لاہور میں بم دھماکے!!!!

ظفری

لائبریرین
یہ انتشار ایک ایسی آگ بن چکا ہے جس کا دھواں اتنا کثیف ہے کہ آنکھوں کے سامنے کچھ نظر نہیں آرہا ہے ۔ اس وقت انتخابات سے زیادہ پاکستان کی سلامتی کی فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ قومی و سیاسی معاملات میں کئی امور پر مختلف رائے اس لحاظ سے اچھی چیز ہے کہ اس سے مختلف زاویہ ہائے نظر آجاتے ہیں ۔ اور مسائل سے نمٹنے کے لیئے کئی راہیں نکل آتیں ہیں ۔ مگر اسے تدبر و تعقل کی حدود میں رہنا چاہیئے ۔ جب سوچ یا نقطہِ نظر کا یہ فرق ان حدود سے آگے بڑھ کر دوسروں کی کردار کشی اور ہر قیمت پر اپنا نقطہ نظر منوانے کی شکل اختیار کر لے تو حقیقت کے کئی ایسے پہلو نظر سے اوجھل ہوجاتے ہیں جن کو سامنے رکھ کر ہم حقائق کی تہہ پہنچ سکتے ہیں ۔ اس وقت بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں عمومی رویوں کی جو صورتحال نظر آرہی ہے ، اسے کسی بھی طرح سے قابلِ رشک قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ایک دوسرے کی کردار کشی ، سخت الفاظوں کا استعمال دیکھ کر کسی ذاتی دشمنی کا تاثر ابھرتا ہے ۔ یہ کیفیت کسی بھی قوم کے لیئے تباہ کن ہوتی ہے ۔ ہم سب کو مل کر یہ سوچنا چاہیئے کہ موجودہ انتشار وطنِ عزیز کے خلاف کسی گھناؤنی سازش کا محور تو نہیں ہے ۔ ؟ اور ہم محاذ آرائی کے اس عمل میں کسی کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ہیں ۔ ؟ ۔

اپنے ہی ملک پر تنقید کرنا ہمارا اولین فیشن بن چکا ہے ، اور اس طرح ہم دنیا کو موقع دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور ہمارے رویے کو دیکھ کر ہمارا اور ہمارے ملک کا تشخص بگاڑیں ۔ یہ ملک ہماری پناہ گاہ ہے جہاں ہم اسی صورت میں محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ جب ہم ایک دوسرے کو تحفظ دیں گے ۔ لڑائی جھگڑوں کی آخر کوئی حد ہونی چاہیئے ۔ یہ نہیں کہ مخالف و مخاصمت میں ہم ہر چیز سے غافل ہوجائیں ۔ سیاسی مخالفت نے بھی ہر قسم کی اخلاقی حدوں کا پار کیا ہوا ہے ۔ بینظیر نے اپنی موت سے قبل اپنے کئی مخالف پر الزام لگایا کہ وہ انہیں مارنے کے درپے ہیں ۔ لہذا اب ان کی موت کے بعد وہ لوگ اس سانحے کے ذمہ دار سمجھیں جاتے ہیں ۔ اب اسی طرح آصف زرداری نے بھی مسلم لیگ ( ق ) کو قاتل لیگ کہہ کر پکارا ہے ۔ لہذا اب چوہدری شجاعت وغیرہ کو کچھ ہوجاتا ہے تو سب کی نظریں آصف زرداری کی طرف اٹھیں گی ۔ لہذا ایک ہوش مند پاکستانی کی حیثیت سے اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ اس ملک میں جہاں کہیں بھی آگ لگے اس کی تپش اس کے گھر تک بھی ضرور پہنچے گی ۔ اگر کوئی مسندِ اقتدار پر موجود ہے اور اسے موجودہ صورتحال کا سامنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ اس ملک کی سالمیت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے ۔ آخر ان کے بھی باپ دادا کی ہڈیاں اسی مٹی میں دفن ہیں ۔ ان کی اولادوں کا بھی مستقبل یہیں سے وابستہ ہے ۔ وہ ملک میں اس قسم کے اقدامات کر کے کس طرح اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار سکتے ہیں ۔ یہ ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ سوچ ہے کہ ہم ملک میں ہر قسم کے انتشار اور انارکی کا انہی کو قصوروار ٹہرائیں ۔ سیاسی مخالفت ایک الگ چیز ہے اور ملک دشمنی ایک الگ چیز ۔ لہذا ہم کو اپنی توجہ اس بات پر مرتکز کرنا چاہیئے کہ ان تمام واقعات کا سدباب کیسے ممکن ہے ۔ ہم اپنے ان دشمنوں سے کیسے نمٹ سکتے ہیں‌۔ جو ہمیں ہمارے ہی ملک میں ایک دوسرے سے لڑاوا کر اپنے مقاصد پورے کر رہے ہیں ۔ مگر ان ترجیحات پر عمل اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب ہم تمام چوہدریوں ، تمام بھٹوؤں کیساتھ تمام سیاسی و مذہبی اختلافات کو بھلا کر صرف ایک قوم کی حیثیت سے سوچیں گے ۔ تو کیا ہم ایک ذمہ دار قوم کی حیثیت سے یہ فرض نبھانے کے تیار ہیں ۔ ؟
 
سخت الزام تراشی ضرور ہو رہی ہے مگر اس سے سیاسی جماعتوں کے سیاہ کردار کھل کر سامنے بھی آ‌رہے ہیں کہ یہ کس خبث باطن کے ساتھ جیتے ہیں اور کیا کیا مذموم حرکات کرتے ہیں۔

ظفری تم سے یہ توقع نہیں تھی کہ تم اب بھی پرویز مشرف کی حکومت کو ملکی سالمیت کا دوست سمجھو ، بھائی کوئی اس سے زیادہ گھمبیر اور خطرناک صورتحال ہو سکتی ہے جس سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔

ذمہ دار ہزار عناصر ہو سکتے ہیں مگر ذمہ داری کس پر آتی ہے حکومت وقت پر یا چھوٹے چھوٹے گروہوں یر یا گھوم پر کر ذمہ داری بیچارے مظلوم کی ہی ہے کہ وہ مرتے بھی ہیں اور خود ہی ذمہ دار بھی ہیں۔ حکومت ہر ذمہ داری سے بری الذمہ ہے۔

حکومت کا پہلا فرض ہوتاہے امن و امان کا قیام اور جو اسے پورا نہ کر سکے وہ کسی طور بھی حکومت کا اہل نہیں ہوتا ، کیا اس سے کوئی اختلاف ممکن ہے ؟‌
 
ایسے کون لوگ یا کون سے گروپ ہیں‌جو کسی بھی وقت بم کا دھماکہ کراچی سے پشاور تک آرڈر کر سکتے ہیں۔ جو تقریباَ تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف ہیں، امن امان کے خلاف ہیں، حکومت کے خلاف ہیں؟ پی پی پی کے خلاف ہیں؟ وکلاء کے خلاف ہیں؟ فوج کے خلاف ہیں؟ مسلم لیگ کے خلاف ہیں؟ جو بہ آسانی نوجوان لوگوں کو برین واش کرکے اس خود کشی کے لئے تیار کررہے ہیں؟ بہت مشکل ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے یہ وطیرہ اختیار کیا ہوا ہو اور یہ بات سامنے نہ آئے؟ کیا تخریب کاروں کی ایسی جماعت بھی ہے جو اب تک سارے پاکستان کی آنکھ سے اوجھل ہے؟ عوام سے؟ سیاستدانوں سے؟ حکومت سے؟‌ فوج سے؟ سیکیورٹی اداروں سے اوجھل ہے؟ ایسا کیسے ممکن ہے کہ موت، تباہی، خودکشی، بمباری، کا اتنا بڑا آپریشن چلایا جائے اور اس کے چلانے والوں کا پتہ تک نہ ہو؟
 

ظفری

لائبریرین
سخت الزام تراشی ضرور ہو رہی ہے مگر اس سے سیاسی جماعتوں کے سیاہ کردار کھل کر سامنے بھی آ‌رہے ہیں کہ یہ کس خبث باطن کے ساتھ جیتے ہیں اور کیا کیا مذموم حرکات کرتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے کردار سیاست تک ہی محدود رہیں تو کیا اچھا نہیں ہوگا ۔ ابھی ملکی سالمیت کی بات ہو رہی ہے ۔ خودکش بم دھماکوں سے اب ملک کا ہر شہری متاثر ہورہا ہے ۔ سرحدوں پر بدستور تناؤ ہے ۔ بڑی طاقتوں کی طرف سے مسلسل دھمکیاں مل رہیں ہیں ۔ ایسی صورت میں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کیا معنی رکھتیں ہیں ۔ کیا مشرف یا موجدہ حکومت کا ہٹانے سے موجودہ صورتحال ختم ہو جائے گی ۔ اگر ہوجائے گی ( جس کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ) تو میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ نہیں ہوگی تو پھر موجودہ حکومت یا مشرف کے خلاف اپنی توانائی ضائع کرنے کا کیا فائدہ ہے ۔ ؟

ظفری تم سے یہ توقع نہیں تھی کہ تم اب بھی پرویز مشرف کی حکومت کو ملکی سالمیت کا دوست سمجھو ، بھائی کوئی اس سے زیادہ گھمبیر اور خطرناک صورتحال ہو سکتی ہے جس سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔

مجھے نہیں ‌معلوم کہ تم ملکی سالمیت کی بات کس مفہوم میں بیان کر رہے ہو ۔ مگر جس صورتحال سے اس وقت ملک گذر رہا ہے ۔ وہ صرف 911 کے بعد کی ہے ۔ 911 کے بعد سرمایہ دار طبقوں کی ترجیحات بدلیں ہیں ۔ انہوں نے اپنا ہدف ان ملکوں‌کا بنالیا ہے ۔ جہاں ان کے مفادات کو کسی قسم کی ضرب لگ سکتی ہے ۔ اور اس لیئے وہ میدان میں کود پڑے ہیں ۔ تمہارا کیا خیال ہے 911 کے بعد کوئی اور حکمران ہوتا تو وہ اس صورتحال کو کیسے کنٹرول کرتا ۔ یہ خود کش حملے اور طالبان کیا آج کے ہیں ۔ ؟ ۔ تم سمجھتے ہو کہ اگر کوئی مسیحا ہے جو اس ملک کو اس بھنور سے نکال سکتا ہے تو کیا تم اس کا نام بتا سکتے ہو ۔ ؟

ذمہ دار ہزار عناصر ہو سکتے ہیں مگر ذمہ داری کس پر آتی ہے حکومت وقت پر یا چھوٹے چھوٹے گروہوں یر یا گھوم پر کر ذمہ داری بیچارے مظلوم کی ہی ہے کہ وہ مرتے بھی ہیں اور خود ہی ذمہ دار بھی ہیں۔ حکومت ہر ذمہ داری سے بری الذمہ ہے۔

حکومت کا پہلا فرض ہوتاہے امن و امان کا قیام اور جو اسے پورا نہ کر سکے وہ کسی طور بھی حکومت کا اہل نہیں ہوتا ، کیا اس سے کوئی اختلاف ممکن ہے

امن و امان قائم کرنا صرف حکومت کا کام نہیں ہوتا۔ یہ اس وقت تک ناممکن ہے جب تک عوام اس میں اپنا کلیدی کردار ادا نہ کریں ۔ اگر عوام ہی امن و امان کے لیئے خطرہ بن جائیں تو ایسی صورتحال میں وہی کیا جا سکتا ہے ۔ جو لال مسجد کے معاملے میں کیا گیا تھا ۔ کسی بھی بری صورتحال پر تبصرہ کرنا آسان ہوتا ہے اور اس کا ذمہ دار کسی کو قرار دیدینا اس سے بھی سہل کام ہے ۔ مگر ایسی صورتحال کا صحیح ادارک کرنا ایک بہت مشکل کام ہے اور ایسی صورتحال سے بچنے کے لیئے تدابیر دینا اس سے بھی مشکل کام ۔ خصوصا اس وقت جب جلتی ہوئی آگ کو بجھانے سے زیادہ سب ایک دوسرے کو اس آگ کا الزام دے رہے ہوں ۔
 
کراچی میں محرم الحرام کے دوران ڈبل سواری پر پابندی لگادی گئی ہے۔ جس قسم کی غیر یقینی صورتحال سے آج کل ہم لوگ بحیثیت قوم گزر رہے ہیں۔ اللہ خیر ہی کرے۔
 

arifkarim

معطل
چلو اب ایک اور پابندی لگ گئی: ڈبل سواری منع ہے۔ کیا خود کش حملہ آور اکیلا سنگل سواری پر نہیں آسکتا؟ :)
 
میرے دوست سوچ رہے ہونگے کہ میں آج کل کیوں کچھ نہیں لکھ رہا ۔ پتہ نہیں کیوں مگر اتنا جانتا ہوں کہ ہمیں ایک ہونے کی آج جتنی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی ۔ شاید میں ابھی کچھ عرصہ مزید اپنا کچھ نہ لکھ سکوں ۔ شاید موجودہ حالات سے گزرتے ہوئے اپنے گھر کو دیکھ کر میں عارضی طور پر اپنے ذہنی توازن میں نہیں ہوں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے کچھ اچھا نہیں ہو رہا ۔شاید اس سب کے لئے صرف ملا ہی ذمہ دار نہیں ہیں ۔ شاید کہیں ان کا نام استعمال کرکے کوئی اور اپنے رنگ دکھا رہا ہو ۔ شاید یہ پاکستانی ایجنسیوں کا بھی کام نہیں ۔ شاید امریکہ کو بھی اس صورت حال سے کوئی فائدہ نہیں ملنے والا ۔ شاید کہیں چانکیا کچھ کر نہ رہا ہو کیونکہ اگر ملاؤں کا نام استعمال ہو تو بھی ہم ۔ ایجنسیوں پر الزام آئے تو بھی ہم ۔ پرویز مشرف بدنام ہو تو بھی ہم ۔ عوام مرے تو بھی ہم ۔ اور ایک کمزور پاکستان سب سے زیادہ کس کے مفاد میں ہے ۔ کسی نے پچھلے تین ماہ کے بیانات پڑھے جو سرحد پار کے ذمہ داران کی طرف سے آرہے ہیں ۔ وہ کیوں اتنے میٹھے بن گئے۔۔؟ کیوں انہیں حکومت نہیں بلکہ ملائی جنگجو ہی ہر کام کے ذمہ دار نظر آنے شروع ہو گئے ۔ ۔۔۔؟ ضروری نہیں کہ میں درست ہی ہوں مگر جب ہم آپس میں لڑ رہے ہیں تو کہیں ہم اردگرد سے بے خبر تو نہیں ہونے لگے ۔۔۔؟ کہیں ہم لاعلمی میں دشمن کی زبان تو نہین بول رہے ۔۔۔؟ کہیں ہم اسی طرح دشمن کا کام آسان تو نہیں کر رہے ۔۔۔؟
 

امید

محفلین
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جس حکمران کے دور میں ہم امن و امان کی بدترین حالت کو پہنچ جائیں۔ کوئی بنیادی سہولت میسر نہ ہو کوئی دن ایسا نا گزرے کے دنیا میں ہماری نیک نامی ہو ، اس کو ہم مزید وقت کیوں دیں۔ ظفری صاحب فرض کریں کے ایک تعلمی ادارے جس کا معیار بہت اچھا نہیں ہے، اور درمیانے درجے کا خیال کیا جاتا ہے، اس کا ایک نیا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے، آتے ہی وہ بہت سی تبدیلیاں کرتا ہے، نصاب میں ، ماحول میں، لوگ خوش ہوتے ۔ مجموعی طور پہ کچھ بہتری محسوس ہوتی ہے لوگوں کو تو کچھ طبقے کہتےہیں کہ یہ بندہ اس کو اوپر لے کے جائے گا ۔ کچھ کو لگتا ہے کہ ٹھیک نہیں کر رہا۔ خیر کچھ عرصہ ٹھیک گزرتا ہے ، مگر پھر آہستہ آہستہ حالات خراب ہونے لگتے ہیں۔ طلبہ تنظیموں کی لڑائيں ہونے لگتی ہیں۔ ادارے میں فوج یا پولیس مسلسل رہتی ہے۔ پھر بھی لڑائیاں ہوتی ہیں۔ ہوسٹلز سے لڑکیاں اغوہ ہونا، ہڑتالیں ، اساتذہ کی مار پیٹ معمول بن جاتا ہے۔ سربراہ صاحب پولیس کو مزید سختی کا کہتے ہیں ۔ چند سالوں میں حالات اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ ادارہ درمیانے درجے سے نچلے درجے پہ پہنچ جاتا ہے۔ تمام اچھے اساتذہ کا نکال دیا جاتا ہے یا وہ خود چھوڑ جاتے ہیں۔ کوئی نظم نہیں ادارے میں۔ والدین بچوں کو بھجتے ڈرتے ہیں، سمجھ لیں کے ادارہ بند ہونے کے قریب ہے۔ اس صورت حال میں آپ سربراہ صاحب کی شروع کی چند کامیابیوں کا ہی حوالہ دیتے رہیں گے یا ان کی مزید خدمات لینے سے معذرت کر لیں گے۔ کیونکہ ادارہ تو پہلے ہی بند ہونے کو ہے۔ مشرف صاحب تو ویسے بھی زبردستی آئے ۔ اور جمہوریت بہترین نہ سہی آمریت سے بہتر ہے۔ اللہ سبحان و تعالی ہمیں اس آمر سے نجات دلائیں اور پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں ۔ (آمین)
 

arifkarim

معطل
دوستو! اب اس تھریڈ کو بھی بینظیر کے قتل کے تھریڈ کی طرح ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں سے نہ بھر دینا۔ یہ عمل کا وقت ہے ڈسکشن کا نہیں! ہمیں اپنے ملک کو خود بچانا ہے، نہ کہ کسی اور نے۔ ۔ ۔

یہاں پر آئیندہ کا لائحہ عمل پیش کیا جائے کہ ہم اپنی اس بگڑتی ہوئی صورتحال کو کیسے روکیں؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم
بہت ساری باتیں ہوں میں بھی کچھ کہنا چاہوں گا میں اتنا تو نہیں جانتا ہوں کے یہ دھماکا کس نے کیا ہے یا کس نے کروایا ہے لیکن جس نے بھی کیا ہے یا کروایا ہے وہ نا تو مسلمان ہے اور نا ہی پاکستانی اس کا مقصد صرف پاکستان کو نقصان پنچانا ہے اور یہ نقصان صرف اس صورت پر ہے ہو سکتا ہے جب پاکستان کی عوام میں انتشار پھیل جائے تو دشمن اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو رہا ہے پہلے بی بی جی کو ختم کیا گیا اور اس کا الزام بھی خکومت پر لگا اب لاہور میں دھماکہ ہوا اور وہ بھی خکومت پر الزام ۔ بات تو اتنی ہے ہم حکومت پر الزام لگائے گے حکومت کسی اور پر لگائے گی اور اس طرح انتشار پھیلتا جائے گا اور دشمن اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا جائے گا پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے اس کے علاوہ دشمن کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا اس لے میرے بھائی یہ الزام لگانے کا وقت نہیں ہے جو لوگ حکومت پر الزام لگاتے ہیں ان کا مقصد تو میرے خیال میں صرف اتنا ہے کہ اب اس حکومت کو کوئی ووٹ نا دے اور کوئی نئی حکومت بنے تو میرے بھائی مجھے کوئی اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ یہ حکومت ختم ہونے کے بعد جو نئ حکومت آئے گی وہ عوام کا سوچے گی یا وہ عوام کی خدمت کرئے گی نہیں نہیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا جو بھی حکومت آئے گی وہ اپنا ہی الو سیدھ کرے گی اور ہم سب کو بے وقوف بنا کر چلی جائے گی آپ سب کو پتہ ہی ہو گا امریکہ میں انتخاب ہونے والے ہیں اور وہاں پاکستان کو خطرناک ملک ثابت کیا جا رہا ہے اور عوام کو یعقین دلایا جا رہا ہے کہ ہم حکومت میں آ کر پاکستان کے ایٹمی ہتھاروں کو اپنے کنٹرول میں لے لے گے کچھ بھی ہو
ان حالات میں‌نقصان پاکستان کا ہی ہو رہا ہے حکومت اپنی کرسی کے پیچھے پڑی ہے اور عوام کو عجیب عجیب بحثوں میں‌الجھا رکھا ہے دوستوں اس وقت صرف پاکستان کا سوچوں اگر پاکستان نا رہا تو ہم کیا کرے گے
خرم شہزاد خرم
 
میں دوستوں کی اس بات سے متفق ہوں کہ اس وقت ضرورت متحد ہونے کی ہے اور جلد از جلد میدان عمل میں کود کر صورتحال کو بہتری کی طرف لیجانے کی ضرورت ہے۔

اس کے لیے میرے خیال میں سب سے اہم اور بنیادی ضرورت عدلیہ کی بحالی ہے اس کے بغیر کسی قسم کی بہتری کا سوچنا دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے کسی حقیقت پسند اور ذی شعور انسان کا خیال نہیں۔

عدلیہ بحال کرنے کے عزم کو توانا کرنا اور اس کی پرزور حمایت کرنا اس وقت ملک کی اہم ترین ضرورت ہے۔

دوسری اہم ترین ضرورت شفاف الیکشن ہیں جو بدقسمتی سے کسی صورت بھی شفاف ہوتے کہیں سے بھی نظر نہیں آ رہے حتی کہ امریکہ تک نے کہہ دیا ہے کہ شفاف الیکشن ہوتے نظر نہیں آ رہے اگر امریکہ کا زور بھی نہیں چل رہا ( جو یقینا اندر کھاتے چوہدری اور مشرف کی ملی بھگت ہے (‌ تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ الیکشن سے کیا نتیجہ نکلے گا۔ اس لیے مشرف کا مستعفی ہونے ناگزیر ہے کسی بھی قسم کی صورتحال میں بہتری اور خلوص دل سے ملکی حالات کو بہتر بنانے کے لیے۔

امن و عامہ کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے تمام لوگوں کو ہر فورم پر آواز اٹھانی چاہیے کہ آخر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیوں نہیں کیا جا رہا سیکوریٹی بڑھانے کے لیے ۔ کیوں تمام بڑے شہروں میں ہنگامی بنیادوں پر سیکوریٹی کیمرے اور جدید آلات نہیں لگائے جا رہے جن سے تمام مشکوک افراد پر نظر رکھی جا سکے ۔

کیوں مجرمان کے ریکارڈز کمپیوٹرائزڈ نہیں کیے جا رہے اور ان کی ایک مفصل اور جامع وفاقی ڈیٹا بیس نہیں بنائی جا رہی ؟

کیوں سیکوریٹی کے لیے خطیر بجٹ مختص کرکے اس کی کڑی نگرانی نہیں کی جارہی ۔

سیکوریٹی اس وقت پاکستان کا سب سے اہم اور بڑا مسئلہ ہے اس کے لیے ٹیکنالوجی کی بھرپور مدد لیے بغیر قابو پانا ناممکنات میں سے ایک ہے اور پاکستان کے پاس سیکوریٹی کے اچھے ماہرین موجود ہیں ضرورت صرف حکومتی سطح پر اس ضرورت کو محسوس کرنے اور اس کو نافذ کرنے کی ہے۔
 

زیک

مسافر
پرویز مشرف ہیری ٹرومین نہیں ہے۔

buckstopsherefrontsmall.jpg
 

Fawad -

محفلین
محترم،

اب سے کچھ عرصہ پہلے تک يہ کہا جاتا تھا کہ دہشت گردی پاکستان کا مسلۂ نہيں ہے اور ہم محض امريکہ کی جنگ لڑ رہے ہيں۔ ليکن وقت گزرنے کے ساتھ يہ بات ثابت ہو گئ ہے کہ ہميں اس حقيقت کو ماننا پڑے گا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت نہ صرف ہمارے ملک ميں موجود ہے بلکہ اس کی جڑيں اب ہمارے قباۂلی علاقوں سے نکل کر شہروں تک پہنچ چکی ہيں۔ ياد رکھيے کہ خود کش حملہ آور نہ تو امريکہ کے پاس ہيں، نہ ہی پاکستانی فوج کے پاس ہيں اور نہ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے کارکن اس قسم کے حملوں کی صلاحيت رکھتے ہيں۔ يہ تو اس سوچ کی پيداوار ہيں جو ہر صورت ميں "مارو اور مارتے چلے جاؤ" کی پاليسی پر کاربند ہيں۔ انتہا پسند اور دہشتگرد تنظيميں نہ تو کسی سياسی سوچ اور ڈاۂيلاگ پر يقين رکھتی ہيں اور نہ ہی ان کی طرف سے آج تک عوامی بھلاہی اور بہتری کے ليے کوئ منشور يا پروگرام سامنے آيا ہے۔ انکی کارواۂياں صرف ہمارے ملک تک محدود نہيں ہيں بلکہ برطانيہ، اسپين، الجزاءر سميت ساری دنيا ميں ان کے حملے بغير کسی تفريق کے جاری ہيں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک ميں ابھی تک انتہا پسندی کی حقيقت کو تسليم نہيں کيا گيا۔ کبھی ہم امريکہ کو مورد الزام ٹھراتے ہيں، کبھی فوج کو، کبھی حکومت کو اور کبھی کسی سياسی جماعت کو۔ حالانکہ اگر آپ خود کش حملوں کے اعداد وشمار ديکھيں تو يہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ان حملوں ميں غير ملکيوں سے لے کر حکومتی عہديداروں، فوج، سياسی اور مذہبی جماعتوں اور عام عوام، غرض يہ کہ ہر مکتب فکر کے لوگوں کو بلا تفريق نشانہ بنايا گيا ہے۔ ياد رکھيےکہ انتہا پسندی کی سوچ اور دہشت گرد ہم سب کے مشترکہ دشمن ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

عمر میرزا

محفلین
محترم،

اب سے کچھ عرصہ پہلے تک يہ کہا جاتا تھا کہ دہشت گردی پاکستان کا مسلۂ نہيں ہے اور ہم محض امريکہ کی جنگ لڑ رہے ہيں۔ ليکن وقت گزرنے کے ساتھ يہ بات ثابت ہو گئ ہے کہ ہميں اس حقيقت کو ماننا پڑے گا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت نہ صرف ہمارے ملک ميں موجود ہے بلکہ اس کی جڑيں اب ہمارے قباۂلی علاقوں سے نکل کر شہروں تک پہنچ چکی ہيں۔ ياد رکھيے کہ خود کش حملہ آور نہ تو امريکہ کے پاس ہيں، نہ ہی پاکستانی فوج کے پاس ہيں اور نہ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے کارکن اس قسم کے حملوں کی صلاحيت رکھتے ہيں۔ يہ تو اس سوچ کی پيداوار ہيں جو ہر صورت ميں "مارو اور مارتے چلے جاؤ" کی پاليسی پر کاربند ہيں۔ انتہا پسند اور دہشتگرد تنظيميں نہ تو کسی سياسی سوچ اور ڈاۂيلاگ پر يقين رکھتی ہيں اور نہ ہی ان کی طرف سے آج تک عوامی بھلاہی اور بہتری کے ليے کوئ منشور يا پروگرام سامنے آيا ہے۔ انکی کارواۂياں صرف ہمارے ملک تک محدود نہيں ہيں بلکہ برطانيہ، اسپين، الجزاءر سميت ساری دنيا ميں ان کے حملے بغير کسی تفريق کے جاری ہيں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک ميں ابھی تک انتہا پسندی کی حقيقت کو تسليم نہيں کيا گيا۔ کبھی ہم امريکہ کو مورد الزام ٹھراتے ہيں، کبھی فوج کو، کبھی حکومت کو اور کبھی کسی سياسی جماعت کو۔ حالانکہ اگر آپ خود کش حملوں کے اعداد وشمار ديکھيں تو يہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ان حملوں ميں غير ملکيوں سے لے کر حکومتی عہديداروں، فوج، سياسی اور مذہبی جماعتوں اور عام عوام، غرض يہ کہ ہر مکتب فکر کے لوگوں کو بلا تفريق نشانہ بنايا گيا ہے۔ ياد رکھيےکہ انتہا پسندی کی سوچ اور دہشت گرد ہم سب کے مشترکہ دشمن ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov

ٹی وی ،ریڈیو ،اخبارات سب پر امریکہ کا قبضہ ہے ایک یہ فورم بچے تھے اس پر بھی تم لوگ آدھمکے ۔تمہارے امریکہ کو یہ تک بھی گوارہ نہیں کہ یہاں بھی اس کے اور کے ایجنٹوں کے خلاف کوئی بات کی جائے۔ عجیب غنڈہ گردی ہے۔
فواد میں تم سے صرف یہ کہوں گا کہ اگر تم مسلمان ہو تو اللہ سے ڈرو اور یہ ظاغوت کی ترجمانی کرنا فورًا چھوڑ دو ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
محترم،

اب سے کچھ عرصہ پہلے تک يہ کہا جاتا تھا کہ دہشت گردی پاکستان کا مسلۂ نہيں ہے اور ہم محض امريکہ کی جنگ لڑ رہے ہيں۔ ليکن وقت گزرنے کے ساتھ يہ بات ثابت ہو گئ ہے کہ ہميں اس حقيقت کو ماننا پڑے گا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت نہ صرف ہمارے ملک ميں موجود ہے بلکہ اس کی جڑيں اب ہمارے قباۂلی علاقوں سے نکل کر شہروں تک پہنچ چکی ہيں۔ ياد رکھيے کہ خود کش حملہ آور نہ تو امريکہ کے پاس ہيں، نہ ہی پاکستانی فوج کے پاس ہيں اور نہ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے کارکن اس قسم کے حملوں کی صلاحيت رکھتے ہيں۔ يہ تو اس سوچ کی پيداوار ہيں جو ہر صورت ميں "مارو اور مارتے چلے جاؤ" کی پاليسی پر کاربند ہيں۔ انتہا پسند اور دہشتگرد تنظيميں نہ تو کسی سياسی سوچ اور ڈاۂيلاگ پر يقين رکھتی ہيں اور نہ ہی ان کی طرف سے آج تک عوامی بھلاہی اور بہتری کے ليے کوئ منشور يا پروگرام سامنے آيا ہے۔ انکی کارواۂياں صرف ہمارے ملک تک محدود نہيں ہيں بلکہ برطانيہ، اسپين، الجزاءر سميت ساری دنيا ميں ان کے حملے بغير کسی تفريق کے جاری ہيں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک ميں ابھی تک انتہا پسندی کی حقيقت کو تسليم نہيں کيا گيا۔ کبھی ہم امريکہ کو مورد الزام ٹھراتے ہيں، کبھی فوج کو، کبھی حکومت کو اور کبھی کسی سياسی جماعت کو۔ حالانکہ اگر آپ خود کش حملوں کے اعداد وشمار ديکھيں تو يہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ان حملوں ميں غير ملکيوں سے لے کر حکومتی عہديداروں، فوج، سياسی اور مذہبی جماعتوں اور عام عوام، غرض يہ کہ ہر مکتب فکر کے لوگوں کو بلا تفريق نشانہ بنايا گيا ہے۔ ياد رکھيےکہ انتہا پسندی کی سوچ اور دہشت گرد ہم سب کے مشترکہ دشمن ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov


فواد صاحب،

میرا تجزیہ یہ ہے ہماری قوم حقیقت پسند نہیں ہے بلکہ کافی جذباتیت پسند ہے اور انہیں قبیلے، برادری، زبان، مذھب، فرقے ۔۔۔ ہر اس چیز کے ذریعے بہکانا بہت آسان ہے جس میں تھوڑے بھی جذبات شامل ہوں۔

آج قوم اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ "انتہا پسندی" اور "دھشت گردی" کا جرثومہ نہ صرف قوم میں سرایت کر گیا ہے، بلکہ اس نے اُس ٹیومر کی شکل اختیار کر لی ہے کہ جس کے بعد کینسر اور موت قریب ہو جاتی ہے۔

عام عوام تو ایک طرف، مجھے تو سب سے بڑا مسئلہ یہ نظر آ رہا ہے کہ ملک کے دانشور (جو کہ اخبارات اور میڈیا میں کالم لکھتے ہیں) وہ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے صرف اور صرف مغرب پر اپنی ہر برائی کا الزام لگائے چلے جا رہے ہیں۔


فواد صاحب،

آپ نے جو نکات اٹھائے ہیں، میں ان سے متفق ہوں۔
 

عمر میرزا

محفلین
فواد صاحب،
آپ نے جو نکات اٹھائے ہیں، میں ان سے متفق ہوں۔
کیا پھر آپ اس بات سے بھی متفق ہیں کہ امریکہ اس دہشت گردی اور انتہاپسندی کو حتم کرنے کےلئے عراق اور افغانستان میں جو معصوم لوگوں کا قتل و غارت کر رہا ہے اور مقدس مقامات پر گولہ باری کر رہا ہے وہ بھی ٹھیک ہے ؟
 

امید

محفلین
ہ "انتہا پسندی" اور "دھشت گردی" کا جرثومہ نہ صرف قوم میں سرایت کر گیا ہے، بلکہ اس نے اُس ٹیومر کی شکل اختیار کر لی ہے کہ جس کے بعد کینسر اور موت قریب ہو جاتی ہے۔
جس لیڈر کی قائدانہ صلاحیتوں میں یہ جرثومہ ، پھیل کر ٹیومر بن گیا ہے۔ اس کی قیادت میں اب کینسر اور موت کی ہی صورت نظر آتی ہے۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو۔
 
Top