اصلاح

کاشف جامی

محفلین
نہ دل بھرانہ نظربھری تجھے دیکھنے کے بعد
ہجر بڑھا،طلب بڑھی تجھے دیکھنے کے بعد۔
انگاریاں چنگاریاں تجھے دیکھنے کے بعد
مدہوشیاں خاموشیاں تجھے دیکھنے کےبعد۔

ان اشعار کی اصلاح فرما دیں
 
آخری تدوین:
نہ دل بھرانہ نظربھری تجھے دیکھنے کے بعد
حجر بڑھا،طلب بڑھی تجھے دیکھنے کے بعد۔
انگاریاں چنگاریاں تجھے دیکھنے کے بعد
مدہوشیاں خاموشیاں تجھے دیکھنے کےبعد۔

ان اشعار کی اصلاح فرما دیں
اصلاح کے لیے اساتذہ کو ٹیگ کیے دیتے ہیں. الف عین ظہیراحمدظہیر محمد خلیل الرحمٰن
مزید برآں میں اپنے علم میں اضافے کے لیے 'حجر' کے معانی پوچھنا چاہتی ہوں. پتھر کے علاوہ کسی اور معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے؟ اسی طرح یہ کہ ان اشعار میں ردیف 'تجھے دیکھنے کے بعد' ہے اور ہم قافیہ الفاظ کیا ہیں؟ چنگاریاں، خاموشیاں؟
 

کاشف جامی

محفلین
نہ دل بھرانہ نظربھری تجھے دیکھنے کے بعد
ہجر بڑھا،طلب بڑھی تجھے دیکھنے کے بعد۔
انگاریاں چنگاریاں تجھے دیکھنے کے بعد
مدہوشیاں خاموشیاں تجھے دیکھنے کےبعد۔
یوں تو ہرشخص رہتاتھا نالاںتیری دِیدسے
محرم ہوا،مجرم بناتجھے دیکھنے کےبعد۔
کیسے کہیں دل کی یہ داستاں میرے ہمنوا
کہ مرہم نہ کوئی بن سکا تجھے دیکھنے کےبعد۔
کچھ بھی ہوان منزلوں سےہٹنانہیں پیچھےمجھے
کہ جامیؔ کو جام بھی مل گیا تجھے دیکھنے کے بعد۔

ان اشعار کی اصلاح فرما دیں[/QUOTE]
اصلاح کے لیے اساتذہ کو ٹیگ کیے دیتے ہیں. الف عین ظہیراحمدظہیر محمد خلیل الرحمٰن
مزید برآں میں اپنے علم میں اضافے کے لیے 'حجر' کے معانی پوچھنا چاہتی ہوں. پتھر کے علاوہ کسی اور معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے؟ اسی طرح یہ کہ ان اشعار میں ردیف 'تجھے دیکھنے کے بعد' ہے اور ہم قافیہ الفاظ کیا ہیں؟ چنگاریاں، خاموشیاں؟[/QUOTE
معذرت ٹائپنگ۔۔جی وزن تو برابر نہیں لگ رہا۔میں نے تو عرض کیا مجھے تو سیکھنا ہے درست کروا دیں۔شکریہ
 
آخری تدوین:
یہ کون سی بحر ہے؟ :)
نہ دل بھرانہ نظربھری تجھے دیکھنے کے بعد
ہجر بڑھا،طلب بڑھی تجھے دیکھنے کے بعد۔
انگاریاں چنگاریاں تجھے دیکھنے کے بعد
مدہوشیاں خاموشیاں تجھے دیکھنے کےبعد۔
یوں تو ہرشخص رہتاتھا نالاںتیری دِیدسے
محرم ہوا،مجرم بناتجھے دیکھنے کےبعد۔
کیسے کہیں دل کی یہ داستاں میرے ہمنوا
کہ مرہم نہ کوئی بن سکا تجھے دیکھنے کےبعد۔
کچھ بھی ہوان منزلوں سےہٹنانہیں پیچھےمجھے
کہ جامیؔ کو جام بھی مل گیا تجھے دیکھنے کے بعد۔

ان اشعار کی اصلاح فرما دیں
 
آخری تدوین:
نہ دل بھرانہ نظربھری تجھے دیکھنے کے بعد
ہجر بڑھا،طلب بڑھی تجھے دیکھنے کے بعد۔
انگاریاں چنگاریاں تجھے دیکھنے کے بعد
مدہوشیاں خاموشیاں تجھے دیکھنے کےبعد۔
یوں تو ہرشخص رہتاتھا نالاںتیری دِیدسے
محرم ہوا،مجرم بناتجھے دیکھنے کےبعد۔
کیسے کہیں دل کی یہ داستاں میرے ہمنوا
کہ مرہم نہ کوئی بن سکا تجھے دیکھنے کےبعد۔
کچھ بھی ہوان منزلوں سےہٹنانہیں پیچھےمجھے
کہ جامیؔ کو جام بھی مل گیا تجھے دیکھنے کے بعد۔

ان اشعار کی اصلاح فرما دیں

یہ اشعار کسی بحر میں نہیں ہیں۔
 

کاشف جامی

محفلین
اصلاح کے لیے اساتذہ کو ٹیگ کیے دیتے ہیں. الف عین ظہیراحمدظہیر محمد خلیل الرحمٰن
مزید برآں میں اپنے علم میں اضافے کے لیے 'حجر' کے معانی پوچھنا چاہتی ہوں. پتھر کے علاوہ کسی اور معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے؟ اسی طرح یہ کہ ان اشعار میں ردیف 'تجھے دیکھنے کے بعد' ہے اور ہم قافیہ الفاظ کیا ہیں؟ چنگاریاں، خاموشیاں؟
و
یہ اشعار کسی بحر میں نہیں ہیں۔
سر کچھ ساری نہیں تو کچھ غلطیوں کو سمجھا دیں
 

الف عین

لائبریرین
مثال کے طور پر
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات
مفعول فاعلات تجھے دیکھنے کے بعد
تو ردیف ہوئی تجھے دیکھنے کے بعد، اور اب اس سے پہلے ہم قافیہ الفاظ لگائے جائیں گے اور سارے مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن /فاعلات کے وزن پر ہوں گے۔ پوری غزل میں ایک ہی نوعیت کے قوافی
جیسے
اک بار تجھے دیکھنے کے بعد
یار تجھے.......
زار زار تجھے...
بہار تجھے...
 
غلطیوں والی بحر۔۔۔۔:)
ہم قافیہ کو کیسے مرتب کیا جانا چاہیے؟سمجھا دیں:)
میں خود اس حوالے سے ایک مبتدی ہوں. امید ہے آپ کو استاد صاحب کی بات سمجھ آ گئی ہو گی. تاہم اگر مجھ سے پوچھ رہے ہیں تو اتنا ضرور کہوں گی، سب سے پہلے کسی استاد شاعر کے اپنے دو پسندیدہ کلام لیں اور انہیں ڈائسیکٹ کریں. یعنی یہ دیکھیں کہ انہوں نے کیسے لکھا ہے. آپ کو دونوں مصرعوں میں الفاظ کی آوازوں کی ہم آہنگی ملے گی. پھر مختلف اصنافِ سخن کو کیسے لکھا گیا ہے اس کا مشاہدہ کریں، یا اگر آپ اغاز میں صرف غزل کو لے لیں تو غزل لکھنے کے لیے زمین بنانی پڑے گی. زمین کے لیے ایک عدد بحر چاہیے، ایک ردیف چاہیے جو ہر شعر کے دوسرے مصرع کے اختتام پر آئے گا اور ردیف سے پہلے قافیہ یعنی ہم آواز الفاظ ہونا لازم ہیں (انٹرنیٹ پر بحر ڈھونڈ سکتے ہیں لیکن اگر یہ بھی مشکل لگے تو کسی اور شاعر کی بنائی گئی زمین میں لکھنے کا آغاز کریں.)
مثال کے طور پر:
یہ غالب کی غزل ہے

سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
بس ہجومِ نا امیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذّت ہماری سعئِ بے حاصل میں ہے
رنجِ رہ کیوں کھینچیے؟ واماندگی کو عشق ہے
اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے
جلوہ زارِ آتشِ دوزخ ہمارا دل سہی
فتنۂ شورِ قیامت کس کی آب و گِل میں ہے
ہے دلِ شوریدۂ غالبؔ طلسمِ پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنّا پر کہ کس مشکل میں ہے

اور اس کی بحر ہے:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

میں نے نئی زمین بنائے بغیر اسی بحر، اسی ردیف اور تقریبا انہی ہم آواز الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے ایک مبتدی کی حیثیت سے یہ لکھا ہے.

حُسن کی وہ اِک جھلک جو پردۂ محمل میں ہے
حُسن ایسا نہ کبھی دیکھا مہِ کامل میں ہے

عمر ساری چلتا جاؤں,حُسنِ جاناں کی قسم!
ہم سفر تجھ سا ہو تَو پھر رکھا کیا منزل میں ہے؟

تخلیہ! اے ناصحا! مجھ کو اکیلا چھوڑ دے
یاد اُس کی جلوہ فرما آج میرے دل میں ہے

جو صنم کل تھا تراشا وہ خُدا بن بیٹھا آج
زندگی آزر کی اب تَو , ہاں! بہت مشکل میں ہے

مجھ سے آشفتہ مزاجوں کا نہ ہے واں کوئی کام
"ذکر میرا مُجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے"

تُو ہی تُو ہے ہر طرف اور بس تِرا ہی ہے خیال
بس یہی ہے سب سے اُولٰی, جو مِرے حاصل میں ہے

امید ہے آپ کو کچھ کچھ سمجھ آئی ہو گی اور جلد بحر میں آپ کی کوئی کاوش یہاں پوسٹ کی جائے گی. مقصد یہ سب کہنے کا فقط یہ ہے کہ شروع میں مشکل سا کام لگتا ہے مگر پریکٹس سے ٹھیک ہونے لگتا ہے. کچھ اور پوچھنا چاہیں تو پوچھ سکتے ہیں!
 
آخری تدوین:
عمر ساری چلتا جاؤں,حُسنِ جاناں کی قسم!
ہم سفر تجھ سا ہو تَو پھر رکھا کیا منزل میں ہے؟

تخلیہ! اے ناصحا! مجھ کو اکیلا چھوڑ دے
یاد اُس کی جلوہ فرما آج میرے دل میں ہے

جو صنم کل تھا تراشا وہ خُدا بن بیٹھا آج
زندگی آزر کی اب تَو , ہاں! بہت مشکل میں ہے

مجھ سے آشفتہ مزاجوں کا نہ ہے واں کوئی کام
"ذکر میرا مُجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے"

تُو ہی تُو ہے ہر طرف اور بس تِرا ہی ہے خیال
بس یہی ہے سب سے اُولٰی, جو مِرے حاصل میں ہے

واہ! اچھی کوشش ہے۔ علیحدہ دھاگہ بناکر پیش فرمائیے تاکہ اس پر بھی کچھ صلاح دی جاسکے
 

کاشف جامی

محفلین
میں خود اس حوالے سے ایک مبتدی ہوں. امید ہے آپ کو استاد صاحب کی بات سمجھ آ گئی ہو گی. تاہم اگر مجھ سے پوچھ رہے ہیں تو اتنا ضرور کہوں گی، سب سے پہلے کسی استاد شاعر کے اپنے دو پسندیدہ کلام لیں اور انہیں ڈائسیکٹ کریں. یعنی یہ دیکھیں کہ انہوں نے کیسے لکھا ہے. آپ کو دونوں مصرعوں میں الفاظ کی آوازوں کی ہم آہنگی ملے گی. پھر مختلف اصنافِ سخن کو کیسے لکھا گیا ہے اس کا مشاہدہ کریں، یا اگر آپ اغاز میں صرف غزل کو لے لیں تو غزل لکھنے کے لیے زمین بنانی پڑے گی. زمین کے لیے ایک عدد بحر چاہیے، ایک ردیف چاہیے جو ہر شعر کے دوسرے مصرع کے اختتام پر آئے گا اور ردیف سے پہلے قافیہ یعنی ہم آواز الفاظ ہونا لازم ہیں (انٹرنیٹ پر بحر ڈھونڈ سکتے ہیں لیکن اگر یہ بھی مشکل لگے تو کسی اور شاعر کی بنائی گئی زمین میں لکھنے کا آغاز کریں.)
مثال کے طور پر:
یہ غالب کی غزل ہے

سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
بس ہجومِ نا امیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذّت ہماری سعئِ بے حاصل میں ہے
رنجِ رہ کیوں کھینچیے؟ واماندگی کو عشق ہے
اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے
جلوہ زارِ آتشِ دوزخ ہمارا دل سہی
فتنۂ شورِ قیامت کس کی آب و گِل میں ہے
ہے دلِ شوریدۂ غالبؔ طلسمِ پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنّا پر کہ کس مشکل میں ہے

اور اس کی بحر ہے:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

میں نے نئی زمین بنائے بغیر اسی بحر، اسی ردیف اور تقریبا انہی ہم آواز الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے ایک مبتدی کی حیثیت سے یہ لکھا ہے.

حُسن کی وہ اِک جھلک جو پردۂ محمل میں ہے
حُسن ایسا نہ کبھی دیکھا مہِ کامل میں ہے

عمر ساری چلتا جاؤں,حُسنِ جاناں کی قسم!
ہم سفر تجھ سا ہو تَو پھر رکھا کیا منزل میں ہے؟

تخلیہ! اے ناصحا! مجھ کو اکیلا چھوڑ دے
یاد اُس کی جلوہ فرما آج میرے دل میں ہے

جو صنم کل تھا تراشا وہ خُدا بن بیٹھا آج
زندگی آزر کی اب تَو , ہاں! بہت مشکل میں ہے

مجھ سے آشفتہ مزاجوں کا نہ ہے واں کوئی کام
"ذکر میرا مُجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے"

تُو ہی تُو ہے ہر طرف اور بس تِرا ہی ہے خیال
بس یہی ہے سب سے اُولٰی, جو مِرے حاصل میں ہے

امید ہے آپ کو کچھ کچھ سمجھ آئی ہو گی اور جلد بحر میں آپ کی کوئی کاوش یہاں پوسٹ کی جائے گی. مقصد یہ سب کہنے کا فقط یہ ہے کہ شروع میں مشکل سا کام لگتا ہے مگر پریکٹس سے ٹھیک ہونے لگتا ہے. کچھ اور پوچھنا چاہیں تو پوچھ سکتے ہیں!
بہت بہت بہت شکریہ۔۔۔آپ اور دیگر احباب و اساتذہ سے میں سیکھ رہا ہوں۔اب مجھے لائن مل گئی ہے۔۔اور لنکس بھی جس سے سمجھ آنا شروع ہو گیا ہے۔واقعی اس میں بہت سی غلطیاں ہیں۔میں نے علم العروض کو پڑھنا شروع کر دیا ہے۔آپ بڑوں سے مدد کا طلبگار ہوں۔شکریہ
 

کاشف جامی

محفلین
مثال کے طور پر
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات
مفعول فاعلات تجھے دیکھنے کے بعد
تو ردیف ہوئی تجھے دیکھنے کے بعد، اور اب اس سے پہلے ہم قافیہ الفاظ لگائے جائیں گے اور سارے مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن /فاعلات کے وزن پر ہوں گے۔ پوری غزل میں ایک ہی نوعیت کے قوافی
جیسے
اک بار تجھے دیکھنے کے بعد
یار تجھے.......
زار زار تجھے...
بہار تجھے...
سر بہت بہت شکریہ۔سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے۔سر دوبارہ کو شش کر کے آپ کو دکھاؤں گا۔
 
Top