فضل و کرم کے اے خدا .....

صفی حیدر

محفلین
فضل و کرم کے اے خدا لوگ ہیں انتظار میں
روگ بھی ہے علاج بھی تیرے ہی اختیار میں
لوگ جو ہیں سفید پوش اُن کا بھرم نہ جائے کاش
آہ کھڑے نہ ہوں کبھی کاسہ لیے قطار میں
ٹوٹ پڑی ہیں آفتیں شہر کے مفلسوں پہ جو
خوف زدہ وبا سے ہیں , ہیں غمِ روزگار میں
چاروں طرف ہے خامشی خالی پڑے ہیں راستے
دہشتِ مرگ کے سبب ڈر کے ہیں سب حصار میں
ہاتھ کوئی ملائے گا ؟ کوئی گلے لگائے گا ؟
ملنے کی اب نہیں ہے کیا رسم بھی شہرِ یار میں ؟
پھول کھلے ہیں باغ میں نالہ سرا ہے عندلیب
بند کیا وبا نے آہ گھر میں صفی بہار میں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خوب! اچھے شعر ہیں لیکن خصوصاً اس بحر میں اتنے سارے حروف کا اسقاط روانی کو شدید متاثر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر:
؎ دہشتِ مرگ کے سبب ڈر کے ہیں سب حصار میں
اس کو اگر یوں کیجئے: دہشتِ مرگ کے سبب ، خوف کے ہیں حصار میں : تو زیادہ رواں ہے۔
 

صفی حیدر

محفلین
خوب! اچھے شعر ہیں لیکن خصوصاً اس بحر میں اتنے سارے حروف کا اسقاط روانی کو شدید متاثر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر:
؎ دہشتِ مرگ کے سبب ڈر کے ہیں سب حصار میں
اس کو اگر یوں کیجئے: دہشتِ مرگ کے سبب ، خوف کے ہیں حصار میں : تو زیادہ رواں ہے۔
بہت شکریہ محترم سر… مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے اشعار کو پذیرائی بخشی اور ایک اہم نقطے کو بیان کر کے میرے علم میں اضافہ کیا… کوشش تو یہی تھی کہ حروف کا اسقاط کم سے کم ہو… اسی بحر میں استادِ سخن مرزا غالب کی چند غزلیات نظر سے گزریں شاید ہی کوئی مصرعہ ہو جس میں حروف کا اسقاط نہ کیا گیا ہو لیکن سارے اسقاط کے باوصف رواں دواں کلام ہے… شاید میرے سے اسقاطِ حروف میں ہنر مندی نہیں برتی جا سکی… کوشش یہ ہی رہے گی کہ آپ کے بیان کردہ نقطے کے مطابق زیادہ روانی لا سکوں… مکرر تحریر ہے کہ آپ جیسے خوبصورت اور سکہ بند شاعر کا میرے کلام پر تبصرہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے… امید ہے آپ اپنی ماہرانہ رائے سے نوازتے رہیں گے…
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اسی بحر میں استادِ سخن مرزا غالب کی چند غزلیات نظر سے گزریں شاید ہی کوئی مصرعہ ہو جس میں حروف کا اسقاط نہ کیا گیا ہو لیکن سارے اسقاط کے باوصف رواں دواں کلام ہے… شاید میرے سے اسقاطِ حروف میں ہنر مندی نہیں برتی جا سکی

صفی حیدر بھائی ، پہلی بات تو یہ کہ نہ میں کسی قسم کا ماہر ہوں اور نہ ہی کوئی سکہ بند شاعر ہوں ۔ سکہ کھول کر پھینکے ایک زمانہ ہوا ۔ :):):) آپ ہی کی طرح کا شاعر ہوں اور سیکھنے میں لگا رہتا ہوں۔ بس مجھے آپ سینئر شاعر سمجھ لیجئے کہ بچپن ہی سے اس دشت کی سیاحی میں گرداں ہوں ۔ اسی تجربے کی بناء پر اپنی حقیر رائے دیتا ہوں اور ایک دو نکات کہ جو میں نے بڑوں سے سیکھے ہیں وہ یہاں استفادۂ عام کے لئے بیان کردیتا ہوں تاکہ چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ جاری رہے۔ اپنے پہلے مراسلے کے اجمال کی کچھ تفصیل یہاں لکھ دیتا ہوں ۔
حروف علت کے جائز اسقاط کے بغیر تو شاعری محال ہے ۔ بلکہ دو حرفی الفاظ از قسم ہی ،کو، سے ،کا، میں ، تو ، نہ وغیرہ کو تو تقریباً ہمیشہ ہی یک حرفی باندھا جاتا ہے سو انہیں تو عملی طور پر یک حرفی ہی سمجھنا چاہئے ۔ عام اصول یہ ہے کہ اسقاطِ حرف جتنا کم ہوگا مصرع کی روانی اتنی ہی کم متاثر ہوگی ۔ لیکن کسی بحر میں کوئی کوئی مقام ایسا ہوتا ہے کہ جہاں سقوطِ حرف سے مصرع کی روانی(مصرع کی پڑھنت یا قراءت) واضح طور پر متاثر ہوتی ہے۔ یعنی ایک لفظ سے دوسرے لفظ تک جانے میں زبان کو ایک جھٹکا سا محسوس ہوتا ہے۔ آپ نے بعض اساتذہ کے تبصروں میں اس طرح کی بات پڑھی ہوگی کہ یہاں الف کس بری طرح گر رہا ہے یا واؤ بہت زیادہ دب رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اگرچہ ان مصرعوں میں ان حروف کا گرانا عروضی طور پر جائز ہے لیکن مصرع پڑھنے میں زبان اٹکتی ہے اس لئے ایسا کہاگیا ۔ اور یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ شعر اور موسیقیت (جسےانگریزی میں رِدھم کہئے) عملی طور پر ہم معنی ہیں ۔
آپ کی غزل مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن کے وزن پر ہے ۔ چونکہ اردو کا شاید ہی کوئی لفظ مفتعلن کے وزن پر پورا بیٹھتا ہو اس لئے مفتعلن میں "ت" کے مقام پر سقوطِ حرف کا امکان ہے ۔ اگر آپ غالب کی اس غزل" دَیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں" کا بغور جائزہ لیں تو دیکھیں گےکہ اکثر مصرعوں کے دوسرے مفتعلن میں غالب نے "ت" کے مقام پر سقوطِ حرف نہیں کیا ۔ (اٹھارہ میں سے صرف چار جگہوں پر اسقاط ہے)۔ وجہ یہ کہ ایک دفعہ جب مصرع پڑھنا شروع کردیں اور زبان وزن سے آشنا ہوجائے تو دوسرے مفتعلن پر آکر جھٹکا لگنا روانی کو متاثر کرتا ہے ۔ آپ کی غزل کے جس شعر پر میں تبصرہ کیا وہ یہ تھا:
چاروں طرف ہے خامشی ، خالی پڑے ہیں راستے
دہشتِ مرگ کے سبب ڈر کے ہیں سب حصار میں
اگرچہ اس شعر میں اسقاطِ حروف عروضی اجازات کے مطابق ہےلیکن اس میں خالی کی "ی" بری طرح گر رہی ہے۔ (ویسے روایتی طور پر اساتذہ فارسی اور عربی لفظ سے حرف گرانے کو ناجائز سمجھتے آئے ہیں )۔ مفہوم سے قطع نظر کرتے ہوئے مثال کی غرض سے اگر اس شعر کو یوں کر دیکھیں :
چار طرف ہے خامشی ، کانپ رہے ہیں راستے
دہشتِ مرگ کے سبب ، خوف کے سب حصار میں
تو روانی میں واضح طور پر بہتری آجاتی ہے ۔ اب اس میں اسقاطِ حروف پہلے سے بہت ہی کم ہے اور خصوصاً مفتعلن کی "ت" کے مقام پر کوئی حرف نہیں گرایا گیا۔ صفی حیدر بھائی ، یہ باتیں کتابوں میں درج نہیں ہیں ۔ یہ لطیف نکتے ہم تک صرف اہلِ علم وہنر کی صحبتوں اور توجہ سے پہنچے ہیں۔ امید ہے کہ میری گزارشات کو فراخ دل اور کشادہ پیشانی سے دیکھیں گے۔ اگر کوئی گستاخی ہوگئی ہو تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں ۔
 

صفی حیدر

محفلین
صفی حیدر بھائی ، پہلی بات تو یہ کہ نہ میں کسی قسم کا ماہر ہوں اور نہ ہی کوئی سکہ بند شاعر ہوں ۔ سکہ کھول کر پھینکے ایک زمانہ ہوا ۔ :):):) آپ ہی کی طرح کا شاعر ہوں اور سیکھنے میں لگا رہتا ہوں۔ بس مجھے آپ سینئر شاعر سمجھ لیجئے کہ بچپن ہی سے اس دشت کی سیاحی میں گرداں ہوں ۔ اسی تجربے کی بناء پر اپنی حقیر رائے دیتا ہوں اور ایک دو نکات کہ جو میں نے بڑوں سے سیکھے ہیں وہ یہاں استفادۂ عام کے لئے بیان کردیتا ہوں تاکہ چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ جاری رہے۔ اپنے پہلے مراسلے کے اجمال کی کچھ تفصیل یہاں لکھ دیتا ہوں ۔
حروف علت کے جائز اسقاط کے بغیر تو شاعری محال ہے ۔ بلکہ دو حرفی الفاظ از قسم ہی ،کو، سے ،کا، میں ، تو ، نہ وغیرہ کو تو تقریباً ہمیشہ ہی یک حرفی باندھا جاتا ہے سو انہیں تو عملی طور پر یک حرفی ہی سمجھنا چاہئے ۔ عام اصول یہ ہے کہ اسقاطِ حرف جتنا کم ہوگا مصرع کی روانی اتنی ہی کم متاثر ہوگی ۔ لیکن کسی بحر میں کوئی کوئی مقام ایسا ہوتا ہے کہ جہاں سقوطِ حرف سے مصرع کی روانی(مصرع کی پڑھنت یا قراءت) واضح طور پر متاثر ہوتی ہے۔ یعنی ایک لفظ سے دوسرے لفظ تک جانے میں زبان کو ایک جھٹکا سا محسوس ہوتا ہے۔ آپ نے بعض اساتذہ کے تبصروں میں اس طرح کی بات پڑھی ہوگی کہ یہاں الف کس بری طرح گر رہا ہے یا واؤ بہت زیادہ دب رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اگرچہ ان مصرعوں میں ان حروف کا گرانا عروضی طور پر جائز ہے لیکن مصرع پڑھنے میں زبان اٹکتی ہے اس لئے ایسا کہاگیا ۔ اور یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ شعر اور موسیقیت (جسےانگریزی میں رِدھم کہئے) عملی طور پر ہم معنی ہیں ۔
آپ کی غزل مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن کے وزن پر ہے ۔ چونکہ اردو کا شاید ہی کوئی لفظ مفتعلن کے وزن پر پورا بیٹھتا ہو اس لئے مفتعلن میں "ت" کے مقام پر سقوطِ حرف کا امکان ہے ۔ اگر آپ غالب کی اس غزل" دَیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں" کا بغور جائزہ لیں تو دیکھیں گےکہ اکثر مصرعوں کے دوسرے مفتعلن میں غالب نے "ت" کے مقام پر سقوطِ حرف نہیں کیا ۔ (اٹھارہ میں سے صرف چار جگہوں پر اسقاط ہے)۔ وجہ یہ کہ ایک دفعہ جب مصرع پڑھنا شروع کردیں اور زبان وزن سے آشنا ہوجائے تو دوسرے مفتعلن پر آکر جھٹکا لگنا روانی کو متاثر کرتا ہے ۔ آپ کی غزل کے جس شعر پر میں تبصرہ کیا وہ یہ تھا:
چاروں طرف ہے خامشی ، خالی پڑے ہیں راستے
دہشتِ مرگ کے سبب ڈر کے ہیں سب حصار میں
اگرچہ اس شعر میں اسقاطِ حروف عروضی اجازات کے مطابق ہےلیکن اس میں خالی کی "ی" بری طرح گر رہی ہے۔ (ویسے روایتی طور پر اساتذہ فارسی اور عربی لفظ سے حرف گرانے کو ناجائز سمجھتے آئے ہیں )۔ مفہوم سے قطع نظر کرتے ہوئے مثال کی غرض سے اگر اس شعر کو یوں کر دیکھیں :
چار طرف ہے خامشی ، کانپ رہے ہیں راستے
دہشتِ مرگ کے سبب ، خوف کے سب حصار میں
تو روانی میں واضح طور پر بہتری آجاتی ہے ۔ اب اس میں اسقاطِ حروف پہلے سے بہت ہی کم ہے اور خصوصاً مفتعلن کی "ت" کے مقام پر کوئی حرف نہیں گرایا گیا۔ صفی حیدر بھائی ، یہ باتیں کتابوں میں درج نہیں ہیں ۔ یہ لطیف نکتے ہم تک صرف اہلِ علم وہنر کی صحبتوں اور توجہ سے پہنچے ہیں۔ امید ہے کہ میری گزارشات کو فراخ دل اور کشادہ پیشانی سے دیکھیں گے۔ اگر کوئی گستاخی ہوگئی ہو تو پیشگی معذرت چاہتا ہوں ۔
محترم سر آپ باکمال شاعر ہی نہیں بہترین استادِ سخن بھی ہیں… آپ کے بیان کردہ اصلاحی نکات اور فنِ شاعری کے رموز میرے لیے مشعلِ راہ ہیں.. اور واقعی ایسے علمی جواہر پارے کسی عروضی کتاب سے نہیں مل سکتے جو برسوں کی ریاضت اور دشتِ سخن کی سیاحت کے بعد آپ کو حاصل ہوئے ہیں.. اور جنہیں آپ کمال فیاضی کے ساتھ ہم جیسے نوآموز شعراء کو عطا کرتے ہیں تاکہ ہم بھی آپ کے عطا کردہ لعل و گوہر سے اپنے کلام کو مزین کر سکیں… اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے…
آپ کا بیان کردہ یہ نکتہ میرے لیے ایک نئی بات ہے کہ کسی بحر میں ایسا مقام بھی ہوتا ہے جہاں اسقاطِ حروف روانی کو متاثر کرتے ہیں جیسا کہ اس بحر میں ہے اور آپ کی بات درست ہے جو مرزا غالب کی غزل کا بغور مطالعہ کرنے کی بعد مجھ پر آشکار ہوئی ہے ..
میری غزل کے جس شعر کی آپ نے نشاندہی کر کے اصلاح کی یے اس سے یہ نکتہ مکمل طور پر واضح ہو گیا ہے…
آپ نے اس لطیف نکتے کو اتنی خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ جس کی ستائش الفاظ میں ممکن نہیں اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے...
میں پوری کوشش کروں گا کہ ان اصلاحی نکات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مزید طبع آزمائی کروں…
آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ اپنے فقید المثال علم اور تجربے سے میری آئندہ کی شعری کاوشوں کی اصلاح بھی کیجیے گا… یقین جانیے آپ کی نظرِ کرم نے مجھے بے پایاں خوشی بھی دی ہے اور میرے علم میں اضافہ بھی کیا ہے… اللہ پاک آپ کو اپنی امان میں رکھے… آمین ثم آمین
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
صفی حیدر بھائی ، مندرجہ بالا گفتگو کے ضمن میں پیزادہ قاسم کی اس شاہکار غزل کو بھی دیکھئے ۔ ذرا دیکھئے کہ کیا غضب کی روانی ہے ان اشعار میں ۔

غم سے بہل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

سایہء وصل کب سے ہے آپ کا منتظر مگر
ہجر میں جل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا ہے آپ نے
ہاتھ بھی مَل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

وقت نے آرزو کی لَو دیر ہوئی بجھا بھی دی
اب بھی پگھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

زحمتِ ضربتِ دگر دوست کو دیجئے نہیں
گر کے سنبھل رہے ہیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں

دائرہ وار ہی تو ہیں عشق کے سارے سلسلے
راہ بدل رہے ہیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں

دشت کی ساری رونقیں خیر سے گھر میں ہیں تو کیوں
گھر سے نکل رہے ہیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں

اپنی تلاش کا سفر ختم بھی کیجیے کبھی
خواب میں چل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

(پیرزادہ قاسم)
 

صفی حیدر

محفلین
صفی حیدر بھائی ، مندرجہ بالا گفتگو کے ضمن میں پیزادہ قاسم کی اس شاہکار غزل کو بھی دیکھئے ۔ ذرا دیکھئے کہ کیا غضب کی روانی ہے ان اشعار میں ۔

غم سے بہل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

سایہء وصل کب سے ہے آپ کا منتظر مگر
ہجر میں جل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا ہے آپ نے
ہاتھ بھی مَل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

وقت نے آرزو کی لَو دیر ہوئی بجھا بھی دی
اب بھی پگھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

زحمتِ ضربتِ دگر دوست کو دیجئے نہیں
گر کے سنبھل رہے ہیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں

دائرہ وار ہی تو ہیں عشق کے سارے سلسلے
راہ بدل رہے ہیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں

دشت کی ساری رونقیں خیر سے گھر میں ہیں تو کیوں
گھر سے نکل رہے ہیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں

اپنی تلاش کا سفر ختم بھی کیجیے کبھی
خواب میں چل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

(پیرزادہ قاسم)
واہ سر… آپ نے نہایت کمال کا عمدہ کلام عنایت کیا ہے… . اور آپ کے بیان کردہ نکات کی روشنی میں جب پرکھا تو مزید صراحت کے ساتھ وضاحت ہو گئی… ان نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بحر میں مزید طبع آزمائی کروں گا اور اصلاح کے لیے پیش کروں گا… اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے آمین…
 
صفی حیدر بھائی ، مندرجہ بالا گفتگو کے ضمن میں پیزادہ قاسم کی اس شاہکار غزل کو بھی دیکھئے ۔ ذرا دیکھئے کہ کیا غضب کی روانی ہے ان اشعار میں ۔

غم سے بہل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

سایہء وصل کب سے ہے آپ کا منتظر مگر
ہجر میں جل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا ہے آپ نے
ہاتھ بھی مَل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

وقت نے آرزو کی لَو دیر ہوئی بجھا بھی دی
اب بھی پگھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

زحمتِ ضربتِ دگر دوست کو دیجئے نہیں
گر کے سنبھل رہے ہیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں

دائرہ وار ہی تو ہیں عشق کے سارے سلسلے
راہ بدل رہے ہیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں

دشت کی ساری رونقیں خیر سے گھر میں ہیں تو کیوں
گھر سے نکل رہے ہیں آپ ، آپ بہت عجیب ہیں

اپنی تلاش کا سفر ختم بھی کیجیے کبھی
خواب میں چل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

(پیرزادہ قاسم)
بقول خود شاعر، بھائی جون کی لفظی تصویر :)
 
فضل و کرم کے اے خدا لوگ ہیں انتظار میں
روگ بھی ہے علاج بھی تیرے ہی اختیار میں
لوگ جو ہیں سفید پوش اُن کا بھرم نہ جائے کاش
آہ کھڑے نہ ہوں کبھی کاسہ لیے قطار میں
ٹوٹ پڑی ہیں آفتیں شہر کے مفلسوں پہ جو
خوف زدہ وبا سے ہیں , ہیں غمِ روزگار میں
چاروں طرف ہے خامشی خالی پڑے ہیں راستے
دہشتِ مرگ کے سبب ڈر کے ہیں سب حصار میں
ہاتھ کوئی ملائے گا ؟ کوئی گلے لگائے گا ؟
ملنے کی اب نہیں ہے کیا رسم بھی شہرِ یار میں ؟
پھول کھلے ہیں باغ میں نالہ سرا ہے عندلیب
بند کیا وبا نے آہ گھر میں صفی بہار میں
موقع کی مناسبت سے خوب لکھا ہے صفی حیدر بھائی!
 
Top