الف نظامی

لائبریرین
ملتِ واحدہ کو حصوں بخروں میں تقسیم کرنے کاقبیح عمل منصب اور حکومت کے حریص لوگوں کے ہاتھوں انجام پاتا رہا۔ عہدے کی حرص میں مبتلا حاکمِ وقت بھی ہوسکتا ہے اور کسی جماعت کا عہدیدار بھی۔ ملت کو فرقوں اور جماعتوں میں تقسیم کرنے کا عمل بہت ہو چکا ،اور اس کی پاداش میں ملتِ اسلامیہ نے ذلت اور نکبت کا بار بھی بہت اٹھا لیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملت پھر سے اسی نقطۂ وحدت سے اپنے سفر کا آغاز کرے جہاں سے منتشر ہوئی تھی۔ ہمیں کلمۂ طیبہ کی وحدت کی طرف واپس پلٹنا ہوگا۔
(ڈاکٹر اظہر وحید)
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
رسول اللہ ﷺ کو جس نے پتھر مارا رسول اللہ ﷺ تو اس کی بھی نجات چاہتے ہیں
اگر اہل سنت سمجھتے ہیں شیعہ گمراہ ہیں
تو پھر اگر اس رسول اللہ ﷺ کو مانتے ہو جو رحمت اللعالمین ہے تو شیعہ کی نجات چاہو
اگر شیعہ سمجھتے ہے اہل سنت گمراہ ہیں
تو پھر اگر اس رسول اللہ ﷺ کو مانتے ہو تو اہل سنت کی نجات چاہو
(سید محمد حیدر نقوی)​
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ہر مکتب فکر کا دعوی
اتباعِ رسول ہے
ہر مفکر اپنے اپنے اندازِ فکر میں حضور اقدس و اکمل جناب رسولِ اکرم و اجمل صلے اللہ علیہ وسلم کی صحیح پیروی کا دعویدار ہے اور یہی جذبہ مستحسن ہے
اختلاف رائے فہم و ادراک ہی کی کمی بیشی کی بدولت ہے
اللہ سبحانہ ہمیں صحیح اور کامل فہم و ادراک نصیب کرے۔
یا حی یا قیوم آمین
اور ہر اختلاف رحمت کا باعث بنے نہ کہ زحمت کا
یا حی یا قیوم آمین
(ابو انیس محمد برکت علی لدھیانوی)​
 

الف نظامی

لائبریرین
ہر مکتب فکر کا دعوی
اتباعِ رسول ہے
ہر مفکر اپنے اپنے اندازِ فکر میں حضور اقدس و اکمل جناب رسولِ اکرم و اجمل صلے اللہ علیہ وسلم کی صحیح پیروی کا دعویدار ہے اور یہی جذبہ مستحسن ہے
اختلاف رائے فہم و ادراک ہی کی کمی بیشی کی بدولت ہے
اللہ سبحانہ ہمیں صحیح اور کامل فہم و ادراک نصیب کرے۔
یا حی یا قیوم آمین
اور ہر اختلاف رحمت کا باعث بنے نہ کہ زحمت کا
یا حی یا قیوم آمین
(ابو انیس محمد برکت علی لدھیانوی)​
فرخ منظور
 

الف نظامی

لائبریرین
ہمارے یہاں عرصہ سے ہو یہ رہا ہے کہ دین و سیاست ہو یا علم و ادب ، زندگی کے ہر شعبہ میں خانے بنائے گئے ہیں ، خطوط کھینچ کر ان خانوں کی تحدید کر لی گئی ہے اور اب ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ ان فقہی ، کلامی ، تاریخی ، ادبی ، سیاسی مکاتب میں سے کسی ایک مکتب سے کلیتا اتفاق کرے یا کلیتا اختلاف اور ان خانوں میں سے کسی ایک خانہ میں خطوط سے بہت دور ہٹ کر دامن سمیٹ کر کھڑا ہو۔ اب اگر کوئی غریب اپنے دماغ سے بھی سوچنے کا عادی ہے ، مسائل میں اس کی اپنی بھی رائے ہوتی ہے اور وہ تحقیق کے بغیر کوئی قول تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا اور کسی ایک گروہ سے عمومی اور دوامی وابستگی ضروری نہیں سمجھتا اور ان خانوں کے حدود کا شدت سے پابند نہیں ہے ، کسی مسئلہ میں خط کے اس پار والوں سے بھی متفق ہو سکتا ہے تو وہ ان دونوں خانوں کے مکینوں کی نظر میں اجنبی اور مشتبہ ٹھہرتا ہے کہ ہر مسئلہ میں جماعت سے متفق کیوں نہیں ہے؟ گروہ کا صد فی صد وفادار کیوں نہیں ہے؟ دوسری جماعت اور گروہ کو شر محض کیوں نہیں سمجھتا؟ اس کی رائے کے ساتھ اس کی نیت میں بھی اسے کلام کیوں نہیں ہے؟ بعض مسائل میں اس سے متفق کیوں ہے؟ افکار کے ساتھ کردار پر بھی نکتہ چینی اس کے مسلک میں ناروا کیوں ہے؟ جزئیات میں اختلاف کو اہمیت کیوں نہیں دیتا ( حیات شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی از حکیم سید محمود احمد برکاتی ، صفحہ 16 ، 17 )
اس تنبیہ سے مقصد یہ ہے کہ برادرانِ اسلام اپنے اندر قوتِ برداشت پیدا کریں اندھا دھند کفر اور نفاق کے فتوے صادر نہ کریں اور حضرت مولانا روم قدس سرہ کے اس شعر کو یاد رکھیں
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
 

سیما علی

لائبریرین
الف نظامی صاحب!!!!
سو فی صد درست، واقعی اگر قوم سے ہمدردی ہے تو محبت کی بنیاد ڈالیں۔۔۔دین اسلام وہ عظیم دین ہے جس میں رشتہ ناطہ ، محبت ، دوستی اور باہمی تعلّقات کی بنیاد انتہائی پاکیزگی اور شفّافیت پر قائم ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس دین نے اپنے ماننے والوں کو سب سے بڑھ کر اُن رشتوں سے محبت کرنے اُن کا احترام و خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔۔۔۔اسی طرح معاشرہ خوب صورت ہو سکتا ہے ۔۔صحیح کہا آپ نے اگر اسلام کے لئیے لڑ رہے ہوتے تو محبت تمام اختلاف مٹا دیتی ۔۔۔۔۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اتحاد بین المسلمین
وقت کی اہم پکار ہے۔
اے مسلمان! اے میری جان!

اتحاد وقت کی اہم پکار ہے۔
قومیت و فرقہ وارانہ کشیدگی سے بالاتر ہوکر ملت اسلامیہ کے مابین اتحاد و اخوت کو فروغ دینے کے لیے متحد ہو جا۔
ظلم و جارحیت کو مٹانے کے لیے متحد ہوجا۔
مجبور و مظلوم کی حمایت کے لیے متحد ہوجا۔
اللہ کے دین اسلام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کے لیے متحد ہوجا ، اور ضرور ہو جا۔
یہ اختلافات بھی کوئی اختلافات ہیں ، ان سب کو بالائے طاق رکھ کر اللہ کے برکت والے نام پر اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کے وقار کو بلند تر کرنے کے لیے متحد ہوجا ، اور ضرور ہوجا۔ ہر قیمت پہ ہوجا ، جس طرح بھی ہوسکے ہوجا۔ اگر اس راہ میں تیری جان کی ضرورت بھی پڑے تو گریز نہ کر۔
ابوانیس صوفی محمد برکت علی لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ
 

الف نظامی

لائبریرین
کسی انسانی گروہ کو اس کی شامتِ اعمال کی بنا پر اللہ عزوجل گوناگوں طریقوں سے عذاب میں مبتلا کرتا ہے ۔ عذاب کی بد ترین شکل کی طرف اشارہ سورہ انعام کی آیت نمبر 65 کے ایک حصہ میں یوں کیا گیا ہے
أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ
ترجمہ: یا تمہیں فرقہ فرقہ کر دے اور ایک کو دوسرے(سے لڑا کر آپس کی) لڑائی کا مزہ چکھا دے (مترجم مولانا فتح محمد جالندھریؒ)
اس فرمانِ الہی کی تفسیر میں علامہ پیر محمد کرم شاہ صاحب الازہری ؒ تحریر فرماتے ہیں:
"اس کے علاوہ سخت تر عذاب یہ ہے کہ آپس میں انتشار اور بے اتفاقی کی وبا پھوٹ پڑتی ہے۔ ایک قوم کےفرزند ، ایک ملت کے افراد مختلف ٹولیوں اور فرقوں میں بٹ جاتے ہیں۔ کہیں مذہب وجہِ فساد بن جاتا ہے اور کہیں سیاست باعثِ انتشار۔ اپنوں کی عزت اپنے ہاتھوں خاک میں ملا دینا بڑا کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔ اوروں کو رہنے دیجیے اپنے گھر کا حال دیکھیے جب سے ہم نے صراطِ مستقیم سے انحراف کیا ہے ہم کن پستیوں میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ ایک خدا ، ایک رسول ، ایک کتاب اور ایک کعبہ پر ایمان رکھنے والے کس نفاق اور انتشار کا شکار ہیں، اللہ تعالیٰ ہمارے حالِ زار پر رحم فرمائے"
(تفسیر ضیاء القرآن جلد اول صفحہ 566)
ایک شاعر نے اسی مفہوم کو یوں بیان کیا ہے
ہر دل میں کدورتیں بھری ہیں
محسن ، یہ عذاب کی گھڑی ہے
(بحوالہ کتاب وحدتِ امت از مولانا محمد اسحاق ، ناشر مکتبہ ملیہ گلگشت کالونی فیصل آباد)
 

الف نظامی

لائبریرین
حضرت مولانا میر مقصود علی خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ کا قلب بھی سیاسی بصیرت سے لبریز تھا۔ جس زمانہ میں آپ ہائی اسکول پربھنی میں برسرِکار تھے ایک واعظ صاحب پربھنی پہنچے اور ایک مسجد میں ایسی تقریر کی کہ مسلمان دو حصوں میں بٹ گئے اور جھگڑے کی نوبت آگئی۔ اسی دن شام میں اس عالم کی آمد پر حاکم ضلع نے مختلف حکام اور علماء کو کھانے پر جمع کیا۔ جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہوئے اور مختلف مسائل پر باہم گفتگو ہونے لگی تو مولانا علیہ الرحمۃ نے اس عالم سے سوال کیا کہ پچھلے ستر سال قبل یمن کے چند یہودی گھرانے ملک شام منتقل ہوئے ہیں ، کیا ان گھرانوں سے آپ کا تعلق ہے؟
اس عالم نے تاڑ لیا کہ میرا راز فاش ہوگیا۔ دوسرے دن صبح ہوئی تو وہ عالم صاحب لاپتہ ہوگئے۔
مولانا علیہ الرحمۃ کی سیاسی بصیرت تھی کہ انگریز اپنے دور میں قوم میں انتشار پیدا کرنے کی خاطر جاسوس تیار کرتے اور جس قوم کا جاسوس ہوتا ، ان کے مذہب ، تہذیب ، زبان پر عبور حاصل کرتا اور ان کے مذہبی قائد کی حیثیت سے ایسی باتیں کرتا کہ آپس میں فساد ہو جائے۔
( تذکرہ حضرت محدثِ دکن صفحہ 612 )
 

الف نظامی

لائبریرین
دشمن یہ جانتا ہے کہ مسلمانوں کی طاقت کیسے کمزور ہو سکتی ہے؟
اس لیے اس نے طے کر لیا کہ
مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی جگہ انتشار و تفرقہ پیدا کر دیا جائے۔
-
مسلمان ایک ہوئے تو طاقت بنے اور دشمن انہیں میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کر سکا۔
اے مسلمانو!
ایک بنو اور نیک بنو
اللہ اکبر
 
Top