچی پان جو تمہارے غلام کے کلے میں بتاشے کی طریوں گھل رہا ہے، مقام بنگال سے آریا ہے۔ یہاں کیا دم در ود رکھا ہے۔ حالیت تو یہ ہے باؤ جی! کرانچی میں مٹی تلک ملیر سے آوے ہے۔ کس واسطے کہ اس میں ڈھاکہ سے منگا کے گھانس لگا ویں گے۔ جوانی قسم باؤ جی پشاور کے چو ک یادگار میں مرغا اذان دیوے ہے تو کہیں جا کے کرانچی والوں کو صبح انڈا نصیب ہووے ہے!‘‘



اور ایک مرد غیرت مند نے چمن زار کراچی کے دل یعنی ہاؤسنگ سوسائٹی میں آلو کی کاشت شروع کر دی۔ اگر چہ سر دست پانچ من امریکی کھاد کا انتظام نہ ہو سکا، لیکن مرزا کا جوش جنوں انہیں اس مقام پر پہنچا چکا تھا جہاں کھاد تو کھاد، وہ بغیر زمین کے بھی کاشت کرنے کا جگرا رکھتے تھے!



مرزا عبد الودود بیگ اور کھیتی باڑی! ہمارا خیال ہے کہ سارا کھیت ایئر کنڈیشن کر دیا جائے اور ٹریکٹر میں ایک راکنگ چیئر(جھولا کرسی) ڈال دی جائے تو مرزا شاید دو چار گھنٹے کے لئے کاشت کاری کاپیشہ اختیار کرلیں، جس کے بارے میں ان کا مبلغ علم بس اس قدر ہے کہ انہوں نے سنیما کے پردے پر کلین شیو ایکٹروں کو چھاتی پر مصنوعی بال چپکائے، اسٹوڈیو کے سورج کی دھوپ میں، سگریٹ کی پنی چڑھی ہوئی درانتیوں سے باجرے کے کھیت میں سے مکا کے بھٹے کاٹتے دیکھا ہے۔ یہاں یہ بتانا غالباً بے محل نہ ہوگا کہ اس سے چند سال پیشتر مرزا باغبانی کا ایک انتہائی نادر اور اتنا ہی نا کام تجربہ کر کے ہمیں ایک مضمون کا خام مواد مہیا کر چکے تھے۔ انہیں ایک دن اپنے کوٹ کا ننگا کالر دیکھ کر دفعتاً القا ہوا کہ ہونے کو تو گھرمیں اللہ کا دیا سب کچھ ہے سوائے روپے کے۔ لیکن اگر باغ میں گلاب کے گملے نہیں تو جینا فضول ہے۔ انہیں زندگی میں اچانک ایک زبر دست خلا محسوس ہونے لگا جسے صرف امریکی کھاد سے پر کیا جا سکتا تھا۔



اب جو آلو کی کاشت کا سودا سر میں سمایا تو ڈیڑھ دو ہفتے فقط اس موضوع پر ریسرچ ہوتی رہی کہ آلو بخارے کی طرح آلو کے بھی بیج ہوتے ہیں، یا کوئٹہ کے گلاب کی طرح آلو کی بھی ٹہنی کاٹ کر صاف ستھرے گملے میں گاڑ دی جاتی ہے۔ نیز آلو پٹ سن کی مانند گھٹنوں گھٹنوں پانی مانگتا ہے یا اخروٹ کی طرح بغیر محنت کے پشتہا پشت تک پھل دیتا رہے گا۔ دوران تحقیق ایک شق کہیں سے یہ بھی نکل آئی کہ بینگن کی طرح آلو بھی ڈلا ڈال پہ لٹکیں گے یا ترئی کی بیل کی طرح پڑوسی کی دیوار پر پڑے رہیں گے۔ پرو فیسر عبدالقدوس نے تو یہ شوشہ بھی اٹھایا کہ اگر رفع شر کی خاطر یہ مان لیا جائے کہ آلو واقعی زمین سے اگتے ہیں تو ڈنٹھل کا نشان کیسے مٹایا جاتا ہے؟



چھپا دست ہمت میں دست قضا ہے
پھر کیا تھا۔ کوئٹہ سے بذریعہ پی آئی اے سفید گلاب کی قلمیں منگائی گئیں۔گملوں کو کھولتے پانی اور فنائل سے ’’ڈس انفکٹ‘‘ کیا گیا۔ پھر کوئٹہ کے نازک و نایاب گلاب کو کراچی کے دیمک اور کیڑوں سے محفوظ رکھنے کیلئے اوباش بکری کی مینگنی کی گرم کھاد میں اتنی امریکی کھاد اور امریکی کھاد میں ہموزن ڈی ڈی ٹی پاؤڈر ملایا گیا۔ ابلے ہوئے پانی سے صبح و شام سینچائی کی گئی اور یہ واقعہ ہے کہ ان گملوں میں کبھی کوئی کیڑا نظر نہیں آیا اور نہ گلاب!



پروفیسر قاضی عبد القدوس کچھ غلط تو نہیں کہتے کہ مرزا حماقت بھی کرتے ہیں تو اس قدر ’’اوریجنل‘‘ کہ بخدا بالکل الہامی معلوم ہوتی ہے!



پایان کار مرزا نے آلو کی کاشت کے لئے زمین یعنی اپنا ’’لان‘‘ (جس کی افریقی گھاس کی ہریالی ایسی تھی کہ سگرٹ کی راکھ جھاڑتے ہوئے دل دکھتا تھا) تیار کیا۔ اس زراعتی تجربے کے دوران جہاں جہاں عقل محو تماشائے لب بام رہی، وہاں جوش نمرود بے خطر گلزار خلیل میں کود پڑا۔ دفتر کے چپراسیوں، اپنے پالتو خرگوش اور محلے کے لونڈے لاڑھیوں کی مدد سے دو ہی دن میں سارا لان کھو د پھینکا۔ بلکہ اس کے بعد بھی یہ عمل جاری رکھا۔ یہاں تک کہ دوسری منزل کے کرایہ داروں نے ہاتھ پاؤں جوڑ کے کھدائی رکوائی، اس لئے کہ مکان کی نیو نظر آنے لگی تھی۔



اس کی شبوں کا گداز
ہمیں ڈیڑھ مہینے کے لئے کام سے ڈھاکہ جانا پڑا ور مرزا سے ملاقاتوں کو سلسلہ موقوف ہو گیا۔ خط و کتابت کا مرزا کو دماغ نہیں۔ جیسے ہی ہم واپس آئے، انناس او منشی گنج کے کیلوں سے لدے پھندے مرزا کے ہاں پہنچے۔ ہم نے کہا، ’’السلام علیکم!‘‘ جواب ملا، ’’پھل اندر پہنچوا دو۔ وعلیکم السلام!‘‘ غور سے ان کی صورت دیکھی تو دل پہ چوٹ سی لگی۔

’یہ کیا حال بنا لیا تم نے؟‘‘

’’ہمیں جی بھر کے دیکھ لو۔ پھر اس صو رت کو ترسو گے۔ اشتہا ختم، دواؤں پر گزارا ہے۔ دن بھر میں تین انگور کھا پاتا ہوں، وہ بھی چھلکا اتارکے۔ کھانے کے نام سے ہول اٹھتا ہے۔ دل بیٹھا جاتا ہے۔ ہر وقت ایک بیکلی سی رہتی ہے۔ ہر چہرہ اداس اداس، ہر شے دھواں دھواں، یہ ہو نکتا سناٹا، یہ چیت کی اداس چاندنی، یہ۔۔۔‘‘

’مرزا! ہم تمہیں رومینٹک ہونے سے روک تو نہیں سکتے لیکن یہ مہینہ چیت کا نہیں ہے۔‘‘
چیت نہ سہی، چیت جیسا ضرور ہے، ظالم۔ تم تو ایک ہندو لڑکی سے دل بھی لگا چکے ہو تمہیں بتاؤ، یہ کون سے مہینے کا چاند ہے؟‘‘ مرزا نے سوال کیا۔



’’اسی مہینے کے معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ہم نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔



’’ہمیں بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ صاحب! عجیب عالم ہے۔ کام میں ذرا جی نہیں لگتااور بیکاری سے بھی وحشت ہوتی ہے۔ ذہن پراگندہ بلکہ سچ پوچھو تو محض گندہ۔ تاروں بھرے آسمان کے نیچے رات رات بھر آنکھیں پھاڑے تمہاری حماقتیں گنتا رہتا ہوں۔ تنہائی سے دل گھبراتا ہےاور لوگوں سے ملتا ہوں تو جی چاہتا ہے منہ نوچ لوں، او رصاحب!
ایک دو کا ذکر کیا، سارے کے سارے نوچ لوں‘‘



’’مرزا! ہو نہ ہو، یہ عشق کے آثار ہیں!‘‘



’’بجا، لیکن اگر صاحب معاملہ پر چالیس مہاوٹیں پڑ چکی ہوں، تو یہ آثار عشق کے نہیں’السر‘ کے ہیں۔کھانا کھاتے ہی محسوس ہوتا ہے گویا کسی نے حلق سے لے کر معدے تک تیزاب کی پھریری پھیردی ہے۔ ادھر کھایا، ادھر پیٹ پھول کر مشکیزہ ہوا، ہنسی کا رخ بھی اندر کی طرف ہو گیا ہے۔ سارا فتور آلو کا ہے۔ معدے میں ایسڈ بہت بننے لگا ہے ’پیپٹک السر ہو گیا ہے۔‘‘ ان کی آنکھیں ڈبڈبائیں۔



’’اس میں ہراساں ہونے کی کیا بات ہے۔ آج کل کسی کو ’ہارٹ اٹیک، یا السر، نہ ہو تو لوگ اس پر ترس کھانے لگتے ہیں کہ شاید بیچارہ کسی ذمہ دار عہدے پر فائز نہیں ہے!، مگر تم تو ملازمت کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہو۔ اپنے ’باس‘ سے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بات کرتے ہو۔پھر یہ کیسے ہوا؟ وقت پر سوتے ہو، وقت پر اٹھتے ہو۔ دادا کے وقتوں کی چاندی کی پتیلی میں ابالے بغیر پانی نہیں پیتے۔ وضو بھی پانی میں ’لسٹرین‘ملا کر کرتے ہو، جس میں 26 فیصد الکحل ہوتا ہے۔ حالات حاضرہ سے خو د کو بے خبر رکھتے ہو۔ باتوں کے علاوہ کسی چیز میں ترشی کو روا نہیں رکھتے۔ تیل بھی تم نہیں کھاتے۔ دس سال سے تو ہم خود دیکھ رہے ہیں، منٹگمری کا خالص دانے دار گھی کھا رہے ہو۔‘‘ ہم نے کہا۔



’’تمہیں یقین نہیں آئے گا یہ سب اسی منحوس کا فتور ہے۔ اب کی دفعہ جو سونے کے کشتہ سے زیادہ طاقت بخش گھی، کا سر بمہر کنستر اپنے ہاتھ سے انگیٹھی پر تپایا تو معلوم ہے تہ میں کیا نکلا؟ تین تین انگل آلو کی دانے دار لگدی! جبھی تو میں کہوں کہ میرا بنیان تو تنگ ہو گیا، مگر وزن کیوں نہیں بڑھ رہا!‘‘ مرزا نے آکر اپنے دس سالہ مرض کی جڑ پکڑ لی، جو ضلع منٹگمری تک پھیلی ہوئی تھی۔



کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے
پہلے مرزا کو درد کی ذرا برداشت نہیں تھی۔ ہمارے سامنے کی بات ہے، پہلی دفعہ پیٹ میں درد ہوا تو ڈاکٹر نے مارفیا کا انجکشن تیار کیا۔ مگر مرزا نے گھگیا کر منتیں کیں کہ انہیں پہلے کلورو فارم سنگھا دیا جائے تاکہ انجکشن کی تکلیف محسوس نہ ہو! لیکن اب اپنی بیماری پر اس طرح اترانے لگے تھے جیسے اکثر اوچھے اپنی تندرستی پر اکڑتے ہیں۔ ہمیں ان کی بیماری سے اتنی تشویش نہیں ہوئی جتنی اس بات سے کہ انہیں اپنے ہی نہیں پرائے مرض میں بھی اتنی ہی لذت محسوس ہونے لگی تھی۔ بھانت بھانت کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں سے اس طرح کرید کرید کر متعدی تفصیلات پوچھتے کہ رات تک ان کے سارے مرض اپنا لیتے۔ اس حد تک بخار کسی کو چڑھتا، سرسامی باتیں وہ کرتے۔ اس ہمدردانہ طرز عیادت سے مرزا نے خود کو زچگی کے سوا ہرقسم کی تکلیف میں مبتلا کر لیا۔ گھر یا دفتر کی قید نہیں، نہ اپنے بیگانے کی تخصیص، ہر ملاقاتی کو اپنی آنتوں کے ناقص فعل سے آگاہ کرتے اور اس سیماب صفت ریاحی درد کا لفظی گراف بناتے جو مصافحہ کرتے وقت نفخ و قراقر کا محرک تھا۔ پھر دائیں آنکھ کے پپوٹے میں ’’کرنٹ‘‘ مارتا، متورم جگرہکو چھیدتا، ٹلی ہوئی ناف کی طرف بڑھنے لگا تھا کہ پچھلے پہر اچانک پلٹا اور پلٹ کر دل میں برے برے خیال پیدا کرنے لگا اور پھر مرزا ہر برے خیال کو اس طرح کھول کر بیان کرتے کہ،



میں نے یہ جانا کہ گویایہ بھی میرے دل میں ہے۔



جن لوگوں نے مرزا کو پہلے نہیں دیکھا تھا وہ تصور نہیں کر سکتے تھے کہ یہ مرد بیمار جو فائلوں پر سر جھکائے، ’السر‘ کی تپک مٹانے کے لئے ہر دوسرے گھنٹے ایک گلاس دود ھ منہ بنا کر پی لیتا ہے، یہ چار مہینے قبل کوفتے میں ہری مرچ بھروا کر کھاتا تھا اور اس سے بھی جی نہیں بھرتا تو شام کو یہی کوفتہ ہری مرچ میں بھروا دیتا تھا۔ یہ نیم جاں جو بے مرچ مسالے کے راتب کو ’’انگلش فوڈ‘‘ کہہ کر صبر و شکر کے ساتھ کھا رہا ہے، یہ وہی چٹورا ہے جو چار مہینے پہلے یہ بتا سکتا تھا کہ صبح سات بجے سے لے کر رات کے نو بجے تک کراچی میں کس’سویٹ میٹ مرچنت‘ کی کڑھائی سے اترتی گرم جلیبی مل سکتی ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹی کے کون سے چینی ریستوراں میں تلے ہوئے جھینگے کھانے چا ہئیں جن کا چوگنا بل بناتے وقت مالک ریستوراں کی بیٹی اس طرح مسکراتی ہے کہ بخدا روپیہ ہاتھ کا میل معلوم ہوتا ہے۔ انہیں نہ صرف یہ پتہ تھا کہ لاہور میں زیورات کی کون سی دکان میں نہایت سبک’’ہیرا تراش‘‘ کلائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں، بلکہ یہ بھی معلوم تھا کہ مزنگ میں تکا کباب کی وہ کون سی دکان ہے جس کا ہیڈ آفس گوجرانوالہ میں ہے او ر یہ بھی کہ کڑا کڑاتے جاڑوں میں رات کے دو بجے لا ل کرتی کی کس پان کی دکان پر پنڈی کے من چلے طرح طرح کے پانوں سے زیادہ ان کے رسیلے ناموں کے مزے لوٹنے آتے ہیں۔ قصہ خوانی کے کسی مچھیل حلوائی کی دکان سے کالی گلاب جامن اور ناظم آباد کی کون سی چورنگی کے قریب گلاب میں بسا ہوا قلا قند قرض پر مل سکتا ہے۔ (یہ مفید مطلب معلومات مرز اکے ملک گیر چٹور پن کا نچوڑ ہیں۔ انہوں نے ساری عمر کیا ہی کیا ہے۔ اپنے دانتوں سے اپنی قبر کھودی ہے۔اطلاعاً عرض ہے کہ مرزا نقد پیسے دے کرمٹھائی خریدنا فضول خرچی سمجھتے ہیں) بھلا کوئی کیسے یقین کر لیتا کہ یہ آلو اور ’’کاربو ہائی ڈریٹ‘‘ کا شکار وہی ہے جس نے کل تک من بھاتے کھانوں کے کیسے کیسے البیلے جوڑے بنا رکھے تھے۔



کھڑے مسالے کے پسندے اور بیسنی روٹی، قیمہ بھرے کریلے اورگھی میں ترتراتے پراٹھے، مدراسی بریانی اور پارسی کوفتے (وہ بھی ایک لکھنوی پڑوسن کے ہاتھ کے) چپڑی روٹی اور ارو کی پھریری دال، بھنڈی اور۔۔۔ بھنڈی!(بھنڈی کے ساتھ مرزا کسی اور چیز کو شامل کرنے کے روادار نہیں)



مرزا کو کھانے کا ایسا ہو کا ہے کہ ایک منہ انہیں ہمیشہ نا کافی معلوم ہوتا ہے! ان کے ندیدے پن کو دیکھ کر ایک دفعہ پروفیسر قاضی عبد القدوس نے کہا تھا، ’’مرزا تمہارا حال گرگٹ جیسا ہے۔ اس کی زبان کی لمبائی اس کے جسم کی آدھی ہوتی ہے!‘‘ مرزا کی اداس آنکھیں ایک دم مسکرا اٹھیں۔ کہنے لگے، ’’صاحب! خدا نے ایک پارۂ گوشت کو جانے کس لذت سے ہمکنار کر دیا۔ اگر سارا بدن اس لذت سے آشنا ہو جاتا تو انسان اس کی تاب نہ لاتا۔ زمین کی چھاتی پھٹ جاتی!‘‘



مرزا پانچ چھ ہفتے میں پلنگ کو لات مار کر کھڑے ہو گئے۔ ہم تو اسے ان کی قوت ارادی کی کرامات ہی کہیں گے، حالانکہ وہ خود کچھ او ر وجہ بتاتے تھے۔ ایک دن ان کے معدے سے خون کٹ کٹ کر آنے لگا۔ہمیں چشم پر آب دیکھا تو ڈھارس دینے لگے، ’’میں مسلمان ہوں۔ جنت کا بھی قائل ہوں، مگر مجھے وہاں جانے کی جلدی نہیں ہے۔میں موت سے نہیں ڈرتا، مگر میں ابھی مر نہیں سکتا۔ میں ابھی مرنا نہیں چاہتا۔ اس لئے کہ اول تو تم میری موت کا صدمہ بر داشت نہیں کر سکو گے۔ دوم، میں پہلے مر گیا تو تم مجھ پر مضمون لکھ دو گے!‘‘ خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ خوف خاکہ سے صحت یاب ہوئے یا بقول شخصے مرغی کے غسل میت کے پانی سے جسے وہ چکن سوپ کہہ کر نوش جان فرما رہے تھے۔ بہر حال، بیماری جیسے آئی تھی، اسی طرح چلی گئی۔ فائدہ یہ ہوا کہ آلو سے جو بیزاری پہلے بلا وجہ تھی، اب اس کی نہایت معقول وجہ ہاتھ آ گئی اور یہ سراسر مرزا کی اخلاقی فتح تھی۔



مرض الحمد للہ دور ہو چکا تھا۔ پرہیز البتہ جاری تھا۔ وہ اس طرح کہ پہلے مرزا دوپہر کے کھانے کے بعد آدھ سیر جلیبی اکیلے کھا جاتے تھے لیکن اب ڈاکٹروں نے میٹھا بند کر دیا تھا۔ لہذا آدھ سیر امرتی پر اکتفا کرتے تھے۔



آلو کا منہ کالا، بھنڈی کا بول بالا
جیسے ہی مرزا کی صحت اور طبیعت معمول پر آئی، بغدادی جم خانہ میں یار لوگوں نے شایان شان پیمانے پر غسل صحت کے جشن کا اہتمام کیا۔ استقبالیہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ گھسے پٹے ڈنر ڈانس کے بجائے فینسی ڈریس بال کا اہتمام کیا جائے تاکہ ایک دوسرے پر ہنسنے کا موقع ملے۔ مہمان خصوصی تک یہ بھنک پہنچی تو انہوں نے ہماری زبانی کہلا بھیجا کہ نئے مضحکہ خیز لباس سلوانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ممبران اور ان کی بیگمات اگر ایمانداری سے وہی کپڑے پہنے پہنے جم خانہ چلے آئیں، جو وہ عموماً گھر میں پہنے بیٹھے رہتے ہیں تو منشاء پورا ہو جائے گا۔



رقص کے لئے البتہ ایک کڑی شرط مرزا نے یہ لگا دی کہ ہر ممبر صرف اپنی بیوی کے ساتھ رقص کرے گا، مگر اس لپک اور ہمک سے گویا وہ اس کی بیوی نہیں ہے! جشن کی رات جم خانہ کو جھنڈیوں اور بھنڈیوں سے دلہن بنایا گیا۔ سات کورس کے ڈنر سے پہلے روئی اور کاغذ سے بنے ہوئے ایک قدم آدم آلو کی ارتھی نکالی گئی، جس پر مرزا نے اپنے ہاتھ سے برانڈی چھڑک کر ماچس دکھائی اور سر گباشی کے ’’ڈمپل‘‘ پر گاف کلب مار کے کریا کرم کیا۔ ڈنر کے بعد مرزا پر ٹائلٹ پیپر کے پھول برسائے گئے اور کچی کچی بھنڈیوں میں تولا گیا جن پر ابھی ٹھیک سے سنہری رواں بھی نہیں نکلا تھا۔ پھر یہ بھنڈیاں مستحقین یعنی معدے کے لکھ پتی مریضوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ شمپین سے مہکتے ہوئے بال روم میں غبارے چھوڑے گئے۔ خالی بوتلوں کی قیمت کا عطیہ ایک یتیم خانے کو دینے کا علان کیا گیااور غسل صحت کی خوشی میں کارڈروم والوں نے جوئے کے اگلے پچھلے سارے قرضے معاف کر دیئے۔



مرزا بات بے بات پر مسکرا رہے تھے۔ تیسرا رقص ختم ہوتے ہی ہم اپنی کہنیوں سے راستہ بناتے ہویے ہم ان تک پہنچے۔ وہ اس لمحے ایک بڑے غبارے میں جلتے ہوئے سگریٹ سے سوراخ کرنے چلے تھے کہ ہم نے اس کا ذکر چھیڑ دیا جس کی جناب میں کل تک گستاخی فرشتہ پسند نہ تھی۔ ’’مرزا! آلو اگر اتنا ہی مضر ہے تو انگلینڈ میں اس قدر مقبول کیوں ہے؟ ایک انگریز اوسطاً دس اونس آلو یومیہ کھا جاتا ہے۔ یعنی سال میں ساڑھے پانچ من! سن رہے ہو، ساڑھے پانچ من!‘‘ بولے، ’’صاحب! انگریز کی کیا بات ہے! اس کی مفلسی سے بھی ایک شان ٹپکتی ہے۔ وہ پٹتا بھی ہے تو ایک ہیکڑی کے ساتھ! لن یوتانگ نے کہیں لکھا ہے کہ ہم چینیوں کے بارے میں لوگوں میں یہ مشہور کر رکھا ہے کہ قحط پڑتا ہے تو ہم اپنے بچے تک کھا جاتے ہیں۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہم انہیں اس طرح نہیں کھاتے جس طرح انگریز ’بیف‘ کھاتے ہیں یعنی کچا!‘‘ ہم بھی جواباً کچھ کہنا چاہتے تھے کہ ایک نکیلی ایڑی جو ایک حسین بوجھ سہارے ہوئے تھی، ہمارے پنجے میں برمے کی طرح اتر تی چلی گئی۔ ہماری مردانہ چیخFOR HE IS A JOLLY GOOD FELLOW کے کورس میں دب گئی۔ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے کا برمی ساگوان کا ڈانس فلور بہکے بہکے قدموں تلے پھر چرچرانے لگا۔
******
 
Top