آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

زاہد لطیف

محفلین
اہل علم کی حیثیت پر سوال اٹھ سکتا ہے تو بے علم و بے عمل لوگوں کی حیثیت پر بھی کہ ان کی علمی و عملی اوقات کیا ہے کہ ان کی باتوں پر بے چوں و چرا عمل کیا جائے؟؟؟
جبکہ ابھی تک ہمارے ان سوالات کا جواب بھی نہیں دیا گیا:
حضور یہ بات میں آپ سے پہلے بھی کر چکا ہوں اور دوبارہ دہرائے دیتا ہوں کہ کوئی بھی یہ نہیں کہ رہا کہ میری باتوں پہ بے چوں چرا عمل کیا جائے۔ اگر ایسا کچھ ہے تو سامنے لائیے تاکہ پتہ چلے ایسا کہنے کا مجاز کون ہے۔ ابھی تک ایسا تاثر تو صرف آپ اور آپ کے مقتدیوں کے مراسلوں سے ملتا ہے۔

آپ کی ایسی باتوں کو بار بار دہرانے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ کی یہ ذہنیت ڈیولپ ہو چکی ہے کہ کسی نہ کسی کی باتوں پہ لازماً بے چوں چرا عمل کرنا ہے جبکہ میرا یہ ماننا ہے انسان کسی بھی دوسرے انسان کا زمین پر غلام نہیں ہے اور غالباً آپ نے اپنی اسی ذہنیت کی بنیاد پہ علم اور بے علم کی تخصیص بھی خود سے کر رکھی ہے۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابھی تک آپ خود کو اسلام سمجھتے آئے ہیں اور اس اسلام سمجھنے کے پیچھے ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کے مقتدیوں اور غلاموں نے کبھی آپ کے خیالات کو چیلنج نہیں کیا۔ اس سے کلاسیکل کنڈیشننگ کی رو سے آپ کے ذہن میں یہ جڑ زور پکڑ چکی ہے آپ جو کہتے ہیں وہی اسلام ہے کیونکہ زندگی میں آپ نے جو کہا مقتدیوں نے یس سر کہا۔ اب ساری دنیا تو آپ کو وہ پروٹوکول نہیں دے سکتی جو محلے کے لوگ یا مقتدی آپ کو دیتے ہیں غالباً اس لیے کسی بھی شخص کا اختلاف آپ کو برداشت نہیں ہوتا کیونکہ آپ میں اپنے حلقہ مقتدیوں میں رہ رہ کر برداشت کی صلاحیت کبھی ڈیولپ ہی نہیں ہوئی۔ برداشت کی صلاحیت صرف اسی وقت بڑھتی ہے جب دوسروں کی اختلافی بات کو بھی وہی اہمیت حاصل ہو جو آپ کی بات کو حاصل ہے۔

رہی بات آپ کے ان سوالوں کا جواب دینے کی تو بات یہ ہے کہ کوئی کیوں آپ کے ان سوالوں کا جواب دے؟ کیا کوئی آپ کا غلام ہے یا پابند ہے آپ کے سوالات کا جواب دینے کا؟ دوسری بات یہ کہ کوئی کیوں آپ کو ان سوالوں کے جواب دے کر اپنا وقت ضائع کرے جب آپ نے بھاگنے کے لیے آخر میں "ناحق اتنی محنت" کا لیبل ہی لگانا ہوتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ مجھے بھی یہاں کئی سوالات کے جوابات ابھی تک نہیں ملے بلکہ یہاں شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو گا جس کو اس کے ہر سوال کا جواب ملا ہو تو کیا اس بنیاد پہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں سارے بے علم ہیں کیونکہ ان سوالات کے جوابات ابھی تک یہاں نہیں دیے گئے؟ چوتھی بات یہ کہ کیا آپ کے نزدیک علم والے وہ ہیں جو آپ کی ہر بات کا جواب دینے کے پابند ہوں یا وہ ہیں جن سے اختلاف کرنے پہ پابندی ہو؟
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
تیسرا جواب:

Screenshot-20200405-133318.png

Screenshot-20200405-133357.png

Screenshot-20200405-133406.png

Screenshot-20200405-133417.png

Screenshot-20200405-133425.png

Screenshot-20200405-133452.png

Screenshot-20200405-133620.png


(باقی اگلے مراسلے میں)

یہ فتویٰ یوسف علی لدھیانوی صاحب کا ہے۔ یہ لنک ہے اس پیج کا
یہاں شامی کے فتوے کا حوالہ دیا گیا ہے کہ تعویذ پر اجماع ہے۔ یہاں پر میں یہ بات واضح کرنا چاہوں گا کہ تعویذ پر امت کا اجماع نہیں ہے

قرآنی اور مسنون اذکار و ادعیہ پر مشتمل تعویذات کے بارے میں اہل علم کے ہاں تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں،ایک جواز،دوسرا ممانعت،تیسرا توقف
۔1:قائلین جواز میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص،ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا،سیدنا سعید بن المسیب،سیدنا عطا،سیدنا ابو جعفر الباقر اور سیدنا امام مالک رحمہا اللہ شامل ہیں۔اسی طرح علامہ ابن عبدالبر،امام بیہقی اور امام قرطبی رحمہا اللہ اسی مسلک کے قائل ہیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ،علامہ ابن القیم اور علامہ ابن حجر رحمہا اللہ کا ظاہر قول بھی یہی ہے۔
2:مانعین میں سیدنا عبداللہ بن مسعود،ابن عباس،سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہم اور سیدنا ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔سعودی عرب کے اکثر علماءمثلاً:سلیمان بن عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب،علامہ عبدالرحمن بن سعدی،شیخ ابن باز اور علامہ البانی رحمہا اللہ بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔
3:تعویذ کے بارے میں توقف کا موقف ماضی کے قریب جلیل القدر عالم دین الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہےان کے بقول قرآنی تعویذ کا ترک اولیٰ ہے،لیکن اسے مطلقاً حرام کہنے میں انھیں تامل ہے۔

ایک رائے اور نقل کرنا چاہوں گا

"بنظر غائر دیکھا جائےتو قائلین جواز کا قول ہی راجح معلوم ہوتا ہےکیونکہ مانعین نےجن تین وجوہ کی بنا پر ممانعت کا موقف اپنایا ہے،ان میں سے آخری دو وجہیں(شرکیہ تعویذات کی راہ کھلنے کا خطرہ اور اہانت قرآن کا اندیشہ)اضافی نوعیت کی ہے۔گویا اگر قرآنی تعویذات شرکیہ تعویذوں یا قرآن کی بے آدبی کا ذریعہ نہ بنیں تو اصلاً یہ جائز ہیں۔رہی یہ بات کہ حدیث شریف میں تعویذات کی عمومی ممانعت آئی ہےاور قرآنی تعویذ بھی اس عموم میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہیں تو اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہےکہ ام المومنین حضرت عائشہ اور سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے طرز عمل سے ان کی تخصیص ہوجاتی ہے۔نیز مسئلہ کی نوعیت سے معلوم ہوتا ہےکہ اسمیں اجتہاد کو دخل نہیں،فلہذا ان صحابہ کے آثار حکما مرفوع شمار ہوں گے۔مسئلہ زیر بحث پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو:مغنی المرید الجامع لشروح کتاب التوحید،تالیف عبدالمنعم ابراہیم،ج۲/ص۹۱۵تا۹۲۴

یہاں نوٹ فرما لیجئے کہ اہانت کے پیشِ نظر مانعین نے یہ موقف اپنایا ہے۔ نیز ایسی احادیث کو جواز بنایا جاتا ہے جن میں عمومی ممانعت آئی ہے۔ ایسی احادیث میں اگلے مراسلے میں نقل کر دوں گا۔

یہاں اب تک بحث ران پر قرآن کی آیت باندھنے اور نجاست سے آیات لکھنے پر ہوتی رہی ہے۔ آپ کے نزدیک اور آپ کے علماء کے نزدیک اگر یہ اہانت نہیں ہے کیونکہ یہ آپ کے اکابرین کا عمل رہا ہے تو مجھے تو کوئی خاص حیرت نہیں ہو رہی ہے کیونکہ جب بھی آپ کے ساتھی پیروکاروں سے بات ہوئی ہے تو یہی کچھ سننے میں ملتا رہا ہے۔

ایک اور چیز کی طرف قارئین کی توجہ دلانا چاہوں گا۔ آپ کے ان فتاویٰ میں قرآنی آیات کے ہندسوں سے متعلق بھی حکم ہے۔ کیا آپ اس پر روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے کہ یہ کیا علم ہے؟؟؟ کن ہندسوں کی بات ہو رہی ہے؟؟؟ یہ ہندسے کیسے حاصل کئے جاتے ہیں؟؟؟ کیا ان کے بارے میں کہیں قرآن اور سنت سے استدلال ملتا ہے؟؟؟

اگلا جواب ایک اور حدیثِ نبوی سے۔ یہ حدیث شیخ ابو بکر احمد بن محمد الدنیوری المعروف بہ ابن السنی رحمہ اللّٰہ کی کتاب "عمل الیوم و اللیلۃ" میں درج ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ "رسول اللہﷺ کے دن اور رات‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب محدث لائبریری (کتاب و سنت ڈاٹ کام) میں موجود ہے۔ وہی محدث لائبریری اور وہی محدث فورم جہاں سے منتخب فرقہ وارانہ مواد اردو محفل میں کاپی پیسٹ کیا جاتا ہے۔
Screenshot-20200405-140614.png

Screenshot-20200405-142053.png


امید ہے کہ اتنے جوابات کافی و شافی ہوں گے۔

جناب آپ نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے یہاں بھی قرآن کی آیت کو ٹانگ پر باندھنے کے متعلق کوئی حکم نظر نہیں آرہا ہے۔ آپ اب تک بات کو پوری طرح سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ بات ہو رہی ہے قرآن پاک کی بے ادبی کی۔ تعویذ اور دم پر شرعی حکم کی تو بات ہی نہیں کی گئی ہے۔ اشرف علی تھانوی صاحب کے جسم کے ایسے حصوں پر قرآنی آیات کو باندھنے پر بات کی جا رہی ہے جن کی وجہ سے بے ادبی ہوتی صاف نظر آرہی ہے۔
 

فہد مقصود

محفلین
سوال:بعض صحابہ سے قرآنی تعویذ کا جواز نقل کیا گیا ہے اور ایک صحابی کے بارے میں ہے کہ وہ نابالغ بچوں کے گلے میں دعا لکھ کر لٹکا دیا کرتے تھے۔ صحابہ ؒکے یہ آثار صحیح ہیں یا ضعیف اورناقابل عمل؟

جواب:گلے میں تعویذ لٹکانے والا اثر حضرت عبداللہ بن عمرو ؓکی طرف منسوب ہے جو کہ صحیح ثابت نہیں ہے ،کیونکہ اس میں محمد بن اسحاق مدلس راوی ہے ،اس نے عنعنہ سے بیان کیا ہے۔ چنانچہ امام شوکانی ؒفرماتے ہیں:

«وقد ورد ما يدل علی عدم جواز تعليق التمائم فلا يقوم بقول عبد الله بن عمرو حجة» ''ایسی احادیث وارد ہیں جو تعویذات کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں لہٰذا عبداللہ بن عمرو کا قول قابل حجت نہیں ہے۔''

اور امام ترمذی ؒکے قول حسن (غریب) میں بھی ضعف ِاسناد کی طرف اشارہ ہے۔

اس مسئلہ میں اگرچہ سلف کا اختلاف ہے ،تاہم ہمارے نزدیک راجح مسلک عدمِ جواز کا ہے،کیونکہ نبیﷺ سے بطورِ نص تعویذ لٹکانا ثابت نہیں۔

اہل علم کی تعریف کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ہر وہ شے جسے کسی متوقع یا بالفعل واقع شر کے دفع کرنے کے لیے استعمال کیا جائے ، اور اس شر کے دفع کرنے میں اسے موٴثر سمجھا جائے وہ تمیمة کے حکم میں داخل ہے ، خواہ وہ دھاگے، کاغذات، لکڑی کی کھپچیاں، معادن (سونے ، چاندی، تانبے، پیتل، اور لوہے وغیرہ) یا گھوڑے کے نعل یا اس طرح کی کوئی بھی چیز ہو۔
تمیمہ (تعویذ)کا حکم:تعویذ کی دو قسمیں ہیں:
۱- وہ تعویذ جو قرآ نی آیات، ادعیہٴ ماثورہ کے علاوہ سے بنائی جائے۔
۲- وہ تعویذ جو قرآ نی آیات، اسماء وصفات الٰہی اورادعیہٴ ماثورہ سے بنائی جائے۔
پہلی قسم: غیرقرآن سے بنائی گئی تعویذ کا حکم
ایسی تعویذ لٹکانا بالاتفاق حرام ہے،اس کی دلیلیں کتاب وسنت میں بکثرت موجود ہیں:
دوسری قسم: قرآن کریم، اسماء وصفات الٰہی اور ادعیہ ماثورہ سے تعویذ لٹکانے کا حکم:
تعویذ کی اس قسم کے سلسلے میں سلف صالحین، صحابہ کرام ، تابعین عظام، وغیرہم کی دو رائیں ہیں:
۱- قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں ثابت دعاوٴں کے ذریعے تعویذ لٹکانا حرام تعویذ کے حکم میں شامل نہیں ہے، بلکہ وہ جائز ہے، یہ رائے سعید بن المسیب ،عطاء، ابو جعفر باقر، امام مالک،امام قرطبی، علامہ ابن عبد البررحمہم ش وغیرہم کی ہے۔
۲- قرآن کریم اور ادعیہٴ ماثورہ سے بھی تعویذ لٹکانا جائز نہیں، یہ رائے حضرت ابن عباس ، ابن مسعود، حذیفہ، عقبہ بن عامر، ابن عکیمث، ابراہیم نخعی، ابن العربی ، امام محمد بن عبد الوہاب نجدی ، شیخ عبد الرحمن السعدی ،حافظ حکمی، شیخ محمد حامد الفقی، اور معاصرین میں سے محدث عصر علامہ البانی اور مفتی عصر علامہ ابن بازرحمہمش وغیرہم کی ہے۔
پہلی رائے کی دلیلیں حسب ذیل ہیں:
۱- فرمان باری:﴿وننزل من القرآن ما ھو شفاء ورحمة للموٴمنین﴾۔ ”اور ہم قرآن کریم میں ایسی چیزیں اتارتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفااور رحمت ہیں“ (الاسراء:82)۔(اس آیت کریمہ میں قرآن کریم کو شفاکہا گیا ہے)
۲- حضرت اماں عائشہ رضی ش عنہانے فرمایا کہ: ”(تمیمہ) تعویذ اسے کہتے ہیں جسے کسی مصیبت کے لاحق ہونے سے پہلے لٹکایا جائے، نہ کہ اس کے بعد“ (البیہقی: 9/351)۔
۳- حضرت عبد اللہ بن عمر و ص کا عمل: آپ سے مروی ہے کہ آپ اپنے نابالغ بچوں کے گلے میں گھبراہٹ کی درج ذیل دعا لکھ کر لٹکایا کرتے تھے: ”بسم اللہ أعوذ بکلماتاللہ التامات …“ (احمد: 2/181۔ والترمذی:3528 وحسنہ)۔
دوسری رائے والوں نے ان دلائل کے جواب اس طرح دیئے ہیں:
۱- مذکورہ آیت کریمہ مجمل ہے، جس کی تفصیل احادیث رسول میں شرعی جھاڑ پھونک ،اورقرآن پڑھ کرمریض پر دم کرنے کی شکل میں موجودہے، جس میں تعویذ بنانے کا کہیں ذکر نہیں، اور نہ ہی صحابہ کرام ثسے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔
۲- حضرت اماں عائشہ رضی شعنہا کا یہ اثر مجمل ہے ، اور اس میں قرآن کو تعویذ بنا کر لٹکانے کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس میں صرف تمیمہ( تعویذ) کی ماہیت کا بیان ہے۔
۳- جہاں تک عبد اللہ بن عمروص کی روایت کا تعلق ہے تو وہ صحیح نہیں، کیونکہ محمد بن اسحاق نے جو کہ مدلس ہیں ، لفظ ”عن“ سے روایت کیا ہے، (صحیح سنن أبو داود للألبانی: 2/737۔ والسلسلة الصحیحة: 1/585)۔
نیز شیخ محمد حامد الفقی اس روایت پر تعلیقاً فرماتے ہیں: ” یہ روایت ضعیف ہے، مزید بر آنکہ اس سے مدعا ثابت بھی نہیں ہوتا ، کیونکہ روایت میں اس بات کا ذکر ہے کہ آپ مذکورہ دعا بڑے بچوں کو یاد کراتے تھے ، اور چھوٹے بچوں کے گلوں میں اسی غرض سے تختیوں پر لکھ کر لٹکا دیتے تھے، لہٰذا اس کا مقصدیاد کرانا تھانہ کہ تعویذ بنانا ، دوسری بات یہ ہے کہ تعویذ کاغذوں پر لکھی جاتی ہے نہ کہ تختیوں پر“(فتح المجید:142)۔
دوسری رائے کی دلیلیں حسب ذیل ہیں:
۱- تعویذ کی حرمت کی دلیلیں عام ہیں، (جیسا کہ سابقہ سطور میں گزرا) اور ایسی کوئی روایت نہیں ہے جس سے قرآنی تعویذوں کے جواز کی تخصیص ہوتی ہو۔
۲- اگر قرآنی تعویذیں لٹکانا جائز ہوتا تو رسول ش ﷺ نے اسے ضرور بیان کیا ہوتا ، جیسا کہ قرآنی آیات وغیرہ سے جھاڑ پھونک کے جواز کی وضاحت فرمائی ہے، بشرطیکہ شرکیات پر مشتمل نہ ہوں، ارشاد نبوی ﷺ ہے:”اعرضوا علي رقاکم، لا بأس بالرقیٰ مالم تکن شرکا“ ،”مجھ پر اپنے رقیے (دم کے الفاظ) پیش کرو، ایسے رقیوں میں کوئی حرج نہیں جو شرکیات پر مشتمل نہ ہوں“ (مسلم)۔
۳- صحابہ کرام ثکے اقوال تعویذوں کی حرمت کے سلسلے میں منقول ہیں، اور جن بعض صحابہ سے جواز کی بات منقول ہے وہ روایتیں صحیح نہیں ہیں، اور صحابہ رسول ش ﷺ کی سنت کو غیروں سے زیادہ جاننے والے تھے، اسی طرح تابعین کے اقوال بھی معروف ہیں، ابراہیم نخعی صحابہ کرام ثکے بارے میں فرماتے ہیں:”کانوا یکرہون التمائم کلہا من القرآن وغیر القرآن“، ”صحابہ قرآنی اور غیرقرآنی دونوں قسم کی تعویذوں کو ناپسند کرتے تھے“ (مصنف ابن ابی شیبہ: 7/374)۔
۴- شریعت اسلامیہ میں ذرائع کا سد باب ضروری ہے، تاکہ شرکیہ تعویذیں قرآنی تعویذوں سے گڈمڈ نہ ہوجائیں۔
۵- قرآنی تعویذوں کا لٹکانا قرآن کی بے ادبی اور اس کی حرمت کی پامالی کا سبب ہے ، مثلاً اسے لٹکاکر لیٹرن ، باتھ روم اور دیگر غیر مناسب جگہوں پر جانا، اسی طرح ہمبستری، حالت احتلام اور حیض ونفاس کی حالت میں اسے لٹکانا وغیرہ قرآن کی بے ادبی ہے اور یہ حرام ہے۔
۶- قرآنی تعویذوں کے جائز قرار دینے سے (جبکہ اس کا جواز وعدم جواز مشکوک ہے) قرآن کے شرعی علاج (دم وغیرہ)کوجو کہ جائز ہے معطل قرار دینا لازم آتا ہے۔
سلف صالحین حضرات صحابہ وتابعین ث، ائمہ و محدثین کرام اور دیگر اہل علم کی رائے کے مطابق یہی بات راجح اور صحیح بھی ہے کہ تعویذ خواہ قرآنی ہو یا غیر قرآنی اس کا لٹکانا حرام ہے جیسا کہ ہر دو فریق کے دلائل کا علمی جائزہ لینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔
تعویذ ماضی اور حال کے آئینے میں:
عہد جاہلیت کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعویذ لٹکانا اور غیرش سے مدد طلبی کفار ومشرکین کا شیوہ وشعار تھا، ارشاد باری ہے:﴿وأنہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوہم رھقاً﴾ ،”اور انسانوں میں سے بعض لوگ جنوں میں سے بعض لوگوں کی پناہ لیتے تھے، تو اس سے ان لوگوں کی سر کشی میں اور اضافہ ہوگیا“(الجن:6)۔
غرض ان میں مختلف ناموں سے معروف کثرت سے تعویذوں کا رواج تھا، جنھیں وہ بچوں پر جن شیاطین، نظر بد وغیرہ سے حفاظت کے لیے، میاں بیوی میں محبت کے لیے ، اسی طرح اونٹوں، گھوڑوں، اور دیگر جانوروں پر نظر بدوغیرہ سے حفاظت کے لیے لٹکایا کرتے تھے، جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہی مقاصد کے لیے آج بھی بہت سارے مسلمان اپنی گاڑیوں کے آگے یا پیچھے جوتے یا چپل، آئینوں پر بعض دھاگے اور گنڈے لٹکاتے ہیں، اسی طرح بعض مسلمان اپنے گھروں اور دوکانوں کے دروازوں پر گھوڑے کے نعل وغیرہ لٹکاتے ہیں، یا مکانوں پر کالے کپڑے لہراتے ہیں،غور کریں کیا جاہلیت میں کیے جانے والے اعمال اورموجودہ مسلمانوں کے اعمال میں کوئی فرق ہے؟
اسی طرح بعض لوگ بالخصوص عورتیں نظر بد وغیرہ سے بچاوٴ کے لیے بچوں کے تکیے کے نیچے چھری ،لوہا، ہرن کی کھال ، خرگوش کی کھال، اور تعویذیں وغیرہ رکھتی ہیں یا دیواروں پر لٹکاتی ہیں، یہ ساری چیزیں زمانہ جاہلیت کی ہیں، جن سے اجتناب کرنا بے حد ضروری ہے، شگ ہمیں توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
 

فہد مقصود

محفلین
کیا تعویذ یا دم کیا ہوا دھاگا باندھنا جائز ہے ؟؟

تعویز یا دم کیا ہوا دھاگا باندھنا جائز ہے؟ دلیل سے وضاحت فرما دیں۔
کیا کسی حدیث یا اثر میں یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی نے تعویذ یا دم کیا ہوا دھاگا پہنا تھا اور ان کے شوہر نے اس دھاگے یا تعویذ کو شرک قرار دے کر کاٹ دیا ہو نیز کیاایسا کرنا جائز ہے؟ دلیل سے وضاحت فرما دیں۔ (ع ۔ ظ حافظ آباد )

الجواب بعون الوھاب

الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد !

زمانۂ جاہلیت میں یہ رسم بد جار ی تھی کہ لوگ جانوروں کو نظر بد سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کے گلے میں پرانی تانت ڈال دیتے تھے۔ آفات وبلیات سے بچنے اور محفوظ رہنے کے لیے مختلف اقسام کے ہار، رسیاں اور تانتیں استعمال کرتے اور خود بھی آفات و مصائب سے بچائو کی خاطر دھاگے اور گھونگے وغیرہ لٹکاتے تھے۔

ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
(( أَنَّہٗ کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بَعْضِ أَسْفَارِہٖ قَالَ عَبْدُاللّٰہِ حَسِبْتُ أَنَّہٗ قَالَ وَالنَّاسُ فِیْ مَبِیْتِہِمْ فَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَسُوْلاً لاَ تَبْقَیَنَّ فِیْ رَقَبَۃِ بَعِیْرٍ قِلاَدَۃٌ مِنْ وَتَرٍ اَوْ قَلاَدَۃٌ إِلاَّ قُطِعَتْ )) [بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب ما قیل فی الجرس ... الخ (۳۰۰۵)، صحیح مسلم (۲۱۱۵)]

''وہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ عبداللہ (بن ابو بکر بن حزم راوی حدیث) نے کہا میرا خیال ہے کہ ابو بشیر صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد بھیجا کہ اگر کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا پٹا (گنڈا) ہو، یا یوں فرمایا کہ جو گنڈا (ہار، پٹا) ہو، اسے کاٹ دیاجائے۔''
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

'' أَرَی ذٰلِکَ مِنَ الْعَیْنِ '' میں سمجھتا ہوں کہ لوگ نظر بد سے بچنے کے لیے جانوروں کے گلے میں تانت کا قلادہ لٹکاتے تھے۔ [الموطأ (ص ۷۱۳)]

امام ابن الجوزی نے بخاری کی شرح ''کشف المشکل (۴/۱۴۳)'' میں، علامہ طیبی نے ''الکاشف عن حقائق السنن (۸/۲۶۷۹)'' شرح مشکوٰۃ میں، ملا علی قاری نے ''مرقاۃ المفاتیح (۷/۴۴۷)'' میں شرح السنۃ کے حوالے سے، ابن الاثیر نے ''اسد الغابۃ'' میں، ابودائود نے ''السنن (۲۵۵۲)'' میں، امام مسلم نے صحیح مسلم (۲۱۱۵) میں اور ''الغریبین فی القرآن والحدیث (۶/۱۹۶۹)'' میں ابوعبیدہ الھروی نے امام مالک کا مذکورہ بالا قول نقل کیا ہے۔

امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

'' تَأَوَّلَ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ اَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَطْعِ الْقَلاَئِدِ عَلٰی أَنَّہٗ مِنْ اَجْلِ الْعَیْنِ وَ ذٰلِکَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَشُدُّوْنَ بِتِلْکَ الْأَوْتَارِ وَ الْقَلاَئِدِ وَ التَّمَائِمِ وَ یُعَلِّقُوْنَ عَلَیْہَا الْعَوْذَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہَا تَعْصِیْمٌ مِنَ الْآفَاتِ فَنَہَاہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ اَعْلَمَہُمْ أَنَّہَا لاَ تَرُدُّ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ شَیْئًا '' [شرح السنۃ (۱۱/۲۷)]

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قلادے کاٹنے کا حکم دیا امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے اس کا مفہوم نظر بد سے بچائو کے لیے لٹکانا لیا ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ لوگ یہ تانتیں، قلادے اور تمیمے باندھتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ یہ آفات و مصائب سے بچائو کے لیے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان سے منع کر دیا اور انھیں بتایا کہ یہ اللہ کے کسی بھی حکم کو ٹال نہیں سکتے۔''

لہٰذا نظر بد سے بچائو کے لیے جو دھاگے، گھونگے، تانت اور تعویذ وغیرہ لٹکائے جاتے ہیں انھیں کاٹ دینا چاہیے، کیونکہ اللہ کی تقدیر اور حکم سے کسی بھی چیز کو لٹانے اور رد کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہے۔ تمیمہ وہی ہوتا ہے جو بلاء و مصیبت کے نزول سے پہلے لٹکایا جائے، تاکہ یہ تمیمے اور گھونگے ان کو ٹال سکیں اور بلاء و مصیبت کے بعد لٹکائے جانے والے تمیمہ شمار نہیں ہوتے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
(( لَیْسَتِ التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہٖ بَعْدَ الْبَلاَئِ اِنَّمَا التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہٖ قَبْلَ الْبَلاَئِ )) [المستدرک للحاکم (۴/۲۱۷) و صححہ علی شرط الشیخین ]

''تمیمہ وہ نہیں جو بلاء کے بعد لٹکایا جائے، تمیمہ تو وہ ہے جو بلاء سے پہلے لٹکایا جائے۔''

رہا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا کی بیوی کا قصہ، اسے قیس بن المسکن الاسدی یوں بیان کرتے ہیں:
(( دَخَلَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَی امْرَأَۃٍ فَرَاٰی عَلَیْہَا حِرْزًا مِنَ الْحُمْرَۃِ فَقَطَعَہٗ قَطْعًا عَنِیْفًا ثُمَّ قَالَ إِنَّ آلَ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ الشِّرْکِ اَغْنِیَائُ وَ قَالَ کَانَ مِمَّا حَفِظْنَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرُّقٰی وَ التَّمَائِمَ وَالتَّوْلِیَۃَ مِنَ الشِّرْکِ ))

[المستدرک علی الصحیحین (۴/۲۱۷،ح : ۷۵۸۰) اس حدیث کو امام حاکم اور امام ذھبی نے صحیح کہا ہے، علامہ البانی نے دونوں کی موافقت کی ہے۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ (۱/۶۴۹) القسم الثانی]
''عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا اپنی بیوی کے پاس آئے اور اس پر خسرہ سے بچائو کا تعویذ دیکھا تو اسے سختی سے کاٹ دیا، پھر فرمایا:
''یقینا عبداللہ کا خاندان شرک سے مستغنی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو باتیں ہم نے یاد کی ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ بے شک شرکیہ دم، گھونگے اور منکے وغیرہ اور محبت کے تعویذ شرک ہیں۔''
اس حدیث میں ''الرقی'' سے مراد شرکیہ دم یا ہروہ چیز ہے جس میں جنات سے پناہ مانگی جائے، یا ان الفاظ کا مفہوم سمجھ میں نہ آئے، یا غیر عربی زبان میں لکھے ہوئے تعویذ، جیسے ''یاکبیکج'' وغیرہ ہیں۔ [السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۶۴۹، ۶۵۰)]

امام بغوی فرماتے ہیں:
'' وَالْمَنْہِیُ مِنَ الرُّقٰی مَا کَانَ فِیْہِ الشِّرْکُ اَوْ کَانَ یُذْکَرُ مَرَدَۃُ الشَّیَاطِیْنَ اَوْ مَا کَانَ مِنْہَا بِغَیْرِ لِسَانِ الْعَرَبِ وَلاَ یَدْرِیْ مَا ہُوَ وَ لَعَلَّہٗ یَدْخُلُہٗ سِحْرٌ اَوْ کُفْرٌ '' [شرح السنۃ (۱۲/۱۵۹)]

''ممنوع دم وہ ہے جس میں شرک ہو، یا جس میں سرکش جنات کا ذکر کیا گیا ہو، یا وہ عربی زبان کے علاوہ ہو اور اس کا مفہوم معلوم نہ ہو۔ شاید کہ اس میں جادو یا کفر داخل کیا گیا ہو اور جو دم قرآنی آیات اور اللہ عز و جل کے ذکر سے کیا جائے وہ جائز و مستحب ہے۔''
تمائم سے مراد وہ گھونگے اور موتی ہیں جنھیں عرب بچے کے سر پر نظر بد سے بچنے کے لیے لٹکاتے تھے، شریعت نے انھیں باطل قرار دیا ہے۔

امام بغوی فرماتے ہیں :
'' اَلتَّمَائِمُ جَمْعُ تَمِیْمَۃٍ وَ ہِیَ خَرَزَاتٌ کَانَتِ الْعَرَبُ تُعَلِّقُہَا عَلٰی اَوْلاَدِہِمْ یَتَّقُوْنَ بِہَا الْعَیْنَ بِزَعْمِہِمْ فَاَبْطَلَہَا الشَّرْعُ '' [شرح السنۃ (۱۲/۱۵۸)]

''تمائم، تمیمہ کی جمع ہے، اور یہ گھونگے ہیں جنھیں عرب اپنے گمان میں اپنی اولاد کو نظربد وغیرہ سے بچانے کے لیے پہناتے تھے، شریعت نے انھیں باطل قرار دیا ہے۔''
علامہ البانی فرماتے ہیں :
''اور اسی قسم سے بعض لوگوں کا گھر کے دروازے پر جوتا لٹکانا، یا مکان کے اگلے حصے پر، یا بعض ڈرائیوروں کا گاڑی کے آگے، یا پیچھے جوتے لٹکانا، یا گاڑی کے اگلے شیشے پر ڈرائیور کے سامنے نیلے رنگ کے منکے لٹکانا بھی ہے، یہ سب ان کے زعم باطل کے مطابق نظر بد سے بچائو کی وجہ سے ہے۔'' [السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۶۵۰)]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام امور کو شرک قرار دیا ہے، اس لیے کہ ان کا مشرکانہ عقیدہ تھا کہ یہ اللہ کی تقدیر کے خلاف مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض لوگ تعویذ لٹکانے کے جواز پر عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں ہے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سمجھدار لڑکوں کو دعا
(( اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَۃِ مِنْ غَضَبِہٖ وَ شَرِّ عِبَادِہٖ وَ مِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنَ وَ أَنْ یَحْضُرُوْنَ ))
سکھاتے تھے اور جو سمجھ نہیں رکھتے تھے ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے۔

[أبوداوٗد، کتاب الطب، باب کیف الرقی (۳۸۹۳)، ترمذی(۳۵۲۸)، ابن أبی شیبۃ (۸/۳۹، ۶۳۔۱۰/۳۶۴)، خلق أفعال العباد (۳۴۷)، الرد علی الجھمیۃ لعثمان بن سعید الدارمی (۳۱۴، ۳۱۵)، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی (۷۶۵)، الأسماء والصفات للبیھقی (ص ۱۸۵، ۱۸۶)، الدعاء للطبرانی (۱۰۸۶)، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی (۷۵۳)، الآداب للبیھقی (۸۹۳،ص۲۷۰)، المسند الجامع (۱۱/۲۲۸) المستدرک للحاکم (۱/۵۴۸،ح : ۲۰۱۰)، العیال لابن أبی الدنیا (۲/۸۶۱، رقم ۶۵۶)، الدعوات الکبیر للبیھقی (۲/۳۱۶، رقم ۵۳۰)، معرفۃ الصحابۃ لأبی نعیم الأصبہانی (۴/۳۶۸) (۶۵۴۹) الغیلانیات (۶۰۱) (۲/۱۶۶)]

اس روایت کو امام ترمذی نے اپنی جامع میں اور ابن حجر نے ''نتائج الأفکار فی تخریج أحادیث الأذکار (۳/۱۱۸)'' میں حسن قرار دیا ہے۔ لیکن اس کی سند میں موجود محمد بن اسحاق گو ثقہ و صدوق ہے لیکن مدلس ہے اور روایت معنعن ہے اور مدلس کا عنعنہ مردود ہے، جب تک تصریح بالسماع یا کوئی صحیح و حسن متابعت نہ ملے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

'' لٰکِنِ ابْنُ اِسْحَاقَ مُدَلِّسٌ، وَ قَدْ عَنْعَنَہ فِیْ جَمِیْعِ الطُّرُقِ عَنْہُ، وَ ہٰذِہِ الزِّیَادَۃُ مُنْکَرَۃٌ عِنْدِیْ، لِتَفَرُّدِہٖ بِہَا، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ '' [السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۵۲۹)]

''لیکن ابن اسحاق مدلس ہے اور اس کے تمام طرق میں اس کا عنعنہ ہے اور میرے نزدیک یہ زیادت منکر ہے، اس لیے کہ ابن اسحاق اس کے بیان کرنے میں متفرد ہے۔''
یہ روایت اصل میں ابن عمرو کی موقوف کے علاوہ حسن ہے یعنی دعائیہ جملہ مرفوعہ حسن درجے تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں۔ علامہ البانی ایک اور مقام پر اس روایت کی سند کو ابن اسحاق کے عنعنہ کی وجہ سے غیر صحیح قرار دے کرلکھتے ہیں:

'' فَلاَ یَجُوْزُ الْاِحْتِجَاجُ بِہٖ عَلٰی جَوَازِ تَعْلِیْقِ التَّمَائِمِ مِنَ الْقُرْآنِ لِعَدْمِ ثُبُوْتِ ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عَمْرٍو لاَسِیَمَا وَہُوَ مَوْقُوْفٌ عَلَیْہِ فَلاَ حُجَّۃَ فِیْہِ '' [تعلیق علی کلم الطیب (ص ۴۵، رقم ۳۴)]

''اس سے قرآنی تعویذات لٹکانے کے جواز پر حجت پکڑنا جائز نہیں، اس لیے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یہ بات ثابت نہیں، خصوصاً جب یہ ان پر موقوف ہے، لہٰذا اس میں کوئی حجت نہیں ہے۔''

ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

'' کَانُوْا یَکْرَہُوْنَ التَّمَائِمَ کُلَّہَا مِنَ الْقُرْآنِ وَ غَیْرِہِ قَالَ وَ سَأَلْتُ اِبْرَاہِیْمَ فَقُلْتُ أُعَلِّقُ فِیْ عَضُدِیْ ہٰذِہِ الْآیَۃَ : {قلنا ينار كوني برداوسلما على ابراهيم} [الأنبیاء : 69] مِنْ حُمّٰی کَانَتْ بِیْ فَکَرِہَ ذٰلِکَ ''
[ فضائل القرآن لأبی عبید القاسم بن سلام الھروی (ص ۳۸۲)، ابن أبی شیبۃ (۵/۳۶) ط دارالتاج، بیروت ]

''صحابہ کرام تمام قرآنی و غیر قرآنی تعویذوں کو مکروہ سمجھتے تھے۔ مغیرہ بن مقسم الضبی کہتے ہیں میں نے ابراہیم نخعی سے سوال کیا کہ میں اپنے بازو میں بخار کی وجہ سے {قلنا ينار كوني برداوسلما على ابراهيم} آیت کا تعویذ باندھتا ہوں تو انھوں نے اسے ناپسند کیا۔''

حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے :
'' أَنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ اَنْ یُغْسَلَ الْقُرْآنُ وَ یُسْقَاہُ الْمَرِیْضَ اَوْ یُتَعَلَّقَ الْقُرْآنُ '' [فضائل القرآن للھروی (ص ۳۸۲)]''
وہ قرآن کو دھونا اور اسے مریض کو پلانا یالٹکانا مکروہ سمجھتے تھے۔''

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن پاک کا تعویذ لٹکانا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور دیگر شرکیہ تعویذات پہننا، دھاگے، گھونگے، منکے، سیپ وغیرہ لٹکانا شرک ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرح انھیں اتار پھینکنا چاہیے اور اپنے اہل و عیال اور دوست احباب کو ان کاموں سے بچانا چاہیے، جو لوگ تعویذوں کے اتوار بازار لگاتے اور انھیں کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں انھیں اس پر تدبر و تفکر کرنا چاہیے اور صرف دم اور اذکار پر اکتفا کرنا چاہیے۔.

قرآنی اور حدیثی تعویذ لٹکانا شرک ہے؟

دم،تعویذ گنڈوں کے بارے میں شرعی احکام'

آپ کا شکوہ تھا کہ محدث فورم پر سے فرقہ وارانہ مواد کاپی کیا جاتا ہے۔ یہ لیجئے علمی بحث بھی ذرا ملاحظہ فرما لیجئے۔ امید ہے کی اب تسلی ہو جائے گی کہ صرف فرقہوارانہ منافرت اور غلط فہمیاں ہی نہیں پھیلائی جاتی ہیں۔
 

فہد مقصود

محفلین
اہل علم کی حیثیت پر سوال اٹھ سکتا ہے تو بے علم و بے عمل لوگوں کی حیثیت پر بھی کہ ان کی علمی و عملی اوقات کیا ہے کہ ان کی باتوں پر بے چوں و چرا عمل کیا جائے؟؟؟
جبکہ ابھی تک ہمارے ان سوالات کا جواب بھی نہیں دیا گیا:

اور اگر آپ کے نزدیک آپ کے اہلِ علم کی قابلیت دوسرے اہلِ علم کے نزدیک مشکوک ہو تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟؟؟ اسماء و رجال کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ جب حدیث کے راویوں کے لئے اتنے سخت اصول اپنائے گئے تھے تو علماء کے لئے کیوں نہیں ہوسکتے ہیں؟؟؟ علماء کی قابلیت اور ان کے علم پر کیوں نہیں انگلی اٹھائی جاسکتی ہے؟؟؟
اگر کوئی عالم قرآن و سنت کے خلاف جائے تو اس کی بھی کوئی اوقات باقی نہیں رہ جاتی ہے اور خاص طور پر ایسوں کی جن کے نزدیک قرآن کی بے ادبی اور اہانت کی کوئی اہمیت نہ ہو!!! ان کی باتوں پر بے چوں و چرا عمل کرنا بھی ضروری نہیں ہے اور یہ بھی فرض نہیں ہے کہ ایسے میں خاموش رہا جائے اور ان پر تنقید نہ کی جائے!!!
کی جائے گے اور ضرور کی جائے گی!!!!!!!!!!!!!!
 

عدنان عمر

محفلین
تو اس سے کیا سمجھ آیا؟ پیروی صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکام کی ہے۔ کسی بڑے سے بڑے عالم کا قول حجت نہیں ہو سکتا ہے اگر اسے قرآن اور سنت سے ثابت نہ کیا جاسکے۔ حق تو صرف رب العالمین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے۔
اس سے ایک اور بات بھی سمجھ آئی۔ اور یہ کہ آپ یعنی فہد مقصود کا قول بھی حجت نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ ہی کا کہنا ہے کہ:
اہلِ حدیث کے علماء اگر اپنی تحقیق میں قرآن اور سنت سے استدلال اور دلائل نہ لا سکیں تو ان سے بھی سوال کیا جاتا ہے۔
اس لیے آئندہ کے مراسلوں میں جب آپ کے پیش کردہ دلائل پر تنقید ہو گی تو تنقید آپ یعنی فہد مقصود پر کی جائے گی نہ کہ علمائے اہلِ حدیث پر کیونکہ میں ایسے کئی علمائے اہلِ حدیث کو جانتا ہوں جن کا موقف وہ نہیں ہے جو آپ نے پیش کیا ہے اور جن کے اصولی اختلاف کو آپ نے بڑی خوب صورتی سے یہ کہہ کر گول کر دیا ہے کہ:
نہ صرف عام مسلمانوں کا سوال کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے بلکہ ساتھی علماء اکرام بھی ایک دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے سے نہیں کتراتے ہیں۔
یعنی محترم علمائے اہلِ حدیث، فہد مقصود کے فہمِ دین سے اتفاق کریں تو ان کی بات مبنی بر قرآن و سنت اور اگر ان کی مدلل رائے فہد مقصود کی رائے کے خلاف ہے تو قرآن و سنت کے بر خلاف اور قابلِ رد۔
یہ تو ہو گئی اصولی بات؛ باقی ان شاءاللہ اگلے مراسلوں میں پیش کروں گا۔
 

محمد سعد

محفلین
عدنان عمر
حضرت، ایک بات تو بتائیے گا۔ آپ کبھی کسی دلیل کے اپنے میرٹس پر بات کیوں نہیں کرتے؟ ہمیشہ آپ کی دلیل یہ کیوں ہوتی ہے کہ میں فلانے عالم کے پیچھے چل رہا ہوں اس سے پوچھو یا تم فلانے کے پیچھے چل رہے ہو تو اس کی بات تو سنے بغیر ہی ناقابل قبول ہے کیونکہ جس فلانے عالم کے پیچھے میں چل رہا ہوں اس سے وہ مختلف بات کرتا ہے؟
اس بات سے کہ آپ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کسی سے کچھ بحث کر رہے ہیں، اتنا تو پتہ چلتا ہی ہے کہ آپ ایک دماغ شریف رکھتے ہیں جو کہ سوچنے سمجھنے کی کچھ نہ کچھ صلاحیت رکھتا ہے۔ اس قیمتی نعمت کے استعمال سے پھر آپ اتنے گریزاں کیوں ہیں؟
یہ تو آپ سراسر عیسائیوں کی پاپائیت کی نقل کر رہے ہیں۔
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی دیوبندی نے اپنی کتاب فقہی مقالات، جلد چہارم میں لکھتے ہیں ""اسی طرح صاحب ہدایہ نے تجنیس میں اسی کو اختیار فرمایا ہے، چناچہ فرمایا کہ اگر کسی کی ناک سے خون بہہ پڑے اور وہ اس خون سے اپنی ناک اور پیشانی پر سورہ فاتحہ لکھے تو شفاء کے حصول کے لئے بطور علاج ایسا کرنا جائز ہے۔"" واضح رہے کہ یہ کتاب ہدایہ ہمارے درس نظامی کا حصہ ہے اور ہر مدرسے میں پڑھائی جاتی ہے.

یہی بات فتاویٰ قاضی خان میں بھی لکھی ہے. اصل کتابوں کے سکین ساتھ لگا رہا ہوں.
فتاویٰ عالمگیری، البحر الرائق اور الرد المختار میں بھی یہی بات موجود ہے۔

صاحب ہدایہ کی یہی عبارت فقہ حنفی کی معتبر اور مشہور کتاب الرد المحتار میں بھی نقل ہوئی ہے۔
وکذا اختارہ صاحب الھدایۃ فی التجنیس فقال: لو رعف فکتب الفاتحۃ بالدم علی جبھتہ واٗنفہ جاز للا ستشفاء و بالبول اٗیضا ان علم فیہ شفاء لاباٗس بہ: لکن لم ینقل و ھذا لان الحرمۃ ساقطۃ عندالا ستشفاء کحل الخمر والمتیۃ للعطشان والجائع اھ من البحر۔ واٗ فاد سیدی عبدالغنی اٗ نہ لا یظھر الا ختلاف فی کلامھم لا تفامھم علی الجواز للضرورۃ، (الرد المحتار جلد ۱، صفحہ ۲۱۰، مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)
ترجمہ: اسی طرح صاحب الھدایہ نے التجنیس میں اسی مسئلے کو اختیار کیا ہے پس کہا کہ اگر کسی کی نکسیر پھوٹے تو وہ سورہ فاتحہ خون سے اپنی پیشانی اور ناک پر لکھے تو شفاء حاصل کرنے کے لئے یہ جائز ہے اور اگر اسے یہ معلوم ہو کہ اس میں میرے لئے شفاء ہے تو پیشاب سے لکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔لیکن یہ بات منقول نہیں اور وجہ اس کے (جائز کہنے کی) یہ ہے کہ شفاء حاصل کرنے کے لئے حرمت ساقط ہو جاتی ہے جیسے پیاسے کے لئے شراب پینا اور بھوکے کیلئے مردار کھانا۔ میرے سید عبدالغنی نے یہ افادہ فرمایا کہ ضرورت کے وقت اسکے جواز پر ان (فقہاء) کے اتفاق ہونے کی وجہ سے ان کی اس بات میں اختلاف ظاہر نہیں ہوا۔

پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کا جواز مستند ترین حنفی علماء سے منقول ہے اور انتہائی معتبر حنفی کتابوں میں درج ہے ملاحظہ فرمائیں:

۱۔ امام فخرالدین حسن بن منصور المتوفی ۲۹۵ھ بحوالہ فتاویٰ قاضی خان
۲۔ ابوبکر الاسکاف بحوالہ فتاویٰ قاضی خان
۳۔ صاحب الھدایہ علی بن ابی بکر المتوفی ۵۹۳ھ بحوالہ البحرالرائق والرد المحتار
۴۔ ابن نجیم الحنفی المتوفی ۹۸۰ ھ بحوالہ البحرالرائق والرد المحتار
۵۔ علامہ ابن عابدین الشامی کے استاد عبدالغنی بحوالہ الرد المحتار
۶۔ علامہ ابن عابدین الشامی المتوفی ۱۲۵۲ھ بحوالہ الرد المحتار
۷۔ الشیخ نظام و جماعت علماء ھندوستان ۱۱۰۰ھ بحوالہ فتاویٰ عالمگیریہ

وکیل احناف، مناظر اسلام جناب امین اوکاڑوی صاحب کے سامنے جب کسی صاحب کا فقہ حنفی کے مسئلے پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے سے متعلق اعتراض سامنے آیا تو جناب انتہائی برہم ہوئے اور یوں جواب دیا: آخر علماء نے پوچھا کہ آپ کے مذہب میں خون پاک ہے، منی پاک ہے تو کیا ان سے قرآن لکھنا جائز ہے یا نہیں۔ کیا کسی حدیث میں آتا ہے کہ پاک چیز سے قرآن لکھنا حرام ہے آپ کے مذہب میں حلال جانوروں کا پیشاب اور دودھ پیتے بچوں کا پیشاب پاک ہے اور پاک چیز سے قرآن لکھنا نہ قرآن میں منع ہے نہ حدیث سے (مجموعہ رسائل ج۱ ص ۴۶۰، تصیح شدہ جدید ایڈیشن مطبوعہ ادارہ خدام احناف لاہور)

17884265_10158512687120228_7448193473724972236_n.jpg


17757381_10158512687300228_6328718209674339493_n.jpg


17904346_10158512687505228_5911186233765799614_n.jpg


تقی عثمانی صاحب کو جب سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا کہ وہ آیاتِ کریمہ کو کسی بھی قسم کی نجاست سے لکھنا حرام سمجھتے ہیں لیکن انھوں نے اپنے اکابرین کے لئے ایک لفظ نہ بولا!!!!
اور ان کے پیروکار آج تک ان کے دفاع میں لگے ہوئے ہیں۔ جس سے بھی آج تک اس مسئلے پر بات ہوئی ہے وہ ڈھٹائی سے ان کا دفاع ہی کرتا آیا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہاں بھی کوئی ان کے اس عمل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے تو میں پہلے ہی ابوالاسجد صاحب کا تحریر کردہ بہت ہی جامع جواب یہاں پیش کرنا چاہوں گا۔

مفتی تقی عثمانی کا رجوع

اگر یہ سب کسی غیر مسلم نے کیا ہوتا یا ان جیسے توحید کے علم برداروں کے نزدیک دہریوں نے کیا ہوتا تو یہ سب کیا کرتے؟؟؟؟ ہڑتالیں کرتے، جلوس نکالتے، توڑ پھوڑ کرتے!!! لیکن ان کے اگر علماء اور اکابرین کریں تو خاموشی چھا جاتی ہے!!!
اگر یہ سب اتنے ہی متقی و پرہیزگار مسلمان ہیں تو ان کو کیا کرنا چاہئے تھا؟؟؟ پھاڑ پھینکنے چاہئے تھے اپنے علماء کی کتابوں سے ایسے صفحات!!! عوام کے سامنے سچ لا کر خبردار کرتے کہ کوئی ایسا غیر اسلامی اور شیطانی عمل اگر پڑھے تو ہرگز اس پر عمل نہ کرے! لیکن ان میں سے کسی نے ایسا کیا؟ یہ ۲۰۰۴ کا واقعہ ہے کیا آپ میں سے کبھی کسی نے ان 'مسلمان حضرات' کی طرف سے اس بارے میں آگہی پیدا کرنے کی کوشش دیکھی؟ نہیں دیکھی ہوگی کیونکہ معاملہ تو ان کے علماء کا ہے تو پردہ تو یہ ان کے کرتوتوں پر ڈالیں گے!!! بلکہ الٹا عام مسلمانوں کو دہریہ قرار دینے میں اپنی طاقت صرف کرنے میں لگے رہتے ہیں!!!
فہد مقصود نے مفتی تقی عثمانی صاحب پر یہ الزام لگایا ہے کہ انہوں نے لکھا ہے کہ "خون یا پیشاب سے سورۂ فاتحہ لکھنا جائز ہے۔"
اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی عالم، فقیہ یا محدث کسی مسئلہ پر بحث کرتا ہے تو اس کے بارے میں موجود تمام دلائل کو جمع کرتا ہے اور پھر مخالف دلائل کا رد کر کے اپنا موقف پیش کرتا ہے۔
اس مسئلہ میں بھی مفتی تقی عثمانی صاحب کی کتاب "فقہی مقالات" کی جلد 4 کا جو اسکین لگایا گیا ہے وہ بھی نامکمل ہے۔ اصل مسئلہ یعنی 'تداوی بالحرام' جس پر بحث ہو رہی ہے، اسکا ایک ہی صفحہ لگایا ہے جس کو پڑھ کر اصل مسئلہ بھی کسی عام قاری کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا چل رہا ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ فقہا کے یہاں ایک مسئلہ 'تداوی بالحرام' کا بھی ہے کہ آیا کہ حرام کے ذریعے علاج کرنا جائز ہے یا نہیں؛ یعنی اگر کسی کو کوئی ایسی بیماری ہو جس کا علاج کسی حلال چیز کے ذریعے ممکن نہ ہو تو کیا اس کا علاج کسی حرام چیز سے کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اب جب حلال چیز کے ذریعے علاج ممکن نہیں تو کیا اس مریض کو مرنے دیا جائے؟ یا اس کی جان بچانے کے لیے کسی حرام چیز سے علاج کر لیا جائے۔
اس مسئلہ میں ہمارے فقہاء کرام نے اختلاف کیا ہے، بالخصوص سیدنا امام اعظم ابو حنیفہؒ نے علاج بالحرام کو ناجائز کہا ہے کیونکہ حرام میں شفاء نہیں ہے اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر موت واقع ہونے اور جان جانے کا خطرہ بھی ہو تب بھی حرام سے علاج کی اجازت نہیں۔ شامی میں امام حادی قدسیؒ سے منقول ہے:
"حتی یخشی علیہ الموت و قد علم انہ لو کتب فاتحہ الکتاب او الا خلاص بذالک الدم علی جبھتۃ ینقطع فلا یرخص فیہ"
یعنی اگر نکسیر والے کو موت کا خطرہ بھی ہو اور اسے کسی ذریعہ سے اس بات کا یقین بھی ہو کہ اگر نکسیر کے خون سے اس کی پیشانی پر سورۃ فاتحہ یا اخلاص لکھی جائے تو نکسیر ختم ہو جائے گی اور جان بچ جائے گی، پھر بھی خون کے ساتھ لکھنے کی اجازت نہیں۔ شامی کی اس عبارت سے دو باتیں پتا چلیں:

1۔ کہ یہ مسئلہ مفتی تقی عثمانی یا دیوبندیوں کا نہیں بلکہ حنفیوں کا ہے اور فہد مقصود کا اس مسئلہ پر اعتراض کرنا فقہ حنفیہ سے لاعلمی کا ثبوت ہے ۔

۔ 2۔ شامی میں صراحتاً جب اس بات کی اجازت نہیں تو فہد مقصود کا اعتراض کرنا خیانت یا کم از کم لاعلمی کی دلیل ہے۔

مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب "فقہی مقالات" کی جلد 4 میں جہاں اس مسئلہ پر بحث کی ہے، اگر اس کے متن کو ہی صحیح سے پڑھ لیا ہوتا تو مسئلہ حل ہو جاتا۔
مفتی تقی عثمانی صاحب نے وہاں لکھا ہے کہ:
"اسی طرح صاحبِ ہدایہ نے 'تجنیس' میں اسی کو اختیار فرمایا ہے، چناچہ فرمایا.."
مفتی تقی عثمانی صاحب، صاحبِ ہدایہ یعنی ہدایہ کتاب لکھنے والے کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے 'تجنیس' میں اس کو اختیار فرمایا ہے اور اسی عبارت میں آگے چل کر لکھتے ہیں، "چناچنہ فرمایا"۔ کوئی بھی منصف مزاج آدمی یہ پڑھ کر جان سکتا ہے کہ یہاں مفتی صاحب اپنی بات نہیں کر رہے بلکہ کسی کی بات کو نقل کر رہے ہیں۔ اور پھر مفتی صاحب خود ہی آخر میں لکھتے ہیں، "لیکن یہ منقول نہیں"۔ یعنی یہ صاحبِ ہدایہ سے بھی منقول نہیں بلکہ ان کی طرف بھی منسوب ہے جس کو آسان اردو میں یوں سمجھ لیں کہ صاحبِ ہدایہ نے یہ کہا نہیں ہے بلکہ ان کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے ایسا کہا ہے۔
پھر مفتی صاحب اپنے فتاویٰ جو "فتاویٰ عثمانی" کے نام سے چھپ چکا ہے اس کے صفحہ 226 پر لکھتے ہیں کہ:

" میں نے ایسا کوی فتویٰ نہیں دیا، پیشاب یا کسی بھی نجاست سے قرآن کریم کی کوئی آیت لکھنا بالکل حرام ہے، اور میں معاذاللہ اسے جائز قرار دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جن لوگوں نے میری طرف یہ منسوب کیا ہے ان کی تردید کر چکا ہوں، جو "روزنامہ اسلام" کی 12اگست 2004 کی اشاعت میں شائع ہو چکی ہے۔ میری جس کتاب کا حوالہ میری طرف منسوب کر کے دیا جا رہا ہے، اس کی حقیقت بھی میں نے اپنی تردید میں واضح کر دی ہے، اس کے باوجود جو لوگ اس فتوے کو میری طرف منسوب کر رہے ہیں ، انھیں اللہ تعالیٰ سے اور کسی پر بہتان لگانے سے ڈرنا چاہیے"۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مفتی تقی عثمانی صاحب نے ایسا کوئی فتویٰ جاری ہی نہیں کیا تو فہد مقصود کیسے کہہ رہے ہیں کہ مفتی صاحب نے اپنے فتویٰ سے رجوع کر لیا۔
 

سید عمران

محفلین
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مفتی تقی عثمانی صاحب نے ایسا کوئی فتویٰ جاری ہی نہیں کیا تو فہد مقصود کیسے کہہ رہے ہیں کہ مفتی صاحب نے اپنے فتویٰ سے رجوع کر لیا۔
یہی دجال کا دجل اور ابلیس کی تبلیس ہے...
ابھی تک ان حضرات نے اپنی اہلیت نہیں بتائی کہ ان کی دینی علوم میں کیا مہارت مقام و مرتبہ ہے؟؟؟
نیز اب تک انہوں نے یہی تاثر قایم کرنے کی کوشش کی ہے تمام علماء بے کار ہیں اور ان کا علم سب ہر حاوی ہے...
مگر جب ان سے کچھ علمی مسئلہ پوچھا جائے تو کوئی جواب نہیں بن پڑتا اور ہینکی پھینکی مارنے لگتے ہیں!!!
 

جاسم محمد

محفلین
نیز اب تک انہوں نے یہی تاثر قایم کرنے کی کوشش کی ہے تمام علماء بے کار ہیں اور ان کا علم سب ہر حاوی ہے...
'تمام' کا لفظ آپ نے خود شامل کیا ہے۔ یہاں صرف انہی علما کرام پر تنقید ہوئی ہے جنہوں نے اسلام کے نام پر عوام کو گمراہ کیا ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
یہی دجال کا دجل اور ابلیس کی تبلیس ہے...
مولا خوش رکھے۔ آپ کی پٹاری میں پڑا الفاظ کا ذخیرہ کافی دلچسپ ہے۔ دہریہ، دجال، ابلیس،۔۔۔ اچھے جا رہے ہو۔

ابھی تک ان حضرات نے اپنی اہلیت نہیں بتائی کہ ان کی دینی علوم میں کیا مہارت مقام و مرتبہ ہے؟؟؟
بتایا تو آپ نے بھی نہیں کہ آپ کے پاس وہ کون سی اسناد ہیں کہ جن کا ہونا بھی آپ کو عورت کی ملازمت پر اختلاف اور خدا کے یکسر انکار کے بیچ کا نہایت بنیادی فرق تک نہیں سمجھا سکا۔ آخر کوئی نہ کوئی اسناد تو ہوں گی جس کی وجہ سے آپ انفرادی دلائل کے اپنے اپنے میرٹس کے بجائے آرگومنٹ فرام اتھارٹی کے اتنے بڑے فین نظر آتے ہیں۔
کیا آپ لوگوں میں واقعی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ آپ کسی کے اتھارٹی ہونے یا نہ ہونے سے قطع نظر ان کے دلائل کے میرٹس پر بات کر سکیں؟

نیز اب تک انہوں نے یہی تاثر قایم کرنے کی کوشش کی ہے تمام علماء بے کار ہیں اور ان کا علم سب ہر حاوی ہے...
یہاں کسی نے تمام علماء کے بے کار ہونے کی بات نہیں کی۔ مرکزی نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی عالم کو محض عالم ہونے کی وجہ سے اتنا تقدس نہیں دیا جا سکتا کہ اس کی بات من و عن بغیر کوئی سوال پوچھے قبول کر لی جائے۔
اس چیز کو Straw-man fallacy کہا جاتا ہے کہ کسی دلیل کو ایمانداری کے ساتھ رد کرنے کے بجائے اس کی شکل بگاڑ کر اس مسخ شدہ شکل کو رد کیا جائے۔ ایسی بد دیانتی سے اگر آپ گریز کرنا سیکھ سکیں تو عین نوازش ہو گی۔
 

سید عمران

محفلین
یہاں کسی نے تمام علماء کے بے کار ہونے کی بات نہیں کی۔ مرکزی نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی عالم کو محض عالم ہونے کی وجہ سے اتنا تقدس نہیں دیا جا سکتا کہ اس کی بات من و عن بغیر کوئی سوال پوچھے قبول کر لی جائے۔
چلیں کسی طور اس ڈھب تو آئے!!!
 

سید عمران

محفلین
فاسئلو۔ سوال پوچھو۔ سوال پوچھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ بھئی، آپ جو یہ بات کر رہے ہو، یہ آخر کس بنیاد پر کر رہے ہو۔
قران کی یہ تفسیر کن اصولوں پہ کی گئی؟؟؟
نیز پوری آیت میں سے صرف ایک لفظ لے کر بے محل اپنا مطلب ڈالا آگے یہ بھی نہیں دیکھا کہ خود اللہ تعالی کیا کہہ رہے ہیں...
دجل اور تلبیس اور کسے کہیں؟؟؟
آپ کا جو کام ہے اسی میں رہسرچ کریں...
ہر ایک کو ہر جگہ منہ نہ دینا چاہیے!!!
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
اس سے ایک اور بات بھی سمجھ آئی۔ اور یہ کہ آپ یعنی فہد مقصود کا قول بھی حجت نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ ہی کا کہنا ہے کہ:

اس لیے آئندہ کے مراسلوں میں جب آپ کے پیش کردہ دلائل پر تنقید ہو گی تو تنقید آپ یعنی فہد مقصود پر کی جائے گی نہ کہ علمائے اہلِ حدیث پر کیونکہ میں ایسے کئی علمائے اہلِ حدیث کو جانتا ہوں جن کا موقف وہ نہیں ہے جو آپ نے پیش کیا ہے

بھائی صاحب میں کیا میری اوقات کیا؟؟؟ آپ تنقید کرنا چاہیں سو بار کیجئے اور اب تک مجھ پر یہاں پر تنقید ہوتی ہی رہی ہے لیکن میں نے کسی سے یہ نہیں کہا ہے کہ "بھائی مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے پلیز مجھے یہ یہ یہ نہ کہو" کیا میں نے کبھی ایسا کہا؟؟؟؟

آپ کو جو اختلاف کرنا ہے میری ذات کو نشانہ بنانا ہے ہزار بار بنائیے۔ اگر مجھے اپنی ذات کی فکر ہوتی تو بہاؤ کے مخالف چلنے کی کبھی شروعات ہی نہیں کرتا!!!

نہ کہ علمائے اہلِ حدیث پر کیونکہ میں ایسے کئی علمائے اہلِ حدیث کو جانتا ہوں جن کا موقف وہ نہیں ہے جو آپ نے پیش کیا ہے اور جن کے اصولی اختلاف کو آپ نے بڑی خوب صورتی سے یہ کہہ کر گول کر دیا ہے کہ:

یعنی محترم علمائے اہلِ حدیث، فہد مقصود کے فہمِ دین سے اتفاق کریں تو ان کی بات مبنی بر قرآن و سنت اور اگر ان کی مدلل رائے فہد مقصود کی رائے کے خلاف ہے تو قرآن و سنت کے بر خلاف اور قابلِ رد۔
یہ تو ہو گئی اصولی بات؛ باقی ان شاءاللہ اگلے مراسلوں میں پیش کروں گا۔

اور جناب آپ نے جس مراسلے کا اقتباس لیا ہے اسی مراسلے میں موجود ڈاکٹر شفیق الرحمن کی کتاب سے اقتباس آپ گول کر گئے ہیں۔ میرے مراسلے میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو گول مول ہو۔ کیا ڈاکٹر شفیق الرحمن کی علماء اہلِ حدیث پر تنقید کا آپ کوئی جواب دینا پسند کریں گے۔
آپ بتائیے ڈاکٹر شفیق الرحمن کی کتاب میں علماء اہلِ حدیث پر تنقید موجود نہیں ہے۔ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہوا تو میری کہی بات کو آپ کیسے غلط ثابت کرسکیں گے؟

حضور یہ میرے بنائے ہوئے اصول نہیں ہیں! لگتا ہے آپ کی اہلِ حدیث کے بارے میں معلومات بہت ہی کم ہیں۔ مذہب میں معیار عالم نہیں ہوتا ہے۔ معیار اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعین کردہ احکامات ہوتے ہیں۔
آپ کی خدمت میں ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا

فتاوٰی ابن تیمیہ 19/64،اور زارالمعاد 4/170.میں ھے کہ کسی برتن پر قرانی آیات زعفران وغیرہ یا پاکیزہ چیز سے لکھ کر انھیں پانی یا تیل سے دھو کر اس پانی کا استعمال روا ھے.

لیکن اب ذرا ان علماء کی رائے پڑھئے جو صرف علاج کے لئے دم کے استعمال پر ہی اکتفا کرتے ہیں
(814) قرآنی آیات پڑھ کر پانی پر دَم یا پلیٹ میں تحریر یا تعویذ بنا کر گلے میں ڈالنا | اردو فتویٰ
"قرآنی آیات اور ثابت شدہ دعاؤں پر مشتمل تعویذ لکھنا اگرچہ جائز ہے لیکن میرے نزدیک راجح اور محقق بات یہ ہے کہ تعویذوں سے مطلقاً پرہیز کیا جائے۔ صرف ثابت شدہ دَم پر اکتفاء کی جائے ، اس بارے میں میرے قلم سے تفصیل ’’الاعتصام‘‘ میں چند ماہ قبل ہو چکی ہے۔
فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی
جلد:3،متفرقات:صفحہ:557

یہ فتویٰ بھی ملاحظہ ہو
آیات قرآنی گھول کر پینا | اردو فتویٰ
ایک اور
(143) تعویذ کی شرعی حیثیت | اردو فتویٰ
"جواز کے قائلین اسے علاج کی ایک صورت قرار دیتے ہیں جس میں کوئی شرک نہیں اور شرک سے پاک دَم کی طرح اس کی کوئی ممانعت نہیں۔ منع کرنے والے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید لکھواتے تھے، بعض اوقات احادیث بھی لکھواتے تھے۔ لوگوں کے علاج اور شفا کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعویذ لکھوا کر دور دراز بھیج سکتے تھے اور اس کی ضرورت بھی تھی۔ مگر ضرورت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔ اس لئے جائز نہیں۔"

یہ بھی ملاحظہ ہو
حفاظت اوربچاؤ کے لیے قرآنی آیات لٹکانے کا حکم - اسلام سوال و جواب

اب جو صحابہ رضی اللہ عنہم تعویذ کے قائل رہے ہیں تو یہاں کیا ان کی رائے مانی گئی ہے یا احادیث کی روشنی میں رائے قائم کی گئی ہے؟؟؟
اب یہاں بتائیے کیا یہاں ابنِ تیمیہ کی رائے کو مقدم جانا گیا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو معیار بنایا گیا ہے؟؟؟ ابنِ تیمیہ کے نزدیک اگر کوئی چیز جائز تھی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گیا کہ اگر کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کو بنیاد بنا کر عمل کرنا چاہے تو وہ نہیں کرسکتا ہے۔

میں نعوذباللہ کیوں اپنی پسند اور ناپسند کی بات کروں گا حضرت؟؟؟؟ اور یہ میں نے کہاں کہا ہے؟ میں نے ادب کی خاطر کہا تھا کہ مجھے مناسب معلوم نہیں ہو رہا ہے تو میں احتیاط کروں گا لیکن چونکہ مجھے حدیث سے استدلال مل گیا تو میں مطمئن ہو گیا۔ پسند ناپسند کی بات آپ کی جانب سے بہتان تراشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے!!!

آپ کن علماء کو جانتے ہیں اور کن کو نہیں لیکن آپ کی اپنی ہی بات آپ کی اہلِ حدیث کے لئے کم علمی کا ثبوت ہے۔ آپ کی خدمت میں ثبوت پیش کر دئیے گئے ہیں کہ علماء کی کوشش قرآن اور سنت سے سب سے پہلے استدلال لانا ہوتا ہے اور اگر ان کو کسی عالم کی رائے اس کے مطابق معلوم نہیں ہوتی ہے تو ضروری نہیں ہے کہ وہ اس کی پیروی ہر حال میں کریں۔

آپ کچھ نہیں کر رہے ہیں الٹا اپنا کیس کمزور کر رہے ہیں۔ ایسے اصول نہ لائیے جن کی کوئی بنیادی حیثیت ہی نہ ہو۔
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
یہی دجال کا دجل اور ابلیس کی تبلیس ہے...
ابھی تک ان حضرات نے اپنی اہلیت نہیں بتائی کہ ان کی دینی علوم میں کیا مہارت مقام و مرتبہ ہے؟؟؟
نیز اب تک انہوں نے یہی تاثر قایم کرنے کی کوشش کی ہے تمام علماء بے کار ہیں اور ان کا علم سب ہر حاوی ہے...
مگر جب ان سے کچھ علمی مسئلہ پوچھا جائے تو کوئی جواب نہیں بن پڑتا اور ہینکی پھینکی مارنے لگتے ہیں!!!

جناب میں ایک عام مسلمان ہوں اور اپنے عقائد درست رکھنے کی خاطر سیکھنے کا عمل جاری رکھتا ہوں تو میں اپنے آپ طالب علم کو دین کا طالب علم کہتا ہوں! اپنے عقائد درست کرنے کی کوشش بہت پہلے شروع کی تھی اور پھر دوسروں کو بھی اس جانب دعوت دینا شروع کردی! اور عقائد کو درست کرنے کے لئے گمراہ کن عقائد کو سب کے سامنے لائے بغیر کچھ اور نہیں کیا جاسکتا ہے۔
کس علمی مسئلے کی بات کر رہے ہیں آپ؟ کس سوال کا جواب اب تک میں نے نہیں دیا ہے؟ کیا ہینکی پھینکی ماری ہے؟؟؟؟ آپ کو معلوم ہے آپ کیا بول رہے ہیں؟؟؟ میں نے احادیث سے استدلال اور علماء کی رائے یہاں پر شریک کی اور یہ سب آپ کو ہینکی پھینکی لگ رہا ہے؟؟؟؟ یہ سب دجال کا دجل اور ابلیس کی تلبیس ہے آپ کے نزدیک؟؟؟؟؟؟

پہلے آپ نے اپنے علماء کے دفاع میں کہا کہ توحید میں اچھائی اور برائی دونوں ہوسکتی ہے!!!!
اس کے بات آپ کا کہنا ہے کہ علمی مباحثے کے جواب میں، میں نے ہینکی پھینکی ماری ہے؟؟؟؟؟ یعنی جو احادیث میں نے استدلال کے لئے شریک کیں وہ سب ہینکی پھینکی، دجال کا دجل اور ابلیس کی تلبیس ہے!!!!!!

انا للہ انا الیہ راجعون!

واہ صاحب واہ!!!!! آپ تو حد عبور کر گئے!!!! اب تک جتنے بھی پیروکاروں سے بات ہوتی رہی ہے کبھی بھی کسی نے اپنے علماء کے دفاع کے سامنے احادیث سے استدلال کو ہینکی پھینکی نہیں کہا!!!! آپ نے وہ سب بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا جس کو کہنے سے پہلے انسان دس بار سوچے گا کہ ایسی بات کہنی بھی چاہئیے یا نہیں!!!!!

حضرات یہ سب نوٹ فرما لیں اور دیکھ لیں یہ وہی صاحب ہیں جو ابھی کچھ دنوں پہلے دہریہ دہریہ کی رٹ لگائے بیٹھے تھے!!! اس سب سے صاف ظاہر ہے کہ ان کو صرف اپنی دینی شخصیات سے الفت ہے اور اس کی خاطر یہ کچھ بھی بول سکتے ہیں اور کر بھی سکتے ہیں!!!!

براہ مہربانی ایسے لوگوں سے دور رہیں!!!!!!!
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
چلیں کسی طور اس ڈھب تو آئے!!!
اگر آپ اس طرح کا جملہ لکھ کر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ پہلے میں کسی اور ڈھب تھا اور اب اس پر آیا ہوں اور اس سے آپ کو یہ لگ رہا ہے کہ کوئی قاری آپ کی یہ بد دیانتی پکڑ نہیں پائے گا تو تسلی رکھیے۔ ہماری گفتگو تحریری ہو رہی ہے۔ کوئی بھی پیچھے جا کے تسلی کر سکتا ہے کہ میں آرگومنٹ فرام اتھارٹی پر کیا تنقید کرتا رہا ہوں۔ اس بات کے مزید ثبوت فراہم کرنے کا شکریہ کہ آپ کو دیانت داری کے ساتھ بحث کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
 
Top