آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

فہد مقصود

محفلین
فرقان احمد
مجھے بھی فہد صاحب کا سخت انداز ٹھیک نہیں لگ رہا لیکن اس سب میں سے کم از کم یہ نکتہ نمایاں ہو کر سامنے آ گیا ہے کہ

اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک اپیل ٹو اتھارٹی کو دلیل کے طور پر قبول کرنے کو ایک غلطی ہی قرار دیتا آ رہا ہوں۔
ایک طرح سے فہد جیسے یہ سخت رویے اس غیر صحت مند حد تک بڑھی ہوئی اکابر پرستی کا ہی رد عمل ہے جو ہمارے معاشرے میں اتنی پھیلی ہوئی ہے کہ لوگ خدا کی دی ہوئی عقل کے استعمال کو بھی بے دینی اور بے ادبی سمجھنے لگ گئے ہیں۔

بھائی میرا سخت رویہ مذہب کو جہالت میں دھکیلنے کی وجہ سے ہے۔ یہ مذہب کی بات ہو رہی ہے، بنیادی عقائد اور ادب کی بات ہو رہی ہے۔ آپ ذرا دیکھیں خود تو دہریہ دہریہ کہہ دیا اور میرا نام کوٹ کر کے ہینکی پھینکی مارنے کا کہہ دیا۔ کیا یہ جو صاحب ہیں فرقان احمد ان کو یہ نظر نہیں آیا کہ احادیث پر کی گئی گفتگو کو دجال کا دجل، ابلیس کی تلبیس اور ہینکی پھینکی کہا گیا ہے۔ ان کو تقی عثمانی کے لئے تو تکلیف ہوئی لیکن میرے مراسلوں کو جن میں احادیث شامل تھیں یہ سب کہنے پر کچھ نہ ہوا!!! عجب معاملہ ہے بھائی!!! نہ کہ اس پر بھی کچھ ارشاد فرماتے لیکن مجھے شک ہے کہ ایسا صرف یقینآ دوستی کی وجہ سے نہ کیا گیا ہوگا!
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
علم پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے اور اگر ہم اپنے ذہن و دل کو کشادہ رکھیں تو فروہی مسائل میں الجھے بغیر ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بھی اگلی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔ دراصل، ہر صاحبِ علم سے فیض پانا ہی درست رویہ ہے۔ جواب کے لیے شکریہ۔

لو جی!!! بھائی صاحب آپ ذرا میری لڑی کا چکر لگا کر آئیے پھر آپ سے بات کریں گے کہ کن کو آپ فروعی مسائل کہہ رہے ہیں۔
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
جان صاحب تو ہمارے لیے انجان نہ تھے، اس لیے لگے ہاتھوں ہم اس قول پر تبصرہ ضرور فرمانا چاہیں گے۔ کیا یہ خود پسندی اور نرگسیت کی علامت نہ ہے کہ ایک انسان خود کو 'بزعم خود' ارفع مقام پر تصور کرے اور فریقِ مخالف کو بے وقوف تصور کرے۔ اس کے بعد اس کی علمیت کی سطح کو خود اپنے آپ کو عطا کردہ ارفع 'علمیت' کی سطح تک لائے اور اسے ڈھنگ کا فرد بنانے کی کوشش کرے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو خدا نخواستہ دوسرا فرد سب کو گمراہ کرتا پھرے گا۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہی لاجک فریقِ مخالف اپنا لے تو کیا ہو گا۔ :) ماسوائے کھڑاک! :)

واہ صاحب! کیا خوب منطق ہے! ہم لاجواب ہو گئے۔ :) سچ مچ! :)

اور جو یہاں دہریہ دہریہ کی رٹ لگائی گئی اور قرآن کی آیت کو کوٹ کر کے جاہل شرکاء محفل کو کہا گیا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا اس کو بھی آپ خود پسندی اور نرگسیت کی علامت کہنا پسند فرمائیں گے؟؟؟؟

صرف چند کو نصحیت اور باقی کو چھوٹ!!!! واہ بھئی کیا کہنے ہیں!!!!
 

فہد مقصود

محفلین
کیا دین کا معیار اب یہی رہ گیا کہ اکابرین کی جو بات دل کو لگے اسے سچا سمجھ کر اسلام تسلیم کر لو؟

یہی تو اصل مسئلہ ہے کہ اندھی تقلید میں یہ تک نہیں کوشش کی جاتی ہے کہ یہی بندہ معلوم کر لے کہ آیا یہ سب اسلام کے احکامات کے خلاف تو نہیں ہے؟؟؟ بس اسلام کا نام لگا دو اور کرتے رہو جہالت!!!
 

فرقان احمد

محفلین
ہماری بدگمانی ملاحظہ فرمائیے۔ خواہ مخواہ یوں معلوم ہو رہا ہے کہ یہاں چند احباب درجہ بندی کا کھیل کھیلتے چلے جا رہے ہیں اس لیے سود مند بحث کا یہاں محل نہیں۔ ارے صاحب! کیا ہم پر لازم ہے کہ دیگر محفلین کے کہے سنے کا جواب بھی ہم سے لیا جائے؛ یہ تو کچھ غلط بات معلوم ہوتی ہے۔ :) اس کے باوصف ہم یہ کہتے ہیں کہ بحث مباحثے کے دوران کسی مسلم کے لیے دہریے کا لفظ استعمال نہ کیا جانا چاہیے اور اگر ایسا ہوا ہے تو یہ رویہ ہرگز لائقِ تقلید نہیں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ ایسا کہا گیا ہو! اس پوری لڑی کا مطالعہ ایسا سہل بھی نہیں۔ پھر دیکھنا پڑے گا۔ امید ہے ہم پر یہ الزام عائد نہ کیا گیا ہو گا۔ :)
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
بھائی میرا سخت رویہ مذہب کو جہالت میں دھکیلنے کی وجہ سے ہے۔ یہ مذہب کی بات ہو رہی ہے، بنیادی عقائد اور ادب کی بات ہو رہی ہے۔ آپ ذرا دیکھیں خود تو دہریہ دہریہ کہہ دیا اور میرا نام کوٹ کر کے ہینکی پھینکی مارنے کا کہہ دیا۔ کیا یہ جو صاحب ہیں فرقان احمد ان کو یہ نظر نہیں آیا کہ احادیث پر کی گئی گفتگو کو دجال کا دجل، ابلیس کی تلبیس اور ہینکی پھینکی کہا گیا ہے۔ ان کو تقی عثمانی کے لئے تو تکلیف ہوئی لیکن میرے مراسلوں کو جن میں احادیث شامل تھیں یہ سب کہنے پر کچھ نہ ہوا!!! عجب معاملہ ہے بھائی!!! نہ کہ اس پر بھی کچھ ارشاد فرماتے لیکن مجھے شک ہے کہ ایسا صرف یقینآ دوستی کی وجہ سے نہ کیا گیا ہوگا!
ہم نے آپ کو کب دہریہ کہا؟ ہینکی پھینکی والی بات کہاں سے آ گئی! :) احادیث پر آپ نے اب تک کیا بات کی ہے؟ مفتی تقی عثمانی صاحب کی علمی قابلیت تو سب کے سامنے ہے، اگر ہمیں اس پر تکلیف ہوئی کہ آپ نے ایک نکتے کو لے کر انہیں رگید دیا تو پھر ہمیں تکلیف پہنچنے کا امکان تھا اور وہ پہنچ کر رہی۔ فرض کرتے ہیں کہ اگر مفتی صاحب نے کچھ غلط کہہ بھی دیا تھا، اور اپنی بات سے رجوع بھی کر لیا تو کیا یہ بہتر رویہ ہے کہ اس بات کو مسلسل ہائی لائیٹ کیا جائے۔ جو کام انہوں نے اسلامی بینکاری اور دیگر بہترین موضوعات کے لیے کیا ہے، اس پر آپ فوکس کر لیتے تو کیا یہ بہتر نہ تھا؟ آپ کا مسئلہ یہ معلوم ہوتا ہے سر کہ آپ جزو کو کُل پر منطبق کر کے من پسند نتائج برآمد کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری دانست میں، یہ مستحسن رویہ نہیں۔ یوں تو آپ سب سے کٹ کر رہ جائیں گے اور نمایاں بھی شاید ہو جائیں تاہم علمی سرمائے سے اس لیے محروم ہو سکتے ہیں کہ آپ معاشرے کے صاحب علم افراد سے تعصب برتتے رہے۔ اب ہم مفتی تقی عثمانی اور جناب فہد مقصود میں سے کس کو علمی لحاظ سے برتر جانیں! اور آپ کے فرمودات کی روشنی میں کیا ہم مفتی صاحب سے فیض پانا ترک کر دیں اور وہ بھی صرف ایک ایسے نکتے پر جس کا کوئی سر پیر موجود نہ ہے۔ ایک معاملے کو لے کر کب تک رگیدیے گا۔ ویسے یہاں یہ عرض کرتے چلیں کہ ہم صرف مفتی تقی عثمانی صاحب سے ہی فیض نہیں پاتے ہیں، یہ سلسلہ اچھا خاصا دراز ہے۔ اختلافی مسائل کو ایک طرف رکھ کر، ہم بریلویوں، اہل حدیث سمیت دیگر مکاتب ہائے فکر سے فیض پاتے ہیں اور غیر مقلدین کے علمائے کرام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ :) علامہ آئن سٹائن وغیرہ بھی! :) ویسے، آپ بھی اس فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔ کوشش جاری رکھیے۔
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
ہمیشہ آپ کی دلیل یہ کیوں ہوتی ہے کہ میں فلانے عالم کے پیچھے چل رہا ہوں اس سے پوچھو
محترم! میں نے یہ کب کہا کہ میں فلانے عالم کے پیچھے چل رہا ہوں؟ کیا آپ کسی بھی لڑی میں شامل میرا ایک بھی مراسلہ اس بارے میں دکھا سکتے ہیں؟
اگر ہر غیر عالم کو کسی ایک عالم کے پیچھے چلنا ہوتا تو یہ بات تو پوری دنیا جانتی۔ کیا کبھی آپ نے کبھی کسی مسلمان کو یہ کہتے سنا ہے کہ یہ مفتی تقی عثمانی صاحب کا مقلد ہوں؟اور دوسرے کو یہ کہتا سنا کہ میں مفتی تقی عثمانی کو نہیں مانتا، میں تو مفتی طارق مسعود کا مقلد ہوں؟ اورکسی تیسرے مسلمان کو یہ کہتے سنا کہ میں مولانا طارق جمیل کا پیروکار ہوں اور باقی کسی عالم کو مستند نہیں مانتا؟
اس کے علاوہ کیا آپ نے کسی عالم کے منہ سے سنا کہ صرف میری پیروی کرو، باقی کسی عالم کی پیروی نہ کرو، چاہے وہ میرا ہم مسلک ہی کیوں نہ ہو؟
براہِ مہربانی بات وہ کیجیے جو قابلِ ہضم ہواور اس کی کوئی مثال ہمارے معاشرے میں موجود ہو۔
 

عدنان عمر

محفلین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ کو اسلام کی تعلیم دی۔ یعنی صحابہ کرام آپ کے "براہ راست" تربیت یافتہ تھے۔ لہٰذا صحابہ معیاری مسلمان تھے۔ صحابہ کرام سے "اقوال و افعالِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم" تابعین نے اخذ کیے اور محدثین نے ان کو جمع کیا۔ یہ تمام ادوار اسلام کے عروج کے ادوار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بہترین زمانے قرار دیئے۔ سلف صالحین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریق اور منہج سے وہی شخص انکار کرتا ہے جو قرآن مجید کی من مانی تفسیر کرنا چاہتا ہے۔ صحابہ، تابعین، ائمہ دین اور ائمہ حدیث اسی راہ پر چلے۔ اور اس راہ پر چلنے والے ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس راہ پر چلنے والے شرک و بدعت اور اس کے مظاہر اور رسوم پر نکیر کرتے رہے ہیں۔ عقیدہ کی اصلاح کرتے ہیں اور شرک و بدعت کے تاریک غار سے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں؛ لہٰذا قرآن و سنت اور سلف صالحین کے راستے کے الٹ شرک و بدعات پر مشتمل نظریات ہم قبول نہیں کر سکتے چاہے وہ کسی بھی عالم نے بیان کیے ہوں۔ وہ عالم نہ معصوم ہے اور نہ ہمارے لیے حجت ہے۔
جی بالکل، ہمارا بھی یہی مسلک ہے۔
قرآنی اور مسنون اذکار و ادعیہ پر مشتمل تعویذات کے بارے میں اہل علم کے ہاں تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں،ایک جواز،دوسرا ممانعت،تیسرا توقف
۔1:قائلین جواز میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص،ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا،سیدنا سعید بن المسیب،سیدنا عطا،سیدنا ابو جعفر الباقر اور سیدنا امام مالک رحمہا اللہ شامل ہیں۔اسی طرح علامہ ابن عبدالبر،امام بیہقی اور امام قرطبی رحمہا اللہ اسی مسلک کے قائل ہیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ،علامہ ابن القیم اور علامہ ابن حجر رحمہا اللہ کا ظاہر قول بھی یہی ہے۔
دیکھیے موجودہ دور کے علمائے کرام بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کئی اکابر صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین نے شرعی تعویذات کو جائز قرار دیا ہے، جیسا کہ آپ کے نقل کردہ اوپر کے مراسلے میں درج ہے۔
"بنظر غائر دیکھا جائےتو قائلین جواز کا قول ہی راجح معلوم ہوتا ہےکیونکہ مانعین نےجن تین وجوہ کی بنا پر ممانعت کا موقف اپنایا ہے،ان میں سے آخری دو وجہیں(شرکیہ تعویذات کی راہ کھلنے کا خطرہ اور اہانت قرآن کا اندیشہ)اضافی نوعیت کی ہے۔گویا اگر قرآنی تعویذات شرکیہ تعویذوں یا قرآن کی بے آدبی کا ذریعہ نہ بنیں تو اصلاً یہ جائز ہیں۔رہی یہ بات کہ حدیث شریف میں تعویذات کی عمومی ممانعت آئی ہےاور قرآنی تعویذ بھی اس عموم میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہیں تو اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہےکہ ام المومنین حضرت عائشہ اور سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے طرز عمل سے ان کی تخصیص ہوجاتی ہے۔نیز مسئلہ کی نوعیت سے معلوم ہوتا ہےکہ اسمیں اجتہاد کو دخل نہیں،فلہذا ان صحابہ کے آثار حکما مرفوع شمار ہوں گے۔مسئلہ زیر بحث پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو:مغنی المرید الجامع لشروح کتاب التوحید،تالیف عبدالمنعم ابراہیم،ج۲/ص۹۱۵تا۹۲۴

یہاں نوٹ فرما لیجئے کہ اہانت کے پیشِ نظر مانعین نے یہ موقف اپنایا ہے۔ نیز ایسی احادیث کو جواز بنایا جاتا ہے جن میں عمومی ممانعت آئی ہے۔ ایسی احادیث میں اگلے مراسلے میں نقل کر دوں گا۔
اور موجودہ دور کے جو علمائے کرام تعویذات کو جائز نہیں سمجھتے، ان کا نقطہِ نظر وہ ہے جو آپ نے اوپر خود نقل کیا ہے۔

اب جب ایک بات واضح ہوگئی کہ (آپ کے نقطہ نظر کے مطابق) صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین کا تعویذات کا مسئلے میں اختلاف ہے تو پھر آپ کا اس بات کا پر اصرا کیوں ہے کہ ایک جماعت کی رائے کو درست قرار دیا جائے اور دوسری جماعت کی رائے کو غلط قرار دیا جائے۔
کیا آپ خود صحابہ کی ایک جماعت کی رائے کو دوسری جماعت کی رائے پر فوقیت نہیں دے رہے؟
اور اگر ہم صحابہ کی ایک جماعت کی رائے کو دوسری جماعت کی رائے پر فوقیت دیں تو ہم غلط کیسے ہوگئے؟ (جبکہ موجودہ دور کے متعدد مستند علمائے اہلِ حدیث اس معاملے میں ہمارے ہم خیال ہیں)۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحابہ کرام کے مابین تعویذات کے معاملے میں ہی نہیں، بہت سے معاملات میں فروعی اختلافات موجود تھے، لیکن کیا انھوں نے ان اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کو ملامت کا نشانہ بنایا؟
کیا آپ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فروعی اختلافات کو امت کے لیے رحمت قرار دیا ہے؟
 

فرقان احمد

محفلین
تو پھر اسے اکابر و اسلاف کی تعلیمات اور اپنی دل لگی کہئے، اسلام کی تعلیم نہیں۔ امید ہے اب نشانہ خطا نہ ہو گا :)
اکابر و اسلاف کے ارشادات و فرمودات کو اسلام کی تعلیمات کے سمجھنے کے لیے پڑھنا کیا حرج کی بات ہے؟
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
اگلا جواب ایک اور حدیثِ نبوی سے۔ یہ حدیث شیخ ابو بکر احمد بن محمد الدنیوری المعروف بہ ابن السنی رحمہ اللّٰہ کی کتاب "عمل الیوم و اللیلۃ" میں درج ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ "رسول اللہﷺ کے دن اور رات‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب محدث لائبریری (کتاب و سنت ڈاٹ کام) میں موجود ہے۔ وہی محدث لائبریری اور وہی محدث فورم جہاں سے منتخب فرقہ وارانہ مواد اردو محفل میں کاپی پیسٹ کیا جاتا ہے۔
Screenshot-20200405-140614.png

Screenshot-20200405-142053.png


امید ہے کہ اتنے جوابات کافی و شافی ہوں گے۔

جناب آپ نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے یہاں بھی قرآن کی آیت کو ٹانگ پر باندھنے کے متعلق کوئی حکم نظر نہیں آرہا ہے۔ آپ اب تک بات کو پوری طرح سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ بات ہو رہی ہے قرآن پاک کی بے ادبی کی۔ تعویذ اور دم پر شرعی حکم کی تو بات ہی نہیں کی گئی ہے۔ اشرف علی تھانوی صاحب کے جسم کے ایسے حصوں پر قرآنی آیات کو باندھنے پر بات کی جا رہی ہے جن کی وجہ سے بے ادبی ہوتی صاف نظر آرہی ہے۔
یہاں ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ قرآنی آیات والا پانی بطور علاج حاملہ کو پلانے اور اس کے پیٹ اور شرمگاہ پر چھڑکنے پر قرآن کی بے ادبی نہیں ہوتی۔ اب آگے بڑھتے ہیں اور ران پر ملفوف تعویذ باندھنے کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

کیا عورت کی ران پر تعویذ باندھنا موجب کفر ہے ؟

سوال ]۱۰۰[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ جنوبی افریقہ میں سعودی سلفی گروہ نے حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ یہ سعودی سلفی گروہ کہتا ہے کہ مولانا تھانویؒ کی کتاب’’اعمال قرآنی‘‘ میں جو یہ لکھا ہے کہ ولادت کی سختی اور تکلیف دور کرنے کے لئے اور ولادت کو آسان بنانے کے لئے عورت اپنی بائیں ران پر ’’سورہ انشقاق‘‘ کی دو آیتوں کا تعویذ باندھ لے، یہ قرآن کریم کے ساتھ سخت گستاخی ہے اور اس کی تعلیم کرنے والا کافر ہے۔ مؤدبانہ عرض ہے کہ حضرات مفتیان کرام اس بہتان وتکفیر کا مفصل ومدلل جواب ارسال فرما کر اہل السنت والجماعت کے متبعین اور علماء دیوبند کے معتقدین کو شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ فقط والسلام
المستفتی: ہارون ابراہیم عفی عنہ ۲؍ ۲؍ ۲۰۱۱ء

*باسمہ سبحانہ تعالیٰ*
*الجواب وباللّٰہ التوفیق* :
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے ’’فتاوی ابن تیمیہ‘‘ میں ایک فصل قائم کرکے پوری فصل میں صاف اور واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ اگر عورت کو ولادت میں دشواری اور مشقت پیش آجائے تو قرآن کریم کی متعدد آیتوں کے حوالہ سے لکھا ہے کہ آیتوں کو ایک پلیٹ یا طشت میں لکھ کر اسے پانی سے دھل کر عورت کو پلا دے اور اس کے ناف کے نیچے کے پورے حصہ پر بہا دے، اس سے ولادت میں سہولت ہوجائے گی۔ اور انہوں نے امام احمد بن حنبلؒ کے بیٹے عبداللہ بن احمدؒ کا حوالہ بھی دیا ہے، اب غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک جس کے اندر پیٹ اور ران دونوں شامل ہیں، ہر انسان کے لئے ستر عورت ہے، جس میں عورت ومرد سب شامل ہیں۔ اور ہر عورت کا ستر تو پورا بدن ہے۔ اور ساتھ میں ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ مرد کے لئے ستر ہے، اب سوال یہ ہے کہ ناف کے نیچے جب آیت کریمہ کے پانی کو بہایا جاسکتا ہے تو ران پر بہانے میں کیا نقصان ہے؟ تو ہم سمجھتے ہیں کہ ناف کے نیچے کا حصہ ران کے مقابلہ میں زیادہ معیوب ہے، جب بطور علاج ناف کے نیچے بہایا جاسکتا ہے، تو ران میں بھی بہانا جائز ہوگا، جب آیت کریمہ کا پانی براہ راست بہانا جائز ہے، تو آیت کریمہ کا تعویذ بنا کر اس پر غلاف چڑھا کر تکلیف دور ہونے اور بچہ کے باہر آنے تک کے لئے باندھ دیا جائے تو کفر کی بات کہاں سے لازم آتی ہے؛ بلکہ یہاں آیت کریمہ کو بطور علاج کے استعمال کرنے میں اس کا احترام ہے نہ کہ اہانت، نیز مسجد حرام میں سینکڑوں سلفی حضرات کو دیکھنے میں آیا ہے کہ کعبۃ اللہ کی طرف پیر پھیلا کر اور اپنے ٹانگوں پر رکھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں، یہاں تو ایک دو آیت کا مسئلہ ہے اور وہاں پورے قرآن کا مسئلہ ہے، تو کیا سلفی حضرات ان سب سلفی حضرات پر کفر کا فتویٰ صادر کریں گے جو رانوں پر اور ٹانگوں پر قرآن رکھ کر قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ اور جس طرح رانوں اور ٹانگوں پر رکھ کر کپڑا اور غلاف کا آڑ ہے، اسی طرح تعویذ میں بھی موم جما کر آڑ پیدا کیا جاتا ہے، نیز ایک سوال یہ ہوسکتا ہے کہ ولادت کے وقت طہارت اور وضو باقی نہیں رہتا تو حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے تعویذ لکھ کر اسی حالت میں عورت کے بازو پر باندھنے کی ترغیب دی ہے، نیز جس وقت عورت کے پیٹ پر پانی بہایا جارہا ہوگا، اس وقت لازمی طور پر عورت کا وضو نہیں رہتا ہوگا؛ لہٰذا ہم ٹانگوں پر رکھ کر قرآن کریم کی تلاوت کرنے کو اور کعبۃ اللہ کی طرف پیر پھیلانے کو بے ادبی اور گستاخی سمجھتے ہیں اور علاج کے لئے آیت کریمہ کے پانی کو پیٹ اور ران پر بہانے اور تعویذ کی شکل میں باندھنے کو بے ادبی نہیں سمجھتے ہیں، اگر آپ مولانا اشرف علی تھانویؒ پر کفر کا فتویٰ صادر کرتے ہیں تو ناف کے نیچے پانی بہانے میں شیخ ابن تیمیہؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور عبداللہ بن احمدؒ کے بارے میں کیا فتویٰ دیں گے؟ اس لئے ہم ان سب مشائخ کو برحق سمجھتے ہیں۔ حضرت شیخ ابن تیمیہؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ان سب کو برحق اور متبع سنت سمجھتے ہیں۔ اور ان میں سے کسی کو کافر کہنا ان کی جلالت شان کے بارے میں ناواقفیت کی دلیل ہے۔ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے زمانہ سے چھ سو سال پہلے کے فقہاء کی عبارات سے یہ مسئلہ لکھا تھا، چنانچہ ’’فتاوی تاتارخانیۃ‘‘ میں ’’فتاوی الحجہ‘‘ کے حوالہ سے واضح انداز میں یہ عبارت موجود ہے۔
-------------------------------------
وفي فتاوی الحجۃ: وقیل: إن المرأۃ إذا تعسر علیہا الولادۃ یکتب علی قرطاس: بسم اللہ الرحمن الرحیم، وألقت ما فیہا وتخلت واذنت لربہا وحقت، أہیا اشرأہیا، وتعلق من فخذہا الیسریٰ تلقی الولد من ساعتہ إن شاء اللہ تعالیٰ عز وجل۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الطہارۃ، الفصل التاسع في الحیض والنفاس، مکتبہ زکریا ۱/ ۵۴۱، برقم: ۱۴۷۰)
فتاوی ابن تیمیہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیے:
ویجوز أن یکتب للمصاب وغیرہ من المرضی شیئا من کتاب اللہ، وذکرہ المداد المباح، ویغسل ویسفی کما

نص علی ذلک أحمد وغیرہ، قال أحمد وغیرہ: قال عبداللہ بن أحمد: قرأت علی أبي ثنا یعلی بن عبید، ثنا سفیان عن محمد بن أبي لیلی بسم اللہ … لا إلہ إلا اللہ الحلیم الکریم، سبحان اللہ رب العرش العظیم، الحمد ﷲ رب العالمین (کأنہم یوم یرونہا لم یلبثوا إلا عشیّۃً أو ضحاہا) کأنہم یوم یرونہا ما یوعدون لم یلبثو إلا ساعۃ من نہار، بلاغ فہل یہلک إلا القوم الفاسقون) قال أبي: … ثنا أسود بن عامر بإسنادہ بمعناہ، وقال: یکتب في إناء نظیف فتسقي، قال أبي: وزاد فیہ وکیع فتسقي وتتضح مادون سرتہا، قال عبداللہ: رأیت أبي یکتب للمرأۃ في جام أو شيء نظیف، وقال أبو عمرو محمد بن شیوبہ: ثنا یعلی بن الحسن بن شقیق، ثنا عبداللہ بن المبارک عن سفیان، عن ابن أبي لیلی عن الحکم عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال: إذا عسر علی المرأۃ ولادہا فلیکتب: بسم اللہ لا إلہ إلا اللہ العلی العظیم، لا إلہ إلا اللہ الحلیم الکریم، سبحان اللہ رب العرش العظیم، والحمدﷲ رب العالمین (کأنہم یوم یرونہا لم یلبثوا إلا عشیّۃً أوضحاہا) کأنہم یوم یرونہا ما یوعدون لم یلبثو إلا ساعۃ من نہار، بلاغ فہل یہلک إلا القوم الفاسقون) قال علي: یکتب في کاغذۃ فیعلق علی عضد المرأۃ، قال علي: وقد جربنا ہ فلم نر شیئا أعجب منہ، فإذا وضعت تحلہ سریعا، ثم تجعلہ في خرقۃ أو تحرقہ، آخر کلام شیخ الإسلام ابن تیمیۃ قدس سرہ ونور ضریحہ (فتاوی شیخ الإسلام ابن تیمیہ ۱۹/ ۶۴، تا ۶۵) فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۲۸؍ ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۹/ ۱۰۳۸۵)الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۲۹؍ ۴؍ ۱۴۳۲ھ

فتاویٰ قاسمیہ ج1/ 520)
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
ہم نے آپ کو کب دہریہ کہا؟ ہینکی پھینکی والی بات کہاں سے آ گئی! :) احادیث پر آپ نے اب تک کیا بات کی ہے؟ مفتی تقی عثمانی صاحب کی علمی قابلیت تو سب کے سامنے ہے، اگر ہمیں اس پر تکلیف ہوئی کہ آپ نے ایک نکتے کو لے کر انہیں رگید دیا تو پھر ہمیں تکلیف پہنچنے کا امکان تھا اور وہ پہنچ کر رہی۔ فرض کرتے ہیں کہ اگر مفتی صاحب نے کچھ غلط کہہ بھی دیا تھا، اور اپنی بات سے رجوع بھی کر لیا تو کیا یہ بہتر رویہ ہے کہ اس بات کو مسلسل ہائی لائیٹ کیا جائے۔ جو کام انہوں نے اسلامی بینکاری اور دیگر بہترین موضوعات کے لیے کیا ہے، اس پر آپ فوکس کر لیتے تو کیا یہ بہتر نہ تھا؟ آپ کا مسئلہ یہ معلوم ہوتا ہے سر کہ آپ جزو کو کُل پر منطبق کر کے من پسند نتائج برآمد کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری دانست میں، یہ مستحسن رویہ نہیں۔ یوں تو آپ سب سے کٹ کر رہ جائیں گے اور نمایاں بھی شاید ہو جائیں تاہم علمی سرمائے سے اس لیے محروم ہو سکتے ہیں کہ آپ معاشرے کے صاحب علم افراد سے تعصب برتتے رہے۔ اب ہم مفتی تقی عثمانی اور جناب فہد مقصود میں سے کس کو علمی لحاظ سے برتر جانیں! اور آپ کے فرمودات کی روشنی میں کیا ہم مفتی صاحب سے فیض پانا ترک کر دیں اور وہ بھی صرف ایک ایسے نکتے پر جس کا کوئی سر پیر موجود نہ ہے۔ ایک معاملے کو لے کر کب تک رگیدیے گا۔ ویسے یہاں یہ عرض کرتے چلیں کہ ہم صرف مفتی تقی عثمانی صاحب سے ہی فیض نہیں پاتے ہیں، یہ سلسلہ اچھا خاصا دراز ہے۔ اختلافی مسائل کو ایک طرف رکھ کر، ہم بریلویوں، اہل حدیث سمیت دیگر مکاتب ہائے فکر سے فیض پاتے ہیں اور غیر مقلدین کے علمائے کرام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ :) علامہ آئن سٹائن وغیرہ بھی! :) ویسے، آپ بھی اس فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔ کوشش جاری رکھیے۔


لگتا ہے اس فورم کا یہ طریقہ کار ہے کہ کوئی دوست بیچ بحث میں آئے اور اخلاق پر یہ لمبا چوڑا لیکچر دے اور جب اس کے کسی دوست کے بارے میں سوال کیا جائے تو کہہ دے کہ ہم نے نہیں پڑھا!!! واہ بھئی!!!
میں نے کیا آپ کا نام دہریہ کہنے کے لئے لیا؟؟؟؟ آپ نے اگر پوری بحث پڑھی ہوتی تو آپ کو سیاق و سباق کا علم ہوتا۔ میں نے سعد صاحب کو کسی اور کے کہنے کا حوالہ دیا اور پھر آپ کے بارے میں فرمایا کہ کیا آپ کو یہ سب نظر نہیں آیا ہے؟؟؟
یہ انتہائی بڑی خیانت ہے صاحب!!! پیچھے جائیے اور پوری بحث پڑھئے جہاں سے میں نے بقول آپ کے یہ فروعی مسئلہ شروع کیا ہے۔ آپ کے لئے قرآن کو نجاست سے لکھنا فروعی مسئلہ ہوسکتا ہے ہمارے لئے نہیں!!! کیا آپ کو واقعی قرآن کی بے ادبی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے؟؟؟
میرے ساتھ یہ ہرگز نہیں چلے گا کہ آپ یہ بھی کہتے رہیں کہ یہ غلط ہے اور ان صاحب کو مخاطب بھی نہ کریں جو یہ باتیں کرتے رہے ہیں!!!

آپ سے دو تین سوالات پوچھے تھے آپ نے ان کے جوابات نہیں دئیے؟؟؟ کیا میرا بھی پورا مراسلہ نہیں پڑھا؟؟؟
میں اپنے پچھلے مراسلے میں سے وہ دو سوالات پھر آپ کی آسانی کے لئے یہاں نقل کر رہا ہوں۔ ان سوالات کے جوابات آپ سے جب تک حاصل نہیں ہو جائیں گے میں آگے نہیں بڑھوں گا اور آپ سے بار بار پوچھتا رہوں گا۔ میں دوسروں کی طرح نہیں ہوں کہ آپ کہہ دیں کہ پوری بحث نہیں پڑھی اور میں یہ بات جانے دوں گا۔ آپ میرے سوالات کے جوابات دیں گے، اپنے دوست سید عمران صاحب کے مراسلے پڑھیں گے اس کے بعد آپ سے بات ہوگی!

یہ رہے سوالات

ایک سوال آپ سے کرنا چاہوں گا۔ اگر کوئی غیر مسلم ایک کتاب لکھے جس میں خوب خوب اسلام کے شعائر کی تعریفیں ہوں لیکن وہ ایک طریقہ بتائے کہ قرآنی آیات پیشاب سے لکھنے سے فلاں بیماری کا علاج ممکن ہے۔ ایمانداری سے بتائیے کہ پاکستانی قوم اور علماء کا کیا ردِ عمل سامنے آئے گا؟

اب آپ انہی علماء کا توہینِ قرآن پر ایک فتویٰ ملاحظہ کیجئےDarul Ifta, Darul Uloom Deoband India

United Kingdom

سوال # 21584

ایک عورت نے اپنے شوہر سے جھگڑا کرتے وقت بہت زیادہ غصہ کی حالت میں قرآن کریم کے نسخوں کو فرش پر پھینک دیا، وہ عام طور پر پابندی سے نماز پڑھتی ہے اور روزانہ قرآن کی تلاوت بھی کرتی ہے۔ یہ واقعہ نہایت غصہ کی حالت میں ہوا اور اس نے قرآن کریم کے بارے میں کچھ توہین آمیز باتیں بھی کہی۔ براہ کرم، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے کفارہ کے بارے میں بتائیں، نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا اس سے میاں بیوی کے نکاح پر کوئی اثر پڑے گا؟

Published on: May 9, 2010

جواب # 21584

بسم الله الرحمن الرحيم

فتوی(ل): 803=550-5/1431




قرآن کریم کے نسخوں کو فرش پر پھینکنا اور قرآن کریم کے بارے میں توہین آمیز باتیں کہنا نہایت سخت گناہ اور قرآن کی بے حرمتی وتوہین ہے اور قرآن کی توہین کرنے سے ایمان سلامت نہیں رہتا، آدمی کافر ہوجاتا ہے لہٰذا اس عورت کو توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے اور تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کرانا بھی ضروری ہے: وفي تتمة الفتاوی: من استخف بالقرآن أو بالمسجد أو بنحوہ مما یعظم الشرع کفر (شرح فقہ اکبر، فصل في القراء ة والصلاة ص:۲۰۵، اشرفی بکڈپو)


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

اب یہ فرمائیے کہ سخت غصے میں قرآن کریم کو فرش پر پھینک دینے سے تو انسان کافر ہو جائے اور حقیقی کافر ہو جائے کہ تجدید ایمان و تجدید نکاح ضروری قرار پائے۔
اور اسی قرآن کو پیشاب سے ، خون سے لکھنے کا فتویٰ دینے والے کے بارے میں کوئی ایک جملہ نہیں بولنا چاہے ؟ یہ کیسی منصفی ہےجناب؟

چلئے معاملے کی نزاکت کو کچھ ایسے بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی شخص نے میرے ماں باپ کا نام پیشاب سے لکھ ڈالا اور وجہ اس نے یہ بتائی کہ اس کے پاس لکھنے کے لئے کوئی اور چیز مئیسر نہیں تھی اور اس کی نیت بھی بے عزت کرنے کی نہیں تھی۔ آپ خود بتائیے کہ مجھے ایسی صورت میں کیا کرنا ہوگا؟ کیا میں یہ سب اپنے ماں باپ کے لئے برداشت کرسکوں گا؟ یہاں تو قرآنی آیات کا معاملہ ہے!


ایک اور سوال: کیا آپ کے لئے قرآن کی بے ادبی فروعی مسئلہ ہے؟؟؟
 

فہد مقصود

محفلین
ہماری بدگمانی ملاحظہ فرمائیے۔ خواہ مخواہ یوں معلوم ہو رہا ہے کہ یہاں چند احباب درجہ بندی کا کھیل کھیلتے چلے جا رہے ہیں اس لیے سود مند بحث کا یہاں محل نہیں۔ ارے صاحب! کیا ہم پر لازم ہے کہ دیگر محفلین کے کہے سنے کا جواب بھی ہم سے لیا جائے؛ یہ تو کچھ غلط بات معلوم ہوتی ہے۔ :) اس کے باوصف ہم یہ کہتے ہیں کہ بحث مباحثے کے دوران کسی مسلم کے لیے دہریے کا لفظ استعمال نہ کیا جانا چاہیے اور اگر ایسا ہوا ہے تو یہ رویہ ہرگز لائقِ تقلید نہیں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ ایسا کہا گیا ہو! اس پوری لڑی کا مطالعہ ایسا سہل بھی نہیں۔ پھر دیکھنا پڑے گا۔ امید ہے ہم پر یہ الزام عائد نہ کیا گیا ہو گا۔ :)

جناب بدگمانی تو جو بھی ہو رہی ہوگی آپ کو وہ ہو رہی ہوگی لیکن ہمیں تو آپ کے رویے سے یہ سمجھ آرہا ہے کہ آپ دوسروں کے کسی قول پر تبصرہ فرما کر اصل معاملے پر پردہ ڈالنے چاہتے ہیں اور وہ کم از کم میں آپ کو کرنے نہیں دوں گا!!!
مجھے شک ہے کہ آپ کو پورا معاملہ معلوم ہے اور آپ دوسروں پر نکتہ چینی کر کے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں کیونکہ یقیناً سید عمران صاحب آپ کے بہت اچھے دوست ہونگے!
آپ کی بد دیانتی یہاں سے ہی عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ کے مراسلہ نمبر ۴۸۷ کے بعد ایک ممبر نے مراسلہ نمبر 488 میں اس دہریہ دہریہ کہنے کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ کیا اب آپ یہ بھی دعویٰ کریں گے کہ آپ نے اپنے 487 پراسلے کے بعد 488 مراسلہ نہیں پڑھا!!!
اور حضور آپ اس دھاگے میں تقی عثمانی صاحب کے بارے میں پڑھنے کے دعویدار کیسے بن سکتے ہیں کیونکہ اگر آپ نے تقی عثمانی صاحب کے بارے میں یہاں کی گئی بحث پڑھی ہے تو جو بیچ بیچ میں دہریہ اور ہینکی پھینکی والے مراسلے ہیں ان کو پڑھنے کے لئے آپ نے اپنی آنکھیں بند فرما لی تھیں؟؟

صاحب کسی اور کو جا کر بیوقوف بنائیے۔ یہ کام میرے ساتھ نہیں چلے گا!!!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اکابر و اسلاف کے ارشادات و فرمودات کو اسلام کی تعلیمات کے سمجھنے کے لیے پڑھنا کیا حرج کی بات ہے؟
اسلام کی تعلیمات قرآن ، حدیث و سنت نبوی ﷺسے واضح ہیں۔ آپﷺ کی بعثت کے سامنے بڑے سے بڑے صحابی، امام، عالم دین، اکابر و اسلاف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان سب کی اسلام سے متعلق آرا اور نکتہ فکر کو اسلام کی تعلیم نہیں کہا جا سکتا۔ اسلام کی تعلیم وہی اور اتنی ہی ہے جو رسول اللہﷺ اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کو دے کر گئے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
اسلام کی تعلیمات قرآن ، حدیث و سنت نبوی ﷺسے واضح ہیں۔ آپﷺ کی بعثت کے سامنے بڑے سے بڑے صحابی، امام، عالم دین، اکابر و اسلاف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان سب کی اسلام سے متعلق آرا اور نکتہ فکر کو اسلام کی تعلیم نہیں کہا جا سکتا۔ اسلام کی تعلیم وہی اور اتنی ہی ہے جو رسول اللہﷺ اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کو دے کر گئے ہیں۔
گویا آپ کی دانست میں، کسی معاملے کے حوالے سے مختلف آراء اور نکتہ ہائے فکر کو پڑھا جانا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
 

فہد مقصود

محفلین
ہمارا قصور کیا ہے؟ سید عمران بھیا کو برا بھلا کہنا ہے کیا! حکم کیجیے۔ :)

بھائی میں کون ہوتا ہوں آپ کو حکم دینے والا؟؟؟ یہ آپ کا ہی کہنا ہے کہ آپ کو معلوم نہیں ہے کہ کس نے دہریہ دہریہ بولا؟ دوسری بات مجھے آپ کا یہ رویہ سمجھ نہیں آیا کہ آپ کسی کے ایک قول کو پکڑ کر خود پسندی اور نرگسیت وغیرہ کا لیکچر دیں لیکن جو اتنا کچھ یہاں شرکاء محفل کو بولا گیا ہے اس پر کچھ نہ بولیں اور اگر پوچھا جائے تو انجان بن جائیں۔
باقی آپ جانیں اور آپ کا پیمانہ صاحب!!! ہمیں تو سمجھ نہیں آیا! ایسا تو صحافیوں، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے ورکرز کو ہی کرتے دیکھا ہے۔ آپ جیسے معقول انسان کو ایسا رویہ زیب نہیں دے رہا ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
بھائی میں کون ہوتا ہوں آپ کو حکم دینے والا؟؟؟ یہ آپ کا ہی کہنا ہے کہ آپ کو معلوم نہیں ہے کہ کس نے دہریہ دہریہ بولا؟ دوسری بات مجھے آپ کا یہ رویہ سمجھ نہیں آیا کہ آپ کسی کے ایک قول کو پکڑ کر خود پسندی اور نرگسیت وغیرہ کا لیکچر دیں لیکن جو اتنا کچھ یہاں شرکاء محفل کو بولا گیا ہے اس پر کچھ نہ بولیں اور اگر پوچھا جائے تو انجان بن جائیں۔
باقی آپ جانیں اور آپ کا پیمانہ صاحب!!! ہمیں تو سمجھ نہیں آیا! ایسا تو صحافیوں، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے ورکرز کو ہی کرتے دیکھا ہے۔ آپ جیسے معقول انسان کو ایسا رویہ زیب نہیں دے رہا ہے۔
یہ ہمارا وہ مراسلہ ہے جو آپ کی نگاہوں سے شاید اوجھل رہ گیا۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ بحث مباحثے کے دوران کسی مسلم کے لیے دہریے کا لفظ استعمال نہ کیا جانا چاہیے اور اگر ایسا ہوا ہے تو یہ رویہ ہرگز لائقِ تقلید نہیں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ ایسا کہا گیا ہو! اس پوری لڑی کا مطالعہ ایسا سہل بھی نہیں۔ پھر دیکھنا پڑے گا۔ امید ہے ہم پر یہ الزام عائد نہ کیا گیا ہو گا۔ :)
 

محمد سعد

محفلین
محترم! میں نے یہ کب کہا کہ میں فلانے عالم کے پیچھے چل رہا ہوں؟ کیا آپ کسی بھی لڑی میں شامل میرا ایک بھی مراسلہ اس بارے میں دکھا سکتے ہیں؟
اگر ہر غیر عالم کو کسی ایک عالم کے پیچھے چلنا ہوتا تو یہ بات تو پوری دنیا جانتی۔ کیا کبھی آپ نے کبھی کسی مسلمان کو یہ کہتے سنا ہے کہ یہ مفتی تقی عثمانی صاحب کا مقلد ہوں؟اور دوسرے کو یہ کہتا سنا کہ میں مفتی تقی عثمانی کو نہیں مانتا، میں تو مفتی طارق مسعود کا مقلد ہوں؟ اورکسی تیسرے مسلمان کو یہ کہتے سنا کہ میں مولانا طارق جمیل کا پیروکار ہوں اور باقی کسی عالم کو مستند نہیں مانتا؟
اس کے علاوہ کیا آپ نے کسی عالم کے منہ سے سنا کہ صرف میری پیروی کرو، باقی کسی عالم کی پیروی نہ کرو، چاہے وہ میرا ہم مسلک ہی کیوں نہ ہو؟
براہِ مہربانی بات وہ کیجیے جو قابلِ ہضم ہواور اس کی کوئی مثال ہمارے معاشرے میں موجود ہو۔

جو بات آپ نے کی ہے، وہ واقعی قابل ہضم نہیں ہے۔ کیونکہ آپ دانستہ میری بات کی ایک مسخ شدہ تشریح کر رہے ہیں۔
اگر کسی وجہ سے میری بات کی آپ کو سمجھ نہیں آئی تو اس مراسلے
حضرت، ایک بات تو بتائیے گا۔ آپ کبھی کسی دلیل کے اپنے میرٹس پر بات کیوں نہیں کرتے؟ ہمیشہ آپ کی دلیل یہ کیوں ہوتی ہے کہ میں فلانے عالم کے پیچھے چل رہا ہوں اس سے پوچھو یا تم فلانے کے پیچھے چل رہے ہو تو اس کی بات تو سنے بغیر ہی ناقابل قبول ہے کیونکہ جس فلانے عالم کے پیچھے میں چل رہا ہوں اس سے وہ مختلف بات کرتا ہے؟
کا پس منظر وہی اپیل ٹو اتھارٹی والا گلہ ہے جو میں کب سے کر رہا ہوں۔ اگر آپ کو بحث کرتے ہوئے اگلے کی بات بھی سننے کی عادت ہوتی تو یہ صاف سمجھ آ جاتی کہ یہ دلیل کو شخصیات یا "عالم" کے لیبل کے وزن کے نیچے دبانے کا گلہ ہو رہا ہے۔
یہ علماء کے کام سے مدد لے کر اس کی روشنی میں اپنی رائے بنانے کے بجائے انہی کی رائے کو من و عن اپنا لینے کا گلہ ہو رہا ہے۔
میری باتوں کو مسخ کر کے پیش کرنے سے آپ کون سی دین کی خدمت کر لیں گے، یہ بات میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔

اس چل رہی بحث کے علاوہ بھی آپ کو یاد ہو گا کہ حالیہ ایک اور بحث میں آپ سے کچھ لوگوں نے اس بات پر گلہ کیا تھا کہ آپ اختلاف کرتے ہوئے اپنی عقل کو قابل اعتبار جتاتے ہیں جبکہ سوال پوچھنے پر اپنے اوپر ذمہ داری لینے کے بجائے یہ بہانہ بناتے ہیں کہ میں تو علماء کی رائے پر چل رہا ہوں کیونکہ میری اپنی عقل کی کوئی حیثیت نہیں۔

Exhibit F
میں دین کے معاملے میں اپنی یا آپ کی عقل پر بھروسہ نہیں کرتا۔

Exhibit G
اسی کے تسلسل میں دوسرے رکن کے اس مراسلے
یہ اچھا ہے۔ کسی بھی بات پہ سوچ کو زحمت دینے کی بجائے ذمہ داری کسی اور کے کندھوں پر ڈال دی جائے۔ علماء عقل پہ تکیہ نہیں کرتے یا انہیں الہام ہوتا ہے؟ اگر آپ ہر مراسلے میں یہی جواب دیں گے کہ علماء سے رجوع کریں تو پھر اس کا مطلب آپ کا اپنا ذاتی کوئی موقف نہیں ہے اور اگر آپ کا اپنا ذاتی کوئی موقف نہیں تو پھر آپ کو میری کس بات سے اختلاف ہے؟ اختلاف کرتے وقت آپ اپنی طرف اشارہ کرتے ہیں اور جواب کے لیے آپ علماء کی طرف رجوع کرنے کا کہتے ہیں۔ اس کا مطلب آپ بندوق دوسروں کے کندھوں پہ رکھ کر چلاتے ہیں۔
کے جواب میں آپ کا مراسلہ
آپ درست سمجھے۔ دین کے معاملے میں میرا کوئی ذاتی موقف نہیں، اور ہونا بھی نہیں چاہیے، والسلام۔

فی الحال انہی دو پر اکتفاء کروں گا اور گزارش کروں گا کہ تھوڑا دیانت داری سے کام لیا کریں۔ مجھے یہ قطعاً پسند نہیں کہ مجھے پیچھے جا کر پرانے مراسلے نکال نکال کر لوگوں کو دکھانے پڑیں کہ دیکھو یہ واقعی تم نے کیا تھا۔ جو آپ کرتے ہیں، خود ہی ذمہ داری قبول کر کے ذہنی و اخلاقی بلوغت کا مظاہرہ کریں۔
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
آپ کی بد دیانتی یہاں سے ہی عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ کے مراسلہ نمبر ۴۸۷ کے بعد ایک ممبر نے مراسلہ نمبر 488 میں اس دہریہ دہریہ کہنے کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ کیا اب آپ یہ بھی دعویٰ کریں گے کہ آپ نے اپنے 487 پراسلے کے بعد 488 مراسلہ نہیں پڑھا!!!
فرقان احمد
حضرت، بات تو وزنی ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ :rolleyes:
 
Top