اقبال عظیم غزل: خود فریبی کو، ستم ہے، آرزو کہتے ہیں لوگ

خود فریبی کو، ستم ہے، آرزو کہتے ہیں لوگ
شوقِ گمراہی کو ذوقِ جستجو کہتے ہیں لوگ

زہر کے ہر گھونٹ کو دیتے ہیں خوش ذوقی کا نام
خودسری کو لذتِ جام و سبو کہتے ہیں لوگ

زخمِ دل پر ڈال دیتے ہیں مقدر کی نقاب
چاکِ پیراہن کو اعجازِ رفو کہتے ہیں لوگ

دیده و دانستہ دیتے ہیں نگاہوں کو فریب
پھول کے چاکِ جگر کو رنگ و بو کہتے ہیں لوگ

ہم کو دل جوئی میں بھی ہے پردہ داری کا خیال
اور دل آزاری کی باتیں روبرو کہتے ہیں لوگ

اس دیارِ غیر میں وہ لٹ چکی مدت ہوئی
جس کو خوش فہمی سے اب تک آبرو کہتے ہیں لوگ

اس بیانِ حال سے اقبالؔ اب حاصل بھی کیا
چارہ سازی کے عوض لا تقنطوا کہتے ہیں لوگ

٭٭٭
اقبالؔ عظیم
 
Top